Sunday, October 6, 2024

Lot Aao | Last Episode 2

رحمت دین نے بھی اِسی دِن سے انور کے لئے لڑکی کی تلاش شروع کر دی اور پھر ایک گھرانے میں اس کی شادی کردی۔ انور بھی اپنے والدین کے فیصلے کو قبول کرنے کے لئے مجبور تھا۔
رحمت دین نے ایک اور فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا وہ گھر بیچا جو نثار احمد کے محلے کے قریب تھا، اور اس کے محلے سے کافی دُور گھر لے لیا۔ انور نے آہستہ آہستہ اپنی بیوی کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا اور کچھ ایسا ہی حال روبینہ کا بھی تھا کہ وہ بھی اپنے سسرال میں ماضی بھولنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
٭…٭…٭
اس بات کو گیارہ سال بیت گئے۔
انور کی بیوی کا نام فوزیہ تھا۔ وہ خوبصورت، پڑھی لکھی اور سلیقہ شعار تھی۔ انور کے تین بچّے تھے۔ بڑی بیٹی جس کی عمر نو سال، پھر ایک بیٹا سات، دُوسرا بیٹا چار سال کا تھا۔ انور اب الگ گھر میں رہتا تھا اور اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہا تھا۔
روبینہ کے شوہر کا نام خلیل تھا اور وہ لیکچرار تھا۔ وہ ایک سنجیدہ شخص تھا جسے پڑھانے اور پڑھنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ اس کے اسٹڈی روم میں کتابوں کا انبار تھا۔ وہ آئے دن کوئی نہ کوئی کتاب اُٹھا لاتا تھا۔ اس کی کتابیں گھر میں ہر جگہ موجود ہوتی تھیں، بالخصوص اس کے بیڈ روم میں بھی کتابیں دکھائی دیتی تھیں۔ شادی کے ابتدائی ہفتوں کے بعد وہ کتابوں میں زیادہ گم رہنے لگا تھا۔ ان کے چار بچّے تھے۔ دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ جب سے روبینہ کی شادی خلیل سے ہوئی تھی، اس نے رفتہ رفتہ ماضی کو اپنے دل کی قبر میں دفن کر دیا تھا۔ وہ اپنے شوہر اوربچوں کے ساتھ زندگی کی خوشیوں میں مگن تھی۔
انور جس سرکاری عہدے پر بھرتی ہوا تھا وہ ترقی کرکے اُوپر چلا گیا تھا۔ کام کے دوران وہ سوشل میڈیا پر بھی مصروف رہتا تھا۔ ایک دِن ایسے ہی سرچ کے دوران روبینہ کی فیس بک آئی ڈی سامنے آ گئی۔ انور کی اُنگلیاں اور نظریں ساکت ہوگئیں۔ روبینہ کی تصویر موجود تھی۔ اس کے پروفائل میں اس کے شوہر اور بچوں کی مسکراتی ہوئی تصویریں بھی موجود تھیں۔
انور بہت دیر تک روبینہ کی تصویر کو دیکھتا رہا۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی گیارہ سال قبل تھی۔ ایک بار پھر ماضی کا دَر کھل گیا۔ انور کا دِل دھڑکنے لگا اور اس نے کانپتی ہوئی اُنگلی سے روبینہ کو فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی۔
یہ کام کرنے کے بعد انور نے نیٹ بند کر دیا اور کام میں مصروف ہوگیا لیکن اس کا دھیان اپنی بھیجی ہوئی ریکویسٹ پر مرکوز تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے ایسا کر کے اچھا کیا ہے یا بُرا؟ اسے ایسا کرنا چاہئے تھا کہ نہیں؟ کیا اسے فوراً ریکویسٹ کینسل کر دینی چاہئے؟ اسی سوچ بچار میں وہ آفس سے گھر آ گیا۔
گیارہ سال کے ابتدائی ہفتوں کے بعد وہ پہلا دن تھا جب انور گھر آیا تو اس کے چہرے پر وہ خوشگوار مسکراہٹ نہیں تھی جو گھر میں داخل ہوتے ہوئے اس کے چہرے پر عیاں ہوتی تھی۔
اس کا دِل بار بار چاہ رہا تھا کہ وہ اپنی فیس بک اوپن کرے اور دیکھے کہ روبینہ نے اس کی ریکویسٹ قبول کی یا نہیں؟ لیکن اس کے اندر ہمت نہیں ہو رہی تھی اور اس کا ہاتھ اپنے موبائل فون کی طرف جاتے جاتے رُک جاتا تھا۔
فوزیہ نے محسوس کیا تھا کہ انور آج کچھ چپ چپ ہے۔ اس نے چائے کا کپ انور کو دینے کے بعد پوچھا۔ ’’کیا بات ہے، آج آپ چپ چپ سے ہیں؟‘‘
’’ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘ انور نے جلدی سے کہا۔
’’مجھے نہیں بتانا چاہتے تو یہ الگ بات ہے، لیکن آج آپ چپ اور اُلجھے ہوئے ہیں۔‘‘ فوزیہ یقین سے بولی۔
’’آج آفس میں کام بہت تھا۔ تھک گیا ہوں۔‘‘ انور نے بہانہ کیا۔
اس جواب سے فوزیہ کی تسلی نہیں ہوئی۔ وہ کچھ دیر کے بعد اُٹھ کر کچن میں چلی گئی۔ ایک بار پھر انور کی نظر اپنے موبائل فون کی طرف گئی۔ وہ فیس بک کھولنے سے ڈر رہا تھا۔ وہ چائے پینے لگا۔
٭…٭…٭
روبینہ کو جیسے ہی وقت ملا اس نے اپنی فیس بک کھول لی۔ فرینڈ ریکویسٹ دیکھ کر اس نے پہلے اس فولڈر کو کھولا اور جونہی اس کی نظر انور کی تصویر پر پڑی وہ چونک گئی۔ دل ایک دم دھڑکا اور نا چاہتے ہوئے بھی انور کی پروفائل کھول لی۔
انور کی فیس بک پر اس کی بیوی اور بچوں کی تصویریں بھی موجود تھیں۔ سب کچھ دیکھنے کے بعد روبینہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنا موبائل ایک طرف رکھ دیا۔
کئی سالوں کے بعد ماضی پھر سامنے آگیا تھا۔ روبینہ سوچ رہی تھی کہ انور اور اس کی بیوی بچوں کی تصویریں دیکھ کر احساس نہیں ہوتا کہ وہ اپنی فیملی سے خوش نہیں ہے، وہ پہلے سے زیادہ نکھر گیا تھا، اگر وہ ماضی میں بدنام گھر میں جانے کا عادی تھا تو اس کی وہ عادتِ بد ختم ہوگئی تھی یا اس کے اندر وہ عادت بد تھی ہی نہیں بلکہ کوئی ایسی غلط فہمی تھی جس کی وجہ سے انور دُور ہوگیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ شادی کے بعد اس نے توبہ کر لی ہو؟
دُوسری بات روبینہ کو یہ بھی یاد آئی کہ اس کی شادی کے تین سال کے بعد ہی اس کے ماموں اکبر کی حقیقت کھلنا شروع ہوگئی تھی۔ دُکان میں غبن بھی سامنے آ گیا تھا اور پھر اچانک اکبر ماموں سب کچھ چھوڑ کر کہیں بھاگ گیا تھا۔
اتنے سالوں کے بعد پہلی بار روبینہ کے دماغ میں یہ سوال آیا۔ ’’کہیں ماموں اکبر کی کوئی چال تو نہیں تھی؟‘‘ کیونکہ دونوں گھرانوں میں اس کا آنا جانا تھا۔
اس خیال نے روبینہ کو مزید سوچنے پر مجبور کر دیا۔ سوچتے سوچتے اس نے اپنا موبائل اُٹھایا اور فیس بک کھول کر انور کی تصویر دیکھتی رہی اور پھر اس نے انور کی ریکویسٹ قبول کر کے جلدی سے موبائل فون بند کرکے ایک طرف رکھ دیا۔
٭…٭…٭
انور کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ فوزیہ کچن میں تھی اور بچّے ایک طرف بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ اس نے اپنا موبائل فون اُٹھایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اپنی فیس بک کھولی اور دیکھا کہ روبینہ نے اس کی ریکویسٹ قبول کر لی تھی۔ انور کے لئے یہ ایک خوشگوار حیرت تھی۔ اس نے میسنجر کھولا اور سوچتا رہا کہ وہ کیا لکھے؟ بہت سوچنے کے بعد اس نے لکھا۔ ’’کیسی ہو۔‘‘
ایک منٹ کے بعد روبینہ نے بھی اپنا نیٹ آن کرلیا۔ جونہی اسے انور کی طرف سے میسج ملا تو اُس نے جواب میں لکھا۔ ’’ٹھیک ہوں۔‘‘
’’میں نے فیس بک میں تمہارے بچوں اور شوہر کی تصویر دیکھی ہے۔ تمہارے شوہر کی تصویر دیکھ کرمجھے لگا کہ تمہارا فیصلہ ٹھیک تھا۔‘‘ یہ لکھ کر کچھ دیر تک انور ’سینڈ‘ کے اُوپر اپنی اُنگلی رکھے سوچتا رہا اور پھر اس نے میسج سینڈ کر دیا۔
جونہی ٹون بجی روبینہ نے جلدی سے موبائل فون اُٹھایا۔ انور کا میسج پڑھ کر حیرت سے سوچنے لگی۔ میں نے کون سا فیصلہ کیا تھا؟
’’تم میرے کس فیصلے کی بات کر رہے ہو؟‘‘ روبینہ نے پوچھا۔
’’اس شخص سے شادی کرنے کا فیصلہ جو، اب تمہارا شوہر ہے۔‘‘
’’میں نے یہ کب فیصلہ کیا تھا؟‘‘ روبینہ کی حیرت اپنی جگہ قائم تھی۔
’’تم نے فیصلہ کیا تھا تب ہی تو ہمارے راستے الگ ہوگئے تھے اور خاندانی تعلق بھی ٹوٹ گیا تھا۔‘‘
’’میں نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا، بلکہ تم ایک بدنام زمانہ عورت کے گھر جاتے تھے۔ اس وجہ سے یہ سب ختم ہوا تھا۔‘‘ روبینہ نے تحریر کیا۔
یہ پیغام پڑھ کر انور دَم بخود رہ گیا۔ روبینہ نے یہ کیا بات لکھ دی تھی۔ وہ کس بدنام عورت کے گھر جاتا تھا؟ سوچتے ہوئے اچانک اسے یاد آیا کہ جو گھر اس کے دوست مظہر کے والد نے خریدا تھا وہ ٹینا بائی کا تھا۔ وہ اس گھر میں جاتا تھا جہاں اب اس کا دوست مظہر رہتا تھا۔ اگر روبینہ کے گھر والوں نے مجھے اس گھر سے باہر نکلتے دیکھ لیا تھا تو رشتہ ختم کرنے کے لئے یہ بات تو زیربحث آئی ہی نہیں تھی، روبینہ کے ماموں نے کہا تھا کہ روبینہ نے اپنی پسند کا لڑکا تلاش کر لیا ہے۔
یہ سوچتے ہی انور نے جلدی سے لکھا۔ ’’یہ بات کس نے بتائی تھی کہ میں کسی بدنام عورت کے گھر جاتا تھا؟‘‘
’’میرے ماموں نے دیکھا تھا، بھائی امجد نے بھی دیکھا تھا۔‘‘
’’ہمیں تو تمہارے ماموں نے یہ بتایا تھا کہ تم نے اپنی پسند کا لڑکا تلاش کر لیا ہے۔‘‘ انور نے جلدی سے لکھا۔ ’’انہوں نے یہ بات کی ہی نہیں کہ میرے کسی بدنام گھر میں جانے پر آپ لوگوں کو اعتراض تھا۔‘‘
یہ جملہ پڑھ کر روبینہ سوچنے لگی۔ اُس نے جواب میں لکھا۔ ’’میں نے تو کسی کو پسند نہیں کیا تھا۔‘‘
’’کیا تم مجھ سے مل سکتی ہو؟ میں چاہتا ہوں کہ ہم بیٹھ کر ایک دُوسرے کو بتا سکیں کہ اصل بات کیا تھی۔‘‘
روبینہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد لکھا۔ ’’میں سوچ کر بتائوں گی… پھر بات ہوگی۔‘‘
روبینہ نے نیٹ بند کر دیا۔ انور نے بھی فیس بک بند کی اور ابھی بیڈ سے اُٹھا ہی تھا کہ اس کی نگاہ دروازے پر کھڑی فوزیہ پر پڑی جو اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
’’کیا ہوا…؟‘‘
’’آپ بتائیں کیا ہوا؟ پانچ منٹ سے دروازے میں کھڑی ہوں اور بتا رہی ہوں کہ باہر کوئی آپ سے ملنے کے لئے آیا ہے اور آپ اپنے موبائل فون میں مصروف ہیں کہ اردگرد کا ہوش ہی نہیں ہے۔‘‘
’’وہ میرے ایک دوست سے چیٹ چل رہی تھی۔‘‘ انور نے کہتے ہوئے موبائل فون جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ فوزیہ مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
٭…٭…٭
روبینہ کے دِل و دماغ میں بہت سے سوالات جمع ہوگئے تھے۔ گیارہ سالوں بعد حقیقت سے کچھ گرد ہٹی تھی۔ روبینہ چاہتی تھی کہ وہ ساری گرد ہٹا کر ایک بار دیکھے تو سہی کہ اس کے نیچے کیا حقیقت چھپی ہوئی ہے۔
رات کا کھانا کھانے کے دوران روبینہ نے خلیل سے پوچھا۔ ’’اس اتوار کو کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’میں نے بات کی تو تھی تم سے کہ گائوں چلیں گے اور سارا دن وہاں گزاریں گے۔‘‘ خلیل نے کہا۔
’’آپ بچوں کو لے جانا میں نہیں جائوں گی۔‘‘
’’تم کیوں نہیں جائو گی؟‘‘
’’آپ جانتے ہیں کہ میں بور ہو جاتی ہوں۔‘‘
’’یہ تو تم پہلے بھی کہہ چکی ہو، لیکن تم جانتی ہو کہ وہاں ہماری تھوڑی سی زمین ہے، میرے تایا، چچا اور ان کی اولادیں وہاں ہیں۔ وہ کتنی خدمت کرتے ہیں ہماری۔ مجھے اور بچوں کو تو بہت مزہ آتا ہے۔‘‘ خلیل مسکراتے ہوئے بولا۔
’’میرے نہ آنے کا کوئی بہانہ کر دیجئے گا۔‘‘ روبینہ نے استدعا کی۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ خلیل ٹھنڈے مزاج کا شخص تھا۔ اس نے روبینہ پر کبھی اپنی مرضی مسلط نہیں کی تھی۔ اس لئے وہ فوراً ہی رضامند ہوگیا۔
کھانا کھانے کے بعد خلیل ایک کتاب لے کر بیٹھ گیا۔ بچّے ٹی وی دیکھنے لگے۔ روبینہ نے
کچن میں برتن سمیٹے اور انور کو میسج کیا۔ ’’اس اتوار کو ہم ملاقات کرسکتے ہیں۔‘‘
انور کا نیٹ آن نہیں تھا۔ اس لئے اس نے میسج بھیجنے کے بعد اپنا نیٹ بھی بند کیا اور کچن سے باہر نکل کر خلیل کے پاس بیٹھ گئی۔ جہاں وہ کتاب پڑھنے میں مگن تھا۔ روبینہ چپ بیٹھی رہی۔
٭…٭…٭
بستر پر لیٹتے ہی انور نے اپنا نیٹ آن کیا اور آئینے کے سامنے کھڑی فوزیہ کی طرف دیکھا جو اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی۔ نیٹ آن ہوتے ہی میسج ٹون بجی۔ انور نے جلدی سے میسج پڑھا اور لکھا۔ ’’اتوار کو کتنے بجے اور کہاں…؟‘‘
اس وقت روبینہ کا نیٹ آن نہیں تھا اس لئے اس نے میسج کرنے کے بعد اپنا نیٹ بھی بند کیا اور موبائل ایک طرف رکھ دیا۔
’’آج کل کس سے چیٹ چل رہی ہے؟‘‘ فوزیہ نے مسکرا کر پوچھا، ’’کوئی لڑکی ہے کیا؟‘‘
’’ایسی قسمت کہاں۔‘‘ انور نے ہوشیاری سے بات کو مذاق میں لپیٹ کر دانت نکالے۔
’’قسمت بدلتے کون سی دیر لگتی ہے۔‘‘
’’جس دن میری قسمت بدلے گی تو تمہیں ضرور بتائوں گا۔‘‘ انور نے ہنستے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
رات کے ڈیڑھ بجے اچانک انور کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے آہستہ سے اپنی گردن اُٹھا کر فوزیہ کی طرف دیکھا۔ وہ دُوسری طرف منہ کئے سو رہی تھی۔ انور کو روبینہ کے میسج کا انتظار تھا۔ وہ اپنی بے چینی کو فوزیہ کے سامنے عیاں نہیں کرسکتا تھا اس لئے اس نے موبائل فون کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔
انور نے پہلے موبائل کی آواز بند کی اور پھر نیٹ آن کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد روبینہ کا میسج موصول ہوا۔ ’’اتوار کو صبح گیارہ بجے میں لطیف شاپنگ مال کی دُوسری منزل پر موجود ہوں گی۔ وقت پر پہنچ جانا۔‘‘
انور نے میسج پڑھنے کے بعد نیٹ بند کیا اور موبائل فون سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر لیٹ گیا۔
٭…٭…٭
لطیف شاپنگ مال کی دُوسری منزل پر روبینہ موجود تھی۔ دونوں نے گیارہ سال کے بعد ایک دوسرے کو دیکھا تو بس دیکھتے ہی رہ گئے۔ روبینہ مزید خوبصورت ہوگئی تھی۔ پرانی محبت نے ایک بار پھر انگڑائی لی۔ روبینہ انور کے چہرے سے نگاہیں ہٹا کر بولی۔ ’’مجھے جلدی گھر جانا ہے اس لئے یہاں آئی ہوں تا کہ حقیقت جان سکوں۔ میرا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔‘‘
انور اس کے برابر چلنے لگا۔ اس وقت وہاں رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ دونوں ٹہلتے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔
’’تم کیا کہہ رہے تھے کہ میں نے تمہیں چھوڑ کر خلیل کو پسند کیا تھا؟‘‘ روبینہ نے بات کا آغاز کیا۔
’’تمہارے ماموں ہمارے گھر آئے تھے، انہوں نے بتایا تھا کہ تم نے کسی لڑکے کو پسند کرلیا ہے اور تم اس سے شادی کرنے پر بضد ہو۔ اس لئے ہم مجبور ہیں۔ اب روبینہ کی شادی انور سے نہیں ہوسکتی ہے۔‘‘ انور نے بتایا۔
’’ہمیں تو ماموں نے یہ بتایا تھا کہ تم کسی بدچلن عورت کے گھر جانے لگے ہو۔ یہ دکھانے کے لئے ماموں، امجد کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اور امجد نے خود تمہیں اس گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
’’وہ گھر ٹینا بائی کا تھا۔ اس نے میرے دوست مظہر کے والد صاحب کو بیچ دیا تھا۔ میرا ان دنوں مظہر کے گھر میں آنا جانا تھا۔ چاہو تو تم میرے ساتھ چل کر مظہر سے مل سکتی ہو، کیونکہ وہ اسی گھر میں رہتے ہیں۔‘‘
روبینہ اس کی طرف دم بخود ہو کر دیکھنے لگی۔ ’’ماموں نے آپ لوگوں کو کچھ اور ہمیں کچھ اور بتایا… انہوں نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’تمہارے ماموں نے ایسا کیوں کیا، اس کی وجہ تم اپنے ماموں سے پوچھو۔‘‘
’’وہ ہماری دُکان کو نقصان پہنچا کر بھاگ گئے ہیں۔‘‘
’’پھر تو صاف ظاہر ہے، انہوں نے یہ سب اس لئے کیا تاکہ ہم دونوں خاندانوں میں دُوری ہو جائے کیونکہ میرے ابو کی چچا نثار بہت مانتے تھے، تمہارے ماموں یہ اچھی طرح جانتے تھے اس لئے انہوں نے یہ سب کیا ہوگا۔‘‘
انور کی بات سن کر روبینہ چپ ہوگئی۔ اسے احساس ہونے لگا کہ اس نے جذبات میں آ کر اپنا موبائل فون توڑ دیا تھا اور انور سے رابطہ ختم ہوگیا تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو وہ بات اسی وقت صاف ہوجاتی اور وہ دونوں اس وقت کزن کے رشتے سے ہی نہ بندھے ہوتے۔
’’اب کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ انور نے پوچھا۔
’’گیارہ سالوں کے بعد آج حقیقت سامنے آئی ہے۔‘‘
’’تمہارے ماموں کے جھوٹ کی وجہ سے ہم ایک نہیں ہو سکے۔‘‘ انور تاسف سے بولا۔
’’میں چلتی ہوں۔‘‘ روبینہ کا چہرہ اُداس ہوگیا تھا۔
’’تم نے اس وقت مجھ سے رابطہ توڑ لیا تھا۔ مجھے شک ہوا کہ تمہارے ماموں نے جو بتایا ہے وہ سچ ہے۔‘‘
’’میں نے وہ سب سن کر اپنا موبائل فون ہی توڑ دیا تھا۔‘‘
’’کاش!‘‘ انور نے کہنا چاہا۔
’’اس کاش کے آگے پلیز کچھ مت کہنا … اب ہم شادی شدہ اور بچوں کے والدین ہیں۔‘‘ روبینہ نے فوراً اسے روک دیا۔ ’’میں چلتی ہوں اللہ حافظ۔‘‘
انور اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ دونوں اُداس ہوگئے تھے۔ ان کے دِل بوجھل ہوگئے تھے، وہ مضطرب ہوگئے تھے۔
٭…٭…٭
انور وقت پر گھر پہنچ گیا تھا لیکن فوزیہ کو لگ رہا تھا کہ وہ گھر میں ہوتے ہوئے بھی گھر میں نہیں ہے۔ کہیں کھویا ہوا ہے۔ سوچوں میں مستغرق ہے۔ اس کی نگاہوں کے سامنے روبینہ کا چہرہ تھا۔
کچھ ایسا ہی حال روبینہ کا تھا۔ وہ گھر میں اکیلی تھی، لیکن بہت اُداس تھی۔ اس نے کئی بار اپنا سر جھٹکا لیکن وہ انور کی صورت کو آنکھوں سے دُور نہ کرسکی۔
شام کے سائے رفتہ رفتہ گہرے ہو رہے تھے۔ کچھ دیر قبل خلیل نے فون کرکے بتایا تھا کہ وہ گائوں سے چل پڑے ہیں۔
روبینہ نے اپنا موبائل فون اُٹھا کر نیٹ اوپن کیا تو انور آن لائن تھا۔ وہ سوچتی رہی کہ کیا لکھے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے انور کی طرف سے میسج موصول ہوگیا۔ اس نے لکھا تھا۔ ’’کاش ہم جدا نہ ہوئے ہوتے۔‘‘
’’ایسا ہماری قسمت میں تھا۔‘‘
’’ہم اپنی قسمت پھر بدل دیتے ہیں۔‘‘
’’وہ کیسے…؟‘‘
’’ہم اپنے شریک زندگی کو خدا حافظ کہہ کر ایک دُوسرے کے ہو جاتے ہیں۔‘‘ انور نے لکھا۔
روبینہ نے اس جملے کو متعدد بار پڑھا۔ اس کا پورا جسم کانپ گیا تھا۔ اسے شوہر اور بچّے یاد آ گئے لیکن انور سے بھی اس نے شدید محبت کی تھی۔ اب یہ الگ بات تھی کہ خلیل کتابوں میں زیادہ گم رہتا تھا۔ ماضی کی محبت پھر جاگ گئی تھی۔ روبینہ کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں اور اس نے جواب دینے کی بجائے نیٹ بند کر دیا تھا۔
روبینہ نے اپنے لئے چائے تیار کی اور کپ لے کر ایک طرف بیٹھ گئی۔ وہ انور کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس میسج کو پڑھنے کے بعد مضطرب ہوگئی تھی۔ بار بار اسے انور کا خیال آ رہا تھا اور اس کا لکھا جملہ کسی ہتھوڑے کی طرح اس کے دماغ میں لگ رہا تھا۔
روبینہ نے موبائل فون اُٹھا کر جیسے ہی آن کیا ایک ساتھ کئی پیغامات کی ٹون بجی۔ وہ سب پیغامات انور نے بھیجے تھے۔ اس نے لکھا تھا۔
’’ہم نے ایک ساتھ جینے اور مرنے کے وعدے کئے تھے۔‘‘
’’ہمارے الگ ہونے میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ تمہارے ماموں کی سازش تھی۔‘‘
’’اب سب کچھ واضح ہوگیا ہے۔‘‘
’’روبینہ تم اپنے شوہر اور بچوں کو خیرباد کہہ دو۔ میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔ ہم نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ سوچو مت کر گزرو… مجھے جواب دو… تم اقرار کرو میں سب کچھ تمہارے لئے چھوڑنے کو تیار ہوں۔‘‘
روبینہ نے انور کا لکھا ہوا ہر میسج پڑھا اور فون ایک طرف رکھ دیا۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ بے چینی پورے جسم میں پھیل گئی تھی۔ سوچیں منتشر ہوگئی تھیں۔ اس نے سوچا کہ خلیل کو کتابوں سے فرصت ملتی ہے تو وہ اسے یاد آ جاتی ہے، ورنہ وہ ہر نئی کتاب میں کھو جاتا ہے، اور پھر لکھنے میں مصروف ہو جاتا ہے، اس کی خلیل کے سامنے حیثیت کسی کونے میں رکھی ہوئی چیز جیسی تھی جو ضرورت کے وقت یاد آ جائے۔ انور کو اس سے بہت محبت تھی ۔ وہ اب بھی اس کے لئے سب کچھ چھوڑنے کو تیار تھا۔
روبینہ اُلجھ گئی تھی۔ ایک بار پھر میسج ٹون بجی۔ اس نے فون دیکھا انور آن لائن تھا اور اس نے لکھا تھا۔ ’’روبینہ تم نے کیا سوچا۔ مجھے بتائو میں بے چین ہوں اور تمہارے جواب کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
روبینہ نے جواب لکھا۔ ’’ہم کل دس بجے اسی ہوٹل میں ملتے ہیں جہاں ہماری پہلے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا۔‘‘ انور نے جواب میں لکھا۔
روبینہ نے اپنا نیٹ بند کر دیا۔ اس کی چائے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ اس نے چائے کا کپ اُٹھایا اور کچن میں چلی گئی۔
خلیل اور بچوں کی واپسی ہوگئی تھی۔ خلیل ڈھیر ساری کتابیں کار کی ڈکی سے نکال رہا تھا۔ اس نے کتابوں کا انبار میز پر رکھا اور خوش ہو کر بتانے لگا۔ ’’تایا ابا نے اپنی ساری کتابیں مجھے دے دی ہیں۔ میری تو خوشی کی انتہا نہیں رہی۔‘‘
’’پپا تو وہاں بھی کتاب ہی پڑھتے رہے ہیں۔‘‘ بڑی بیٹی نے شکوہ کیا۔
’’کتاب ایسی دلچسپ تھی کہ شروع کی اور پڑھتا ہی چلا گیا۔‘‘ خلیل بہت خوش تھا اس نے تمام کتابیں اُٹھائیں اور کمرے میں چلا گیا۔ اس نے ایک بار بھی روبینہ سے نہیں پوچھا تھا کہ تمہارا دن کیسا گزرا…؟
روبینہ کچن کی طرف جانے لگی تو اس کی بڑی بیٹی نے روک کر کہا۔ ’’مما آپ کو یاد ہے کہ آج آپ کی شادی کی سالگرہ ہے۔‘‘
’’مجھے یاد ہے۔‘‘ روبینہ نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔
’’چپ رہنا… ہم دیکھتے ہیں کہ پپا کو بھی یاد ہے کہ نہیں۔‘‘ بیٹی نے مسکرا کر کہا۔
روبینہ سر ہلا کر وہاں سے چلی گئی۔
خلیل اپنی کتابوں میں مستغرق رہا اور اسے ایک لمحے کو بھی یہ یاد نہیں آیا کہ آج ان کی شادی کی سالگرہ ہے۔ کسی نے خلیل کو یاد کرانے کی بھی کوشش نہیں کی، کیونکہ روبینہ نے منع کر دیا تھا۔ وہ رات اسی طرح گزر گئی۔
٭…٭…٭
دُوسرے دن دس بجے انور اور روبینہ اس ہوٹل کی ایک میز پر براجمان تھے جہاں وہ گیارہ سال قبل ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ انور نے اس ملاقات کے لئے خاص طور پر آفس سے چھٹی کی تھی، لیکن اس نے فوزیہ کو نہیں بتایا تھا۔ وہ گھر سے آفس کے لئے ہی نکلا تھا۔ لیکن آفس جانے کی بجائے وہ ہوٹل چلا گیا تھا۔
’’تم نے کیا سوچا؟‘‘ انور نے پوچھا۔
’’یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ روبینہ نے جواب دیا۔
’’کیوں ممکن نہیں ہے۔ ہم دونوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک فریب تھا جو تمہارے ماموں نے دونوں گھرانوں میں اپنے مفاد کے لئے دیا تھا۔‘‘ انور نے کہا۔
’’ہم دونوں کے بچّے ہیں۔‘‘
’’میں
اپنا سب کچھ اپنی محبت کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ انور نے جلدی سے مصمم ارادے سے کہا۔
روبینہ چپ ہوگئی۔ وہ تذبذب کا شکار تھی۔ انور اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتا رہا اور اس انتظار میں تھا کہ وہ کچھ کہے۔
’’میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ تم کو سمجھا سکوں کہ ہمارے سامنے سب کچھ صاف ہوگیا ہے۔ جو ابہام تھا وہ دُور ہوگیا ہے۔ اب ہم پھر اپنی اپنی دُنیا میں واپس لوٹ جائیں۔ زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ روبینہ نے کہا۔
’’میرے لئے اب ممکن نہیں ہے۔ میں باقی زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم بھی ایسا ہی چاہتی ہو لیکن تم ڈرتی ہو۔ اپنے اندر کا خوف باہر نکال دو۔‘‘ انور نے سمجھایا۔
’’مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔‘‘ روبینہ نے نظریں جھکا کر کہا۔
’’میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ ڈرو مت اور ہمت سے کام لو۔ دیکھو ہم ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں۔‘‘
’’تم بار بار مجبور کرنے کی کوشش مت کرو۔‘‘
’’تم ایک بار اپنی رضامندی ظاہر کر دو میں اپنی بیوی اور بچّے اسی وقت چھوڑ دوں گا۔‘‘ انور نے فیصلہ سنایا۔
روبینہ کو خلیل کا کتابوں میں مصروف رہنا یاد آیا۔ کل رات ان کی شادی کی سالگرہ تھی لیکن وہ اپنی کتابوں میں گم تھا۔ روبینہ کے چہرے پر اُکتاہٹ اور غصہ عود کر آیا۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ انور نے روبینہ کو خاموش دیکھ کر پوچھا۔
’’کچھ نہیں… ہمیں جانا چاہئے۔‘‘ روبینہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔
’’ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچے اور تم جانے کی بات کر رہی ہو؟ کچھ فائنل تو کرلیں۔‘‘ انور بولا۔
’’میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘ روبینہ کھڑی ہوگئی۔
’’تو کیا میں انتظار کروں۔‘‘ انور نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
روبینہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا۔ ’’میں سوچ کر جواب دوں گی۔‘‘
روبینہ کی اس بات نے انور کو مطمئن کر دیا۔ روبینہ نے اپنا پرس اُٹھایا اور وہاں سے چلی گئی۔ انور کے لئے اطمینان بخش بات یہ تھی کہ اس نے سوچنے کا کہا تھا۔ ورنہ وہ صاف انکار کرسکتی تھی۔
٭…٭…٭
شام کو روبینہ اور خلیل ٹیرس پر بیٹھے تھے۔ خلیل حسبِ عادت ایک ضخیم کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ وہ اس کتاب کو کئی دنوں سے پڑھ رہا تھا، جبکہ روبینہ پاس بیٹھی اس انتظار میں تھی کہ وہ اس سے کوئی بات کرے۔
’’ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’ہوں۔‘‘ خلیل نے کتاب میں منہمک بس اتنا کہا۔
’’آپ کے ایک طرف کتاب ہو اور دُوسری طرف میں… آپ کس کا انتخاب کریں گے؟‘‘ روبینہ نے متانت سے پوچھا۔
خلیل نے اپنی نگاہیں کتاب سے ہٹا کر روبینہ کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’میں کتاب کا انتخاب کروں گا۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ روبینہ نے پوچھا۔
’’کیونکہ کتاب میرا جنون ہے اور تم میری ضرورت۔‘‘ خلیل نے بلاتامل فیصلہ سُنایا۔
’’میں صرف ضرورت ہوں؟‘‘ روبینہ کو خلیل کے اس جواب نے دھچکا پہنچایا تھا۔
’’تم میرا گھر سنبھالتی ہو، میرے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہو، ہمارے لئے کھانا تیار کرتی ہو، ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہو… تم اس گھر میں ہو تو ہماری ہر ضرورت پوری ہو رہی ہے۔‘‘ خلیل نے اپنی بات کی وضاحت کی۔
اتنے سالوں میں پہلی بار روبینہ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی تھی کہ وہ خلیل اور اس کے بچوں کی محض ضرورت ہے۔ جو نوکروں کی طرح ان کے کام کرتی ہے اور ان کو خوش رکھتی ہے۔ خلیل کے جواب نے روبینہ کی سوچ بدل دی تھی۔ وہ تیزی سے اُٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اس نے موبائل فون آن کیا اور انور کو میسج کیا۔ ’’انور میں سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہوں۔ ہم نئی زندگی کی شروعات کر سکتے ہیں۔‘‘
انور نے روبینہ کا میسج رات کو پڑھا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ وہ سوچنے لگا کہ بچوں کو چھوڑنے کا کیا طریقہ اختیار کرے۔ وہ ساری رات سوچتا رہا اور پھر اس نے یہ حل نکالا کہ وہ فوزیہ اور بچوں کو اس کے میکے بھیج دے گا، پھر وہ اسے طلاق کے کاغذات بھجوا دے گا۔ اس طرح فوزیہ کے واپس آنے کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔
یہ سوچنے کے بعد وہ اطمینان سے سوگیا۔
٭…٭…٭
روبینہ کچن میں ناشتہ تیار کر رہی تھی، خلیل اندر آیا اور بولا۔ ’’میرے لئے صرف چائے بنانا… میں آج کالج نہیں جا رہا۔‘‘
’’کالج کیوں نہیں جا رہے؟‘‘ روبینہ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا تو اس کی نظریں خلیل کی آنکھوں پر چلی گئیں۔
خلیل کی آنکھیں سرخ تھیں۔ روبینہ پوچھنا چاہتی تھی کہ ان سرخ آنکھوں کی وجہ کیا ہے؟ کوئی الرجی ہوگئی ہے؟ لیکن اس نے اس بارے میں سوال نہیں کیا اس کی وجہ ناراضی تھی جورات کو خلیل کا جواب سن کر اس کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔
’’کل مجھے بتانا یاد نہیں رہا۔ دراصل آج کالج میں اسپورٹس ڈے ہے۔‘‘ خلیل نے کہا۔ پھر وہ واپس جاتے جاتے رُک کر بولا۔ ’’تم مجھے مارکیٹ سے کچھ سامان لا دو گی۔‘‘
’’کیا سامان؟‘‘ نا چاہتے ہوئے بھی روبینہ نے پوچھ لیا۔
’’آج دوپہر کا کھانا میں بنائوں گا۔ چکن بریانی، شامی اور بہت کچھ۔‘‘ خلیل نے مسکرا کر کہا۔
خلیل کی بات سن کر روبینہ کو حیرت ہوئی کہ آج اتنے عرصے کے بعد خلیل کو کھانا تیار کرنے کا خیال کیسے آ گیا۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں خلیل نے اپنے ہاتھ کے مزے مزے کے کھانے تیار کرکے کھلائے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ اس نے کچن کا رُخ کرنا چھوڑ دیا اور کالج سے واپسی پر کتابوں میں مستغرق رہنے لگا تھا۔
’’لسٹ بنا دیں میں لا دیتی ہوں۔‘‘ روبینہ نے کہا۔
’’میں چائے پینے کے بعد لسٹ بنا دیتا ہوں۔‘‘ خلیل بولا۔
روبینہ نے سوچا کہ خلیل بدل گیا ہے۔ اس نے صحیح کہا تھا کہ وہ اس کی ضرورت ہے۔ اس لئے اسے جو کچھ درکار ہے وہ سامان لانے کے لئے اسے مارکیٹ بھیج رہا تھا۔ حالانکہ وہ خود بھی جا سکتا تھا۔ اس سے قبل اس نے کبھی روبینہ کو سودا لانے کے لئے مارکیٹ نہیں بھیجا تھا۔
خلیل کچن سے باہر چلا گیا۔ روبینہ کا چہرہ غصے سے تپنے لگا تھا۔ اس نے اپنا موبائل فون اُٹھایا اور نیٹ آن کرنے کے بعد انور کو میسج کیا۔ ’’انور تم تیار ہو؟‘‘
انور کا نیٹ آن تھا۔ اس نے فوراً جواب دیا۔ ’’میں تیار ہوں۔ میں فوزیہ اور بچوں کو آج ہی اس کے میکے بھیج رہا ہوں۔ وہیں طلاق کے کاغذات بھیج دوں گا۔ تم تیار ہو؟‘‘
’’میں آج دوپہر کو گھر چھوڑ کر جا رہی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے آسانی سے طلاق دے دے گا، کیونکہ وہ مجھ سے نہیں اپنی کتابوں سے محبت کرتا ہے، اسے کتابیں عزیز ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ تم فکر مت کرنا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ انور نے خوشی سے لکھا۔ روبینہ نے نیٹ بند کر دیا۔
روبینہ نے ناشتہ تیار کیا اور ان تینوں کو ناشتہ دے کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ خلیل کی جگہ جگہ کتابیں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کو دیکھ کر اسے غصہ آ گیا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ ان کتابوں کو اُٹھا کر باہر پھینک دے۔
وہ ایک طرف بیٹھ گئی اور سوچتی رہی۔ خلیل ناشتے سے فارغ ہوا تو اس نے ایک لسٹ روبینہ کو تھما دی اور کہا کہ وہ ابھی مارکیٹ چلی جائے۔ روبینہ نے لسٹ دیکھی تو اس کا دل چاہا کہ پھاڑ کر خلیل کے منہ پر مار دے۔ اس پر جو سودا لکھا تھا وہ ایک جگہ کا نہیں تھا۔ اس خریداری کے لئے اسے کئی جگہ جانا پڑے گا۔ بادل نخواستہ روبینہ خریداری کے لئے چلی گئی۔
٭…٭…٭
ناشتے کی میز پر انور نے فوزیہ سے کہا۔ ’’تم اور بچّے تیار ہو جائو۔ میں تم سب کو ابھی ریلوے اسٹیشن لے کر جا رہا ہوں۔‘‘
’’ریلوے اسٹیشن پر کیا ہے؟‘‘ فوزیہ نے پوچھا۔
’’وہاں ایک ٹرین کھڑی ہوگی جو دن کو سوا بارہ بجے روانہ ہوتی ہے۔ وہ ٹرین سیدھی آپ کی امی کے شہر جائے گی۔ تم سب کچھ دنوں کے لئے اپنی امی کے گھر جا رہے ہو۔‘‘ انور نے خوش ہو کر بتایا تو فوزیہ کی باچھیں کھل گئیں۔
’’یہ اچانک آپ کو کیسے خیال آ گیا؟‘‘
’’اچانک خیال نہیں آیا۔ میں نے چھٹیوں کے لئے درخواست دی تھی جو منظور ہوچکی ہے۔ آج تم لوگ جائو، پرسوں میں بھی آ رہا ہوں۔‘‘ انور نے بتایا۔
انور کی بات سن کر سب ہی خوش ہوگئے۔ فوزیہ کو تو پہلے ہی اپنی امی کی طرف گئے چار، پانچ ماہ ہوگئے تھے۔
’’اب جلدی سے ناشتہ کرو اور جانے کی تیاری کرو۔‘‘
’’تم مجھے رات کو بتا دیتے۔‘‘
’’اب بھی بہت وقت ہے۔ بس جلدی کرو۔‘‘ انور کہہ کر کمرے میں چلا گیا۔ اس نے موبائل فون کھول کر دیکھا کہ روبینہ آن لائن ہے؟ اس کا نیٹ بند تھا۔ اس نے میسج چھوڑ دیا۔ ’’میں اپنی بیوی اور بچوں کو اس کے میکے بھیج رہا ہوں۔ کل اسے طلاق کے کاغذات بھیج دوں گا۔‘‘
میسج بھیجنے کے بعد انور نے اپنا نیٹ بھی آف کر دیا۔
٭…٭…٭
ایک گھنٹے سے زیادہ مارکیٹ میں پھرنے کے بعد روبینہ نے خلیل کی لسٹ کے مطابق سامان خریدا اور رکشہ میں بیٹھ کر گھر کی طرف چلی گئی۔
جب وہ گھر پہنچی تو تھک چکی تھی۔ خلیل پر اسے شدید غصہ تھا۔ اس نے سارا سامان میز پر رکھا اور کرسی پر بیٹھ گئی۔ اچانک اسے آہٹ محسوس ہوئی تو اس نے سر اُٹھا کر دیکھا، اس کے قریب خلیل کھڑا تھا۔ اس نے چھوٹی ٹرے پر جوس کا گلاس رکھا تھا۔ روبینہ کے لئے یہ حیران کن بات تھی کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں خلیل اس طرح جوس، یا کھانے پینے کا سامان پیش کیا کرتا تھا۔
’’مجھے لگتا ہے کہ تم تھک گئی ہو۔ جوس پیئو۔‘‘ خلیل نے مسکرا کر کہا۔
حیران روبینہ نے جوس کا گلاس اُٹھا لیا اور جوس پینے لگی۔ خلیل بتانے لگا۔ ’’آج میں ایک ساتھ دو تین ڈشز تیار کر رہا ہوں۔ ایک ساتھ بیٹھ کر کھائیں گے اور تم کو شادی کے وہ ابتدائی دن یاد آ جائیں گے جب میں اکثر کچن میں گھس کر کھانا تیار کیا کرتا تھا۔‘‘
’’اور پھر تم کچن سے نکل کر کتابوں میں گھستے گئے۔ کتابیں میری جگہ لیتی گئیں اور میں شیلف میں چلی گئی۔‘‘ روبینہ نے دل میں سوچا۔
’’آج تم کو لگے گا کہ شادی کے ابتدائی دن پھر لوٹ آئے ہیں۔‘‘ خلیل نے مسکرا کر کہا۔
’’ایک دو گھنٹے کی بات ہے۔ پھر وہ کتابیں ہوں گی اور میں کسی نکڑ میں…‘‘ روبینہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔
’’میں تمہاری پسند کی بھی ایک ڈش تیار کر رہا ہوں۔‘‘ خلیل نے اس کے قریب ہو کر پیار بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اچھی بات ہے۔‘‘ روبینہ نے کہتے ہوئے گلاس میز پر رکھا اور غیرارادی طور پر اپنے موبائل فون کا نیٹ آن کر دیا۔ ایک دم
انور کا میسج سامنے آ گیا۔ اس نے میسج پڑھا اور ایک نظر خلیل کی طرف دیکھا جو اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
’’میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔‘‘
’’ہاں تم کمرے میں آرام کرو۔‘‘
روبینہ اُٹھ کرکمرے میں چلی گئی۔ وہ انور کو میسج کر رہی تھی کہ کمرے میں اسے کچھ تبدیلی محسوس ہوئی۔ اس نے میسج چھوڑ کر کمرے میں نظر دوڑائی تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا، کیونکہ کمرا صاف تھا اور وہاں کوئی کتاب دکھائی نہیں دے رہی تھی، جبکہ کمرے میں خلیل کی جابجا کتابیں پڑی ہوتی تھیں، اب ایک بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔
روبینہ میسج لکھنا بھول گئی۔ اس نے سوچا کہ خلیل کو یہ تمیز کب سے آ گئی کہ اس نے اپنی کتابیں اُٹھا کر اسٹڈی رُوم میں رکھ دیں؟ روبینہ کمرے سے نکل کر اسٹڈی روم میں چلی گئی۔ اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب اس نے دیکھا کہ اسٹڈی روم میں ایک بھی کتاب نہیں تھی۔ روبینہ خیرہ نگاہوں سے کبھی دائیں اور کبھی بائیں دیکھ رہی تھی۔
اچانک دروازہ کھلا اور خلیل اندر آ گیا۔ ’’یہ دیکھ رہی ہو کہ کتابیں کہاں گئیں؟ وہ کتابیں جو میرا جنون تھا۔ جن کو پڑھے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا۔‘‘ اس نے متانت سے روبینہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’جب تم نے مجھ سے یہ سوال کیا اور میں نے جواب دیا کہ کتاب میرا جنون ہے اور تم میری ضرورت ہو تو اس جواب کے بعد میرے اندر ایک بے چینی پیدا ہوگئی۔ میں نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور سوچنے لگا کہ تم میری ضرورت ہو… بس ضرورت…؟ پھر مجھے میرے اندر سے جواب ملا کہ نہیں تم میری ضرورت نہیں ہو… تم میری بیوی ہو، میری جیون ساتھی ہو، میری محبت ہو، میرے بچوں کی ماں ہو میرے دل کی رانی ہو، تم ہو تو اس گھر کی رونق ہے تم نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے اور یہ کتابیں… یہ تم سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ میں نے تم کو بہانے سے مارکیٹ بھیجا اور کباڑی کو بلا کر ساری کتابیں بیچ دیں۔‘‘
’’ساری کتابیں بیچ دیں؟‘‘ روبینہ حیران رہ گئی۔
’’ہاں… کیونکہ تم میرا جنون ہو اور کتابیں ضرورت تھیں۔ وہ شوق تھا، وہ محض وقت گزاری تھی۔ سوری روبینہ میں کتابوں کے چکر میں تم کو بھول گیا تھا۔‘‘ خلیل نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ روبینہ کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
٭…٭…٭
فوزیہ تیار ہو رہی تھی اور انور ایک طرف بیٹھا تھا۔ اچانک اس کے نیٹ پر میسج آیا۔ اس نے جلدی سے دیکھا روبینہ کا میسج تھا۔ اس نے لکھا تھا۔
’’میں اپنے بچوں اور شوہر کو نہیں چھوڑ سکتی، میں ان کے ساتھ خوش ہوں۔ آئندہ مجھ سے رابطہ نہ کرنا اور میں فیس بک اکائونٹ بھی کلوز کر رہی ہوں۔ میرا شوہر کھانا تیار کر رہا ہے اور میں مارکیٹ جا رہی ہوں تا کہ ان کے لئے نئی کتاب خرید سکوں۔‘‘
اس کے بعد روبینہ کا نیٹ بند ہوگیا۔ انور حیرت سے اس میسج کر دیکھتا رہا۔ وہ مضطرب ہو گیا تھا۔ اسی اثنا میں فوزیہ اور بچّے تیار ہو کر آ گئے۔
فوزیہ نے کہا۔ ’’چلیں ہم تیار ہوگئے ہیں۔‘‘
انور نے فوزیہ اور بچوں کی طرف دیکھا۔ اپنا نیٹ بند کیا اور مسکرا کر بولا۔ ’’فوزیہ میرے کپڑے بھی پیک کر دو میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلوں گا۔‘‘
(ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS