ماں نے انتھک محنت کرکے ہمیں پروان چڑھایا۔ میں سب بہن، بھائیوں میں چھوٹی تھی۔ باپ نہ رہے تو چچا نے باپ کا پیار دے کر یتیمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ دونوں بھائی کمانے لائق نہ تھے، چچا ہی مالی مدد کرتے تھے کہ یہ کڑا وقت گزر گیا۔
بھائی ارشاد سولہ برس کا ہوا تو چچا نے اسے کھیتی باڑی کے کام پر لگا دیا۔ ماں کی امیدیں اسی بیٹے سے وابستہ تھیں۔ بڑا ہونے کی وجہ سے وہی ہمارے کنبے کا سربراہ تھا۔ والدہ ارشاد کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھیں۔ ان کو بیٹے کا سہرا دیکھنے کا بڑا ارمان تھا۔ وہ اسی آرزو میں مری جاتی تھیں لیکن اللہ کو ان کی یہ خوشی منظور نہ تھی۔ میرا بھائی سہرا نہ باندھ سکا، البتہ ہتھکڑیوں میں جکڑا گیا۔
ابا مرحوم کی تھوڑی سی زرعی زمین تھی، جس پر صرف مویشیوں کا چارہ اگایا جاتا تھا۔ یہ چارہ بھائی ساتھ والے گائوں کے گوالوں کو فروخت کردیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ چارے کی ٹرالی لے کر ان کی بستی میں گیا تو وہاں ایک لڑکی مہرو سے اس کی آنکھیں چار ہوگئیں۔
وہ بہت خوبصورت دوشیزہ تھی۔ سولہ کا سن اور چاند سا چہرہ…! ارشاد بھی سترہ برس کا ہوچکا تھا۔ جوانی کے دن نادانی کے ہوتے ہیں۔ میرے بھائی نے مہرو کے چکرمیں اس بستی کے چکر لگانے شروع کردیئے اور دونوں چھپ چھپ کر ملنے لگے۔ اماں کو پتا چلا تو بیٹے کو اپنی بیوگی کے واسطے دیئے کہ وہ اس خطرناک راستے کو چھوڑ دے۔ وہ باز نہ آیا، جبکہ اس لڑکی کی منگنی اپنی برادری کے ایک لڑکے سے ہوچکی تھی۔ یہ رشتہ بھائی کو کسی صورت نہ مل سکتا تھا، پھر بھی ماں کو مجبور کیا کہ ان کے گھر جاکر رشتہ طلب کرے۔
والدہ نہ چاہتے ہوئے لڑکی والوں کے گھر گئیں۔ انہوں نے بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا۔ آنسو بہاتی لوٹ آئیں۔ بیٹے کو سمجھایا کہ مہرو کا خیال چھوڑ دے، ورنہ بہت برا ہوگا، مگر دل کی لگی نے ارشاد کو چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ وہ اس لڑکی سے چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرنے سے باز نہ آیا اور ایک دن اسے اپنے ساتھ بھگا لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
لڑکی کے وارثوں نے میرے بھائی کے خلاف رپورٹ لکھوا دی۔ پولیس فوراً حرکت میں آگئی، بالآخر بھائی اور مہرو ایک دوسرے گائوں سے گرفتار ہوگئے۔ والدہ کو اطلاع ملی تو روتی پیٹتی چچا کے پاس گئیں۔ انہوں نے بھاگ دوڑ کی مگر کچھ بن نہ پڑا۔ لڑکی کو وہ لوگ اثرورسوخ کی بنا پر لے گئے، مگر میرے بھائی پر پکا پرچہ کٹ گیا۔
ارشاد جیل میں تھا، جبکہ چھوٹا بھائی شمشاد کمانے کے قابل نہ تھا۔ ماں بچاری دن، رات نیر بہاتی اور بیٹے کے غم میں آنکھیں کھوتی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کرے۔ بیوہ بھابی کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے چچا نے انہیں مشورہ دیا کہ وکیل کے پاس چلی جائو وہ تمہاری ضرور دادرسی کرے گا۔
ساجد وکیل اماں کا خالہ زاد تھا۔ اس کے بچپن میں ہی خالو شہر چلے گئے تھے۔ وہاں خالہ کے بچوں نے تعلیم حاصل کی اور ساجد وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد شہر میں پریکٹس کرنے لگا۔ والدہ کو اس نے تسلی دی۔ وعدہ کیا کہ ارشاد کا کیس لڑے گا اور ان شاء اللہ اس کی ضمانت بھی ہوجائے گی۔
کیس ابھی چل رہا تھا کہ مہرو کی شادی کے شادیانے بجنے لگے۔ بھائی ضمانت پر گھر آچکا تھا۔ اس کے دل پر آرے چلنے لگے۔ بدقسمتی سے مہرو بیاہ کر ہمارے ہی گائوں آگئی۔ بھائی کے دل سے اس کی یاد نہ مٹی تھی۔ انہوں نے پھر سے رابطے استوار کرلئے جس کا علم مہرو کے وارثوں کو ہوگیا۔
ایک دن جب میرا بھائی کھیت میں کام کررہا تھا، لڑکی کے بھائی آگئے۔ انہوں نے ارشاد کا گریبان پکڑ لیا۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ شمشاد نزدیک ہی لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ اس نے جھگڑے کی آواز سنی تو دوڑ کر بڑے بھائی کی مدد کو پہنچا۔ اس کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی، جسے ارشاد نے جھپٹ لیا اور مخالفوں پر وار کردیا۔ کلہاڑی مہرو کے بھائی کے سر میں گھس گئی اور وہ پل میں جاں بحق ہوگیا۔ پولیس نے ارشاد کے ساتھ شمشاد کو بھی گرفتار کرلیا، کیونکہ اس پر اپنے بھائی کی معاونت کا الزام تھا۔
ماں نے سنا تو برا حال ہوگیا۔ بیٹے دونوں حوالات میں تھے اور ماں کا کلیجہ پھٹا جارہا تھا۔ اس پر مخالفین سندیسے بھیج رہے تھے کہ اب ہم تمہاری بیٹیوں کو زبردستی اٹھا کر لے جائیں گے۔ ان دنوں ماں بہت ڈری ہوئی تھی۔ گھر میں کوئی مرد نہ رہا تھا جو ہم ماں، بیٹیوں کی حفاظت کرتا۔ میں چھ سال کی اور بڑی بہن رضوانہ گیارہ برس کی تھی۔ ان حالات کے پیش نظر چچا نے رضوانہ کا نکاح اپنے بڑے لڑکے مراد سے کردیا۔ نکاح کے بعد اس کا ویزا آگیا اور وہ سعودی عربیہ کمانے چلا گیا۔ رضوانہ، چچا چچی کے پاس رہنے لگی۔ میں بھی چچا کے گھر تھی، جبکہ ماں کو آئے دن ساجد وکیل کے گھر کے چکر کاٹنے پڑتے تھے۔ ہمیں اپنے ساتھ رکھنے کی وجہ سے اتنی خوف زدہ تھی کہ راتوں کو سو نہیں سکتی تھی۔
والدہ نے ان حالات سے دلبرداشتہ ہوکر مستقل شہر میں رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ چچا نے رضوانہ کو جانے نہ دیا لیکن مجھے ماں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ ساجد وکیل کی بیوی مرچکی تھی۔ دو بیٹیاں بیاہی گئی تھیں اور اب وہ اکیلے شہر میں رہتے تھے۔ ان کے والدین گائوں میں تھے، مگر ساجد کا شہر میں رہنا ناگزیر تھا، کیونکہ عدالت شہر میں تھی۔
اماں کو ساجد نے اپنے مکان میں رہنے کے لئے ایک کمرہ دے دیا۔ اب جب بھی وہ عدالت سے آتے، میری ماں انہیں اپنی پریشانیاں اور دکھڑے سنانے بیٹھ جاتی۔ کفالت کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ ایک دن ساجد وکیل نے کہا۔ تم مجھ سے نکاح کرلو، میں تمہاری بیٹی اور تمہاری کفالت کروں گا۔ تمہارے بیٹے کا کیس لڑ ہی رہا ہوں۔ فرحانہ کو پڑھا لکھا کر وکالت پاس کرا دوں گا اس طرح یہ عزت کی زندگی گزار سکے گی۔ ماں نکاح ثانی پر راضی نہ تھیں۔ وکیل صاحب کے والدین کے سمجھانے پر راضی ہوگئیں، تاہم چچا کے منانے کا مرحلہ باقی تھا۔ یہ لوگ چچا کے پاس گئے اور میری ماں کے نکاح ثانی کی ان سے اجازت طلب کی۔
بیٹے جیل میں ہیں، اب جو چاہے من مانی کرے۔ انہوں نے جواب دیا تاہم اماں کے خالہ اور خالو چچا کے بھی رشتے دار تھے ۔کچھ حیل و حجت کے بعد وہ مان گئے اور اس شرط پر اجازت دی کہ رضوانہ ماں سے ملنے شہر نہیں جائے گی۔ جب فرحانہ بڑی ہوگی تو وہ شیر خان سے اس کی شادی کریں گے اور دونوں بھتیجیوں کو اپنے پاس رکھیں گے۔
ساجد وکیل چاہتے تھے کہ نکاح سے پہلے ارشاد اور شمشاد کو اس امر سے آگاہ کیا جائے کہ ان کی والدہ نکاح ثانی کررہی ہیں، مگر والدہ راضی نہ ہوئیں۔ کہا کہ جیل میں یہ بات ان کے لئے صدمے کا سبب بنے گی۔ جب رہا ہوں گے بتا دیں گے، فی الحال ان کو آگاہ نہ کیا جائے۔ جب وکیل صاحب نے والدہ سے نکاح کیا تو میں ماں کے ساتھ تھی۔ میں انہیں چچا ساجد کہتی تھی کہ وہ میرے والد مرحوم کے کزن بھی تھے۔ بہرحال بہت اچھے انسان تھے۔ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور مجھے گھر کے نزدیکی اسکول میں داخل کرا دیا۔
ان کی شہرت دیکھ کر چاہتی تھی کہ وکیل بنوں۔ بھائی بھی اسیر تھے لہٰذا دل لگا کر پڑھتی رہی۔ چچا ساجد نے میرے بھائیوں کا کیس بہت جانفشانی سے لڑا۔ ان کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔ بڑے بھائی کو عمر قید اور چھوٹے کو چند برس کی سزا ہوگئی۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ بھائی پھانسی کے پھندے سے بچ گیا تھا۔ زندہ تھا اور قید کی میعاد پوری ہونے پر رہائی مل جانی تھی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ میں نے ایف ایس سی میں شاندار نمبر حاصل کئے تو انکل ساجد نے میرا داخلہ میڈیکل کالج میں کروا دیا۔ سال اول میں تھی کہ چھوٹا بھائی رہا ہوکر آگیا۔ وہ سیدھا گائوں گیا۔ چچا نے اسے
بتا دیا کہ تمہاری ماں نے ساجد وکیل سے نکاح کرلیا ہے اور اب وہ شہر میں رہتی ہے۔ یہ سنتے ہی اس کا سر گھوم گیا۔ اس نے کہا۔ میں ماں کے ساتھ ساجد کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ دونوں کو ایک ساتھ جہنم رسید کروں گا۔ ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھایا ہے۔ شمشاد ایک بڑے فساد کے درپے تھا لیکن چچا نے اپنے تدبر سے اس کو سنبھال لیا۔ رضوانہ نے بھی سمجھایا، روکا اور شہر آنے نہیں دیا۔ اسے بتایا کہ مخالفوں نے دھمکیاں دی تھیں کہ وہ تمہاری دونوں بہنوں کو زبردستی اٹھا کر لے جائیں گے، تبھی تمہاری ماں کو وکیل صاحب کا سہارا لینا پڑا۔ یہ سب انہوں نے ہماری خاطر کیا۔ اس وقت ان کو کسی صاحب حیثیت شخص کے سہارے کی ضرورت تھی۔
شمشاد نے غصے کو دل میں دبا لیا اور وہ ساجد اور والدہ کے قتل کے منصوبے بناتا رہا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی انتہائی قدم اٹھاتا، اللہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔ ایک روز جب وہ کھیتوں کو پانی لگا رہا تھا، اچانک مہرو کے بھائی اس پر حملہ آور ہوگئے۔ یوں بدنصیب ماں سے ملاقات بھی نہ ہوسکی کہ وہ لقمۂ اجل ہوا۔ چچا ساجد اماں کو گائوں لے آئے اور میں بھی روتی پیٹتی پہنچی۔ اس حادثے کے بعد میری ماں نے ساجد کے ہمراہ شہر جانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا۔ اب میں بڑے بیٹے کی رہائی تک اپنے پہلے شوہر کے گھر میں ہی رہوں گی۔
میں انکل ساجد کے ہمراہ ہاسٹل آگئی۔ اب وہ ہفتے میں ایک بار گائوں جاکر اماں سے مل آتے تھے، مگر مستقل وہاں رہ نہیں سکتے تھے کہ وکالت سے ان کا روزگار وابستہ تھا۔ گائوں والوں کو انکل ساجد کا آنا برا لگتا، مگر کھلم کھلا کچھ نہ کہہ سکتے تھے کہ چچا کی حمایت ان کو حاصل تھی۔
میں نے میڈیکل کی اپنی تعلیم مکمل کرلی۔ ساری بستی میں دھوم مچ گئی کہ زبیدہ بی بی کی لڑکی ڈاکٹر بن گئی ہے۔ میں اپنی بستی کی پہلی لڑکی تھی جو ڈاکٹر بنی تھی۔ گائوں والوں نے چچا کو آکر مبارک دی تو ان کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ وہ لوگ جو میری تعلیم کے خلاف تھے، اب وہ بھی کہہ رہے تھے کہ فرحانہ بیٹی نے ہمارے گائوں کا نام روشن کردیا ہے۔ چچا ہر ایک کو بتاتے کہ اس کامیابی کا سہرا ساجد کو جاتا ہے، مبارکباد اسی کو دینا۔
ہمارے گائوں میں ایک ہیلتھ سینٹر کھل گیا تھا لیکن وہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں تھی، ہیلتھ ورکر ہی سے کام چلایا جاتا تھا۔ سیٹ خالی تھی۔ ساجد چچا نے کوشش کرکے اپنے گائوں کے اس سینٹر میں میری تعیناتی کرا دی۔ اب میری قدر و منزلت بستی میں اور بڑھ گئی۔ یہاں عملہ بہت مختصر تھا۔ ہمارے ساتھ صرف ایک خاتون ہیلپر تھی اور ایک چوکیدار تھا۔ کلرک کی آسامی ابھی پر نہ ہوئی تھی۔ میں سینٹر کی منتظمہ تھی اور معالج بھی!
ہمارے سینٹر سے کچھ دور محکمۂ انہار کا دفتر تھا جہاں ایک آفیسر جنید تعینات تھے۔ جب کبھی مجھے ایمرجنسی میں کسی خاتون مریضہ کو شہر اسپتال پہنچانا ہوتا، میں جنید سے درخواست کرتی، فوراً جیپ بھجوا دیتے۔ جب کسی کی زندگی بچانے کا سوال ہوتا، وہ مدد کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے۔ ان کی یہی بات مجھے پسند تھی۔
رفتہ رفتہ یہ پسندیدگی پیار کے رشتے میں تبدیل ہوگئی۔ ہم دونوں شادی کے مقدس بندھن کے خواہاں تھے، مگر میں جانتی تھی ایسا ممکن نہیں ہے۔ والد کے بعد چچا ہمارے سرپرست تھے اور وہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ وہ اپنے بیٹے شیرو سے میری شادی کا تہیہ کرچکے تھے۔
ان کا بیٹا شیرو چٹا اَن پڑھ تھا۔ وہ بھینسیں چراتا اور چارہ اگاتا تھا۔ پھر بھی وہ اسی کو میرا منگیتر کہتے تھے۔ شیرو سے شادی کا تصور ہی میرے لئے سوہان روح تھا۔ میں بھول گئی تھی کہ بستی کے ایک چھوٹے سے بوسیدہ گھر میں کوئی مجھ سے شادی کا منتظر ہے اور یہ میرے چچا کا مکان تھا، جس کی چار دیواری گارے مٹی سے بنی تھی اور باورچی خانے کا کوئی تصور نہ تھا۔ صحن کے ایک طرف چھپر تلے مٹی کے چولہے بنے تھے۔
شیرو اکثر بنیان اور تہبند میں ملبوس رہتا اور کھیتوں میں ننگے پائوں پھرا کرتا۔ اجڈ دیہاتی سے بھلا میں کیسے شادی کرسکتی تھی۔ میں اس خیال سے ہی خوف زدہ ہوجاتی تھی کہ شیرو جیسا گنوار میرا جیون ساتھی بنے گا۔ اس بار جب ڈیوٹی سے گھر آئی تو چچا، اماں سے میری شیرو سے شادی کی بات کررہے تھے۔ موت منظور تھی مگر مجھے ان کے سپوت سے شادی منظور نہ تھی۔
میں نے اماں کو آگاہ کردیا کہ میں جنید کو پسند کرتی ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ ماں نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور کہا۔ توبہ کرو آئندہ ایسی بات مت کرنا، تیرے چچا نے سن لیا تو کبھی معاف نہ کرے گا اور شیرو اپنے ہاتھوں سے تیری جان لے لے گا۔ یہ بڑے دیوانے لوگ ہیں، بس لکیر کے فقیر ہیں۔ اگر شیرو سے بیاہ کرنا منظور نہیں تو عمر بھر کنواری رہ جانا مگر کسی اور سے شادی کا نام نہ لینا۔ اماں میں پڑھ لکھ گئی ہوں، ڈاکٹر بن گئی ہوں، ایک اَن پڑھ سے کیسے شادی کرسکتی ہوں۔ تو پڑھ لکھ گئی ہے، تیرے چچا تو پڑھے لکھے نہیں ہیں؟
میں جنید کو کوئی جواب نہ دے سکی اور اس کا تبادلہ لاہور ہوگیا۔ وہ مجھ سے دور چلا گیا اور اماں نے چچا سے کہہ دیا۔ جب تک ارشاد جیل سے باہر نہیں آجائے گا، میں شہر نہیں جائوں گی۔ ارشاد کی سزا پوری ہونے والی تھی۔ میرا معاملہ تو دور کی بات، ابھی ماں نے اپنا معاملہ حل کرنا تھا۔ وہ بہت خوف زدہ تھی کہ بیٹے کو اپنی دوسری شادی کی بات کیسے بتائے گی۔ وہ یقناً اس بات کو برداشت نہ کرسکے گا۔ ڈرتی تھی کہ کہیں کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا لے۔ اس جیسے جذباتی جوان کے لئے ماں کی دوسری شادی کا مژدہ موت کی خبر جیسا ہی تھا۔
جب ماں کو چچا نے بتایا کہ کل ارشاد رہا ہوکر آرہا ہے تو خوشی کی بجائے اماں کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، خوف کے مارے حلق سے تھوک نہ نگلا جاتا تھا۔ ماں کو خود بتانے کی نوبت نہ آئی۔ گائوں والوں نے بستی میں قدم رکھتے ہی اس کو مبارکباد دی کہ تیری ماں نے دوسری شادی کرلی ہے۔ وہ بپھرے ہوئے شیر کی طرح ہمارے سروں پر آپہنچا۔ صد شکر کہ چچا موجود تھے۔ انہوں نے ارشاد کو تھام لیا اور بازو سے پکڑ کر اپنے گھر لے گئے۔ تحمل سے کام لو۔ ایسا کیا گناہ کیا ہے تمہاری ماں نے…! اجازت لی تھی مجھ سے زبیدہ خاتون نے… اب ذرا میری بات بھی سن لو۔ تم جیل میں تھے اور مخالف تمہاری بہنوں کو زبردستی اٹھانے آرہے تھے۔ میں ناتواں کیا کرسکتا تھا۔ ایک حیثیت والا آدمی ہی تیری ماں اور بہنوں کی حفاظت کرسکتا تھا۔ ساجد نے پناہ دی، ہماری عزتوں کو خاک میں ملنے سے بچایا، اسی نے تمہارا کیس لڑا۔ تمہیں موت کے پھندے سے بچایا کہ آج تم کو رہائی نصیب ہوئی ہے اور تم زندہ گھر آگئے ہو۔
مگر میں اماں کو تو موت کے گھاٹ اتار کر رہوں گا۔ کس منہ سے ماں کو موت کے گھاٹ اتارنے چلے ہو؟ جس نے تمہاری خاطر قربانی دی ہے۔ احسان فراموش! اگر تم نے ایسا کیا، دنیا تم پر تھوتھو کرے گی۔ ایک قتل تو پہلے کرچکے ہو، اب کتنوں کی جان لو گے؟
غرض چچا نے اس کا غصہ ٹھنڈا کیا، مگر اس نے یہ کہہ کر ماں کو گھر سے نکال دیا کہ تو نے جس سے نکاح کیا ہے، اسی کے گھر چلی جا۔ میرے باپ کے گھر میں آئندہ قدم نہ رکھنا۔ ماں روتی ہوئی شہر چلی گئی۔ ساجد انکل نے کہا۔ میں نے پہلے ہی سمجھایا تھا کہ نکاح سے پہلے یہ بات بیٹوں کو بتا دو، تم ہی نے بتانے نہ دیا۔
ارشاد میرے ڈاکٹر بن جانے پر بھی خوش نہ تھا۔ کہتا تھا۔ کاش! مجھے یہ دن دیکھنے سے پہلے پھانسی ہوجاتی۔ والدہ کے جانے کے بعد ارشاد اکیلا نہ رہ سکا۔ وہ چچا کے گھر آگیا۔ والد مرحوم کے مکان کو تالا لگ گیا۔ میں بھی شہر آگئی۔ گائوں میں میرے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ مجھے معلوم تھا بھائی اور چچا مل کر میرا نکاح شیرو سے کرنے والے ہیں۔ چچا میری رخصتی کی فکر
تھے۔ ایک دن وہ شہر آئے اور ماں کو اپنے ساتھ گائوں لے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ ارشاد کا غصہ اب ٹھنڈا ہوچکا ہے، مگر ماں کو دیکھتے ہی اس کا زخم پھر سے تازہ ہوگیا۔
اس نے رات کے کسی پہر ماں کو موت کی نیند سلا دیا کہ والدہ نے میری جنید سے شادی کی بات کی تھی۔ ساجد انکل کی مدد سے بعد میں میری شادی تو جنید سے ہوگئی مگر ماں بچاری میری خوشی کی خاطر جان سے گزر گئی۔ (ف …فیصل آباد)