ہم چھوٹے تھے جب ممتا کے پیار بھرے سائے سے محروم ہوگئے۔ والد صاحب کو چار بچوں کو سنبھالنا محال ہوگیا۔ پھوپھی ان سے بڑی تھیں۔ جوانی میں بیوہ ہوگئیں تو ہمارے پاس آکر رہنے لگیں… ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ارشد تھا اور میرے بھائی فہیم سے دو برس بڑا تھا۔ پھوپھی نے بیٹے کی خاطر دوسری شادی نہ کی اور ابو کا سہارا لیا۔ والد نے بھی بیوہ بہن اور یتیم بھانجے کی سرپرستی قبول کرلی۔ انہیں بہت پیار سے رکھا… اب ہماری باری تھی۔
امی کی وفات کے بعد اچانک چار بچوں کی ذمے داری پھوپھی کے کندھوں پر آپڑی۔ کچھ عرصہ تو جوں توں گزرا۔ پھروہ والد کے کان کھانے لگیں… بھائی اکبر دوسری شادی کرلو… بیوی گھر آ جائے گی تو تمہیں سکون ملے گا۔
والد کو اپنے سکون سے زیادہ ہماری فکر تھی۔ نہیںچاہتے تھے کہ ہم سوتیلی ماں کے ہاتھوں اذیت میں بچپن گزار دیں… وہ دوسری شادی کو ٹالتے رہے… یوں پانچ برس بیت گئے۔
ایک روز ابو کے دیرینہ رفیق صغیر صاحب آئے تو ان کی بیوی ہمراہ تھیں، یہ ان کی دوسری بیوی تھی مگر بچوں کو بہت پیار سے رکھا ہوا تھا اور سگی ماں جیسا برتائو کرتی تھیں۔ تب ہی پھوپھی نے رضیہ چچی سے کہا۔ جیسی تم ہو ویسی ہی کوئی نیک اور رحم دل عورت میرے بھائی کے لئے ڈھونڈ دو… اکبر اس خوف سے دوسری شادی سے گریز کررہا ہے کہ سوتیلی ماں اس کے بچوںسے اچھا سلوک نہ کرے گی۔
رضیہ چچی بنگالی تھی… اس نے بتایا کہ اگر تمہارے بھائی بنگالی لڑکی سے شادی پر رضامند ہوں تو میں ایک عورت سے بات کروں گی جو بنگالی ہے اوررشتے کراتی ہے۔
پھپھو نے ابو سے بات کی، اور ان کو راضی کرلیا… تب ہی … رضیہ چچی نے رشتہ کرانے والی عورت سے ملا دیا، جس کا نام فوزیہ تھا، پھر فوزیہ ہمارے گھر آئی، حالات اور ماحول کا جائزہ لیا اور پھپھو کو ایک جگہ لے گئی۔ جہاں تین جواں سال لڑکیاں… فوزیہ کے ہمراہ رہتی تھیں… پتہ چلا کہ بنگال سے آئی ہیں اور ان لڑکیوں کے رشتے کرانے کی ذمہ داری فوزیہ پر ہے۔
پھپھو کو ان میں ایک لڑکی پسند آگئی، جس کا نام رشیدہ تھا لیکن جب رشتہ طے ہونے کا مرحلہ آیا تو فوزیہ نے حقیقت سے آگاہ کردیا کہ ایک گروہ جو بردہ فروشی کا دھندہ کرتا ہے ان لڑکیوں کو بنگال سے لایا ہے… دراصل یہ بردہ فروش بنگلہ دیش کے مختلف علاقوں سے غریب اور ضروتمند لوگوں کو ملازمت دلوانے کا جھانسہ دے کر پاکستان لاتے تھے اور یہاں مختلف دیہاتوں میں فروخت کردیتے تھے۔ ان میں جواں سال بیاہی اور بن بیاہی خواتین زیادہ ہوتی تھیں۔
پہلے تو پھپھو نے منع کردیا مگر رضیہ چچی کے سمجھانے پر رضامند ہوگئیں جو خود بھی بنگال کی تھیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ یہ لڑکیاں شریف اور شریف گھرانوں سے ہیں مگر مظلوم ہیں، اسی لئے فوزیہ بہت سوچ سمجھ کر ان کو کسی خاندان کے حوالے کرتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ یہ شریفانہ اور شادی شدہ زندگی گزاریں… اسی لئے ان کی شادیاں کراتی ہے جبکہ عام خریداروں کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ وہ ان کا کیا حال کریں گے، فوزیہ نے اسی طرح میری بھی شادی اچھے گھرانے میں کرائی اور اب میں پرسکون زندگی گزار رہی ہوں۔ رضیہ نے اپنی مثال دی۔
بات پھپھو کی سمجھ میں آگئی۔ بردہ فروشوں کو رقم سے مطلب تھا۔ ان کی بلا سے یہ مظلوم عورتیں شریف گھروں میں جائیں یا کوٹھے کی زینت بنیں لیکن فوزیہ دیکھ بھال کر ان کے رشتے کراتی تھی گویا… واقعی وہ اچھا کام کررہی تھی۔
اس میں ایک قباحت ضرور تھی، کبھی کبھی بے جوڑ رشتے بھی ہوجاتے تھے مثلاً… کوئی شہری لڑکی جو چار چھ جماعتیں پاس ہوتی، کسی دیہاتی سے بیاہ دی جاتی یا پھر عمر رسیدہ افراد نو عمر لڑکیوں کو خرید کر اپنے گھر کی زینت بنا لیتے۔ پھر حالات سے فرار کی خاطر کبھی کبھار یہ لڑکیاں کسی نوجوان سے روابط استوار کرکے گھر سے بھاگ جاتی تھیں۔ بہرحال یہ ایک الگ قصہ تھا… فی الحال پھپھو کو اپنے بھائی کے لئے کسی ایسی لڑکی کا انتخاب کرنا تھا جو لاوارث ہو اور ان کے یتیم بچوں کے ساتھ اچھا برتائو کرے۔
بھائی کی نظر رشیدہ پر پڑی جو خوبصورت تھی رنگت سانولی اور نیک طبیعت نظر آتی تھی۔ عمر سولہ سترہ اور غیر شادی شدہ تھی، جبکہ والد صاحب ان دنوں چالیس بیالیس کے تھے۔
فوزیہ نے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ… دلال نے قیمت رکھی ہے اور پندرہ ہزار میرا کمیشن ہے… وہ خریدار کو الگ سے دینا ہوگا اور یہ جملہ اخراجات، نکاح نامے پر دستخط ہوتے ہی ادا کرنا ہوں گے۔
پھپھو نے شرط منظور کرلی کیونکہ رشیدہ کا دلکش سراپا ان کو پسند آگیا تھا، وہ ہر صورت اُس کو بھابھی بنانا چاہتی تھیں۔
مقررہ دن… نکاح سے کچھ دیر پہلے فوزیہ نے اپنی ہم وطن لڑکی کو سجا سنوار کر دلہن بنا دیا… اور نکاح بھی اسی کے گھر پر ہوا۔ رسم نکاح کے وقت مطلوبہ رقم ادا کرکے والد صاحب رشیدہ کو اپنی گاڑی میں لے آئے۔ یوں ہماری نئی ماں آگئی۔
والد صاحب نے رشیدہ سے شادی اس وجہ سے کی کہ وہ لاوارث تھی۔ ان کا خیال تھا۔ سر جھکا کر رہے گی اور ہر بات مانے گی۔ ان کے بن ماں کے بچوں سے بھی اچھا برتائو کرے گی۔
یہ باتیں ان کو پھپھو نے بھی باور کرا دی تھیں۔ پھپھو کا قیاس صحیح نکلا۔ رشیدہ کو ابو کے گھر میں تحفظ اور سکون ملا تو وہ خود کو خوش نصیب خیال کرنے لگی۔ والد صاحب خوشحال آدمی تھے۔ گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی جبکہ رشیدہ تحفظ کے علاوہ زندگی کی ضروریات کو ترسی ہوئی تھی۔
اس نے آتے ہی مچھلی اور چاول کھانے کی فرمائش کی کیونکہ وہ روٹی، نان اور سالن زیادہ رغبت سے نہیں کھاتی تھی۔ ابو ہر روز تازہ اور لذیذ مچھلی لاتے۔ عمدہ خوشبودار چاولوں کی بوریاں گھر میں ڈلوا دی تھیں ۔ نئی بیوی سے بہت عزت اور پیار سے پیش آتے۔ قیمتی ساڑھیاں، میک اپ کا سامان، زیورات غرض ہر وہ شے جس کی فرمائش کوئی نئی دلہن کرتی ہے، بن مانگے لاکر رشیدہ کو دیتے تھے گویا… رشیدہ کی قسمت کھل گئی تھی۔
ابو کے حسن سلوک سے اس کا ملال جاتا رہا… خوش و خرم رہنے لگی اور ہمارا خیال رکھنے لگی۔ ہم بچے جو سوتیلی ماں کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے تھے، اب خوش تھے۔ لگتا تھا ہماری اپنی ماں واپس آگئی ہے۔ روزآنہ وہ ہم کو تیار کرتی۔ ہمارا سر دھلاتی۔ کپڑے بدلواتی اور فروٹ کا تازہ جوس نکال کر اپنے ہاتھوں سے پلاتی تھی، غرض کہ پھپھو سے بھی زیادہ توجہ سے دیکھ بھال کرنے لگی۔
ابو مطمئن ہوگئے۔ اپنی بہن کے شکر گزار تھے کہ انہوں نے واقعی عقلمندی سے کام لیا اور اتنی اچھی لڑکی ڈھونڈ کر لائیں۔ ابو رشیدہ سے خوش تھے مگر کبھی کبھی رشیدہ اداس ہوجاتی تھی، وہ اپنے وطن اور گھر والوں کو یاد کرتی، تب پھپھو تسلی دیتیں کہ بھائی اکبر سے کہوں گی وہ تمہارا پاسپورٹ بنوا دے تاکہ تم اپنے دیش جاکر والدین سے مل سکو۔
ایک روز پھپھو نے ابو سے کہا… تم رشیدہ کو لے کر بنگلہ دیش جائو تاکہ یہ اپنے والدین سے مل سکے… والد بولے… صبر کریں کچھ اور عرصہ اسے یہاں گزارنے دیں، ہم میں اچھی طرح رچ بس جائے پھر اس کے میکے ملوانے لے جائوں گا… دراصل… چچا صغیر نے والد صاحب کو سمجھا دیا تھا کہ تمہاری بیوی بنگلہ دیش جانے کے لئے اصرار کرے گی مگر جلد اسے مت لے جانا، جب تک دو چار بچے نہ ہوجائیں۔ ورنہ تمہارے پاس نہیں ٹکے گی۔
شادی کے دو برس بعد رشیدہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس کے دو برس بعد بیٹی اور پھر ایک بیٹا ہوا۔ یوں والد کے گھر چھ برسوں میں تین بچوں کی ماں بن گئی۔
اب وہ اپنے دیش کو کم یاد کرتی۔ بچوں کی پرورش میں کھو گئی۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کے دل میں وطن کی یاد ابھی باقی ہے۔ والد صاحب… ریٹائر ہوگئے تو انہوں نے اپنے محلے میں ایک جنرل اسٹور خرید لیا۔ یہ جما جمایا کاروبار تھا اور خوب چلتا تھا۔ تمام محلے والے اسی دکان سے خریداری کرتے تھے۔ ہم مزید خوشحال ہوگئے۔ ابو کا بھی دل لگا ہوا تھا، تمام لوگ ان کو جانتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے، ان کی عمر کے لوگ گپ شپ کرنے بھی آ جاتے تھے۔
والد صاحب کو کاروبار کے لئے ایک ’’ہیلپر‘‘ کی ضرورت پڑ گئی۔ اسی سلسلے میں فصیح الدین کو ملازم رکھ لیا جو ضرورت مند تھا اور والد صاحب کے جنرل اسٹور پر ملازمت کی تلاش میں آیا تھا ۔وہ بہت ہنس مکھ لڑکا تھا۔ جنرل اسٹور کو شیشے کی طرح چمکا کر رکھتا اور گاہکوں کے ساتھ خوش دلی سے پیش آتا۔ جلد ہی وہ محلے میں مقبول ہوگیا۔
جنرل اسٹور کی چھت پر ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ فصیح الدین رات کو وہاں سوتا تھا۔ ہمارے گھر کے اندر آنے کی اسے اجازت نہ تھی لیکن کبھی کبھار دروازے پر سودا سلف دینے آ جاتا تھا… ہم اسکول گئے ہوتے تو رشیدہ امی اس سے سودا لے لیتیں۔
تین ماہ بمشکل اس نے والد صاحب کے اسٹور پر ملازمت کی اور جانے کس وجہ سے وہ نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ ہم بچے تھے، والد صاحب کے کاروباری معاملات کو نہیں جانتے تھے۔ صبح دم گھر سے اسکول جاتے تو دوپہر دو بجے کے بعد لوٹتے۔
ایک دن کا ذکر ہے۔ بھائی فہیم اور پھوپھی زاد ارشد ایک ساتھ کالج سے لوٹے تو فصیح الدین کو گھر کی ڈیوڑھی میں کھڑا پایا۔ وہ حیران ہوئے کیونکہ یہ شخص ابو کی ملازمت چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اب یہاں کیا کرنے آیا تھا۔
فصیح الدین… تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟ ارشد نے سوال کیا تو وہ گھبرا گیا اور جواب دیئے بغیر تیزی سے نکل بھاگا۔
میرا یہ پھوپھی زاد ارشد خاصا سمجھدار تھا۔ اسے خیال گزرا یہ شخص بنگالی ہے اورماموں اکبر کی بیوی بھی بنگال کی ہے، ضرور یہ اسی وجہ سے آیا ہے، تبھی پھر رشیدہ امی سے پوچھا… ممانی سچ بتا دو۔ فصیح الدین کیوں آیا تھا۔ نہیں بتائو گی تو ماموں سے شکایت کردوں گا۔ وہ سن کر گھبرا گئیں… رنگ فق ہوگیا اور منت کرنے لگیں کہ خدا کے لئے ماموں کو مت بتانا… یہ آدمی آج کل بیروزگار ہے۔ ضرورتمند ہے مدد کے لئے آیا تھا، میں نے تھوڑی سی رقم دے دی ہے۔
کیا پہلے بھی رقم لینے آیا تھا۔ بولیں ’’ہاں‘‘ ایک دو بار آیا تھا مگر اب میں نے منع کردیا ہے، آئندہ نہیں آئے گا۔
اچھا ہوا کہ آپ نے منع کردیا۔ اگر آئندہ یہ کبھی گلی میں نظر آیا تو میں ضرور ماموں کو بتا دوں گا۔
رشیدہ گرچہ میرے والد کے ساتھ خوش اسلوبی سے رہتی تھی لیکن ابو… اب بیمار رہنے لگے تھے، وہ بوڑھے دکھائی دیتے تھے، جبکہ رشیدہ بھرپور جوان تھی، اس عورت نے ابو کے ساتھ بارہ تیرہ برس گزار دیئے تھے۔ ان کو شکایت کا موقع نہ دیا تھا، اب جبکہ وہ ان کے تین بچوں کی ماں تھی، شوہر سے کیسے بے وفائی کرسکتی تھی… پھر بھی ارشد کے ذہن میں شکوک و شبہات کے جھکڑ سے چلنے لگے تھے۔
اس واقعہ کے بعد ہماری بنگالی ماں ڈری سہمی رہتی۔ وہ بہت ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھی، تب ہی محلے بھر کی عورتیں اس کی گرویدہ تھیں۔ پہلے وہ کم کسی کے گھر جاتی تھی، اب اکثر جانے لگی۔ کبھی بازار جانے کا بھی بہانہ کرکے گھر سے نکل جاتی۔ میں اس تبدیلی پر حیران تھی۔
پھپھو بوڑھی ہوچکی تھیں، رشیدہ پر شک نہ کرتیں، جب یہ کہتی کہ جائوں… وہ جواب دیتیں جہاں جانا ہے جائو مگر جلدی آ جانا… بچے اسکول سے آتے ہی کھانا مانگتے ہیں۔ یوں رشیدہ امی نے روز صبح گھر سے باہر جانا معمول بنا لیا۔ جونہی بچے کالج اور اسکول کو جاتے تو یہ بھی ابو کے اسٹور پر جانے کے فوراً بعد گھر سے نکل جاتیں۔ اور ایک بجے دوپہر کو آتے ہی کھانا بنانے لگتیں۔
ان دنوں دسویں کے سالانہ امتحان ہونے والے تھے لہٰذا ہم اسکول نہیں جاتے تھے۔ میں گھر بیٹھ کر پرچوں کی تیاری کرتی تھی۔ روز امی کو گھر سے جاتے دیکھتی تو سوچتی تھی کہ اتنی صبح کہاں جاتی ہیں۔ ڈر کے مارے کسی سے نہ کہتی کہ ہم کو پیار دیا تھا اور ہمارے لئے ماں جیسی تھیں۔
سالانہ پرچے شروع ہوگئے، ایک دن فہیم بھائی مجھے امتحانی سینٹر سے لینے آئے تو ہم نے راستے میں ماں کو فصیح الدین کے ساتھ جاتے دیکھا۔ ہم دونوں ہی سوچ میں پڑ گئے۔
گھر آکر صلاح و مشورہ کرنے لگے۔ تب ہی ارشد بھی آگیا اور ہماری باتیں سن لیں۔ اس نے پوچھا تو فہیم نے بتا دیا کہ آج امی کو فصیح الدین کے ساتھ رکشہ میں جاتے دیکھا ہے۔
دوپہر ایک بجے کے قریب رشیدہ امی بھی آگئیں، ہم کو پاکر پریشان ہوگئیں، ارشد ایک کائیاں تھا، وہ ہم سے پہلے بات کو پا جاتا تھا، اس نے امی کو آڑے ہاتھوں لیا کہ سچ بتائو فصیح الدین کے ساتھ کہاں رکشے میں گئی تھیں، ورنہ ابھی ماموں کو جاکر بتاتا ہوں۔ وہ بری طرح ڈر گئیں، منت کرنے لگیں ماموں کو مت بتانا۔ سچ کہتی ہوں کہ میں فصیح الدین کے ساتھ پاسپورٹ کے آفس گئی تھی۔ دراصل میں اپنے والدین کے لئے بہت اداس ہوں اور ان سے ملنے جانا چاہتی ہوں، جبکہ تمہارے ماموں جانے نہیں دیتے… اسی وجہ سے فصیح کا سہارا لیا ہے، ورنہ میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔
اس وقت ارشد نے ماموں کو نہ بتانے کا وعدہ کیا تھا مگر رشیدہ امی کو اعتبار نہ تھا، وہ سمجھتی تھیں کہ یہ کسی نہ کسی وقت یہ بات ضرور بتا دے گا۔ پس اگلے روز جبکہ سب اپنے اپنے کاموں سے گھر سے نکل گئے، یہ بھی چلی گئیں اور دوبارہ نہ لوٹیں۔ امی کی گمشدگی سے ابو بہت پریشان تھے۔ دو چار دن تو انتظار میں رہے کہ شاید لوٹ آئے، اپنے بچوں کا ہی خیال کرلے… ہفتہ گزر گیا کچھ پتا نہ چلا… صاف ظاہر تھا کہ وہ فصیح الدین کے ساتھ چلی گئی تھیں۔
ابو کے خوف سے یا اس شخص کی چاہت میں یہ خدا کو معلوم… بہرحال… حیدرآباد سے ایک عزیز نے ابو کو اطلاع دی کہ تمہاری بیوی ایک بنگالی شخص کے ہمراہ آئی ہے، مجھ سے پناہ کی درخواست کی اور اب میرے گھر میں چھپی ہوئی ہے۔ وہ اپنی غلطی پر نادم ہے اور معافی کی خواستگار ہے۔
والد صاحب اس اطلاع پر بے حد رنجیدہ ہوئے، رشیدہ ان کے سیف سے بھاری کیش کے ساتھ اپنے تمام زیورات بھی لے گئی تھی، تاہم انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی اور طلاق کے کاغذات بھجوا دئیے۔
طلاق کے یہ کاغذات گویا آزادی کا پروانہ تھے۔ رشیدہ نے فصیح الدین سے نکاح کرلیا اور یہ لوگ حیدرآباد میں رہنے لگے۔
فصیح الدین خوبصورت اور جواں سال ضرور تھا مگر وہ نکما شخص تھا۔ اس نے کوئی کام نہ کیا، کچھ عرصہ ابو کے کیش اور زیورات پر گزر ہوتی رہی۔ اس کے بعد رشیدہ جو ابو کے گھر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی تھی نان شبینہ کو محتاج ہوگئی۔
فصیح الدین چرس پیتا تھا… وہ مزید نشہ کرنے لگا۔ رشیدہ کے بعد میں برے دن آگئے کیونکہ فصیح الدین اس کو دھمکاتا تھا، اگر میری شکایت کسی سے کی تو اس گروہ کے ساتھ دوبارہ تم کو بیچ دوں گا جو تم کو بنگلہ دیش سے اغوا کرکے لایا تھا۔ وہ موقع ملتے ہی ابو کے اسی عزیز کے پاس جاکر اپنے دکھ بتاتی جس نے ابو کو اطلاع دی تھی وہ صاحب ابو کو فون پر رشیدہ کا حال بتاتے۔
میرے والد اپنی بے وفا بیوی کی تکالیف کے بارے میں سنتے تو کڑھتے مگر کیا کرسکتے تھے، رشیدہ نے یہ رستہ خود چنا تھا۔ اب وہ محنت کرتی اور فصیح الدین اس کی کمائی پر عیش کرتا۔ اس سے بدسلوکی کرتا اور زندگی اجیرن رکھتا۔
وقت گزرتا رہا۔ فہیم بھائی نے تعلیم مکمل کرلی اور ملازمت حیدرآباد میں ہوگئی۔ ایک روز اپنے ایک دوست کے ساتھ اسپتال گئے جہاں اس کی ماں کا آپریشن تھا۔ ایک عورت نظر آئی جو بہت خستہ حال لگ رہی تھی، وہ اس اسپتال میں آیا تھی، اس کے نقوش بھلے تھے لیکن رنگت سیاہ ہوچکی تھی، وہ بوڑھی اور بدصورت نظر آرہی تھی۔
بھائی پہچان نہ سکا مگر وہ ان کی طرف والہانہ لپکی اور آواز دی فہیم بیٹا۔ ادھر آئو، کیا مجھے نہیں پہچانا… میں ہوں تمہاری ماں رشیدہ۔ فہیم کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا، کہاں وہ قیمتی لباس زیب تن کرنے والی خوبصورت رشیدہ امی اور کہاںاسپتال کی یہ خستہ حال میلی سی آیا… جس کی سفید وردی پر بھی دھبے تھے۔
یہ وہ ہماری رشیدہ امی نہیں ہوسکتیں۔ بھائی کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آرہا تھا مگر یہ حقیقت تھی، یہ ہماری وہی ماں تھی جس کو ان کی حماقت نے اس حال پر پہنچا دیا تھا۔ بھائی نے پوچھا… وہ فصیح الدین کدھر ہے جس نے تم کو تمہاری جنت سے نکال کر اس حال میں پہنچایا ہے۔ وہ بولی… بیٹا اس بدبخت کا نام نہ لو… بس مجھے اس قدر بتا دو کہ میرے بچے کیسے ہیں؟ مجھے یاد کرتے ہیں کہ نہیں۔
وہ ٹھیک ہیں اور تم کو بالکل یاد نہیں کرتے۔ جب فہیم نے ایسا کہا تو وہ رونے لگیں اور منت کرنے لگیں، ایک بار مجھے میرے بچوں سے ملوا دو… ان کے رونے پر بھائی کا دل نرم پڑ گیا، کہنے لگے اچھا… تم کراچی آنا تو بتانا، میں ان کو تم سے ملوانے کی کوشش کروں گا۔
ہفتہ بعد وہ چھٹی پر گھر پہنچا تو امی رشیدہ کی ایک سہیلی خالہ شگفتہ آئی اور سرگوشی میں بتایا … رشیدہ میرے گھر آئی ہے کیا تم نے اسے بچوں سے ملوانے کا کہا تھا… یہ سن کر میرے بھائی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، مگر پھر رشیدہ امی کے آنسو یاد آگئے۔ خالہ میں کیسے ملوائوں، ابو خفا ہوں گے۔ ان کے تینوں بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں، آپ وہاں ان کو ملوا دیں مگر میرا نام نہیں آنا چاہئے… خالہ شگفتہ چلی گئیں۔
شام کو رشیدہ امی دروازے پر آگئیں… بیٹا فہیم تم کو اپنی ماں کا واسطہ بیٹا… میرے چاند… نوری اور زلفی کو دروازے تک لے آ… میں گھڑی بھر کو ان کی صورت دیکھ لوں۔
فہیم نے ہاتھ جوڑے۔ امی رشیدہ خدا کے لئے ابھی چلی جائو۔ ابا آنے والے ہیں۔ میں کل تم کو کسی طرح ان سے ملوا دوں گا۔ فہیم نے ان کو ٹالا اور مجھے کہا کہ اب تم کسی طرح مدد کرو۔ مجھے ترس آگیا۔ اگلے روز اسکول کی چھٹی تھی، میں خالہ شگفتہ کی بیٹی سے ملنے کے بہانے ان کے گھر گئی، کیونکہ روبی میری سہیلی تھی۔ میں چاند، نوری اور زلفی کوساتھ لے گئی۔
وہاں خالہ شگفتہ نے ان کو امی رشیدہ سے ملوایا مگر افسوس بچوں نے ماں کے پاس جانے سے انکار کردیا۔ وہ منت کرتی رہیں… میرے بچے…میرے قریب تو آئو… وہ دور کھڑے رہے پھر بھاگ کر گھر آگئے… وہ ایسی اجنبی آنکھوں سے اس عورت کو گھورتے رہے جیسے وہ ان کی ماں ہی نہ ہو۔
قدرت عورت کو اس کی غلطی کی سزا ضرور دیتی ہے۔ رشیدہ گرچہ ایک مظلوم عورت تھی کہ زبردستی بیاہی گئی اور دھوکے سے اغوا کی گئی مگر جب وہ ماں بنی تب بھی اپنے والدین کی محبت کو نہ بھلا سکی۔ تب ہی تو اپنے بچے چھوڑ کر وہ فصیح الدین کی باتوں میں آگئی جو لالچی، دھوکے باز انسان تھا۔ اپنے پیار کرنے والے شوہر کو دھوکا دینے کی غلطی کرکے رشیدہ نے نہ صرف جنت سے جہنم کا راستہ اختیار کیا بلکہ… اپنے بچوں کو بھی ممتا سے محروم کیا۔ وہ یہ نہ سوچ سکی کہ جب جوان ہوکر وہ اپنے گھر ماں باپ کو نہیں بھلا سکی تو اس کے چھوٹے بچوں پر ماں کی جدائی سے کیا قیامت گزرے گی لیکن… بچے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ ان کی ماں بے وفا ہے تو اس کی پیار بھری بانہوں میں جانے اور گلے لگنے سے صاف انکار کردیا۔ میں جانتی تھی کہ وہ کبھی اپنی ماں کے پیار کو نہیں بھلا سکتے۔ یہ پیار ان کے دل میں مرتے دم تک رہے گا مگر انہوں نے صبر کیا اور حالات کو سمجھ کر ماں کو جھوٹی آس نہیں دلائی۔ والد صاحب کو جب اس واقعے کا علم ہوا انہوں نے اپنا جنرل اسٹور اور مکان فروخت کیا اور دوسری جگہ مکان خرید کر رہائش اختیار کرلی تاکہ آئندہ رشیدہ دوبارہ ان کے بچوں کو ڈسٹرب نہ کرے۔
رشیدہ امی نے ہم کو ماں کا پیار دیا تھا، اسی لئے آج بھی ان کی اچھی یادیں ہمارے دل میں ہیں اور ہم نے بھی اس نیکی کے بدلے ان کے تینوں بچوں کو پیار دیا۔ خاص طور پر میری بہن اور بھائی فہیم نے، تاکہ ان کو پیار کی کمی محسوس نہ ہو۔ (س… ڈیرہ غازی خان)