Thursday, January 23, 2025

Maamta | Complete Story

یہ بات سوزن پر بجلی بن کر گری تھی کہ اس کا شوہر جیف ان کی چار سالہ بیٹی کو اس کے اسکول سے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ جیف کے ساتھ اس کے تعلقات تب سے کشیدہ ہوئے تھے جب اسے اچانک پتا چلا تھا کہ وہ ایک مجرم ہے۔ وہ ہیرے چرانے والے ایک گروہ میں شامل تھا۔ پولیس اس کو ڈھونڈتی ہوئی ان کے گھر تک آگئی تھی لیکن اتفاق سے جیف اس وقت گھر پر نہیں تھا۔
سوزن کے لئے یہ سوہان روح تھا کہ اس نے ایک مجرم سے محبت کی تھی۔ جس نے اسے پتا ہی نہیں چلنے دیا تھا کہ اس کا اصل کاروبار کیا ہے… شادی کے بعد اس کا رویہ کچھ اتنا اچھا نہیں تھا… لیکن سوزن ننھی جیمی کی وجہ سے اسے برداشت کر رہی تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو باپ کی شفقت سے محروم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر جیسے ہی اسے جیف کی مجرمانہ سرگرمیوں کی خبر ہوئی تھی اس نے جیف سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ جیمی کو اسکول سے اپنے ساتھ لے جائے گا اور اس کا کہیں سراغ بھی نہیں ملے گا۔
اس پریشانی میں اس کا خاصا وزن کم ہوگیا تھا۔ وہ بار بار خود کو یقین دلاتی تھی کہ جیف جیمی کا باپ ہے۔ وہ اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا… لیکن اسے ایک پل بھی چین نہیں آتا تھا۔ سنہری بالوں اور سبزی مائل نیلی آنکھوں والی اس کی گڑیا سی بیٹی نہ جانے کہاں تھی… کس حال میں تھی… اسے کچھ خبر نہیں تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اسے کبھی نہ کبھی فون ضرور کرے گی۔ اس نے جیمی کو اپنا فون نمبر خوب اچھی طرح سے یاد کروا رکھا تھا۔
سوزن کی راتیں بے خواب تھیں… ایک خوف ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا… اگر جیمی کو کچھ ہوگیا تو؟ اگر وہ اسے نہ ملی تو؟
اس کا دل چاہتا تھا کہ زور زور سے چیخے۔ ہر طرف جیمی کو پکارتی پھرے۔ یہاں تک کہ وہ اسے پا لے… لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور پورے سات ماہ گزر گئے تھے۔ پولیس نے کئی جگہ چھاپے مارے تھے۔ مگر جیف کا کچھ پتا نہیں چلا تھا کہ وہ کہاں غائب ہوگیا تھا۔
٭ … ٭ … ٭
جیمی اپنے بیڈ پر سہمی ہوئی سی بیٹھی تھی۔ وہ کوشش کر رہی تھی کہ ان آوازوں کو نہ سنے جو لائونج سے مسلسل آ رہی تھیں۔ ڈیڈی اور تانیا میں پھر جھگڑا ہو رہا تھا۔ دونوں پوری آواز سے چیختے ہوئے ایک دوسرے پر کمرے کی چیزیں پھینک رہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ عورت نہ جانے کون تھی اور ڈیڈی کے گھر میں کیوں رہتی تھی، جبکہ دونوں آپس میں لڑتے ہی رہتے تھے۔
جیمی کوشش کر رہی تھی کہ ممی کے بارے میں سوچے اور ان تمام باتوں کے بارے میں جو اس نے اور ممی نے کرسمس کی شام منانے کے بارے میں طے کی تھیں کہ وہ کہاں کہاں گھومیں گے۔ کون کون سی خریداری کریں گے اور کس طرح چرچ میں جا کر عبادت کریں گے۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھی کہ جب کرسمس کی شام آئے تو خدا ممی کو بھی اس کے پاس بھیج دیں اور وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے وہ سب کچھ دکھائیں۔ جس کا انہوں نے پروگرام بنایا تھا۔
ڈیڈی اسے ممی سے بہت دور لے آئے تھے اور آج رات انہیں پھر ایک اور نئے شہر جانا تھا۔ اسے تانیا کی آواز سنائی دی۔ وہ بہت غصے سے اسے پکار رہی تھی۔ جیمی اس کی طرف دیکھتے ہوئے ڈرتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ تانیا اسے پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ ڈرتے ڈرتے کمرے سے باہر آئی۔ ڈیڈی اخبار پڑھ رہے تھے۔ وہ اس کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوئے… وہ بہت بدل گئے تھے۔ انہوں نے اسے تھپڑ بھی مارا تھا جب اس نے ممی کو فون کرنے کی کوشش کی تھی۔
ڈیڈی کہتے تھے کہ ممی بہت بیمار ہے۔ وہ اس لئے اسے اپنے ساتھ لے آئے تھے کہ وہ انہیں تنگ نہ کرے۔ جیمی آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ میز پر اس کے لئے کارن فلیکس اور اورنج جوس کا ایک گلاس لکھا ہوا تھا۔ تانیا ہمیشہ یہی ناشتا اسے کھانے کے لئے دیتی تھی، جس سے اسے نفرت ہوچکی تھی اور جسے کھانے سے اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا۔
ڈیڈی اخبار میں کوئی خبر پڑھ رہے تھے۔ جس میں پولیس کا ذکر تھا۔ تانیا ان کے پیچھے کھڑی ان کے شانے پر سے اخبار دیکھ رہی تھی۔ دونوں سفر کی تیاریوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جیمی بے دلی سے کارن فلیکس کھا رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے یہ بدمزہ ناشتا نہ کیا تو دن بھر بھوکی رہے گی۔ تانیا کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی کہ اس نے کچھ کھایا یا نہیں کھایا۔
جیسے جیسے وہ جانے کی باتیں کرتے تھے جیمی کا دل گھبراتا تھا۔ یہ بات اسے پریشان کر رہی تھی کہ اس طرح وہ ممی سے اور زیادہ دور چلی جائے گی… تو ممی اس تک کیسے پہنچیں گی… وہ ابھی ٹیبل پر ہی بیٹھی تھی کہ ڈیڈی اور تانیا بیڈروم میں چلے گئے۔ جیمی بھی اپنے کمرے میں آگئی۔ اس نے جامنی ٹرائوزر اور اس سے ملتی ہوئی شرٹ پہن لی۔ یہ وہ کپڑے تھے جو جیمی نے اس دن پہن رکھے تھے جب ڈیڈی اسے اسکول لینے آئے تھے۔ کیونکہ ممی بیمار تھی۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ ممی نے یہ کپڑے اس روز کتنی محبت سے اسے پہنائے تھے۔ کتنے پیار سے اس کے بالوں میں برش کیا تھا۔
یہ کپڑے اسے چھوٹے ہوچکے تھے۔ مگر وہ پھر بھی انہیں پہننا پسند کرتی تھی۔ وہ باہر آئی تو ڈیڈی اور تانیا کہیں جانے کے لئے تیار تھے۔ ڈیڈی نے ایک بریف کیس تھام رکھا تھا۔ جو بھاری معلوم ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر انہوں نے کہا۔
’’میں اور تانیا تھوڑی دیر کے لئے باہر جا رہے ہیں… میں دروازے پر ڈبل لاک لگا دوں گا تاکہ تم محفوظ رہو… ہمارے آنے تک تم ٹی وی وغیرہ دیکھنا پھر تانیا تمہیں اپنے ساتھ بازار لے جائے گی تاکہ تمہارے لئے کچھ گرمیوں کے کپڑوں کی خریداری کرسکے۔ ہم جہاںجا رہے ہیں وہاں موسم گرم ہے۔ تم کرسمس کا تحفہ بھی لے لینا… اچھا!‘‘
جیمی نے مسکرا کر سر ہلایا۔ اس کا ننھا سا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ ڈیڈی نے فون کو تالا نہیں لگایا تھا۔ شاید وہ بھول گئے تھے۔ وہ بے چینی سے ان کے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ آج وہ ممی کو فون کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
وہ چلے گئے تو اس کا دل خوشی سے بلّیوں اچھلنے لگا۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا تاکہ وہ کچھ دور نکل جائیں۔ پھر وہ دوڑ کر ٹیلیفون تک گئی اور اس نے اپنے ننھے ہاتھوں میں ریسیور اٹھایا۔ وہ ہر رات ممی کے نمبر کو کئی بار دہراتی تھی کہ کہیں بھول نہ جائے… ممی نے بڑی محنت سے اسے اپنا نمبر یاد کرایا تھا۔ وہ ایک ایک نمبر ملا کر اسے یاد کرنے کے لئے کہتی تھیں۔
اچانک دروازہ کھلا اور اسے ڈیڈی کی آواز سنائی دی۔ ریسیور اس کے ہاتھ سے گرگیا۔ ڈیڈی نے ریسیور اُٹھا کر کان سے لگایا پھر ریسیور پٹخا اور لاک لگاتے ہوئے بولے۔ ’’آج اگر کرسمس کی شام نہ ہوتی تو میں تمہیں زور سے ایک تھپڑ لگاتا۔‘‘
وہ لوگ پھر چلے گئے۔ جیمی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے گھٹنوں پر سر رکھ دیا اور خود کو سمجھانے لگی کہ وہ پانچ سال کی بڑی لڑکی ہے۔ ممی کہتی تھیں کہ بڑی لڑکیاں رویا نہیں کرتیں… ضبط کی کوشش کے باوجود اس کی آنکھیں نم آلود ہوگئی تھیں اور اس کا نچلا گلابی ہونٹ بار بار کانپنے لگتا تھا۔
اس طرف سے اپنی توجہ ہٹانے کو وہ اس پروگرام کے بارے میں سوچنے لگی جو ممی نے کرسمس کی شام کے لئے بنایا تھا۔ پارک کی سیر، اچھے سے ہوٹل میں کھانا… کھلونوں اور کپڑوں کی خریداری وہ خیالوں ہی خیالوں میں ممی کا ہاتھ تھامے ان تمام جگہوں کی سیر کر رہی تھی۔
تانیا اور ڈیڈی جلد واپس آگئے۔ تانیا نے اپنا کوٹ نہیں اتارا اور جیمی سے بولی۔ ’’چلو اٹھو… جلدی سے چلو میرے ساتھ… میں تمہیں شاپنگ کرا لائوں۔ پھر پیکنگ بھی کرنی ہے۔‘‘
جیمی نے جلدی سے اپنا کوٹ پہنا اور اس کے ساتھ چل دی۔ تانیا کو اسے شاپنگ کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے سیلز گرل سے گرمی کے کچھ کپڑوں کے لئے کہا اور بیزاری سے بولی۔ ’’تمہارے ڈیڈی کہہ رہے تھے کہ تم کچھ کھلونے بھی کرسمس کے تحفے کے طور پر لے سکتی ہو۔‘‘
کھلونوں کے سیکشن میں جیمی کے سامنے ڈھیروں کھلونے تھے۔ مگر اس کا دل کچھ بھی خریدنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ممی کے بجائے اس بیزار عورت کے ساتھ کرسمس کی خریداری کرنے کا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کی نگاہ اچانک مکی مائوس پر پڑی۔ اسے یاد آیا کہ گھر میں وہ مکی مائوس کو اپنے ساتھ بستر میں سلاتی تھی۔ جیمی نے جب وہ لینا چاہا تو تانیا نے وہ اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور بولی۔ ’’یہ اتنا بڑا مکی مائوس ہم جہاز میں کہاں گھسیٹتے پھریں گے۔‘‘
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دکان سے باہر لے آئی۔ اس نے گھر کے لئے ٹیکسی لے لی۔ جیمی اس کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئی… ٹیکسی جب گھر کے قریب پہنچی تو تانیا یکدم بہت گھبرا گئی۔ گھر کے باہر پولیس کی دو گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ جیمی نے دیکھا کہ سامنے سے ڈیڈی آ رہے تھے… ان کے اردگرد دو پولیس والے تھے اور ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔
جیمی حیرت سے ان کی طرف اشارہ کرنے کو تھی کہ تانیا نے اس کے گھٹنے پر زور سے چٹکی کاٹ کر اسے خاموش کروا دیا اور ٹیکسی والے سے بولی۔ ’’میرا ایک ضروری شاپنگ بیگ مارکیٹ میں رہ گیا ہے… تم واپس چلو۔‘‘
ٹیکسی والے نے گاڑی واپس موڑ لی۔ جیمی کو کچھ پتا نہ چلا کہ ڈیڈی کو پولیس کہاں لے گئی تھی۔ وہ تانیا سے بھی نہیں پوچھ سکتی تھی۔ اس کے چہرے کے نقوش تنے ہوئے تھے اور اس کا ہاتھ ابھی تک جیمی کے گھٹنے پر تھا، جہاں اس نے بڑے زور سے پہلے بھی چٹکی کاٹی تھی۔ جیمی الجھی ہی رہی۔ اس کے اندر خوف گھر کرتا رہا۔ اگر ڈیڈی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تو وہ تانیا کے ساتھ کیسے رہے گی جو پہلے ہی اس سے نفرت کرتی تھی۔
مارکیٹ میں تانیا نے اپنے لئے ایک سوٹ کیس، کوٹ، ہیٹ اور سیاہ شیشوں والی ایک بڑی سی عینک خریدی… وہ بہت جلدی جلدی سارے کام کر رہی تھی۔ چیزیں خریدنے کے بعد اس نے سیلز گرل سے کہا کہ وہ اپنا نیا لباس تبدیل کرنا چاہتی ہے اور ٹرائی روم میں چلی گئی۔ جب وہ باہر آئی تو جیمی اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس کا حلیہ بالکل تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ تانیا کے بجائے کوئی اور عورت لگ رہی تھی۔ اس نے اپنے سارے بال ہیٹ میں چھپا لئے تھے۔ اس کا سیاہ چشمہ اتنا بڑا تھا کہ اس کا چہرہ اس میں تقریباً چھپ گیا تھا۔
جیمی کو بہت بھوک لگی تھی۔ صبح سے اس نے صرف تھوڑے سے کارن فلیکس کھائے تھے۔ راستوں میں کافی رش تھا۔ لوگ کرسمس کی خریداری کے بنڈل سنبھالے اپنے اپنے گھروں کی طرف رواں دواں تھے۔ جگہ جگہ سانتاکلاز کھڑے تھے، جن کے ڈبوں میں لوگ پیسے ڈال رہے تھے۔ ایک کونے میں اسے برگر اور کوک کا ٹھیلا
نظر آیا۔ جس پر بڑی سی چھتری لگی ہوئی تھی۔ جیمی نے ڈرتے ڈرتے تانیا کی آستین کھینچ کر اسے متوجہ کیا۔ ’’کیا میں یہ برگر لے سکتی ہوں… مجھے بہت بھوک لگی ہے۔‘‘
تانیا ٹیکسی کو ٹھہرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ غصے سے غرائی۔ ’’تم بھی کیا مصیبت ہو… چلو… جائو مرو… لے لو برگر… مگر ذرا جلدی سے!‘‘
جیمی نے ٹھیلے والے کو برگر کے لئے کہا۔ تب تک تانیا ٹیکسی روک چکی تھی۔ برگر والا ابھی اس میں کیچپ لگا ہی رہا تھا کہ تانیا نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’بس کیچپ کو رہنے دو۔‘‘
ٹیکسی میں بیٹھ کر جیمی نے برگر کھانے کی کوشش کی تو ٹیکسی والے نے روک دیا کہ گاڑی میں بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ جیمی کے پیٹ میں بھوک سے مروڑ سے اٹھ رہے تھے۔ اس کے ہاتھ میں برگر کا لفافہ تھا لیکن وہ اسے کھا نہیں سکتی تھی۔ وہ بے چینی سے انتظار کر رہی تھی کہ وہ کب ٹیکسی سے اتریں گے۔ خدا خدا کرکے سفر تمام ہوا اور وہ ایک بڑی سی بلڈنگ کے باہر اترے… تانیا اِدھر اُدھر یوں دیکھ رہی تھی جیسے کسی سے خوفزدہ ہو۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے آئی جہاں بہت سے لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ ایک گوشے میں ایک بوڑھی عورت سو رہی تھی۔ اس کا ہاتھ اس کے قریب رکھے ہوئے سوٹ کیس پر تھا۔ تانیہ نے جیمی کو اس کے برابر بٹھا دیا اور تاکید سے بولی۔ ’’اچھا جیمی… تم یہیں پر میرا انتظار کرو… میں ایک گھنٹے تک واپس آتی ہوں۔ تب تک تم اپنا برگر اور کوک ختم کرو۔ یہاں خاموشی سے بیٹھنا… کسی سے کوئی بات نہ کرنا۔ اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ تم اس آنٹی کے ساتھ ہو۔‘‘
جیمی کے پیٹ میں بھوک سے چوہے دوڑ رہے تھے۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا کہ اسے آرام سے بیٹھ کر کھانے کا موقع ملے گا۔ برگر ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اس میں کیچپ بھی نہیں تھا لیکن جیمی کو بھوک اتنی زیادہ لگی ہوئی تھی کہ اسے وہ ٹھنڈا برگر بھی اچھا لگا۔ تانیا اس کے سامنے برقی زینے سے اوپر کی منزل پر چلی گئی۔
برگر ختم ہوگیا۔ جیمی اِدھر اُدھر دیکھتی رہی۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ زیادہ تر لوگوں نے سامان اٹھا رکھا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ کوئی اسٹیشن تھا۔ کافی وقت گزر گیا۔ جیمی کی پلکیں بوجھل ہوگئیں اور وہ اونگھنے لگی۔ پھر شاید سو گئی… نہ جانے وہ کب تک سوتی رہی… پھر بوڑھی عورت کے جھنجھوڑنے سے وہ بیدار ہوئی۔ وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
’’بے بی تم اکیلی ہو؟‘‘ اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
’’نہیں… تانیا ابھی آ رہی ہے۔‘‘ جیمی کے لئے نیند کے مارے بات کرنا دشوار تھا۔
’’تم کافی دیر سے یہاں بیٹھی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تانیا ابھی آ جائے گی۔‘‘ جیمی نے پھر وہی بات دہرا دی۔
’’اچھا… ٹھیک ہے… میں نے اپنی بس پکڑنی ہے… میں جا رہی ہوں… تم یہاں بیٹھی رہنا… کسی سے بات نہ کرنا… نہ ہی اٹھ کر کہیں جانا… جب تک تانیا نہیں آ جاتی۔‘‘ بوڑھی عورت نے اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور چلی گئی۔ بہت دیر ہوگئی۔ پھر اس کی نظر وہاں لگی ہوئی گھڑی پر پڑی۔ ممی نے اسے وقت دیکھنا سکھایا تھا۔ چھوٹی سوئی چار پر تھی اور بڑی سوئی ایک پر… اس نے بہت سوچ سوچ کر اندازہ لگایا کہ چار بج چکے تھے۔ راستے میں تانیا نے کائونٹر پر سے بس کی روانگی کا ٹائم پوچھا تھا تو کلرک نے دو بجے کا وقت بتایا تھا۔
اس کا مطلب تھا کہ تانیا اسے اپنے ساتھ نہیں لے کر گئی تھی۔ وہ یہاں اکیلی تھی۔ اب اسے کہاں جانا چاہئے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ڈیڈی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی اور تانیا نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔ وہ ممی کو فون کرسکتی تھی۔ اسے نمبر بھی یاد تھا۔ اب کوئی اسے منع بھی نہیں کرے گا… ممی آ جائیں گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا… لیکن اس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ وہ فون کرسکتی۔ اسے رونا آ رہا تھا۔ وہ ممی کو کس طرح یہاں بلا سکتی تھی۔ اس کا کوئی طریقہ اسے معلوم نہیں تھا۔
اس نے آنسو بھری آنکھوں سے ڈرتے ڈرتے چاروں طرف دیکھا۔ سامنے ایک بڑا خودکار دروازہ تھا۔ جہاں سے لوگ آ جا رہے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ بلڈنگ سے باہر نکلنے کا یہی راستہ تھا۔ اگر وہ یہاں سے باہر نکل جاتی تو گھر کا راستہ تلاش کرسکتی تھی۔ اس نے ڈیڈی اور تانیا کو ٹیکسی والوں کو ایڈریس بتاتے ہوئے سنا تھا۔ وہاں جا کر وہ ہمسایوں سے ممی کو فون کروا سکتی تھی۔
تانیا خریداری کا لفافہ اس کے پاس ہی چھوڑ گئی تھی۔ اگرچہ وہ بھاری تھا، لیکن جیمی نے جیسے تیسے اسے اٹھا لیا۔ وہ باہر سڑک پر آئی تو ہوا تیز تھی۔ اندھیرا اور ٹھنڈک بڑھ چکی تھی۔ ہیٹ کے بغیر سرد ہوا اس کے سر کو سرد کر رہی تھی۔ اس نے وہاں ایک شخص کو اخبار بیچتے ہوئے دیکھا۔ اسے ممی نے بتایا تھا کہ اگر وہ کبھی گم ہو جائے تو گھبرائے نہیں… نہ ہی کسی کو اس کا پتا چلنے دے… ان لوگوں کے ساتھ ساتھ چلتی رہے جن کے ساتھ بچے ہوں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ وہ ان کے ساتھ ہے… اکیلی نہیں…
اس نے کچھ دور ایک عورت کو دیکھا جس نے ایک بچہ اٹھا رکھا تھا اور ایک بچوں کی گاڑی کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جیمی جلدی سے اخبار والے کے قریب پہنچی اور اس عورت کی طرف اشارہ کرکے بولی۔ ’’مجھے اور ممی کو اس ایڈریس پر جانا ہے۔‘‘ اس نے خوداعتمادی سے ایڈریس بتایا۔
’’بے بی… وہ تو بہت دور ہے… تمہیں کافی چلنا پڑے گا۔ یہاں سے سیدھے چلتے جائو اور ہر بلاک کا بورڈ دیکھتے جانا۔‘‘
جیمی گھبرائی… لیکن اسے یہ اطمینان ہوگیا کہ اگر وہ ہمت کرے تو چلتے چلتے آخر گھر تک پہنچ ہی جائے گی۔ اس نے سر جھکایا اور خریداری کا لفافہ تھامے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
٭ … ٭ … ٭
سوزن کو پولیس نے اطلاع دی تھی کہ جیف کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن اس کے اپارٹمنٹ میں جیمی کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ اس کی ساتھی تانیا جیمی کو لے کر کہیں غائب ہوگئی تھی۔ سوزن کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ کیا وہ جیمی سے کبھی نہیں مل سکے گی۔ یہ پریشانی اس کے دل پر آنسو بن کر گر رہی تھی۔ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے پولیس آفیسر سے کہا۔ ’’کیا میں جیف سے مل سکتی ہوں؟‘‘
’’ہم نے ہر طرف ناکے لگا رکھے ہیں۔ ہم آپ کی بیٹی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘‘
’’لیکن میں جیف سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ وہ دانت بھینچ کر بولی۔ تھوڑی دیر میں جیف اس کے سامنے تھا۔ دو پولیس والے اس کے دائیں بائیں تھے اور اسے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر ڈھٹائی سے مسکرایا۔
’’ہیلو سوزن…!! اتنے عرصے بعد تمہیں دیکھنا اچھا لگا ہے۔ تم کچھ کمزور ہوگئی ہو لیکن پھر بھی خوبصورت لگ رہی ہو۔‘‘ وہ یوں بول رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
’’مجھے بتائو کہ وہ عورت جیمی کو کہاں لے جاسکتی ہے؟‘‘ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پھنساتے ہوئے
(بقیہ : مامتا)
کہا کہ کہیں وہ بڑھ کر اس سنگدل شخص کا چہرہ نہ نوچ لے۔
جیف نے شانے اچکا کر عجیب سی شکل بنائی۔ ’’مجھے کیا پتا!‘‘
’’جیف… اگر جیمی کو کچھ ہوا… تو میں تمہیں قتل کردوں گی۔‘‘ سوزن اپنی سسکیاں روکتے ہوئے چلائی۔
پولیس اہلکار جیف کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ آفیسر اسے ویٹنگ روم میں لے آیا۔ سوزن کے لئے بیٹھنا محال تھا۔ اس نے کافی لینے سے بھی انکار کردیا۔ اس نے دعا مانگنی چاہی لیکن اسے کوئی لفظ نہیں سوجھا… اس کے سارے وجود میں بس ایک ہی بات گردش کر رہی تھی۔ ’’جیمی… اپنی ممی کے پاس آ جائو… جیمی… ممی کے پاس آ جائو۔‘‘
ایک ایک پل گزارنا مشکل تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ انتظار کی سولی پر ایک ایک لمحہ جانکنی کا تھا۔ پھر آفیسر نے بتایا کہ ایک بس کے اڈے پر ایک عورت کو چھوٹی بچی کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ جس کا حلیہ جیمی سے ملتا جلتا تھا۔ پولیس اسے تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تقریباً پون گھنٹے بعد اطلاع ملی کہ تانیا کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس نے پولیس کو دھوکا دینے کے لئے بس کا ٹکٹ خریدا تھا۔ سوزن بے چین ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔ ’’کیا اس کے ساتھ جیمی ہے؟ مجھے اس سے ملا دو۔ میری بچی کہاں ہے؟‘‘ آنسوئوں میں اس کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔
’’تانیا نے بتایا ہے کہ اس نے جیمی کو بسوں کے اڈے کے ویٹنگ روم میں بٹھا دیا تھا۔‘‘ آفیسر نے بتایا۔
’’اوہ… میرے خدا… وہ کتنی بے رحم عورت ہے!‘‘
’’ہم نے پتا چلایا ہے کہ جیمی کے حلیے کی بچی کو دو عورتوں کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔‘‘
’’اب کیا ہوگا… ہائے میری بیٹی…‘‘ سوزن نے دل تھام کرکہا۔
’’مجھے امید ہے آپ کی بیٹی مل جائے گی… آج کرسمس کی شام میں ہجوم کی وجہ سے بہت سے بچے اپنے بڑوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ لوگ انہیں ان کے لواحقین تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘ آفیسر نے اسے تسلی دی اور اس کی حالت غیر دیکھ کر جلدی سے کہا۔ ’’ہم ٹی وی پر جیمی کی تصویر دے رہے ہیں۔ ہم ریڈیو پر بھی اپیل نشر کریں گے۔ شام کے اخباروں میں بھی اس کی گمشدگی کا اعلان شائع ہوگا۔ اس عورت تانیا کا کہنا ہے کہ جیمی کو گھر کا ایڈریس معلوم ہے۔ اسی لئے ہم نے ایک بندہ اپارٹمنٹ میں بھی بٹھا دیا ہے تاکہ اگر بچی وہاں پہنچ جائے یا فون کرے تو ہمیں فوراً اطلاع ہو جائے۔‘‘ سوزن کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے۔ وہ کچھ بھی کہہ پا نہیں رہی تھی۔
آفیسر نے ہمدردی سے کہا۔ ’’اگر آپ اپارٹمنٹ میں جانا چاہتی ہیں تو وہ یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے… ہماری گاڑی آپ کو وہاں چھوڑ دے گی۔‘‘
سوزن، جیف کے اپارٹمنٹ پہنچی تو وہاں موجود پولیس اہلکار ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ سوزن کی نگاہ ڈائننگ ٹیبل پر پڑی۔ بچوں کی پلیٹ میں اب تک کچھ کارن فلیکس رکھے ہوئے تھے۔ اورنج جوس کا گلاس آدھا پیا ہوا تھا۔ جیمی کا چھوٹا سا بیڈروم گندا اور بکھرا ہوا تھا۔ بیڈ کی چادر نیچے لٹکی ہوئی تھی… قریب میز پر رنگ اور ڈرائنگ بک پڑی تھی۔ کرسی پر ایک چھوٹا نائٹ گائون پڑا ہوا تھا۔ سوزن نے اسے اٹھا کر یوں بازوئوں میں بھینچ لیا جیسے وہ جیمی ہو… کاش وہ جیمی کو بھی اسی طرح اپنی بانہوں میں لے سکتی۔ سوزن کا دل کٹا جا رہا تھا۔ جیمی نہ جانے کہاں تھی… کس حال میں تھی… وہ اس کو کہاں سے ڈھونڈ کر لے آئے… اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس کا سانس جیسے بند ہو رہا تھا۔ اس نے کھڑکی کھول کر ایک لمبا سانس لیا۔ باہر سڑک پر لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خریداری کے لفافے اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ سوزن کے دل میں خیال آیا۔ کیا خبر جیمی
کہیں راستے میں بھٹک رہی ہو… گھر کی تلاش میں… وہ پولیس اہلکار کی طرف پلٹی۔
’’پلیز… آپ لوگ جیمی کو راستے میں تلاش کیوں نہیں کرتے… کہیں وہ گھر نہ ڈھونڈ رہی ہو!‘‘
پولیس اہلکار نے ٹی وی سے نگاہ ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔ ’’میڈم… ہم آپ کی خاطر یہ کوشش بھی کر دیکھتے ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ کرسمس کی اس شام آپ کی بیٹی آپ کو مل جائے… میں ابھی آفیسر کو فون کرتا ہوں۔‘‘
’’پلیز… میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔‘‘ سوزن اپنا کوٹ اٹھاتے ہوئے بولی۔
٭ … ٭ … ٭
جیمی کے ننھے پائوں بری طرح سے تھک چکے تھے مگر وہ چلتی جا رہی تھی… اس امید پر کہ کبھی تو منزل پر پہنچے گی۔ گھر پہنچ کر وہ سب سے پہلے ممی کو فون کرے گی تو وہ جلدی سے اس کے پاس آ جائیں گی… شروع شروع میں جب اس نے چلنا شروع کیا تھا تو وہ ہر بلاک کے شروع ہونے پر اس کا نمبر پڑھ لیتی تھی۔ مگر بعد میں وہ اتنا تھک گئی کہ اس سے بورڈ پر لکھا ہوا نمبر پڑھنا بھی دوبھر ہوگیا۔ وہ اب نمبر پڑھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ انہیں دیکھ کر پتا چلتا تھا کہ وہ بلاک ابھی بہت دور تھا جہاں اس نے جانا ہے۔
وہ یہ احتیاط کر رہی تھی کہ ان لوگوں کے ساتھ ساتھ چلے جن کے ساتھ بچے تھے تاکہ لوگ سمجھیں کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ وہ کسی سے بات نہیں کر رہی تھی تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ گم ہوچکی ہے اور اس کے ساتھ کوئی بڑا نہیں۔
اچانک ایک شخص اس کے قریب آیا اور اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ جیمی نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کا ننھا سا دل دھک دھک کرنے لگا۔
’’بے بی… تم اکیلی ہو؟‘‘ وہ سرگوشی کے انداز میں بولا۔
بظاہر وہ مسکرا رہا تھا لیکن اس کی مسکراہٹ خوفزدہ کرنے والی تھی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں بغور اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ وہ ایک گندی سی جیکٹ اور تھیلا نما پتلون پہنے ہوئے تھا۔ جیمی کو یاد تھا کہ ممی نے کسی اجنبی سے بات کرنے کو منع کیا تھا۔ اس شخص کا تو حلیہ بھی عجیب تھا… جیمی نے ہمت کر کے کہا۔ ’’نہیں… میری ممی وہاں سے پیزا خرید رہی ہیں۔‘‘ اس نے دکان کی طرف اشارہ کیا جہاں بہت سے لوگ خریداری کر رہے تھے۔ اس شخص نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور بولا۔ ’’میرا خیال تھا کہ تمہیں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
وہ کچھ دیر وہاں کھڑی دیکھتی رہی… جب وہ شخص ایک گلی میں مڑگیا تو اس نے بھاگنا شروع کردیا، یہاں تک کہ اس کا سانس پھول گیا۔ ایک بار پھر اسے رونا آنے لگا… لیکن اس نے خود کو سمجھایا کہ ممی کہتی تھیں کہ چھوٹے بچے رویا کرتے ہیں۔ وہ تو اب بڑی ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے آنسوئوں پر قابو پایا… تھک جانے کی وجہ سے اسے وہ لفافہ بہت بھاری لگ رہا تھا… اتنا بوجھ اٹھا کر چلنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ آخر اس نے لفافے کو ایک پتھر کے پیچھے رکھ دیا۔
وہ سوچ رہی تھی کہ اگر کسی نے اس کو اٹھا لیا تو بھی اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ جب ممی مل جائیں گی تو وہ اسے ایسی بہت سی چیزیں لے دیں گی۔ اس کے ہاتھ لفافہ اٹھا اٹھا کر تھک گئے تھے۔ لفافہ چھوڑ دینے سے اسے کافی بہتر محسوس ہو رہا تھا… اب وہ پہلے کے مقابلے میں آسانی سے چل سکتی تھی۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ گندی جیکٹ والا وہ شخص اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ وہ بہت گھبرا گئی… اسی وقت ایک خاندان اس کے برابر سے گزرا۔ ان کے ساتھ دو چھوٹے لڑکے بھی تھے۔ وہ تیز تیز چلتی ان کے ساتھ شامل ہوگئی۔ وہ لوگ کچھ دیر چلتے رہے۔ پھر دائیں جانب مڑ گئے… یہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی کہ سامنے ہی وہ پارک تھا جو ان کے اپارٹمنٹ کے قریب تھا… تو گویا وہ درست راستے پر تھی۔ اس نے اپنے قدموں کو تیز کردیا… مگر پارک بہت دور تھا… یوں لگتا تھا جیسے وہ پارک تک کبھی نہیں پہنچ سکے گی۔
٭ … ٭ … ٭
سوزن پاگلوں کی طرح راہ چلتے لوگوں کو جیمی کی تصویر دکھا کر پوچھ رہی تھی کہ انہوں نے اس بچی کو تو نہیں دیکھا۔ وہ اس کی تصویر کو دیکھتے… بعض افسوس میں سر ہلاتے… ’’کتنی پیاری بچی ہے… بالکل ننھا سا فرشتہ لگتی ہے۔‘‘
کچھ وعدہ کرتے کہ جیسے ہی انہیں یہ بچی نظر آئی… وہ پولیس کو خبر کردیں گے… یا بچی کو روک لیں گے… سوزن کی امید کبھی بندھتی اور کبھی ٹوٹنے لگتی… وہ امید و بیم میں ڈوبتی ابھرتی اپنی سی کوشش کر رہی تھی۔ بچوں کے کھلونوں اور چیزوں والے پلازہ میں اس نے چوکیدار سے لے کر کائونٹر کلرک، سیلزگرل اور وہاں خریداری کرتے ہوئے لوگوں کو جیمی کی تصویر دکھا دکھا کر بار بار پوچھا کہ انہوں نے اس بچی کو کہیں دیکھا تو نہیں… لوگ ہمدردی سے اس کی طرف دیکھتے اور انکار میں سر ہلا دیتے… وہ ایک مرتبہ پھر کمرہمت باندھ لیتی۔
٭ … ٭ … ٭
کھلونوں کے اسٹور میں زیادہ رش نہیں رہا تھا۔ لوگ اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ سڑک کے کونے پر کھڑے کچھ لوگ کرسمس کے گیت گا رہے تھے۔ جیمی کچھ دیر ان کے پاس کھڑی ہوگئی۔ یہ دیکھ کر اس کے اندر خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی کہ اس کا پیچھا کرنے والا شخص بھی کچھ دور ٹھہر گیا تھا۔ گانا ختم ہوگیا تو ایک گلوکارہ جیمی کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ ’’گڑیا… تم اکیلی ہو؟‘‘
جیمی ٹھٹھکی… پھر اس نے جلدی سے کہا۔ ’’نہیں، میرے ساتھ ممی ہیں۔‘‘ اس نے یونہی ایک خاتون کی طرف اشارہ کردیا اور تیزی سے اسی طرف بڑھ گئی۔ اسے چرچ میں بجتی ہوئی گھنٹیاں سنائی دیں تو اسے یاد آیا کہ ممی نے کہا تھا کہ وہ کرسمس کی شام چرچ بھی جائیں گے جہاں جھولے میں ننھے یسوع مسیح کا مجسمہ رکھا جائے گا۔
اس نے سوچا کہ وہ جلدی سے چرچ میں گھس جائے تاکہ گندی جیکٹ والا وہ شخص اس کا تعاقب نہ کرسکے… چرچ کو خوبصورت روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ وہاں بہت سے لوگ جھولے کو گھیرے کھڑے تھے۔ مگر ابھی تک وہ خالی تھا۔ ایک شخص کینڈل اسٹینڈ میں نئی موم بتیاں لگا رہا تھا۔ ایک خاتون نے اس سے پوچھا کہ ننھے یسوع مسیح کا مجسمہ کہاں ہے تو وہ شخص بولا۔ ’’جھولے میں مجسمہ آدھی رات کے بعد رکھا جائے گا۔‘‘
ابھی وہاں اتنا زیادہ رش نہیں تھا۔ جیمی نے جھولے کے سامنے ایک جگہ لے لی… وہ دل ہی دل میں وہ دعا اب بھی دہرا رہی تھی جو وہ بہت دیر سے مانگ رہی تھی۔ ’’پلیز… یسوع مسیح جب تم جھولے میں آئو گے… تو میری ممی کو بھی لے آنا۔‘‘
یہاں بہت سے لوگ آنا شروع ہوگئے تھے۔ آرگن پر مذہبی دھنیں بجائی جا رہی تھیں جو جیمی کو ہمیشہ بہت اچھی لگتی تھیں۔ چرچ ایک آرام دہ جگہ تھی۔ باہر کے مقابلے میں یہاں سردی اور تیز ہوا بھی نہیں تھی۔ سارا چرچ خوب گرم تھا۔ سامنے کرسمس ٹری کی سجاوٹ بہت خوبصورت تھی… مگر وہ بہت اونچا تھا۔ جیمی اسے چھو نہیں سکتی تھی۔ وہ اتنا تھک گئی تھی کہ ایک کونے میں ایک کرسی پر چپ چاپ بیٹھ گئی۔ وہ دل ہی دل میں خود کو یہ کہہ کر حوصلہ دے رہی تھی کہ ممی بھی اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی ہیں۔
٭ … ٭ … ٭
سوزن سڑک پر ماری ماری پھر رہی تھی۔ وہ ہر چھوٹی بچی کا چہرہ دیکھتی کہ کہیں وہ جیمی تو نہیں… مگر ہر دفعہ اسے مایوسی ہوتی… جیمی کا دور دور تک کوئی پتا نہیں تھا۔ کرسمس کی شام ہونے کی وجہ سے ہر موڑ پر سانتا کلاز اپنے مخصوص شوخ لباس پہنے چندہ جمع کر رہے تھے۔ سوزن نے ہر ایک کو جیمی کی تصویر دکھائی۔ مگر کسی کو کچھ پتا نہیں تھا۔
ایک مقام پر کرسمس کے گیت گانے والی ایک گلوکارہ نے ٹھٹھک کر تصویر کو دیکھا اور بولی۔ ’’ایک ایسی بچی میں نے دیکھی تو تھی مگر وہ کہہ رہی تھی کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ ہے۔‘‘
سامنے ہی چرچ تھا۔ سوزن نے سوچا کہ چرچ میں جا کر پادری سے دعا کرنے کے لئے کہے… اور وہاں موجود لوگوں سے جیمی کے بارے میں معلوم کرے۔ اس نے چرچ کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ پولیس آفیسر نے اس کے قریب آ کر گاڑی روکی۔ سوزن نے اس کی آنکھوں میں ہمدردی اور دکھ جھلکتا دیکھا۔ وہ شیشے سے جھانک کر بولا۔ ’’سوزن اس طرح تم اپنا وقت ضائع کر رہی ہو۔ یہ علاقہ اتنا بڑا ہے… تم کہاں تک اس کو دیکھو گی… کس کس سے پوچھو گی!‘‘
’’میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھ سکتی جب تک مجھے جیمی مل نہیں جاتی… وہ پتا نہیں کہاں بھٹک رہی ہے… کس کے پاس ہے۔‘‘ اس کا گلا بھر آیا اور وہ خاموش ہوگئی۔
’’ابھی ابھی ہمیں ایک بس ڈرائیور نے بتایا ہے کہ اس نے دو عورتوں اور ایک چھوٹی بچی کو ایک اسٹاپ پر اتارا ہے۔‘‘
سوزن دل تھام کر رہ گئی۔ ’’اوہ… میرے خدا…! اس نے کچھ بتایا ہے کہ وہ کون سا اسٹاپ تھا؟‘‘
’’ہاں… اس نے بتایا ہے اور ہم نے وہاں پولیس کو پوری طرح سے مستعد کردیا ہے۔ وہ جلد اس کا پتا چلا لیں گے… ہمارا خیال ہے کہ تم خبروں سے پہلے ٹی وی پر اپیل کرو۔ ہم نے اس کا انتظام کردیا ہے… تمہاری اپیل کا یقینا مثبت اثر ہوگا۔‘‘
سوزن ان کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس نے انہیں رفتار کم رکھنے کے لئے کہا تاکہ وہ دونوں طرف دیکھتی ہوئی جائے… آفیسر نے اس کی طرف دیکھا جیسے وہ اسے پاگل سمجھ رہا ہے… لیکن سوزن کو خود پر قابو کہاں تھا… وہ تو چاہتی تھی کہ ایک ایک انسان کو ٹھہرا کر جیمی کے بارے میں استفسار کرے۔ وہ دونوں طرف شیشوں میں سے جھانک رہی تھی۔
آفیسر نے اس کا شانہ چھو کر کہا۔ ’’سوزن… میرا خیال ہے جیمی کو تلاش کرنے کے لئے سب سے مؤثر یہی طریقہ ہے کہ ہم ٹی وی پر اپیل نشر کریں۔‘‘
کرسمس ٹری کے پاس بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ وہ اتنا بڑا تھا کہ جیمی کو حیرت ہو رہی تھی کہ اس کے اوپر رنگ برنگی روشنیاں کس طرح لگائی گئی تھیں۔ پچھلے سال ممی نے سیڑھی پر کھڑے ہو کر کرسمس ٹری کی سجاوٹ کی تھی۔ جیمی اسے سجاوٹ کی مختلف چیزیں پکڑا رہی تھی۔ جیمی دل ہی دل میں ممی سے باتیں بھی کرتی جا رہی تھی اور یہی سمجھ رہی تھی کہ ممی بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پارک بظاہر کافی قریب معلوم ہوتا تھا۔ مگر جب وہ اس کی طرف چلنا شروع کرتی تھی تو لگتا تھا جیسے وہ دور ہی دور ہوتا جا رہا ہے… وہ چلتے چلتے تھک گئی تھی۔ چرچ میں کچھ دیر بیٹھنے سے اس کی تھکن قدرے دور ہوگئی تھی۔ اس نے پھر چلنے کا ارادہ کرلیا لیکن جب وہ باہر آئی تو برف باری شروع ہوچکی تھی۔
جیمی نے اپنے ننھے ہاتھ اپنی آستینوں میں گھسا لئے۔ اس نے سر کو جھکا لیا تاکہ برف اس کی آنکھوں میں نہ پڑے۔ اس نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھا کہ کہیں اسے وہ گندی جیکٹ والا آدمی نظر نہ آ جائے جو کافی دیر سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ اس نے تیز تیز قدم اٹھانا شروع کردیئے تاکہ آگے جاتے
وگوں کے قریب ہو جائے… کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اکیلی ہے… نہ ہی وہ گندی جیکٹ والا آدمی اس کے قریب آسکے۔
٭ … ٭ … ٭
پولیس کی گاڑی سوزن کو لے کر ٹی وی اسٹوڈیو پہنچی تو آفیسر اس کے ساتھ اندر گیا۔ وہ اس کے ساتھ بہت تعاون کر رہے تھے۔ سب ہی چاہتے تھے کہ کرسمس کی شام میں اس کی بیٹی اسے مل جائے تاکہ دونوں اکٹھے کرسمس منا سکیں۔ ٹی وی والوں نے انہیں دوسری منزل پر بھیج دیا۔
پروڈکشن انچارج نے اس کو ہدایات دیں۔ ’’ہم پہلے جیمی کی تصویر اسکرین پر دکھائیں گے۔ اس کے بعد آپ ایک خاص اپیل کریں گی۔ اس طرح کہ لوگ متوجہ ہوجائیں۔‘‘
سوزن ایک طرف انتظار میں کھڑی تھی۔ اچانک جیسے اس کا دل پھٹنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے جیمی اس کو پکار رہی ہے… جیمی کی آواز اس کے سارے وجود میں گونج رہی تھی۔ وہ اسے بلا رہی تھی… ’’ممی… میرے پاس آ جائو… ممی میرے پاس آ جائو۔‘‘
اس نے جھپٹ کر آفیسر کا بازو پکڑا اور بولی۔ ’’پلیز…! یہ اپیل کوئی اور کردے میں واپس جانا چاہتی ہوں۔‘‘
’’شش…‘‘ پروڈکشن منیجر نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا… غالباً ان کا مائیک کھلا ہوا تھا لیکن سوزن کو اس کی پروا کب تھی۔ اس کے اندر اٹھتی ہوئی آواز اسے بے چین کر رہی تھی۔ اس کے لئے وہاں ایک لمحہ ٹھہرنا بھی محال تھا۔ اس نے اشارے سے انہیں کہا کہ وہ جانا چاہتی ہے۔ پھر بغیر ان کے جواب کا انتظار کئے وہ سیڑھیاں اترنے لگی۔
٭…٭…٭
جیمی کھلونوں کے اسٹور کے پاس رک گئی۔ شو کیس میں مختلف کھلونے خودکار نظام کے تحت اچھل کود کر رہے تھے۔ کچھ گڑیاں باہر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف ہاتھ ہلا رہی تھیں… جیمی نے بھی جواباً ہاتھ ہلایا اور دل ہی دل میں کہنے لگی۔ ’’ہم اگلے سال یہاں آئیں گے… میری ممی مجھے بہت سے کھلونے خرید کر دیں گی۔‘‘ وہ ابھی کچھ دیر اور کھلونوں کی شرارتوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر پھر اسے یاد آیا کہ ممی نے اسے کسی جگہ کھڑے ہونے سے منع کیا تھا۔ اسی لئے وہ کھلونوں کو الوداعی انداز میں ہاتھ ہلا کر آگے چل پڑی۔ برف باری اب بھی ہو رہی تھی۔ اس کی پیشانی اور بال برف کے گالوں سے گیلے گیلے سے ہوگئے تھے۔ اسے اپنے سر اور چہرے پر برفیلی ہوا کی ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ ’’بے بی… کیا تم گم ہوگئی ہو؟‘‘ اس آواز پر جیمی نے ٹھٹھک کر دیکھا۔
گندی جیکٹ والا وہ شخص قریب آگیا تھا… وہ مدھم لہجے میں کہہ رہا تھا… ’’اگر تمہیں اپنے گھر کا پتا معلوم ہے تو میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا دوں گا۔‘‘
جیمی کے اندر ایک امید نے سر اٹھایا… کیا پتا یہ شخص اس کی مدد کرنا چاہتا ہو۔ اسے ڈرنا نہیں چاہئے… بہادر بن کر اس سے بات کرنی چاہئے۔ جیمی نے ہمت کر کے اس سے کہا۔ ’’کیا آپ میری ممی کو فون کردیں گے… مجھے ان کا نمبر یاد ہے۔‘‘
’’ہاں… ہاں… کیوں نہیں، آئو… چل کر انہیں فون کرتے ہیں۔‘‘ وہ بولا اور اس کا ہاتھ پکڑنے کو اپنا ہاتھ بڑھایا۔
جیمی ایک دم ڈر گئی… وہ بہت تھک چکی تھی۔ سردی اور بھوک نے اسے بے حال کردیا تھا لیکن وہ اس شخص کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ الٹے قدموں دوڑ کر کھلونوں کے شوکیس کے پاس آگئی۔ وہ زیر لب اپنی دعا دہرا رہی تھی۔ ’’اوہ پلیز…! یسوع مسیح… میری ممی کو میرے پاس بھیج دو… میری ممی کو میرے پاس بھیج دو۔‘‘
٭ … ٭ … ٭
پولیس کی گاڑی سوزن کو واپس لے آئی تھی۔ سوزن نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھے پاگل سمجھ رہے ہیں… مگر میں کیا کروں… میں مجبور ہوں۔‘‘
باہر برف باری ہو رہی تھی اور ہوا بے حد سرد تھی۔ لوگوں نے اپنے کالر اوپر اٹھا رکھے تھے۔ اکثر نے ٹوپیاں پہن لی تھیں اور وہ اسٹور کی کھڑکیوں کے ساتھ لگ کر کھڑے تھے۔ اس انتظار میں کہ برف باری میں کچھ کمی ہو جائے۔
وہاں بہت سے بچے بھی کھڑے تھے۔ مگر ان کے چہرے شوکیس کی طرف تھے۔ جہاں مختلف کھلونوں کے کرتب جاری تھے۔ ایک ایک کا چہرہ قریب جا کر ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ سوزن باہر نکلنے کے لئے گاڑی کا دروازہ کھول ہی رہی تھی کہ آفیسر نے اپنے ساتھی سے کہا۔
’’ڈیوڈ… وہ دور تم اس شخص کو دیکھ رہے ہو جو بچوں کے اغوا کے سلسلے میں پولیس کو مطلوب ہے… مگر کہیں چھپا بیٹھا تھا… یہ آج نظر آیا ہے… ذرا دیکھو یہ وہی ہے!‘‘
سوزن حیرت سے ان کی طرف دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ انہوں نے گاڑی سے باہر چھلانگ لگائی اور کھلونوں کے شوکیس کی طرف دوڑے… تھوڑی ہی دیر میں وہ ایک گندی جیکٹ والے شخص کو پکڑ کر لے آئے۔ وہ شور مچاتا جا رہا تھا کہ اس کا کوئی قصور نہیں… اسے خوامخواہ ہی پکڑ لیا گیا ہے۔
حیرت زدہ سوزن کی نگاہ ایک چھوٹی سی بچی پر پڑی۔ اس شخص کی پکڑ دھکڑ میں وہ لڑکھڑا کر گر پڑی تھی۔ اس کے بالوں میں برف کے گالے جگہ جگہ نظر آ رہے تھے۔
یہ سنہرے بال… سوزن ٹھٹھک کر ایک ثانیے کے لئے دیکھتی رہی۔ پھر وہ پاگلوں کی طرح اس طرف بھاگی… اور اس نے پلک جھپکتے میں بچی کو اٹھا لیا۔
اس کے ہلتے ہوئے ہونٹوں سے ہلکی ہلکی سی آواز نکل رہی تھی۔ ’’پلیز… ممی اب آ جائو…!! پلیز…! ممی اب آ جائو…!‘‘
سوزن زمین پر گھٹنوں کے بل جھک گئی۔ اس نے بچی کو اپنے ترسے ہوئے بازوئوں میں بھینچ لیا… جیمی جیمی… دیکھو میں آگئی ہوں۔‘‘
جیمی نے موٹی موٹی نیلی آنکھیں کھولیں… ممی کا چہرہ اپنے سامنے دیکھ کر وہ بھونچکی سی رہ گئی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ممی آگئی تھیں اور انہوں نے اسے اپنے بازوئوں میں لے رکھا تھا۔ وہ روتے ہوئے اس کا نام بار بار پکار رہی تھیں۔ پھر اسے یقین آگیا… اس نے دونوں بازو ممی کی گردن میں ڈال دیئے اور اپنا سر ممی کے شانے اور گردن میں گھسا دیا… اس کے آنسوئوں سے ممی کا شانہ بھیگ رہا تھا۔
وہاں کھڑے لوگوں نے ان کے گرد دائرہ بنا لیا تھا… وہ خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے… سیٹیاں بجا رہے تھے… اور مختلف فقرے کہہ رہے تھے۔ چاروں طرف خوشی کا ایک گرمجوش سماں تھا۔
جیمی نے ممی کا رخسار چھوتے ہوئے کہا۔ ’’ممی میں جانتی تھی… تم ضرور آئو گی۔‘‘
شوکیس میں لگی ہوئی سنہری بالوں والی گڑیاں جیسے ان کے لئے نغمے گاتی ان کی طرف ہاتھ ہلا رہی تھیں۔ (ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS