ماجدہ جب چھوٹی تھی تو باپ فوت ہو گیا۔ چچا چچی اسے اپنے گھر لے آئے۔ اس کی بیوہ ماں جوان تھی وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی تو گائوں میں رواج کے مطابق اس کی دوسری شادی کر دی گئی۔ یوں ماں اور بیٹی جدا ہو گئیں۔ اب ماجدہ اپنے چچا اور چچی کے رحم و کرم پر زندگی کے دن گزار نے لگی۔ جب وہ سولہ برس کی ہو گئی، خوب رنگ روپ نکالا۔ گائوں میں اس کی خوبصورتی کا چرچا ہونے لگا۔ شمشیر گائوں کے زمیندار کا بیٹا تھا۔ وہ بھی ایک خوبرو نوجوان تھا۔ میٹرک کے بعد کالج میں تعلیم حاصل کرنے شہر چلا گیا۔ جب چھٹیوں میں گھر آیا تو اکثر کھیتوں میں سیر کو نکلتا۔ تب ماجدہ بھی کھیتوں میں کام کرنے جاتی۔ وہ ماجدہ کو کن انکھیوں سے دیکھتا ، جن میں پسندیدگی کے جذبات ہوتے۔ جب کبھی شمشیر کا سامنا ہوتا وہ شرما جاتی۔ دونوں بچپن میں ساتھ کھیلتے تھے لیکن اب بات نہ کرتے تھے۔
دیہات کی کھلی فضا میں پرورش پانے والی لڑکیاں پردے کی پابندی سے آزاد ہوتی ہیں۔ بچپن میں سبھی بچے ساتھ کھیلنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں، بڑے ہو کر معاشرتی پابندیاں معصوم زمانے کے ان ساتھیوں کو جدا کر دیتی ہیں۔ یہی حال ماجدہ اور شمشیر کا تھا۔ وہ اب زمانے کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے دل ابھی تک ایک دوسرے کے لئے بچپن کی خوش گوار یادوں سے معمور تھے۔ وقت نے کچھ مواقع دیئے۔ دونوں کو بات چیت کا موقع ملا تو ایک دوسرے سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کر دیا۔ یوں وہ اب لوگوں کی نظروں سے چھپ کر باتیں کر لیتے تھے۔ ایک دن دونوں ندی کنارے باتیں کر رہے تھے کہ ایک عورت نے دیکھ لیا اور جا کر ماجدہ کی چچی کو بتادیا کہ اپنی لڑکی کی خبر لو، کچھ پتا بھی ہے کہ تباہی تمہارے گھر پر منڈلا رہی ہے۔ زمیندار اور مزارع کا بھی کبھی میل ہوا ہے۔ ماجدہ کی چچی نے شوہر سے کہا۔ تھوڑی سی عزت ہے ہم غریبوں کی، وہ بھی تمہاری بھتیجی مٹی میں ملادے گی۔ اس دن ماجدہ گھر آئی تو چچا نے اسے خوب مارا اور اس کا گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ انہی دنوں ایک دور کے رشتے دار کا پیغام ماجدہ کے لئے آیا ہوا تھا۔ اس شخص کا نام احسان تھا۔ احسان ماجدہ سے عمر یں کافی بڑا تھا۔ محتی آدمی تھا۔ اپنی محنت سے ٹھیکیدار بن گیا۔ اس کی بیوی مر چکی تھی۔ دو بیٹے تھے۔ اس کی خوشحالی دیکھ کر ماجدہ کے چچا نے یہ رشتہ فوراً منظور کر لیا اور جھٹ پٹ بھتیجی کی شادی احسان سے کر دی۔ ماجدہ کو سوچنے سمجھنے کا موقع بھی نہ دیا گیا۔ اس کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ روتی سسکتی اپنے شوہر کے ساتھ چلی گئی۔ شمشیر دل سے ماجدہ کا گرویدہ تھا، اسے ماجدہ کی شادی کا بہت دکھ ہوا۔ وہ بے بس تھا، باپ کے سامنے دم نہیں مار سکتا تھا۔ ماجدہ کا گھرانہ اس کے ہم پلہ نہیں تھا اس لئے وہ مایوس ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے اپنا گائوں چھوڑ کر چلا گیا۔ ماجدہ کا شوہر عمر رسیدہ تھا دونوں کا جوڑ نہ تھا۔ وہ شوہر کو ذہنی طور پر قبول نہ کر سکی مگر بیزاری کا اظہار نہیں کر سکتی تھی، زبر دستی اس کے گھر میں گزارہ کرنے پر مجبور تھی۔ تاہم اسے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنے چچا اور چچی سے بھی نفرت ہو گئی۔ شادی کے بعد وہ اب چچا اور چچی سے ملنے نہ جاتی تھی۔ تاہم احسان اچھے دل کا مالک تھا۔ وہ ماجدہ کا خاصا خیال رکھتا تھا۔ جانتا تھا کہ بیوی اس کو پسند نہیں کرتی اور آزردہ رہتی ہے۔ تبھی اسے خوش رکھنے کی پوری کوشش کرتا تھا۔ سال بعد ماجدہ نے بیٹی کو جنم دیا۔ جس کا نام آشمہ رکھا گیا اور وہ بیٹی آشمہ میں بد نصیب ہوں۔ بالکل صورت شکل میں ماں پر تھی۔ لوگ کہتے۔ بڑی خوبصورت ہے، اللہ البتہ نصیب اچھے کرے۔ مجھے پا کر ماجدہ یعنی میری ماں اپنے غم بھلانے لگیں۔ وہ مجھ سے دل بہلانے کی کوشش کرتیں۔ چار سال میں دو اور بچوں کو جنم دیا۔ اب وہ پانچ بچوں کی ماں تھیں کہ دو سوتیلے بیٹے بھی پہلے سے موجود تھے۔ میرے ان سوتیلے بھائیوں میں سے ایک کا نام سہیل اور دوسرے کا ریاض تھا۔ یہ چھوٹے ہی تھے جب میری ماں سے ان کے والد نے شادی کی تھی۔ میں اپنے والدین کی شفقت کے سائے تلے پلی بڑھی میرے یہ سوتیلے بھائی جو ماں کی ممتا سے بچپن میں محروم ہو گئے تھے۔ وہ میری ماں کو اپنی ماں جانتے تھے۔ ہم تینوں چھوٹے بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ہم بھی ان سے پیار کرتے کیونکہ ہم سب کا باپ ایک ہی تھا بے شک مائیں الگ الگ تھیں۔
میں سولہ برس کی تھی جب والد صاحب ایک حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میری ماں کی زندگی میں ٹھہراو آ چکا تھا۔ ایک بار پھر ابا کی وفات سے بھونچال آ گیا۔ اور گھر کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ ابا کی وفات کے چھ سال بعد ایک دن اماں اسی گائوں گئیں تو وہاں ایک شادی میں ان کا سامنا شمشیر سے ہو گیا۔ وہ ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ دونوں نے جدائی کے زمانے کا حال ایک دوسرے کو کہہ سنایا۔ ماجدہ اب بیوہ تھیں اور شمشیر کی بیوی مر چکی تھی۔ اس نے میری والدہ سے کہا۔ قدرت نے ہمیں ایک بار پھر جائز طریقے سے ایک ہو جانے کا موقع دیا ہے، کیوں نہ ہم شادی کر لیں۔ امی نے جواب دیا۔ شمشیر یہ ممکن نہیں ہے۔ میرے بچے ہیں اور دو بیٹے بڑے ہو چکے ہیں وہ اب کبھی مجھے شادی کی اجازت نہیں دیں گے۔ تم ان کی پروانہ کرو۔ وہ تمہارے سوتیلے بیٹے ہیں۔ بڑے ہو چکے ہیں تو خود کو سنبھال لیں گے۔ تم مجھ سے نکاح کر لو۔ بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ غرض اس نے اس قدر اصرار کیا کہ میری ماں اس امر پر راضی ہو گئی۔ شاید وہ سوچتی ہو کہ شمشیر مال دار ہے اس کے ساتھ شادی ہو گئی تو ہم تین چھوٹے بچوں کو سہارا مل جائے گا۔ ماں کو خدشہ تھا کہ بیٹی جوان ہے اور دونوں چھوٹے لڑکے بھی خاصے سمجھدار ہو چکے ہیں۔ وہ بھی بڑے بھائیوں کا ساتھ دیں گے ، تب میں کیا کروں گی۔ تاہم شمشیر نے یہ کہہ کر نکاح پر راضی کر لیا کہ فی الحال بچوں کو ان کے باپ کے گھر رہنے دو۔ جب ہم نکاح کر لیں گے تو پھر ان کو کسی طرح سمجھا بجھا کر لے آئیں گے۔ گھر آکر میری ماں نے اپنی ضرورت کا کچھ سامان باندھا اور ایک دن وہ صبح ہی صبح یہ کہہ کر چلی گئیں کہ کچھ دن کے لئے ساتھ والے گائوں ایک رشتے کی پھوپھی کے پاس جارہی ہوں۔ وہ بیمار ہے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ جلد لوٹ آئوں گی۔ پہلے میری کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ جب غور کیا تو سمجھ گئی کہ ماں نے کچھ دیر شمشیر کے ساتھباتیں کی تھیں۔ ایک آدھ جملہ میرے کان میں بھی پڑا تھا۔ میں نے اپنے سوتیلے بڑے بھائیوں سے کہا کہ ماں سے شمشیر نکاح کی باتیں کر رہا تھا کہیں وہ اس کے ساتھ نکاح کرنے نہ چلی گئی ہوں۔ وہ سکتے میں آگئے۔ سوچ بھی نہ سکتے تھے جس عورت کو ماں کا درجہ دیتے تھے وہ ایسا کام کرے گی۔ میں ابھی والد کے صدے کو نہ بھولی تھی، یہ صدمہ میرے لئے جانگاہ تھا۔ بڑے بھائی نے سن گن لی تو وہ بھی صدمے سے نڈھال ہو گئے۔ وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کے مرحوم باپ کی عزت پر ماں ایسا داغ لگا جائے گی کہ ہر کوئی کہے گا کہ دیکھو ان کی ماں بھاگ گئی ہے۔ ان کے لئے یہ ایسا داغ تھا جسے ہم بچوں کے آنسو بھی نہ دھو سکتے تھے۔ کچھ دنوں بعد میں ماں کی جدائی سے نیم جان ہو گئی۔ رورو کر بھائی کی منتیں کرنے لگی۔ اللہ کے واسطے کچھ کرو۔ مجھے ماں سے ملوائو میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بھائی معلوم کر چکا تھا کہ ماں نے شمشیر سے نکاح کر لیا ہے اور اس نے شہر میں مکان لے کر وہاں ہماری ماں کو رکھا ہوا ہے۔ میں روتی ، ماں سے ملنے کی ضد کرتی، تب بھائی سمجھاتے۔ بہن صبر کر لو۔ اب تمہارا ایک غیر آدمی کے گھر جاکر رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ تمہارے والد کا گھر ہے اور ہم تمہارے بھائی ہیں۔ تمہارا اپنے باپ کے گھر میں رہنا ہی مناسب ہے۔ کیا پتا وہ تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرے کیونکہ ہم اس کے گھر ہر گز قدم نہیں رکھیں گے۔ ماں رابطہ کرے گی بھی تو وہ اب یہاں آکر نہیں رہ سکتی۔ وہ اب ہمارے باپ کی بیوہ نہیں ہے بلکہ ایک اور شخص کی بیوی بن چکی ہے۔ اس نے ہمیں آگاہ کئے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کر لیا۔ برادری کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ گھر سے نکل گئی ہم سب کو چھوڑ دیا، کیسے اب یہاں لوٹ کر آ سکتی ہے۔ بڑے بھائی ٹھیک کہہ رہے تھے تاہم میں لڑکی تھی اور میرا دل نرم تھا۔ ماں سے بہت مانوس تھی، ان کے بغیر سانس نہیں آتا تھا۔ اتنی دل کو تکلیف تھی کہ بتا نہیں سکتی۔ چھوٹے بھائی بھی بڑے بھائیوں کے ہم نوا ہو گئے۔ وہ کہتے کہ نجانے سوتیلا باپ کس قماش کا ہے۔ جو روکھی سوکھی ہے ، جو بھی تکلیف ہے، سب قبول کر لو مگر یہیں رہو۔ تمہاری عمر ایسی ہے کہ ایک قدم بھی تم نے گھر سے باہر نکالا تو زمانہ ہمیں کھا جائے گا۔ ایسی باتیں کر کے اور مرے ہوئے باپ کے واسطے دے کر بھائیوں نے مجھے اپنے پاس روک لیا۔ جب خود بھی ٹھنڈے دل سے ماں کے اس اقدام پر غور کرتی غصہ آتا تھا۔
ماں سے دل برداشتہ ہوتی تھی۔ اپنے چھوٹے بھائیوں کا بھی غم تھا جو مجھ سے زیادہ مضطرب تھے۔ ماں نے ان کے دلوں کا سکون لوٹ لیا تھا۔ اب ہم تینوں ، سوتیلے بھائیوں کی مرضی پر چلنے پر مجبور تھے۔ وہی ہمارے بڑے اور کرتا دھرتا تھے اور ہم ان کی ملکیت تھے۔ بڑے بھائیوں کی رشتے داروں نے شادیاں کرا دیں۔ بھا بھیاں آگئیں تو میں اور میرے دونوں چھوٹے بھائی گویا ان کے نوکر اور ملازم بن کر رہ گئے۔ پہلے بھائی اسکول جاتے تھے۔ بھا بھیوں کے آنے کے بعد ان کا اسکول جانا بھی موقوف ہوا۔ میں دل مسوس کر رہ گئی۔ اب میرے بھائی سارا دن گھر کے کاموں میں لگے رہتے، باہر کے کام بھی کرتے۔ سودا سلف لاتے۔ باقی وقت آوارہ پھرتے۔ وہ زندگی کی خوشیوں سے بہت دور ہو چکے تھے۔ ادھر میرا حال بھی بھا بھیوں نے برا کر دیا تھا۔ سارا دن گھر کے کام کرواتیں۔ جب ان کے یہاں بچے ہو گئے تو ان بچوں کو بھی میں اٹھاتی، نہلاتی ، کھلاتی پلاتی۔ بڑے بھائی بیویوں کو کچھ نہ کہتے کہ یہ تھک جاتی ہے اس کو بھی آرام کرنے دیا کرو۔ ایک دن ایسا آیا کہ میرے کپڑے چیتھڑوں جیسے ہو گئے۔ ننگے پائوں صحن میں چلتی پھرتی اور بال سوکھے میل کچیل سے بھرے ہوتے۔ میرے چھوٹے بھائیوں کی حالت بھی ایسی ہو گئی کہ ان کے چہرے دیکھ کر ترس آتا تھا۔ ذراسی غلطی پر بھابھیاں شکایت کرتیں اور بھائیوں سے خوب مار پڑواتی تھیں۔ ایک ماں کے موجود نہ ہونے سے لعنت علامت ، ڈانٹ پھٹکار ہمارا مقدر بن گئی۔ ہم یہ ظلم و ستم سہتے اور ماں کو برا بھلا کہتے جو زندہ تھی ہمارے لئے جیتے جی مر چکی تھی۔ انتہائی اذیت میں پانچ سال گزرے۔ ایک دن جبکہ دونوں بڑے بھائی اپنی بیویوں کو لے کر کسی گائوں شادی میں گئے تھے، میں اکیلی اداس بیٹھی تھی۔ چھوٹے بھائی سو رہے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے در کھولا تو سامنے ماں کھڑی تھی۔ وہ مجھے گلے لگانے کے لئے والہانہ آگے بڑھی تو میں پیچھے ہٹ گئی۔ تب وہ ہاتھ جوڑ کر بولی۔ بیٹی میری بات سن لے۔ ایک بار بات سن لے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تب کہا۔ دیکھ میری بچی دوسری شادی میری مجبوری تھی۔ جس سے شادی کی ہے اس نے تینوں کو سنبھالنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن تمہارے سوتیلے بھائی میرے اور تمہارے درمیان پہاڑ بن کر حائل ہو گئے اور انہوں نے باوجود بار بار کہلوانے کے مجھے تم سے ملنے نہ دیا۔ جواب میں کہلوایا کہ اگر ماں واپس آئی تو گھر میں قدم نہ رکھنے دیں گے۔ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ ہم شمشیر خان کا بھی لحاظ نہ کریں گے جس نے ہمار الحاظ نہیں کیا ہے۔ اس وجہ سے نہیں آتی تھی کہ کہیں وہ نہیں وہ فساد نہ کریں۔ آج معلوم ہوا کہ یہ گائوں گئے ہیں اور تم لوگ گھر پر ہو تو میں آ گئی ہوں۔ اگر اس دوزخ سے نکلنا ہے تو میرے ساتھ چلو۔ اپنے بھائیوں کو بھی راضی کرو۔ میں تم تینوں کو لینے آئی ہوں، باہر گاڑی موجود ہے۔ کچھ دیر سوچا، پھر ماں کی بات سمجھ میں آ گئی۔ واقعی ہم جہنم میں تھے۔ میں نے بھائیوں کو جگایا۔ پہلے انہیں سمجھایا، وہ بچارے خود اس عذاب ناک ماحول سے چھٹکارا چاہتے تھے۔ جب ماں نے رو کر ان کو گلے لگایا تو انہوں نے بھی ماں کی بات مان لی۔ ہم تینوں نے کوئی سامان نہ لیا جیسے بیٹھے تھے ویسے ہی ماں کے ساتھ گھر سے باہر نکلے اور شمشیر کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ وہ ہمیں شہر لے آئے۔ نئے کپڑے دلوائے۔ بہت اچھا سلوک کیا۔ بھائیوں کو اسکول میں داخل کرایا۔ وہ ہر طرح سے ہماری ضروریات کا خیال رکھتا تھا ۔ شمشیر واقعی بہت اچھا انسان تھا۔ ہم بے شک دوزخ سے نکل کر جنت میں آ گئے تھے۔ شمشیر نے میرے بھائیوں کو پڑھا لکھا دیا۔ وہ ملازمتوں پر لگ گئے۔ میری شادی ایک اچھے گھرانے میں کرا دی۔ آج ہم سب اپنی زندگیوں میں سیٹ ہیں اور بہت اچھی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کہتے ہیں سوتیلے باپ اچھے نہیں ہوتے ، کوئی کہتا ہے سوتیلی ماں بری ہوتی ہے۔ ہر ایک کا تجربہ الگ ہوتا ہے مگر میں یہی کہوں گی کہ سبھی انسان ایک سے نہیں ہوتے۔ میری ماں سوتیلی تھی تو اپنے شوہر کے بیٹوں کیلئے بہترین ماں تھی اور میرا باپ سوتیلا تھا تو وہ ایک بہترین اور اچھا انسان تھا۔ اس کی وجہ سے ہم اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ اگر شمشیر ہمیں اپنی پناہ میں نہ لیتا اور ہم ماں کے پاس نہ آتے تو شاید ہمارا مقدر سیاہی کی نذر ہو جاتا۔