Friday, October 11, 2024

Maan Beti Ka Dukh

جب میں نے ہوش سنبھالا ، تو خود کو اوروں سے مختلف پایا۔ مجھے لگتا تھا کہ میرے پاس کسی چیز کی کمی ہے۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ وہ انمول خزانہ ماں ہے ، جو میرے پاس نہیں ہے۔ بچپن سے میرے ذہن میں یہی بٹھایا گیا تھا کہ میری ماں مر چکی ہے۔ دادی نے پالا تھا لیکن پھپھو نے تو ان گنت عذابوں میں ڈالا تھا۔ ایک دادا تھے جو دل و جان سے مجھ کو چاہتے تھے۔ ان کی چاہت شہد جیسی میٹھی اور آب حیات جیسی جان بخش تھی۔ سچ کہوں تو بس میں ان کی وجہ سے جیتی رہی۔ دادا کی شخصیت بھر پور ، باعتماد تھی کہ میں ننھی منی سی جان ہر آن دوڑی جاتی اور اپنا ہر دکھ ان سے بیان کر دیتی جبکہ والد سے ڈرتی تھی اور دادی جان ! ان کا رویہ تو بڑا عجیب سا تھا۔ کبھی بہت چائو کرتیں اور کبھی ڈانٹ دیتیں، غرض ان کے مزاج کا کوئی   بھروسا نہیں تھا۔ گھڑی میں تولہ ، گھڑی میں ماشہ پھپھو ! جن کو میں غصے سے بوا چمنی کہتی ، ان کا اصل نام چمن آرا تھا۔ وہ مجھ کو بہت آزار دیا کرتی تھیں، جب بھی میں کوئی کھیل کھیلنے لگتی، یہ آکر بگاڑ ڈالتیں، گڑیا کا سجا سجایا گھر بکھیر دیتیں، پڑھنے بیٹھتی تو کتاب اٹھا کر پرے پھینک دیتیں ، چلاتیں کہ نالائق ، آتا جاتا کچھ ہے نہیں تو کیا پڑھے گی، چل دفع ہو جا یہاں سے، یہی تھا بس ان کا تکیہ کلام ۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کبھی مجھے ایک دومنٹ سے زیادہ پڑھایا ہو۔ انہوں نے جب میٹرک کر لیا تو کالج چلی گئیں۔ کالج جانے کے تھوڑے دنوں بعد کافی بدل گئیں محلے کے سارے لوگ ان کے بارے میں باتیں بنانے لگے۔ میں اب بچی نہ رہی تھی ، خاصی سمجھ دار ہو چکی تھی، لوگوں کی باتوں کو سمجھنے لگی تھی۔ وہ کہتے کہ چمن کے ماں باپ کی غفلت دیکھو، ان کو پتا نہیں کہ بیٹی کس راہ چل دی ہے۔ چمن آرا نے تو پر پرزے نکال لئے ہیں۔ کوئی دن ہی جاتا تھا کہ ان کے بارے میں ایسی ویسی خبریں نہ اڑتی ہوں۔ میرے بھی کان کھڑے ہو جاتے ، سوچ میں پڑ جاتی کہ میری پھپھو کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ دراصل دادی نے ان کو سر چڑھار کھا تھا، دادا سمجھاتے تو جواب دیتیں کہ اپنی عقل اپنے پاس رکھو، تمہارے مشوروں کی ضرورت نہیں۔ وہ یہ سوچ کر چپ ہو جاتے کہ گھر میں جھگڑا ہونے سے بد مزگی ہو گی اور میری پوتی پریشان ہو گی۔ انہی دنوں ابو نے دوسری شادی کر لی اور بیوی کو  لے کر بیرون ملک چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد پھپھو آزاد ہو گئیں۔ کالج سے دیر سے لوٹتیں ، وہ خوبصورت تھیں، کئی رشتے آئے مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ تھرڈ ایئر میں تھیں جب ایک رشتہ آیا۔ وہ اس رشتے پر نہال تھیں۔ دادی سے کہا کہ بس یہیں ہاں کر دو۔ دادی بولیں ۔ انجان لوگ ہیں، دیکھے نہ بھالے، کیسے ہاں کر دوں۔ آپ کے نہیں میرے تو دیکھے بھالے ہیں۔ میرے ساتھ ایک لڑکی پڑھتی ہے ، یہ اس کا بھائی ہے۔ وہ میری گہری سہیلی ہے غرض رشتے کے لئے انجان عور تیں دو تین بار آئیں تو دادی سوچنے پر مجبور ہو گئیں۔ دادا سے ڈر تھا کہ غیر لوگوں کا رشتہ قبول نہ کریں گے تبھی دادی نے ان سے کہا کہ یہ میری ایک رشتہ کی بہن کے جاننے والے ہیں ، اچھا گھرانہ ہے ، لڑکا پڑھا لکھا ہے۔ امیر لوگ ہیں اور اپنی زمینداری ہے۔ انہوں نے بیٹی کی خوشی کے لئے اپنی طرف سے کہانی بنا کر دادا کو سُنادی۔ بات یہ تھی کہ پھپھو نے کالج آتے جاتے کسی لڑکے سے دوستانہ بنالیا تھا۔ وہ اس سے بالا بالا، گھر سے باہر باتیں کرلیتیں۔ کچھ محلے کے لڑکوں کو پتا تھا، وہ بد نام ہو رہی تھیں مگر گھر والوں کو پتا نہیں تھا اور دادی بچاری، بھولی بھالی، ہمیشہ گھر میں رہنے والی ، انہوں نے باہر کی دنیا کب دیکھی تھی ، انہیں زمانے کا پتا نہ تھا۔ انہوں نے دادا کو اعتماد میں لیا اور رشتے کے لئے آنے والی خواتین کو ہاں کر دی۔ دادی نے لڑکے کو بھی بس ایک بار دور سے دیکھا کہ قد کاٹھ ، شکل صورت کا اچھا ہے ، باقی سیرت کا بھروسا اس کے گھر والے کے کہنے سے کر لیا اور شادی کی تاریخ دے دی۔ شادی ایک ماہ بعد ہونی تھی، منگنی کی رسم البتہ سادگی سے انجام پا گئی۔ دادا نے منگنی والے دن بھی منیر کو نہ دیکھا کیونکہ منگنی میں انگوٹھی اور مٹھائی لے کر صرف خواتین آئیں۔ لڑکا نہیں آیا اس کی ماں اور بہنیں کچھ رشتہ دار خواتین کے ساتھ آ کر منگنی کی رسم کر گئیں۔ پھپھو کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ اس خوشی میں انہوں نے تھر ڈایئر کا امتحان بھی نہ دیا کہ بس اب ایک ماہ بعد شادی ہے۔ شادی سے ہفتہ بھر پہلے ، ایک شب آدھی رات کو دادی پانی پینے اٹھیں تو صحن کی دیوار کے ساتھ ان کو ایک سایہ نظر آیا۔ مارے خوف کے ان کی چیخ نکل گئی اور انہوں نے چور چور کا شور مچادیا۔ تبھی سا یہ دیوار پھلانگ کر بھاگنے لگاکہ محلے کے چوکیدار نے اسے پکڑ لیا۔ شور سُن کر محلے والے اُٹھ گئے اور انہوں نے اسے پولیس کے حوالے کرنا چاہا، تب اس شخص نے جان بچانے کی خاطر لوگوں سے کہا کہ میں چور نہیں، احمد صاحب کارشتہ دار ہوں۔ لوگ بولے۔ اگر تم ان کے رشتہ دار ہو تو آدھی رات کو کیا کرنے آئے تھے ؟ وہ بھی دیوار پھلانگ کر یہ ملنے کا کون سا طریقہ ہے؟ تم دروازے پر دستک دے کر اندر جا سکتے تھے۔ میں دراصل ان کی بیٹی کا منگیتر ہوں اور اپنی منگیتر سے ملنے آیا تھا۔ رات گئے دروازے پر دستک دینا مناسب نہیں لگا تو دیوار پھلانگ گیا۔ تمام محلے والوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔ یہ ایسا بیان تھا جس پر کسی کو یقین نہیں تھا تاہم انہوں نے دادا کو باہر بلایا اور پوچھا۔ احمد صاحب یہ آدمی خود کو آپ کا ہونے والا داماد بتا رہا ہے ، کیا یہ بات درست ہے ؟ بیچارے دادا پر گھڑوں پانی پڑ گیا ، بولے ۔    بد قسمتی سے ، یہ ہے تو سیچ لیکن رات کے تیسرے پہر ان کا اس طرح آنا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ بہت سید ھے اور شریف آدمی ہیں۔ اگر چہ ہماری سمجھ میں تو آگیا ہے اور یہ خود بھی کہ رہا ہے کہ آپ کی بیٹی سے آدھی رات کو چوری چھپے ملنے آیا تھا، شاید پہلے بھی یو نہی آیا کرتا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ آپ نے اس سے نسبت طے کر کے عزت بچالی، لیکن اب جو رہی سہی عزت بچی ہے ، بیٹی کو اس کے ساتھ رخصت بھی کر دیجئے ، ہم اس کو آپ کی شرافت کے احترام میں چھوڑے دے رہے ہیں اور حوالہ پولیس نہیں کرتے۔ انہوں نے تو اس کو چھوڑ دیا مگر پولیس کو اس وقت تک خبر ہو چکی تھی، کسی نے چپکے سے فون کر دیا تھا، سو پولیس موقع پر پہنچ گئی اور انہوں نے بتادیا کہ یہ آدمی واقعی چور ہے، کئی بار چوری ڈکیتی میں اندر ہو چکا ہے۔ دادا جان سے بولے۔ بڑے صاحب! بیٹی کا رشتہ طے کرتے ہوئے شاید آپ نے اس شخص کے بارے میں اچھی طرح چھان پھٹک نہیں کی، یہ اچھا ہوا کہ یہ پکڑا گیا ور نہ آپ کی بیٹی کی قسمت پھوٹ گئی تھی۔ وہ تو اس کو لے کر چلے گئے مگر محلے والے کب معاف کرنے والے تھے۔ انہوں نے پھپھو کے بارے بہت بُری بُری باتیں کہیں اور ان کی خوب بد نامی ہو گئی۔ ادھر جب منیر کو پولیس نے ٹھکائی لگائی تو اس نے بتادیا کہ میری اس لڑکی سے راہ چلتے دوستی ہوئی تھی اور میں واقعی اس کو چاہنے لگا۔ وہ بھی مجھ سے شادی پر راضی تھی۔ میں نے اپنے گھر والوں کو راضی کیا اور میری والدہ اور بہنیں رشتہ طلب کرنے گئیں ، رشتہ منظور ہو گیا۔ شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی لیکن میں نے کبھی اس لڑکی کا گھر نہیں دیکھا تھا۔ ہم کالج کے قریب ایک پارک میں ملتے تھے۔ مجھے چمن سے محبت ہو گئی، میں نے اس کے ساتھ شرافت کا برتائور کھا کیونکہ عزت بنانا چاہتا تھا لیکن اس کو یہ علم نہ تھا کہ میں چور ہوں۔ مجھ کو ہمارے گروہ کے ایک ممبر نے بتایا کہ فلاں گھر میں ہفتہ بعد شادی ہونے والی ہے اور وہ لوگ لڑکی کو کافی جہیز اور زیورات دینے والے ہیں، یہ اطلاع مجھ کو چمن کے محلے کے ایک لڑکے نے دی، اس کی ماں، احمد صاحب کے گھر آتی جاتی تھی اور چمن کی والدہ نے اسے بیٹی کے وہ زیورات دکھائے تھے جو وہ اسے شادی پر دینے والی تھیں۔ اطلاع دینے والے لڑکے نے مجھے احمد صاحب کا گھر دکھایا اور میں وہاں چوری کی غرض سے گیا۔ میرے ساتھ دو اور ساتھی بھی تھے جو باہر کھڑے تھے ، جب گھر سے کسی خاتون کی چور چور کی صدائیں بلند ہوئیں، میرے ساتھی بھاگ نکلے مگر چوکیدار نے دیوار پھلانگتے ہوئے مجھے پکڑ لیا۔ مجھے خبر نہ تھی کہ جس گھر میں ڈاکا ڈالنے جارہا ہوں وہ میری منگیتر کا گھر ہے ورنہ میں وہاں کیوں جاتا۔ وہ زیورات تو از خود میرے ہی گھر آنے والے تھے۔ خیر یہ تھا ہماری سیانی پھپھو کی چالبازیوں کا انجام، جو مجھ کو ستاستا کر میرا جینا دو بھر کئے رکھتی تھیں۔ اس کے بعد پھپھو کے رشتے آنے بند ہو گئے۔ بھلا جس لڑکی کی اتنی بدنامی ہو چکی ہو وہاں کون رشتہ لے کر جاتا ہے۔ رشتوں کے انتظار میں دادی گھلنے لگیں اور چمن آرا بیگم کے بالوں میں سفیدی اترنے لگی۔ ان کی شادی کی عمر نکلی جارہی تھی۔ اب میں میٹرک میں تھی اور عمر سولہ برس کی ہو چکی تھی۔ میرے لئے جو رشتہ آتا، دادی چاہتیں کہ پھپھو کو پسند کر لیں ، اس طرح وہ میرے رشتے بھی گنوانے لگیں۔ دادا نے مجھے کالج میں داخل کروانا چاہا، تو پھپھو نے مخالفت کی تب میں خوب روئی۔ میں نے کہا۔ اگر آج میری ماں زندہ ہو تیں تو یہ نہ ہوتا۔ تبھی بے اختیار میری پھپھو کے منہ سے نکل گیا کہ وہ زندہ تو ہیں، چلی جائو ان کے پاس وہ کالج پڑھوا دیں گی تم کو ۔ یہ سن کر دادا، دادی کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ میں نے دادا سے پوچھا۔  آپ کو میری جان کی قسم، سچ بتائیے، پھوپھو کیا کہ رہی ہیں ؟ تب دادا کو سچ بتانا ہی پڑا۔ انہوں نے کہا۔ واقعی تیری ماں زندہ ہے لیکن وہ بھی تم سے نہیں مل سکتی، کیوں کہ جب تمہاری ماں کی شادی ہوئی تھی، تھوڑے عرصہ بعد تمہاری دادی اور پھپھو سے اس کی لڑائی ہو گئی، انہوں نے تیرے باپ کے کان بھرے تو اس نے تمہاری ماں کو طلاق دے دی تھی۔ یہ واقعہ تب ہوا تھا جب تم پیدا ہوئی تھیں ۔ تمہاری دادی نے تم کو اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ یہ قصہ سُن کر میں دنگ رہ گئی۔ میری تو جیسے جان ہی حلق میں اٹک گئی۔ دادا سے کہا کہ آپ مجھے میری ماں کے پاس لے جائیں ، یہ کہتے ہوئے میں زار و قطار رو رہی تھی۔ دادا سمجھانے لگے۔ بیٹی ! اب تم ماں سے نہیں مل سکتیں کیونکہ بعد میں جس گھر میں اس کی شادی ہوئی تھی، وہ بہت سخت قسم کے لوگ ہیں اور اب تو یہ بھی نہیں پتا کہ تمہاری ماں کہاں ہے ؟ اس بات کا میرے دل پر ایسا اثر ہوا کہ میں چپ رہنے لگی، کھانا پینا چھوڑ دیا اور میری حالت بد سے بد تر ہونے لگی۔ تبھی دادا نے مجھے کالج داخل کرادیا تا کہ اس کا دل بہلے۔ واقعی کالج میں میرا دل لگ گیا اور دھیان بٹا۔ میں اپنی پھپھو کیطرح نہیں تھی۔ میں نے کتابوں سے دل لگا لیا اور دل لگا کر پڑھا۔ والد نے تو لوٹ کر خبر نہ لی، یہاں تک کہ میں نے گریجویشن مکمل کر لی ، اب دادا بوڑھے ہو گئے تھے اور کمانے سے رہ گئے تھے۔ ان کی ضعیفی دیکھ میں نے ملازمت کا ارادہ ظاہر کیا، انہوں نے اجازت دے دی۔ قسمت اچھی تھی کہ جلد ہی ملازمت مل گئی اور ملازمت بھی اچھی کمپنی میں ملی۔ وہاں سبھی تہذیب یافتہ اور شائستہ تھے۔ میں روز وقت پر دفتر جاتی سکون سے کام کرتی اور وقت پر گھر آ جاتی۔ایک روز میں اپنے آفس کے کمرے میں بیٹھی کام کر رہی تھی کہ ایک نوجوان جس کا نام مہتاب تھا، میرے کمرے میں آگیا، وہ مجھ سے سینئر افسر تھا۔ کہنے لگا۔ مس نازیہ میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کافی خوبصورت تھا میں اس کی ماتحت تھی اور ملازمت میں بھی نئی آئی تھی۔ مجھے لگا شاید مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ سر اگر مجھ سے کچھ غلطی ہو گئی ہے تو معافی چاہتی ہوں، آئندہ خیال رکھوں گی۔ اس جواب پر وہ میرا منہ تکتا رہ گیا اور میں اتنا گھبرائی کہ ابھی وہ میرے کمرے میں ہی تھا کہ میں اپنی نشست سے اٹھ کر چلی گئی اور اپنی ایک ساتھی لڑکی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ بعد میں مجھے اپنی اس بد تمیزی پر شرمندگی بھی ہوئی کہ کم از کم اس کی بات تو سن لیتی۔ آخر وہ کہنا کیا چاہ رہا تھا۔ سوچنے لگی، واقعی کیا میں اندر سے اتنی کمزور ہوں کہ کسی کی بات سننے کا بھی حوصلہ نہیں ہے مجھ میں۔ ایک ماہ بعد، ایک روز میں اپنی سیٹ پر بیٹھی کام کر رہی تھی کہ مہتاب آہستہ قدموں سے کمرے میں آیا اور میری سیٹ کے سامنے بیٹھ گیا۔ مجھے اس کے آ بیٹھنے کا احساس ہی نہ ہوا اور میں سر جھکائے محویت سے کام میں مشغول رہی- کچھ دیر بعد بالآخر وہ گویا ہوا۔ نازیہ مجھ سے بات کرو پلیز، تم نہیں جانتیں لیکن میں تم کو جانتا ہوں، میں تمہاری امی کا رشتہ دار ہوں۔ امی کا نام سن کر میں چونک گئی اور حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ میرا یقین کرو۔ میں تمہاری سگی خالہ کا بیٹا ہوں۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو میں ناحق اس سے بھاگ رہی تھی۔ ایک آس بندھی شاید اس کے ذریعہ ماں مل جائے ماں سے مل پائوں اور ان کے گلے لگ جائوں۔ آپ کو کیسے پتا کہ میں کون ہوں، کس کی بیٹی ہوں؟ میں نے کانپتی آواز میں پوچھا۔ جب تم نے ملازمت کے لئے درخواست دی تھی، تب میں نے تمہارا اور تمہارے والد کا نام پتا پڑھا تو پتا چلا کہ تم کون ہو ۔ لیکن اس درخواست میں میری ماں کا نام تو درج نہیں تھا۔ پھر بھی تم سے بات کر کے تصدیق تو کی جاسکتی تھی کیونکہ میری ماں جو پتا بتاتی تھیں تمہاری درخواست پر وہی پتا لکھا تھا۔۔ اب ماں کی طلب اور چاہت مجھ پر غالب آچکی تھی لہذا میں نے وعدہ کر لیا کہ میں اس کی والدہ سے ملوں گی۔ ایک دن میں مہتاب کے ہمراہ اس کے گھر چلی گئی اتنا پیارا گھر دیکھ کر میرا عجیب حال تھا۔ جی چاہتا تھا یہیں رہ جائوں۔ وہاں صرف اس کی ماں تھی جو میری رشتے میں خالہ لگتی تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا کنبہ تھا۔ اس کی ماں نے میرا منہ چوما اور بیٹی کہہ کر گلے لگالیا۔ وہ لمحہ میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ میرا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا تھا، جیسے مجھے میری سگی ماں مل گئی ہو۔ خالہ نے کہا۔ بیٹی میں ضرور تم کو تمہاری ماں سے ملوائوں گی لیکن فی الحال ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے شوہر کےساتھ ان دنوں سعودی عربیہ گئی ہوئی ہیں۔ انہوں نے مجھے چند پرانی تصویریں دکھائیں، ان میں کچھ تصویریں ماں کی پہلی شادی کی تھیں جن میں وہ میرے والد کے ساتھ دُلہن بنی بیٹھی تھیں۔ میں ماں کو نہیں پہچانتی تھی مگر اپنے والد کو تو پہچانتی تھی۔ ماں کی صورت دیکھ کر میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ میں نے کہا۔ خالہ میں اب اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔ وہ کہنے لگیں۔ بیٹی ایک ہی صورت ہے ہمارے خاندان میں شامل ہونے کی کہ تم پہلے میری بہو بن کر ہمارے خاندان میں آ جائو۔ اس کے بعد تمہارا تمہاری امی سے ملنا اور ان کے ساتھ رہنا آسان ہو جائے گا۔ ماں سے ملنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی تھی، مجھے ہر شرط منظور تھی جبکہ مہتاب تو مجھے اچھا لگا تھا۔ میں بھلا کیوں انکار کرتی، حالانکہ جانتی تھی کہ اگر پھپھو اور دادی کو اس بات کی بھنک بھی پڑ جاتی کہ میں ماں سے ملنا چاہتی ہوں وہ مجھ پر عرصہ حیات تنگ کر دیتیں۔ میں نے خالہ سے کہا۔ میں تو آپ سے جدا ہونا ہی نہیں چاہتی، آپ سے میری ماں کی خوشبو آتی ہے۔    بہر حال اس روز تو میں وقت پر اپنے گھر پہنچادی گئی لیکن چار دن بعد خالہ میرا رشتہ لینے آئیں۔ جب انہوں نے رشتے کی بات کی تو دادی کو پتا چل گیا کہ یہ تو میری ماں کی رشتہ دار ہیں۔ ان کا موڈ سخت آف ہو گیا۔ انہوں نے کہا۔ مہربانی سے ابھی ، اسی وقت چلی جائو۔ مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ میری سابقہ بہو نے تم کو بھیجا ہے تاکہ تم لوگ ہماری پوتی پر قبضہ کر سکو۔ خالہ نے لاکھ کہا کہ میری بہن نے مجھے نہیں بھیجا۔ ان کو تو کچھ پتا بھی نہیں مگر دادی نہ مانیں۔ خالہ کے جانے کے بعد میں بہت روئی، زیادہ دکھ اس بات کا تھا کہ دادی ابھی تک میری ماں کا ذکر تک سننا نہیں چاہتی تھیں حالانکہ ماں کا حق بھی باپ کے برابر ہوتا ہے مگر انہوں نے کبھی میری ماں کے حق کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ دو ماہ کی بچی کو اس کی ماں سے چھین لینا اور پھر کبھی اس عورت کو اس کی بچی کی شکل تک نہ دیکھنے دینا، یہ ظلم کی انتہا نہ تھی تو اور کیا تھا۔ آج خدانے دادی کو اس ظلم کی تلافی کا موقع دیا، انہوں نے پھر بھی یہ موقع گنوادیا۔ دادا کو میرے دُکھ اور پریشانی کا اندازہ تھا لیکن وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ خدا کی مرضی اگلے دن دادی اور پھپھو کسی کام سے لاہور چلی گئیں۔ وہ اپنے کسی رشتہ دار کے پاس گئی تھیں۔ دادا نے میری اتری ہوئی صورت دیکھی ، کچھ سوچا، میرے پاس آئے اور مجھے سے مہتاب کے بارے میں پوچھا، پھر پتا پوچھ کر ان کے گھر چلے گئے۔ میں حیران اس وقت ہوئی جب اگلے دن شام کو مولوی صاحب کے ہمراہ مہتاب ان کے دو تین رشتہ دار اور ہمارے محلے کے دو بزرگ ہمارے گھر آگئے۔ دادا نے مجھے نیا جوڑا دیا جو خالہ لائی تھیں۔ کہا کہ یہ پہن لو میں تمہارا نکاح کر رہا ہوں۔ خالہ اور ان کی بیٹی نے مجھے تیار کیا اور میرا نکاح مہتاب سے ہو گیا۔ میں بار بار آنکھیں کھولتی اور بند کرتی تھی کہ کہیں یہ خواب تو نہیں لیکن یہ خواب نہ تھا حقیقت تھی، اور یہ بھی حقیقت تھی کہ جس قدر محبت میرے دادا جان نے مجھ سے کی تھی کسی نے نہیں کی۔ یہ وہی تھے کہ جن کی بدولت مجھے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ملی۔ پھر خالہ کے توسط سے میں تئیس سال بعد اپنی حقیقی والدہ سے ملی۔ اس وقت کی خوشی کو میں کیا رقم کروں کہ اس کے لئے میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں ۔ بہر حال اس دن نکاح کے بعد دادا جان نے مجھے خالہ اور مہتاب کے ساتھ رخصت کر دیا ۔ میں نہیں جانتی کہ دادی اور پھپھو پر کیا گزری، لیکن جو ماں پر گزری وہ بھی انہوں نے مجھے نہ بتایا کہ بیٹی کو دُکھ ہو گا۔ خدا کا شکر کہ میرے دادا مجھ سے راضی تھے ورنہ میرا یہ خواب بھی پورا نہ ہوتا۔

Latest Posts

Related POSTS