Am Maan | Complete Urdu Story
مہربان چہرے والی اس بوڑھی عورت کو میں نے ابھی پرسوں ہی تو منی بس میں اپنے برابر والی سیٹ پر بیٹھے دیکھا تھا۔ اس لئے جیسے ہی میں میو اسپتال کے ایک وارڈ کے سامنے سے گزرا، میری نظریں انور کی طرف اُٹھ گئیں۔ میں اَدھ لیٹی ہوئی حالت میں اس کو بیڈ پر بیٹھا دیکھ کر حیران ہوئے بغیرنہ رہ سکا۔
میں یہاں اپنے ایک دوست کی مزاج پرسی کرنے کے لئے آیا تھا۔ واپسی پر یہ واقعہ ہوگیا۔ کچھ کچھ جھجکتا ہوا میں وارڈ کے اندر چلا گیا۔ اس بوڑھی عورت کے بستر کے نزدیک ہی پڑی ہوئی لکڑی کی بینچ پر میرا ہی ہم عمر ایک جوان لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ وہ حیران کن نظروں سے میری طرف متوجہ ہوگیا۔ وہ یقیناً یہ سوچ رہا ہوگا کہ یہ کون ہے جو راستہ بھول کر کمرے میں داخل ہوگیا ہے۔ لیکن امّاں نے مجھے فوراً پہچان لیا۔
’’آئو بیٹا! تم یہاں پر کیسے آئے ہو؟‘‘
’’امّاں! میں تو ایک دوست کی خیر خیریت معلوم کرنے آیا تھا، مگر آپ تو اپنی بیٹی سے ملنے جا رہی تھیں، یہاں کس طرح پہنچ گئیں؟‘‘
’’ہاں بیٹا جا رہی تھی مگر رستے میں ایک سڑک پر ایک رکشے والے نے ٹکر مار دی۔‘‘
’’یہ لڑکا پرسوں میرے ساتھ منی بس میں سفر کر رہا تھا جاوید۔‘‘ امّاں نے اس لڑکے سے میرا رسمی تعارف کرانے کی کوشش کی جو بینچ پر براجمان، حیرت سے ہماری گفتگو سننے میں محو تھا۔
اب جاوید نے میرا پہلی مرتبہ بغور جائزہ لیا۔ اُس کی آنکھوں میں میرے لئے اپنائیت کا جذبہ روشن تھا اور دوستانہ پن جھلک رہا تھا۔
ہوا یہ تھا کہ میں منی بس میں دُہرا ہو کے انارکلی کے اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا۔ میرے دُہرا ہونے سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ منی بس میں بہت زیادہ رش تھا۔ ویگن والے تو لالچ میں آ کر سواریوں کو جانوروں کی طرح ٹھونس لیتے ہیں۔ دراصل ان کو بھی کوئی نہ کوئی ضروری کام ہوتا ہے، کوئی اہم بات ہوتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ تھوڑی سی تکلیف سہہ لیں گے، پہنچ تو جلدی جائیں گے۔ اسی لئے میں بھی مرغا بن کر کھڑا ہوگیا تھا۔ ایک سیٹ پر عورتیں بیٹھی تھیں۔ اسی امّاں کے پاس برابر میں کوئی بچہ اور دُوسری جانب بالکل برابر ہی میں کوئی عورت بیٹھی تھی۔ یہ امّاں شاید بہت پیچھے سے ہی منی بس میں بیٹھی آ رہی تھیں۔
ایک اسٹاپ پر امّاں کے ساتھ بیٹھی عورت اُتر گئی، سیٹ خالی ہوگئی تھی جبکہ میں بیٹھتے ہوئے جھجک رہا تھا۔ اس پر امّاں خود ہی گویا ہوئی۔
’’ارے لڑکے! تو میرے چھوٹے بیٹے جیسا ہے۔ آ یہاں بیٹھ جا۔‘‘ اس کا لہجہ کسی حد تک ہمدردانہ تھا، جس میں شفقت کا عنصر بھی شامل تھا۔
یوں میں امّاں کے پاس بیٹھ گیا۔ امّاں کی دُوسری طرف جو نو دس سال کا لڑکا بیٹھا ہوا تھا، میرے اندازے کے مطابق وہ امّاں کا پوتا یا نواسا تھا، اس کے چہرے پر وہ جانی پہچانی چمک دمک تھی جو عموماً کسی بھی بچّے کے چہرے کے پھول کو اسی وقت کھلا دیتی ہے جب وہ کسی نئی جگہ کھیلنے کودنے یا تفریح کی غرض سے کہیں جاتا ہے۔
بوڑھے لوگ چاہے کسی بھی علاقے کے رہنے والے ہوں، دُنیا کے کسی بھی گوشے کے مکین ہوں، ان میں ایک بات ضرور مشترک ہوتی ہے، وہ بولے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسی عادت کے ہاتھوں مجبور امّاں بار بار اپنے پوتے یا نواسے کو کچھ نہ کچھ ہدایات دیتی اور کچھ سمجھاتی جا رہی تھیں، اسی وجہ سے مجھے اس لڑکے کا نام معلوم ہوگیا۔ امّاں اسے پیار سے ککُو کہہ کر مخاطب کر رہی تھیں۔بچّے کے چہرے پر جھنجلاہٹ کے آثار نمایاں تھے جبکہ امّاں کے چہرے سے احساس طمانیت مترشح تھا۔
میں کیا کرتا ہوں، کتنی تعلیم حاصل کر چکا ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کدھر جا رہا ہوں، یہ سب کچھ ساری معلومات امّاں نے منٹوں ہی میں مجھ سے حاصل کرلیں جبکہ مجھے محض اتنی شناسائی ہو سکی کہ امّاں اپنی بڑی لڑکی سے ملنے جا رہی ہیں جس نے نیا مکان خریدا ہے۔
ککُو نے امّاں کو مشورہ دیا کہ اسٹیشن جانے کے بجائے شملہ پہاڑی کی طرف سے جانا چاہئے۔ تھوڑی جلدی پہنچ جائیں گے، ویسے اگر اسیشن گئے تو وہاں سے دُوسری بس میں بیٹھ کر شاہو کی گڑھی جانا پڑے گا۔ یعنی آنا پھر بھی اسی طرف پڑے گا۔
’’ارے راستہ بھول کر کہیں اور نہ لے جانا مجھے۔‘‘
’’مجھے راستہ معلوم ہے۔‘‘ ککُو نے جواب دیا۔
’’توبہ آج کل کے بچّے بڑے تیز ہیں۔ اپنے تو سر کے بال تک سفید ہوگئے، کھال لٹک گئی۔ آج تک صحیح راستے کا ہی علم نہیں ہوا ہے۔‘‘
امّاں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
میں بے اختیار مسکرا دیا۔
ککُو کی بات امّاں کو مانتے ہی بنی۔ وہ دونوں نانی نواسا ،یا دادی پوتا شملہ پہاڑی کے اسٹاپ پر اُتر گئے۔ میں ایک بار پھر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
کیا سچ مچ یہ امّاں منزل مقصود تک پہنچ جائے گی یا پھر نہیں؟ شاعر آدمی تو ویسے بھی بڑا جذباتی اور حساس ہوتا ہے۔ مجھے یہ امّاں ایک روایت کی مانند لگی۔ ایک بوڑھی ہو جانے والی روایت جو روایات کا مجموعہ ہے اور جو اپنی ہی تیز و طرار اولاد کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
’’اس کی اولاد میں اس جیسی کوئی بھی بات نہ ہوگی۔‘‘ میں نے سوچا۔ اس جیسا اخلاق ہوگا نہ عادتیں۔ اس کی اولاد نہ رہن سہن کے طور طریقوں کی نسبت اس جیسی ہے نہ ہی اس سے ذہنی مطابقت و ہم آہنگی رکھتی ہوگی اور نہ ہی وہ اس سے زبان و لب و لہجہ کے انداز میں مشترک ہیں، جبکہ ان کی سوچیں تو پہلے ہی اس کے مقابلے میں ہزاروں کروڑوں میلوں کی دُوری پر پرواز کر کے اس کی بوڑھی کمزور آنکھوں کے فوکس پوائنٹ آف ویو سے دُور، بہت ہی دُور خلائوں میں روپوش ہو چکی ہیں۔ کل کو یہ امّاں مر جائے گی، ایک روایت مر جائے گی۔ لوگ ایک روایت کو دفن کر دیں گے، بھلا دیں گے، فراموش کر دیں گے۔ ایک روایت کا مر جانا کتنا بڑا سانحہ عظیم ہے۔‘‘
’’یہ امّاں ایک بھرپور پرانی روایت ہے۔ یہ سب کچھ سوچ کر میرا دل اور بھی خون کے آنسو رونے لگا۔ دُکھ کی ایک شدید لہر میرے رَگ و پے میں سما گئی کہ اس عظیم روایت کو ایک رکشے والے نے ٹکر مارکر موت کی دہلیز کے اور قریب و نزدیک کر دیا ہے۔ اس دُکھ کی آنچ کی تپش نے مجھے وہاں سے اُٹھنے پر مجبور کردیا۔ مجھے وہاں بیٹھنے سے خوف کا عارضہ لاحق ہونے لگا۔ میں وہاں سے فوری اُٹھ کر کھڑا ہوگیا تو امّاں کا جاوید مجھے وارڈ کے دروازے تک چھوڑنے آیا۔ میں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’میرے خون کا گروپ ’’او‘‘ پازیٹو ہے جو ہر قسم کے شخص کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر تمہاری والدہ کو خون وغیرہ کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔‘‘
’’اوہ نہیں جی! جناب آپ کی بڑی مہربانی۔ میری ماں کا اور میرے خون کا گروپ ایک ہی ہے۔ کل جب ماں کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ خون کی ضرورت پڑے گی۔ میں نے کہا، میں حاضر ہوں، جتنا مرضی خون چاہے نکال لیں اور یوں میں نے ماں کو خون دے دیا۔‘‘
’’پھر بھی، شاید ضرورت پڑے۔‘‘
’’میں نے اصرار کیا انسانیت کے ناتے۔‘‘
’’بھائی صاحب آپ کی بہت بہت مہربانی، کرم فرمائی و نوازش ہے۔ پَر جب خون دینے کے لئے میں موجود ہوں، تو بھلا آپ کو تکلیف اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
اس کی ڈبڈبائی، معصومانہ مگر فتح مند آنکھوں میں میرے لئے تشکر و احسان مندی کے سنگم کا حسین امتزاج تھا۔ ان جذبات کو میں نے آنِ واحد میں محسوس کرلیا۔
ایک دَم میری آنکھوں کے سامنے حدِ نگاہ تک روشنی ہی روشنی پھیل گئی۔ ایک چمک پیدا ہوگئی۔ وہ اُداسی جو امّاں کو زخمی دیکھ کر میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں پر چھائی تھی، دُھواں بن کر نہ جانے کہاں کن آسمانوں میں اُڑ کر غائب ہوگئی!!