Monday, January 13, 2025

Maan Ghar Ka Sakoon | ماں گھر کا سکون

امی کی نسبت ابو کے ساتھ بچپن سے طے تھی۔ امی کو پڑھنے کا شوق تھا انہوں نے بطور پرائیویٹ طالبہ ایم اے کیا جبکہ گاؤں میں کسی لڑکی کا ایم اے ہو جانا ایک معجزہ تھا۔اس کے برعکس ابو صرف میٹرک پاس تھے۔ وہ شروع سے لا پروا تھے۔ دادا نے بہت چاہا بیٹا پڑھ لکھ کر کوئی مقام حاصل کر لے مگر انہوں نے میٹرک سے آگے پڑھ کر نہ دیا۔ گھر میں خوشحال تھی ،زمین کی پیداوار سے اچھا گزارا ہورہا تھا۔ ابوملازمت کو عار سمجھتے تھے۔ اسی لئے پڑھائی کی طرف توجہ نہ دی۔ میرے دادا اور نانا آپس میں سگے بھائی تھے۔ زمین اور جائداد مشتر کہ تھی ۔ دونوں بھائیوں میں پیار بہت تھا۔ جائداد، زمین یا اس کی پیداوار پر کبھی اختلاف نہ ہوا۔ ہمیشہ سمجھوتے اور افہام وتفہیم سے کام لیا۔ امی جان حساس اور باصلاحیت تھیں۔ اپنی ذمے داریوں کا بخوبی ادراک رکھتی تھیں ، ہر کام خوش اسلوبی اور وقت پر سرانجام دیتی تھیں، جبکہ ابو لاابالی اور غیرذمے دار انسان تھے۔ کوئی کام وقت پر نہ کرتے تھے بزرگ سمجھاتے تو برامان جاتے تھے۔ شادی کا مرحلہ آیا تو تعلیم کا فرق سامنے آیا مگر نانا نے اس بات کو مسئلہ نہ بننے دیا یوں امی کی شادی میرے ابو سے ہوگئی۔ امی کے دو بھائی تھے، دونوں اعلی تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے میرے والد کو سمجھایا کہ بے کار گھومنے سے بہتر ہے ہمارے پاس لاہور آ جاؤ۔ کالج میں داخلہ لے لو اور تعلیم حاصل کرو….. که انسان کی زندگی کا کوئی تو مقصد ہونا چاہئے ۔ آوارہ منش دوستوں میں بیٹھنا اور گپ شپ میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ دوبارہ پڑھائی شروع کردو۔ ماموں کے سمجھانے پر ابوان کے پاس چلے گئے اور کالج میں داخلہ لے لیا۔ والد صاحب کے تمام تعلیمی اخراجات ماموں اٹھاتے تھے، وہ دادا جان سے کوئی رقم نہ منگواتے۔ میکہ اور سسرال ایک ہی تھا۔ ہم بہن بھائی کی نانی اور دادی نے مل کر پرورش کی۔ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں ۔ اس خوشحال خاندان کو اچانک ہی مشکلات نے گھیر لیا۔ دادا اور نانا نے ہمسایہ سے زمین خرید لی جو اس کے بھائیوں کے ساتھ مشترکہ تھی ۔ انہوں نے کیس کر دیا۔ ہمارے بزرگ بھی فریق بن گئے ۔ مقدمے پر بہت روپیہ لگ گیا۔ انہی دنوں سیلاب آ گیا۔ ہماری زمین دریا کنارے تھی ، دریا میں طغیانی آنے سے زمین دریا برد ہوگئی۔ وہ گھرانہ جو خوشحال تھا ، مالی پریشانیوں کا شکار ہو گیا۔ ابو نے جوں توں کر کے تعلیم مکمل کی ۔ بڑے ماموں نے اپنے اثر ورسوخ سے ان کو ایک اچھی پوسٹ پر لگوا دیا۔ ان کو سرکاری رہائش گاہ مل گئی انہوں نے امی اور ہمیں اپنے پاس شہر بلوا لیا۔ کچھ عرصے بعد امی کو خیال آیا کہ میں بھی ملازمت کرلوں ۔ انہوں نے قریبی اسکول میں بطور ٹیچر جاب کر لی ، وہ صبح ہمارے ساتھ نکلتیں اور چھٹی کے وقت ہم سے تھوڑی دیر پہلے گھر آ جاتیں- وہ کھانا صبح چھ بجے تیار کر کے ریفریجریٹر میں رکھ دیا کرتی تھیں۔ امی نے ہماری تربیت اچھی طرح کی اور گھر بنانے میں بہت محنت سے کام لیا۔ وہ ابو کے تمام کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیا کرتی تھیں۔ ان کو اپنے شوہر سے بہت پیار تھا۔ ان کے کپڑے دھوکر استری کرنا۔ ان کے لئے طرح طرح کے کھانے بنانا اور ان کو آرام وسکون پہنچانا گومیری والدہ کی زندگی کا مقصد تھا۔ ہمارا گھر سکون کا گہوارہ تھا۔ ہم یہاں شہر کے اچھے ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اپنی ماں کی وجہ سے کیونکہ والدہ اور ماموں تعلیم کی قدرو منزلت کو سمجھتے تھے۔ کبھی کبھی دادا دادی اور نانا نانی ہم سے ملنےآجاتے۔ ہم صرف چھٹیوں میں ہی گاؤں، اپنے آبائی گھر جایا کرتے تھے۔ شروع میں ابو ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کا رویہ روکھا پھیکا ہوتا گیا۔ امی کی بات بات پر اہانت کرنے لگے ، ہمیں بھی بلاوجہ جھڑک دیتے تھے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ان کو کیا ہو گیا ہے۔ گھر میں آہستہ آہستہ بے سکونی قدم جماتی جارہی تھی۔ ادھر بے سکونی کا عالم تھا تو ادھر دادا جان اور نانا ابو باری باری بیمار ہوکر خالق کائنات سے جا ملے…… والد صاحب کو اب کسی کا ڈر نہ رہا۔ وہ اور زیادہ شیر ہوگئے ۔امی پرہاتھ اٹھانے لگے حالانکہ وہ بے قصور ہوتیں۔ ہماری کچھ زمین جو دریا برد ہوگئی تھی ، دریا کا رخ تبدیل ہوجانے سے نکل آئی تھی لیکن اس پر مقامی لوگوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ماموں اپنے اثر ورسوخ سے اس زمین کو واگزار کرانے میں لگے ہوئے تھے۔ اس میں ہم لوگوں کا فائدہ تھا۔ اس فائدے کے باوجود والدصاحب کا رویہ امی سے درست نہ تھا۔ ہم چار بہنیں اور دو بھائی تھے۔ بڑا بھائی اسلام آباد میں پڑھ رہا تھا، وہ ہم سب سے بہت پیار کرتا تھا۔ ابو ہر ماہ اس کو مناسب خرچہ بھجواتے تھے لیکن کچھ دنوں سے وہ منصور کو خر چہ نہیں بھجوا رہے تھے۔ امی اپنی تنخواہ پس انداز کرلیا کرتی تھیں ۔ وہ بیٹے کو رقم بھجوانے لگیں۔ ابو سے پوچھتی تھیں کہ آپ کیوں منصور کوخرچہ نہیں بھجوا ر ہے تو وہ کہتے تھے خرچہ پورا نہیں ہورہا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اخراجات وہی تھے پھر ابو کی تنخواہ کہاں جارہی تھی۔ جس آفس میں وہ کام کرتے تھے وہاں ایک شازیہ لڑکی بھی کام کرتی تھی ۔ ابو کی اس کے ساتھ دوستی ہوگئی ، میری ماں اس بات سے بے خبر تھی۔ ایک دن میری بڑی بہن خانم نے ابو کے موبائل میں شازیہ کامیسج دیکھ لیا۔لیکن اس نے یہ بات اپنے تک محدود رکھی۔ وہ اب پریشان رہنے لگی تھی۔ جب والد صاحب خرچے کے لئے امی کو تنگ کرتے یا رویہ خراب رکھتے ، خانم اور زیادہ غمگین ہوتی ۔ آخر کار اس نے مجھے بتا دیا کہ ابو کا سلسلہ کسی غیرعورت سے جڑ گیا ہے، اسی سبب ان کا رویہ بدل گیا ہے ۔ خانم اب چپکے چپکے والد صاحب کا موبائل چیک کرنے لگی جبکہ میری والدہ بھی ان کے سیل فون کو ہاتھ نہیں لگاتی تھیں۔ خانم نے مجھے بتایا کہ یہ دونوں ایک ہونا چاہتے ہیں۔ تبھی امی سے ابو کی نہیں بن پا رہی۔ میں نے خانم کو کہا کہ ہم امی کو اس معاملے سے باخبر کر دیتے ہیں ۔ وہ اپنی خوشیوں کا خود دفاع کرلیں گی لیکن خانم باجی نے منع کر دیا کہنے لگیں امی بہت حساس ہیں وہ ابو اور گھر سے بہت مخلص ہیں، ایسا نہ ہو کہ مایوس ہوکر کوئی انتہائی قدم اٹھالیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں ۔ کاش ہم اس وقت امی کو باخبر کر دیتے ۔ ہم سے کوتاہی ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ والد صاحب نے خفیہ طور پر اس عورت سے نکاح کر لیا اور اس کو الگ گھر میں رکھا… اس معاملے کا علم اس وقت ہوا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ امی کی طبیعت ایک روز اچانک خراب ہوگئی تو میں اور مجھ سے بڑا بھائی ان کو اسپتال لے گئے والد صاحب گھر پر نہیں تھے۔ خدا نے یہ بھید کھولنا تھا۔ اسپتال میں ابو سے سامنا ہو گیا وہ شازیہ کواپنی گاڑی میں اسپتال سے لے جارہے تھے اور ان کے بازوؤں میں ایک نوزائیدہ بچہ تھا۔ شازیہ نے اس نومولود کو جنم دیا تھا۔ اس دن اس کی اسپتال سے چھٹی ہوئی تھی۔ اچانک آمنا سامنا ہوگیا تو امی دنگ رہ گئیں…. وہ سمجھ نہ سکیں کہ میرا شوہر کس عورت اور نومولود کو لے کر گاڑی کی طرف جارہاتھا۔ ابو نے بھی ہم کو دیکھ لیا مگر نظریں چرا لیں۔ بھائی نے وہاں موجود نرس سے دریافت کیا جو اس وقت شازیہ کے ساتھ گاڑی تک گئی تھی، اس نے بتایا کہ یہ ا کرام صاحب کی بیگم ہیں جنہوں نے چار روز قبل ایک بیٹے کو جنم دیا ہے۔ اکرام صاحب میرے ابو کا نام تھا۔ اب ساری حقیقت کھل گئی۔ ابو گھر آۓ تو امی نے استفسار کیا۔ وہ بگڑنے لگے، میری ماں نے قرآن پاک ان کے سامنے رکھ کر کہا کہ مجھ سے جھوٹ مت بولنا سچ سچ بتادو جو حقیقت ہے ۔ میں آپ سے لڑوں جھگڑوں کی نہیں بلکہ آپ کی دوسری بیوی کو گھر لے آؤں گی تاہم جھوٹ بولا تو معاف نہ کروں گی بلکہ اپنی جان دے دوں گی۔ والد صاحب نے سچ نہ بولا ۔ جھوٹ کا سہارا لیا کہنے لگے کہ میرے ایک دوست کا نام بھی اکرام ہے۔ وہ شدید بیمار ہے اس کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی ہے۔اس نے کہا تھا کہ گاڑی چاہئے بیوی اور بچے کو گھر لانا ہے۔ اکرام باری کی بیماری کے باعث میں نے ارزا اخلاق ان کا یہ کم سر انجام دیا ہے. کہ ان کی بیوی اور بچے کو اسپتال سے گھر پہنچایا ہے۔ اس کہانی پر یقین کرنے کوکسی کا دل نہ چاہامگر ہم خاموش تھے۔ میں اور خانم جان چکی تھیں ابو جھوٹ بول رہے ہیں، تاہم ہماری ہمت نہ ہوئی کہ والد صاحب کے راز سے پردہ اٹھاتے۔ لب سل گئے تھے۔ اس واقعہ کے کچھ روز بعد ہی وہ عورت والد صاحب کے ساتھ دوبارہ شاپنگ کرتی نظر آ گئی۔ امی جان نے اس منظر کو پھر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اس وقت ان کی ایک کولیگ نادرہ بھی امی کے ہمراہ تھیں ۔ یہ دونوں اسکول کا کچھ سامان خریدنے بازار گئی تھیں کیونکہ چند دنوں بعد اسکول میں فنکشن ہونے والا تھا اور اس فنکشن کے انتظام کی ذمہ داری امی پرتھی ۔ نادره ….. شازیہ کو جانتی تھی ۔ وہ اس کی کزن تھی اس نے امی کو بتا دیا کہ شازیہ فلاں آفس میں کام کرتی تھی جہاں یہ شخص بھی کام کرتا ہے۔ پھر دونوں کی شادی ہوگئی۔ انہوں نے کورٹ میرج کی ہے شازیہ کا شوہر پہلے سے شادی شدہ اور کئی بچوں کا باپ ہے۔ یہ معلومات نادرہ کو اس کے گھر والوں سے ملی تھیں جو شازیہ کے رشتے دار تھے۔ امی کو یقین ہو گیا کہ میرے شوہر نے دوسری شادی کر رکھی ہے اور یہ عورت ان کی دوسری بیوی ہے۔ گھر آکر انہوں نے والد صاحب سے دوبارہ استفسار کیا کہ آج میں نے تم کو بازار میں دوبارہ اسی عورت کے ہمراہ دیکھا ہے۔ تم کہتے تھے کہ وہ تمہارے دوست کی بیوی ہے۔ بالآخر تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ تم نے شازیہ سے شادی کر لی ہے۔ یہ تمہارے آفس میں کام کرتی تھی مجھے کو سب معلوم ہو چکا ہے۔ والد صاحب نے کہا کہ اگر سب کچھ معلوم ہوگیا ہے تو اچھی بات ہے۔ پھر تم کیوں مجھ سے پوچھ رہی ہو۔ امی جان نے قسم کھائی تھی کہ میں جان دے دوں گی ، اگر شریک زندگی نے جھوٹ بولا تو… اور اب ثابت ہوگیا کہ واقعی ابو نے جھوٹ بولا تھا۔ پس اس بات پر دونوں میں جھگڑا ہوا اور پھر امی نے رات کو سونے سے پہلے زہریلی دوا پی لی ۔ کسی کو کچھ نہ بتایا۔ دوسرے کمرے میں جا کر سوگئیں۔ ہم نے ان کو ڈسٹرب کرنے کی ہمت نہ کی کیونکہ رو کر سوئی تھیں۔ سوچا ان کے پاس جائیں گے تو بے آرام ہوجائیں گی۔ مجھے اور خانم کو تو معلوم تھا کہ ابوشادی کر چکے ہیں، وہ امی سے جھوٹ بولتے تھے۔ بہر حال صبح ہوئی اور یہ وہ منحوس صبح تھی جس کے بعد امی کی زندگی میں پھر کبھی صبح نہ آسکی۔ وہ رات کے جانے کون سے پہر اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ہماری زندگی میں ماں ایک روشن چراغ کی مانند تھیں ، وہ نہ رہیں تواندھیرا ہی اندھیرا چارسو پھیل گیا۔ اس پر ستم یہ کہ کچھ ہی دنوں بعد ابو اپنی دوسری بیوی کو اپنے نومولود بیٹے کے ساتھ گھر لے آۓ ۔ اب ہمارا کیا زور چلتا۔ ماموں بے چارے بھی رو دھوکر واپس اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ امی کی خودکشی کا کیس کوئی دوسرا رخ بھی اختیار کر سکتا تھا جس کی زد میں ابوآ سکتے تھے لیکن ہمارے دونوں ماموؤں نے ایسا نہ ہونے دیا اور پولیس کو ابو سے دور رکھا صرف ہماری وجہ سے کہ وہ ہمارے والد تھے۔ شازیہ امی کی جگہ ہمارے گھر آ گئی ، رفتہ رفتہ اس نے گھر کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ دوبارہ نوکری پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ والد صاحب اس کی کسی خواہش کو رد نہ کرتے تھے۔ اس کے کہنے پر انہوں نے ہم کو اسکول سے ہٹالیا اور گھریلو ذمہ داریاں ہم دونوں بہنوں کے سپرد کردیں۔ نئی امی اب ابو کے ساتھ دفتر جاتی تھیں تو اپنا چھوٹا سا بچہ ہمارے سپرد کر جاتی تھیں ، ہم کو اپنی ماں کے مرنے کا دکھ کیا کم تھا کہ اس بچے کی خاطر ہمیں تعلیم بھی چھوڑنی پڑی تھی ۔ بڑے بھیا سے روکر فریاد دی کہ ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ سوتیلی ماں تعلیم سے محروم رکھنا چاہتی ہے اور ابو اس کے حکم کے غلام بنے ہوۓ ہیں۔ منصور نے کہا کہ تم لوگ فکر مت کرو میں ماموں سے بات کرتا ہوں، ہرگز تم پر علم کے دروازے بند نہ ہونے دوں گا، اس نے ماموں کو ساری صورت حال بتائی۔ ماموں نے اسلام آباد میں منصور کو کراۓ کا مکان لے دیا۔ پھر ایک دن جبکہ امی ابو دفتر میں تھے ہم نے ان کا نومولود بچہ پڑوسن کو دیا کہ ہم اسپتال جار ہے ہیں آدھ گھنٹے تک آ کر بچے کو لے لیں گے بہانہ کیا کہ خانم کی طبیعت خراب ہے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے ۔ اس طرح ہم سب بہنیں اور بھائی لاہور سے اسلام آباد بذریعہ بس روانہ ہوگئے ۔ منصور بھائی کوفون پر اطلاع کر دی تھی وہ مقررہ وقت پر اڈے پر منتظر ملے ۔ ہم نے صرف اپنے چند جوڑے کپڑے لئے تھے۔ ہم منصور بھائی کے ساتھ ان کے کراۓ کے گھر میں آگئے ۔ادھر جب پڑوسن نے درواز کھٹکھٹا یا توکسی نے نہ کھولا ۔ وہ پریشان ہوگئیں نئی امی کا نمبر ان کے پاس تھا انہوں نے ان کو فون کر دیا۔ امی اور ابو دفتر سے گھر آگئے پتا چلا کہ ہم موجود نہیں ہیں۔ ابو نے ماموں کو فون کیا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی فکر مت کرو ہمارے پاس آگئے ہیں۔ تم نے ان سب کا اسکول جانا کس خوشی میں بند کرا دیا تھا ، کیا ایک نئے بیٹے کے پیدا ہونے کی خوشی میں …..؟ اب سکون سے اس بیٹے اور اس کی ماں کے ساتھ رہو اور اپنے باقی بچوں کو بھول جاو…… ابو میں جرات نہ تھی کہ وہ ماموؤں کے منہ لگتے جانتے تھے اگر یہ لوگ پبھر گئے تو مجھے جیل بھی کرا سکتے ہیں۔ پس انہوں نے خاموشی اختیار کر لی اور ہم نئی ماں کے غلام ہونے سے آزاد ہو گئے …. منصور نے ہم کو دوبارہ اسلام آباد کے اچھے اسکولوں میں داخل کرا دیا۔ ماموں جاری تعلیم کا خرچہ ابو کی زمین کی پیداوار سے دیتے تھے۔ وقت یونہی گزرتا رہا۔ اور ہم بہنوں کے ساتھ ساتھ دونوں بھائیوں نے بھی پڑھ لکھ کر ایک شاندار مستقبل پا لیا۔ چونکہ ہم کو احساس تھا کہ ہماری ماں اس دنیا میں موجود نہیں ہے، وہ ہم کو اعلی تعلیم دلوانا چاہتی تھیں، یہ ان کا وہ خواب تھا جس کو ہر حال میں ہم نے پورا کرنا تھا۔

Latest Posts

Related POSTS