وہ ایک بہت خوبصورت لڑکا تھا۔ پہلی بار وہ مجھے ایک ٹی وی اسٹیشن پر ملا تھا۔ میں اس کے چہرے کی معصومیت اور خوبروئی دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ اس روز ہم کسی ڈرامے کی ریہرسل کر رہے تھے۔ وہ آڈیشن دینے آیا تھا۔ میں نے کچھ فلموں میں اداکاری کی تھی ، جو ہٹ ہو گئی تھیں تبھی جہاں جاتی ، لوگ مجھے پہچان لیتے تھے۔ اس سترہ اٹھارہ برس کے خوبصورت لڑکے نے بھی مجھے پہچان لیا تھا، جس کو اداکاری کا شوق اسٹوڈیو تک لے آیا تھا۔ مجھے وہ لڑکا اچھا لگا، سو میں نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا۔ تمہارا نام کیا ہے ؟ وہ میری آواز پر چونکا اور محویت سے مجھے دیکھتے ہوئے اپنا نام بتانے کی بجائے میرا نام بتاتے ہوئے بولا۔ آپ اقصیٰ ہیں نا اہاں، مگر تم کو میرا نام کیسے معلوم ؟ میں کیا، آپ کو تو سارا جہان جانتا ہے۔ آپ ایک جانی مانی اداکارہ جو ہیں۔ ہاں لیکن تم نے اپنا نام نہیں بتایا۔ وہ بولا ۔ میرا اصل نام کچھ اور ہے مگر میں نے اپنا نام روحیل رکھ لیا ہے۔ مجھے یہ نام پسند ہے۔ کیوں کیا تم ” روہیلے “ ہو ؟ میں نے اسے یاد دلایا کہ تاریخ میں روہیلے بھی مشہور کاسٹ تھی۔ بس جو سمجھ لیں۔ یہاں کیوں آئے ہو ؟ آڈیشن دینے۔ اچھا، تو پھر آؤ چائے پیتے ہیں۔ مجھے تم میں مستقبل کا ایک بڑا فنکار نظر آرہا ہے۔ خدا تم کو کامیاب کرے۔ خدا نے اسے کامیابی دی۔ پہلے پہل اسے چھوٹے رول ملے۔ میری اکثر اس سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ وہ جب ملتا پہلے سے زیادہ شرمایا ہوا لگتا۔ میں اسے دیکھ کر مبہوت رہ جاتی۔ نگاہ اس کے چہرے سے بہتی نہ تھی۔ وہ عام لڑکوں سے بہت مختلف تھا۔ چہرے پر ملاحت کے ساتھ حجاب کے سائے رقصاں ہوتے، بھر پور آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے شرماتا۔ مجھے اس کی یہی ادا بھاتی تھی۔ وہ مجھ سے چھ سات برس چھوٹا ہو گا پھر بھی ہماری اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ جب میری کسی شگفتہ بات کو سن کر معصومیت سے مسکراتا تو سوچتی کاش یہ میر ابھائی ہوتا، کیونکہ ہم چار بہنیں تھیں، ہمارا کوئی بھائی نہ تھا اور مجھے اس رشتہ کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ روحیل نے بتایا تھا کہ اس کی چھ بہنیں ہیں اور وہ سب سے بڑا ہے۔ والد وفات پا چکے ہیں، والدہ بیوگی میں بہت مشکل سے ہمیں پڑھارہی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر کوئی مقام حاصل کروں۔ ڈاکٹر یا انجینئر بنوں۔ وہ مجھے آفیسر دیکھنا چاہتی ہیں لیکن گھر کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں۔ والد کے بعد میری بہنوں نے بھی منہ زوری شروع کر دی ہے، امی کو تنگ کرتی ہیں ، امی کا کہنا نہیں مانتیں ، اس وجہ سے وہ تنگ اور پریشان رہتی تھیں۔ ان کو پریشان دیکھ کر میں بھی پریشان رہنے لگا اور پڑھائی چھوڑ کر کمانے کا سوچا۔ ایک دوست نے بتایا کہ اس کے ماموں ٹی وی میں ملازم ہیں ، وہی مجھے یہاں لایا کہ تمہاری شکل صورت اچھی ہے شاید یہاں ڈراموں میں اداکاری کا چانس مل جائے، البتہ اس کی والدہ اس بات پر خفا تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا اس پیشے کو اپنائے۔ بہر حال جب بھی موقعہ ملتا، شوٹنگ سے فارغ ہو کر اس کے ساتھ گھومتی پھرتی۔ مجھے اس کے ساتھ سیر و تفریح کرنا پسند تھا۔ اس کے اور میرے درمیان کوئی طمع کارشتہ نہ تھا، صرف اخلاص والی دوستی تھی ہماری ، اس سے باتیں کر کے میرے دل کا بوجھ اتر جاتا اور تھکن دور ہو جاتی تھی۔ کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی تھی کہ اس کے رکھ رکھاؤ میں تبدیلی آرہی ہے۔ وہ اب شوٹنگ پر بھی دیر سے آتا۔ میں سمجھاتی کہ دیر سے آکر تم اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار رہے ہو۔ ابھی تم ایک چھوٹے اداکار ہو۔ تمہیں وہ مقام نہیں ملا کہ لوگ تمہارا تا خیر سے آنا بر داشت کر لیں۔ ایک منٹ میں اس میدان سے باہر کر دیئے جاؤ گے ۔ وہ سکون سے میری باتیں سنتا، اگلے دن وقت پر آنے کا وعدہ کرتا اور پھر وعدہ ایفا نہ کر پاتا۔ میں بہت حیران تھی کہ اسے کیا ہو گیا ہے ؟ اب وہ تھکا تھکا رہنے لگا تھا۔ رنگت بھی زردی مائل ہوتی جارہی تھی۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ کچھ عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگا ہے کبھی پانی پی کر گلاس کو الٹ کر دیتا، کبھی کاغذ چبانے لگتا، کبھی اپنی بائیک کی چابی کو منہ میں دبائے رکھتا۔ ایک بار تو سینما کے ٹکٹ ہی چبا گیا اور اس کو اس بات کا ذرا سا بھی احساس نہ ہوا کہ اس سے کیا حرکت سر زد ہو گئی ہے۔ میں اس سے بہت مانوس ہو گئی تھی۔ وہ واقعی مجھ کو اپنے چھوٹے بھائی جیسا ہی لگتا تھا، لہذا اس کی طرف سے فکر مند رہنے لگی۔ ایک دن میں نے اسے پوچھا۔ سچ بتاؤ ! کیا تم کوئی نشہ تو نہیں کرتے یا کسی قسم کی ایسی دوائیں کھاتے ہو جس سے تمہاری صحت پر اثر پڑ رہا ہے۔ مجھے تمہاری فکر ہے۔ وہ بولا۔ نہیں تو، آپ ایسا کیوں سوچنے لگی ہیں ؟ میں تو پہلے جیسا ہی ہوں۔ شاید کچھ گھر یلو پریشانیاں ہوں ؟ ہاں وہ تو ہر انسان کو ہوتی ہیں۔ کیا مجھے اپنی پریشانیوں سے آگاہ نہیں کرو گے ؟ ایسی کوئی خاص پریشانی نہیں ہے ، اگر ہو گی تو ضرور بتادوں گا۔ ایک روز مجھے پتا چلا کہ اس نے گھر چھوڑ دیا ہے اور کسی دوست کے ساتھ رہنے لگا ہے ، حالانکہ پہلے جب کبھی اسے گھر جانے میں ذرادیر ہو جاتی تو متفکر ہو کر کہتا کہ امی امی اور اور ہے بہنیں گھر پر اکیلی ہیں اور مجھے دیر ہو گئی ہے اپنی والدہ اور بہنوں کو گھر میں اکیلا نہ چھوڑنے والا اب کیونکر گھر چھوڑ کر اور جگہ رہنے کو چلا گیا تھا؟ بالآخر یہ معمہ کھل گیا۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ نشہ آور گولی کھانے لگا ہے۔ پہلے پہل تو آثار ظاہر نہ ہوئے رفتہ رفتہ جب صحت زیادہ گرنے لگی تو ایک روز میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور اس کے بلڈ ٹیسٹ کروائے تو انکشاف ہوا کہ وہ سستی اور مضر صحت نشہ آور ادویات لے رہا ہے۔ جب اس امر سے روکا تو اس نے گولیاں چھوڑ کر شراب نوشی شروع کر دی۔ اس کے پاس زیادہ رقم نہ ہوتی تو سنتی دیسی اور کچی شراب پینے لگتا اور میرے سمجھانے پر بھی باز نہ آتا۔ آخر میں نے کھوج لگا لیا کہ اسے کون سا روگ لگ گیا ہے۔ ہماری پڑوسن کی لڑکی نے ایک دن روحیل کو ہمارے گھر دیکھا تو مجھے بتایا کہ اس کی بہن میری کلاس فیلو تھی، میں ان کا گھر جانتی ہوں۔ اس لڑکے نے اس وجہ سے اپنا گھر چھوڑ دیا ہے کہ اس کی بیوہ ماں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ اس بات کار وخیل کو بہت زیادہ صدمہ پہنچا اور اس نے الٹے سیدھے کام شروع کر دیئے۔ اس کے ماموں نے اسے سمجھانے اور قابو میں لانے کی کوشش کی تو ان کے قابو میں بھی نہیں آیا۔ روحیل نے دیکھا کہ اس کی بہن کی سہیلی نے اسے دیکھ لیا ہے اور وہ ہمارے پڑوس میں رہتی ہے تو اس نے ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا۔ ایک دن اس کے دوست نے مجھے آکر بتایا کہ وہ اسپتال میں داخل ہے۔ میں اس کو دیکھنے گئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ نشے نے اس لڑکے کو جوانی میں جلا دیا ہے۔ اگر اس نے خود کو نشے سے نہ روکا تو اس کی زندگی کی امید نہیں ہے۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اس کو دوبارہ زندگی کی طرف لے آؤں گی۔ ایک دن آیا کہ اس کی اتنی بری حالت ہو گئی کہ قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ اس نے دروازے کا سہارا لیا تو جھول گیا۔ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کو سہارا دیا اور تادیر پیار سے سمجھاتی رہی۔ اگلے دن میں اپنی پڑوسن کی لڑکی کے ساتھ اس کے گھر گئی تاکہ اس کی والدہ کو ان کے بیٹے کا احوال بتاؤں۔ وہ گھر پر نہ ملیں، میں ناکام لوٹ آئی۔ اگلے دن میں نے روحیل کو بلایا، وہ آ گیا۔ آج اس کی حالت قدرے بہتر تھی، تب میں نے قسم دے کر پوچھا۔ اگر مجھے بہن سمجھو تو اپنے دل کا حال بتادو، ورنہ سمجھ لینا کہ تم نے مجھے ہمیشہ کے لئے کھو دیا۔ کافی اصرار کے بعد اس نے زبان کھولی اور کہا۔ ستارہ ! جب کسی نے مجھے بتایا کہ تمہاری امی دوسری شادی کر رہی ہیں تو میرے دل پر بجلی سی گر گئی۔ میں نے ماں کے پیر پکڑ کر پوچھا۔ ماں ! بتائو ، کیا واقعی تم دوسری شادی کر رہی ہو یا کسی نے مجھے غلط کہا ہے ؟ وہ بولیں۔ یہ معاشرہ شریف عورت کو اس طرح تو جینے نہیں دیتا بلکہ ساری عمر کی ریاضت کا یہ صلہ دیتا ہے کہ اس پر بہتان لگا دیئے جاتے ہیں۔ میں فیکٹری سے گھر پر سینے کے لئے گارمنٹ لاتی ہوں ، دن رات محنت کرتی ہوں ، تم لوگوں کا پیٹ پالنا، تم سب کو پڑھانا چاہتی تھی ، اس پر بھی تمہارے ددھیال اور میرے میکے والوں کو چین نہ تھا۔ میں نے ان سے کچھ مانگتی تو نہ تھی مگر یہ لوگ مجھے سکون سے محنت بھی نہیں کرنے دیتے۔ وہ کام چھوڑا، گھر بیٹھ کر دوسرے کام کئے ، دکان داروں کی دی ہوئی مرچیں صاف کیں، مصالحے پیس کر پیکٹ بنا کر دیتی تھی ، کیا کیا مشقتیں نہیں کیں۔ تب یہ لوگ مجھ پر دوکانداروں سے غلط تعلقات کا بہتان لگا دیتے کہ مارکیٹ، مارکیٹ پھرتی ہے ، میں یہ مشقتیں تم سات بچوں کو پالنے کے لئے کرتی رہی۔ تم لوگوں کے لئے میں نے اپنے ارمان، اپنی زندگی ، ہر شے کو محنت کی بھٹی میں جھونکا، تو اب تم لوگ بھی بات بات پر میرے منہ کو آتے ہو۔ تم نے میرا کہا نہ مانا، پڑھائی چھوڑ کر جانے کس رستے پر چل دیئے۔ تمہاری بہنیں ہیں کہ میرے قابو میں نہیں آتیں۔ ہر لڑکی اپنی من مانی کرتی ہے۔ تم آج دوسری شادی کے خدشے ظاہر کر رہے ہو، تمہاری بہنیں بھی مجھ سے ایسی ہی باتیں کرتی ہیں۔ کبھی کہتی ہیں کہ ہم کو محنت کا کیا طعنہ دیتی ہیں، نہ کریں ہمارے لئے محنت، دوسری شادی کر لیں۔ میں کب تک زمانے کے ساتھ ساتھ اولاد کی بھی ایسی خرافات سنوں ؟ سواب میں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ دوسری شادی کر کے اپنی زندگی سکون سے کیوں نہ جیئوں ۔ تمہارے بڑے ماموں تو ہر وقت کہتے رہتے تھے کہ دوسری شادی کر لو۔ یہ زندگی لمبی اور کٹھن ہے، کیسے گزارو گی ؟ میں یہی جواب دیتی تھی کہ میرے چھوٹے چھوٹے سات بچے ہیں۔ انہیں لے کر کیا میں دوسرے شوہر کے گھر جائوں ؟ یہ اتنے سارے کیا سوتیلے باپ کو آنگن میں سکھ سے سما سکیں گے ؟ اب تم لوگ بڑے ہو گئے ہو، خود مختار ہوتے جارہے ہو تو تمہارے بڑے ماموں اپنے ایک دوست سے میری دوسری شادی کے لئے مجھے منا رہے ہیں۔ اب بتائو میں کیا کروں؟ ابھی تو دوسری شادی کی نہیں اور سارے زمانے میں خبر اڑ گئی، محلے بھر میں بات پھیل گئی ہے۔ ابھی تو میں نے اس شخص کو دیکھا تک نہیں اور تم بد گمانی میں گھر سے نکل گئے۔ اب تم جاہی چکے ہو تو پھر میں بھی دوسری شادی کر رہی ہوں۔ میرا بھائی تو مجھ سے راضی ہو ، میرا دکھ سکھ بانٹنے والا ایک وہی تو ہے۔ اس روز مجھے ماں کی باتیں ایسی کڑوی اور زہر لگیں۔ سوچا کہ اب کبھی ان کو منہ نہ دکھائوں گا اور نہ ان کا منہ دیکھوں گا، پس اپنا سوٹ کیس تیار کیا اور ہمیشہ کے لئے ماں کا گھر چھوڑ دیا۔ میری بہنوں نے بھی ان سے جھگڑا کیا ، تب امی نے یہ کیا کہ والد کا گھر چھوڑ کر بڑے ماموں کے گھر چلی گئیں۔ ماموں نے ان کا نکاح اپنے دوست سے پڑھوادیا۔ افواہوں پر تو میں ، کم نشہ کرتا تھا، لیکن جب ماں ، میرے باپ کا گھر چھوڑ گئیں تو زیادہ نشہ کرنے لگا۔ شراب میں غم غلط کرنے سے صحت بھی گرمی اور کسی کام کے کرنے سے بھی رہ گیا۔ پہلے تو مجھے خوف تھا کہ ماں نے دوسری شادی کر لی تو میں دوستوں میں بد نام ہو جائوں گا۔ وہ کیا سوچیں گے، اور اب جب ہماری والدہ نے ہماری نافرمابرداری اور بد اخلاقی کے سبب دوسری شادی کر لی ، تو اس بات کا صدمہ مجھ سے سہا نہیں جارہا ہے۔ ایک دوست نے مجھے شراب پلائی، پھر میں اور زیادہ غلط راہ پر لگ گیا۔ اسی غم میں برباد ہو گیا ہوں۔ اب تو زندگی کے چند دن ہی باقی رو گئے ہیں۔ جب ماں کے تقدس کا تصور لہو لہان ہو جائے تو ہم جیسے بچے کہاں جائیں ؟ میں مرنا تو پسند کر سکتا ہوں مگر یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ اس عمر میں یہاں کسی غیر شخص سے منسوب ہو۔ روحیل کی باتیں سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تہیہ کر لیا کہ میں اس کی والدہ سے ملوں گی اور ان کو ان کے بیٹے کی حالت اور ذہنی کیفیت سے آگاہ کر کے پوچھوں گی کہ آخر انہوں نے تحمل سے کام کیوں نہ لیا اور ان کو پہلے سے ذہنی طور پر اس حقیقت سے سمجھوتہ کرنے پر تیار کیوں نہ کیا۔ بہت مشکل سے مجھے روحیل کی دادی کا پیتا ملا۔ پہلے میں ان کے پاس گئی۔ ایک بزرگ عورت جس کے ہاتھ میں تسبیح تھی اس نے خوش اخلاقی سے مجھے گھر میں بٹھایا۔ جب میں نے اس موضوع پر ان سے بات کی تو وہ بولیں۔ بیٹی ! ثمینہ کے بھائی ہی نہیں، میں نے بھی ان کے ساتھ مل کر اپنی بہو کی دوسری شادی کروائی ہے۔ وہ اب بیمار رہنے لگی تھی۔ اس کی محنت سے اتنے بچوں کا اور گھر کا خرچہ پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے اپنے شوق سے نکاح نہیں کیا۔ جس شخص سے اس کا نکاح ہوا ہے ، وہ مالدار ، شریف آدمی ہے مگر بے اولاد ہے۔ اس کی بیوی عرصہ ہو اوفات پا چکی ہے۔ اس نے بہو کے بھائی سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر ماہ ہمارے بچوں کے لئے مناسب خرچہ کی رقم مجھے دے گا، میری پوتیوں کی شادیاں کرائے گا۔ جب اتنا فرشتہ صفت انسان سہارا دینے پر راضی تھا تو ہم کیوں انکار کرتے ؟ بچے تو نادان ہیں ، اوپر سے منہ زور اور نافرمان ہیں۔ آخر کب تک ثمینہ یہ سب سہتی رہتی۔ میں خوش ہوں کہ اس نے دوسری شادی کرلی۔ روحیل کو تم سمجھاؤ، اسے سیدھی راہ پر لانے کی کوشش کرو، لڑکیوں کو میں سمجھالوں گی۔ آخر میں ان کی دادی ہوں اور ان کے لئے بہتر سوچتی ہوں۔ بڑی اماں کی باتیں مجھے اچھی لگیں۔ کافی دن میں روحیل کو سمجھاتی رہی کہ تم نہ پڑھ سکے اور نہ کماتے ہو، پھر اس طرح کی باتیں کیوں کرتے ہو؟ تمہاری دادی اور ماموں نے باہمی صلاح مشورے سے جو فیصلہ کیا ہے ، اسے قبول کر لو۔ حقیقت پسند بنوں جا کر ماں سے ملو، معافی مانگو اور حالات کو معمول پر لے آئو۔ لوگ سوائے باتیں بنانے کے تمہیں کیا دیں گے ؟ کوئی دکھ میں نہ تو آپ کو سہارا دے گا اور نہ مالی مدد دے گا تو جس نے سہارا دیا ہے اس کی قدر کرنی چاہیے نہ کہ نفرت …. بالآخر ایک دن اس کی سمجھ میں میری بات آگئی اور اس نے ماں سے صلح کر لی، یوں ماں کا دکھ دور ہو گیا اور اس کا بھی۔