یوں تو اماں مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، لیکن سہیلیوں کے ساتھ دوستی کے معاملے میں بہت سخت تھیں۔ کسی لڑکی سے دوستی ہو جاتی، تو وہ اس کے بارے میں جاننے کے لئے بال کی کھال نکالنے لگتی تھیں۔ ان کی اس عادت سے مجھے بے حد کوفت ہوتی تھی، اس لئے میں کوئی سہیلی نہیں بناتی تھی۔ اسکول کی لڑکیاں اکثر ایک دوسرے کے گھر آتی جاتی تھیں، لیکن مجھے اس کی اجازت نہیں تھی۔ اگر کبھی کوئی ہم جماعت آ بھی جاتی، تو پہلے اماں اس کا تفصیلی انٹرویو کرتیں کہ کہاں سے آئی ہو، کس کی بیٹی ہو، ابا کیا کرتے ہیں؟ غرض کئی طرح کے سوال کرنے کے بعد ہی اسے مجھ سے بات چیت کی اجازت ملتی۔
آٹھویں تک تو میں نے برداشت کیا، پھر ایک روز بھرپور احتجاج کیا کہ میری سہیلیاں گھر آئیں گی تو آپ ان کو کچھ نہ کہیں گی اور میں بھی ان کے گھر جاؤں گی۔ تب ہی اماں نے کہا، “اگر ایسا کیا، تو میں تم کو اسکول سے ہٹا لوں گی۔”
“آخر کیوں اماں؟ دوسری لڑکیوں کی مائیں تو ایسا نہیں کرتیں؟” میں نے روتے روتے پوچھ ہی لیا۔
“اس لئے بیٹی کہ زمانہ خراب ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ کون لڑکی کس طرح کی ہے۔ کل کلاں، وہ تم کو کسی الٹے سیدھے معاملے میں پھنسا دے، تب کیا ہوگا؟ بیٹا! انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ شریف والدین اپنی بچیوں کو نہ صرف اچھی تربیت دیتے ہیں بلکہ ان پر کڑی نگاہ بھی رکھتے ہیں۔”
امی ٹھیک کہتی تھیں۔ جب تک وہ زندہ رہیں، مجھے کسی ایسی ویسی لڑکی سے دوستی کی جرات نہ ہوئی۔ بس ایک دو ہی گنی چنی سہیلیاں تھیں، جن کے گھرانوں کو اماں بخوبی جانتی تھیں۔ جب میں نویں جماعت میں تھی تو ایک روز اچانک امی کے پہلو میں درد اٹھا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔ گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ میں سمجھدار تھی، اس لئے مجھے غم بھی زیادہ تھا۔ بڑے بھائی لاہور پڑھنے گئے ہوئے تھے، ایک بہن اور بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔ کبھی خود کو سنبھالتی، کبھی ان کو چپ کراتی۔ جانے والے چلے جاتے ہیں، امی بھی سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلی گئیں۔
گھر میں ہماری بیوہ پھپھو، جنہیں بوا بلقیس کہا جاتا تھا، رہا کرتی تھیں۔ ماں کے بعد انہوں نے گھر سنبھال لیا، ورنہ ہمارا گھر بکھر گیا ہوتا۔ گھر کو تو سنبھلنا تھا، لیکن میرے ہاتھوں بکھر گیا۔ بلکہ یوں کہیے کہ میں اپنوں سے بچھڑ گئی، اور وہ بھی اپنی نادانی کے سبب۔ ماں جس بات سے روکتی تھیں، وہی کام کیا۔ سہیلیوں کے لیے ترستی تھی، اب نت نئی سہیلیاں بنا لیں۔ کچھ ماں کا غم غلط کرنے کو اور کچھ اپنی باتونی فطرت کی وجہ سے۔
دسویں جماعت میں تھی کہ ایک نئی لڑکی، درخشاں، ہماری کلاس میں آئی۔ بڑی نٹ کھٹ، کپتی، اور خوش لباس۔ وہ بہت جلد کلاس میں مقبول ہو گئی۔ ہر لڑکی اس کے ساتھ دوستی کی خواہاں تھی، لیکن جانے کیوں اس نے دوستی کے لیے مجھ جیسی سیدھی سادی اور کم عقل لڑکی کو چنا۔ جلد ہی ہم میں گہری دوستی ہو گئی۔ ہم اکٹھے وقت گزارتے، ساتھ ساتھ بیٹھتے، اور خالی پیریڈ میں اسکول کے گراؤنڈ میں چکر لگاتے۔ میرا گھر اس کے گھر کے راستے میں تھا، لہٰذا چھٹی کے وقت بھی ہم ساتھ نکلتے تھے۔
پھپھو کی طبیعت امی سے بہت مختلف تھی۔ وہ لا ابالی اور نرم مزاج تھیں۔ انہوں نے کبھی نہ پوچھا کہ تم اسکول سے دیر سے کیوں آنے لگی ہو یا تمہاری نئی سہیلی کیسی ہے؟ غرض مجھے پھپھو کی طرف سے کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی، کیونکہ وہ مجھے بہت چاہتی تھیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا، اکمل، تھا۔ وہ پہلے اپنی دادی کے ساتھ رہتا تھا، پھر ہمارے گھر آ گیا اور ہمارے اسکول کے قریب کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ کبھی کبھی چھٹی کے وقت راستے میں مل جاتا، تو ہم اکٹھے ہی گھر آ جاتے۔ یوں درخشاں کی بات چیت اکمل سے ہونے لگی۔ وہ ایک خوبصورت لڑکا تھا، اس لیے مجھے محسوس ہوتا کہ درخشاں اسے پسند کرنے لگی ہے۔ وہ اس کی تعریف کرتی اور منتظر رہتی کہ وہ ہمیں چھٹی کے وقت مل جائے۔ تاہم اکمل کو یہ بات پسند نہ تھی۔ وہ درخشاں سے بہت کم گفت گو کرتا تھا۔
ایک دن پھپھو نے ابو سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مجھے بہو بنانا چاہتی ہیں۔ والد صاحب نے کہا، “اکمل میرے لیے بیٹوں جیسا ہے۔ اس رشتے پر مجھے خوشی ہوگی۔” یوں میری منگنی اس سے کر دی گئی۔ جب میں نے درخشاں کو بتایا تو وہ بجھ کر رہ گئی۔ میں نے اس سے پوچھا، “کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟ کیا اکمل اچھا لڑکا نہیں ہے؟”
وہ بولی، “وہ اچھا ہے، بس میں تمہاری جدائی کے خیال سے اداس ہو گئی ہوں۔” یہ کہہ کر بات آئی گئی ہو گئی۔
میں ریاضی میں کافی کمزور تھی اور اکمل سے رات کو گھنٹہ بھر بیٹھ کر سوال سمجھتی تھی۔ اس بہانے ہم خوب باتیں کرتے، اور میں وہ باتیں درخشاں کو بتا دیتی۔ وہ کہتی، “ذرا اس کی محبت کو آزماؤ تو، اسے کہو کہ تمہیں مہنگی گھڑی لا کر دے۔” میں آنکھ بند کر کے درخشاں کے اشاروں پر چلتی تھی۔ جیسا وہ سکھاتی، ویسا ہی اپنے منگیتر کو کہہ دیتی۔ اکمل میری ہر بات مانتا اور ہر فرمائش پوری کر دیتا۔ ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے، آپس میں بات چیت کرنے پر بھی کوئی پابندی نہ تھی۔ پھر بھی وہ کہتی، “تم اپنے منگیتر کو کہو کہ وہ تمہیں سیر پر لے جائے۔” یوں میں اکثر اسکول کے بجائے اکمل کے ساتھ گھومنے چلی جاتی اور چھٹی کے وقت ہم گھر پہنچ جاتے۔
یوں سال بیت گیا اور میں نے میٹرک بھی کر لیا۔ اب بھی میں درخشاں کے گھر جاتی اور تمام حال اسے بتا دیتی تھی۔ وہ ایک لالچی لڑکی تھی۔ جب آتی، پوچھتی، “تم نے اکمل سے کیا لیا؟ یا اس نے تمہیں کیا تحفہ دیا؟” اور کہتی، “تم اس سے فرمائش کیا کرو تاکہ اسے تمہارے لیے کچھ نہ کچھ لانے کی عادت رہے۔” اکمل بی اے کر چکا تھا لیکن بےروزگار تھا۔ روز روز مہنگے تحفے کہاں سے دیتا؟ ادھر درخشاں کے سکھانے کی وجہ سے میں بھی کافی لالچی ہو گئی تھی۔ اب اگر اکمل خالی ہاتھ آتا تو مجھے برا لگتا، اور اس وقت تک صحیح طرح سے بات نہ کرتی، جب تک وہ میری فرمائش پوری نہ کرتا۔
آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا؟ اکمل مجھ سے بدظن ہوتا گیا اور نفرت کرنے لگا۔ میں نے بھی اس سے لاپروائی اختیار کر لی۔ تب وہ برے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا تاکہ کوئی شارٹ کٹ کر کے پیسے حاصل کرے اور میری فرمائش پوری کر سکے۔ لیکن ان لوگوں نے اسے نشے کی لت لگا دی۔ یوں چند مہینوں میں ہی وہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ وہ ایم اے میں داخلہ لے چکا تھا، لیکن تعلیم بھی ادھوری رہ گئی۔
اب پھپھو ہر وقت اکمل کے غم میں روتی رہتی تھیں، لیکن انہیں علم نہ تھا کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ البتہ مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا کہ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ اگر میں ایسا نہ کرتی، تو وہ سیدھا سادہ لڑکا تباہ نہ ہوتا۔ اس احساس نے مجھ پر افسردگی طاری کر دی۔ میں اس کا اظہار درخشاں سے کرتی، تو وہ بجائے دلجوئی کرنے کے خوش نظر آتی، گویا مجھے تباہ کرنے میں اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور اب اپنی کامیابی پر مسرور تھی۔
ایک دن اس نے بتایا کہ اس کی منگنی ایک امیر لڑکے، نادر، سے ہو گئی ہے، اور وہ کبھی کبھی اپنے منگیتر سے ملتی بھی ہے۔ وہ سارا دن بس اس کے گیت گاتی تھی۔ ایک دن کہنے لگی، “نصرت، میں تمہارے منگیتر سے کئی بار ملی ہوں، لیکن تم نے ایک بار بھی نادر کو دیکھنے کی خواہش نہیں کی؟ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ اپنی سہیلی کے ہونے والے جیون ساتھی کو دیکھو؟ وہ بہت اچھا ہے، تم ملو گی تو خوش ہو جاؤ گی۔”
میں نے جواب دیا، “اکمل کا تو کالج ہمارے اسکول کے پاس تھا، اس لیے تم سے مل لیا کرتا تھا۔ میں بھلا تمہارے منگیتر سے کیسے مل سکتی ہوں؟”
ایک دن اس نے کہا، “چلو، میں تمہیں اس سے ملا کر لاتی ہوں۔ میں نے تمہاری اتنی تعریف کی ہے کہ وہ بھی تم سے ملنے کا مشتاق ہے۔”
میں جھجھک رہی تھی کہ ایک غیر لڑکے سے کیسے ملوں گی، تبھی بہانہ کر دیا کہ آج پھپھو کے ساتھ بازار جانا ہے، پھر کبھی سہی۔
ایک ہفتے بعد درخشاں میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اس کی امی بیمار ہیں، انہیں اسپتال لے جانا ہے۔ اس نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا، اور میں فوراً تیار ہو گئی۔ جب ہم محلے سے باہر نکلے، ایک سفید کار ہمارے سامنے آ کر رکی۔ اسے ایک لڑکا چلا رہا تھا۔ درخشاں نے تعارف کرایا، “یہ نادر ہے، میرا منگیتر۔ نادر، یہ میری سہیلی نصرت ہے، جس کا میں اکثر ذکر کرتی ہوں۔” میں خاموشی سے مسکراتی رہی، لیکن دل ہی دل میں حیران تھی کہ ہم اسپتال جانے کے بجائے کسی اور طرف جا رہے ہیں۔
نادر ہمیں اپنے بنگلے پر لے گیا، جو بہت شاندار اور خوبصورت تھا۔ درخشاں نے بتایا کہ اس کے والدین گھر پر نہیں ہیں۔ میں اس کی بات پر یقین کر بیٹھی۔ اندر جا کر ہم نے چائے پی، اور پھر درخشاں اور نادر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ میں اکیلی بیٹھ کر کمرے کی قیمتی اشیاء کو دیکھتی رہی۔ وقت گزرتا گیا، لیکن وہ دونوں واپس نہ آئے۔ جب ایک گھنٹہ گزر گیا تو میں نے ہمت کر کے کمرے کے دروازے کو دھکا دیا۔ درخشاں اور نادر مجھے دیکھ کر چونک گئے۔ درخشاں فوراً بال ٹھیک کرنے کے بہانے غسل خانے میں چلی گئی، اور نادر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
مجھے الجھن ہونے لگی اور میں اٹھ کر جانے لگی، لیکن نادر نے دروازہ بند کر دیا۔ اب میں ساری حقیقت سمجھ چکی تھی۔ میری سہیلی نے مجھے دھوکہ دیا تھا اور اس لڑکے کے ارادے بھی ٹھیک نہیں تھے۔ میں نے درخشاں کو آواز دی، مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس لمحے مجھے اپنی ماں کی وہ نصیحت یاد آئی کہ کبھی سہیلیوں پر اندھا اعتماد نہ کرنا۔
میں روتی ہوئی گھر واپس پہنچی۔ جب محلے کے قریب پہنچے تو ابو نے ہمیں نادر کی کار سے اترتے دیکھ لیا۔ وہ سخت غصے میں تھے۔ میرے بکھرے حال کو دیکھ کر سب کچھ سمجھ گئے اور گھر آتے ہی مجھے مارنا شروع کر دیا۔ وہ بار بار پوچھ رہے تھے کہ میں کہاں گئی تھی اور کس کے ساتھ تھی، لیکن میرے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ ابو چھری اٹھانے لگے، لیکن پھپھو نے چھری چھپا دی۔ میں خوف کے مارے گھر سے بھاگ نکلی اور ریلوے اسٹیشن جا پہنچی۔
لاہور جانے والی ٹرین میں بیٹھ گئی، مگر منزل کا کوئی علم نہ تھا۔ میرے رونے کی وجہ سے قریب بیٹھی عورتوں نے مجھ سے بات کی اور میرا حال پوچھا۔ میں نے گھبرا کر جھوٹ بولا کہ ابو فوت ہو گئے ہیں اور میں لاہور اپنے گھر جا رہی ہوں۔ وہ سمجھ گئیں کہ میں سچ نہیں بول رہی، اور ایک عورت نے کہا، “لاہور میں کہاں رہتی ہو؟ ہم تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیں گے۔” میں نے ان کے سوالوں کے جواب دینے سے گریز کیا، لیکن وہ مصر ہو گئیں کہ میں اپنا پتا بتاؤں۔
میں نے ان سے کہا کہ کل بتاؤں گی، ابھی مجھے آرام کرنے دو۔ رات کے وقت جب سب لوگ ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے، میں نے چپکے سے دروازہ کھولا اور باہر نکلنے کی کوشش کی، لیکن خوف کی وجہ سے قدم نہ بڑھا سکی۔ باہر کا اندھیرا اور اجنبیت مجھے موت کی دہلیز جیسا محسوس ہو رہے تھے۔ اسی دوران گھر کا مالک آگیا۔ اس نے جب مجھے یوں باہر جھانکتے دیکھا تو نرمی سے پوچھا، “بیٹی! اس وقت رات کے اندھیرے میں اکیلے کہاں جا رہی ہو؟”
اس کے مہربان لہجے نے مجھے رونے پر مجبور کر دیا۔ میں گیٹ کے قریب بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ بزرگ مجھے دوبارہ گھر کے اندر لے آئے اور اپنی بیوی سے کہا، “یہ بچی بہت خوف زدہ ہے، اسے تنگ نہ کرو۔ سکون میں آ جائے تو خود ہی سب کچھ بتا دے گی۔”
یوں میں دوبارہ ان کے گھر کی چھت کے نیچے آ گئی، لیکن دل میں ایک گہرا درد تھا۔ ماں کی نصیحت اور اپنی غلطیوں کا احساس بار بار میرے دل کو کاٹ رہا تھا۔
چند دن تک ان خواتین نے مجھ سے کچھ نہیں کہا، لیکن بہانے بہانے سے باتیں پوچھنے لگتیں۔ میں ان کے سوالوں پر رونے لگتی تھی۔ ایک دن بزرگ خاتون کی بہن اپنی بہو کے ساتھ آئیں۔ بہو کی گود میں ایک ننھا بچہ تھا، جسے میں پیار سے دیکھ رہی تھی۔ بزرگ خاتون کی بہن بولیں، “تم ہمارے گھر چل کر رہو۔” انہوں نے بزرگ خاتون سے اصرار کیا کہ مجھے ان کے ساتھ بھیج دیں تاکہ وہ مجھے اپنی بیٹی بنا کر رکھ سکیں۔ ان کی محبت دیکھ کر میں بھی ان کے ساتھ جانے پر تیار ہو گئی، اور یوں ان کے گھر پہنچ گئی۔
دوسروں کے گھروں میں رہنے کا تجربہ ہوا تو سمجھ آئی کہ اپنا گھر، چاہے جیسا بھی ہو، جنت جیسا ہوتا ہے۔ بزرگ خاتون، جنہیں سب خالہ ماہتاب کہتے تھے، بہت اچھی تھیں اور میرا خیال اپنی بیٹی کی طرح رکھتی تھیں، لیکن ان کی بہو ندرت حامد کو میرا وہاں رہنا ایک آنکھ نہ بھایا۔ تاہم، اس نے سوچا کہ میں مفت کی نوکرانی ہوں، اس لیے اپنا کام مجھ سے کروانے لگی۔ اس نے سارا گھر کا کام میرے سر ڈال دیا، خود بچے کو گود میں لے کر آرام کرتی، اور مجھ پر حکم چلاتی۔ میرے کام میں ہمیشہ نقص نکالتی اور شاباش دینے کے بجائے جھڑکیاں دیتی۔
ایک سال تک میں نے یہ سب برداشت کیا، لیکن جب خالہ ماہتاب اپنے دوسرے بیٹے کے گھر چلی گئیں تو میرا وہاں رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن ندرت باجی نے مجھے کسی بات پر بہت برا بھلا کہا۔ اس وقت انہوں نے مجھے باسی سالن دیا تھا، جو مجھ سے کھایا نہ گیا۔ میں نے روکھی روٹی پانی کے ساتھ کھائی، جس پر انہیں غصہ آیا کہ میں رزق کی ناشکری کر رہی ہوں۔ انہوں نے مجھے کہا، “تو آوارہ اور گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی ہے۔ ہم نے تمہیں پناہ دی اور تم شکر گزار ہونے کے بجائے نخرے کرتی ہو۔”
میں نے جواب دیا، “میں نے آپ سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کوئی شکایت کی، پھر کیوں آپ مجھے ایسے باتیں سنا رہی ہیں؟” میرے جواب دینے پر ان کا غصہ اور بڑھ گیا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب مفت کی نوکرانی بن کر نہیں رہوں گی، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
سردیوں کے دن تھے۔ ایک شام جب موقع ملا، میں اپنا سامان اٹھا کر گھر سے نکل گئی۔ خالہ ماہتاب کے بھائی جو مجھے جیب خرچ دیتے تھے، ان کے دیے ہوئے چند سو روپے جمع کیے تھے۔ وہی رقم لے کر میں داتا دربار پہنچ گئی۔ وہاں ایک کونے میں بیٹھ کر نماز ادا کی اور اللہ سے دعا کی، “اے اللہ! آج کسی اپنے سے ملا دے۔”
میں رو رو کر چپ ہو رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ جب سب چلے جائیں گے، تو شاید محافظ مجھے بھی نکال دیں گے۔ اسی وقت اچانک میری نظر ایک عورت پر پڑی۔ غور سے دیکھا تو لگا کہ یہ پھپھو ہیں، لیکن پھر سوچا کہیں کوئی اور نہ ہو۔ قریب جا کر دیکھا تو واقعی وہ پھپھو تھیں۔ میں “پھپھو!” کہہ کر ان سے لپٹ گئی۔ پہلے تو وہ حیران ہوئیں، پھر مجھے پہچان کر بھینچ لیا۔ کہنے لگیں، “ارے! تم؟ تمہارے ملنے کی دعا ہی کرنے آئی تھی۔ شکر ہے کہ تم مل گئیں۔”
یہ لمحہ میری زندگی کا سب سے بڑا کرشمہ تھا۔ پھپھو نے بتایا کہ انکل بھی ادھر مردوں کی طرف ہیں اور کسی کے لیے رشتہ دیکھنے لاہور آئے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا، “اب گھر چل۔” میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا، “ابا؟” وہ بولیں، “پاگل! وہ تمہیں صرف ڈرا رہے تھے تاکہ تم ایسی حرکت دوبارہ نہ کرو۔ وہ تمہیں مارنے والے تھوڑی تھے۔”
پھپھو مجھے اپنے ساتھ عزیزہ کے گھر لے آئیں۔ وہاں ان کے بیٹے اکمل کے لیے رشتہ دیکھا جا رہا تھا، لیکن پھپھو نے انہیں منع کر دیا اور اکمل سے کہا، “کیا تم نصرت کو قبول کرو گے؟” اکمل نے میری کہانی سن کر کہا، “یہ میری منگیتر ہی نہیں، ہمارا خون بھی ہے۔ میں اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑ سکتا۔”
آج میں اکمل کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں۔ ابو نے بھی مجھے معاف کر دیا۔ جب میں ان سے ملی تو وہ بہت بوڑھے لگ رہے تھے۔ میرے غم میں وہ ایک سال میں اتنے بوڑھے ہو گئے جیسے پچاس سال گزر گئے ہوں۔ ابو نے کہا، “بیٹی، میں نے تمہیں ڈرا کر بہت بڑی غلطی کی، جس کی مجھے سزا ملی۔”
اب میں ہر کسی کو نصیحت کرتی ہوں کہ اپنی بچیوں پر نظر رکھیں اور انہیں سوچ سمجھ کر دوست بنانے دیں۔ ہر کوئی دوست بننے کے لائق نہیں ہوتا۔