Thursday, February 13, 2025

Maan Ki Umeed

یہ ذکر اس گمشدہ بیٹے کا ہے، جسے میرے والدین بھی فراموش نہ کر سکے۔ ماں باپ ہمیشہ اولاد کے غم بانٹتے ہیں، لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہم اپنے والدین کا غم کس طرح بانٹیں؟ انہیں قاسم بھائی کے غم میں روتا دیکھ کر ہم خود حوصلہ ہار جاتے تھے۔ قاسم بھائی کو میں نے کبھی نہیں دیکھا، بس گھر والوں سے ان کا ذکر بہت بار سنا تھا۔ جب کوئی ان کا ذکر کر دیتا تو ماں کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں اور ان کے ہونٹوں سے یہی دعا نکلتی کہ وہ جہاں بھی ہو، سلامت رہے۔ وہ شاید اس لیے زندہ تھیں کہ زندگی کے کسی موڑ پر ان کا کھویا ہوا بیٹا آ ملے گا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا، والدین کو اسی دکھ میں مبتلا پایا۔ اگر کبھی خوشی کا کوئی لمحہ ان کی زندگی میں آیا بھی، تو وہ اس خوف میں گزار دیا کہ کہیں اس کے پیچھے کوئی غم نہ چھپا ہو۔ انہوں نے بیٹے کے انتظار میں بائیس برس گزار دیے اور یہ مدت کم نہیں تھی۔میری ماں کے غم کے پس پردہ سارا مسئلہ جائیداد کا تھا۔ دادا ایک بڑے زمیندار تھے۔

میری دادی سارہ بی بی ان کی دوسری بیوی تھیں۔ وہ کافی سخت مزاج تھیں، گرچہ امی کو بڑی چاہ سے بہو بنا کر لائی تھیں، مگر امی سے کبھی نہ بنی۔ وجہ یہ تھی کہ دادی کو پوتا دیکھنے کی خواہش تھی، جبکہ میری ماں نے یکے بعد دیگرے تین بیٹیوں کو جنم دیا۔ تب ہی دادی نے کہہ دیا، اگر اب بھی لڑکی ہوئی تو ملک صاحب کی دولت و جائیداد میری سوکنوں کی اولاد لے جائے گی، کیونکہ میرے بیٹے کے حصے میں تو بیٹیاں ہی ہوں گی۔ بابا جان اپنی ماں کو سمجھاتے تھے کہ یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے، آپ بہو کو برا بھلا مت کہا کریں۔ اس امر میں میری بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ہمارے سوتیلے تایا ابو بمعہ فیملی گاؤں سے شہر چلے گئے۔ دادی نے ان کے ساتھ جانا پسند نہیں کیا، کیونکہ انہیں میرے والد سے بہت محبت تھی۔ وہ انہیں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھیں۔ ان دنوں میری نانی امی کے لیے کافی فکر مند تھیں۔ وہ دادی کے مزاج سے بھی اچھی طرح واقف تھیں کہ جب تک اس عورت کو پوتے کے جنم کی خوشی نہیں مل جاتی، وہ نہ خود سکون سے رہے گی اور نہ میری بیٹی کو رہنے دے گی۔اب میری نانی کا زیادہ وقت دعاؤں میں گزرنے لگا، وہ اللہ تعالیٰ سے نواسے کی پیدائش کی دعا مانگتیں۔ ایک دن انہوں نے عجیب دعا مانگی کہ اے اللہ میری بیٹی کو بیٹا دے دے، چاہے پھر اس سے بیٹا چھین لینا، مگر ابھی میری دعا قبول فرما، نہیں تو ساس اس پر سوتن ڈال دے گی۔ جانے کیا سوچ کر نانی نے یہ دعا مانگی تھی۔ جب امی کو پتا چلا تو وہ بہت پریشان ہوئیں اور کہا اماں جی، آپ کو اس طرح کی دعا نہیں مانگنی چاہیے تھی۔ پھر اللہ نے میری ماں کو فرزند عطا کیا، جس کا نام قاسم رکھا گیا۔ امی اس سے بہت پیار کرتی تھیں، ایک لمحے کو خود سے جدا نہیں کرتی تھیں۔ دل میں یہ خوف بیٹھ گیا تھا کہ اگر قاسم ان سے دور ہو گیا تو وہ اس کی جدائی برداشت نہ کر سکیں گی۔ ان کے دل پر نانی کی مانگی ہوئی دعا کا ڈر بیٹھ گیا تھا۔ قاسم کے بعد میرا دوسرا بھائی پیدا ہوا، جس کا نام فاروق رکھا گیا۔ ماں کو بڑا بیٹا سب سے زیادہ پیارا تھا۔ وہ اسے دریا، نہر، پہاڑوں اور ایسی جگہوں پر جانے سے منع کرتیں، جہاں حادثہ پیش آنے کا احتمال ہوتا۔ قاسم یوں تو بہت فرمانبردار تھا، لیکن امی کی ان نصیحتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا تھا۔امی کہا کرتیں، میں نے قاسم کو ہمیشہ اداس دیکھا، اور جب میں اس سے پوچھتی تو وہ کہتا، پتا نہیں کیوں میرا دل ماندہ رہتا ہے، مجھے لگتا ہے میں کہیں کھو نہ جاؤں۔ خود کو اکیلا محسوس کرتا ہوں، حالانکہ میں اکیلا تو نہیں، آپ سب لوگ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ ماں پیار سے کہتیں، تیری بلائیں میرے سر، تو ایسی باتیں نہ کیا کر، جو ہم کو اداس کر دیتی ہیں۔میری دونوں بڑی بہنوں کی شادیاں اپنے سوتیلے تایا کے بیٹوں سے ہو گئیں اور وہ بیاہ کر سسرال چلی گئیں۔ فاروق بھائی کے بعد امی نے دو اور لڑکیوں کو جنم دیا۔ وہ بتاتی تھیں کہ جب میں بیمار ہو جاتی تو قاسم ہی گھر کے سب کام کرتا تھا۔ جب ٹھیک ہو جاتی، تب بھی میری خدمت گزاری میں لگا رہتا۔ راتوں کو میرے ساتھ علالت کے دنوں میں وہی جاگتا تھا۔ صحت مند ہونے کے بعد بھی وہ مجھے بستر سے اٹھنے نہیں دیتا تھا۔جب وہ ہم سے جدا ہوا، اس کی عمر چودہ، پندرہ برس تھی۔ اس نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ اور بیسواں روزہ تھا۔ اس نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا۔ اس کے کچھ دوست گاؤں سے ملنے آئے ہوئے تھے، انہوں نے قاسم سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ نہانے چلے۔ ہمارے گاؤں کے قریب ایک بڑی نہر تھی، جہاں نوجوان لڑکے نہاتے اور تفریح کے لیے جایا کرتے تھے۔ قاسم بھائی اور فاروق بھائی دونوں ہی امی کو بتائے بغیر اپنے دوستوں کے ساتھ نہر پر چلے گئے۔

ماں بتاتی تھیں کہ انہوں نے دونوں بیٹوں کو جاتے وقت دیکھا تھا۔ فاروق آگے اور قاسم اس کے پیچھے تھا، جب ان کی نگاہ پڑی، قاسم دروازے سے نکل چکا تھا، صرف اس کا بازو ہی دیکھ سکیں، وہ تب ہی دروازہ بند کر کے گلی میں چلا گیا۔ امی کی پکار اُن کے حلق میں ہی رہ گئی۔ بس یہ بیٹے کی دید کا آخری منظر تھا اور یہ منظر میری ماں کی نگاہوں میں بس گیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز دکھ سے بھر جاتی کہ ہائے، میں تو اپنے بیٹے کو آخری بار پیار بھی نہ کر سکی۔فاروق بھائی قاسم کے ساتھ جاتا ضرور تھا، لیکن وہ پانی سے ڈرتا تھا، تب ہی اس نے کبھی نہر میں نہانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اسے تیرنا نہیں آتا تھا، اسی لیے وہ کنارے پر کھڑا رہتا، مگر قاسم نہر میں تیرنے کا شوقین تھا۔ لیکن اس دن بدقسمتی سے نہاتے وقت وہ اچانک ایک بڑے بھنور میں پھنس گیا – اس نے دوستوں کو مدد کے لیے پکارا۔ اسے ڈوبتے دیکھ کر کسی کی بھی ہمت نہ ہوئی کہ اسے بچانے جاتا۔ سب ہی کو یہ خوف تھا کہ اگر ہم نے بھنور میں چھلانگ لگائی تو ڈوب جائیں گے۔ جب فاروق نے دیکھا کہ کوئی متقاسم کو بچانے نہیں جا رہا، تو وہ مدد کے لیے گھر کی طرف دوڑا پڑا۔ اسے خبر نہیں تھی کہ پیچھے اس کے بھائی پر کیا گزری۔نہر کے قریب ہی خانہ بدوشوں کے خیمے تھے، جو اگلے دن کسی کو کچھ بتائے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ وہاں کے رہنے والوں کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے میرے بھائی کو نکال لیا تھا، تب ہی وہ اس طرح اچانک چلے گئے۔ امی کا خیال تھا کہ انہوں نے ایسا ہی کیا ہوگا۔ میرے بھائی کو پانی سے نکالتے ہوئے دوستوں میں سے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ان خانہ بدوشوں کو کوئی نہ جانتا تھا۔ میرے گھر والوں کو آج بھی اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہے کہ اگر وہ اس وقت ان کے خیموں کی تلاشی لیتے تو اسی دن قاسم ان کو مل جاتا۔کئی ماہ گزر گئے، امی اپنے حواسوں میں نہ تھیں۔ ہر چیز سے لاتعلق سی ہو کر رہ گئی تھیں، کسی بات کا ہوش نہیں تھا اور میرے والد صاحب پیروں، فقیروں کے چکر میں پڑ گئے تھے۔ اسی دوران میرے دادا بھی انتقال کر گئے۔قاسم کو ڈھونڈنے میں والد صاحب نے کوئی کسر نہ چھوڑی، پھر کسی نے میرے بابا کو استخارہ کرنے کا مشورہ دیا، جس پر انہوں نے عمل کیا۔ رات کو خواب میں دیکھا، کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں جگہ جانا ہے، مگر اکیلے جانا ہے اور کسی کو نہ بتانا۔ بس اتنا ہی خواب تھا۔ صبح میرے والد نے چچا کو ساتھ لیا۔ وہ جگہ دادو شہر کے قریب واقع تھی۔ میرے چچا اکثر دادو آتے جاتے تھے اور تمام راستوں اور علاقوں سے واقف تھے، تب ہی بابا نے انہیں ساتھ لیا تھا۔یہ علاقہ بہت خراب تھا، لیکن انہیں وہاں کوئی نہ ملا۔ پھر دونوں نے آس پاس کے رہنے والوں سے پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں خانہ بدوش ٹھہرے ہوئے تھے، مگر رات کو اچانک چلے گئے۔ والد صاحب ناامید ہو کر واپس آ گئے۔اسی رات بابا جان نے اپنے والد کو خواب میں دیکھا، جو غصے میں کہہ رہے تھے کہ جب میں نے کہا تھا کہ اکیلے جانا اور کسی کو مت بتانا، تو پھر تم کیوں کسی کے ساتھ گئے؟ اب ساری زندگی قاسم کا انتظار کرو- یہ خواب دیکھ کر بابا جان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور بہت زیادہ پریشان ہو گئے۔ وہ اس بات پر ہر وقت افسردہ رہتے کہ کاش میں اکیلے جاتا، تو شاید میرا بیٹا مل جاتا۔ خدا جانے اس خواب کا کیا مطلب تھا۔ خواب سچا تھا یا محض ایک واہمہ؟ لیکن میرے والد کے دل میں یہ وہم بیٹھ گیا تھا کہ انہیں خواب میں ملے اشارے پر عمل کرنا چاہیے تھا۔بہر حال، یہ تو نصیب کی بات تھی کہ کوئی کھویا ہوا ملے یا نہ ملے، مگر تاسف ایک اور مصیبت بن کر دلوں میں کسی ناگ کی طرح بیٹھ گیا۔ والد نے خواب صرف والدہ کو بتایا، اور امی نے ہر کسی کو بتا دیا کہ ہم سے کہیں نہ کہیں غلطی ہوئی ہے، ورنہ ہمارا بیٹا ہمیں مل جاتا۔اس کے بعد میرے والدین کو کئی باتیں سننے کو ملیں۔ کوئی دلاسہ دیتا کہ وہ زندہ ہے، ضرور آئے گا۔ کوئی کہتا کہ وہ اس دنیا سے چلا گیا ہے، جب ڈوب گیا تو کہاں سے واپس آئے گا؟ لیکن میرے والدین یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ وہ ڈوب گیا ہوگا۔ وہ کہتے تھے کہ جو ڈوب جاتے ہیں، ان کی لاش پانی پر آجاتی ہے۔ اگر ہمارا بیٹا ڈوبا ہوتا، تو ضرور اس کا کچھ نہ کچھ پتا چلتا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہ کبھی ضرور ملے گا۔ امید کا چراغ اسی طرح کبھی جلتا، کبھی بجھ جاتا تھا۔وقت تیزی سے گزرتا رہا، یہاں تک کہ بائیس سال گزر گئے۔ ماں اس صدمے کو سہتے سہتے کئی بیماریوں میں مبتلا ہو گئیں۔

زندگی میں انہوں نے جتنے دکھ دیکھے تھے، یہ دکھ ان سب پر بھاری تھا کہ بیٹے سے ملنے کی آس ٹوٹتی ہی نہیں تھی۔ایک روز ایک عجیب واقعہ ہوا۔تایا، جو شہر میں رہتے تھے، ہم سے ملنے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک اسٹور پر خریداری کے لیے گئے تھے۔ ان کی بیوی گاڑی میں بیٹھی تھیں اور بیٹے ان کے ہمراہ اسٹور میں تھے۔ تب ہی دو لڑکے تائی کے پاس آئے اور بولے کہ آپ کو قاسم نے بلایا ہے- تائی کو اس وقت میرا بھائی بالکل یاد نہ آیا۔ انہوں نے لڑکوں سے کہا کہ میں کسی قاسم کو نہیں جانتیتب لڑکوں نے جواب دیا کہ وہ تو آپ کو جانتا ہے یہ سن کر تائی نے کہا کہ اگر وہ مجھے جانتا ہے تو اسے کہو کہ یہاں آکر مجھ سے ملےلڑکوں نے جواب دیا کہ وہ یہاں نہیں آسکتا، اس کی مجبوری ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں، بس ایک بار اس سے مل لیجئے ان لڑکوں نے میری تائی پر کافی زور ڈالا، بہت منت سماجت کی کہ وہ ان کے ساتھ چلیں، مگر تائی نے انکار کر دیا اور وہ مایوس ہو کر چلے گئے۔جب اس بات کا ذکر انہوں نے اپنی بہو یعنی میری بڑی بہن سے کیا، تو وہ بے قرار ہو گئیں۔ بولیں کہ تائی جان، قاسم ہمارا کھویا ہوا بھائی ہے۔ وہ ہمیں ایک لمحے کو بھولتا نہیں، پل پل یاد رہتا ہے۔ آپ کیسے اسے بھول گئیں – بہرحال، آپا کے اصرار پر وہ دوبارہ اس جگہ گئیں کہ شاید وہ لڑکے وہاں آکر دوبارہ دکھائی دیں اور بات کر لیں۔ شاید قاسم کہیں قریب ہو اور اس نے تائی کو دیکھ لیا ہو، تب ہی ان لڑکوں کو ان کے پاس بھیجا ہو، مگر وہ لڑکے وہاں نہیں تھے۔نہ جانے کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور کدھر چلے گئے؟ اتنے بڑے شہر میں ان کو تلاش کرنا تقریباً ناممکن تھا۔میری بہن کو مگر قرار نہ تھا۔ کافی دیر تک آس پاس کے دکانداروں سے پوچھا کہ شاید کوئی قاسم نام کے شخص کو جانتا ہو، لیکن کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ آپا، تائی کے ہمراہ مایوس گھر لوٹ آئیں۔انہوں نے امی ابو کو یہ بات بتائی تو ایک بار پھر زخم تازہ ہو گیا۔ میرے ماں باپ کا چین و سکون جو پہلے ہی لٹ چکا تھا، مزید برباد ہو گیا۔یہ معمہ پھر بھی حل نہ ہوا کہ اگر قاسم زندہ ہے اور اس نے بازار میں تائی کو پہچان لیا تھا تو گھر لوٹ کر کیوں نہیں آتا؟ وہ اپنے ماں، باپ سے ملنے سے قاصر اور مجبور کیوں ہے؟ اور اگر وہ زندہ نہیں ہے تو پھر وہ لڑکے کون تھے، جو قاسم کا پیغام لائے تھے؟آخر کون سی مجبوریاں ہیں جو ہمارے بچے کو ہم تک آنے نہیں دیتیں؟کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ کسی خطرناک گروہ کے قبضے میں ہے، جو اسے نکلنے نہیں دیتا۔ کچھ کہتے ہیں یہ سب محض وہم ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو کسی نہ کسی طرح رابطہ ضرور کرتا، مگر وہ شاید اب اس دنیا میں نہیں ہے۔میرے والدین جب تک زندہ رہے، انہوں نے اپنے بیٹے کی موت کو قبول نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ اس یقین میں جیتے رہے کہ ان کا بیٹا زندہ ہے اور کبھی نہ کبھی انہیں ضرور مل جائے گا۔کہتے ہیں کہ جو بات یقین کے ساتھ ذہن میں بیٹھ جائے، وہ یا تو پوری ہو جاتی ہے یا پھر عمر بھر دل میں چبھتی رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ خلش انسان کو قبر تک لے جاتی ہے۔میرے ماں باپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔عالم ارواح کے اسرار تو خدا ہی جانتا ہے، مگر ہم دل کو یہی تسلی دیتے رہتے ہیں کہ اگر زندگی میں میرے والدین اپنے کھوئے ہوئے بیٹے سے نہ مل سکے، تو عالم بالا میں ان کی روحیں ضرور آپس میں مل گئی ہوں گی۔مجھے اس کہانی سے یہی سبق ملا ہے کہ ہر لمحہ اچھی بات منہ سے نکالنی چاہیے، کیونکہ دعا اور بددعا کی قبولیت کی گھڑی کون سی ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔مگر کوئی ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے، جب لبوں سے نکلی بات پوری ہو جاتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS