موسلا دھار بارش جاری تھی۔ برستے پانی کے ساتھ جب تیز ہوا ٹکراتی تو بارش کا رُخ تبدیل ہو جاتا تھا۔ سڑکوں پر پانی جابجا کھڑا تھا۔ ایک سیاہ کار سڑک پر کھڑے پانی کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ تیز رفتار کار کے ٹائروں سے پانی اُچھل کر دائیں بائیں پھیل رہا تھا۔
کار کی پچھلی سیٹ پر اپنے قیمتی موبائل فون میں مگن، زمان براجمان تھا۔ اس کی عمر چالیس سال سے زیادہ تھی۔ اس کا چہرہ مونچھ داڑھی سے مبرّا اور سر کے بال لمبے تھے جو اس کے کندھوں تک لٹک رہے تھے۔ وہ اچھی شکل کا مالک تھا۔
زمان اپنی شکل سے بظاہر معصوم نظر آتا تھا لیکن جن لوگوں کا اس سے واسطہ پڑا تھا، وہ کہتے تھے کہ زمان کا دماغ کسی لومڑی اور آنکھیں عقاب جیسی ہیں۔ اس کے سینے میں موجود دل پتھر کا ہے۔ وہ اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے اور معافی کا لفظ اس کی ڈکشنری میں ہے ہی نہیں۔ وہ نرم مزاج سے ایک دَم سفاک بن جاتا اور کبھی اس کی سفاکی کسی بھی لمحے مہربانی میں بدل جاتی تھی۔ وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ اس کا جو دِل چاہتا کرتا تھا۔
زمان ایک کاروباری شخص تھا جو پراپرٹی سے لے کر منافع کمانے کے لئے کسی بھی جگہ پیسہ لگا سکتا تھا۔ وہ ایسی جگہ بھی خرید لیتا تھا جو کسی وجہ سے متنازع ہو، بہت سے ایسے لوگ خود اس سے رابطہ کرتے تھے۔ ایسا متنازع سودا اس کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوتا تھا۔ وہ کوڑیوں کے دام خرید کر اپنے اَثر و رسوخ سے اس متنازع جگہ کو غیرمتنازع بناکر لاکھوں کماتا تھا۔
اس کا آفس شہر کے پوش علاقے کی ایک عمارت کی دُوسری منزل پر تھا۔ وہیں بیٹھ کر وہ منصوبہ بندی کرتا تھا۔ زمان نے کئی لوگوں کو بڑی ہوشیاری سے اس طرح لوٹا تھا کہ لوٹنے والے کے پاس یہ جواز بھی نہیں رہتا تھا کہ وہ اس پر الزام لگا کر آواز بلند کرسکے کہ اس کے ساتھ اس نے فریب کیا ہے۔ وہ اپنا ہر کام بڑے شاطرانہ انداز میں کرتا تھا اور جو کچھ کرتا تھا اس کا ثبوت نہیں چھوڑتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ابھی تک کسی بھی الزام سے مبرّا تھا۔
زمان کے ساتھ اس کے کام میں تین افراد شامل تھے۔ ایک کا نام کبیر تھا۔ کبیر کی عمر تیس سال سے زیادہ تھی۔ وہ وجیہ نوجوان تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی وارداتیں کرتے ہوئے زمان کو ملا تو زمان کی عقابی نظروں نے بھانپ لیا کہ یہ لڑکا اس کے لئے بہت سودمند ثابت ہوسکتا ہے تو اس نے کبیر کو اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ دُوسرے کا نام راجو تھا جو پہلے کبیر کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا۔ وہ کبیر سے تین، چار سال چھوٹا تھا۔ راجو کی عادت تھی کہ وہ سنگین موقعے پر بھی کم ہی سنجیدہ ہوتا تھا۔ کوئی نہ کوئی چٹکلا اس کی زبان سے پھسل جاتا تھا۔ تیسری لڑکی تھی جس کا نام فضا تھا۔
فضا عام لڑکیوں سے مختلف تھی۔ وہ شاید جرائم کی دُنیا میں نہ آتی لیکن جب اس کی ماں دُنیا سے چلی گئی تو اس کا باپ جلد ہی ایک عورت کو بیاہ کر گھر لے آیا تھا۔ اس عورت کے ساتھ اس کے باپ کے پہلے ہی سےتعلقات تھے۔ اس عورت نے گھر میں قدم رکھتے ہی فضا کا جینا حرام کر دیا تھا۔ اس کی باتیں ایسی تھیں جو فضا کے لئے برداشت سے باہر ہو رہی تھیں۔ ایک دن ایک سخت بات سن کر فضا نے اس عورت کو دھکّا دیا۔ وہ دیوار سے ٹکرائی اور بے ہوش ہوگئی۔ فضا نے اس کے پرس سے پیسے نکالے اور گھر سے باہر نکل گئی۔
ابھی فضا سوچ رہی تھی کہ کہاں جائے کہ اسے زمان مل گیا۔ وہ اسے اپنے گھر لے گیا۔ پھر فضا اس کی چھوٹی سی ٹیم کا حصہ بن گئی۔ فضا خوبصورت اور پرکشش لڑکی تھی۔ زمان چاہتا تھا کہ وہ اس سے شادی کر لے۔ وہ کسی مناسب وقت کے انتظار میں تھا۔ فضا کو بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ زمان کے دل میں اس کے لئے نرم گوشہ ہے، لیکن وہ چپ تھی۔
ان تینوں کے علاوہ ایک اور بھی شخص زمان کے لئے کام کرتا تھا۔ وہ اسے کسی امیرترین شخص کے بارے میں معلومات فراہم کرتا تھا کہ وہ کیا کرتا ہے، اس کی کیا کمزوری ہے، اس کی فراہم کردہ معلومات پر زمان ایک جال تیار کرتا اور اپنے تینوں ساتھیوں کی مدد سے وہ اسے جال میں پھنسا کر ایسا فریب دیتا کہ وہ پیسے، یا اپنی کسی قیمتی چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ اس پُراسرار آدمی کا نام گلفام تھا۔
گلفام کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی۔ اس نے دو شادیاں کی تھیں اور دونوں کو ہی اس نے طلاق دے دی تھی۔ گلفام صرف زمان سے ملتا تھا۔ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق کہیں ملتے اور پھر ایک دوسرے سے بات کر کے الگ ہو جاتے تھے۔ گلفام کو ان تینوں نے کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی ان کے علم میں تھا کہ گلفام نام کی کوئی بلا بھی موجود ہے۔ گلفام اپنے ہر کام کے پیسے نقد لیتا تھا۔ زمان کا جیسے ہی گلفام کوئی کام مکمل کرتا تو وہ اسے نقد رقم ادا کردیتا اور پھر گلفام گم ہو جاتا۔
سیاہ کار تیز رفتاری سے جا رہی تھی۔ بارش کی شدت میں کمی نہیں آئی تھی۔ اچانک کار کی رفتار کم ہونے لگی اور رفتہ رفتہ وہ ایک دو منزلہ عمارت کے سامنے رُک گئی۔ کار کا دروازہ کھلا اور زمان نے اپنا پیر باہر نکالا تو اس کا چمک دار سیاہ جوتا وہاں موجود پانی میں آدھا ڈُوب گیا۔ اس نے کوئی پروا نہیں کی اور کار کا دروازہ بند کر کے اس عمارت کے اندر چلا گیا۔ اس کے عقب میں کھڑی کار اسی وقت آگے بڑھ گئی۔
عمارت کی پہلی منزل کے ایک کشادہ کمرے میں وہ تینوں موجود تھے۔ کمرا نیم روشن تھا اور سامنے کی دیوار پر ایک بڑی اسکرین روشن تھی اور اس کا ریموٹ راجو کے ہاتھ میں تھا۔ وہ مسلسل چینل بدل رہا تھا۔ اس سے کچھ فاصلے پر کبیر صوفے پر نیم دراز موبائل فون کے ساتھ کھیل رہا تھا، جبکہ فضا کرسی پر بیٹھی بدلتے ہوئے چینلز کو دیکھتے ہوئے کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے رہی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ راجو کےسرپر گرم کافی اُنڈیل کر اس سے ریموٹ لے کر اپنی پسند کا چینل لگا کر بیٹھ جائے۔
’’سارے چینل بور ہیں۔‘‘ راجو نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
’’ریموٹ مجھے دے دو اور تم باہر کہیں ٹہل آئو۔‘‘ فضا جلدی سے بولی۔
’’کیا کہہ رہی ہو تم؟ باہر موسلادھار بارش ہو رہی ہے، سردی کا اندازہ ہے تمہیں؟ شکر کرو تم اس گرم کمرے میں بیٹھی مزے سے کافی پی رہی ہو۔‘‘ راجو نے کہا۔
’’اگر تمہارے ہاتھ سے ریموٹ گر کر ٹوٹ جائے اور چینل تبدیل ہونا بند ہو جائیں تو مجھے کافی پینے میں بڑا مزہ آئے۔‘‘ فضا نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
’’تم مجھے پیار سے کہہ دیتیں تو میں وہ چینل جو تمہیں پسند ہے، لگا کر ریموٹ توڑ دیتا۔‘‘
’’میں پیار سے ایک ہی بات کہتی ہوں۔‘‘ فضا نے مسکرا کر کہا۔
’’کون سی بات پیار سے کہتی ہو؟‘‘ راجو نے اشتیاق بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’جب کوئی فقیر مجھ سے بھیک مانگتا ہے تو میں پیار سے کہہ دیتی ہوں … معاف کرو۔‘‘ فضا نے اتنا کہہ کر اس کی طرف تمسخرانہ انداز میں دیکھا۔
’’ویسے ایک بات ہے تم ہو بہت خشک مزاج… کسی کے جذبات کو بالکل نہیں سمجھتیں۔‘‘ راجو اکثر باتوں باتوں میں اس سے اظہار محبت کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا، جبکہ فضا اسے کرارا جواب دے دیتی تھی۔
’’اس سے بہتر نہیں ہے کہ تم ایسی باتیں ہی نہ کیا کرو۔‘‘ فضا نے کہا۔
’’جب تک میں پیار محبت کی باتیں نہ کر لوں مجھے سکون ہی نہیں آتا۔‘‘ راجو ڈھٹائی سے مسکرا کر بولا۔
’’تم لاعلاج ہو۔‘‘ فضا نے اپنی آنکھیں گھمائیں۔
’’تم علاج کرو۔ یقین کرو میں ٹھیک ہو جائوں گا۔‘‘ راجو بولا۔
کبیر اپنی جگہ سے اُٹھ کر راجو کے قریب آ کر بولا۔ ’’تم جانتے ہو کہ فضا پر باس کی گہری نظر ہے۔ اگر اسے پتا چل گیا تو تمہارا قیمہ بنا دے گا۔‘‘
راجو اس کی بات سن کر ہنسا۔ ’’ویسے ایک بات ہے۔ باس ہم سے آنکھیں نکال کر اور فضا سے دھیمے اور ملائم لہجے میں ایسے بات کرتا ہے جیسے یہ کوئی کرسٹل کی گڑیا ہو جو اُونچی آواز سُن کر ٹوٹ جائے گی۔‘‘ راجو کی بات سُن کر کبیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
اسی وقت دروازے پر ایک مخصوص دستک ہوئی۔ تینوں اس دستک کو سُن کر چونک گئے اور سیدھے کھڑے ہوگئے۔ فضا نے اپنی کافی کا مگ ایک طرف رکھ دیا تھا۔ کبیر نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو زمان اندر آگیا۔ کبیر نے دروازہ لاک کر دیا۔
’’تم سب لوگ ٹھیک ہو؟‘‘ زمان نے پوچھا اور سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔
’’جی ہم ٹھیک ہیں۔‘‘ کبیر نے جواب دیا۔
زمان نے ایک نظر فضا کی طرف دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ عیاں کی اور تینوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ تینوں اس کے سامنے بیٹھ گئے۔
زمان نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور کبیر کی طرف بڑھا دیا۔ کبیر نے لفافہ لے کر اس کے اندر سے چند تصویریں نکال کر دیکھنے کے بعد وہ تصویریں راجو اور فضا کی طرف بڑھا دیں۔
تینوں جب تصویریں دیکھ چکے تو زمان نے پوچھا۔ ’’تصویریں اچھی طرح سے دیکھ لیں؟‘‘
’’جی دیکھ لیں۔‘‘ تینوں نے بیک وقت جواب دیا۔
’’اس کا نام سیٹھ ہاشم ہے۔ شہر کا دولت مند شخص ہے۔ چند دن پہلے اس نے مجھے بلا کر میٹنگ کی کہ وہ میرے ساتھ مل کر کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ میں رضامند ہوگیا۔ ہمارے درمیان معاملات طے ہوگئے۔ میں بہت مطمئن تھا۔‘‘ زمان نے وقت ضائع کئے بغیر بتانا شروع کر دیا۔ ’’اس کے بعد سیٹھ ہاشم کے سوالات شروع ہوگئے۔ وہ کاروبار کی باریک سے باریک بات جاننے کے لئے کبھی مجھے رات کے دو بجے فون کر دیتا۔ کبھی دن کے کسی پہر مجھے فون کر کے کچھ پوچھتا، کبھی فون کر کے کہتا کہ وہ ملنے کے لئے آ رہا ہے۔ آنے پر عجیب و غریب سوالات کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ میں اس کے ان فضول سوالوں سے تنگ آ گیا۔ وہ بہت وہمی شخص ہے۔ ہر بات کو جاننا اس کی کمزوری ہے… کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور پھر مجھے اس نے ایک بات کہی۔‘‘
زمان چُپ ہوا تو تینوں سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگے کہ اس نے کیا بات کہی۔
’’جانتے ہو اس نے مجھ سے کیا کہا؟‘‘ زمان نے ایک بار پھر تینوں کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’کیا کہا…؟‘‘ کبیر کے پوچھنے پر زمان کو کچھ مایوسی سی ہوگئی۔ اسے اُمید تھی کہ سوال فضا کرے گی۔
زمان نے جواب دیا۔ ’’اس نے مجھ سے کہا میں تمہارے ساتھ کاروبار نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
’’وہ کیوں…؟‘‘ فضا کے منہ سے ایک دَم سوال نکلا تو زمان مسکرایا۔
’’وہ مجھ سے مطمئن نہیں ہوا تھا۔ مجھے اس پر سخت غصہ آیا کہ اس نے خواہ مخواہ میرا وقت ضائع کیا۔ بہرحال میں اس کے پیچھے لگا رہا۔ بالآخر میں نے سیٹھ ہاشم کو پھر سے رضامند کر لیا کیونکہ وہ جو چاہتا تھا اور جن باتوں پر میں نے انکار کیا تھا، وہ میں نے مان لی تھیں تاکہ وہ رضامند ہو جائے اور اب وہ میرے ساتھ کاروبار کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم دونوں پانچ پانچ کروڑ سے مشترکہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ کل ہم دونوں پانچ کروڑ روپے لے کر ایک جگہ پہنچیں گے اور پھر بینک جا کر ایک مشترکہ اکائونٹ کھلوائیں گے۔ دس کروڑ مشترکہ اکائونٹ میں جمع ہو جائیں گے۔ جب تک ہم دونوں کے دستخط نہیں ہوں گے اس اکائونٹ سے ایک پیسہ بھی نہیں نکل سکے گا۔‘‘ زمان اتنا کہہ کر چُپ ہوگیا۔
’’سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے تو پھر یہ میٹنگ کیوں بلائی ہے؟‘‘ فضا نے سوال کیا۔
یہ سوال اگر فضا نے نہ کیا ہوتا تو شاید زمان غصّے میں اس کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیتا، کیونکہ یہ سوال فضا نے کیا تھا اس لئے اس کے چہرے پر غصّے کی بجائے مسکراہٹ آ گئی۔ وہ بولا۔ ’’اس بوڑھے سنکی نے میرا بہت وقت ضائع کیا ہے۔ اب اس کے ساتھ کاروبار نہیں ہوگا بلکہ میں اپنے وقت کی قیمت وصول کروں گا۔ اب میرا پلان سنو۔‘‘
زمان نے اتنا کہہ کر اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا نقشہ نکالا اور میز پر پھیلا دیا۔ وہ تینوں اس نقشے پر جھک گئے۔
زمان اپنی اُنگلی نقشے پر رکھتے ہوئے بتانے لگا۔ ’’یہ گولف کلب ہے۔ اس کلب کے آگے اس کا بنگلہ ہے۔ وہ اپنے بنگلے سے اپنی کار میں پانچ کروڑروپے کیش لے کر نکلے گا اور گیٹ کے پاس پہنچے گا۔ میں اپنی گاڑی میں پہلے ہی موجود ہوں گا۔ میرے بیگ میں بھی پانچ کروڑ روپے ہوں گے۔ سیٹھ ہاشم واقعی سنکی ہے۔ اس نے مشترکہ اکائونٹ کھلوانے کے لئے پانچ پانچ کروڑ روپے کا چیک لے جانے کی بجائے کیش لے جانے کی بات کی… محض اس لئے کہ کیش آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے۔ چیک پر اعتبار نہیں… اس لئے ہم کیش لے کر بینک جائیں گے۔‘‘ زمان بتاتے ہوئے سیٹھ ہاشم کی عقل پر تمسخرانہ مسکرایا۔ پھر بولا۔ ’’میں اپنا کیش لے کر اس کی گاڑی میں بیٹھ جائوں گا۔ اس کا باڈی گارڈ میرا بیگ لے کر ڈکی میں رکھ دے گا اور ہم دونوں ڈکی میں رکھے بیگوں کو کھول کر نوٹ چیک کریں گے اور ڈکی بند کرکے گاڑی میں بیٹھ جائیں گے۔ سیٹھ ہاشم کی گاڑی میں ڈرائیو کروں گا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر اس کا ایک باڈی گارڈ بیٹھا ہوگا اور پچھلی سیٹ پر سیٹھ ہاشم ہوگا۔ میں وہ گاڑی بینک کی طرف لے جائوں گا لیکن گاڑی بینک پہنچنے سے پہلے اغوا ہوجائے گی اور اسے اغوا کرو گے تم تینوں…‘‘
زمان کی بات سُن کر تینوں نے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا۔ زمان آگے بولا۔ ’’جیسے ہی میں گاڑی آگے لے کر جائوں گا تو اچانک فضا تیزی سے سڑک کراس کرنے کی کوشش کرے گی اور اُسے بچانے کے لئے میں کار کا بریک لگائوں گا۔ گھبراہٹ میں فضا عین گاڑی کے سامنے گر جائے گی اور کبیر جو بائیک پر سوار جا رہا ہوگا وہ بائیک کھڑی کر کے فضا کی مدد کے لئے رُک جائے گا اور اسی وقت راجو باڈی گارڈ کی کنپٹی پر پستول رکھ دے گا۔ فضا اسی وقت سیٹھ ہاشم کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ جائے گی اور باڈی گارڈ سے اس کا اسلحہ لے لے گی۔ کبیر میری طرف آ کر تین چار تھپڑ مجھے رسید کرے گا اور مجھے حکم دے گا کہ خبردار جو کوئی گڑبڑ کی۔ راجو بھی سیٹھ ہاشم کے ساتھ بیٹھ جائے گا۔ کبیر بائیک پر سوار ہوگا اور میں گاڑی آگے بڑھا دوں گا۔ ہم شہر کی مختلف سڑکوں پر گھومتے رہیں گے۔ فضا مجھے حکم دیتی رہے گی اور پھر گاڑی مچھلی فارم کی طرف چلی جائے گی، جہاں ویرانی ہوتی ہے۔ راجو مجھے باہر نکلنے کا حکم دے گا اور میرے ہاتھ پیر باندھ کر مجھے مارے گا اور ایک طرف پھینک کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لے گا۔ کبیر پیچھے سے آ کر میرے ہاتھ کھولے گا اور مجھے اپنے ساتھ بائیک پر بٹھا لے گا۔ راجو گاڑی آگے لے جائے گا اور اس جگہ سے سات، آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک فارم ہائوس ہے جو بہت عرصے سے خالی اور ویران ہے۔ اس جگہ ان دونوں کو کمرے میں بند کر کے فضا وہاں سے گاڑی نکال کر اسی جگہ واپس آئے گی جہاں مجھے چھوڑا تھا۔ میں گاڑی میں بیٹھوں گا۔ راجو اس فارم ہائوس کے پاس رہے گا جہاں یہ چھپ کر ان پر نظر رکھے گا اور موبائل فون پر مجھے خبر دے گا۔ فضا کو میں کسی سڑک پر اُتار دوں گا۔ کبیر کی بائیک میری گاڑی کے ساتھ رہے گی۔ گاڑی ہم کسی بھی پارکنگ میں چھوڑ دیں گے اور میں دونوں بیگ لے کر کبیر کی بائیک پر بیٹھ کروہاں سے نکل جائوں گا۔ کبیر کو جہاں میں کہوں گا یہ مجھے اُتار کر چلا جائے گا۔ میں پیسہ محفوظ مقام پر پہنچا دوں گا۔ راجو مجھے بتائے گا کہ سیٹھ ہاشم اور اس کا باڈی گارڈ اس جگہ سے نکلنے کے لئے کیا کر رہے ہیں۔ ہم اتنی گنجائش رکھیں گے کہ وہ دونوں اس جگہ سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جیسے ہی وہ دونوں اس فارم ہائوس سے نکل کر شہر کی طرف آئیں گے، راجو ان کے تعاقب میں رہے گا اور مجھے پل پل کی خبر دیتا رہے گا۔ اس کے بعد میں جب سیٹھ ہاشم سے ملوں گا تو میرے کپڑے گردآلود ہوں گے اور میں شور مچا کر کہوں گا کہ میرے پانچ کروڑ مجھے واپس کرو… اور اس کے بعد جو مجھے کرنا ہوگا میں کروں گا۔ میں اس سے اپنے پانچ کروڑ لے کر رہوں گا۔ میں اس پر اتنا پریشر ڈالوں گا کہ وہ دینے پر مجبور ہو جائے گا، تم تینوں گم ہو جائو گے۔ جب میں سیٹھ ہاشم سے پیسے وصول کر لوں گا تو پھر محفوظ جگہ پر رکھے وہ پیسے بھی نکال لوں گا۔‘‘ زمان نے بات مکمل کرنے کے بعد مسکرا کر تینوں کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا جیسے اسے اپنے پلان پر فخر ہو۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کبیر نے کہا۔ ’’وہ کیسا کاروباری آدمی ہے جو نقد پیسہ منگوا کر بیگ بھر کر بینک جارہا ہے، جبکہ یہ کام چیک کے ذریعے بھی ہو سکتا تھا۔‘‘
’’ایسے لوگ بڑے وہمی اور سنکی ہوتے ہیں۔ کیش آنکھوں سے دیکھ کر اعتبار کرتے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ چیک لے جاتے ہیں لیکن وہ مانا نہیں… کیونکہ یہ بات میرے حق میں بہتر تھی، اس لئے میں نے اس پر زور نہیں دیا… اسی بات پر میں شور برپا کروں گا کہ جب میں نے کہا تھا کہ کیش لے جانے میں خطرہ ہے تو تم نہیں مانے… باڈی گارڈ اور گاڑی بھی تمہاری تھی… مجھے میرا روپیہ دو اور میرے اس احتجاج کے سامنے وہ پاگل سیٹھ کچھ نہیں کر سکے گا۔‘‘ زمان کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ آ گئی تھی۔
’’کل کتنے بجے ہمیں اس جگہ پہنچنا ہے۔‘‘ راجو نے پوچھا۔
’’کل کتنے بجے کسے کہاں پہنچ کر رُکنا ہے، یہ میں تم تینوں کو آج رات ڈنر پر بتائوں گا۔‘‘ زمان کہہ کر اپنی جگہ سے اُٹھا اور فضا کے قریب جا کر محبت بھرے لہجے میں بولا۔ ’’اس کام کے بعد ہم شادی کر لیں گے۔‘‘
فضا اس کی بات سُن کر دل ہی دل میں بولی کہ تم سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ میں کسی دریا میں کود جائوں۔ یہ بات وہ زبان پر نہیں لا سکتی تھی، اس لئے مسکرا کر بولی۔ ’’شادی کی آخر اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘
’’اب وقت آ گیا ہے کہ ہم شادی کر لیں۔‘‘ زمان نے کہہ کر اس کاہاتھ تھام لیا۔
کبیر متانت بھری نظروں سے زمان کے ہاتھ میں فضا کا ہاتھ دیکھ کر دل ہی دل میں جل رہا تھا۔ وہ خود فضا کو پسند کرتا تھا۔
’’یہ کام کرلیں پھر اس بارے میں بھی سوچ لیں گے۔‘‘ فضا نے کہتے ہوئے آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
’’اب کچھ نہیں سوچنا… بس شادی ہوگی۔‘‘ زمان نے کہہ کر کبیر اور راجو کی طرف دیکھا اور بولا۔ ’’رات کو اسی ہوٹل میں ملاقات ہوگی جہاں ہم اکثر ڈنر کیا کرتے ہیں۔‘‘ زمان اتنا کہہ کر چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی کبیر نے دروازہ بند کر دیا۔ وہ تینوں اپنی جگہ پر الگ الگ کھڑے تھے لیکن تینوں کے دماغ میں ایک ہی سوچ گردش کر رہی تھی کہ ان کے پاس زمان کو فریب دے کر دس کروڑ روپے ہضم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے… زمان نے سیٹھ ہاشم کو فریب دینے کا منصوبہ بنایا تھا اور وہ تینوں زمان کوفریب دے کر دس کروڑ روپے پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ تینوں اپنی اپنی جگہ سوچ رہے تھے۔ سوچتے سوچتے تینوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
راجو نے کچھ توقف کے بعد دونوں سے پوچھا۔ ’’کیا تم دونوں بھی وہی سوچ رہے ہو جو میں سوچ رہا ہوں؟‘‘
’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ کبیر جلدی سے بولا۔
’’تم دونوں بتائو کہ اس وقت کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ راجو نے پوچھنے کے بعد دونوں کی طرف باری باری دیکھا۔ فضا اور کبیر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر بیک وقت اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے پاس بہترین موقع ہے کہ ہم زمان کو فریب دے کر دس کروڑ روپے لے اُڑیں اور آپس میں بانٹ کر عیش کی زندگی گزاریں اور اس زندگی کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیں۔‘‘ راجو نے اپنے دل کی بات کہی۔
’’اب اور کتنا اس آدمی کے لئے کام کرتے ہوئے خطروں سے کھیلتے رہیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو زندگی بچی ہے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرے۔‘‘
’’یہ بات تو میرے دماغ میں بھی ہے۔‘‘ کبیر نے کہا۔
’’یہی میں بھی سوچ رہی ہوں۔‘‘ فضا نے بھی اقرار کیا۔
’’میرے دماغ میں یہ بات اس وقت آئی تھی جب اس نے کہا تھا کہ ہم زمان کو باندھ کر اس ویران جگہ پر چھوڑ دیں گے اور پیسہ لے اُڑیں گے۔‘‘
’’زمان نے یہ منصوبہ بنا کر ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم پیسہ لے کر رفو چکر ہو جائیں۔‘‘ کبیر نے کہا۔
’’میں خود اس کمینے سے جان چھڑانے کی کوشش میں ہوں۔ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘ فضا کے لہجے میں نفرت تھی۔
’’ادھر آ جائو۔‘‘ راجو نے کرسیوں کی طرف اشارہ کیا جب تینوں ایک دُوسرے کے قریب بیٹھ گئے تو راجو بولا۔ ’’جیسے ہی ہم زمان کو کار سے باہر نکال کر اس ویرانے میں ہاتھ پیر باندھ کر چھوڑیں گے تم زمان کے پاس نہیں جائو گے۔ وہ وہیں بندھا پڑا رہے گا۔ ہم پیسہ اسی کار میں لے کر فرار ہو جائیں گے۔‘‘
’’یہ تو سب ہو جائے گا۔ پر یہ بتائو کہ دس کروڑ کہاں رکھیں گے۔ بینک میں اتنی بڑی رقم جمع کرانا ہم تینوں کے لئے مناسب نہیں ہوگا۔‘‘ کبیر بولا۔
’’پیسہ کہاں رکھیں گے اورپیسہ محفوظ جگہ پر رکھ کر ہم کہاں غائب ہوں گے… یہ بات سوچو۔‘‘ فضا نے کہا۔
فضا کی بات کے ساتھ ہی خاموشی چھا گئی۔ تینوں اپنی اپنی جگہ سوچ رہے تھے۔ چند لمحوں بعد کبیر بولا۔ ’’زمان اس طرح باندھا جائے گا کہ وہ کھل نہ سکے۔ پھر اُسے کھیتوں میں پھینک دیں گے تاکہ اس پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیں گے تاکہ وہ چیخ نہ سکے۔ اس کے بعد ہم پیسہ لے کر یہاں آ جائیں گے۔ اس پیسے کوان بیگوں میں رہنے دیں گے اور ان پر پلاسٹک کے بیگ چڑھا کر اچھی طرح ٹیپ لگا دیں گے۔ اس طرح ٹیپ لگائیں گے کہ بیگ نظر ہی نہ آئیں۔‘‘
’’یہ سب کر لیں گے… یہ سوچو کہ ان بیگوں کو رکھیں گے کہاں؟‘‘ راجو نے سوال اُٹھایا۔
تینوں سوچنے لگے۔ کبیر نے جیب سے سگریٹ نکال کر سُلگا لیا۔ اچانک فضا نے چونک کر کہا۔ ’’میرے دماغ میں ایک جگہ آئی ہے۔‘‘
دونوں جلدی سے اس کی طرف متوجہ ہو کر بولے۔ ’’کون سی جگہ…؟‘‘
’’زمان نے ایک ورکشاپ بنائی تھی۔ جوبعد میں بند کر دی گئی تھی۔ اب وہ ورکشاپ دو سال سے بند پڑی ہے۔ دو ماہ پہلے کبیر تمہیں زمان نے اس ورکشاپ میں بھیجا تھا کوئی چیز لینے کے لئے، تم نے بتایا تھا کہ وہاں پرانی کھٹارہ گاڑیاں گرد و غبار میں اَٹی پڑی ہیں۔ جالے لٹک رہے ہیں۔ زمان ان دو سالوں میں ایک بار بھی وہاں نہیں گیا۔ ہم وہ بیگ اس جگہ چھپا دیں گے۔‘‘
فضا کی بات سُن کر راجو اور کبیر نے مسکرا کر فضا کی طرف دیکھا۔ کبیر بولا۔ ’’اس ورکشاپ کی چابی میرے پاس ہے!‘‘
’’پھر طے ہوگیا ہے کہ ہم وہاں چھپا دیں گے۔ زمان ہر جگہ چھان مارے گا لیکن اس ورکشاپ میں جانے کا خیال اسے بالکل نہیں آئے گا۔ اب یہ بتائو کہ ہم کہاں غائب ہوں گے اور اس ورکشاپ سے بیگ کیسے نکالیں گے۔‘‘
’’ایک کام کرتے ہیں۔‘‘ کبیر نے کہا۔
’’وہ کیا…؟‘‘ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
’’جب زمان کے ہاتھ پیر باندھ کر ویرانے میں اسے پھینکیں گے تو میں پیچھے سے آ کر اس کا گلا دبا کر کام ہی تمام کر دوں گا۔ پھر ہمیں پیسہ اس جگہ چھپانے کی ضرورت ہوگی اور نہ کہیں بھاگنے کی۔‘‘
کبیرکی بات سُن کر فضا اور راجو کے جسم میں سراسیمگی پھیل گئی۔ دونوں نے کبیر کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ زمان جیسے آدمی کو موت کے گھاٹ اُتارنا آسان کام ہے کیا…؟ کیونکہ زمان کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتے تھے لیکن وہ طاقتور لوگ اسے مکمل تحفظ دیتے تھے۔ وہ اگر ان کا باس تھا تو وہ بھی کسی کے ماتحت ہو سکتا ہے۔ وہ ایسے ہی بڑے سے بڑا کام اتنی آسانی سے نہیں کر دیتا تھا۔
’’نہیں… ہم اسے جان سے نہیں ماریں گے۔ اس کا قتل کر کے ہم کسی بڑی مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔ ہم کچھ ایسا کریں گے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘ راجو نے کبیر کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنی گردن نفی میں ہلائی۔
’’پھر کیا کریں…؟‘‘ کبیر اور فضا نے بیک وقت اس کی طرف دیکھا۔
راجو نے دونوں کی طرف دیکھ کر اپنا منصوبہ بتانا شروع کیا۔ ’’زمان نے جو لوکیشن بتائی ہے، وہ اس نے جا کر دیکھی ہوگی۔ وہ جانتا ہوگا کہ فارم ہائوس خالی ہے۔ اب ہم اس فارم ہائوس کے پاس جائیں گے اور دو بیگ ردّی سے بھر کر چھپا دیں گے۔ جونہی ہم سیٹھ ہاشم اور اس کے باڈی گارڈ کو اس فارم ہائوس میں باندھ کر فارغ ہوں گے، ہم تیزی سے وہ بیگ اس جگہ سے نکال کر کار کی ڈکی میں رکھیں گے اور نوٹوں سے بھرے بیگ نکال کر اس فارم ہائوس کی کسی محفوظ جگہ چھپا دیں گے۔ کبیر اس دوران زمان کے ہاتھ پیر کھول چکا ہوگا۔ پلان کے مطابق فضا کار ان کے پاس لے جائے گی۔ زمان گاڑی میں بیٹھ جائے گا۔ کبیر بائیک پر ہوگا۔ کبیر وہ بیگ اس جگہ سے نکال کر ورکشاپ میں چھپا دے گا۔ زمان ان بیگوں کو محفوظ جگہ پہنچا دے گا، اور ظاہر ہے کہ وہ ان بیگوں کو دوبارہ کھول کر نہیں دیکھے گا، اس کے بعد زمان اپنے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے
سیٹھ ہاشم سے اپنے پیسوں کا مطالبہ کرے گا، جب وہ اس سے پیسے لینے میں کامیاب ہوگا تو پھر وہ ان بیگوں کی طرف جائے گا، کیونکہ ہمیں معلوم نہیں ہوگا کہ اس نے بیگ کہاں رکھے تھے، اس لئے ان بیگوں سے ردّی برآمد ہوگی تو اس کا شک ہم پر نہیں جائے گا۔ ہم زمان کے ساتھ بالکل نارمل رہیں گے اور جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا ہوگا، بیگ اس جگہ سے نکال کر پیسہ آپس میں تقسیم کر لیں گے اور یہ ملک چھوڑ کر فرار ہو جائیں گے۔‘‘
’’یہ منصوبہ تو اچھا ہے۔‘‘ کبیر نے اس کی طرف تعریفی نگاہوں سے دیکھا۔
’’میں سمجھتی تھی کہ راجو صرف باتیں کرنا جانتا ہے، لیکن یہ تو ایک اچھا منصوبہ ساز بھی ہے۔‘‘ فضا مسکرائی۔
’’میڈم آپ نے کبھی موقع ہی نہیں دیا ورنہ اپنی ذہانت کے وہ جوہر دکھائوں کہ آپ دنگ رہ جائیں۔‘‘ راجو ایک دم اس کی طرف متوجہ ہوا۔
راجو کا فضا سے اس طرح بات کرنا کبیر کو بالکل ناپسند تھا۔ وہ خود فضا کو پسند کرتا تھا اور کسی مناسب موقع پر اپنے دل کی بات کہنا چاہتا تھا۔
’’میرا خیال ہے کہ میں جتنا تمہیں موقع دے رہی ہوں اتنا کافی ہے۔‘‘ فضا اتنا کہہ کر دُوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’ویسے آپس کی بات ہے آپ بہت کم موقع دے رہی ہیں مجھے۔‘‘ راجو نے شکوہ کے انداز میں بات کی۔
’’ان باتوں کو چھوڑ کر ہم کوئی کام کی بات کریں؟‘‘ کبیر نے مداخلت کی۔
’’بھائی ہم کام کی ہی بات کررہے ہیں۔‘‘ راجو بولا۔
’’جو منصوبہ ہم نے سوچا ہے، ہم اس کے بارے میں بات کریں تو زیادہ بہتر ہوگا تاکہ کوئی خامی نہ رہ جائے۔‘‘ کبیر نے کہا تو دونوں اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔
اس کے بعد تینوں نے اپنے منصوبے پر بات کی۔ انہوں نے دس کروڑ روپے چُرانے کی منصوبہ بندی مکمل کرلی تھی اور وہ مزید باریکیوں کو بھی نوٹ کر رہے تھے۔ جب وہ بالکل مطمئن ہوگئے تو انہوں نے فارم ہائوس جانے کا فیصلہ کیا۔ راجو نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو بارش بونداباندی میں تبدیل ہو چکی تھی۔
کبیر اور راجو نے دو بیگ لے کر ردّی سے بھرے اور نیچے اُتر آئے۔ وہ تینوں کار میں سوار ہو کر فارم ہائوس کی طرف چلے گئے۔
فارم ہائوس سے پہلے کچھ ویران راستہ آتا تھا۔ اس سڑک کے دائیں بائیں کھیت تھے اور پھر ایک ایسی جگہ آ جاتی تھی جہاں ایک دُوسرے سے فاصلے پر فارم ہائوس بنے تھے اور وہ سبھی غیر آباد تھے، کیونکہ وہ جگہ لوگوں نے خرید تو لی تھی اور کچھ لوگوں نے تعمیر کا کام بھی کر لیا تھا لیکن وہ جگہ آباد نہیں ہو سکی تھی۔ لوگوں کا اس طرف رُجحان بھی نہیں بن سکا تھا۔ وہ فارم ہائوس کیونکہ امیر کبیر لوگوں کے تھے اس لئے انہیں ان کے خالی چھوڑنے پر کوئی تاسف نہیں تھا۔
جس فارم ہائوس کی زمان نے نشاندہی کی تھی وہ ان تینوں کی نظروں کے سامنے موجود تھا۔ تینوں اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ فارم ہائوس جس کا تھا اس نے تعمیر کے بعد اس طرف آنا چھوڑ دیا تھا۔ اس کے مین گیٹ پر جو تالا لگا ہوا تھا وہ زنگ آلود تھا۔
اس فارم ہائوس کے اردگرد جھاڑیاں، اور درخت استادہ تھے۔ فارم ہائوس کے گیٹ کے سامنے جھاڑیاں سر اُٹھائے کھڑی تھیں۔ وہ فارم ہائوس الگ تھلک تھا اور بے ترتیب استادہ درختوں میں گھرا ہوا تھا۔
’’یہاں بیگ چھپا دیتے ہیں۔‘‘ کبیر نے اس طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ بیگ اُٹھا کر نوٹوں سے بھرے بیگ اسی جگہ رکھ دینا جو میں اُٹھا لوں گا۔‘‘
’’مجھے یہ جگہ مناسب لگ رہی ہے۔‘‘ راجو نے دائیں بائیں دیکھا۔ دُور تک کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
’’میں بیگ رکھ کے آتا ہوں۔‘‘ کبیر نے کار کا دروازہ کھولا اور باہر نکل کر ایک بار پھر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ تسلی کرنے کے بعد اس نے بیگ نکالے اور اس طرف چل پڑا۔ اس نے ان جھاڑیوں میں وہ بیگ رکھ دیئے۔ بیگ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ کبیر واپس آیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر تینوں نے جائزہ لیا۔
’’زمان دماغ کا بہت تیز ہے۔ وہ بہت بڑا منصوبہ ساز ہے، ہر کام بڑی سوچ سمجھ کے کرتا ہے۔‘‘ کبیر بولا۔
’’اسی لئے تو اسے کوئی پکڑ نہیں سکا۔‘‘ فضا نے کہا۔
’’اب وہ ہمیں بھی نہیں پکڑ سکے گا۔‘‘ راجو مسکرایا۔
’’واپس چلتے ہیں۔ اس جگہ زیادہ دیر کھڑا رہنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ کبیر نے کہا۔
راجو نے گاڑی واپسی کے لئے گھما دی۔ تینوں خوش اور اپنی منصوبہ بندی پر مطمئن تھے۔ انہیں پورا یقین تھا کہ وہ زمان کو دس کروڑ روپے کا فریب دینے میں آسانی سے کامیاب ہوجائیں گے۔
’’ویسے ایک بات کہوں فضا! اگر تم زمان سے شادی کرلو تو امیر کبیر بن سکتی ہو اور ہماری باس بھی ہوسکتی ہو۔‘‘ راجو شرارت سے بولا۔
’’مجھے اس کی بیوی بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔‘‘ فضا نے کہا۔ ’’جو شخص مجھے ناپسند ہے، وہ کتنا ہی دولت مند ہو، میں اس کی بیوی نہیں بن سکتی۔‘‘
’’اگر تم اس کی بیوی بن جائو تو ہم اس سے پیسہ مزید آسانی سے کھینچ سکیں گے۔‘‘ کبیر بولا۔
’’مجھے اس انسان سے نفرت ہے۔ ویسے بھی جتنا پیسہ زمان کو فریب دے کر حاصل کریں گے، وہ ہمارے لئے بہت ہوگا۔‘‘ فضا نے کہا۔ راجو اور کبیر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے رہے۔ ان کی کار تیزی سے شہر میں داخل ہوگئی اور لال بتی پر رکی تو اچانک کبیر کا موبائل فون بجنے لگا۔
اسکرین پر زمان کا نام تھا۔ فون کان سے لگانے سے قبل کبیر نے دونوں کو اشارے سے بتایا کہ زمان کی کال ہے۔ وہ زمان کی کال کا سن کر متحیر ہوگئے تھے۔
راجو نے کبیر سے تشویش بھری آواز میں کہا۔ ’’فون سنو، کہیں اس نے ہم پر نظر تو نہیں رکھی ہوئی؟‘‘
’’ہیلو…!‘‘ کبیر نے فون کان سے لگا کر کہا۔
دوسری طرف سے زمان کی پراسرار سی آواز آئی۔ ’’تم تینوں کہاں گھوم رہے ہو؟‘‘
زمان کی بات سن کر کبیر ایک دم چونکا۔ ’’ہم بس ایسے ہی گھوم رہے تھے۔ موسم اچھا ہے، اس کا مزہ لے رہے تھے۔‘‘
’’ذرا دھیان سے…!‘‘ زمان نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔
جب کبیر نے ان دونوں کو بتایا کہ زمان کو معلوم ہے ہم تینوں گاڑی میں گھوم رہے ہیں تو وہ دونوں سوالیہ انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
(جاری ہے)