ہم شمالی علاقہ جات کے ایک گائوں میں رہا کرتے تھے۔ میرے شوہر بکریاں چراتے اور واپسی میں جنگل سے روزانہ لکڑیوں کا ایک چھوٹا سا گٹھا بھی اٹھا کر لاتے کہ رات کو کھانے پکانے کا ایندھن اور سردی میں آگ تاپنے کا کچھ انتظام ہو سکے۔ ہمارا گھر پہاڑی کے دامن میں واقع تھا۔ ایک روز جبکہ عبدالرحمن جنگل میں لکڑیاں اکٹھی کر رہے تھے کہ پہاڑی پر سے ایک پتھر لڑھکتا ہوا ان کے سر پر آ لگا۔ وہ جہاں کھڑے تھے، وہیں بے ہوش ہو کر گر گئے ۔ شام کو بکریاں تو گھر واپس آ گئیں لیکن رات گئے تک عبدالرحمن نہ لوٹے۔ کسی کو خبر نہ تھی وہ کہاں ہیں۔ اس جگہ کوئی گیا اور نہ کسی کا گزر ہوا۔ رات سے صبح ہو گئی ، ہم انتظار میں رہے کہ شاید اب آ جائیں لیکن سر کی چوٹ ایسی شدید تھی کہ وہ زندہ نہ لوٹ سکے ۔ صبح کو ایک چرواہے کا وہاں سے گزر ہوا۔ اس نے ان کو جنگل میں پڑے دیکھا تو آ کر ہم کو اطلاع دی۔ یوں میرا جیون ساتھی ہمیشہ کیلئے ہم سے بچھڑ گیا۔ گھر میں بوڑھے سسر صاحب اور میری بیٹی زلیخا رہ گئے جو میری ذمہ داری تھے ، محنت مزدوری کر کے ان کو مجھے کھلانا تھا۔ سسر جنگل سے لکڑیاں لاتے اور میں گھر کا چولہا گرم رکھنے کو آس پاس کے گھروں میں محنت مزدوری کرنے لگی۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ میری بچی زلیخا چودہ برس کی دوشیزہ ہو گئی۔ وہ اب اس قابل تھی کہ میرا ہاتھ بٹا سکتی تھی۔ میرے جوڑوں میں اکثر درد رہتا تھا تبھی میں محنت مزدوری کیلئے زلیخا کو ساتھ لے جانے لگی۔ ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر علاقے کے ایک کھاتے پیتے تاجر کا مکان تھا۔ میں وہاں گھریلو کام کاج کیلئے گئی۔ زلیخا بھی ساتھ جاتی۔ ہم دونوں ماں، بیٹی مل کر ان کے گھر کا کام کاج کرتی تھیں۔ سسر ضعیف تھے، وہ بیمار رہتے تھے۔ بالآخر ایک روز اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اب مسئلہ بکریاں چرانے کا تھا۔ میرے پاس چھ بکریاں تھیں۔ پہلے تو دو ہی تھیں، وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت سے چھ بکریوں کا ایک چھوٹا ساریوڑ بن گیا۔ یہ مویشی مجھے پیارے تھے۔ دودھ حاصل ہوتا اور جب عید الاضحی کا مہینہ آتا، یہ اچھے دام دے جاتی تھیں۔ اب زلیخا کے ذمے بکریاں چرانے کا کام سپرد کر نا پڑا۔ وہ ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں جو درختوں کی شاخوں سے ٹوٹ کر گری ہوتی تھیں، اکٹھی کر لیتی ۔ گھر کے جو کام اس کے والد اور پھر دادا سسر انجام دیتے تھے ، وہ اب زلیخا کو کرنے تھے۔ زلیخا کو ہمیشہ تلقین کرتی تھی کہ تم بکریوں کو جنگل میں زیادہ دور مت لے جایا کرو اور عصر کے وقت ان کو واپس گھر لا کر باڑے میں بند کر دیا کرو۔ وہ ایسا ہی کرتی۔ باڑہ کیا تھا ہم ایک چھوٹے سے بوسیدہ مکان میں رہتے تھے جو پتھروں سے بنا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک احاطہ سا پتھروں کو اوپر تلے رکھ کر بنا دیا گیا تھا اور اس احاطے کی کو ٹھری گھر کی دیوار سے ملی ہوئی تھی۔ یہی تو ہمارے اس چھوٹے سے ریوڑ کا باڑہ تھا۔
زلیخا بے حد معصوم اور میری فرمانبردار بچی تھی۔ وہ ہمیشہ ویسا ہی کرتی، جیسا میں اسے کہتی۔ شام سے پہلے بکریوں کو ہانک کر باڑے کے احاطے میں لا مقید کرتی اور پھر میرے پاس آکر کام کاج میں ہاتھ بٹانے لگتی۔ زلیخا جیسی صابر بچی کسی نے نہیں دیکھی ہو گی۔ اسے جو مل جاتا، کھا لیتی ۔ جو دے دو، پہن لیتی۔ کبھی اپنی کوئی آرزو نہ بتاتی جیسے کہ اس کے پاس خواہش کرنے والا دل ہی نہ ہو۔ جس گھر میں ہم کام کرتے تھے، وہاں اس کی ہم عمر لڑکیاں بہت اچھا کھاتی اور پہنتی تھیں لیکن زلیخا نے کبھی کسی چیز کی حسرت نہ کی۔ اس کے بڑے بڑے خواب نہیں تھے۔ سونا، چاندی، زیور، ہیرے، موتی بڑے گھر میں سب کچھ دیکھ کر بھی اسے کچھ نہیں چاہئے تھا۔ بے شک ہم شروع سے غریب تھے لیکن اس کی عمر ایسی تھی کہ جب لڑکیاں ایسی خواہشیں کرتی ہی ہیں بالکل اس کے اپنے جیسی چند معصوم ننھی ننھی خواہشیں ضرور تھیں مثلاً سوتی جاگتی وہ گڑیا جو ہماری مالکن کی بیٹی کو بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ اسکول کی استانی کی وہ ناپسندیدہ تصویر جو کلینڈر پر سے اتاری تھی اور جس پر رنگ برنگی تتلیاں بنی ہوئی تھیں۔ اپنی ماں کیلئے نرم، گرم اور آرام دہ جوتا جو مالکن پہنتی تھی۔ میرا موجودہ جوتا ٹوٹ چکا تھا۔ اب بھی نہ ٹوٹتا کہ اسے استعمال کرتے پورے پانچ برس ہونے والے تھے۔ نیا خرید نے کی نوبت نہ آسکی تھی۔ ایک روز جبکہ وہ بکریاں چرانے گئی، وہاں اسے کوئی شخص ملا جس نے خود کو چرواہا بتایا۔ اس کے پاس زنانہ جوتوں کی ایک جوڑی تھی۔ بالکل ویسی ہی نرم گرم اور آرام دہ جیسی کہ مالکن پہنا کرتی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ مالکن کا جوتا سرخ رنگ کا تھا جبکہ یہ جو تا خاکی رنگ کا تھا جیسے کہ عام چمڑے کا رنگ ہوتا ہے۔ مجھے بتائے بغیر زلیخا نے اس چرواہے سے ایک عجب سودا کر لیا۔ اس نے چہیتی بکری کا پیارا سا چار ماہ کا بچہ اس کو دے کر وہ جو تا میرے لئے خرید لیا۔ اوڑھنی میں چھپا کر جب وہ یہ تحفہ لائی تو مسرت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس نے یہ انکشاف کیا کہ اس نے یہ سودا ڈرتے ڈرتے صرف اس لئے کیا ہے تا کہ پائوں میں ٹھنڈ لگنے سے میں کہیں بیمار نہ پڑ جائوں۔ اس کے چہرے پر امید و ناامیدی کے ساتھ اپنے لئے سچی محبت کا نور جھلکتے دیکھ کر میں اسے کچھ بھی تو نہ کہہ سکی اور جوتے کی یہ جوڑی اس کے ہاتھ سے لے کر میں نے بیٹی کا منہ چوم کر کہا تھا۔ زلیخا… میری لخت جگر ! تو نے یہ کیسے یقین کر لیا کہ یہ جو تا ضرور میرے پیروں میں صحیح آ جائے گا۔ اگر چھوٹا بڑا ہوا تو ؟ آپ پہن کر تو دیکھئے، میرا اندازہ غلط نہ ہو گا، روز ہی تو آپ کے پیروں کو دباتی ہوں۔ میری بیٹی نے ٹھیک کہا تھا۔ واقعی جوتا میرے پائوں میں ایسا درست سمایا جیسے کہ میرے لئے ہی ناپ کر بنایا گیا تھا، تب میں نے کچھ تاسف سے کہا تھا۔ اے میری بچی ! اگر تم نے جو تا لینا ہی تھا تو اپنے لئے لے لیتی۔ اپنا سب سے پیارا میمنا دیا بھی تو میری خاطر ! ماں ! اس کے پاس کوئی دوسرا جوتے کا جوڑا تھا ہی نہیں، یہ ایک ہی تھا، وہ بھی آپ کے ناپ کا۔
اس واقعہ کے بعد محسوس کیا کہ میری بیٹی کچھ بجھی سی رہنے لگی ہے۔ کئی بار پوچھا۔ بیٹی ! کیا بات ہے، کچھ بتائو تو کہنے لگی۔ ماں ! کوئی بات نہیں ہے۔ ایک اور بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ اب وہ اپنے گھر کی کھڑکی میں سے روز مغرب سے ذرا پہلے جھانکتی۔ اس کی نظریں جیسے پہاڑی کی چوٹی پر یا پھر فلک پر گڑھی ہوتیں۔ میں پوچھتی ۔ زلیخا ! وہاں کیا دیکھتی ہو ؟ کیا نظر آتا ہے تمہیں ؟ کچھ نہیں ماں ! میں نے بہت دفعہ اس کی پشت پر ٹھہرکر دیکھا لیکن سوائے بادلوں کے مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ ایک روز زلیخا اداس تھی۔ جب اداسی کی وجہ پوچھی تو بولی۔ جی چاہتا ہے کہ اس پہاڑی پر چڑھتی جائوں اور اس کی چوٹی پر پہنچ جائوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس پہاڑی کی چوٹی سے ادھر بھی کوئی دنیا ہے۔ کوئی نئی سی دنیا ہے۔ بس اسی کو دیکھنے کی خواہش میرے دل میں چٹکیاں لیتی رہتی ہے۔ بڑی عجیب سی خواہش ہے تمہاری حالانکہ تم نے تو کم عمری میں بھی کبھی کوئی خواہش نہیں کی۔ ہاں مگر ماں … انو کھی بات ہے کہ یہ خواہش روز بروز میرے دل میں جڑ پکڑتی جارہی ہے۔ اب تو مجھے بے قراری سی رہنے لگی ہے۔ کسی روز ادھر کو نہ چلی جائوں۔ بس تم میرا خیال رکھنا اور مجھے اس طرف جانے مت دینا ورنہ شاید میں واپس نہ آ سکوں گی۔ میں سمجھی یہ بچی ہے ، تنہائی سے گھبرا کر اور یکسانیت سے اکتا کر ایسی باتیں سوچنے لگی ہے ۔ وہ کہتی تھی۔ ماں ! بس یہ میری خواہش ہے جو سب باتوں سے افضل ہے ، تمام چیزوں سے زیادہ دلپسند ہے۔ ایک ایسی خواہش جو میری زندگی کا سہارا بنتی جارہی ہے۔ زلیخا کا یہ ایک خواب تھا جس کو سوچتے ہی زندگی کی کڑواہٹ مٹھاس میں بدل جاتی تھی۔ اسے زندگی پیاری لگنے لگی تھی۔ ایک معصوم سے دل کی معصوم کی آرزو کہ اس جھیل کی طرف پہاڑی کے پیچھے کوئی دنیا ہے جسے دیکھنا چاہئے۔ یہ ایک تصور تھا جس سے اس کو بہت انسیت ہوتی جارہی تھی۔ اس نے کبھی مجھ سے اپنی کسی آرزو کا اظہار نہ کیا تھا لیکن یہ آرزو وہ بار بار دہرانے لگی تھی۔ میری گود میں سر رکھ لیتی اور بڑے جذباتی انداز میں کہتی ۔ ماں .. وہ پہاڑ کی چوٹی ہے نا جدھر سے سورج طلوع ہوتا ہے ، وہاں مغرب سے ذرا پہلے ایک مانوس سا چہرہ مجھے نظر آتا ہے۔ مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے اور اپنی طرف بلاتا ہے۔ لگتا ہے یہ وہی چرواہا ہے جو مجھ کو جنگل میں ایک بار ملا تھا اور جس نے میرا میمنا لے کر جوتے کا وہ جوڑا دیا تھا جو تم پہنے ہوئے ہو۔ روز وہ مجھے بلاتا ہے اور جب میں نہیں جاتی تو وہ ناراض ہو کر پہاڑی کی دوسری طرف چلا جاتا ہے۔ زلیخا ! تم یہ کیسی باتیں کرتی ہو؟ میں اسے ٹوک دیتی تھی۔ لگتا ہے تیرے دماغ پر اثر ہو گیا ہے۔ بیٹی ! نماز پڑھا کرو اور کھڑ کی میں سے پہاڑی کو مت تکا کرو۔ آسمان پر سے نجانے کیسی کیسی مخلوقات گزرتی ہیں، مغرب کے وقت آسمان کی سمت نہیں دیکھنا چاہئے ۔ شام کو گھر کے اندر آ جایا کرو اور کھٹرکی بند کر دیا کرو۔ زلیخا کی کیفیت کو میں نہ سمجھ پائی۔ وہ کبھی حسرت کرتی ۔ اے کاش ! میرے پر ہوتے اور میں اڑ سکتی، اڑتے ہوئے پرندے مجھے اچھے لگتے ہیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں، پر پھیلا کر آسمان کی وسعتوں میں پھیل جاتے ہیں، ہم انسان تو ایسا نہیں کر سکتے۔
یہ قدرت خدا نے صرف پرندوں کو عطا کی ہے میری بیٹی ! ہماری مجال نہیں کہ ان کی طرح فضا میں بلند ہو کر اڑیں۔ اللہ نے ہم کو دوسری طاقتیں دی ہیں اور اپنی دیگر مخلوقات کو دوسری دی ہیں۔ کوئی ایک دوسرے جیسی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہم کو ایسی حسرت کرنی چاہئے۔ رب کی یہی مرضی ہے۔ زلیخا کی کوئی سہیلی، کوئی دوست نہ تھا میرے سوا لیکن وہ دل کی ہر بات مجھ سے نہیں کہہ سکتی تھی۔ وہ اب بھی بکریاں چرانے جاتی لیکن مقررہ وقت پر لوٹ آتی ۔ وہ کھڑ کی میں لازمی تھوڑی دیر کھڑی ہوتی اور پہاڑ کی سمت دیکھتی رہتی۔ اسے کیا نظر آتا تھا، معلوم نہیں۔ مجھے وہاں کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ مقررہ وقت پر وہاں کھڑی ہوتی تو ایسے جیسے اسے شدت سے کسی کے نظر آنے کا انتظار رہتا ہو۔ پر شوق نگاہوں اور مضطرب ہاتھوں سے روز شام کو کھڑ کی کھولتی تھی۔ ایسے محو ہو جاتی جیسے دنیا جہان کی خوشیوں اور رعنائیوں کو اپنی آنکھوں میں سمیٹ رہی ہو۔ اس کی آنکھیں یوں چمک اٹھتیں جیسے کوئی پسندیدہ اور نادیدہ روح اس کی آنکھوں میں اتر آئی ہو۔ اس روز میں ذرا جلدی کام سے لوٹی تھی اور لکڑیاں چولہے میں رکھ کر آگ روشن کرنے کے جتن کر رہی تھی کہ وہ بکریاں ہانکتی آ گئی۔ ان کو احاطے میں پہنچا کر میری طرف آئی۔ بہت خوش تھی اور حیران بھی … آتے ہی بولی۔ ماں ! آج وہ چرواہا پہاڑی سے اتر کر دامن میں آ گیا تھا، جھیل کے پاس ٹھہر گیا اور اس نے جھیل سے پانی لیا اس کے بازوئوں میں ہمارا میمنا تھا جس کو وہ پیار کر رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھا۔ اس کی طرف جانا چاہا لیکن وہ آگے بڑھ گیا۔ میں کل جھیل پر جائوں گی شاید وہ کل دوبارہ وہاں آجائے۔ آ بھی جائے تو تم اس سے مل کر کیا کرو گی۔ کیا اپنا میمنا واپس لو گی؟ نہیں ! میں اس سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ رہتا کہاں ہے اور روز پہاڑی کے اوپر کیوں بیٹھتا ہے۔ ایسا کچھ پوچھ کر تمہیں کیا ملے گا زلیخا ؟ کچھ نہیں ماں ! بس میرے سوالوں کا جواب مل جائے گا تو مجھے سکون آجائے گا۔ اچھا تو کل میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ میں نے اسے تسلی دینے کو کہہ دیا۔ اگلے روز شام سے ذرا پہلے اس نے بکریوں کو احاطے میں ہانکا۔ لکڑی کی لٹھوں سے احاطہ بند کر کے وہ باہر نکلی اور بولی۔ میں ابھی آئی ماں … پھر وہ جھیل کی طرف جانے لگی۔ میں بھی اس کے پیچھے چل دی کہ دیکھوں آخر وہ جاتی کہاں ہے یا کہ یہ میری بچی کا وہم ہے۔ آج تو میں زلیخا کو اس کے وہم سے نکالنا چاہتی تھی۔ وہ آگے بڑھتی گئی اور میں اس کے پیچھے پیچھے چلتی گئی جیسے کہ وہ جھیل میں اترنے جارہی ہو ، جیسے کہ میں اسے ڈوبنے سے بچانے کو اس کا تعاقب کرتی جارہی ہوں۔ ممتا کی محبت کی ڈور میں بندھے میرے قدم ایک مقناطیسی کشش سے خود بخود اس کے تعاقب میں اٹھتے جارہے تھے یہاں تک کہ وہ پہاڑی کے دامن میں جھیل کے کنارے کے قریب پہنچ گئی، پھر اس نے چلا کر کہا۔
چرواہے ! رکو… جھیل بہت گہری ہے۔ اس میں مت اترنا، تم ڈوب جائو گے ۔ رک جائو میں کہتی ہوں رک جائو۔ ایسا کہتے کہتے اس کے قدم جھیل کی سمت تیز اور تیز ہوتے گئے۔ اب وہ بھاگ رہی تھی، دیوانوں کی طرح، پاگلوں کی طرح ! میری آواز بھی نہ سن پارہی تھی۔ میں اسے پکار رہی تھی۔ روک رہی تھی کہہ رہی تھی۔ زلیخا، میری جان … میری بیٹی ! یہ تم کدھر جارہی ہو ؟ رک جائو ، آگے جھیل ہے۔ تم نہ رکیں تو قدم پانی میں جا پڑیں گے ۔ جھیل بہت گہری ہے ، ڈوب جائو گی ۔ مگر وہ بھاگتی گئی، شاید آواز سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے جیسے پری ہو گئی ہو۔ جسے اسے وہاں کوئی شے بلارہی ہو، اپنی سمت کھینچ رہی ہو۔ نجانے وہ کس کو روک رہی تھی۔ بڑھتی جاتی تھی یہ پروا کئے بغیر کہ خود جھیل اس کے وجود کو ڈبونے والی ہے ۔ وہ دیکھو وہ رہا چرواہا…! میں شور مچاتی رہ گئی، اسے پکارتی رہ گئی، یہاں تک کہ وہ جھیل کے اندر اتر کر گم ہو گئی۔ میرے شور مچانے سے ارد گرد کچھ لوگ بھی وہاں آ گئے۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے ۔ کیا ہوا، کیا ہوا ہے ، کسے پکار رہی ہو، یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔ لیکن میں نے دیکھا وہاں جھیل کے پاس ایک سایہ سا تھا جو مغرب کے ملکھے اندھیرے میں دھیرے دھیرے پہاڑی کی طرف بڑھتا جارہا تھا اور پھر وہ پہاڑی پر چڑھتا ہوا گم ہو گیا جیسے اس کی چوٹی کی دوسری جانب اتر گیا ہو۔ میری زلیخا ہمیشہ کیلئے کھو گئی، جھیل کی تہہ میں چلی گئی لیکن آج تک یہ بات سمجھ نہ سکی کہ یہ سایہ کیا تھا، کہاں سے آیا اور کہاں چلا گیا۔ چالیس برس گزر چکے ہیں مگر وہ نہیں ملی۔ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں ضعیف ہو چکی ہوں۔ جھیل کنارے جا کر روز مغرب کے وقت اس کو آواز دیتی ہوں لیکن وہ جواب نہیں دیتی۔ نجانے کہاں گم ہو گئی میری بچی ! نجانے کس کے پیچھے گئی تھی، کون روز اسے بلاتا تھا، اسے دیکھ کر مسکرآتا تھا۔ اے کاش کہ کبھی اس کا راز مجھے معلوم ہو جائے۔ کیا زلیخا پر کسی ماورائی مخلوق کا اثر ہوا کہ وہ کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہو کر جھیل کی گہرائی میں اتر گئی۔ اسے جو کچھ نظر آتا تھا، وہ فریب نظر تھا یا اس کا کوئی تصور تھا جس کو حقیقت جان کر وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی ؟ یہ ایسے سوالات ہیں کہ جن کے جوابات عمر بھر ڈھونڈتی رہوں گی اور کبھی بھی جواب نہ پا سکوں گی۔