Thursday, March 28, 2024

Madham Chirag | Afsana

حمزہ حسن شیخ:
وہ چٹان پر بنی جھونپڑی کے دروازے پر کھڑی تھی۔ ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں اپنی روشنی سمیٹ کر شام ہونے کا اعلان کر رہی تھیں۔ ہوا کے دوش پر رقص کرتی سمندر کی لہریں سورج کی کرنوں سے اٹھکیلیاں کھیل رہی تھی۔ ساحل سمندر پر ابھری اس چٹان پر بنا جھونپڑ ادورے سے حسین منظر پیش کرتا مگر اس میں رہنے والوں کو اندازہ تھا کہ یہ کتنا بھیانک ہے۔ وہ اکیلی تھی اور اس کی نگاہیں سمندر کے وسیع پانیوں میں کسی کی متلاشی تھیں۔ اس نے آسمان کی جانب نگاہ دورائی تو نیلگوں آسمان پر دن بھر کے تھکے ہارے پرندے رات کے اندھیرے چھانے سے پہلے اپنے اپنے بسیروں کا رخ کر رہے تھے۔ لیکن وہ تو آزاد نہ تھی وہ یہ سوچ کر اداس وہ گئی وہ اپنے بسیرے ہزاروں میل دور آچکی تھی۔ وہ آزاد گھوم پھر تو سکتی تھی مگر یہ آزادی غلامی سے بھی زیادہ کٹھن تھی وہ جانتی تھی کہ وہ کتنے خطر ناک کھیل میں شریک ہے ۔ مگر مجبور خاموشی تھی نو صرف اور صرف حامو کی محبت میں۔ وہ بھی اس کی طرح ایک قیدی تھا ۔اس کا اصل نام تو حامد تھا مگر وہ اسے پیار سے حامو کہہ کر پکارتی ۔ وہ ایک دوسرے کو بڑھ کر چاہتے تھے دونوں نے بھاگتے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہے۔ حامو دریاپار سیٹھ کا کاروبار کرتا تھا اورشام کو واپس لوٹتا تھا۔ دن کی تنہائی اس کو کاٹ کھانے کے لیے دوڑتی تھی وہ سوچوں کے سمندر میں غرق تھی وہ کتنے خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ مگر اب یہ جھونپڑی اس کا مقدر تھی وہ خدا پر بھروسہ کئے خوشحال دنوں کی آس پر یہ دن گزار رہی تھی دونوں فقیروں جیسی زندگی گزار رہے تھے تاکہ ان پر کوئی شک نہ کرے۔ انہی سوچوں کے ساتھ ہی اندھیرا چھا گیا وہ اٹھی اور ایک دیا لیے چھونپڑی سے نکلی نیچے کھلے سمندر میں ننھی لہروں میں جھول رہی تھیں۔
اس کی نگاہیں سمندر میں کسی کی تلاش میں سرگرداں تھیں تب اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچنے لگی سارے دن کی تھکاوٹ لمحوں میں زائل ہو گئی اس نے دیا جلایا اور چٹان کی منڈھیر پر رکھ دیا۔ کشتی آہستہ آہستہ پانی میں رینگتی چٹان سے آملی ، حامو کشی سے نکلا اور اس کی پتھروں سے باندھ دیا” کیسی ہو“ حامو نے اوپر آتے ہوئے پوچھا ”ٹھیک ہوں اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا“ ڈر تو نہیں لگا“ حامو نے چہرے پرمسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔ ” نہیں تو ویسے اب کیا ڈرنا“ اس کے لہجے سے یاس کی جھلک نمایاں تھی۔ وہ جھونپڑی میں جا کر لیٹ گیا اور کچھ دیر سستانے لگا ” آج کھانا نہیں پکا “ حامو کی آواز اندھیرے میں گونجی ”نہیں جب تھاہی کچھ نہیں تو کیا پکتا“ اس کے چہرے پر غم کی لہر دوڑ گئی۔
”اچھا چلو میں ساحل سے کچھ لے کر آتاہوں“ وہ اٹھا اور ساحل کی جانب چل دیا۔ ساحل پر کافی رش تھا لوگ تفریخ کے لیے آئے ہوئے تھے مگر وہ اس تفریخ سے اکتا چکے تھے کھانا کھانے کے بعد اس نے جھونپڑی سے باہر دو بستر بچھائے اور سوگئے۔
چاند کی کرنیں ہر سو جلوہ دکھا رہی تھیں۔ ساحل کی خاموشی سمندر کی پر جوش لہروں سے ٹوٹ رہی تھی۔ لہریں چٹان سے ٹکرا کر ایک دوسرے کو پاش پاش کر رہی تھیں ”حامو کی آنکھیں سے نیند کو سوں دور تھی اسے نہ چاندنی کی پرواہ تھی اور نہ ہی ستاروں کی کہکشاں سے کوئی غرض۔ وہ سیٹھ سے اپنی بے عزتی کا سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا۔وہ سوچوں کی وادی میں ڈوب گیا ” یہ پیٹی کس نے بھری ہے۔؟“ سیٹح کی گرج دار آواز گونجی ” سرحامد نے “ ساتھ کھڑے آدمی نے کہا، ”حامد “ سیٹھ کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ”تمہیں سمجھے نہیں آتی کہ کون سا مال کدھر جانا ہے اور اس کے اوپر نیچے گھاس پھوس کون رکھے گا“ چٹاخ کی آواز کے ساتھ ہی اس کے گالوں پر ایک تھپڑ پڑا، وہ غصے سے لال پیلا ضرور ہو گیا مگر خوموش رہا۔ دوسری صبح وہ حسب معمول کام پر کیا اور شام کو لوٹ آیا ”کل سہ پہر مال آئے گا“ اس نے کہا ”ٹھیک ہے میں تیار ہو ں گی “ شازی نے مختصر جواب دیا” لیکن اس دفعہ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں “ حامو نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ” ایسی کون سی بات ہو گئی ہے“ اس نے جواب طلب کیا۔ اس دن سیٹھ نے مجھے بری طرح بے عزت کر دیا تھا میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں“ اس کے لہجے سے انتقام کی بو آرہی تھی ” تو اس کی سزا جانتا ہے“ شازی نے اسے تنبیہ کرنے کے لہجے میں کہا ”ہاں“ اس نے مختصر جواب دیا” تیری کیا رائے ے“ حامو نے اس سے دریافت کیا ”میں تو تیری بانڈی ہوں ہمیشہ تیرے ہی فیصلوں پر عمل کروں گی“شازی نے محبت سے اس دیکھا حامو نے کھانا کھایا اور چٹان سے اتر کر ساحل کی جانب چلا گیا۔ ساحل پر بنے کو سٹ گارڈ کے دفتر کی جانب اس کے قدم اٹھ رہے تھے ”کیا بات ہے؟“
”گیٹ پر موجود چوکیدار نے اس سے پوچھا۔”سر ایک خبر دینی ہے“ ٹھیک ہے آجاوٴ، چوکیدار اس کو ساتھ لیے دفتر میں داخل ہوا آفیسرز اندر موجود تھے اس راز دارانہ طریقے سے ساری بات اس کے کانوں میں ڈال دی اور واپس لوٹ آیا”کل پتہ چلے گا“ حامو کے لہجے سے انتقام کی آگی بھڑک رہی تھی ”ہاں شاید کل آزادی نصیب ہو جائے“ شازی بولی ” میں صبح کام پر اپنے جاوں گا شام کے دھندلکوں سیٹھ سامان لے کر آئے گا دویا تین کشتیوں پر مشتمل تم نے معمول کے مطابق ان کو راستہ دکھانا ہوگا۔باقی کام پولیس سنبھال لے گی لیکن تم نے اپنا خیال رکھنا ہے “ حامو نے آخری جملے پر زور دے کر کہا ”لیکن ایسی کون سی بات ہے“ شازی نے مسکراکر پوچھا ”پتہ نہیں میرا دل تو ہر وقت گھبراتا ہی رہتا ہے دن کو سنبھال کے رکھ نا، وہ ہنسی خزاں کی رت میں بہار لینے والی یہ مسکراہٹ گلابوں کی مہک سے کم نہ تھی ہر سو کلیاں اور پھول بکھیرنے والی اس مسکراہٹ نے اس کو بہت مسرت دی آج وہ مدتوں بعد ہنسی تھی۔
”اچھا چلو میں ساحل سے کچھ لے کر آتا ہوں“ وہ اٹھا اور ساحل کی جانب چل دیا۔ ساحل پر کافی رش تھا لوگ تفریخ کے لیے آئے ہوئے تھے مگر وہ اس تفریخ سے اکتا چکے تھے کھانا کھانے کے بعد اس نے جھونپڑی سے باہر دو بستر بچھائے اور سوگے۔
چاند کی کرنیں ہر سو جلوہ دکھا رہی تھیں۔ ساحل کی خاموشی سمندر کی پر جوش لہروں سے ٹوٹ رہی تھی۔ لہریں چٹان سے ٹکرا کر ایک دوسرے کو پاش پاش کر رہی تھیں”حامو کی آنکھیں سے نیند کوسوں دور تھی ، اس نہ چاندنی کی پرواہ تھی اور نہ ہی ستاروں کی کہکشاں سے کوئی غرض ۔ وہ سیٹھ سے اپنی بے عزتی کا سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا۔ و سوچوں کی وادی میں ڈوب گیا، ”یہ پیٹی کس نے بھر ی ہے؟“ سیٹھ کی گرج دار آواز گونجی”سر حامد نے“ ساتھ کھڑے آدمی سے کہا”حامد“ سیٹھ کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ” تمہیں سمجھ نہیں آتی کہ کون سا مال کدھر جانا ہے اور اس کے اوپر نیچے گھاس پوس کون رکھے گا“ چٹاخ کی آواز کے ساتھ ہی اس کے گالوں پر ایک ٹھپڑ پڑا، وہ غصے سے لال پیلا ضرور ہو گیا مگر خاموش رہا ۔ رہادوسرے صبح وہ حسب معمول کام پر گیا اور شام کو لوٹ آیا ”کل سہ پہر مال آئے گا“ اس نے کہا ”ٹھیک ہے میں تیار رہوں گی“ شازی نے مختصر جواب دیا ”لیکن اس دفعہ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں“ حامو نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ”ایسی کون سی بات ہو گی ہے “اس نے جواب طلب کیا۔ اس دن سیٹھ نے مجھے بری طرح بے عزت کر دیا تھا میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں“ اس کے لہجے سے انتقام کی بو آرہی تھی ” تو اس کی سزا جانتا ہے “ شازی نے اسے تنبیہ کرنے کے لہجے میں کہا”ہاں“ اس نے مختصر جواب دیا ” تیری کیا رائے ہے “ حامو نے اس سے دریافت کیا” میں تو تیری بانڈی ہوں ہمیشہ تیرے ہی فیصلوں پر عمل کروں گی“ شازی نے محبت سے اس دیکھا، حامو نے کھانا کھایا اور چٹان سے اتر کر ساحل کی جانب چلا گیا۔ ساحل پر بنے کوسٹ گارڈ کے دفتر کی جانب اس کے قدم اٹھ رہے تھے ”کیا بات ہے؟“ ”گیٹ پر موجود چوکیدار نے اس سے پوچھا۔”سر ایک خبر دینی ہے “ ٹھیک ہے آ جاو، چوکیدار اس کو ساتھ لیے دفتر میں داخل ہوا۔ آفیسررز اندر موجود تھے اس نے راز دارانہ طریقے سے ساری بات اس کے کانوں میں ڈال دی اور واپس لوٹ آیا”کل پتہ چلے گا“ حامو کے لہجے سے انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی ”ہاں شاید کل آزادی نصیب ہو جائے“ شازی بولی ”میں صبح کام پر اپنے جاوں گا شام کے دھندلکوں سیٹھ سامان لے کر آئے گا دو یا تین کشتیوں پر مشتمل تم نے معمول کے مطابق ان کو راستہ دکھانا ہوگا۔ باقی کام پولیس سنبھال لے گئی، لیکن تم نے اپنا خیال رکھنا ہے“ حامو نے آخری جملے پر زور دے کر کہا”لیکن ایسی کون سے بات ہے “ شازی نے مسکرا کر پوچھا”پتہ نہیں میرا دل کیوں گھبرا رہا ے”حامو بولا“ تیرا دل تو ہر وقت گھبراتا ہی رہتا ہے دل کو سنبھال کے رکھ نا وہ ہنسی خزاں کی رت میں بہار لینے والی یہ مسکراہٹ گلابوں کی مہک سے کم نہ تھی ہر سو کلیاں اور پھول بکھیرنے والی اس مسکراہٹ نے اس کو بہت مسرت دنی آج وہ مدتوں بعد ہنسی تھی۔
ستاروں کی کہکشاں لہروں سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی اور ستاروں کے جھرمٹ کے بیج کھڑا چاند ان دونوں کی قسمت پر مسکرا رہا تھا اسے چاند کی مسکراہٹ بہت بھلی لگی رات کے انجانے پہر میں نیندنے اس کو اپنی آغوش میں لے لیا سورج کی روشنی صبح کو ایک نئی مہک نے ساتھ پھیلی ، اس کا دل عجیب اندیشوں میں کھرا تھا۔ اس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اسے اکیلا چھوڑ کر جائے۔ اس نے جی بھر کے اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔ کشتی دور ہوتی گی اور اس کا دل ڈوبتا گیا وہ جھونپڑی کے باہر کھڑی مہکتی مسکراہٹ سے اسے خدا حافظ کہتی رہی۔
آہستہ آہستہ جب شازی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کی آنکھوں کی بینائی کھو گئی ہو۔ جب کشتی دوسرے کنارے سے ٹکرائی تو اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔ اس نے بے دلی سے کشتی پتھر سے اٹکائی اور ریت کے ٹیلوں میں بنی ایک کچی کو ٹھڑی میں چلا گیا۔ دن کی تنہائی اس سے نہیں کٹ رہی تھی آج وہ بہت غمگین گھی سورج اپنی کرنیں ساتھ لیے آگے بڑھ رہا تھا اوردن ڈھلنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ و ہ بکھری کرنوں کو دیکھ کر سوچ میں ڈوب گئی سورج پوری دنیا پر اپنی روشنی پھیلائے رکھتا ہے۔ مگر رات کے اندھیرے میں اپنی ایک کرن بھی نہیں بھٹکنے دیتا، اورا نسان اپنی چند ایک کرنوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا ، اس کا خیال فوراََ اپنے گھر کی جانب کوندا۔ جب آسمان پر سرخی چھائی اور سورج نے اپنا منہ سیاہ نقاب میں چھپا لیا۔ تو وہ جھونپڑی میں گئی اور لیمپ لیے باہر آئی اس کی نگاہ دور سمندر پر تھی اس کی نظر مختلف ساخت کی کشتیوں پر پڑی اور ان پرلہراتے سرخ کپڑے نے ان کی شناخت کر دی۔ آگے والی کشتی کے عرشے پر کھڑا ایک شخص رومال لہرا رہا تھا ہوا چل رہی تھی وہ اپنا دوپٹہ اتار کر ہوا میں لہرانے لگی اس نے اپنے آنچل کو پتھروں سے اٹکایا اور لیمپ روشن کر کے چٹان کی منڈھیرے پر رکھ دیا۔ کشتیاں آگے بڑھ رہی تھیں اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گی۔ سامان اتارا جانے لگا۔ شام کا اندھیرا مکمل چھاچکا تھا۔ وہ حاموکی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ اس کا تسلسل گولیاں کی سنسنا ہٹ سے ٹوٹ گیا۔ دو بدو لڑائی ہوئی سیٹھ تو ختم ہو گیا مگر ظالم گولیوں نے اس کو بھی نہ بخشا۔
چٹان پر لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ ادھر حامو واپس روانہ ہو چکا تھا۔ محبت کی کشش سے دھڑکتے دل کی دھڑکن بے ترتیب تھی۔ سمندر کی لہروں میں خلاف معمول آج زیادہ طغیانی تھی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ بار بار چپو اس کے ہاتھ سے پھل جاتے ۔ مدھم چراغ اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا”یہ چراغ مدھم کیں “ اس کا دل دھڑکا، وہ سمندر کی بے رحم لہروں سے غافل ہو چکا تھا۔ اس کے ہاتھ سے بے چینی سے گردش کرنے لگے، اتنا میں کشتی کا چپوٹوٹا اور وہ سمندر میں جاگرا۔ وہ بہترین تیراک تھا لیکن آج قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ تیرتا رہا مگر بے رحم لہروں نے اس کو لقمہ اجل بنا لیا ۔ شازی کی لاش پر ایک مسکراہٹ تھی کامیابی کی مسکراہٹ دونوں محبت کے دیوانے ایک نئی زندگی شروع کر چکے تھے۔ سمندر کا پانی جب لہروں کی صورت میں جب چٹان سے ٹکراتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے یہ پانی حامو کی محبت کا سفیر بن کرشازی کو اس کی محبت کایقیں دلا رہا ہو۔ اور محبت کی نئی کہانی کو جنم دے رہا ہو۔ لہریں ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہیں۔ رات ڈھلتی رہی آنچل ہوا کے دوش پر قیدی پرندے کی طرح پھڑ پھڑاتارہا۔ مگر مدھم چراغ محبت کی لو لئے پوری دنیا کو منور کرتا رہا۔

Latest Posts

Related POSTS