یہ دو، دو درجن تو ہو گئے عامر اور رافع کے بچوں کے اور یہ ڈیڑھ درجن میری ذکیہ کے لیے ” بازار سے منگوائی دیسی انڈوں کی پیٹی اپنے آگے رکھے فخر النساء اس میں سے انڈے گن گن گر ڈبوں میں ڈالتی جا رہی تھیں کہ ذکیہ کا نام لیتے ہی پاس کھڑی ان کی دونوں بہوؤں کے چہروں پر ایک ساتھ ناگواری کے تاثرات ابھرے- لیں بھلا ، اب انڈے بھی کوئی بانٹنے والی چیز ہے بھابھی ! چھوٹی ندرت نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا جب کہ بڑی والی الگ ہی بیٹھی تھی۔ غصے میں بولی چلی گئی۔ تو اور کیا۔ ذکیہ آپا کو لینا خوب آتا ہے، میاں کی اچھی خاصی کمائی ہونے کے باوجود بھی ان کی نظریں میکے کی چیزوں پر ہیں۔ مانا کہ بھائیوں کا کاروبار خوب چلتا ہے۔ روپے پیسے کی کمی نہیں پر اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ وہ ہر چیز اپنا حق سمجھ کر وصول کرتی جائیں۔” کچن میں سبزی کاٹنے کے ساتھ ساتھ یہ دیورانی اور جٹھانی سرگوشیوں میں اپنے دل کا غبار نکالنے میں تھی کہ ساس کو کچن کی طرف آتے دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔ ہما بیتا! آج گوشت ذرا زیادہ پکا لینا ۔ شام میں ذکیہ آ رہی ہے ہماری طرف- فخر النساء نے آکر خوشی خوشی انہیں بھی اطلاع دی۔ مہینہ بھر تو ہو چلا تھا اسے میکے کا چکر لگائے۔ آج آنا چاہ رہی تھی تو میں نے کہا پھر رات کا کھانا تم سب ادھر ہی کھانا۔ ہما تم اچھا سا سالن بنا لو۔ میں گڑ والے چاول پکالوں گی ، ذکیہ شوق سے کھاتی ہے اور ہاں ندرت بیٹا تم رافع کو فون کر دو، رات دکان سے آتے ہوئے بروسٹ بھی لیتا آئے۔” جی اماں ! ابھی کہ دیتی ہوں۔” ساس کے کہنے پر ندرت نے احتراما جواب دیا اور فون کرنے چلی گئی ۔ بہوؤں کو کھانے سے متعلق ہدایات دینے کے بعد فخر النساء تو واپس اپنے کمرے کی جانب لوٹ گئیں۔ ہما اور ندرت ابھی دیسی انڈوں کی قربانی کا غم ہی نہ بھول پائی تھیں کہ اوپر سے ساس صاحبہ نے ذکیہ آپا کی آمد کا اعلان کر کے انہیں مزید ہلا دیا۔ ندرت میرے تو کان پک گئے ہیں یہ ہر وقت کا ذکیہ نام سن سن کر – بیزاری کی آخری حدوں کو چھوتی ہما بولی تو ندرت اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں پیچھے کیوں رہتی۔ بھابھی یہ ہم بہوؤں کا ہی حوصلہ ہے جو ہماری ساس، ہمارے بھی پیسوں سے اپنی بیٹی کو نوازے جاتی ہیں اور آگے سے بجائے احتجاج کرنے کے الٹا ہم تسلیم غم کیے دیتی ہیں۔ ادھر ایک میری امی ہیں، کیا مجال ان کی جو اپنی بہو کے سامنے ایک جو تی بھی پکڑا دیں۔ انہوں نے جو دینا ہوتا ہے بس چپکے سے میری مٹھی میں دبا دیں کی لیکن ادھر پہلے ذکیہ آپا پھر اور کوئی ۔” کہ تو تم بالکل ٹھیک رہی ہو کیونکہ میری امی بھی کچھ ایسا ہی کرتی ہیں۔” ندرت کی باتوں پر ہما سر ہلا ہلا کر اتفاق کرتی رہتی تھی ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عید بقرعید کے علاوہ بھی بھابھی ہمیں کھانے پر بلا لیں۔ جب چلے جاؤ دال سبزی گھر میں پکی ہو وہی آگے لا رکھیں گی۔ وہاں باہر سے منگوانے کا ایسا کچھ نہیں ہوگا اور ہمارے سرال میں ہر تیسرے ہفتے نند صاحبہ کے لیے پر تکلف دعوت کی جاتی ہے ۔ ذکیہ آپا جب رات کو آئیں تو بھتیجے بھتیجوں کے لیے بہت ساری آئس کریم بھی لیتی آئیں ۔ کھانے کے بعد اپنی اپنی پسند کا فلیور آئس کریم کھاتی بچہ پارٹی کی خوشی دیدنی تھی۔ گھر واپس جاتے ہوئے اماں کے پاس دیسی انڈوں کا ڈبا دیکھ کر ان کی تو آنکھیں ہی چمک اٹھیں۔ ارے دادا دیسی انڈے، میرے پسندیدہ ” کہہ کر جھٹ اماں کے ہاتھ سے ڈبا لے لیا اور چلتی بنیں۔ ان کی یہ حرکت بھلا دونوں بھا بھیوں سے کیوں کر چھپی رہ سکتی تھی۔ اف میرے اللہ ۔ ندرت کتنے مہنگے ہوں گے یہ انڈے ۔ آپا نے تو یوں خوشی کا اظہار کیا جیسے انہیں دیسی نہیں بلکہ سونے کے انڈہ مل رہے ہیں۔” وہی تو میں سوچ رہی ہوں بھابھی! بندہ جھوٹے منہ ہیں کہ دیتا ہے کہ اماں رہنے دیں۔ میرے بھتیجے بھتیجوں کو کھلا دیں مگر توبہ کر یں جی ، یہاں انکار تو ہے ہی نہیں ۔ رات کے کھانے کے بعد کچن سمیٹتے ہوئے ان دونوں کا ذکیہ آپا پر دھواں دھار تبصرہ جاری تھا۔ ” دل لگا کر پڑھا کرو۔ اب دیکھو نہ تمہاری پھوپھو کو پہلے پانچھویں جماعت میں وظیفہ ملاء اس کے بعد آٹھویں میں بھی اور پھر میٹرک کے امتحان میں تو میری ذکیہ کی پورے ضلع میں دوسری پوزیشن آئی تھی۔ اخباروں میں اس کے نام کے ساتھ یہ تصویریں لگیں – اس کے دادا نے تو گھر پر ہی چلوائی بٹھالیا تھا اور منوں کے حساب سے مٹھائی بانٹی گئی تھی ۔” بچوں کی عادت تھی کہ ہر ہفتے کی رات وہ لازماً دادی سے کہانی سن کے سویا کرتے۔ آج بھی وہ سب مل کر ان کے بستر میں آن گھسے تھے ۔ انہیں نیک دل شہزادی اور ظالم جن کی کہانی سناتے سناتے فخر النساء نے کب کہانی کا رخ ذکیہ آکی طرف موڑ لیا تھا کہ اماں کے لیے دودھ کا گلاس لاتی ندرت یہ ذکر سن کر و ہیں باہر سے پلٹ آئی۔ کیوں بھئی کیا ہوا، دودھ واپس لے آئی ہو؟ ہما اس سے پوچھنے لگی۔ اندر ساس صاحبہ تو بچوں کو کہانی سنانے کے بجائے ان کی ذکیہ پھوپھو کی قابلیت کی داستانیں کھولے بیٹھی ہیں اور میرا کم از کم اس وقت یہ سب سنے کا بالکل بھی موڈ نہیں ہے۔ بھابھی میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں، آپ کسی بچے کو بو لو اماں کو دودھ بھجوا دیں ۔ گلاس میز پر رکھ کر کمرے کی جانب جاتی ہوئی ندرت اس وقت ہما کو بے حد جھنجلائی ہی نظر آئی۔ یہ اماں بھی بیٹی کی تعریف بگھارنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ جب دیکھو ایک ہی بات یہ سوچے بغیر کہ اگلا بندہ چڑ بھی سکتا ہے۔”
ندرت کے لیے دل میں ہمدردی کے جذبات لیے ہما منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگی۔ دادی کیا ہماری پھوپھو پڑھائی میں بہت لائق تھیں ؟” اندر ندرت کی ہی بیٹی فریال دادی سے پو چھ رہی تھی۔ تو ہاں نا۔ تمہاری پھوپھو پڑھائی میں بڑی ہی اچھی تھی۔ پورے خاندان میں سب سے زیادہ ذہین وہ ہی تو تھی ۔ ۔ پھر تو دادی میں بھی ذکیہ پھوپھو کی طرح خوب سارا پڑھ کے بورڈ میں پوزیشن لوں گی ۔ ننھی فریال کے بہت بڑے ارادے پر تو دادی کو بے تحاشا پیار آ گیا اور اسے چوم کر بولیں۔ شاباش میری بچی ! اپنے ماں باپ کے لیے باعث فخر بنو اور کوئی بھی ایسا غلط کام جس سے انہیں ندامت اٹھانا پڑے، اس سے کوسوں دور رہو۔“ فخر النساء کے ایک بھائی محکمہ فشریز میں آفیسر تھے۔ اس پار سردیوں میں انہوں نے بہن کو ڈھیر ساری مچھلی بھجوائی۔ دونوں بہوؤں کے ساتھ مل کر مچھلی صاف کرنے کے دوران حسب عادت اس میں سے بیٹی کا حصہ نکالنانہ بھولی تھیں۔ یہ پانچ دانے ذکیہ کے ہیں۔ لو بھئی لڑکیو! ساری مچھلی دھو کے چھلنی میں رکھو۔ میں اتنی دیر میں اسے مسالا لگاتی ہوں۔ پہلے ذکیہ کو بھی پکڑا آؤں۔” باہر جاتی ہوئی وہ نجانے کیا سوچ کر رکیں اور گویا ہوئیں۔ اپنے گھر میں بے شک اچھے سے اچھا کھاتی پکاتی ہے ذکیہ کیا کروں ماں ہوں نا اسے دیے بنارہ نہیں پاتی۔ سچ کہوں تو وہ اس گھر اور سب بڑوں، بچوں کے لیے اتنی دعائیں کرتی ہے کہ مجھے تو لگتا ہے۔ کہ یہ اس کی دعائیں ہی ہیں، جو اللہ نے ہمیں رزق سے مال کی فروانی عطا کر رکھی ہے۔” دونوں بہوئیں فرماں برداری سے ساس کی باتیں سن رہی تھیں تمہارے سرکہا کرتے تھے کہ ۔ ہماری ذکیہ بڑے بختوں والی ہے جب سے پیدا ہوئی ہے ہمارے گھر میں خوش حالی ہے اور جس روز سے بیاہ کر سسرال گئی ہے اس کا میاں لاکھوں میں کھیل رہا ہے۔ اللہ پاک نے بڑے رنگ لگا رکھے ہیں میری ذکیہ کو۔ مچھلی کا لفافہ اٹھائے پھر اماں تو باہر نکل گئیں- ساس کے جاتے ہی ہما کی آواز بلند ہوئی۔ جانے کہاں کہاں سے اپنی منطق ڈھونڈ لاتی ہیں یہاں ان کے حساب سے رافع اور عامر کا کاروبار چلانے اور بڑھانے میں کوئی کمال نہیں۔ ہمارے نصیب کا کچھ ذکر نہیں، نہیں جو بھی ہے ذ کیہ آپا کی دعا ہی سے ہے جن سے ہمارا گھر جاتا ہے۔ جب تک اماں کی زندگی ہے کرلیں عیاشیاں، بعد میں ہم نے کون سا انہیں پوچھنا ہے۔ کیوں اپنے بچوں کا کچھ نہیں سوچنا۔ ساری زندگی آپا کا گھرہی تو نہیں بھرنا ۔” ہما کے بعد ندرت نے بھی دل کی بھڑاس نکالنے میں دیر نہ کی۔ جب فخر النساء کا انتقال ہو گیا تو ایک بیٹی کی حیثیت سےذکیہ آپا نے بھی اپنی ماں کے جانے کا بڑا صدمہ لیا۔ ان کے چہلم تک باقاعدگی سے آکر وہ ان کی کمرے میں ہی بیٹھ کر قرآن پڑھا کرتیں۔ اس کے بعد تو انہوں نے آنا بالکل کم کر دیا۔ کچھ بھابھیوں کے سرد رویے انھیں میکے کی دہلیز کم ہے پار کرنے دیتے – ادھر ساس کا چہلم گرزانہیں ادھر ند رت کے مشورے سے ان کے کمرے کا سارا سامان اٹھوا کر اسٹور میں جا رکھوایا اور اس کمرے کو بچوں کے لیےسیٹ کر کے اماں کی ہر نشانی اور یاد کو مٹانے میں ذرابھی تاخیر نہ کی۔ذکیہ آپا اس بات کے د کھ کا اظہار زبان سے تو نہ کرپائیں مگر جب بھی وہ گھڑیبھر کے لیے بچوں سے ملنے آتیں تو اماں کے کمرے کی طرف دیکھ دیکھ کر چکے سے آنسو بہا لیا کرتیں۔ انہیں اس کیفیت میں جیتا دیکھ کر ہما اور ندرت فاتحانہ مسرور ہوا کرتیں۔ عامر اور رافع نے بہن کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر روکنا چاہا پر اپنی بیویوں کے سامنے بے بس نظر آے ساس کے بعد پہلی عید توسوگ میں گزری دوسری عید قریب آئی تو شاپنگ سے آکر ہما اپنا سیٹ ندرت کو دکھا رہی تھی ہما نے بھی سیٹ کی دل کھول کر تعریف کی لیکن ہما کہنے لگی کہ پہلے تو عامر پیسے ہی نہیں دے رہے تھے پھر نجانے دل میں کیا آئی مجھے پیسے دیے کہ اپنے اور ذکیہ آپا کے لیے سوٹ لے آؤ ۔ اپنے بچوں کے کپڑوں کے لیے تو میں نے دو ماہ پہلے جو میری کمیٹی نکلی تھی ، وہ سنبھال کے رکھی ہوئی تھی۔ اس میں سے خرید کر لائی ہوں اور یہ رہا آپا کا سوٹ ” کپڑے کی عام دکان سے خریدا گیا معمولی سے پرنٹ اور رنگ والاسستا سا سوٹ نکال کر وہ ندرت کو دکھانے لگی۔ کون سا سستا ہے۔ پورے بارہ سو روپے میں آیا ہے۔ کوئی آپا ، ہمارے جوڑے پر بھی تو نہیں بیٹھی ہوئیں۔ میں نے تو فرض پورا کرنا تھا سو کر دیا۔ حالات اچھے ہوں گے جب دیکھا جائے گا۔ ابھی تو ان کے دونوں بچوں کو عیدی بھی رہتی ہے۔” بھا بھی بہترین سوٹ ہے، بالکل ٹھیک کیا ہے آپ نے۔ میرے شوہر تو خود کاروبار نہ چلنے کی وجہ سے ۔ پریشان ہیں۔ ان کے بچوں کو دو، دو سوروپے عیدی دے دوں گی اگر وہ عید پر ملنے آئے تو ۔” گئے ہاتھوں ندرت نے و اپنے ارادے سے بھی باخبر کر دیا۔ عید کے روز سہ پہر میں جب ذکیہ آپا ملنے آئیں تو دونوں بھابھیوں کے منہ اس وقت یہ دیکھ کر کھلے کے کھلے ہی رہ گئے کیوں کہ انہوں نے ہما کا دیا و ہی سستا سوٹ سلوا کر پہن رکھا تھا۔ کہنے لگیں۔ حسن نے توعید کے تینوں دن کے لیے میرے پسندیدہ ڈیزائنر کے کڑھائی والے سوٹ دلواۓ ہیں لیکن میں نے کہا کچھ بھی ہو، آج میں عید کے دن میکے سے آیا ہوا جوڑا ہی پہنوں گی ۔ حسن آپ والے عید کے اگلے دن پہن لوں گی ” وہ بول رہی تھیں اور شرمندگی اور ندامت کے گڑھوں میں گرتی ہما اور ندرت جنہیں کہیں منہ چھپانے کو جگہ نہ مل رہی تھی۔ ذکیہ آپا خالی ہاتھ نہیں آئی تھیں ، کیک ، مٹھائی، بچوں کے لیے کھلونے اور عیدی کے ساتھ ساتھ ہما اور ندرت کے لیے بھی اپنے جیسے ہی شاندار کڑھائی والے سوٹ لائی تھیں۔ ارے آپا اتنا سب کچھ کس لیے ۔ ہم نے آپ کو دینا ہےلینا ہر گز نہیں۔” دونوں بھائیوں نے انہیں منع کرنا چاہا تو وہ مصنوعی ناراضی سے بولیں۔ میں تم دونوں سے بڑی ہوں اور بڑوں کو انکار نہیں کرتے۔ جب تک اماں ابا زندہ رہے تو میں بھی چھوٹی ہی رہی۔ اماں جو کچھ دیا کرتیں، میں خوشی سے پکڑ لیا کرتی مگر اب تو نہیں ۔” ان کو یاد کر کی آپا کی آنکھوں کے کونے بھیگ گئے۔ الله میرے میکے کو شاد رکھے۔ بڑی بہن ماں کے برابر ہوتی ہے، اس لحاظ سے میرا فرض بنتا ہے کہ میں تم سب کا خیال رکھوں ۔” اس دوران ہما اور ند رت کی حالت کا ٹو تولہو نہیں کے مصداق تھی۔ ذکیہ آپا کی اعلیٰ ظرفی کے آگے ان دونوں کی پست ذہنیت کا بت پاش پاش ہو گیا۔ آپا سچ میں بڑے بختوں والی تھیں۔ ہوس و حسرت سے مبرا شفقت سے بھرپور جنہیں نہ تو کل کوئی لالچ تھا اورنہ ہی آج ۔ ایک صرف عزیز تھا تو اپنے میکے کا مان جس کی سلامتی کے لیے وہ بے لوث دعا گو ر ہا کرتی تھیں اور اس بات کو انہوں نے اپنے کردار و عمل سے ثابت کر دکھایا۔ اماں کے مرنے کے بعد ذکیہ آپا سے روار کھے جانے والا سلوک ، ان کے کمرے کا سامان اسٹور میں رکھوا کر آپا کو دی گئی اذیت پر اپنی فتح کا جشن منانا ۔ عامر اور رافع کا مسلسل گر تا ہوا کاروبار اور گھر یلو حالات میں مندی یہ سب ہما اور ندرت کے لیے ایک ایک کر کے آئینہ کی طرح صاف و شفاف تھا جس میں انہیں اپنا کردار داغدار نظر آرہا تھا۔ عید نام ہے اپنوں کے لیے دلوں میں جمی کدورت اور رنجش کی سیاہی کو مٹا کر سچے پر خلوص جذبوں کے ساتھ ان سے ملنے کا۔ غلطیوں کی اصلاح اور تلافی کے لیے شاید عید کے دن سے زیادہ بہتر موقع اور کوئی نہ تھا۔ اس کا دیر سے ہی کسی مگر انہیں احساس تو ہو گیا تھا۔ جب ہی آنکھوں میں آنسو اور دل میں احساس شرمندگی لیے ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر ایک ساتھ اٹھ کرذکیہ آپا کے گلے جا لگیں –