امی جان کو حضرت بابا فرید شکر گنج سے بہت عقیدت تھی۔ وہ ہر سال پاکپتن ان کے عرس اور میلے میں شرکت کرتی اور ہم بھی ساتھ جاتے۔ زائرین میں ہر بار چند نئے لوگوں سے ملاقات ہوتی۔ وہیں میری دو چار سہیلیاں بنیں ، وہ قریبی شہروں سے تھیں۔ بعد میں بھی ان سے رابطہ اور تعلق رہتا تو بہت اچھا لگتا۔ اس بار میلے کے موقع پر ہم نے امی جان کو یاد دلایا کہ پاکپتن چلنا ہے ، والدہ کی طبیعت کچھ ناساز تھی، سفر کرنے سے گھبرا رہی تھی۔ میں نے ہمت دلائی کہ انشاء اللہ صحت مند ہو جائیں گی۔ بھائی عمران تو پہلے ہی تیار تھے۔ امی کا اشارہ ملتے ہی ہم نے اپنے بیگ سیٹ کر لئے اور مقررہ دن پاک پتن روانہ ہو گئے۔ خانیوال سے پاک پتن پہنچے تب کچھ تھکن محسوس ہوئی، بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اڈے پر اترتے ہی میں نے بھائی سے کہا کہ کسی اچھے ہوٹل سے کھانا اور پانی بھی لادو، بڑی پیاس لگی ہے۔ اس روز گرمی بھی کچھ زیادہ تھی۔ تبھی عمران بھائی ایک ہوٹل کو دیکھ کر ٹھہر گئےاور کھانا لانے والے لڑکے سے پوچھا کہ کیا سالن وغیرہ ہے۔ قیمہ چنے کی دال ہے، سبزی اور مرغی کا سالن بھی سب کچھ ہے جو کہیں لا دیتا ہوں، آپ سامنے کرسی پر تشریف لے چلیں، کرسی میز پر نہیں کھائیں گے ۔ لاری اڈے کے پاس بینچ پر جو سواریاں بیٹھی ہیں ادھر کھانے کی ٹرے پہنچا دو اور ٹھنڈے پانی کا ایک جنگ بھی لا دو۔ لڑکے نے پھرتی سے حکم کی تعمیل کی۔ دو گلاس اور ٹھنڈے پانی سے بھرا ایک جگ عمران کے ہاتھوں میں دے کر وہ کھانے کے آرڈر کی تعمیل کرانے چلا گیا۔ ہم جلدی جلدی گلاسوں میں پانی انڈیل کر پینے لگے تو والدہ نے ٹوکا کہ بچوں گرمی میں شدید پیاس لگی ہو تو بہت ٹھنڈا پانی غٹاغٹ حلق سے نہیں اتارنا چاہئے، انسان بیمار ہو جاتا ہے۔ زندگی کے ہر قدم پر والدہ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھاتی تھیں۔ خاص طور پر سفر کے دوران، اس وقت تم ہم ان باتوں کو معمولی سمجھتے تھے۔ آج پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنی اہم باتیں تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ہوٹل والا لڑکا کھانے کی ٹرے لے کر آ گیا۔ ٹرے گرچہ پرانی سی تھی، بر تن سستے تھے لیکن ان میں جو سالن اور رائتہ وغیرہ پروسا گیا تھا۔ وہ بہت لذیذ اور عمدہ تھا۔ بھوک چمک رہی تھی لہٰذا کھانے کا مزہ ہی آ گیا۔ کھا پی کر ذرا آسودہ حال ہوئے تو ادھر ادھر کا جائزہ لیا۔ عمران بھائی شاید زیادہ کھا گیا تھا کیونکہ خالص گندم کی گرما گرم تندوری روٹیاں منہ میں ایسا سواد دیتی کہ کھانے والا کھاتا ہی چلا جاتا۔ یہاں کے چھوٹے سے دھابے کے کھانے میں جو لذت تھی، بڑے ہوٹلوں کی ٹپ ٹاپ کو اس نے ماند کر ڈالا تھا۔
پاکپتن کا میلہ اب شروع ہو چکا تھا اسی دوران ایک بس آئی اور اس میں سے تمام مسافر اتر گئے۔ ایک خاتون جن کے ساتھ ایک دوشیزہ اور چھوٹا ایک لڑکا بھی تھا، وہ ہمارے قریب آ گئے۔ بزرگ خاتون نے امی جان سے پوچھا۔ بہن یہاں سے پیر مکی شاہ کا دربار کتنی دور ہے۔ امی نے عمران بھائی کو کہا۔ بیٹا ان کو پیر مکی شاہ پہنچا دو۔ عمران سے خاتون نے کہا۔ یکہ کر لو۔ پاس ہی یکہ موجود تھا کہ میرے بھائی نے اخلا قا ان سے کھانے کا پوچھا انہوں نے انکار میں جواب دیا اور وضو کر کے نماز ادا کی ۔ شاید یہاں پہلی مرتبہ آئے تھے۔ نماز ادا کرنے کے بعد بھائی کے ساتھ ہی یہ واپس آ گئے۔ اب ہماری بوریت ختم ہو گئی تھی کیونکہ دونوں خواتین ایک بارہ سالہ لڑکے کے ہمراہ آئی تھیں۔ امی سے خاتون نے استدعا کی کہ ہم لوگ آپ کے ساتھ ساتھ رہیں گے کیونکہ اکیلے ہیں۔ خاتون کی بیٹی کا نام تہمینہ تھا۔ پہلے میرے ساتھ اس کی بات چیت اور پھر دوستی ہو گئی۔ اب دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا۔ دربار کے پاس سرائے میں ٹھہرنے کا بندوبست بھی ہو گیا تھا کیونکہ ہم نے یہاں پانچ دن رکنا تھا۔ رات کو ہم لوگ بیٹھے قوالی سن رہے تھے کہ تہمینہ کو پیاس لگی۔ اس نے مجھ سے ذکر کیا۔ میں نے بھائی سے کہا کہ اسے پانی پینا ہے تبھی امی بولیں ۔ یہاں گلاس وغیرہ نہیں ہے، عمران جائو ان کو سبیل سے پانی پلواو۔ میرے ہمراہ یہ دونوں پانی پینے چلے گئے۔ راستے میں اس نے بھائی سے پوچھا آپ کتنے دن یہاں ٹھہریں گے، جب تک آپ ادھر ہیں، وه زیر لب مسکرا دی۔ ہم تینوں نے پانی پیا تو بھائی نے کہا۔ ذرا سا آگے چلو۔ وہ سامنے سے میٹھے سونف کا پیکٹ لے لوں۔ اسی دن میں نے محسوس کیا کہ عمران بھائی اور تہمینہ ایک دوسرے کی جانب بے حد متوجہ ہیں مگر خاموشی کے پردے میں شاید یہ ان کی محبت کا پہلا دن تھا اور مجھ سے حجاب تھا۔ دربار پر ہم حاضری دیتے پھر اپنے سرائے والے کمرے میں آکر آرام کرتے ۔ امی، والدہ تہمینہ عبادت میں مشغول ہو جاتیں۔ میں تہمینہ کے ساتھ باتیں کرتی۔ عمران بھائی باہر چلے جاتے، کبھی آکر لیٹ جاتے، کروٹ ہماری جانب کر لیتے لیکن ان کو نیند نہ آتی، ہماری باتیں سنتے رہتے۔ اگلے روز در بار پر حاضری ہو گئی تو صلاح و مشورے سے ہم سبھی اکٹھے چن پیر چلے گئے۔ وہاں چادر چڑھائی اور دوپہر کو لوٹے ۔ امی اور خالہ تھک گئی تھیں۔ وہ آرام کرنے لگیں اور ہم دونوں عمران بھائی کے ہمراہ باہر چلی آئیں۔ اسٹال دیکھے پھر لوگوں کے ہجوم سے دور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے جبکہ عمران بھائی خاموش بیٹھے تھے، جیسے خیالوں کی دنیا میں گم ہوں۔
تہمینہ کچھ بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ آج ہمارا یہاں آخری دن تھا اور کل اپنے اپنے گھر کو روانہ ہو جانا تھا۔ جیسے چاہتی ہو کہ عمران سے اکیلے میں بات کرلے ، وہ بے کل سی ہو رہی تھی اتنے میں اس کا چھوٹا بھائی آ گیا۔ باجی آپ کو امی بلارہی ہیں، میں نے عمران سے کہا بھیا۔ تہمینہ کو سرائے تک اس کی والدہ کے پاس چھوڑ آئو۔ تہمینہ نے اپنے بھائی کو کہا۔ راجہ تم باجی گل کے پاس رہو گے ۔ جب تک عمران مجھے چھوڑ کر واپس نہ لوٹ آئے۔ باجی گل کو اکیلا مت چھوڑنا۔ یہ سب کچھ ایسے ہو رہا تھا کہ میں سمجھ رہی تھی یہ لوگ کیا چاہ رہے ہیں۔ صرف چند لمحوں کی رفاقت میں دل کی بات کہنی تھی۔ میرا اندازہ صحیح تھا۔ رستے میں تہمینہ نے عمران سے اگلے سال آنے کا وعدہ لیا تھا اور ہمارا ایڈریس بھی لیا۔ رات کو خالہ نے بتایا کہ ہم صبح تیز گام سے لاہور واپس جارہے ہیں۔ یہ سنتے ہی میں اداس ہو گئی لیکن عمران تو بالکل ہی بجھ سا گیا جیسے کوئی پیاری ہستی اس سے بچھڑنے والی ہو۔ لیکن یہ مرحلہ تو آنا تھا۔ ہم کو بچھڑنا ہی تھا، ملے تو بچھڑنے کے لئے۔ مسافرت میں ملنے والے چند گھڑیوں کے ساتھی ہوتے ہیں ان کا دوبارہ ملنا ایک معجزہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ جو سفر میں ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں تو بھول کی دھول میں کھو جاتے ہیں دوبارہ یاد نہیں آتے۔ لیکن کچھ ہمسفر مختصر سے ساتھ کے بعد یادوں میں امرت گھول دیتے ہیں وہ امر ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ تھا۔ تہمینہ اور ہمارا ساتھ۔ پیار کے رشتہ میں امرت رس گھول گیا تھا۔ رات کو جب امی اور خالہ سو گئیں تو بھائی اور تہمینہ باہر نکل گئے۔ دربار کے اسٹالوں پر سے عمران نے اپنی محبت کی چند نشانیاں اسے لے کر دیں۔ اس نے بھی عمران کو رومال اور مجھے ایک اچھی کتاب تحفے میں خرید کر دی۔ وقت رخصت ہم سب اداس تھے، کتنا مختصر ساتھ تھا لیکن کس قدر اپنائیت بھرا تھا۔ جب وہ تانگے میں بیٹھ کر جانے لگے تو تہمینہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ عمران بھائی کی بھی پلکیں نم تھیں۔ انہوں نے بڑے ضبط سے کام لیا تھا۔ چار دن کی پاکیزہ محبت تھی اور جدائی کی یہ گھڑی کتنی اذیت ناک تھی، لمحہ بھر میں عمران بھائی نے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ چند گھڑیاں اور ساتھ رہنا چاہتے تھے لہٰذا انہیں روک کر ہم نے جلدی جلدی رخت سفر باندھا۔ دربار کو آخری سلام کیا۔ بس اسٹینڈ کے لئے تانگے میں بیٹھے اور وہاں سے ہو کر ساہیوال ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ انہوں نے یہاں سے ہم سے جدا ہونا تھا۔ تہمینہ کی ماں نے میرے بھائی کا شکریہ ادا کیا۔ امی سے گلے ملیں، مجھے دعائیں دیں اور کہا کہ اگلے سال زندگی رہی تو در بار پر پھر ملیں گے ۔ گاڑی آ گئی اور وہ سوار ہو گئے۔ وہ لاہور کی سمت روانہ تھے ، ہمارا دل بو جھل تھا۔ ہم نے بس سے خانیوال جانا تھا۔ ہم لاری اڈے آ گئے۔
گھر آئے تو کافی دنوں تک تہمینہ کی یاد آتی رہی پھر ہم اپنے کاموں میں لگ گئے لیکن عمران بھائی جیسے اپنا قرار اسے دے آئے تھے۔ ان کو گھڑی پل چین نہ تھا۔ سبھی ساتھی اپنے پتے وغیرہ دے جاتے تھے جن کو رابطہ رکھنا ہوتا تھا لیکن تہمینہ نے نہ فون نمبر اور نہ گھر کا پتہ دیا تھا البتہ ہمارا ایڈریس لیا تھا، سال گزر گیا اس نے کوئی رابطہ نہ کیا۔ مجھے تو سال گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا لیکن عمران کو ایک ایک دن عمر بھر کا لگا۔ پھر اگلے سال کا وہ مہینہ آ گیا جب پاک پتن کے میلے میں ہفتہ بھر رہ گیا۔ بھائی نے نئے کپڑے سلوا لئے، اس بار امی سفر کے قابل نہ تھی۔ انہوں نے جانے سے معذوری ظاہر کر دی۔ میں امی کے بغیر کیونکر جاتی عمران بھائی اکیلا ہی چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر امید بھری نظروں سے سارے میلے گھوم پھر کر اسے تلاش کرنے لگا لیکن وہ نہ ملی، دل ہی دل میں اس کے ملنے کی دعائیں مانگتا رہا۔ اگلے روز شام کے وقت امید بر آئی۔ وہ ماں بیٹی اور اس کا بھائی ایک بس سے اترے اور ادھر ادھر دیکھتے آرہے تھے کہ عمران کو دیکھ لیا۔ وہ بھی بے چینی سے ان کی طرف بڑھا۔ تہمینہ اسے دیکھ کر جی اٹھی۔ بے چینی سے ان کی طرف بڑھا۔ آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔اس کی والدہ بھی بہت محبت سے ملی۔ انہوں نے عمران بھائی کے ساتھ سرائے میں ٹھہرنے کو ترجیح دی۔ اب والدہ اور چھوٹا بھائی سو جاتے اور رات کی تنہائی میں یہ دونوں بیٹھ کر خوب باتیں کرتے۔ وہ پچھلے برس سے زیادہ حسین اور خوبصورت ہو گئی تھی۔ عمران نے گلہ کیا کہ اپنا ایڈریس دیا نہیں اور ہمارے پتے پر رابطہ نہیں کیا ایک بار بھی۔ ہم نے مکان تبدیل کرنا تھا، تبھی پتہ نہیں دیا تھا اور اب مکان بدل لیا ہے ؟ اب تو ایک پل بھی تمہارے بغیر جیناد شوار ہے۔ اس بار تو مل گئے کیا خبر دوبارہ پھر مل سکیں یا نہ مل سکیں۔ اب وقت کی کلائی مت چھوڑنا۔ جدا ہونے سے پہلے مجھے بتادو کہ کب، کیسے ہم جلد مل سکتے ہیں۔ مجھ سے شادی کرنی ہے تو وقت ضائع نہ کرنا اور رابطہ کا سلسلہ بتادو تا کہ تمہارے گھر والوں سے رشتہ طلب کر کے تم کو عزت سے اپنالوں۔ بھائی نے ایک سانس میں وہ سب کچھ کہہ دیا جس کے لئے سال بھر کا جان لیوا انتظار کیا تھا۔ حوصلہ رکھو عمران، تہمینہ نے کہا تھا۔ ایک سال اور انتظار کرنا ہو گا، میں دل سے تمہاری ہوں اور تمہاری رہوں گی اس بات میں کوئی شک نہ کرنا۔ ابھی ہمارے حالات اس بات کے لئے بالکل بھی ساز گار نہیں۔ اگر تم نے صبر سے انتظار نہ کیا تو ہم ایک دوسرے کو پانہ سکیں گے اور ہمیشہ کی جدائی کا عفریت ہماری چاہت کو نگل لے گا۔
عمران کو تہمینہ کی باتیں سمجھ میں نہ آئیں۔ لیکن وہ امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہ چاہتا تھا اسی وجہ سے محبت تمام نہ کر سکا اور چار روز ساتھ رہ کر یہ ایک بار پھر ایک برس کے لئے جدا ہو گئے۔ دوبارہ اسی جگہ ملنے کا وعدہ کر کے۔ اب کی گھر کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ میری منگنی ہو چکی تھی ، ماموں زاد بھائی کے ساتھ میری شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ عمران بھائی کو اور اچھی نوکری مل گئی تھی لیکن وہ اوور ٹائم بھی کرتے تھے تا کہ اخراجات میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ وہ دن آ گیا جب امی اور بھائی نے مجھے اپنے گھر سے وداع کیا اور میں پیا کے آنگن کا سنگھار بن گئی۔ ماں کو میرے بعد بھیا کی دلہن لانے کی فکر ہو گئی۔ وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔ چاہتی تھیں کہ اپنی بھانجی سدرہ کو بہو بنا کر گھر لے آئیں۔ جس کے بارے میں برسوں پہلے سے ان کے ذہن نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ یہی لڑکی میری بہو بنے گی۔ جب بھی امی اس بات کا تذکرہ کرتی تھیں عمران بھائی خاموش رہتے تھے، ہاں، نہ میں جواب نہ دیتے اور کبھی کہہ دیتے ماں، وقت آنے دو، تبھی بات منہ سے نکالنا۔ تہمینہ ملی تو عمران کے ذہن سے سدرہ بالکل ہی نکل گئی اور جیون ساتھی کی واضح شبیہہ بن گئی۔ وہ دن رات تہمینہ کو جیون ساتھی بنانے کے خواب دیکھنے لگا۔ اس کے دل کے راز سے صرف میں ہی واقف تھی اور وہ مجھے اپنا رازداں بنا چکا تھا امی ابھی تک اس کے ارادوں سے واقف نہ تھیں۔ ایک روز ماں نے بیٹے سے کہا، عمران اب میں گھر کی ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتی۔ بیمار رہتی ہوں، گھر سنبھالنے والی لے آئو تا کہ سکون سے زندگی کے یہ دو چار دن جو باقی رہ گئے ہیں بسر کر سکوں۔ ماں میں بھی یہی سوچتا رہتا ہوں۔ بس تھوڑا سا اور انتظار کر لو۔ کچھ رقم اور جوڑ لوں تو تمہاری خواہش جلد پوری ہو جائے گی۔ تو کیا میں تیری خالہ سے سدرہ کے لئے بات کر لوں۔ ماں نے خوشی بھرے لہجے سے پوچھا۔ نہیں ماں، ابھی سدرہ کے لئے خالہ سے مت کہنا۔ کیا خبر اس کی بجائے کوئی اور میری نظر میں ہو۔ کون ہے وہ بتا دے۔ ہیں وہاں جا کر بات کر لیتی ہوں۔ کہاناں، کچھ دن ٹھہرو۔ بتادوں گا۔ ماں کو آس اور کے بھنور ہیں چھوڑ کر وہ دربار کے میلے پر جانے والے دنوں کا انتظار کرنے لگا۔ دن تھے کہ گزرتے نہ تھے ایک ایک لمحہ ہر دن کا انگلیوں پر شمار کرتا رہا یہاں تک کہ وہاں جانے کا دن آگیا۔ جس روز روانہ ہونا تھا اس روز عمران میرے پاس آیا۔ کہنے لگا۔ بہنا، چلنا ہے، حضرت بابا فرید صاحب کے دربار پر، پاک پتن جا رہا ہوں۔ میں نے کہا، بھائی میں نہیں جاسکتی۔ تم چلے جائو اور میری طرف سے حاضری دے دینا اور دعا کرنا، کہنے لگا۔
اچھا … تم بھی دعا کرتی رہنا۔ خدا کرے کہ اس بار تہمینہ ملے اور پھر ہمیشہ کے لئے ہم مل جائیں، وہ یہ کہہ کر چلا گیا۔ شام کو بس میں سوار ہوا اور اسی رات گیارہ بجے پاک پتن پہنچ گیا۔ وہ بڑی بے چینی سے اسے تلاش کرنے لگا، آخر کار اس کی امی نظر آئیں مگر وہ ساتھ نہ تھی۔ تب ہی اس نے تہمینہ کے بارے میں پوچھا، وہ ذرا سامنے گئی ہے پانی لینے۔ عمران بھائی نے دو چار باتیں خالہ سے کیں اور جلدی جلدی اس طرف گیا جہاں پانی لینے کے لئے انتظام تھا۔ وہ وہاں نظر نہ آئی۔ چاروں طرف نظریں دوڑائیں، تبھی سامنے نیم کے درخت کے نیچے اسے ایک مرد اور لڑکی بیٹھے دکھائی دیئے۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا یہ تہمینہ ہی تھی لیکن ساتھ کوئی اجنبی نوجوان تھا۔ شاید کوئی رشتہ دار ہے ، وہ سوچنے لگا۔ اور احتیاط سے تھوڑے فاصلے پر اس طرف جا بیٹھا جدھر تہمینہ کا منہ تھا۔ اس نے عمران کو دیکھا اور جلدی سے رخ دوسری طرف پھیر لیا۔ بھائی سمجھا شاید کہ اندھیرے میں وہ اسے پہچان نہ سکی تھی۔ وہ واپس اس کی والدہ کے پاس آیا، بخار سا محسوس ہوا۔ تہمینہ کی ماں نے چائے اور سر درد کی گولی دی۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا لیکن تہمینہ نہ آئی اور میرا بھائی اس کے انتظار میں خالہ کے پاس ہی بیٹھا رہا۔ بالآخر وہ آ گئی لیکن عمران کو نظر انداز کر دیا۔ اس سے منہ پھیر لیا اور دوسری جانب ہو کر بیٹھ رہی۔ جیسے پہچانتی نہ ہو۔ البتہ اس کا چھوٹا بھائی راجہ جواب پندرہ سال کا ہو چکا تھا وہ عمران کے قریب آکر بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔ ذرادیر کو خالہ باہر گئی تو عمران نے از خود تہمینہ کو مخاطب کیا کیسی ہو ؟ اس نے جواب نہ دیا۔ وہ کون تھا جس کے ساتھ تم بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ بالآخر عمران نے پوچھ ہی لیا۔ تم کو کیا، میں جس کے ساتھ مرضی بات کروں۔ اس نے بے اعتنائی سے کہا اور اٹھ کر وہ بھی باہر چلی گئی۔ اس کے انداز بیگانگی سے عمران کا دل ٹوٹ گیا، زمین گھومنے لگی اور آسمان ٹوٹتا محسوس ہوا۔ دماغ کی رگیں جیسے پھٹنے لگی ہوں۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا یہ وہی لڑکی ہے جس کا اس نے ہر پل ہر گھڑی انتظار کیا تھا جس نے اسی مقام پر دو مرتبہ زندگی بھر ساتھ نباہنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج اس نے انجان بن کر پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ کتنی لا تعلق ہو گئی تھی۔ عمران اسی وقت مزار پر گیا، رورو کر دل کی بھڑاس نکالی اور روتا ہوا واپس آ گیا ۔ گھر لوٹنے سے پہلے اسے راجہ سرائے کے باہر ملا تھا۔ اس سے پوچھا کہ کیا تمہاری باجی کی شادی ہو گئی ہے۔ اس نے جواب دیا نہیں، ابھی منگنی ہوتی ہے ، اسی نوجوان کے ساتھ آئے ہیں، وہ بھی یہاں مجھکو دربار پر ملا تھا۔ پچھلے سال آپ کے جانے کے بعد جب ہم گھر لوٹ رہے تھے وہ اچانک بس اڈے پر ملا تھا۔ اس نے ہم کو ٹکٹ لے کر دیا اور بس پر روانہ کیا اور اب ہم اس کے ہمراہ آئے ہیں۔
گویا تہمینہ نے اپنی زندگی کا ہم سفر ڈھونڈ لیا۔ اسی سفر کے دوران شاید وہ شخص اسے میرے بھائی سے بہتر لگا تو قرعہ فال اس کے نام نکل گیا۔ پہلے جو لڑ کی میرے بھائی سے وعدہ ایفا کر رہی تھی ، بے وفائی کر کے اب نئے ہم سفر کے ساتھ زندگی کا بندھن باندھ رہی تھی کیونکہ وہ مالی لحاظ سے عمران سے زیادہ مستحکم تھا۔ کتنی سمجھدار نکلی تہمینہ اور اس کی ماں جو خاموش تماشائی بنی اس سارے کھیل میں ایسے شامل رہی جیسے اسے کسی بات کی خبر ہی نہ تھی۔ سچ ہے کہ اجنبی لوگوں پر بھروسہ عبث ہے۔ بھائی کی شادی سدرہ سے ہو گئی ہے لیکن اب وہ پاک پتن میلے پر نہیں جاتا۔ اب اسے مزاروں پر جانا کٹھن لگتا ہے ، جہاں لوگ مرادیں مانگنے جاتے ہیں وہاں تہمینہ جیسی عورتیں بھی جاتی ہیں جن پر بھروسہ کر کے کسی کا دامن دل تار تار ہو جاتا ہے۔