لوگ کہتے ہیں جس شادی شدہ عورت کی کوکھ سے اولاد نہ ہو، اس کی زندگی ادھوری ہوتی ہے مگر میں کہتی ہوں، ایسا نہیں ہے۔ بِن ماں کے بچے بھی بانجھ عورت کی ادھوری زندگی کو مکمل کردیا کرتے ہیں۔
عدنان بہت خوبصورت اور تعلیم یافتہ تھے۔ یہ رشتہ مناسب تھا۔ والدین نے قبول کرلیا اور میری ان کے ساتھ شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد میں ان کے ہمراہ ہنسی خوشی رہنے لگی۔ عدنان مجھے دل و جان سے چاہتے تھے۔ ساس، نند تھیں نہیں۔ ہماری توجہ بس ایک دوسرے کے لیے تھی۔ دن پَر لگا کر اڑنے لگے۔ میری سہیلیاں جب عدنان کو دیکھتیں۔ کہتیں۔ میاں پر نظر رکھا کرو، ان کی پرکشش شخصیت پر کوئی اور نہ مر مٹے۔ یوں بھی مرد کا بھی اعتبار نہیں۔ تب میں غرور سے کہتی۔ مجھ جیسی انہیں اور کوئی نہ ملے گی۔
یہ غرور اللہ کو پسند نہ آیا۔ میں بھول گئی کہ عورت کی خوبصورتی اولاد سے ہوتی ہے جس عورت کی گود سونی ہو، وہ داغ لگے چاند جیسی ہوتی ہے۔ شادی کو دس برس بیت گئے، اولاد کی نعمت سے گود خالی رہی۔ شروع میں ہم دونوں کو امید تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت سے ضرور نوازے گا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مایوس ہوتے گئے۔ میں اداس اور وہ چپ چپ رہنے لگے۔
شادی کے دس برس بعد ایک روز کہنے لگے۔ چھوٹے شہر میں دل نہیں لگتا۔ بڑے شہر کی رونقیں بڑی ہوتی ہیں۔ یہاں رشتے دار بھی بے اولاد ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ زندگی میں بوریت سماتی جارہی ہے۔ جی چاہتا ہے یہاں سے نقل مکانی کرلیں اور کسی بڑے شہر میں جارہیں۔
ایک دن دفترسے لوٹے تو کہا۔ میں اپنا کاروبار کراچی شفٹ کررہا ہوں۔ ایک دوست کے توسط سے وہاں آفس مل گیا ہے۔ چلو اس روشنیوں کے شہر میں چل کر نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ میرا جی نہ چاہتا تھا کہ اپنے شہر اور میکے والوں سے دور جائوں مگر شوہر کی خواہش کے آگے بے بس ہوگئی۔ انہوں نے سمجھایا کہ ماحول بدلے گا تو ہماری زندگی میں نئے رنگ بھر جائیں گے۔ شروع میں ہم ایک پرسکون علاقے میں سکونت پذیر ہوگئے۔ ایک چھوٹا سا بنگلہ، کام کرنے والی ملازمہ اور ملازم لڑکا بھی باآسانی مل گئے کیونکہ قریب ہی کچی آبادی میں غریب کنبے آباد تھے۔
ملازمہ ایک چوبیس پچیس سالہ خوش شکل عورت تھی جو بہت دلچسپ باتیں کرتی تھی۔ صبح سویرے آجاتی اور شام تک میرے پاس ہوتی۔ وہ کام بھی اچھا کرتی اور باتیں بھی چٹپٹی کرتی۔ اس ملازمہ کا نام نوشین تھا جسے میں نوشی کہتی تھی۔
ایک روز نوشی آئی تو کہا۔ بی بی! ایک بات کہنی ہے مگر ڈرتی ہوں اور بتائے بغیر رہ بھی نہیں سکتی۔ ڈرو نہیں، جو کہنا ہے کہہ دو۔ صاحب کو پتا چلا تو میری شامت نہ آجائے۔ نوشی کے اس جملے پر میرے کان کھڑے ہوگئے۔ ایسی کیا بات ہے بتا دو۔ صاحب کو کیونکر پتا چلے گا جب تک میں ان کو بتائوں گی نہیں، بتائو کیا بات ہے؟
کل شام جب میں کام کرنے کے بعد نکلی تو میرا شوہر آپ کے گھر کے باہر انتظار کررہا تھا۔ کہنے لگا۔ موٹر سائیکل پر بیٹھ جائو، آج تمہیں بازار لے جانا ہے۔ مجھے تنخواہ کے علاوہ بونس بھی ملاہے۔ تمہیں نئے کپڑے اور جوتے دلوا دوں۔ کافی دنوں سے میں اپنے شوہر بابر سے تقاضا کررہی تھی کہ مجھے دو جوڑے اور جوتے دلوا دو۔ اس نے جو بازار چلنے کو کہا تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ جلدی سے موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ ہم طارق روڈ گئے وہاں فٹ پاتھ پر کپڑوں کے ڈھیر سے اپنے لیے دو جوڑے منتخب کررہی تھی کہ ہمارے بالکل سامنے صاحب کی گاڑی آکر رکی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ان کے ساتھ ایک خوبصورت فیشن ایبل لڑکی کار سے اتری۔ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا اور وہ زیورات کی ایک بڑی دکان میں چلے گئے۔ صاحب نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ مجھ تجسس کی ماری کو چین نہ ملا۔ میں دکان کے شیشے سے ان کو دیکھنے لگی۔ صاحب نے سونے کی انگوٹھیاں نکلوائیں اور ایک انگوٹھی پسند کرکے اس لڑکی کی انگلی میں پہنانے لگے۔ اس خوف سے کہ کہیں وہ مجھے نہ دیکھ لیں، فوراً پلٹ آئی۔ شوہر کو بتایا تب بابر نے کہا کہ اپنی بیگم صاحبہ کو یہ بات ہرگز مت بتانا ورنہ ان کا صاحب سے بہت جھگڑا ہوگا۔
کیا بیگم یونہی اندھیرے میں لٹتی رہیں گی۔ میں ان کو ضرور بتائوں گی تب بابر نے مجھے سمجھایا۔ کم عقل ایسی باتوں سے میاں، بیوی میں پیار ختم ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ گھر بھی اجڑ جاتے ہیں۔ خدانخواستہ تمہاری بیگم صاحبہ کا گھر اجڑ گیا تو کیا ہوگا۔ تم ذمہ دار ہوگی نا… پہلے میں نے فیصلہ کیا آپ کو اس بارے میں کچھ نہ بتائوں۔ بابر صحیح کہتا ہے اگر آپ کے شوہر کی جگہ بابر مجھ سے ایسا دھوکا کرتا اور مجھے علم ہوجاتا تو کیا میں اسے بخش دیتی؟ رات بھر پریشان رہی، صبح فیصلہ کیا آپ کو ضرور بتائوں گی تاکہ وقت گزرنے سے پہلے آپ اپنی زندگی کی خوشیوں کو بچانے کی تدبیر کرلیں۔ ایسا نہ ہو پانی سر سے اونچا ہوجائے۔
جہاں میں نوشی کی مشکور تھی، وہاں سخت صدمے میں بھی تھی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ عدنان مجھے دھوکا دے سکتے ہیں۔ گمان ہوا کہ ضرور نوشی کی آنکھیں دھوکا کھا گئی ہیں۔ شاید عدنان جیسا کوئی دوسرا شخص ہوگا۔
رات کو عدنان گھر لوٹے تو میں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ گھبرا گئے۔ ان سے جھوٹ بھی نہیں بولا جارہا تھا، ہکلانے لگے۔ جب میں نے وثوق سے کہا۔ اگر سچ نہ بتایا تو قسم کھاتی ہوں کہ جان دے دوں گی۔ تب انہوں نے بتا دیا کہ ایک لڑکی میرے آفس میں کام کرتی تھی، وہ مجھے پسند آگئی۔ میں نے اس سے شادی کرلی ہے۔ وہ ایک غریب گھرانے کی ضرور مند لڑکی تھی۔ چاہتا تھا کہ تمہیں پتا نہ چلے، میں تمہیں صدمہ نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ اب پتا چل گیا ہے تو تمہاری اجازت سے اسے گھر لانا چاہتا ہوں۔
مجھ پر تو جیسے بجلی گر گئی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ مجھ سے عدنان بے وفائی کے مرتکب ہوں گے۔ بے اختیار زور زور سے رونا شروع کردیا۔ وہ مجھے روتا چھوڑ کر گھر سے چلے گئے۔ میں رات بھر اکیلی روتی رہی۔ میرے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔
اگلے دو دن تک وہ گھر نہ لوٹے تب میرا دم گھٹنے لگا۔ نوشی دلاسا دے رہی تھی مگر مجھے کچھ بھی اچھا نہ لگ رہا تھا۔ عدنان کے بغیر ایک دن نہیں کاٹ سکتی تھی کجا اب دو دن دو راتیں گزر چکی تھیں۔ میری حالت غیر ہوتے دیکھ کر نوشین بولی۔ بی بی! آپ صاحب کو فون کرکے بلا لیجئے۔ مرد اور شادیاں کرتے ہی ہیں۔ خود پر قابو رکھئے۔ زیادہ غصہ کریں گی تو ان کو کھو بیٹھیں گی۔
میں خود انہیں بلانے کا بہانہ ڈھونڈ رہی تھی۔ لگتا تھا نہیں آئے تو مر جائوں گی۔ فون ملایا۔ میں نے ہیلو کہا اور ہیلو کہتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ انہوں نے کہا۔ اگر حوصلے سے میری بات سنو تو ابھی آجاتا ہوں۔ بولو۔ کیا سن لو گی۔
سن لوں گی مگر فوراً آجایئے۔ بے اختیار میرے لبوں سے یہ الفاظ ادا ہوگئے۔ ایک گھنٹے میں وہ آگئے۔ گاڑی کا ہارن سن کر مجھے لگا جیسے میرے بدن سے نکلی روح دوبارہ اپنے ٹھکانے لوٹ آئی ہو۔ نوشی نے گیٹ کھولا۔ اسے گھر جانے میں دیر ہوچکی تھی، گیٹ کھولتے ہی وہ اپنے گھر روانہ ہوگئی۔ عدنان اندر آگئے۔ گلے سے لگا کر میرے بالوں کو سنوارتے ہوئے بولے۔ تم میری زندگی ہو۔ ماریہ سے شادی میں نے صرف اولاد کے لیے کی ہے۔ دوسری شادی کا فیصلہ میں نے خوشی سے نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شہر میں کاروبار میں اتنی برکت دی ہے کہ پیسہ چھپر پھاڑ کر برسنے لگا۔ کوئی اس دولت کا وارث تو ہو جو ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے۔ پگلی! میں نے ماریہ سے شرط رکھی ہے کہ جو پہلی اولاد ہوگی، وہ میری پہلی بیوی سلمیٰ کی ہوگی۔ اس طرح تمہاری پیاسی ممتا کو تسکین مل جائے گی اور مجھے وارث مل جائے گا۔ یقین کرو، میرے اور تمہارے پیار میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ یہ اور بڑھ جائے گا۔ ماریہ کی حیثیت میرے نزدیک خاک اور تمہاری حیثیت اس کی مالکہ جیسی ہوگی۔
یہ ساری کہانی سن کر میں خاموش ہورہی۔ اب کہنے سننے کو کیا رہا تھا، عدنان شادی کرچکا تھا، میری مرضی سے اسے کیا فرق پڑتا تھا۔ مجھے یہ سوچ کر بڑی وحشت ہورہی تھی اگر عدنان گھر سے چلا گیا تو میں یہاں تنہا کیونکر سانس لے پائوں گی۔ ان تنہا راتوں کے اندھیرے تو مجھے نگل جائیں گے۔
بالآخر میرا شریک زندگی ماریہ کو گھر لے آیا۔ دل پر جو گزری، سو گزری۔ سمجھوتہ کرنے میں ہی عافیت جانی۔ میں بوڑھے ماں، باپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی۔ ماریہ کو اوپر کا کمرہ دے دیا گیا مگر عدنان نے مجھے نظرانداز نہ کیا۔ مجھے پہلے سے زیادہ محبت دی۔ میں بچے کی پیدائش کا انتظار کررہی تھی کہ کب میرے شوہر کی اولاد میری گود میں آئے جس شوہر سے میں اب بھی والہانہ محبت کرتی تھی۔
وہ دن بھی آگیا جب ماریہ اسپتال چلی گئی۔ اس دوران عدنان نے مجھے بچے کے بارے میں اتنے خواب دکھائے کہ لگا میری اپنی گود آباد ہونے والی ہے۔ جتنے دن ماریہ اسپتال رہی، عدنان گھر آنا بھول گئے۔ سات دن تک میں بنگلے میں تنہا ان کا انتظار کرتی رہی۔ ایک ہفتے بعد وہ آگئے۔ میں بے اختیار گیٹ کی طرف لپکی مگر… مجھے دیکھ کر ماریہ نے منہ پھیر لیا۔ وہی ماریہ جو مجھے آپا… آپا کہتے نہ تھکتی تھی۔ یہ دونوں کمرے میں چلے گئے۔ مجھے عدنان کی آواز سنائی دی۔ ماریہ! بچے کو مجھے دو تاکہ میں اس کی بڑی امی کی گود میں دے دوں، وہ منتظر ہے ہفتے بھر سے… مگر میری سوتن نے یہ کہہ کر جیسے تیز خنجر میرے دل میں اتار دیا۔ میں اپنے بچے پر اس گود جلی کا سایہ بھی نہ پڑنے دوں گی۔
میں سن ہوکر رہ گئی۔ عدنان بے بس ہوگئے۔ میرے پاس آئے اور دھیمی آواز میں بولے۔ دراصل بچے کے دودھ پینے کا وقت ہورہا ہے، وہ دودھ پلا لے تو میں منے کو تمہارے پاس لاتا ہوں۔ منے کی پیدائش سے پہلے تک عدنان نے مساوات قائم رکھی تھی مگر جب سے بیٹا ہوا، وہ میرے پاس بے دلی سے آدھی رات کے بعد کمرے میں آتے۔ کہتے منا سو نہیں رہا تھا، میں اسے بہلا رہا تھا۔ کچھ دنوں بعد ماریہ ماں کے گھر چلی گئی۔ میں خوش تھی کہ اب عدنان اس کی غیر موجودگی میں وقت میرے ساتھ گزاریں گے مگر میری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ وہ دفتر سے سیدھے ادھر چلے جاتے۔ کہتے منے کی یاد ستا رہی تھی، سوچا ایک نظر دیکھ لوں تو گھر جائوں۔ یوں آدھی رات کو گھر پہنچتے۔
ماریہ واپس آگئی۔ اب یہ اکثر شام کو باہر جاتے۔ مجھے عدنان کہتے۔ آج منے کو ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔ آج اس کے کپڑے خریدنے ہیں۔ آج اسے اس کی نانی سے ملانے لے جانا ہے۔ میں انتظار کرتی رہ جاتی اور یہ ماریہ کی ماں کے گھر سے رات کا کھانا کھا کر ہی لوٹتے۔
رفتہ رفتہ انہوں نے میرے ساتھ جھوٹی محبت دکھانا بھی چھوڑ دی۔ اگر کبھی مجھے باہر لے جاتے تو بار بار گھڑی دیکھتے۔ کہتے جو خریداری کرنی ہے، جلد کرلو، گھر میں ماریہ اور منا اکیلے ہیں، کہیں ان کو ہماری ضرورت نہ پڑ جائے۔ بچہ چھوٹا ہے، اکیلے ماریہ خیال نہیں رکھ سکتی۔ منا پائوں پائوں چلنے لگا۔ میں اسے دیکھتی تو جی کرتا اٹھا لوں۔ اس کے ننھے منے وجود سے اپنی گود بھر لوں۔ کبھی بھولے سے اٹھا لیتی تو سوتن اس کو ذرا دیر بعد میرے بازوئوں سے اچک لیتی۔ مسلسل تنہائی نے مجھے ذہنی مریض بنا دیا۔ پہلے تو کسی نے میری ذہنی ابتری پر توجہ نہ دی جیسے کہ اس مکمل فیملی میں، میں ایک فالتو شے تھی مگر جب مجھ پر دورے پڑنے لگے تو مجھے میکے بھجوا دیا۔
والدین میرا حال دیکھ کر رو پڑے۔ مجھے ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس نے میرا حال سنا۔ اب وہ اکثر گھر آتا اور مجھ سے دیر تک باتیں کرتا۔ یوں دل ہلکا ہوجاتا۔ رفتہ رفتہ میری حالت میں بہتری آنے لگی۔ تب اس ڈاکٹر نے کہا کہ آپ عدنان کو بھلانے کی کوشش کریں۔ وہ طلاق دے تو لے لیں، دوسری شادی کرلیں اور نئی زندگی شروع کردیں۔ یہی آپ کے دکھوں کا علاج ہے۔
میں نے کہا۔ عدنان سے طلاق نہیں لوں گی۔ وہ خود دے دیں تو بھی مجھ بانجھ سے کون شادی کرے گا۔ عدنان سے جو درد ملا ہے، اب دوسری شادی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔
کچھ دنوں بعد ایک لفافہ پوسٹ مین نے لا کر دیا۔ عدنان کی طرف سے طلاق نامہ تھا اور وجہ مجھے ’’ذہنی مریض‘‘ بتایا گیا تھا۔ والد صاحب نے یہ کاغذات ڈاکٹر صاحب کو جاکر دکھائے۔ مشورہ لیا کہ مجھے کس طرح آگاہ کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے دھیرے دھیرے حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ کیا۔ سمجھایا کہ ایک شخص پر زندگی ختم نہیں ہوجاتی۔ ان کی نظر میں ایک اچھا شخص ہے جو ان کا دوست ہے۔ اس کی بیوی کا کچھ عرصے قبل انتقال ہوا تھا۔ تین چھوٹے چھوٹے بچے ممتا سے محروم ہیں۔ ان کو ماں کی اشد ضرورت ہے اور بچوں کے باپ کو ایسی خاتون کی تلاش ہے جو ان بچوں کو ماں کا پیار دے سکے۔ باپ کی طرف سے ان بچوں کو پیسے کی کمی نہیں مگر ماں کا پیار دولت کے بدلے خریدا نہیں جاسکتا۔ یہ وہی ان کو دے سکے گی جس کے اندر خود اولاد اور ممتا کی پیاس ہو۔
ایک دن انہوں نے مجھے ان بچوں سے بھی ملوایا۔ وہ بہت پیارے پیارے اور معصوم تھے مگر افسردہ سے لگے۔ میں نے پیار کیا تو میرے پاس دوڑے چلے آئے۔ میں نے انہیں بے اختیار اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ پھر یہ بچے اکثر میرے پاس لائے جانے لگے۔ مجھے ان سے پیار محسوس ہونے لگا مگر دل دوسری شادی پر آمادہ نہ ہوتا تھا۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ عدنان کے بدلے کوئی دوسرا شخص اس کی جگہ لے۔
والدین بار بار سمجھاتے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سارے زخم بھر جاتے ہیں۔ ماضی کے ساتھ چمٹے رہنا کم عقلوں کا شیوہ ہے۔ اپنی سوچ کو بدلنے کی کوشش کرو۔ ماں کہتی۔ مرد کو عورت سے محبت نہیں ہوتی، اسے گھربار سنبھالنے والی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ عورت مرد سے محبت کرتی ہے تو اس کے لیے لٹ جاتی ہے۔ مجھے اماں کی یہ باتیں گراں گزرتیں مگر رات، دن سوچتی تھی کہ آخر عدنان نے مجھے طلاق کیوں دی۔ شادی تو اس نے کر ہی لی تھی، مجھے اپنے نام سے تو محروم نہ کرتا۔
دماغ کہتا اب اسے بھول جا مگر میرے لیے یہ بہت مشکل تھا۔ اسے کیسے بھول سکتی تھی۔ جس کے لیے میں نے پہلا سنگھار کیا تھا۔ اس نے پہلی بار میرا گھونگھٹ اٹھایا تھا۔ والدین دیکھ دیکھ کر کڑھتے تھے اور میں اسی کے خیالوں میں گم رہتی تھی جو میری روح میں سمایا ہوا تھا۔ اپنی بے وفائی کے باوجود ابھی تک میرے دل پر اسی کا راج تھا۔ بالآخر انہی بچوں نے مجھے ان سوچوں سے نکالا۔ انہیں ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر مجھ سے ملانے لاتے تھے۔ میں ان کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔ وہ نہ آتے تو اداس ہوجاتی۔
ڈاکٹر نے اپنے پیشے کا حق ادا کردیا اور میں پھر سے نئی زندگی کی طرف لوٹ آئی۔ ایسی زندگی جو بے مقصد نہ تھی جس کا کوئی مقصد تھا۔ وہ یہ سب میرے والد کی التجا پر کررہے تھے۔ جو بوڑھے ہوچکے تھے اور میرے مستقبل کی طرف سے فکرمند تھے مگر میں خود سے غافل، عرصے تک گیلی لکڑی کی مانند عدنان کی یاد میں سلگتی رہی تھی۔
عورت بانجھ ہو تو مرد کو اختیار ہے وہ دوسری شادی کرلے یا اسے طلاق کے کاغذات تھما دے۔ اس کی زندگی برباد کردے لیکن… مرد اگر بانجھ ہو تو عورت کیا کرے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
والد صاحب نے بالآخر ایک فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے عامر کو میرے لیے پسند کرلیا اور مجھے اپنے آنسوئوں سے رام کیا کہ میں سر جھکانے پر مجبور ہوگئی۔ وہ دل کے مریض تھے، میں ان کو دھچکا پہنچانا نہ چاہتی تھی۔ وہ گراں بار گھڑی بھی آگئی جب میں عدنان کی یادوں سے دل کا دامن بھرے عامر کی منکوحہ بن گئی۔ اس کے تین بچوں کی ماں کا روپ دھار لیا۔
ان بچوں کی معصوم باتوں نے رفتہ رفتہ میری سوچوں میں شہد گھولنا شروع کردیا۔ سوچوں کی کیفیت بدلنے لگی، حالات بدلنے لگے۔ عامر بہت اچھے انسان تھے۔ جب میں نے ان کے بِن ماں کے بچوں کو سینے سے لگا لیا تو وہ میرے قدموں میں بیٹھ گئے۔ اتنے شکرگزار ہوئے کہ میں رو دی۔ میری پیاسی ممتا کو معصوم محبتوں نے سیراب کردیا تھا۔ وہ مجھے ماں سمجھ بیٹھے اور مجھے بھی زندگی کے کسی موڑ پر یہ محسوس نہیں ہوا کہ یہ میرے بچے نہیں ہیں۔
آج میں جہاں جاتی ہوں، میرے یہ بچے میرے ساتھ جاتے ہیں۔ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی اور نہ یہ میرے بغیر رہ سکتے ہیں۔ میں ان کے بغیر ادھوری ہوں اور یہ میرے بغیر نامکمل ہیں۔ بے وفا عدنان کو بھول کر میں بہت خوش ہوں۔ وہ خوشی جس کے لیے میں ترس رہی تھی۔ عامر کے بچوں نے وہ خوشی میرے دامن میں بھر دی ہے۔ اب میں بانجھ رہی ہوں اور نہ عامر کے بچے بِن ماں کے کہلاتے ہیں کیونکہ ہر عورت کے اندر ایک ماں پوشیدہ ہوتی ہے جس کو بس دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ (ش… پشاور)