Thursday, October 10, 2024

Tasveer Ka Khumar

وہ ایک معصوم سی لڑکی تھی۔ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی کہ جہاں لڑکیوں کی پیدائش پر پابندی تھی جبکہ لڑکوں کو اہمیت دی جاتی اور بیٹیوں کو پائوں کی جوتی سمجها جاتا تھا گھر والوں کے ایسے امتیازی سلوک کے باعث وہ احساس کمتری کا شکار اور کمزور ذہن ہوگئی تھی۔ سارے بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے مگر وہ ایک کونے میں بیٹھی رہتی۔ چونکہ گھر والے ثمینہ کو ٹھیک طرح سمجھ نہیں پاتے تھے لہذا اس کو ڈانٹ دھتکار ملتی جبکہ وہ بھی ان کی بات سمجھنے کے بجائے رونا شروع کر دیتی تھی۔ اس کی ایسی حالت تھی کہ اپنے ہم عمر بچوں سے بھی خوف زده ہو جاتی۔ وہ ان کے ساتھ گھر سے باہر جا کر بھی کھیل نہیں سکتی تھی۔ اس نے ہوش سنبھالا تو قلم اور کاغذ سے ناتا جوڑ لیا۔ وہ اب ہر وقت کاغذ پر لکیریں کھینچتی اور پھر ان لکیروں میں خود بخود جان پڑنے لگی۔ یہ بے معنی آڑی ترچھی لکیریں یوں جاندار ہوگئیں کہ اس نے باقاعدہ تصویریں بنانی شروع کردیں۔ ہاتھ میں کمال کی صفائی تھی۔ یہ ایک خداداد صلاحیت تھی کہ اس ہنرمندی کو آرٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ گویا وہ پیدائشی آرٹسٹ تھی۔ اس کی صرف ایک ہی دوست تھی جس کا نام ماریہ تھا اور وہ اس کے پڑوس میں رہتی تھی ہر وقت گھر میں بیٹھ کر فلم دیکھتی تھی اور الٹے سیدھے کام کرتی تھی چونکہ ماریہ کی فیملی پڑھی لکھی اور زنده دل تھی لہٰذا اس کو کھلا ہوا ماحول میسر تھا اور کوئی روک ٹوک بھی نہیں تھی۔ ثمینہ جس قدر بزدل تھی ماریہ اتنی ہی دلیر تھی۔ ثمینہ رشک کرتی تھی کہ ماریہ کتنی اچھی زندگی گزارتی ہے۔ ان دنوں میں ثمینہ اور ماریہ ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں۔ ہم اکثر اسکول کا کام بھی اکٹھے بیٹھ کر کرتے تھے، جلد ہی میں نے محسوس کر لیا کہ ثمینہ کو رہنمائی اور اعتماد کی ضرورت ہے کیونکہ ماریہ جیسی تھی ویسی ہی نظر آتی تھی مگر ثمینہ اوپر سے کچھ اور تھی۔ اندر سے کچھ اور تھی۔ اس کے اندر باغیانہ پن جنم لے چکا تھا۔

مثلاً اب ایسا کام بڑے شوق سے کرتی جس سے دوسرے اسے روکتے۔ بظاہر خاموش تھی لیکن دل میں طوفان چھپائے پھرتی تھی اور جب اس کو غصہ آتا وه قلم کاغذ اٹھا لیتی اور بے شمار بے معنی لکیریں کھینچنے لگتی، مکمل تصویریں وه اسی وقت بناتی تھی جب مکمل طور پر شانت ہوتی تھی۔ جلد ہی میں نے نوٹ کر لیا کہ ثمینہ کو سیر کا بہت شوق ہے۔ تبھی ایک روز اس کی ماں سے بات کر کے اجازت لے لی کہ ہم ساتھ والے باغ میں سیر کے لئے جایا کریں گے۔ بڑی مشکلوں سے انہوں نے اجازت دی، اس شرط پر کہ گھر کی ملازمہ کو بھی ساتھ لے جایا کرو۔ میں نے کہا کہ منظور ہے، بھلا اسے ساتھ لے جانے میں کیا قباحت ہے۔ یوں ہم روز باغ کی سیر کو جانے لگے۔ جس سے ثمینہ کے مزاج پر بہت اچھا اثر پڑا۔ اس تھوڑی سی آزادی کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ثمینہ کے مزاج میں خوشگوار تبدیلی آئی۔ وہ ہنس مکھ اور خوش مزاج ہو گئی۔ باتیں کرنے لگی اور اسکول میں کلاس فیلو لڑکیوں سے دوستانہ انداز میں ملنے لگی۔ گویا اپنے اندر کے خول سے نکلنے کی سعی کر رہی تھی اور میں سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ میری بدولت ممکن ہوا ہے، اگر میں اس کو سمجھ کر ساتھ نہ دیتی تو وہ اپنے اندر ہی گھٹ گھٹ کر مر جاتی- جب میں اس کی بنائی ہوئی تصویریں دیکھتی تو عش عش کر اٹھتی۔ جی چاہتا کہ یہ کسی آرٹ اسکول میں باقاعدہ داخلہ لے لے تاکہ اس کے اندر کا فنکار جلا پا سکے اور اس کا فن لازوال ہو جائے لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ اس کا گھرانہ اس قدر آزاد خیال نہ تھا کہ اس کے اندر کی صلاحیت کا وہ اعتراف کرتے یا ثمینہ کے فن کو تسلیم کرتے، وہ تو اس کی مخالفت پر ہمہ وقت کمر بستہ رہتے تھے۔ ماں اور باپ، بھائی سبھی کہا کرتے تھے جانے کیوں نکمی لڑکی ہمارے گھر پیدا ہوگئی ہے۔ کام کی نہ کاج کی۔ اسکول میں اس کا کوئی مقام نہیں، کبھی پوزیشن نہیں لے سکتی، اتنے کم نمبر لاتی ہے۔ بس مر مر کر پاس ہو جاتی ہے، ساتھ ہی اس کو یہ دھمکی بھی ملتی تھی کہ جس سال تم پاس نہ ہوئیں ہم تم کو اسکول سے اٹھا لیں گے۔

نویں کا رزلٹ آیا تو ثمینہ کے بہت کم نمبر تھے، مشکل سے پاس ہوئی تھی۔ تبھی اس کی امی نے کہا کہ تم سارا دن کیا کرتی رہتی ہو۔ گھر کے کام میں بھی دلچسپی نہیں لیتیں، سارا دن فضول کام کرتی رہتی ہو۔ تصویریں بنانا کون سی اچھی بات ہے۔ ایسے فضول کام سے تو بہتر ہے کہ کچھ دیر دل لگا کر پڑھ لیا کر۔ آگے میٹرک کا امتحان دینا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ تم کم از کم بی اے تو کر لو لیکن لگتا یہی ہے کہ میٹرک بھی بمشکل پاس کر پائو گی۔ ماں کی ایسی باتیں اسے حد درجہ غمزدہ کر دیا کرتی تھیں۔ گرچہ وہ بظاہر صحیح بات کرتی تھیں تاہم یہ رویوں کا فرق ہوتا ہے۔ آپ کا رویہ درست ہو تو سخت بات بھی بری نہیں لگتی۔ اگر لہجہ کڑوا ہو تو اچھی بات بھی تیر بن کر دل کو گھائل کر دیا کرتی ہے۔ جب تک انسان کو خود اپنے زیاں کا احساس نہ ہو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ یہی ثمینہ کے ساتھ ہوا، اس کی کزن ناز جو عمر میں دو سال اس سے بڑی تھی اسے بھی ہم لوگوں کے ساتھ داخلہ دلوا دیا گیا۔ یہ بڑی تیز طرار لڑکی تھی۔ آتے ہی ہلچل مچا دی اور اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے سب کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ ثمینہ خاموش طبع تھی۔ وہ شوخ لڑکیوں کو پسند نہ کرتی تھی، ان کے ساتھ ہے چینی محسوس کرتی لیکن یہاں تک بھی قابل برداشت تھا کہ انہی دنوں ایک لڑکا اس کی زندگی میں آیا۔ نہال نام تھا۔ یہ اس کے ماموں کا بیٹا تھا اور لندن سے پڑھ کر آیا تھا۔ وہ اور اس کے والدین ثمینہ کے گھر ملنے آئے تو ناز بھی انہی دنوں اپنی والدہ کے ہمراہ ان سے ملی اور اسے نہال اچھا لگا مگر نہال نے خاموش اور سنجیدہ قسم کی ثمینہ کو پسند کیا۔ پھر جب اس کی بنائی ہوئی تصاویر دیکھیں تو بہت متاثر ہوا۔ کہنے لگا اگر یہ لڑکی لندن میں ہوتی تو اس کے فن کے پرستار اس کو آسمان پر پہنچا دیتے۔ یہ تو کمال کی آرٹسٹ ہے۔ میں ضرور اس کو لندن لے جائوں گا۔ ممانی کو بھی وہ بھلی لگی اور اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگ لیا۔ ثمینہ کے والدین بہت خوش تھے کہ بیٹی کی قسمت کھل گئی ہے تاہم جب ماموں نے اس کا رزلٹ دیکھا تو رزلٹ کارڈ میں نمبر انتہائی کم تھے۔ وہ بولے کہ اگر باصلاحیت ہوتی تو اچھے نمبر لاتی۔ یہ کبھی زندگی میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے گی۔ یہ الفاظ تیر کی طرح ثمینہ کے دل پر لگے۔ اب احساس ہوا کہ اس نے محنت سے کام کیوں نہ لیا، اچھے نمبر کیوں نہ لئے۔ اگر محنت کرتی تو لاسکتی تهی لیکن پڑھائی میں کبھی خاطر خواہ دلچسپی لی ہی نہ تھی۔

ناز بہت ہونہار طالبہ تھی۔ عمر میں بھی دو برس آگے تھی، اس کا رزلٹ ہمیشہ شاندار رہتا تھا۔ وہ بھی نہال کی پھوپھی کی بیٹی تھی۔ پس انہوں نے نالائق جان کر ثمینہ کا رشتہ چھوڑ کر ناز کو منتخب کر لیا۔ وہ نہ صرف چرب زبان تھی بلکہ شوخ و شنگ اس قدر تھی کہ کوئی اسے نظر انداز کر ہی نہ سکتا تھا۔ یہ خوبی اسے راس آ گئی۔ جبکہ ثمینہ کی خاموش طبیعت چار دنوں میں ہی ٹوٹ پھوٹ گئی۔ اس کا خواب چھین لیا گیا۔ نہال کے والدین اپنے بیٹے کی منگی ناز سے کر کے چلے گئے۔ ثمینہ نے ناز سے بات کرنی چھوڑ دی تو ایک دن ناز نے کہا۔ مجھ سے کیوں روٹھی ہو، اپنے اندر جو کوتاہیاں ہیں ان کو دور کرو۔ اگر پڑھنا ہے تو دل لگا کر پڑھو ورنہ پڑھائی چھوڑ دو۔ کیوں ماں باپ کا پیسہ ضائع کر رہی ہو اور اپنی عمر کا بھی زیاں کر رہی ہو۔ یہ الفاظ بھی خنجر کی نوک بن کر اس کے دل پہ لگے۔ وہ بہت روئی تب میں نے سمجھایا۔ ثمینہ … سبھی لوگ غلط نہیں ہوتے ، تم اپنا رویہ تبدیل کرو اگر سب کہتے ہیں کہ پڑھائی پر توجہ دو۔ وہ غلط تو نہیں کہتے۔ میری باتوں کا اس نے گہرا اثر لیا۔ اصل میں اپنے رد ہونے کا اسے کافی دکھ ہوا تھا، تبھی سب کچھ بھلا کر اس نے سنجیدگی سے پڑھائی پر توجہ دینی شروع کر دی۔ دن رات پڑھتی اور خود کو کورس کی کتابوں میں گم کر دیا۔ کوئی اگر اس طرح محنت کرے وہ آخر کار کامیاب تو ہو ہی جاتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور وہ پوزیشن لینے لگی۔ یہ بہت حیران کرنے والی بات تھی۔ کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ جو لڑکی مر مر کر پاس ہوتی ہے وہ کیسے پوزیشن لے سکتی ہے؟ دنیا میں کیا نہیں ہوتا، اللہ نے ہر انسان کو صلاحیت دی ہے جو عزم کرلے اور محنت کرے تو پا سکتا ہے ۔ بہر حال وقت گزرتا گیا۔ ثمینہ نہال کو بھلا چکی تھی اور وہ کسی مقام پر پہنچنا چاہتی تھی۔ ہمارے بی اے کے پیپرز ہوچکے تھے اور اب رزلٹ کا شدت سے انتظار تھا۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے میں بور ہو رہی تھی، کتابوں سے بھی دل اچاٹ ہوگیا تھا۔ ہمارے ساتھ والے علاقے میں ایک پرائیویٹ اسکول تھا۔ وقت کاٹنے کو میں نے اس میں ٹیچنگ شروع کر دی اور ثمینہ سے بھی کہا تم بھی میرے ساتھ آ جایا کرو۔ دونوں کا وقت اچھا کئے گا اور رزلٹ آنے کے بعد کچھ اور کرنے کا سوچیں گے۔ ثمینہ نے اس بات کا ذکر گھر میں کیا، اس کے گھر والوں نے منع کر دیا مگر پھر بہت منت سماجت کے بعد وہ مان گئے۔ میں خوش ہوگئی کہ ہم دونوں سارا دن اسکول میں ٹیچرز کے ساتھ گزارتے۔ ثمینہ بھی خوش تھی تب میں کہتی تھی کہ دیکھا میں نہ سمجھاتی تھی کہ میرے ساتھ ہو جائو، وقت اچھا گزرجائے گا –

ایک دن جب ہم دونوں گھر سے نکلیں تو ایک لڑکے کو جاتے دیکھا۔ اسکول یونیفارم میں تھا اور اسی اسکول کا طالب علم تھا جہاں ہم پڑھا رہے تھے۔ اجلے سفید یونیفارم میں وہ اتنا حسین لگ رہا تھا جیسے رات میں چودہویں کا چاند چمکتا ہے۔ اس کا قد اپنی عمر سے زیادہ تھا۔ عمر یہی کوئی سولہ ستره برس کے درمیان ہو گی مگر اچھی صحت کی وجہ سے اٹھارہ انیس سال کا دکهائی دیتا تھا خوبصورت آنکھوں پر لمبی پلکیں اس کے چہرے کے حسن میں اضافہ کر رہی تھیں۔ اسکول پہنچے تو دیکھا کہ وہ میٹرک کی کلاس میں چلا گیا ہے تب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ دسویں کا طالب علم ہے۔ جب میں اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی تو میں نے نوٹ کیا کہ ثمینہ بھی اسے گہری نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ پوچھ لیا کہ کیا دیکھ رہی ہو ، کہنے لگی کہ اس لڑکے کو دیکھ رہی ہوں ماشاء الله كتنا خوبصورت ہے۔ واقعی قدرت کا مکمل شاہکار ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھوں سے اسے بنایا ہے۔ اس کی صورت نے میرے تخیل کو مہمیز دے دی ہے۔ بہت عرصے سے میں نے تصویر کشی ترک کر دی تھی۔ آج جی چاہتا ہے کہ تصویر بنائوں اور اس کو سامنے بٹھا کر اس کی صورت کو کاغذ پر اتار لوں۔ بعض صورتیں شاہکار ہوتی ہیں، ان کو دیکھ کر آرٹسٹ کا برش خود بخود چلنے لگتا ہے۔ بہر حال مجھے خوشی ہے کہ یہ ہمارے ہی اسکول کا بچہ ہے۔ یہ بات آئی گئی ہو جاتی مگر اگلے دن میں اس وقت چونک گئی جب دیکھا کہ ثمینہ اسکول کی ہیڈ مسٹریس کے پاس گئی اور اس نے ان سے درخواست کی کہ مجھے دسویں کلاس دے دیں۔ وہ پہلے نویں کو پڑھا رہی تھی، چونکہ پوزیشن ہولڈر تھی لہٰذا میڈم نے اسے بخوشی دسویں جماعت کے دو پیریڈ دے دیئے جن میں ایک اسلامیات، دوسرا آرٹ کا تھا۔ ثمینہ دسویں کو پڑھانے لگی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ لڑکا جس کا نام خاور ہے بہت ہونہار اور با ادب بچہ ہے۔ اب وہ روز اس کی تعریفیں کرتی تھی اور تعریف کرتے تھکتی نہ تھی تو ایک دن میں نے طنزیہ کہا۔ ثمینہ تم عجیب قسم کی ٹیچر ہو کہ اپنے طالب علم کے قصیدے گاتی ہو۔ کیوں نہ گائوں۔ مجھے اس کی تصویر جو بنائی ہے۔ کسی دن اس کو سامنے بٹھا کر اس کا پورٹریٹ بنائوں گی پھر تم میرے برش کا کمال دیکھنا, تو بنا ڈالو دیر کس بات کی ہے۔ دیر یوں ہے کہ ابھی اس کے سالانہ امتحان ہونے والے ہیں اور میں اس کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتی۔ امتحانوں کے بعد فرصت ہوگی تو اس کو گھر بلا کر پورٹریٹ بنائوں گی۔ اس دن موسم بہت اچھا تھا۔ میں آٹھویں کلاس میں تھی کہ کسی نے اچانک اندر آنے کی اجازت مانگی چونکہ بچوں کی کاپیاں چیک کر رہی تھی بغیر دیکھے کہہ دیا اندر آ جائو۔ میں سمجھی کہ ہمارے ہی اسکول کا کوئی لڑکا ہوگا مگر جب وہ اندر آ گیا اور میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ ایک اجنبی نوجوان تھا۔ کہنے! میں نے سوال کیا۔ خاور سے بات کرنی ہے۔ میں اس کا بڑا بھائی ہوں۔ خاور …؟ میں نے سوالیہ انداز سے دہرایا۔ جی، وہ یہاں دسویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ تبھی میں نے ذہن پر زور دیا تھا اچها … وه خاور … وہ سامنے جو کلاس بے اُدھر چلے جایئے۔ آپ آٹھویں میں آ گئے ہیں۔ سوری کہہ کر وہ نوجوان کلاس سے باہر نکل گیا۔ اس کی شکل و صورت خاور سے اس قدر ملتی تھی کہ مجھے یقین ہوگیا کہ اسی کا بڑا بھائی ہے۔ چھٹی کے وقت خاور نظر آیا، بلا کر پوچھا تمہاری بھائی سے بات ہوگئی؟ جی مس۔ اس نے آہستگی سے کہا۔ اس کا دھیما لہجہ بہت اچھا تھا۔ ثمینہ ٹھیک کہہ رہی تھی کہ وہ بہت تمیزدار اور با ادب لڑکا ہے۔ آج ثمینہ بڑی خوش نظر آ رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا خاور کا بھائی تمہاری کلاس میں آیا تھا۔ بولی ہاں۔ وہ تمہاری کلاس میں کیا کرنے آیا تھا۔ میں نے ویسے ہی مذاقاً اس کو چھیڑنے کو کہہ دیا۔ اپنے بھائی سے اسے کوئی بات کرنی تھی۔ خدا خیر کرے کہیں تم سے تو بات نہیں کرنی تھی۔ ایسے مذاق تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن مذاق مذاق میں ایک اور مذاق بھی ہوگیا۔ وہ نوجوان روز اسکول کے گیٹ پر موٹر سائیکل پر آنے لگا۔ چھٹی کے وقت آتا اور خاور کو ساتھ بٹھا کر لے جاتا۔ یوں ہم اس کا دیدار کرلیتے۔ میں نوٹ کر رہی تھی کہ ثمینہ ان دونوں بھائیوں کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھتی ہے اور جب تک یہ گیٹ پر موجود رہتے ہیں اس کی نظر نہیںہٹتی دل میں کہا۔ خدا خیر کرے میری سہیلی کا مدت بعد کسی پر دل آیا ہے اور خاور کا یہ بھائی جس کا نام ابھی تک میں نہ جانتی تھی۔ خاور سے کم حسین نہیں تھا۔

ثمینہ کو ایک دن میں نے ٹٹولا تو کہنے لگی۔ ہاں مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں کیا کروں دل کی بات ہے اور دل پاگل ہے اس پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ پھر میرا دل تو ایک آرٹسٹ کا دل ہے۔ حسن پرست ہے۔ ہر خوبصورت چیز اس کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ اس میں بری کیا بات ہے۔ یہ نوجوان ہم سے عمر میں تھوڑا سا چھوٹا ہوگا۔ یہی ایک آدھ سال اور یہ زیادہ فرق نہیں ہے۔ ایک آدھ سال نہیں کم از کم پانچ چه سال وہ بولی میں پھر بھی اس کی بات کو نہ سمجھ سکی کہ کس کے بارے میں کہہ رہی ہے۔ یہی سمجھی کہ وہ خاور کے بھائی کے بارے میں کہہ رہی ہے۔ ثمینہ اب ہر وقت کسی سوچ میں گم رہنے لگی تھی۔ اس کے ذہن پر کوئی چھا گیا تھا جس کی پرچھائیں اس کی ذات کے ساتھ ساتھ ہوتی تھی۔ میں نے پوچھا بھی کون ہے۔ بولی جو بھی ہے بس دل یہی چاہتا ہے کہ ہر وقت میرے پاس رہے۔میں نے ایک روز کہہ دیا۔ ثمینہ اگر تم خالد بارے میں سوچ رہی تو ٹھیک ہے لیکن اگر خاور کے بارے میں سوچتی ہو تو غلط ہے کیونکہ اخلاقی لحاظ سے بھی یہ درست نہیں۔ تمہارا اور اس کا استاد اور شاگرد کا رشتہ ہے اور یہ بہت مقدس رشتہ ہوتا ہے۔ ارے بھئی اس رشتے کے تقدس کو کیا خطرہ ہے جبکہ میں اس کے حسن سے متاثر ہوں اور اس کی تصویر بنانا چاہتی ہوں۔ یہ میرے اندر کے آرٹسٹ کی ڈیمانڈ ہے اور بس… اس کے سوا اور کچھ نہیں تو کیا کسی کی تصویر بنانے کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔ میں نے جواب دیا اور چپ ہوگئی۔ امتحان ختم ہوگئے۔ خاور سے ثمینہ نے وعدہ لیا تھا کہ امتحان ختم ہو جائیں گے تو وہ گھر آئے گا تاکہ وہ اس کا پورٹریٹ بنا سکے۔ خاور گھر آیا تو ثمینہ کے بھائی کے ساتھ اس کی دوستی ہوگئی۔ اس بات پر ثمینہ بہت خوش تھی کیونکہ اب خاور کا ان کے گھر آنا آسان تھا اور وہ اس سے بات کرسکتی تھی۔ اس کی تصویر بنا سکتی تھی۔ بالآخر اس نے خاور کو آمادہ کر لیا۔ رنگ اور برش سنبھالے اور اس کی تصویر بنانے میں مگن ہوگئی۔ یہ ایک دن کا کام نہ تھا۔ روز خاور کو کچھ دیر اس کے سامنے بت کی طرح بیٹھنا ہوتا تھا۔ خاور کی عادت تھی کہ بہت سویرے اٹھ جاتا تھا اور نماز پڑھتا تھا۔ اس کے بعد ثمینہ کے گھر آ جاتا اور لان میں کرسی پر بیٹھ جاتا تو ثمینہ رنگ اور برش لے آتی اور اس کی تصویر بنانے لگتی۔ ایک روز میں نماز اور دعا سے فارغ ہو کر اپنے گیٹ سے نکلی اور چہل قدمی کرتے ہوئے ثمینہ کے گھر کے گیٹ میں داخل ہوگئی۔ خیال تھا کہ وہ حسب معمول لان میں بیٹھی تصویر بنا رہی ہوگی لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ کرسی پر اکیلی بیٹھی ہے اور رو رہی ہے۔ کیا ہوا ثمینہ … میں نے کہا۔ خیریت تو ہے۔ کیا خاور کی تصویر مکمل ہوگئی؟ کچھ نہیں ہوا وہ اور زیادہ رونے لگی۔ کچھ بات تو ہے میری دوست ہوا، کیا مجھے نہیں بتائو گی۔ میں نے اصرار کیا تو بولی تم صحیح کہتی تھیں غلطی میری تھی۔ اس میں خاور کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ دو روز قبل کی بات ہے جب تصویر مکمل ہوگئی تو اتنی خوبصورت تھی کہ میں نے جذبات میں بے اختیار خاور کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی پیشانی کو چوم لیا۔ میری اس حرکت پر وہ گھبرا گیا۔ شاید اس نے غلط سمجھ لیا۔ کہنے لگا۔ پلیز ٹیچر آپ میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ یہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔ یہ کہہ کر وہ سسکیاں لے کر رونے لگا۔ مس … آپ میری استاد ہیں۔ میں دل سے آپ کی قدر کرتا ہوں۔ میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ آپ ایسی ہوں گی۔ اگر آپ کی شان بطور استاد اعلیٰ مقام نہ ہوتی تو جانے آپ کا کیا حشر ہوتا۔ یہ کہہ کر وہ بچوں کی طرح بھاگ کر گیٹ سے نکل گیا۔

اس کی سوچ پر مجھے بہت دکھ ہوا ہے شہناز ۔ کتنا دکھ ہے کیا بتائوں۔ میں تو اپنے اندر کے آرٹسٹ کے ہاتھوں بے وقوف بنی ہوئی تھی۔ اپنے تخیل کے دھارے پر بہہ رہی تھی اور وہ سمجھا کہ میں کوئی غلط عورت ہوں اور اس کے لئے غلط جذبات رکھتی ہوں۔ اگلے لمحے اس نے اپنی بنائی ہوئی خاور کی خوبصورت تصویر کو اپنے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ میرا خیال ہے کہ ٹیچرز کو اپنے شاگردوں کا بہت زیادہ خیال کرنا چاہئے اور محتاط رہنا چاہئے۔ کہیں استاد کا مقدس تصور مسخ نہ ہو کہ اس عمر میں لڑکے بہت ناسمجھ ہوتے ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS