ہم تین بہنیں تھیں اور بھائی کوئی نہ تھا۔ امی کو فوت ہوئے دس برس گزر چکے تھے۔ میں بہنوں میں بڑی تھی اور اب ہم تینوں ہی باشعور ہوچکی تھیں۔ والد صاحب کی عمر پیرانہ سالی کی طرف گامزن تھی، وہ ریٹائرڈ ہوچکے تھے، انہیں بیٹیوں کے بیاہ کی بہت فکر تھی۔
قریبی رشتے داروں میں ایک خالہ ہی ایسی تھیں جو تواتر کے ساتھ ہماری خبر گیری کو آیا کرتی تھیں۔ جب بھی آتیں، والد صاحب یہی تذکرہ لے کر بیٹھ جاتے۔ شبو بہن! اپنی بھانجیوں کے رشتوں کی فکر کرو، تمہارے سوا اور کون ہے جو ان کی شادیاں کروانے میں میرا مددگار ہوگا۔
تب خالہ شبو یہی کہتی تھیں۔ بھائی صاحب! میں دن، رات اسی کوشش میں لگی ہوں، کوئی اچھا رشتہ ملے تو آپ کو بتائوں گی، فکر نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے سبھی بچیاں جلد اپنے گھروں کی ہوجائیں گی۔
اسی کوشش میں دو سال بیت گئے۔ میں نے بی اے کرلیا، باقی دونوں چھوٹی بہنیں بھی تعلیم مکمل کرنے والی تھیں۔ تبھی ایک دن خالہ جان خوش خوش ہمارے گھر آئیں اور والد صاحب کو بتایا کہ میں نے ردا کے لئے ایک بہت اچھا رشتہ تلاش کرلیا ہے۔ لڑکا بیرون ملک ہے اور میری سہیلی زارا کا بیٹا ہے۔ اس کا بچپن اور لڑکپن میری نظروں کے سامنے گزرا ہے لہٰذا فکر کی ہرگز کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کی بیٹی میری بیٹی ہے، اس کے دکھ سکھ کی ضامن ہوں گی، اگر آپ یہ رشتہ قبول کرلیں۔
اگلے روز خالہ نے شہریار کے والدین سے ابو کو ملوایا۔ انہوں نے یہی کہا کہ جیسے شبانہ بہن مطمئن ہیں، ویسے میں بھی ہوں کیونکہ مجھے کلی طور پر شبانہ پر بھروسہ ہے۔ یوں جھٹ پٹ میری بات شہریار کے ساتھ طے ہوگئی۔ گرچہ والد صاحب نہ تو شہریار سے ملے اور نہ ہی انہوں نے لڑکے کو دیکھا تھا۔ وہ اس امر پر بھی رضامند ہوگئے کہ نکاح ٹیلیفون پر ہوجائے گا۔ اس بات پر بھی انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
خالہ چونکہ اس گھرانے کو عرصے سے جانتی تھیں، میرے دکھ سکھ کی ضمانت بھی لی تھی لہٰذا دو ماہ کے اندر اندر میرا نکاح ٹیلیفون پر ہوا اور پھر مجھے کچھ عرصے بعد میرے شوہر شہریار کے پاس جانے کا پروانہ مل گیا۔
جب میں وہاں ایئرپورٹ پر اتری، ہاتھ میں شہریار کی تصویر تھی مگر وہ مجھے لینے نہیں آئے تھے۔ جو شخص مجھے لینے آیا، میں نے اسے ایک لمحہ میں پہچان لیا، یہ میرا دیور ایاز تھا۔
ایاز کو دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ اس نے بھی حیرت اور حسرت بھری نگاہ مجھ پر ڈالی مگر ہماری گفتگو سلام و دعا سے آگے نہ بڑھی۔ اسے غالباً خبر نہ تھی کہ میں اس کی بھابی بن گئی اور میں بھی قطعی اس امر سے بے خبر تھی کہ ایاز میرا دیور ہوگا۔
تمام راستے ہم دونوں خاموش رہے اور ہمارے درمیان خاموشی کے علاوہ جو چوتھا وجود تھا، وہ شخص شہریار کی کمپنی کا ڈرائیور تھا۔ اس کی موجودگی میں غالباً ایاز نے مجھ سے کلام کرنا مناسب نہیں جانا تھا۔
شہریار ڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے، ان کو آج کسی اہم میٹنگ کے باعث چھٹی نہ مل سکی تھی۔ گھر میں ساس موجود تھیں، جنہوں نے پیار سے استقبال کیا اور کھانا وغیرہ دینے کے بعد شہریار کے کمرے تک رہنمائی کی۔ کہا کہ بیٹی! جب تک شہریار آئے، تم سو جائو اور آرام کرلو، سفر سے تھکن ہوجاتی ہے۔
واقعی میں بہت تھکی ہوئی تھی، بستر پر لیٹتے ہی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ جب آنکھ کھلی رات کے آٹھ بج رہے تھے اور شہریار بھی آچکے تھے۔
اپنے شوہر کو پہلی بار دیکھ کر مجھ پر جو کیفیت طاری ہوئی، بیان نہیں کرسکتی۔ وہ عمر میں مجھ سے دس برس سے بھی کچھ زیادہ ہوں گے۔ سنجیدہ اور متین لیکن بدصورت نہ تھے، اچھی شکل و صورت اور جاذب نظر شخصیت کے حامل تھے ۔ عمدہ پوسٹ پر تھے، کافی تنخواہ اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ فیملی مختصر تھی۔ ایک بہن بیاہتا پاکستان میں تھی اور یہ دو بھائی تھے۔ ایاز کو دیکھ کر دھچکا سا لگا تھا اور اب شہریار کو دیکھتے ہی میں حیرت و افسردگی کے ملے جلے احساسات کے الائو میں گر پڑی تھی۔ ایسا کیوں تھا، یہ آگے بیان کروں گی۔
شہریار سے گفتگو ہوئی تو اچھے لگے اور سوچا کہ والدین کی لاج رکھنی ہے۔ اپنے شوہر سے عمر بھر کو وفادار رہوں گی، ان کی حرمت کی امین رہوں گی۔ انہوں نے مجھے پسندیدگی کے احساس کے ساتھ قبول کیا تھا۔ صد شکر کہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو ناپسند نہیں کیا تھا، ورنہ ٹیلیفون پر ہونے والا نکاح اور بغیر دیکھے اپنے دولہا کو قبول کرنے کا مرحلہ میرے لئے ایک آزمائش سے کم نہیں تھا۔
ماضی… یادوں کا ایک ایسا باغ تھا جس میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے، وقت کے ساتھ لمحہ لمحہ جو مرجھاتے تھے تو ان کی جگہ نئے پھول کھل جاتے، تاہم آج کے بعد تہیہ کرلیا کہ اپنے ماضی کے جھروکے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کرلوں گی کیونکہ مشرقی لڑکی ہونے کے ناتے مجھے اب تمام زندگی وفاداری کے ساتھ اپنے جیون ساتھی کی نذر کرنی تھی۔
جب ایاز کو پہلی نظر میں ایئرپورٹ پر دیکھا تبھی یہ تہہ کرلیا تھا۔ جب سے آئی تھی، اس سے بات کرنے سے پرہیز کرتی تھی، حالانکہ ساس اس طرزعمل کو محسوس بھی کرتی تھیں مگر یہ میری مجبوری تھی۔ نہیں چاہتی تھی ہمارے دلوں میں ماضی کا عکس پھر سے ابھر آئے۔ چاہتی تھی کہ ایاز میری بے رخی سے اس قدر دلبرداشتہ ہوجائے کہ مجھ سے نفرت کرنے لگے۔
مجھے اب صرف شہریار کی پروا تھی، ان کے سوا کسی اور کو دیکھنا تو کیا سوچنا تک نہ چاہتی تھی۔ پچھتاتی تھی کہ کیوں ایاز سے ماضی میں رشتہ جوڑا تھا۔ اے کاش کہ وہ میری زندگی میں نہ آیا ہوتا۔ کیا خبر تھی کہ وہی شخص بعد میں مجھے دیور کے روپ میں مل جائے گا لیکن قسمت کے کھیل نیارے ہوتے ہیں۔ اس میں ہمارا کوئی دوش نہیں ہوتا کیونکہ ہم مستقبل میں نہیں جھانک سکتے کہ کل کیا ہوگا۔
دو ماہ تک شہریار کا رویہ بہت اچھا رہا۔ وہ میرے ساتھ دوستوں کی طرح رہ رہے تھے، ان کی باتوں میں فراست جھلکتی تھی۔ سنجیدگی کے ساتھ تہذیب یافتہ گفتگو کرتے تھے، تبھی میرے دل میں ان کی قدر ومنزلت روزبروز بڑھتی جاتی تھی۔
ایک روز اچانک ہی میری زندگی کی صبح ملگجی ہوگئی۔ سورج تو نکلا مگر اس کے روبرو شک و شبے کے سیاہ بادلوں کا غلبہ تھا۔ شہریار مجھ سے کھنچے کھنچے تھے اور سیدھے منہ بات نہیں کررہے تھے۔ شروع میں کچھ نہیں سمجھی لیکن پھر رفتہ رفتہ یقین ہوگیا کہ میرے شوہر کی بے رخی اور بے اعتنائی بلاوجہ نہیں ہے۔
ایک دن ان سے اصرار کیا کہ وجہ بتایئے کیوں آپ کا رویہ اجنبیوں جیسا ہوگیا ہے۔ پہلے تو چپ رہے پھر بولے۔ سن سکو گی… بھرم جو قائم ہے، وہ بھی چلا جائے گا، تو تم کو بھی میری زندگی سے جانا پڑے گا۔
ایسی بات سن کر کون بیوی قرار سے رہ سکتی ہے، میرا بھی قرار جاتا رہا اور اصرار بڑھتا گیا، یہاں تک کہ میں نے ان کے قدموں کو چھو کر کہا کہ خدا کے لئے مجھے اس نامعلوم آگ کے الائو میں سے نکالیے جو نتیجہ ہوگا، قبول کرنے پر تیار ہوں لیکن اب مجھ سے مزید یہ سب کچھ برداشت نہ ہوگا۔ آپ کا رویہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی گھونٹ گھونٹ زہر ہلاہل پلا رہا ہو، میں سوچ سوچ کر گویا قریب المرگ ہوتی جاتی ہوں۔
آخرکار انہیں اپنے لب کھولنے پڑے۔ کہنے لگے۔ جو پوچھوں، سچ سچ بتانا ہوگا، یہ بتائو کہ کیا تم شادی سے پہلے کسی سے پیار کرتی تھیں؟
ہرگز نہیں۔ میرا جواب تھا۔
اگر کسی کے پاس اس کا ثبوت ہو تب؟
یہ سن کر دہل گئی۔ سوچنے لگی تو کیا ایاز نے ازخود اپنے بڑے بھائی کو بتا دیا ہے کہ ماضی میں جب ہم طالب علم تھے، ہماری ایک دوسرے سے دوستی تھی۔ بے شک یہ پاکیزہ تعلق تھا مگر جذباتی یا جسمانی آلودگی اس میں شامل نہ تھی محض زبان سے اظہار پسندیدگی کیا تھا۔ ایک ہونے کا خواب بھی دیکھا تھا ہم دونوں نے جو اس وقت کی مجبوریوں کے باعث پورا نہ ہوسکا تھا لیکن اب تو میں اور ایاز ایک دوسرے سے بات بھی نہ کرتے تھے تاکہ میری ازدواجی زندگی تباہ نہ ہوجائے۔ لیکن اچنبھے کی بات یہ تھی کہ میرے شوہر کو یہ بات کس نے بتا دی تھی، جبکہ اس کا علم صرف مجھے اور ایاز کو تھا۔ تو کیا ایاز نے خود اپنے بڑے بھائی سے کہہ دیا تھا کہ زمانہ طالب علمی میں وہ جس لڑکی کو پسند کرتا تھا، وہ میں تھی۔ یہ تو عجیب بات تھی، بھلا ایسا کیسے ہوسکتا تھا…؟
سوچا کیوں نہ خود شہریار کو ساری بات بتا دوں تاکہ ہماری زندگی مزید غلط فہمیوں کا شکار نہ ہوجائے۔ میں نے ان کو بتا دیا کہ ایک روز جب میں بس اسٹاپ پر کھڑی تھی، ایک غنڈے نے مجھے موٹرسائیکل مار کر گرا دیا تھا، مجھے سخت چوٹ لگی، اٹھ بھی نہ سکتی تھی کہ تبھی ایک نوجوان آگے بڑھا جس نے مجھے سہارا دے کر زمین سے اٹھایا۔ میرے پائوں میں فریکچر ہوگیا تھا، وہ مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور ایکسرے وغیرہ کروانے کے بعد گھر پہنچایا۔ اس وقت والد صاحب گھر پر نہ تھے، بہنیں مجھے سہارا دے کر گھر کے اندر لائیں۔
جب میں ٹھیک ہوگئی اور کالج آئی تو پتا چلا کہ ایاز میرا کلاس فیلو ہے۔ ہماری پسندیدگی کی ابتدا ہوگئی مگر یہ پسندیدگی کالج کی حد تک رہی، ہم کالج سے باہر بھی کبھی نہ ملے۔ ایاز ایف اے میں ایک پرچے میں رہ گیا اور اس نے کالج چھوڑ دیا، پھر میں نے سنا کہ وہ بیرون ملک چلا گیا ہے تبھی میری دوستی اور پسندیدگی اسی موڑ پر ختم ہوگئی۔ بس اتنی سی بھول تھی، معاف کردیجئے۔
جو تم نے خطوط ایاز کو لکھے تھے، کیا وہ اس بھول میں شامل نہیں تھے؟
ہاں! میں نے چند خطوط لکھے تھے، ایاز کے ایک دوست سے اس کا پتا لیا تھا لیکن ان خطوط کا جواب نہ ملا تو پھر یہ رابطہ بھی ختم ہوگیا۔
اور اس بے وقوف نے اب تک یہ خطوط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں، نہ جانے کیوں…؟ یہ آپ کو کہاں سے ملے؟
اس کے بریف کیس سے جو ایک دن وہ کھلا چھوڑ گیا تھا۔ میں نے ویسے ہی کھولا تھا اور یہ خطوط میرے ہاتھ پڑ گئے، لفافے کی پچھلی طرف تمہارے گھر کا پتا لکھا ہوا تھا۔
میں لفافے کی بیک پر ضرور گھر کا پتا لکھتی تھی کہ شاید وہ جواب دے دے، مگر اس نے کسی خط کا جواب نہ دیا، شاید اس وجہ سے کہ کہیں اس کا کوئی خط میرے والد کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ میں نے رو کر اپنے شوہر سے بہت بار معافی طلب کی کہ یہ میری نادانی کی بھول تھی۔ نہیں جانتی تھی جس کو خط تحریر کررہی ہوں، میری شادی اسی کے بڑے بھائی سے ہوجائے گی۔
اس وقت تو انہوں نے سرد مہری سے کہا تھا کہ معاف کردیا ہے مگر بہت مضطرب رہتے تھے۔ ایک روز انہوں نے ایاز سے کہا کہ تمہاری نوکری ہے، تم یہاں
رہو، میں دبئی جارہا ہوں یہاں کی نوکری چھوڑ کر کیونکہ مجھے یہ جگہ پسند نہیں ہے۔ کوشش کرکے انہوں نے دبئی کی ملازمت حاصل کی اور مجھے لے کر یہاں آگئے۔
ایاز سے دور ہوجانے کے باوجود میرے شوہر کو سکون نہ آیا۔ بے شک میرا ایاز سے ایک پاکیزہ تعلق تھا مگر یہ بات شہریار کے لئے سوہان روح تھی کہ شادی سے قبل میں نے جس شخص کو پسند کیا، وہ ایاز ہی کیوں تھا۔
شہریار کے دل سے یہ کانٹا نہ نکل سکا۔ انہوں نے مجھ سے شدید سرد مہری اختیار کرلی۔ ایسی چپ سادھ لی جو کہ کلیجے کو شق کرنے والی تھی۔ ہمارے درمیان ایک ان دیکھا کھنچائو اور تنائو بڑھنے لگا، گھر کی فضا ایک عقوبت خانے جیسی ہوگئی جس میں ہر دم میرا دم گھٹا گھٹا سا رہنے لگا۔ تکلیف دہ حد تک خاموشی ہم میاں اور بیوی کے درمیان رہتی تھی۔ چھٹی کے روز جبکہ وہ زیادہ دیر تک گھر موجود رہتے تب بھی مجھ سے بات نہ کرتے۔ میں ان سے بات کرتی تو جواب نہ دیتے۔ میں کسی سے بات کرنے کو ترسنے لگی۔
جلد ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ دل بہلانے کو شہریار نے کسی اور عورت سے دوستی کرلی ہے، وہ اب زیادہ تر فارغ وقت اسی کے ساتھ باہر گزار آتے اور میں قیدیوں کی طرح تمام وقت تنہائی سے لڑتی رہتی تھی۔ میں زندگی سے تنگ رہنے لگی۔ میکے جانے کا کہتی تو شہریار کو ناگوار گزرتا تھا۔ کہتے تھے میکے جانے کا نام مت لینا، ایک بار اس گھر سے چلی گئیں تو دوبارہ یہاں قدم نہ رکھ پائو گی۔ ایک بچی کی ماں بن چکی تھی لہٰذا طلاق کے تصور سے کانپ جاتی تھی۔ سوچتی تھی ایک بار گھر سے گئی تو بچی بھی عمر بھر باپ کی محبت کو ترس جائے گی، پھر جب وہ بڑی ہوکر مجھ سے اپنے باپ کے بارے میں سوال کرے گی تو کیا جواب دوں گی، کیسے اس کو مطمئن کر پائوں گی۔
شہریار کو منانے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو میں نے اپنی بدقسمتی اور بدنصیبوں سے سمجھوتہ کرلیا۔ والد ضعیف اور بیمار تھے، ان کو کسی صورت صدمے سے دوچار نہ کرنا چاہتی تھی، پھر سنا کہ دونوں بہنوں کی شادیاں ہوگئی ہیں، وہ بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی ہیں، ابو اکیلے رہتے ہیں اور بھی دل پریشان رہنے لگا۔ ایک بار پاکستان جاکر ابو سے ملنا چاہتی تھی کہ ان کی یاد میں دل تڑپتا تھا لیکن اس خوف سے نہیں جاتی تھی کہ شہریار نے کہہ دیا تھا۔ گھر سے چلی جائو گی تو پھر دوبارہ قدم نہ رکھ پائو گی، اپنی بچی سے پیار ہے تو بس اسی طرح صبر اور خاموشی سے زندگی گزارنی ہوگی۔
وہ بھی اپنی بچی سے دور نہ رہنا چاہتے تھے، اس کے ساتھ پیار کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔ بس یہی تعلق تھا جو ہم دونوں کو جوڑے ہوئے تھا۔
جس عورت سے شہریار کا تعلق تھا، اس کا نام زیبی تھا۔ زیبی سے دوستی گہری ہوتے ہوتے پیار میں بدل گئی۔ شہریار نے اس عورت سے شادی کرلی۔ یہ دوسری شادی رنگ لائی۔ آخرکار مجھے زیبی نے قید تنہائی سے نجات دلائی، یوں کہ وہ میرے پیچھے پڑگئی اور مجھے گھر سے نکلوا کر دم لیا۔ میں پاکستان اپنے والد کے پاس آگئی، وہ کافی بیمار تھے۔ تنہائی نے اور ان کی زندگی کو مشکل کردیا تھا، ان کو کسی اپنے کی شدید ضرورت تھی پھر ان کو فالج نے بستر پر گرا دیا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمت پر مامور کردیا۔
ایاز کو یہ علم نہیں تھا کہ شہریار نے بریف کیس میں رکھے ہوئے میرے خطوط پڑھ لئے ہیں۔ یقینا اس نے ان کو تلف بھی کردیا ہوگا مگر وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ اس کے بھائی کا رویہ اس کے ساتھ اس قدر کھردرا اور روکھا پھیکا کیوں ہے۔
سوچتی ہوں اس پتھر دل انسان نے مجھے اور ایاز کو کتنی خاموشی سے مگر کتنی بڑی سزا دی۔ آج تک ایاز نہیں سمجھ سکا اس کا بھائی اس سے ناراض کیوں ہے۔ آج تک میں نہیں سمجھ سکی کہ سنگ دل شہریار نے مجھے معاف کردینے کے باوجود بھی کیسی معافی دی کہ اس کی دی ہوئی سزا میں جھلستی رہتی ہوں حالانکہ میں نے کوئی گناہ بھی نہ کیا تھا جبکہ وہ میرے سامنے اس عورت کو گھر پر لاتے تھے مگر میں اف بھی نہ کرسکتی تھی۔ آہ بھی چھپ کر بھرتی تھی، مجرم نہ ہوتے بھی مجھے احساس جرم کی دلدل میں دھکیل دیا اور خود پر ہر ناجائز خوشی کو جائز کرلیا۔
آج میری بیٹی باشعور ہے۔ وہ مجھ سے سوال کرتی ہے۔ امی! آپ کو ابو نے کیوں چھوڑ دیا ہے اور اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
اپنے والد کی خدمت کا مجھے موقع ملا۔ یہ سعادت مجھے نصیب ہوئی کہ میں نے اپنے فالج زدہ باپ کی اس وقت تندہی سے خدمت کی جب ان کو خدمت کی ضرورت تھی۔ وہ خاموش نگاہوں سے مجھے اس طرح دیکھتے تھے جیسے ان کا رواںرواں مجھے دعائیں دے رہا ہو۔ میں ان کے سہارے جیتی تھی۔ آج شہلا کی شادی کردی ہے تو زندگی کے باقی دن میں اپنی بیٹی کے سہارے جی رہی ہوں۔ خدا نے جیسی تقدیر میری بنائی، ایسی کسی کی بیٹی کی نہ ہو۔
(آر… راولپنڈی)