والد ایک چھوٹے سے قصبے سے شہر آ بسے تھے کہ یہاں محنت مزدوری کی اچھی اجرت ملے گی تو ہی میرے بچے زندگی کے سکھ سے گزر سکیں گے۔ کچھ دن رہائش اور روزی کی تلاش میں سرگرداں رہنے کے بعد آخر کار اللہ تعالیٰ کی مدد سے دونوں ہی مسئلے حل ہو گئے ۔والد صاحب کو ایک کارخانے میں ملازمت مل گئی اور والدہ محلے کے گھروں سے کپڑے لا کر سینے لگیں۔ سفر وسیلۂ ظفر کے مصداق، واقعی اللہ تعالیٰ نے ہم بے کسوں کے رزق روزی میں اضافہ کر دیا اور جو رشتہ دار یہ کہتے تھےکہ گائوں چھوڑ کر شہر جا رہے ہو دیکھ لینا منہ لٹکا کر واپس آئو گے وہ اب خود بھی شہر آنے کا سوچ رہے تھے۔
انسان محنت کرے تو صلہ ملتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ خوشحالی کا سفر جاری رہا۔ شروع دنوں والد کو ایک دیرینہ دوست نے سستے کرائے پر مکان ملتان کے ایک مضافاتی علاقے میں دلوا دیاتھا۔ ابا نے بعد میں پانچ مرلے کا پلاٹ قسطوں پر لے کر اس میں کچے پکے کمرے ڈلوا لئے تاکہ رہائش کا مسئلہ حل ہو اور کرایے سے بھی جان چھوٹ جائے۔
گائوں سے شہر آئے پانچ برس ہو چکے تھے ۔ہمارے مالی حالات بھی سنبھل گئے تھے کہ اچانک یہ حادثہ پیش آ گیا۔ والد صاحب کا ہاتھ ڈیوٹی کے دوران آہنی مشین کے پٹے میں آ گیا اور وہ شدید مضروب ہو گئے۔ ساتھیوں نے انہیں فوراً اسپتال پہنچایا۔باوجود آپریشن، وہ جانبر نہ ہو سکے۔ خوشحالی کا خواب ادھورا رہ گیا ۔وہ جان سے گزر گئے۔
اب والدہ پر کفالت کا سارا بوجھ آ پڑا ۔،واپس گائوں لوٹ جانے سے معاشی مسئلہ حل ہونے والا نہ تھا بلکہ اور زیادہ مسائل بڑھ جاتے۔ کچھ رشتہ داروں نے بہت کہا کہ واپس آ جائو۔ ہم آپ کے بچوں کی کفالت کریں گے ،مگر میری خود دار اور جہاں دیدہ ماں جانتی تھیں یہ ہمدردیاں وقتی ہیں۔ ہرگز یہ لوگ آخر تک ساتھ دینے والے نہیں ہیں ،بلکہ لڑکیوں کو ضرور تعلیم کے زیور سے محروم کر دیں گے۔
ان دنوں میں نو برس کی تھی اور پانچویں میں پڑھ رہی تھی ۔ چھوٹی بہن صبا تیسری جماعت کی طالبہ تھی۔ ایک بھائی بچپن میں پولیو کی بیماری سے معذور ہو چکا تھا جبکہ دوسرا چھٹی کا طالب علم تھا۔ سر پہ باپ کا سایہ نہ رہے تو زمانے کے سرد گرم سے یتیم بچے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہم بھی متاثر ہوئے مگر سیانے ہو گئے ۔بھائی نے مشکل سے چھٹی کا سالانہ امتحان دیا اسے مجبوراً ہماری خاطر ایک ورکشاپ پر ’’چھوٹو ‘‘ بن کر بارہ گھنٹے کی مشقت کرنا پڑ گئی۔
امی جان چاہتی تھیں کہ ہم دونوں بہنیں گھر کے کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ وہ پوری تن دہی سے رات دن سلائی کر کے گھر کا خرچہ پورا کر سکیں۔ چھوٹی بہن کو پڑھنے کا زیادہ شوق نہ تھا لیکن میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی ۔کلاس میں فرسٹ آتی۔ جب ٹیچر کو پتاچلا کہ یتیمی کی وجہ سے اسکول چھوڑ رہی ہوں انہوں نے وظیفہ لگوا دیا اور تعلیم کا خرچہ اٹھانے کا بھی بندوبست کر دیا۔ انہی کے سمجھانے پر امی مجھے پھر سے اسکول بھیجنے پر راضی ہو گئیں۔
والدہ کی تو ساری امیدیں بیٹے کے ساتھ وابستہ تھیں مگر پڑھنا اس کے مقدر میں نہ تھا۔ یوں بھی وہ کچھ ایسا ہونہار اور لائق طالب علم نہیں تھا، تبھی امی کو سمجھاتی تھی کہ ماں! مجھے بیٹی مت سمجھو۔ جو خواب آپ نے اپنے بیٹے سے وابستہ کئے ہیں، وہ مجھ سے وابستہ کر لو۔ وعدہ کرتی ہوں،پڑھ لکھ گئی تو کچھ بن کر دکھائوں گی اور کبھی بھی آپ کو یہ محسوس نہ ہو گا میں ایک لڑکی ہوں ۔آپ تب میرے لڑکی ہونے پر فخر کریں گی۔
سچ کہتی ہوں کہ گریجویشن کرنے تک قدم قدم پر بہت زیادہ مشکلات دیکھیں۔ سب سے بڑا جہاد تو مجھے امی جان کے ساتھ کرنا پڑا ،جو ہر وقت کہتی تھیں۔بس اب پڑھائی چھوڑ دو ۔گھر بیٹھو، تم بڑی ہو گئی ہو۔ سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کالج آتے جاتے تمہارے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے اور عمر بھر کے لئے پچھتاوا یا رسوائی پڑ جائے۔ میں بیوہ عورت کس طرح زمانے کا مقابلہ کر پائوں گی جبکہ رشتہ داروں سے بھی ناتا توڑ بیٹھی ہوں۔ بیان نہیں کر سکتی کہ گریجویشن کرنے تک کتنے مصائب جھیلے مگر ہمت نہ ہاری ۔اپنے نصب العین کو منارۂ امید بنا کر یہ سفر طے کرتی رہی۔کبھی بھوکے پیٹ رہ کر، پیدل چل چل کر اور کبھی ٹیوشنز پڑھا کر ،آخر کار سالانہ امتحان ہوا اور شاندار نمبروں سے کامیابی ملی۔
انہی دنوں جبکہ سوچ رہی تھی کہ گریجویشن تو آگے بڑھنے اور کچھ بننے کی پہلی سیڑھی ہے۔مستقبل میں کون سا کورس کروں، کیا ٹریننگ لوں ۔جی تو چاہتا تھا ،ماسٹرز کروں لیکن حالات ایسے نظر نہ آ رہے تھے۔ انہی دنوں جبکہ گوں مگوں کی کیفیت میں ڈوبی ہوئی تھی، والدہ نے اچانک انکشاف کیا کہ انہوں نے میرا رشتہ طے کر دیا ہے ۔ دم بخود رہ گئی۔اماں! میں نے تو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ آگے پڑھنا ہے۔ ابھی منزل نہیں آئی، اور آپ نے مجھ سے پوچھے بغیر رشتہ بھی طے کر دیا۔ کیوں اتنی جلدی ہے آپ کو مجھے بیاہنے کی۔
یہ جلدی ہے کیا…؟ تمہارا بھائی ایک قابل مستری بن گیا ہے۔اس نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔اب تمہارے کچھ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیری چھوٹی بہن نے میٹرک کر لیا ۔ لڑکیوں کے لئے بس اتنا ہی بہت ہے ۔ خاص طور پر جبکہ ہمارے حالات پورے سورہے ہیں۔ تم دونوں کا بیاہ ہو جائے تو ہی قاسم کا گھر بسا سکوں گی۔ وہ کہتا ہے کہ یہی شرط ہے ،پہلے بہنوں کی شادی ہو پھر میں اپنا گھر بسائوں گا۔
اماں کی یہ عجب منطق سن کر پریشان ہو گئی۔ بالآخر وہ جیت گئیں اور میں ہار گئی۔ میرے خواب ادھورے رہ گئے۔ انہوں نے محلے کی ایک جاننے والی خاتون کے توسط سے میرے لئے رشتہ ڈھونڈ لیا تھا۔ یہ لوگ کافی خوشحال تھے اور ہم نے والد کی وفات کے بعد اتنی تنگ دستی دیکھی تھی کہ اب میری ماں کی پہلی ترجیح یہی تھی کہ بیٹی خوشحال گھر میں بیاہی جائے۔
شادی کے پہلے ہی دن شوہر صاحب نے اپنے ماضی کے قصےسے پردہ اٹھا دیا ۔گھونگٹ اٹھاتے ہی میرے ارمانوں کی دنیا پر یہ کہہ کر بم گرا دیا کہ والدہ کے مجبور کرنے سے شادی کی ہے۔ تم کو شوہر کا پیار بھی دوں گا کہ یہ تمہارا حق ہے لیکن مجھ سے اولاد کی توقع نہ کرنا۔ وجہ یہ بتائی کہ… کسی لڑکی سے حد درجہ پیار تھا بلکہ ہم دونوں ایک دوسرے سے عشق کرتے تھے مگر لڑکی کی ماں باپ نے زبردستی اس کا رشتہ اپنے رشتہ داروں میں کسی سے کرا دیا ۔مناہل نے میری خاطر خود کشی کی کوشش بھی کی مگر زندگی تھی، بچ گئی۔میں نے اس کے ساتھ یہ قسم کھائی تھی کہ بے شک میری شادی ہو جائے مگر وہ جب بھی لوٹ کر آئے گی اس کے ساتھ وفا کا بندھن باندھوں گا۔ شادی کروں گا ، تب اس نے بھی یہ شرط لگائی تھی کہ وہ لوٹ کر ضرور آئے گی مگر مجھ سے شادی اسی شرط پر کرے گی کہ میری اولاد نہ ہو ، اگر صاحب اولاد ہو گیا تو وہ بچوں کی سوتیلی ماں نہیں بنے گی۔ کیونکہ خود اس کی ماں سوتیلی تھی۔ جس نے اس پر ستم ڈھائے اور زبردستی شادی کرا دی۔
میں چند گھنٹوں کی نئی نویلی دلہن، ان کی یہ باتیں خاموشی سے سنتی رہی۔ کوئی جواب نہ دیا مگر دل میں عہد کر لیا کہ جب ان سے شادی ہو ہی گئی ہے تو اس بندھن کی لاج نبھاؤں گی ۔اپنی بیوہ ماں کو دکھ نہ دوں گی اور مرحوم والدکی روح کو بھی شرمندہ نہ کروں گی ۔ آگے اللہ مالک ہے جو بھی حالات ہوں دیکھا جائے گا۔
شوہر اچھی شکل و صورت کے تعلیم یافتہ تھے۔کہا تھا کہ میں نے سچ پہلے قدم پر بتا دیا ہے مجھے معاف کر دینا۔ ساتھ نبھانا ہے تو اسی حال میں مجھے قبول کر لو ورنہ طلاق لے لو۔ قبول تو کر ہی چکی تھی ، تبھی تو ان کی جیون ساتھی بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ان کے حکم پر سر جھکا دیا کہ جو حضور چاہیں، کریں مگر
مجھے اپنے قدموں میں رہنے دیں۔ لڑکی حالات سے مجبور جبکہ یتیم بھی ہو اور ایک شریف بیوہ کی بیٹی ہو اس کے سوا اور کیا کر سکتی ہے کہ وہ لامتناہی صبر کے راستوں پر چلتی رہے اور کبھی نہ تھکے۔
ماں نے تو اس نقطۂ نظر سےکہ خوشحال گھر بیاہاتھا۔ جہیز کی خاطر اپنی ساری جمع پونجی کے علاوہ قرض بھی لے لیا تھا کہ سسرال میں عزت و توقیر ہو گی۔ کوئی جانتا تھا کہ کس قدر گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں؟ یہ وہ زمانہ تھا کہ بیوہ کی جوان لڑکی کو گھر والوں سے زیادہ محلہ اور معاشرہ بوجھ تصور کرتا تھا۔ محلے والوں نے بھی میرے بیاہ پر اماں کی ہر طرح سے پوری مدد کی تھی ۔شادی کے بعد شوہر نے برا سلوک تو نہ کیا مگر اولاد کی خوشی سے بھی دور رکھا۔ یوں پانچ سال گزر گئے۔ میں صبر سے رات دن کاٹ رہی تھی کہ کبھی تو ماضی کے جال سے نکلیں گے اور میرے دن پھریں گے۔ لاعلم تھی کہ ان کی سابقہ محبوبہ کہاں ہے۔ کس حال میں ہے۔ یہ اس سے اب بھی ملتے ہیں یا نہیں ۔ ان سے سوال بھی نہ کر سکتی تھی ۔
شادی کے چھ سال بعد ایک روز بولے۔ سارہ میں نے تم کو آگاہ کیا تھا نا کہ میری محبوبہ ایک روز ضرور لوٹ کر آئے گی، اس کے شوہر سے طلاق ہو چکی ہے۔مناہل نے بھی اپنا وعدہ نبھایا کہ اولاد نہیں ہونے دی۔ اب ہم شادی کر سکتے ہیں۔اس کے والد اس دنیا میں نہیں ہیں جو کہ ہماری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ وہ اس رسان سے یہ باتیں کر رہے تھے جیسے کہ میں ان کی بیوی نہیں کوئی بے جان چیز ہوں۔ یہ خیال کئے بغیر کہ ان باتوں سے میرے دل کو کتنی تکلیف پہنچ رہی ہے۔
وہ کہتے جاتے تھے،سارہ سچ کہتا ہوں کہ غم جدائی اٹھاتے اٹھاتے مناہل نیم جان ہو چکی ہے ۔اب اگر میں نے اس کا ہاتھ نہ تھاما تو وہ مر جائے گی اور اس کا خون تمہارے ذمے ہو گا۔
آپ کر لیں اس سے شادی ،مگر مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ تم مجھے لکھ کر اجازت دو،دوسری شادی کی اور میکے جا ر ہو۔میں وقتاً فوقتاً آ جایا کروں گا۔ خرچہ بھی دیا کروں گا ۔
اور اگر میں گھر سے نہ جائوں، کیونکہ شادی شدہ عورت کا میکے رہنا اتنا آسان نہیں۔
مجبوراً مجھے تمہیں طلاق دینی پڑے گی ۔ وہ تو اتنی کبیدہ خاطر ہے اب اس کا دل توڑا نہیں جا سکتا۔ وہ اپنے سامنے اس گھر میں تمہارا موجود رہنا بھی برداشت نہیں کرے گی ۔
یا خدا مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ۔کیا کوئی انسان اتنا بھی خود غرض ہو سکتا ہے کہ اپنی خوشیوں کے سامنے اسے کسی کا وجود نظر ہی نہ آتا ہو۔ اپنا گھر چھوڑنے پر میں کسی صورت راضی نہ تھی ۔قسمت میں جیسی بھی ادھوری ازدواجی خوشیاں مل گئی تھیں میں نے ان کو قبول کر لیا تھا کیونکہ گھر عورت کا خواب ہوتا ہے۔ اس کا مان اور تحفظ کی ضمانت ہوتا ہے۔گھر کی ٹھنڈی چھائوں سے نکلنے کو کس عورت کا دل چاہتا ہے۔
میں نے کہا ۔ٹھیک ہے،میں میکے چلی جاتی ہوں ۔ماں نے مجھے شادی پر مجبور کیا تھا اب ماں ہی بھگتے گی۔لیکن میں طلاق کا کلنگ ماتھے پر نہ لگنے دوں گی۔ وہ مجھے اسی دن شام کو میکے چھوڑ کر آ گئے۔
میرے گھر آ جانے کے بعد تمام برادری میں ان کے عشق کا دیرینہ فسانہ پھر سے گونجنے لگا ،تب سسرال سے ایک بزرگ جو کہ ہماری ساس کے بھائی تھے ،اس لڑکی کی ماں کے پاس گئے اور اپنی طرف سے یہ کہہ کر آ گئے کہ نعمان کی پہلی بیوی کی اولاد نہیں ہے۔ دوسری سے بھی نہ ہوئی تو تم بعد میں ہاتھ ملو گی ۔بہتر ہے سوچ سمجھ کر بیٹی بیاہنا کیونکہ یہ لڑکی کی بھی پہلی نہیں دوسری شاد ی ہو گی۔ یہ سن کر لڑکی کی ماں برگشتہ ہو گئی مگر بیٹی نے ماں کا ساتھ نہ دیا بلکہ بغاوت کر دی اور نعمان سے ملاقاتیں کرنے لگی۔ ادھر ہمارے ساس سسر بیٹے کی دوسری شادی کے خلاف تھے۔ انہوں نے نعمان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ کہتے ہیں بعض اوقات زیادہ ملاقاتیں بھی محبت کے لئے زہر قاتل ہوتی ہیں۔
صحیح کہتے ہیں ، کہ شادی سے قبل کی ان ملاقاتوں سے ہمارے صاحب کا عشق ایک دن اپنی موت آپ مر گیا۔ کیونکہ ان دونوں میں اکثر لڑائی رہنے لگی۔ معشوقہ صاحبہ یہ جان گئیں کہ یہ آدمی دور سے بھلا لگتا تھا لیکن ا س کے ساتھ شادی کر کے عمر بھر کی ذہنی غلامی میں جیون کا سفر طے کرنا خودکشی سےبھی بدتر ہو گا۔
ہمارے صاحب عرصے تک اٹوائی کھٹوائی لئے پڑے رہے اور ٹھنڈی آہیں بھرتے رہے کہ کیا سوچا تھا اور مناہل کیسی نکلی۔ کاش پہلے ہی جان چاتا تو نہ لٹاتا اس طرح گھر کو۔ میں اگر پڑھی لکھی نہ ہوتی تو شاید غموں کے اندھیرے مجھے نگل جاتے۔ تعلیم اس وقت ایک روشن چراغ کی طرح سامنے آئی ، مجھے راہ دکھائی ،نرسنگ میں داخلہ لے لیا کہ اب اور کچھ نہیں کر سکتی تھی اور شفیق ڈاکٹر صاحب کی کوشش سے دوبئی کے ایک اسپتال میں ملازمہ ہو گئی۔ یہاں آ کر زندگی کی کچھ سہولیات میسر آئیں تو تندہی سے ڈیوٹی سر انجام دینے لگی۔ تنخواہ اچھی تھی اور کیا چاہئے تھا ۔اتنے غیر ذمہ دار اور بچکانہ ذہن رکھنے والے بے وفا شوہر کی غلامی سے تو اپنی محنت کی کمائی بھلی تھی۔ مریضوں اور دکھیاروں کی خدمت سے مجھے سکون ملنے لگا۔
کبھی کبھی اپنی اجڑی زندگی پر افسوس بھی ہوتا تھا کہ ناحق دو چاہنے والوں کے ڈرامے میں میری زندگی بھینٹ چڑھ گئی۔ تین سال یہاں جاب میں رہی،ترقی بھی ہوئی البتہ والدہ اور بہن بھائیوں سے دوری ستاتی ضرور تھی۔ گھر سے ملازمت اب میری مجبوری تھی کہ عمر بھر تو کسی پر بوجھ نہ بن سکتی تھی۔
تین سال بعد اچانک بھائی کے ذریعہ خبر ملی کہ تمہارے شوہر صاحب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ بہت تکلیف میں ہیں۔ ٹانگوں کی ہڈیاں کئی جگہ سے ٹوٹی تھیں۔فی الحال تو عرصےتک بستر پر رہیں گے۔ اب رو رو کر تم کو یاد کرتے ہیں کہ میری با وفا بیوی اگر اس وقت پاس ہوتی تو میری خدمت کرتی ۔اب تمہاری مرضی ان کی عیادت کو آئو یا نہ آئو۔
میں نے بھائی کو جواب دیا کہ ان کو ضرورت ہو گی تو خود رابطہ کریں گے۔ انہیں ضرورت پڑ گئی۔ سسر صاحب خود امی اور بھائی کے پاس آئے کہ شاید غفلت کی سزا ملی ہے لیکن اب میرا بیٹا بہت تکلیف میں ہے۔سارہ کو ہر وقت یاد کرتا ہے ۔مہربانی ہو گی، اگر اس سے بات کروا دیں۔ والدہ نے فون پر بات کروا دی۔
سسر صاحب مجھے بیٹیوں کی طرح پیار کرتے تھے۔فون پر ان کو روتا سن کر رہ نہ سکی اور انہی کی منت زاری پر میں پاکستان آ گئی ۔ کافی عرصے بعد گھر گئی تھی۔ اپنا کمرا دیکھ کر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔وہ اسی طرح سجا ہوا تھا جیسے میں چھوڑ کر گئی تھی۔
ساس سسر اسپتال لے آئے۔ نعمان کی حالت دیکھ کر دل تڑپ گیا۔ پٹیوں میں جکڑے، ٹوٹے پھوٹے ،بستر پر نیم جان پڑے تھے۔ مجھے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں زندگی کی چمک عود کر آئی ۔کہا۔ یقین تھا، تم ضرور آئو گی کیونکہ تم ایک اچھی انسان ہو اور اچھا انسان کبھی اپنی اچھائی نہیں چھوڑ سکتا۔
میں کیا کہتی ،بس آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ وہ لمحات یاد آئے جب گھر سے نہ جانے کے لئے منتیں کر رہی تھی اور انہوں نے میری ایک نہ سنی۔مجھے چند جوڑے بھی اٹھانے نہ دیئےکہ تمہارا سامان بعد میں پہنچا دوں گا مگر تم ابھی چلی جائو۔ آج کی رات آنے سے پہلے…..یہ وعدہ میں نے مناہل سے کرلیا ہے۔ خیر جو گزری ،گزر گئی۔ اب تو ایک معذور انسان میرے سامنے بستر پر پڑا تھا اور میں نرس تھی،بیماروں کی خدمت گار۔ میں نے دن رات تندہی سے ان کی خدمت کی اور اس بات کی بھی پروا نہ کی کہ میری نوکری چلی جائے گی۔ دوبئی جاب پر واپس نہ جا سکی اور استعفیٰ بھجوا دیا۔
دن رات زخمی نعمان کی خدمت کی۔زندگی تھی بچ گئے۔ سال بھر بستر پر رہے پھر وہیل چیئر پر آ گئے، یوں حادثے نے سبق دیا۔ اب کہتے کہ تم جیسا کوئی نہیں۔ ایک اور زندگی کاش مل جائے تو تم پروار دوں۔ میں نے تو سب کچھ کسی کے لئے نہیں
تھا۔صرف یہ سوچ کر کیا تھا کہ جب غیروں کی تکلیف پر اُن کی خدمت کرنا فرض جان لیا ہے ،اِن سے تو پھر ایک رشتہ ہے۔ تمام جمع پونجی سے ایک بوتیک کھول لیا کیونکہ سلائی تو ماں نے سکھا دی تھی۔
بوتیک کا کام گھر پر ہو سکتا تھا ۔شوہر کی حالت دیکھتی تھی تو قدم رک جاتے تھے، کہ ان کو معذوری میں چھوڑکر کام پر نہ جاسکتی تھی۔ ساس سسر بوڑھے ہو چکے تھے۔انہوں نے دوسری شادی کرنے پر اپنے بیٹے کو لعن طعن کر کے روکا تھا اور ساتھ نہ دیا تھا اب معذوری میں ان کو چھوڑ جانا زیبا نہ تھا کیونکہ کچھ کام اپنی ذات کو بھلا کر صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بھی لازم ہوتے ہیں۔ آج جبکہ امی، ساس ،سسر اور نعمان کوئی بھی اس دنیا میں نہیں ہے، اس چٹیل زندگی پر دکھ ہوتا ہے۔بہن اور بھائی اپنے اپنے گھروں میں زندگی سے خوش اور آباد ہیں۔
کبھی کبھی ان سے مل آتی ہوں کہ یہی اپنے رہ گئے ہیں جن کے پیار کی مجھے ضرورت ہے۔ وہ صرف رشتہ نبھاتے ہیں اور بس۔ ان کے بال بچے ہیں۔ انہیں اور کسی کے پیار کی حاجت نہیں ہے۔
اس عمر میں جاب نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔سسر صاحب اپنی زندگی میں گھر میرے نام کر گئے تھے۔ آدھے مکان میںرہتی ہوں ، آدھا کرایے پر دے رکھا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔میری آخری عمر کے لئے میرے ساتھ بھلا کر گئے۔ گھر کا سائبان میرے لئے رہنے دیا ورنہ جانے کہاں جاتی ۔ (س ۔ملتان)