والد صاحب اوسط درجے کے زمیندار تھے، ان دنوں اتنی خوشحالی تھی کہ تجوری میں نوٹ اور دالان میں اناج سماتے نہ تھے۔ میں اپنے بھائیوں سے چھوٹی تھی، تبھی والدین کی پیاری تھی۔ خاندان بھر کی مخالفت کے باوجود بابا جان نے مجھ پر تعلیم کے در بند نہ کئے۔ میٹرک پاس کرنے دیا۔ کالج جانے کی اجازت نہ ملی، مگر میرا شوق دیکھتے ہوئے انہوں نے گھر پر ہی ٹیوشن کا انتظام کرا دیا تھا۔
گرلز کالج ہمارے گائوں سے پچاس کلو میٹر دور تھا۔ ڈرائیور وقت مقررہ پر لیڈی ٹیچر صفیہ آپا کو گھر لے آتا۔ وہ دو گھنٹے پڑھاتیں یوں میں نے پرچوں کی تیاری کے بعد بطور پرائیویٹ طالبہ امتحان دیا اور ایف اے پاس کرلیا۔
دونوں بھائی اسد اور اصغر لاہور میں زیر تعلیم تھے اور ہوسٹل میں رہتے تھے۔ رزلٹ آیا تو شاندار نمبروں سے پاس تھی، تبھی والد نے سوچا مشعل کو آگے پڑھانا چاہئے۔ والدہ سے مشورہ کیا تو وہ بولیں۔ لاہور میں مکان خرید لو۔ تینوں بچے ہوسٹل کی بجائے گھر میں رہیں گے، لڑکی بھی اچھے ادارے سے پڑھ لے گی اور نظروں کے سامنے رہے گی۔
ہم گائوں سے شہر آبسے۔ امی خوش تھیں کہ لڑکوں کو ہوسٹل کے کھانے سے نجات ملی اور میں پھولی نہ سماتی تھی کہ لاہور آگئی ہوں، کالج جانے کا موقع ملے گا۔ انسان سوچتا کیا ہے اور کیا ہوجاتا ہے۔ والد صاحب مجھے کالج میں داخل کرانے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ اچانک کار ایکسیڈنٹ سے جاں بحق ہوگئے۔ ان کی کار ٹرک تلے آکر چکناچور ہوگئی اور وہ موقع پر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ان کی وفات کا غم کم نہ تھا کہ قریبی رشتے داروں نے عرصۂ حیات تنگ کردیا۔ وہ ہماری زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ تبھی امی جان نے بیٹوں سے کہا۔ تعلیم چھوڑ کر گائوں چلو ورنہ تمہارے تایا ،چچا قابض ہوجائیں گے۔ بھائی زمین کی خاطر تعلیم کو خیرباد کہنا نہ چاہتے تھے لیکن والدہ کی وجہ سے لاہور کا مکان مقفل کرکے گائوں آگئے۔ یوں میرا کالج میں داخلے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
بھائیوں کو زمینداری کا بالکل شوق نہ تھا۔ اعلیٰ تعلیم ان کا شوق تھا اور مقصد زندگی بھی۔ لیکن اب ’’زمین‘‘ ان کے آڑے آرہی تھی کہ زمینداری کئے بغیر خوشحالی کو قائم رکھنا محال تھا۔
آئے دن تایا اور چچا الجھن پیدا کرنے لگے، تب بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ زمین کو فروخت کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ انہوں نے تایا اور چچا سے بات کرلی اور جو دام انہوں نے لگائے اسی پر سودا نمٹا دیا اور ہمیں لاہور لے آئے۔
ایک سال بعد میرے بھائیوں نے انگلینڈ کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔ مجھے اور امی جان کو لاہور چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔ ہمارے لئے تھوڑی سی رقم بینک میں جمع کرا دی، باقی سرمایہ، خود لے گئے۔ ہمارے پاس بمشکل دو سال کا خرچہ تھا۔ جاتے ہوئے دونوں نے امی جان کو تسلیاں دیں کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی آپ کو بھی لے جائیں گے۔
میں بی اے نہ کرسکی، پریشانیوں میں دو سال گزر گئے۔ بھائیوں نے کچھ عرصہ بعد رابطہ ختم کرلیا اور ہم ماں بیٹی کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے وہاں شادیاں کرلیں یا وہاں کی رنگینیوں میں کھو گئے کچھ نہیں معلوم، بارہا فون کئے خطوط لکھے جواب نہ ملا۔
جب ذریعہ آمدنی نہ ہو۔ قارون کا خزانہ بھی ختم ہوجاتا ہے، ایک دن آیا کہ ہم ماں بیٹی نان شبینہ کو محتاج ہوگئے۔ مکان اپنا تھا، ورنہ شاید فٹ پاتھ پر ہوتے۔ اب ملازمت بنا چارہ نہ تھا لیکن ایف اے پاس کو کون سی معقول ملازمت ملتی ہے۔ امی نے پڑوسن سے کہا تو آنٹی زیب نے مشورہ دیا مشعل کو نرسنگ کا کورس کرالو۔ میں اپنے خاوند سے کہہ کر اسپتال میں ملازمت دلوا دوں گی۔
پڑوسن کے خاوند ڈاکٹر کی سفارش پر نرسنگ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں داخلہ مل گیا۔ ٹریننگ ختم ہوتے ہی ڈاکٹر صاحب نے مجھے بطور نرس اسپتال میں تعینات کرا دیا۔ تب کہیں سانس آیا کیونکہ فاقوں کی نوبت آنے والی تھی، اگر امی جان کے پاس زیورات نہ ہوتے جن کو بیچ بیچ کر اب تک گزارا کیا تھا، تو جانے کیا حشر ہوتا۔
غربت بڑی مجبوری ہوتی ہے۔ نازوں پلی تھی۔ والد صاحب کے زمانے میں نوکروں اور خادمائوں کی ریل پیل تھی اور اب یہ عالم تھا کہ رات رات بھر مریضوں کے سرہانے جاگنا پڑتا تھا۔ نیند کی
ماری کو پلک جھپکنے تک کی اجازت نہ تھی، ڈیوٹی دے کر آتی، شب بیداری سے آنکھیں سرخ اور قدم لڑکھڑا رہے ہوتے، بستر پر گرتی تو تھکن سے نڈھال گھنٹوں اٹھنے کی سکت نہ رہتی۔
یہ میری ملازمت کا پانچواں سال تھا۔ جب ایک روز وارڈ میں ایک ایسے مریض کو لایا گیا، جو بے ہوش تھا فوری ابتدائی طبی امداد کے بعد اس کی دیکھ بھال پر میری ڈیوٹی لگادی گئی۔ جب تک ہوش نہ آجاتا مجھے اس کی انتہائی نگہداشت پر مامور کیا گیا تھا۔
چھ گھنٹے کی مسلسل نگہداشت کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اس کی مسلسل تیمارداری کی وجہ سے مجھے اس سے کچھ اپنائیت سی ہوگئی تھی۔ وہ ایک خوبرو بائیس برس کا نوجوان تھا جس کی چھب امیر زادوں ایسی تھی۔ مگر چہرے پر دکھ کی چھاپ تھی، جیسے بڑے ظلم و ستم سے گزرا ہو۔ اس نے جونہی آنکھیں کھول کر میری جانب دیکھا بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ اے اللہ تیرا شکر ہے۔ ہوش میں آتے ہی اس نے پہلا سوال کیا… میں کہاں ہوں؟ اور تم کون ہو۔ میں نے بتایا کہ آپ اسپتال میں ہیں اور میں آپ کی خدمت پر مامور اسٹاف نرس ہوں۔
پھر ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق میں نے علی شیر کو انجکشن لگادیا ،تھوڑی دیر بعد وہ سو گیا۔
شام کو علی شیر کا دوست زاہد آگیا جس نے اسے داخل کرایا تھا۔ اس کی زبانی معلوم ہوا کہ اس نے اپنے والد کی مرضی کے خلاف ایک لڑکی سے شادی کی تھی، باپ نے عاق کیا تو اس لڑکی نے بھی علی شیر سے طلاق کا مطالبہ کردیا اور جب اس نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کیا تو اس نے کھانے میں زہر دے کر علی شیر سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے عین کھانے کے وقت زاہد آگیا۔ اور علی شیر کو فوری مدد حاصل ہوگئی، بروقت اسپتال لانے پر اس کی جان بچ گئی۔
علی شیر نے اس لڑکی کے خلاف کوئی بیان نہ دیا اور نہ کسی قسم کی کارروائی کی اجازت دی، بلکہ بعد میں خاموشی سے طلاق دے دی۔ بہرحال… جب وہ اسپتال میں تھا۔ اگلے دن میں ڈیوٹی پر پہنچی تو اسے اپنا منتظر پایا، میں نے اسے انجکشن لگایا اور دوا وغیرہ دی۔ ایک ہفتہ یونہی گزر گیا۔ وہ تیزی سے روبہ صحت تھا۔ لیکن کرب ابھی تک اس کے چہرے سے عیاں تھا، میں نے اسے مسکراتے نہ دیکھا تھا، جیسے زندگی کی ساری خوشیاں روٹھ گئی ہوں۔
ایک روز میں نے سوال کیا کہ آپ اتنے افسردہ کیوں رہتے ہیں۔ کہنے لگا۔ بس ایسے ہی… تنہائی کی وجہ سے… تنہا تو بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔ دیکھئے میں بھی تنہا ہوں۔ لیکن اتنی اداس تو نہیں رہتی۔ کسی کسی وقت افسردہ ضرور ہوجاتی ہوں۔
آپ اگر بہت سی نعمتوں کے مالک ہوں یکدم ہر شے سے محروم ہوجائیں، کوئی سہارا نہ رہے، تب کیا کریں گی؟ جیون ساتھی بھی جان لینے کے درپے ہوجائے تو دل کی کیسی حالت ہوجائے گی؟ زاہد جیسے دوست کا سہارا نہ ہوتا تو شاید۔ اتنا کہہ کر وہ چپ ہوگیا۔
شیر علی دیکھو… میں بھی تم جیسی ہوں، ایک بڑے زمیندار کی بیٹی۔ آج یہاں نرس بن کر ڈیوٹی دے رہی ہوں۔ یہ سب اللہ کی مرضی کہ جس حال میں رکھے۔ تم افسردہ نہ ہو۔ تم تو مرد ہو، اپنے زور بازو سے دوبارہ سنبھل سکتے ہو لیکن میں ایک کمزور سی لڑکی۔ کیسے حالات کا ہمت سے مقابلہ کررہی ہوں۔ بوڑھی ماں کا بوجھ کندھوں پر ہے۔ سگے بھائی دھوکا دے گئے ہیں، بس زندگی اسی کا نام ہے۔
میری باتوں نے علی شیر پر جادو جیسا اثر کیا۔ میرے حالات سن کر جیسے وہ اپنا دکھ بھول گیا۔ اس نے کہا… آج شام مجھے اسپتال سے چھٹی ملنے والی ہے۔ کیا اپنے گھر کا پتا دو گی۔ میں تمہارے گھر آنا چاہتا ہوں، تمہاری امی سے ملنا چاہتا ہوں، میں نے پتا دے دیا۔ شام کو وہ اپنے دوست زاہد کے ساتھ اسپتال سے رخصت ہوگیا۔ اس کی یاد میرے دل میں گھر کرچکی تھی۔ رات دن اسی کا خیال رہنے لگا۔ سوچتی کہ جانے کبھی ملاقات ہوگی بھی یا نہیں۔ ہفتہ گزر چکا تھا۔ یہ چھٹی کا دن تھا میں گھر پر تھی اور صفائی کررہی تھی کہ بیل بجی۔ سامنے علی شیر کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔
کیا اندر آنے کا نہیں کہو گی۔ آئیے… پھر میں نے امی کو بلایا۔ امی مہمان آئے ہیں۔
امی کو میں اس کی داستان سنا چکی تھی، انہوں نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ وہ ہمارا ڈرائنگ روم دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک نرس کے گھر کا اتنا قیمتی فرنیچر… وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمارے گھر کو دیکھ رہا تھا، اسے یقین ہوگیا کہ واقعی میں ایک معزز خاندان
تعلق رکھتی ہوں۔
امی جان کی گفتگو سے وہ خوش ہوا اور آنے کا مقصد بتایا کہ میں آپ کی بیٹی سے شادی کا خواہش مند ہوں۔ مجھ کو اپنی فرزندی میں قبول کرلیں تو میری خوش قسمتی ہوگی۔ امی نے چائے وغیرہ سے تواضع کی اور کہا کہ چند روز بعد جواب دوں گی۔
ماں نے مجھ سے کہا کہ لڑکا بات چیت سے اچھے خاندان کا لگتا ہے۔
امی ارب پتی باپ کا اکلوتا فرزند ہے۔ باپ نے ناراضگی کی وجہ سے عاق کردیا ہے۔ کیونکہ جس لڑکی سے شادی کی، وہ صحیح گھرانے کی نہ تھی۔ سسر نے ایسی بہو کو قبول نہ کیا اور بیٹے سے ناتا توڑ لیا۔
امی کو بیٹے کا سہارا چاہئے تھا۔ میرے بھائی گمشدہ ہوچکے تھے۔ انہوں نے میری رائے لینے کے بعد علی شیر کو بلوایا اور رشتے کے لئے ہامی بھرلی۔ اسے گھر اور گھر والوں کی محبت چاہئے تھی اور میری ماں کو گھر داماد۔ یوں سادگی سے میرا نکاح شیر علی کے ساتھ ہوا، جس میں اس کی طرف سے چند دوست اور ہماری طرف سے چند پڑوسی شریک ہوئے۔
علی شیر کرائے کے فلیٹ میں رہتا تھا جبکہ ہمارا گھر ایک کنال پر بنا خوبصورت بنگلہ تھا جو بابا نے میری خاطر خریدا تھا۔ امی کے اصرار پر وہ اپنا اٹیچی کیس اور کمبل لے آیا اور فلیٹ چھوڑ دیا۔
علی شیر بے روزگار تھا۔ میں نے ملازمت نہ چھوڑی۔ ہم اچھے دنوں کے انتظار میں خوشی کے ساتھ وقت گزارنے لگے۔ ایک روز چھٹی کے دن ہم سیر کرنے پارک میں گئے۔ میں نے اسے موٹر سائیکل لے کر دی تھی۔ اور اس وقت ہم اسی پر گئے تھے کہ اچانک ایک بزرگ کو اپنی جانب آتے دیکھا۔ یہ شیر علی کے والد تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو اور کیا نام ہے تمہارا بیٹی۔
میں زرداد خان کی بیٹی ہوں اور داد گائوں کی عزت ہوں، جو میرے دادا مرحوم صاحب داد کے نام پر ہے۔ یہ سنتے ہی بزرگ نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ کہنے لگے بیٹی تمہارے والد میرے بہت قریبی دوست تھے، وہ خوش حال زمیندار تھے اور تم موٹر سائیکل پر گھوم رہی ہو۔
میں ان کی منکوحہ ہوں اور ان کے پاس موٹر سائیکل ہی ہے، اسی لئے اسی سواری پر گھوم رہی ہوں۔
اچھا… ٹھیک ہے… تم میری بہو ہو… زرداد کی بیٹی۔ آئو میری گاڑی میں بیٹھو… اور پھر بیٹے کو حکم دیا۔ نالائق تم گاڑی کے پیچھے آئو۔ یوں وہ ہم کو گھر لے گئے، کہنے لگے اپنے دوست کی خاطر میں نے اس نالائق کو معاف کیا ہے تاکہ یہ تم کو اس طرح سڑکوں پر لے کر نہ پھرے۔ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ میرے سسر افتخار، بابا جان کے اتنے گہرے دوست ہوں گے۔ دونوں نے ہمیشہ دکھ سکھ کے موقعوں پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا۔ انکل افتخار کا یوں مجھ سے ملنا ایک معجزہ ہی تھا۔ کہتے ہیں کہ برے دنوں کے بعد اچھے دن ضرور آتے ہیں۔ معزز باپ کی بیٹی جو خود غرض بھائیوں کے باعث رُلی، اسے اللہ نے دوبارہ عزت دار گھر دے دیا۔ جبکہ علی شیر کہتے تھے تم نے بغیر کسی لالچ کے مجھ سے شادی کی تو اللہ نے تمہیں اس کا صلہ دیا ہے۔ بے شک جب وہ کوڑی کوڑی کو محتاج تھے، امی نے ان کو گلے لگایا کیونکہ ان کی جہاں دیدہ نظروں نے پہچان لیا تھا کہ یہ لڑکا دھوکے باز نہیں ہے بلکہ ہماری طرح حالات کا شکار ہے۔ امی کہا کرتی تھیں کہ اچھے خاندان کے افراد سے اچھائی کی توقع رکھنی چاہئے۔ جن کی رگوں میں شریف خون ہوتا ہے وہ دھوکا نہیں کرتے۔ یہ بات علی شیر پر تو صادق آتی تھی، لیکن اپنے بھائیوں کے بارے میں جب سوچتی تھی تو عقل ساتھ نہیں دیتی تھی۔
وہ بھی تو شریف خاندان سے تھے، پھر کیوں ہم کو بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے گئے۔ ماں کا دل، ماں کا ہوتا ہے وہ اولاد کی سچی محبت سے لبریز ہوتا ہے۔ امی آج بھی اپنے بیٹوں کی سلامتی کے لئے دعا کرتی ہیں۔ اس انتظار میں جی رہی ہیں کہ کبھی ان کو ہماری یاد آئے گی اور وہ ہم سے رابطہ کریں گے۔
مجھ پر اللہ نے خاص کرم کیا ہے۔ آج شاہانہ اندازسے زندگی بسر کررہی ہوں۔ امی میرے ساتھ رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ہے۔ ساس سسر کی تابعدار ہوں، وہ بھی مجھے اولاد کی طرح چاہتے ہیں، بس ایک کمی ہے… جب بھائیوں کی یاد آتی ہے تو آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ (ش … لاہور)