مراد میرے چچا کا بیٹا تھا اور ہماری منگنی اس وقت بزرگوں نے کردی جب ہم ابھی چھٹی، ساتویں میں پڑھتے تھے۔ چچا سبحان اور بابا جان میں بہت محبت تھی۔ وراثت اور کاروبار جو دادا جان کی ملکیت تھا، ان کی وفات کے بعد بھی دونوں بھائیوں نے آپس میں تقسیم نہ کیا تاکہ ایک جگہ رہیں اور مل کر زندگی گزاریں کہ اتفاق میں برکت ہے۔ وقت گزرتا رہا، ہم سب ساتھ رہتے رہے۔ والد اور چچا، بھائی ہی نہیں بزنس پارٹنر بھی تھے۔ سچ ہے اتفاق میں برکت ہے۔ جب دونوں نے ایک دوسرے پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بزنس میں اتنی وسعت اور برکت عطا کی کہ دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ہم ایک پرعیش خوش باش زندگی گزارنے لگے۔
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں بھائیوں کے بچے جوان ہوچکے تھے۔ چچی ہماری شادی کرنے کا سوچ رہی تھیں، تبھی والد صاحب نے تجویز دی کہ اب گھر چھوٹا پڑتا ہے، بچوں کو شادیوں کے بعد علیحدہ گھر کی ضرورت محسوس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے، کیوں نہ پہلے گھر بنوا لیں اور پھر شادیاں کریں؟ چچا جان بولے۔ بھائی صاحب! اب جو چاہیں کریں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ والد صاحب نے ایک اچھے علاقے میں دو پلاٹ خریدے اور ان پر ایک جیسی دو کوٹھیاں تعمیر کرا لیں۔ ارادہ تھا کہ نئے گھر میں منتقل ہوتے ہی میری شادی مراد اور میرے بھائی اشعر کی شادی مراد کی بہن شہربانو سے کردیں گے۔
وہ خوشی کا دن بھی آگیا جب کوٹھیوں کے لئے نیا سامان اور فرنیچر خریدا گیا اور ہم دونوں کنبے اپنی اپنی کوٹھی میں شفٹ ہوگئے۔ دیوار سے دیوار ملی ہوئی تھی لیکن گھر الگ ہوگئے۔ چچی امی کی خالہ زاد تھیں، ان کا نام فرح تھا۔ اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنا چچی کے نصیب میں نہ تھا۔ وہ نئے گھر میں جاتے ہی بیمار پڑگئیں اور چھ ماہ بعد اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ہم سب کو چچی کی وفات کا شدید صدمہ تھا، مگر اللہ کی رضا کے آگے بے بس تھے۔ کچھ دن سوگوار رہے۔ چچا کے گھر میں رہنے کے لئے پھپھو آگئیں تاہم وہ بھی زیادہ عرصہ نہ رہ سکتی تھیں، ان کے اپنے بچے تھے۔ وہ فیصل آباد میں رہتی تھیں۔
ایک دن چچا سے کہا کہ سبحان بھائی! کب تک تمہارے گھر رہوں گی۔ باربار ان کے فون آرہے ہیں کہ اب گھر آجائو، مجھے اجازت دو تاکہ میں فیصل آباد جاسکوں۔ چچا یہ سن کر اداس ہوگئے۔ کہنے لگے۔ بہن…! تمہاری مجبوری اپنی جگہ لیکن تم چلی گئیں تو میرے گھر اور بچوں کا کیا ہوگا۔ ابھی مجھے بڑے دونوں بچوں کی شادیاں کرنی ہیں۔ مراد اور شہر بانو کی شادی تک تو ٹھہر جائو۔ یہ ممکن نہیں ہے بھائی! میری مانو تو تم اپنی شادی کا پہلے سوچو، تمہارے پانچ بچے ہیں۔ مراد اور شہر بانو کے بعد ان کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ وہ ابھی اسکول جاتے ہیں، شہر بانو کو بیاہ دو گے تب تمہارے گھر اور دوسرے بچوں کا کیا بنے گا؟ شادی کرلو گے تو تمہاری دوسری بیوی گھر سنبھال لے گی۔ ابھی تم جوان ہو، آگے بھی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ غرض پھپھو نے دن، رات چچا کے کان کھائے اور ان کو دوسری شادی پر آمادہ کرلیا۔ پھپھو کی ایک نند عظمیٰ جو شادی کے دو سال بعد بیوہ ہوگئی تھی، انہوں نے چچا جان سے اس کی شادی کروا دی۔ اپنے سر سے بھی بوجھ ہلکا کیا اور بھائی کا گھر بھی اپنی دانست میں دوبارہ آباد کرا دیا۔
گھر تو آباد ہوگیا لیکن عظمیٰ زیادہ وسیع دل کی مالک عورت نہ نکلی۔ اس نے آتے ہی مختلف قسم کی منصوبہ بندیاں شروع کردیں۔ پہلے چچا کو دن، رات یہ باور کرایا کہ بزنس میں سارا وقت محنت تم کرتے ہو اور مفت میں تمہارا بھائی منافع کا مالک بن جاتا ہے۔ مراد اور فراز دونوں کے مستقبل کا سوچو، ان کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کرلو اور جیٹھ کو علیحدہ کاروبار کرنے دو۔ ان کے بھی بیٹے ہیں بعد میں جھگڑے جنم لیں گے۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ چچا کبھی ابو سے علیحدہ ہونے کا سوچیں گے، مگر عظمیٰ میں کچھ ایسی طاقت تھی، وہ شوہر کو میرے والد سے بدگمان کرکے رہی۔ جہاں محبت بڑھ جائے، حاسد آگ بھی لگا دیتے ہیں۔ نئی چچی نے ایسا ہی کیا۔ ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ وہ حد آگئی جب چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کے سامنے کاروبار الگ کرنے کی تجویز پیش کردی۔ حساب کتاب پر اصرار کیا اور پھر روپے پیسے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ غلط فہمیاں بڑھتی ہیں تو دل بھی ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں۔ بالآخر والد صاحب کو کاروبار الگ کرنا پڑا۔ بابا جان اپنے بھائی سے ازحد محبت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے حصے کا سرمایہ لے لیا اور چلتا ہوا کاروبار چچا جان کو دے دیا۔ اس بٹوارے کا سب سے بڑا نقصان ہم بچوں کو ہوا۔ بچپن کے طے شدہ رشتے کھٹائی میں پڑ گئے اور والد صاحب نے ایک اور شخص کے ساتھ شراکت میں نیا کاروبار شروع کردیا۔
ہر شخص کا اپنا نصیب ہوتا ہے۔ بابا جان کا ستارہ گردش میں آچکا تھا کہ نئے پارٹنر کے ساتھ کاروبار جم نہ سکا۔ وہ من مانی کرنے والا شخص تھا جس نے میرے والد کے تجربے اور دانش سے زیادہ اپنی رائے کو اہمیت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا نیا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ والد صاحب کو نیا گھر فروخت کرنا پڑا، جس کو چچا جان نے خرید لیا اور درمیانی دیوار گرا کر کوٹھی کو وسیع و عریض کرلیا۔ والد صاحب ہم کو لے کر شہر کے پرانے علاقے میں بوسیدہ سے گھر میں شفٹ ہونے پر مجبور ہوگئے۔
چچا کی قسمت کا ستارہ ان دنوں عروج پر تھا۔ ان کے دونوں بیٹے جوان تھے۔ انہوں نے ان کو اپنے ساتھ کاروبار میں شامل کرلیا۔ دونوں سمجھدار اور تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے محنت اور لگن سے کام میں معاونت کی تو ان کے بزنس کو چار چاند لگ گئے۔ دو سال میں ہی وہ امیر کبیر ہوگئے۔ بیٹوں نے کاروبار کو سارے ملک میں پھیلا دیا۔ اب دولت سنبھالے نہیں سنبھلتی تھی۔ چچا کہتے تھے۔ عظمیٰ بڑی زیرک اور سمجھدار خاتون ہے۔ میری کتنی اچھی قسمت ہے کہ ایسی دانا عورت مجھے ملی ہے۔ اس کے آنے سے میرے بخت کھل گئے ہیں۔
والد کو کاروبار سے الگ کرکے بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن بابا جان کے مقدر کا سورج غروب ہوگیا۔ غلط شخص کو پارٹنر بنا کر وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔ ادھر کاروباری پریشانیاں تھیں، ادھر انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کھائے جاتی تھی۔ میں بی اے کرنے کے بعد گھر بیٹھ گئی تھی اور اشعر ابھی انجینئرنگ کے آخری سال میں تھا۔ باقی بھی زیرتعلیم تھے۔ والد سے چچا نے ملنا جلنا کم کردیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ عید پر بھی انہیں فرصت نہ ملتی تھی کہ بابا جان کی خبر لیتے۔ زیادہ تر بیوی کے رشتے داروں میں مگن رہنے لگے تھے۔ عظمیٰ چاہتی تھی کہ اپنے سوتیلے بچوں کے رشتے اپنے بہن، بھائیوں کے بچوں سے کرا دے، کیونکہ یہ امیر باپ کے بچے تھے۔ بابا جان سخت الجھن میں تھے۔ میری شادی کی عمر نکلی جاتی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ماضی سے رشتہ توڑا جاسکتا تھا اور نہ جوڑا جاسکتا تھا۔
جب عظمیٰ چچی نے مراد کی شادی کا ذکر چھیڑا تو اس نے والدین سے کہا کہ نویدہ سے منگنی ہوئی تھی، میں شادی اپنی منگیتر سے ہی کروں گا۔ ادھر امی جان نے میرے لئے رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا تو میں نے ان کو صاف کہہ دیا کہ شادی مراد کے سوا کسی اور سے نہیں کروں گی۔ والدہ نے سمجھایا۔ ان لوگوں نے ہم سے بہت دوری اختیار کرلی ہے لہٰذا اب ایسا ممکن نہیں۔ وقت وقت کی بات تھی، اب ہم ان کے برابر کے نہیں رہے۔ وہ تم سے مراد کی شادی نہ کریں گے۔ اگر عمر بھر بڑے بھائی کے ساتھ رہتا تو اتنی ترقی کبھی نہ کرسکتا ان سے الگ ہوکر ہی اب ہم بڑے صنعتکاروں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ چچا سبحان نے پھپھو سے کہا تھا۔ والد جان چکے تھے کہ سبحان کی سوچ میں بڑی تبدیلی آچکی ہے۔ ان کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے قائم ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے غریب بھائی کو خاطر میں لانے والے نہیں ہیں۔
میں نے امی سے اصرار کیا کہ آپ لوگ بھی تو ان سے نہیں ملتے۔ اگر وہ نہیں آتے تو آپ ہی چلے جایئے۔ معلوم تو ہو کہ ان کے دل میں ہمارے لئے کتنی جگہ باقی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مراد نہیں بدلا ہے۔ اس کا دل کبھی نہیں بدل سکتا۔ کم ازکم یہ تو معلوم کریں کہ منگنی قائم رکھی ہے یا توڑ چکے ہیں۔ اگر توڑ دی ہے تو اعلان کردیں۔ میرے کہنے پر والدین وہاں گئے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم پرانے رشتے کو ختم کرچکے ہیں۔ بزرگوں کی، کی ہوئی منگنیوں کے پابند نہیں رہے۔ امی نے مجھے بتایا تو ذہن میں دھماکا ہوا۔ مراد بھی والدین کو قائل نہ کرسکا جو کہتا تھا کہ میں تمہارے لئے اپنی جان دے دوں گا۔
چار سال پلک جھپکتے گزر گئے۔ اشعر نے تعلیم مکمل کرلی، ملازمت پر لگ گیا جس سے گھر کے حالات کچھ سنبھل گئے۔ چچا جان نے اس کی منگیتر شہربانو کی شادی ایک صنعتکار کے بیٹے سے کردی۔ کار، بنگلہ اور لمبا چوڑا جہیز بھی دیا۔ اسی طرح انہوں نے مراد کی شادی بھی ایک بہت زیادہ امیر گھرانے میں کی۔ لڑکی قیمتی، جہیز اور وہ سب کچھ لائی جس کی توقع کی جاسکتی تھی۔ انہی دنوں میرے دوسرے بھائی انور نے بھی تعلیم مکمل کرلی اور اسے بینک میں نوکری مل گئی۔ اشعر چار سال کیلئے بیرون ملک چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ برے دنوں کے بعد اچھے دن ضرور لاتا ہے۔ رفتہ رفتہ والد صاحب کا کاروبار جمنے لگا۔ جب تک اشعر کی واپسی ہوئی، ہم پھر سے خوشحال ہوچکے تھے۔ اس کو آتے ہی اعلیٰ عہدہ مل گیا۔ والد نے دوبارہ نئی کوٹھی خرید لی۔ ادھر چچا جان بیمار پڑ گئے اور کاروبار سنبھالنے سے معذور ہوگئے۔ تمام معاملات بیٹوں کو سنبھالنے پڑ گئے۔ فراز چھوٹا بھائی، مراد سے الجھنے لگا۔ وہ برے دوستوں کے چنگل میں پھنستا گیا۔ ان میں اختلافات شروع ہوگئے۔ دونوں کی بیویوں میں بھی نہیں بنتی تھی۔ پہلے گھر علیحدہ ہوئے پھر کاروبار الگ ہوا۔ بالآخر ان کی خوشحالی کو زوال آنے لگا۔
مراد کی بیوی بڑے امیر گھرانے کی لڑکی تھی۔ شوہر کے مالی حالات ٹھیک نہ رہے تو اس نے بھی مسائل پیدا کرنے شروع کردیئے۔ روز جھگڑ کر میکے جا بیٹھتی۔ ایک دن باپ کے گھر گئی تو واپس نہ آئی اور خلع لے لیا۔ جب مراد سے اس کی بیوی نے طلاق لے لی اور چھوٹے بھائی کی بیماری کا سنا تو والد صاحب ایک بار پھر گئے تاکہ بھائی کی مدد کریں اور میرے اور مراد کے دوبارہ رشتے کی بات کریں۔ عظمیٰ نے بیمار شوہر کی نہ چلنے دی اور مجھے بطور بہو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے مراد تک یہ معاملات پہنچنے سے پہلے ہی بات مٹی میں ملا دی۔ والدین پریشان لوٹ آئے۔ میں جو امید کی بادصبا سے کھل اٹھی تھی، پھر سے مرجھا گئی۔ کچھ عرصے بعد سنا کہ
چچا جان فیصل آباد چلے گئے ہیں جہاں ان کی بیوی کا میکہ تھا۔ انہوں نے مراد کیلئے اپنے بھائی یعنی پھپھو کے دیور کی بیٹی لے لی۔ پھپھو نے بھی اپنے شوہر کی خوشنودی کی خاطر دیور اور نند یعنی عظمیٰ کا ساتھ دیا۔ مراد کو فیصل آباد میں ان لوگوں نے کاروبار کروا دیا اور مالی طور سے سیٹ کردیا۔ غالباً اسی باعث اس نے سوتیلی ماں اور پھوپی کی بات مان لی کہ چچا کی علالت بڑھ گئی تھی۔ اس نے چھوٹے بہن، بھائیوں کو بھی سہارا دینا تھا۔ مراد سے دوسرے نمبر والے بھائی فراز نے سب سے الگ اپنی دنیا آباد کرلی تھی۔ وہ ماں، باپ کو پوچھتا تھا اور نہ بھائی، بہنوں کو…! اپنی بیوی کا ہوکر رہ گیا تھا۔
مجھے مراد کی شادی کے بارے میں کچھ خبر نہ تھی۔ میں ابھی تک اس کی آس میں جی رہی تھی۔ اس کی بیوی اچھی ثابت ہوئی مگر وہ اپنے دل سے میری محبت کو نہ نکال سکا۔
چچا جان کا انتقال ہوگیا۔ چچی نے اطلاع دی۔ ہم فیصل آباد گئے۔ مدت بعد مراد سے سامنا ہوا۔ میں نے شکوہ کیا کہ تم ہمارے گھر نہیں آتے۔ کسی نے تمہارے ہاتھ، پائوں تو نہیں باندھ دیئے۔ وہ شرمندہ تھا کہا کہ کسی روز ضرور آئوں گا۔ واپسی پر والد صاحب کو ایک اچھا رشتہ بتایا گیا تو سب نے مجھے سمجھا بجھا کر مجبور کردیا۔ والدہ نے بھی کہا کہ مراد دوبارہ شادی کرچکا ہے۔ اگر چاہتا تو پہلی بیوی کی طلاق کے بعد شادی کرسکتا تھا، مگر اس کے دل میں ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ تم کس لئے شادی نہ کرکے ہم کو تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے ہو۔ ماں، باپ کو مجبور دیکھ کر میں نے ان کی رضا کے آگے سر جھکا لیا اور میری شادی بابا جان کے دوست کے بیٹے انیس سے ہوگئی۔
میری شادی کے بعد مراد ایک دن اچانک بابا جان کے گھر آگیا۔ میں بھی اتفاق سے میکے آئی ہوئی تھی۔ جب امی نے اسے بتایا کہ نویدہ کی شادی ہوگئی ہے تو وہ سکتے میں آگیا جیسے اس خبر سے اسے بہت دکھ پہنچا ہو جو شخص دوسری شادی کرچکا تھا۔ وہ اب بھی میری شادی کی خبر سن کر صدمے میں آگیا تھا۔ حیرت کی بات تھی وہ تمام وقت بجھا بجھا رہا اور بغیر کچھ کھائے پیئے چلا گیا۔ میرے شوہر کا بھی سامنا نہ کیا۔
یہ سب تقدیر کے کھیل ہوتے ہیں۔ شادی اور ملاپ، جینا مرنا…! انسان تو بس ایک کھلونا ہے، تقدیر کے ہاتھوں…! مراد کے جانے کے بعد میں نے سوچا تھا وقت کو کون تھام سکتا ہے۔ اسے گزرنا ہوتا ہے، گزرتا چلا جاتا ہے۔ دس برس پلک جھپکتے بیت گئے۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نہ نوازا جس کا میرے خاوند کو بہت قلق تھا۔ میں سمجھاتی تھی۔ آپ دکھ نہ کریں، اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ہی بندے کی بندگی میں شامل ہے۔ میں نے کبھی اللہ سے شکوہ نہیں کیا، آپ کیوں کرتے ہیں؟
زندگی بری بھلی جیسی تھی، گزر رہی تھی کہ ایک روز حادثے نے میری رہی سہی امید کو بھی بجھا دیا۔ انیس کام پر گئے، واپسی میں ان کے زخمی ہونے کی اطلاع آگئی۔ ایک ٹرک سے ان کی کار ٹکرا گئی تھی۔ ہم دوڑے ہوئے اسپتال گئے مگر وہ اتنے شدید زخمی تھے کہ جانبر نہ ہوسکے۔ سسرال میں عدت کے دن پورے کرکے میکے آگئی۔ وہاں اب کس کے لئے رہتی۔ جس سے ناتا تھا، وہ ٹوٹ چکا تھا۔ اس واقعہ کی اطلاع مراد کو بھی ہوگئی۔ وہ امی کے پاس تعزیت کرنے آیا اور مجھے بھی تسلی دی۔ کہا۔ میرے ہوتے خود کو بے سہارا مت سمجھنا۔ میں جب تک زندہ ہوں، تم بے سہارا نہیں ہو۔ اس کے ان الفاظ نے میرے تن مردہ میں نئی روح پھونک دی اور میں پھر سے جی اٹھی۔
پانچ برس بیت گئے۔ امی، ابو بھی اس دنیا سے جاچکے تھے، بھابھیوں کا سلوک مجھ سے بہت برا اور ہتک آمیز تھا۔ بھائی بھی میری پروا نہ کرتے تھے۔ دل زندگی سے بیزار ہوچکا تھا۔ بالآخر ایک روز مراد کے آفس کا پتا معلوم کرکے اس سے ملنے چلی گئی۔ شکر کیا وہ آفس میں موجود تھا۔ اب وہ اور میں خودمختار تھے اور اپنے فیصلے کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ اس نے میری آمد پر حیرت اور خوشی کا اظہار کیا اور آنے کا سبب دریافت کیا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ تم نے کہا تھا میرے ہوتے ہوئے تم خود کو بے سہارا مت سمجھنا۔ جب تک میں زندہ ہوں، تم بے سہارا نہیں ہو۔
ہاں! کہا تھا مگر خیریت تو ہے…؟ بھابھیاں مجھ سے اچھا سلوک نہیں کرتیں۔ تمہیں یاد دلانے آئی ہوں۔ مراد! میں چاہتی ہوں تم مجھ سے نکاح کرلو تاکہ مجھے باعزت سہارا اور اپنا گھر مل جائے۔ تم اتنے خوشحال ہو کہ مجھے اپنی پہلی بیوی سے علیحدہ مکان میں رکھ سکتے ہو۔ آئو ہم ایک ہوجائیں اور باقی زندگی ساتھ گزاریں۔
میری بات سن کر وہ میرا منہ تکنے لگا جیسے میں نے انہونی بات کہہ دی ہو۔ نویدہ…! لیکن یہ ایک مشکل بات ہے۔ میری بیوی ہے اور چار بچے ہیں۔ میں ان کو کیسے سمجھائوں گا، کیا جواب دوں گا جبکہ بیوی نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ ہر طرح سے میرے آرام اور سکون کا خیال رکھا ہے۔ بے شک تم اپنی بیوی، بچوں کا پوری طرح خیال رکھنا۔ ان کو زیادہ وقت دینا، میں تمہیں کبھی پریشان نہ کروں گی، لیکن مجھ سے شادی کرلو۔ تمہارے سوا میں اب کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی لیکن مجھے بقیہ زندگی کے لئے سہارا چاہئے۔ اپنے بھائیوں کے گھر باقی زندگی نہیں گزارنا چاہتی۔
نویدہ…! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ ہماری شادی کی عمر نکل چکی ہے۔ تمہیں سہارے کی ضرورت ہے، وہ میں تمہیں دوں گا۔ ہر ماہ جتنی رقم تمہیں درکار ہوگی، باقاعدگی سے تمہارے بینک اکائونٹ میں جمع کراتا رہوں گا لیکن تم سے شادی نہیں کرسکتا۔ بیوی کو ناراض کروں گا، اولاد بھی مجھ سے ناراض ہوجائے گی۔ میرا کنبہ مجھ سے دور ہوجائے گا۔ ان کو صدمہ دینا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ میری دوسری شادی سے جو اولاد کے مسائل پیدا ہوں گے، وہ ہم دونوں کو سکون سے جینے نہ دیں گے۔
اس سے آگے میں نہ سن سکی۔ وہ روکتا رہ گیا، میں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ اس کے دفتر سے اسٹیشن آگئی اور واپس لاہور کے لئے روانہ ہوگئی۔ گھر آکر لگا جیسے زندگی بھر اپنے دل میں جس محبت کے سرمائے کو ساری دنیا سے چھپا کر رکھا تھا، وہ کہیں گرا آئی ہوں، کھو دیا ہے یا کسی نے چھین لیا ہے۔
میں اتنی خالی خالی ہوگئی کہ اپنی حیثیت مجھے تنکے سے بھی ہلکی لگی۔ آج پتا چلا کہ جس خواب کے سہارے جی رہی تھی، وہ بس کانچ کا کھلونا تھا۔ اتنی مدت اسے سنبھالتی رہی مگر اسے ٹوٹنا تھا سو ٹوٹ گیا۔ اب باقی عمر ویسے ہی گزارنی تھی، جیسی گزر رہی تھی۔ بھابھیوں اور ان کے بچوں کی خدمت کرکے، ایک اہانت بھری زندگی…! جیسے میں بوجھ ہوں ان پر اور خود پر بھی! سو آج تک اسی طرح زندگی کے دن پورے کررہی ہوں کہ یہی میرا نصیب ہے۔
(ن… لاہور)