Friday, May 16, 2025

Majbori Ki Shahdi

والد صاحب کی شہر میں چھوٹی سی دکان تھی جس میں دیگر اشیاء کے علاوہ کچھ اسٹیشنری کی چیز میں قلم کاپیاں وغیرہ ہی رکھی ہوئی تھیں۔ دُکان سے گھر کا گزارہ چل رہا تھا اور یہ آمدنی کا واحد ذریعہ تھی۔ والد صاحب گھر کے کفیل تھے۔ ہم سب بہن بھائی ان دنوں زیر تعلیم تھے۔ والد صاحب کا معمول تھا فجر کی نماز کے بعد تلاوت کلام پاک کرتے ، پھر ناشتہ کر کے دُکان پر چلے جاتے اور رزق حلال کی اُمید پر بیٹھ جاتے۔ قریب ہی لڑکیوں کا اسکول تھا، جو چھٹی کے بعد ان سے کچھ نہ کچھ خریدنے آجاتی تھیں۔ وہ اکثر دکان کے سامنے سے گزر کر اسکول جاتیں۔ ایک روز آباجان نے دیکھا کہ ایک لڑکی پریشان سی، تیز تیز قدم اٹھاتی جارہی ہے اور اس کے پیچھے دو آوارہ قسم کے لڑکے تعاقب کرتے اور آوازیں کستے چلے آرہے ہیں۔ والد صاحب سے رہا نہ گیا۔ وہ دُکان سے باہر آئے اور لڑکوں کو روک کر بُرا بھلا کہنے لگے۔ اس پر ایک گستاخ لڑکا بولا۔ بزرگو! اپنی راہ لو۔ یہ آپ کی بچی تو نہیں ہے ، پھر کیوں بے حال ہو رہے ہو ؟ یہ سُن کر ان کو غیرت آئی اور جوتا اتار کر اس کو مارنے کو لپکے تبھی سامنے والی دکان سے کچھ لوگ آگئے۔ انہوں نے والد صاحب کو پکڑ لیا اور بولے۔ بٹ صاحب، چھوڑیئے، ان بدمعاشوں کے منہ مت لگیئے۔ بیچ بچائو میں وہ دونوں بد معاش بھاگ گئے اور ابو غصے پر بمشکل قابو پا کے دُکان پر آبیٹھے۔ کہنے لگے ، میاں عزت سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ یہ لڑکی اکثر میری دُکان سے کاپیاں وغیرہ خریدتی ہے اور بہت شریف لڑکی ہے تبھی مجھ سے برداشت نہ ہوا، ورنہ میں کسی کے معاملے میں نہیں پڑتا۔ خیر ، بات آئی گئی ہو گئی۔ ہفتہ گزرا تھا کہ وہ دونوں آوارہ لڑکے اپنے دو اور بد معاش ساتھیوں کے ہمراہ آگئے اور دُکان میں گھس کر والد صاحب پر حملہ کر دیا۔ وہ کونے میں بچھے تخت پوش پر نماز پڑھ رہے تھے اور سجدے میں تھے انہوں نے پشت سے وار کیا۔ چاقو کافی تیز اور بڑے پھل والا تھا، ان کے دل تک پہنچ گیا اور وہ پل بھر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ دوسروں کے لئے یہ بھلا دینے والا واقعہ ہو گا لیکن ہمارے لئے تو سانحہ جانکاہ تھا۔ اس واقعے نے ہماری بنیادیں ہلا دیں۔ جس گھر کا واحد کفیل چل بسے اور بچے طالب علم ہوں، اس گھرانے کی بعد میں کیا حالت ہو گئی ہو گی۔ بھائی ان دنوں ایف اے میں پڑھ رہا تھا اور میں گریجویشن مکمل کر چکی تھی۔ تعلیم اور ملازمت حاصل کرنا،  گویا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ نوکری کی تلاش میں سرگرداں تھی تاکہ گھر سنبھال سکوں۔ بہت بھاگی دوڑی مگر ملازمت نہ ملی محلے میں جگہ جگہ پرائیویٹ اسکول کھلے ہوئے تھے مگر تنخواہ اتنی کم کہ اسکول آنے جانے کا خرچہ بھی پورا نہ ہوتا۔ تلاش بسیار کے باوجود ملازمت نہ ملی تو گھر بیٹھ بے بسی اور اسکول کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی۔ اس طرح کچھ آمدنی کی سبیل نکلی اور دو وقت کی روٹی دال کے اسباب پیدا ہو گئے۔ یہ وقت ہم نے بڑی مشکل سے کاٹا، یہاں تک کہ بھائی صمد نے تعلیم مکمل کرلی۔ خوش قسمتی سے انہی دنوں میرے والد کے ایک دوست دوسرے شہر سے آئے۔ جب ان کو پتا چلا کہ والد صاحب اس دُنیا میں نہیں رہے تو وہ ان کی تعزیت کو ہمارے گھر آگئے۔ شیخ صاحب، والد صاحب کے بچپن کے دوستوں میں سے تھے اور اب صاحب حیثیت ہو گئے تھے۔ ہمارے مالی حالات دیکھ کر افسردہ ہو گئے اور بھائی کو دفتر آنے کو کہا۔ صمد اگلے دن شیخ صاحب کے دفتر گیا۔ انہوں نے اسے اپنے آفس میں ملازمت دے دی۔ انہی دنوں ہمارے تایا جان جو بے اولاد تھے ان کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے کافی دولت و جائیداد بنالی تھی۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی جائیداد سے کافی حصہ ہم کو مل گیا۔ یوں اچانک ہمارے حالات سدھر گئے۔ جب گھر میں خوشحالی آجائے تو سبھی کا جی چاہتا ہے کہ خوشیاں منائیں۔ ہماری امی کی خوشی یہ تھی کہ بھائی کی شادی کا سہرا دیکھیں۔ ادھر ہم صمد کی شادی بارے سوچ رہے تھے ادھر وہ اپنی پسند کے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے مگر بتانے سے ڈرتے تھے کیونکہ ہمارے گھر کا ماحول ایسا نہ تھا۔ میں اپنے بھائی سے پیار کرتی تھی اور اس کی خوشی مجھ کو عزیز تھی۔ ایک دن صمد سے پوچھ ہی لیا کہ اگر تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے تو بتا دو، میں امی کو راضی کرلوں گی۔ تب اس نے بتایا کہ آپا! ایک لڑکی جس کا نام ماہم ہے، میرے ساتھ آفس میں کام کرتی ہے۔ وہ مجھے اچھی لگتی ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتاہوں لیکن لڑکی سے بات نہیں کی ہے، یوں تو بات چیت ہم کرتے ہیں مگر شادی بارے بات کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ نہیں معلوم وہ رشتہ قبول کرے گی بھی یا نہیں ؟ میں نے کہا۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم شیخ صاحب کو درمیان میں ڈال دیں۔ وہ باس ہیں اور ہمارے مالی حالات بھی اب بہت بہتر ہیں، میرا نہیں خیال کہ لڑکی والے انکار کریں گے۔ البتہ لڑکی کارشتہ اگر پہلے سے کہیں طے ہے تو کچھ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ میں نے امی سے اور انہوں نے شیخ صاحب سے ذکر کیا۔ وہ بولے۔ لڑکی اچھی ہے اور اس کے والد سے میری پرانی جان پہچان ہے۔ آپ میرے ساتھ چلئے لڑکی دیکھ لیجئے اور پھر بات چلاتے ہیں۔ امید ہے کہ رشتہ مل جائے گا۔ شیخ صاحب نے مجھے اور امی کو ماہم سے ملوایا، وہ بہت اخلاق سے ملی اور ہم کو پہلی ملاقات میں پسند آگئی۔ ہم اس سے شیخ صاحب کے آفس میں ملے تھے ، بعد میں انہوں نے ماہم کے والد سے بات کی تو انہوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ لڑکی کے والدین اور ماہم کا گھرانہ ہم کو پسند آیا۔ امی نے رشتے کا معاملہ شیخ صاحب پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے ہی لڑکی والوں سے مزید بات چیت کی اور ہاں ہو گئی۔ اس کے بعد ماہم نے دفتر آنا بند کر دیا اور گھر بیٹھ گئی۔ ان لوگوں کے گھر کا ماحول ہمارے گھر کی طرح خالصتاً مشرقی تھا۔

وہ دن بھی آگیا جب ماہم دُلہن بن کر ہمارے گھر آگئی۔ صمد بھائی تو مارے خوشی کے زمین پر پائوں نہیں دھرتے تھے۔ ان کے خواب کی تعبیر ان کو مل گئی تھی لیکن ماہم کے خوابوں بارے کوئی نہیں جانتا تھا۔ شادی کا دن تمام ہوا، رخصتی کے بعد ہم سب تھکے ہارے رات کو، جہاں جس کو جگہ ملی پڑ کر سو رہے۔ شادی کا گھر تھا، دُور کے مہمان بھی واپس نہیں جا سکتے تھے۔ ہم نے بھیا کا کمرہ دُلہن کی طرح سجا دیا تھا۔ شادی کی رات صمد بھائی حجلۂ عروسی میں گئے اور اپنے ہاتھوں سے دُلہن کا گھونگٹ اُٹھایا۔ دُلہن نے ان کے ہاتھ ہٹا دیئے اور ایسے دیکھا جیسے وہ اس سارے تکلف سے بیزار تھک کر چور ہوئی بیٹھی ہو ۔ تبھی اس نے کہا۔ آپ بے شک مجھے شریک حیات قبول کر چکے ہوں لیکن میں آپ کو قبول نہیں کرتی۔ میں کسی مجبوری کی وجہ سے یہاں بیٹھی ہوں۔ یہ الفاظ نہیں، انگارے تھے جو میرے بھیا کے پُر شوق دل پر برس گئے۔ صدا بھی سوچ رہا تھا کہ کیا جواب دے ماہم نے مزید گل فشانی کی۔ میں آپ سے نفرت نہیں کرتی لیکن محبت کرنا بھی میرے بس کی بات نہیں۔ یہ میرے دل کی مجبوری ہے۔ بھائی کو اپنی دُلہن سے ایسی امید نہ تھی۔ ماہم کو دفتر میں پرکھ چکے تھے۔ وہ غلط قسم کی لڑکی ہرگز نہیں تھی، ہمیشہ لئے دینے رہنے والی، اپنے کام سے کام رکھنے والی اور ٹھیک ٹائم سے گھر پہنچ جانے والی کس طرح غلط قسم کی ہو سکتی تھی۔ اس نے پھر ایسا کیوں کیا تھا وہ بھی شادی کی پہلی رات؟ ایسی بات کرنے کو تو بڑا حوصلہ چاہئے تھا اور دیکھنے میں ماہم میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ ماں باپ سے بغاوت کرتی۔ خاوند سے بغاوت تو اور بھی دقت طلب مرحلہ تھا۔

تم اگر مجھ سے شادی نہ کرنا چاہتی تھیں تو ماں باپ سے کیوں نہ انکار کر دیا؟ نکاح کے وقت کیوں قبول کر لیا۔ ماں باپ سے سخت احتجاج کیا تھا اور نکاح کے وقت بھی قبول نہیں کیا تھا، میری جگہ میری بہن کو بٹھا دیا اور اس نے قبول کیا، نام لیا گیا میں تو کمر بند کر کے بیٹھ رہی تھی۔ تو تمہارے دستخط بھی کسی اور نے کئے ہوں گے ؟ بھائی نے پوچھا۔ نہیں ایسا نہیں ہوا ہے ، دستخط تو والد صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ کر کروالئے تھے۔ آخر تمہارے والدین نے ایسا کیوں کیا ؟ اس لئے کہ وہ اپنی عزت بچانا چاہتے تھے۔ اور تم کو ان کی عزت کا خیال نہ تھا؟ خیال تھا تبھی تو یہاں بیٹھی ہوں۔ آخر ایسے حالات پیدا کرنے کی وجہ کیا تھی ؟ وجہ یہ تھی کہ میں نے کسی سے کلام پاک پر قسم کھائی تھی۔ جانتی ہو کہ ایسی شادیاں درست نہیں ہوتیں ؟ جانتی ہوں تبھی تو حقیقت بتارہی ہوں۔ نئی نویلی دلہن کی باتیں سُن کر صمد سوچ میں پڑ گیا۔ یہ کیسا انوکھا مذاق تھا۔ ایک دُلہن حجلۂ عروسی میں موجود ، اپنی زبان سے کہہ رہی تھی کہ یہ نکاح جعلی ہے۔ صمد بھائی سر تھام کر بیٹھ گئے۔ اب کیا کریں۔ اگر تم راضی نہ تھیں تو رخصتی کیسے قبول کرلی اور دُلہن بن کر سولہ سنگھار بھی کروا لئے ؟ اور کہتی ہو کہ تم نے نکاح قبول نہیں کیا۔ تم عاقل بالغ ہو ، پڑھی لکھی ہو۔ رخصتی پر راضی کیسے ہو گئیں؟ بھائی نے استفسار کیا۔ میں نے بہت چاہا۔ والد صاحب رونے لگے پھر آپ کی بہن آئیں اور اپنی بوڑھی ماں کا واسطہ دیا کہ دیکھو ماہم ! بارات واپس نہیں جائے گی ورنہ میری بیوہ ماں یہ بے عزتی برداشت نہ کر سکیں گی۔ انہوں نے اپنی لڑکیوں کو بھی تو بیاہنا ہے۔ ہم نے تو طریقے سے رشتہ مانگا اور آپ کے والدین نے ہاں کی، سب کچھ اس مرحلے تک طریقے سے ہوا ہے تو اب عین وقت پر یہ کیا معاملہ ہو گیا ہے۔ اب چاہے شادی کامیاب ہو یا ناکام ، بے شک بعد میں طلاق لے لینا لیکن اس وقت تو رخصتی ہو گی۔ ہم برادری کو کیا جواب دیں گے ؟ سو میرے پاس کیا چارہ تھا سوائے اس کے کہ آپ تک پہنچ کر ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دوں۔ ماہم کی باتیں سُن کر بھائی کا دماغ پگھلنے لگا۔ انہوں نے ایک جگ پورا پانی کا پی لیا پھر بھی ان کا گلا خشک ہی رہا۔ آخر انہوں نے سوال کر ہی دیا۔ کون ہے وہ جس کی خاطر تم نے اتنا کچھ کیا ہے۔ ابھی بھیا کا فقرہ ادھورا تھا کہ اس نے فرمایا۔ یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتی۔ بہرحال ہے کوئی جس کے ساتھ جینے مرنے کا وعدہ کیا تھا اور کلام پاک پر قسم کھائی تھی کہ ہم ایک دوسرے کے سوا کسی کو قبول نہ کریں گے۔ وہ کالج میں میرا کلاس فیلو تھا، جو مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک چلا گیا اور میں وعدے کے مطابق اس کا انتظار کر رہی تھی کہ شیخ صاحب نے والد کو رشتے کے لئے کہا اور انہوں نے مجھ سے بنا پوچھے ہی ہاں کہہ دی کہ میں سعادت مند بچی جس کا چال چلن درست ہے ، بھلا کیوں انکار کروں گی ؟ ان کو مجھ سے انکار کی توقع نہ تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنی زبان کی پاسداری کی اور یہی سمجھا کہ میں نادان ہوں بلا وجہ شادی سے گھبرا رہی ہوں۔ شادی ہو گئی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب میں بھی مجبور ہوں، اپنی قسم کی پاسداری بھی کرنی ہے۔ آپ میری قسم کی لاج رکھ لیں۔ کلام پاک کی قسم بڑی قسم ہوتی ہے ورنہ آپ کی مرضی ہے۔ اس وقت تو آپ میرے مالک بنا دیئے گئے ہیں اور تقدیر میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی- ایسے روتا دیکھ کر بھائی نرم پڑ گئے ، اس گھڑی ماہم ان کی من چاہی محبوبہ ہی نہیں ان کی بیوی کے روپ میں ان کی دُلہن تھی، لیکن بقول ان کے ایک مجبوری لڑکی بھی تھی۔ خُدا جانے بھائی نے یہ رات کیسے چھت پر ٹہل کر گزاری کیونکہ دلہن کا کمرا اوپر تھا۔ ہم کو اس رات کی تنگ دامنی کا پتا نہ چلا کیونکہ بھیا اور ماہم نے کسی کو کچھ نہ بتایا۔ حسب پرو گرام صبح سب تیار ہو گئے۔ کچھ تھکن کم ہوئی، تو ولیمے کی تیاری ہونے لگی۔ میں دُلہن کے کمرے میں گئی۔ آفرین ہے ماہم کے حوصلے پر ،اس نے کسی کو شک بھی نہ ہونے دیا کہ وہ گزشتہ رات سے بس نام کی دُلہن ہے۔ ہم نے اسے ولیمے کے لئے دوبارہ تیار کیا۔ باہر بھائی بھی اپنے دوستوں میں گھر گئے۔ وہ کچھ بجھے بجھے ضرور تھے مگر جلد ہی انہوں نے اپنی اس کیفیت پر قابو پالیا اور مہمانوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ ولیمہ کا ہنگامہ ختم ہوا تو سنجیدہ سوال نے میرے بھائی کا دامن تھام لیا کہ اب کیا قدم اٹھایا جائے ؟ ماہم سے انہوں نے پوچھا۔ اب تم ہی بتا دو کیا فیصلہ کرنا ہے؟ کہو تو ابھی طلاق دے دوں مگر اپنے اور تمہارے والدین کو اس اقدام سے آگاہ کرنا ہو گا۔ اس پر وہ خاموش ہو گئی، کچھ سوچتی رہی پھر بولی۔ آپ چند دن بطور مہمان مجھے اپنے گھر میں رکھ لیں کیونکہ والدین فوری طور پر مجھے قبول نہیں کریں گے ، کہیں اور جا کر میں غیر محفوظ ہو جائوں گی، دار الامان بھی جانا نہیں چاہتی۔ تو تم یہاں رہ کر اپنے چاہنے والے سے رابطہ کرو گی ؟ بھائی نے پوچھا تو وہ کہنے لگی۔ میں کوئی بات آپ سے چھپا کر نہ کروں گی، میرا اعتبار کیجئے۔ میں آپ سے جھوٹ بھی نہیں بولوں گی۔ تم آزادی چاہتی ہو تو آزاد ہو جائو، تم مجھے اپنا شوہر نہیں مانتی ہو تو پھر میرے گھر میں پڑے رہنے کا کیا جواز ہے ؟ آخر کب تک میں اس اذیت بھری آزمائش سے گزرتا رہوں گا۔ وہ التجائیں کرنے لگی کہ بس تھوڑے دن مجھے رہنے دیں۔ مجھے پناہ دے دیں، تب بھائی صمد نے انکل شیخ کی نوکری چھوڑ دی اور ایک دوست کے پاس کراچی چلے گئے۔ وہاں انہوں نے دوسری ملازمت اختیار کر لی اور ماہم ہمارے گھر میں ہی رہتی رہی۔ وہ ہمارے ساتھ رہتی رہی۔ ایک بار بھی میکے نہ گئی۔ صمد بھائی پر ہم کو حیرت ضرور ہوتی تھی کہ نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر گئے تو واپس نہیں لوٹے۔ فون کرتے تو کہتے ، مجھے چھٹی نہیں مل رہی، نوکری نئی ہے۔ درخواست دی ہے آج کل میں چھٹی مل جائے گی۔ گھر والوں کو بھائی نے اندر کے معاملے سے ابھی تک آگاہ ہی نہ کیا تھا۔ ماہم بھی ہر کسی سے اچھے طریقے سے ملتی تھی۔ بھائی کا فون آتا تو دوڑ کر جاتی اور بار بار شکریہ کہتی۔ گھر والوں کو شک تک نہ ہونے دیا کہ وہ بطور مہمان رہ رہی ہیں۔ بہر حال وہ جس کا انتظار کر رہی تھی، ان کی شادی کے چار ماہ بعد آگیا اور چار ماہ تک بھائی گھر نہ لوٹے نہ ہی ماہم میکے گئی۔

وہ لمحہ آ گیا جس کا ماہم کو انتظار تھا۔ ایک دن اس کی ایک سہیلی آئی جس نے کچھ دیر تنہائی میں اُس سے بات کی اور پھر چلی گئی۔ اس کا نام فرح تھا۔ اسی کے کزن نوشیروان سے ساتھ نبھانے کی ماہم نے اتنی بڑی قسم کھائی تھی کہ اب اس کو توڑنے سے لرز جاتی تھی۔ وہ کینیڈا سے آیا تھا۔ فرح یہی بتانے آئی تھی اور نوشیروان کا نمبر دے کر گئی تھی۔ ماہم نے فون پر اس سے رابطہ کیا۔ جس وقت وہ بات کر رہی تھی، میں برآمدے میں فرش صاف کر رہی تھی۔ ماہم سمجھی ملازمہ ہے بہر حال جو بھی سمجھی اس نے میرا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ وہ فون پر کہہ رہی تھی۔ نوشیروان تم نے آنے میں سال بھر دیر کی، میرے والدین نے مجبور کر کے مجھے صمد کے ساتھ بیاہ دیا۔ میں نے ان کا بہت دل دُکھایا ہے، میں مجبور تھی سچ بولنے پر ، اب تم آگئے ہو۔ جلد بتائو مجھے کیا کرنا ہے؟ وہ مجھے طلاق دینے پر تیار ہیں ، میں نے ان کو روکا ہوا ہے لیکن ہم ابھی تک میاں بیوی نہیں بنے۔ یہ سُن کر میں سکتے میں آگئی۔ میرے ہاتھ رُک گئے۔ جلدی سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں گئی، جہاں فون تھا۔ میں نے دوسرے سیٹ کا ریسیور آہستہ سے اُٹھایا۔ اس میں ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ تم نے اپنے شوہر کو ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا۔ اب بھی اگر وہ تم کو معاف کر دے تو تم طلاق مت لو کیونکہ بیرون ملک مستقل رہائش حاصل کرنے کے چکر میں، کچھ ایسے حالات میں گھر گیا ہوں کہ تم سے شادی نہیں کر سکتا۔ اب تمہاری شادی ہو چکی ہے لہذا مجھ پر بھی قسم توڑنے کا گناہ نہیں ہے۔ ہم دونوں کفارہ ادا کر سکتے ہیں۔ تم قسم نہیں توڑنا چاہتی تھیں لیکن طلاق لینا بھی ناپسندیدہ امر ہے۔ اللہ تعالی ہم دونوں کو معاف کرے۔ دُکھی نہ ہونا۔ میں تم کو تمہاری بھلائی کے لئے سمجھا رہا ہوں، میں تمہارا دشمن نہیں ہوں اور جیسا کہ فرح نے مجھے آکر بتایا ہے تم بہترین لوگوں میں رہ رہی ہو اور تمہارا شوہر بھی اعلیٰ ظرف انسان ہے ورنہ ایسی باتیں جان کر کون ایک دن بھی بیاہتا کو پناہ دیتا ہے۔ کوئی اور ہوتا تو گھر میں پناہ دینے کی بجائے اسی وقت چلتا کرتا۔ تو کیا تم اس آزمائش سے بھی نہیں سمجھی ہو کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے کتنے بہترین شخص کو چنا ہے ؟ جس کو تم چھوڑ کر غلطی کر رہی ہو جبکہ تم کو معلوم بھی نہیں کہ وہاں میں کیسے حالات میں پھنس گیا ہوں بس سوچ لو کہ جوڑے اللہ تعالی بناتا ہے اور اس میں کچھ مصلحتیں ہوتی ہیں۔ تم حالات سے سمجھوتہ کرلو، کینیڈا مجھے جلدی واپس جانا ہے۔ ماہم نے فون رکھ دیا اور رونے لگی۔ وہ گھٹنوں میں سر دے کر زمین پر بیٹھ گئی تھی۔ اس کو روتا پا کر میرا دل بھر آیا۔ بے شک وہ مجبور اور سچی تھی مگر شادی شدہ تھی۔ میں اس کے پاس گئی اُسے سمجھانے لگی۔ ماہم رو مت ، دیکھو کچھ اچھی صورت نکل آئے گی۔ تمہاری نیت اچھی ہو گی تو ثمر بھی اچھا ملے گا۔ اللہ تعالی رحم کرنے والے ہیں۔ جتنے دن سے وہ ہمارے گھر میں تھی بہت تمیز اور اخلاق سے رہی تھی۔ امی کا ادب کرتی تھی اور ہمارے گھر میں پیار سے رہتی تھی۔ ہم کو بھی اس کے ساتھ اُنسیت ہو گئی تھی۔ چار ماہ میں اس نے اس گھر کے در و دیوار کو اپنے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ تصور کر لیا تھا اور یہ حقیقت بھی تھی کہ اس گھر کی چار دیواری میں اس کے لئے تحفظ اور عزت بھرا مقام موجود تھا۔ وہ اس گھر کی بہو تھی۔ لیکن اب اس کی حالت بری تھی، یہ آخری ٹھکانہ بھی عارضی تھا۔ والدین نے تو رخصت کرتے وقت کہہ دیا تھا کہ اب خاوند کے گھر کے علاوہ تمہارا کوئی گھر نہیں ہے۔ میں نے اس کو تسلی دی اور بتا دیا کہ میں نے تمہاری اور نوشیروان کی گفتگو سُن لی ہے۔ اس کے بعد ماہم نے بھی مجھے سارا حال بتادیا جو اب تک ہم سے چھپا ہوا تھا۔ امی نے صمد بھائی کو فون کر کے فورا آنے کو کہا۔ معاملہ کھل چکا تھا۔ آفرین ہے میرے بھائی کے حوصلے کی۔ انہوں نے پھر بھی ماہم کو اختیار بخش دیا۔ چاہو تو طلاق لو ، نہیں چاہتیں تو یہ تمہارا گھر ہے ، عمر بھر یہاں رہ سکتی ہو۔ بشر طیکہ کبھی مجھ سے جھوٹ مت بولنا اور دل سے مجھے اپنا شوہر تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر قبول کے الفاظ نہیں کہے تو دوبارہ کہے جا سکتے ہیں۔ دونوں باتیں ماہم بھابھی نے قبول کر لیں اور بھائی نے اس مجبور کو پھر اپنے گھر سے نہیں نکالا۔ آج بھی وہ ہماری بھابھی ہے ، ان کو ہم سے ویسا ہی پیار ہے جیسا ہم کو اُن سے ہے کیونکہ اُن میں وہ ساری خوبیاں ہیں جو اچھی خواتین میں ہوتی ہیں۔ شکر ہے خُدا نے ہم کو ان ظالموں میں شامل ہونے سے بچالیا۔ اور ہم ایسے لوگوں میں سے نہیں تھے جو سچ بولنے کی سزا بھا بھی کو دے کر عمر بھر کے لئے ان کو برباد ہونے دیتے۔

Latest Posts

Related POSTS