Tuesday, March 18, 2025

Makafat Amal

فیصل میرا پہلا بیٹا تھا۔ بہت منتوں ، مرادوں سے مانگا ہوا یہ دو بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تو میں پھولے نہ سمائی تھی لیکن قدرت کی مرضی میری دونوں بیٹیاں گوری چٹی اور فیصل کالا کلوٹا، لوگ دیکھ کر حیرت کرتے مگر میری اولاد تھا، جگر کا ٹکڑا تھا، خوب پیار کرتی اور روز نہلاتی ، صاف ستھرا رکھتی کہ دوسرے بھی پیار کریں۔ پھوپھیوں، خالاؤں کو اس پر کم ہی پیار آتا تھا تاہم بہنوں نے خوب منے بھیا کے ناز نخرے اٹھائے۔ جب بولنے لگا ، تتلا کر بولتا، اس پر بھی میں واری صدقے جاتی تھی ۔ گول گپا، توتلا، کہہ کر سب بلاتے لیکن مجھ کو وہ بے انتہا پیارا تھا کیونکہ میری اولاد، میری کل کائنات اور میرے ارمانوں کا مرکز تھا۔ بچپن پلک جھپکتے گزر گیا۔ جب بڑا ہوا پر پرزے نکال لئے۔ لڑکپن سے ہی ہاتھوں سے نکلنے لگا۔ ہمارے بارے میں کیا سوچتا ہے، یہ نہیں معلوم لیکن زیادہ تر باہر رہنے لگا۔ گھر صرف کھانے اور سونے کے لئے آتا۔ اس کا سارا دھیان اس باہر کی دنیا میں لگا تھا۔ فیصل کے بعد دو بیٹے اور ہو گئے تو میں ان کی پرورش میں مصروف ہوگئی۔ بظاہر اس کی طرف سے غافل تھی لیکن محبت زیادہ اسی بیٹے سے تھی، بس چلتا تو چھوٹوں کی جگہ اسے ہی کلیجے سے لگا کر رکھتی۔ وہ اب بھی گھر بھر کا چہیتا تھا لیکن میں نے جب اس کا دھیان باہر کی طرف دیکھا تو پڑھنے لکھنے کے لئے اس کو ایسے ادارے میں ڈال دیا جس کا ہوسٹل تھا تا کہ یہ پابند ہو کر اچھی طرح پڑھ لکھ سکے اور آوارہ لڑکوں میں بیٹھنے کا موقع میسر نہ آسکے۔ جب اس نے تعلیم مکمل کر لی تو باپ نے اسے انجینئرنگ کا دو سالہ کورس کرا دیا تا کہ کمانے کے لائق ہو جائے اور ہم اس کی دلہن گھر لے آئیں۔ ماں اور باپ کی خصوصی توجہ سے وہ کمانے لائق تو بو مگر پاکستان میں تنخواہ کم تھی گزارہ مشکل تھا تبھی میرے خاوند نے اپنے ایک دیرینہ دوست کو کہا کہ کسی طرح اس کو سعودی عربیہ بھجوا دو، اس کے پاس ڈپلومہ ہے۔ مجھے فیصل کا سہرا دیکھنے کی چاہ تھی۔ میں یہ بھی چاہتی تھی کہ وہ اپنی پسند سے شادی نہ کرے بلکہ میں اپنے خاندان کی لڑکی لاؤں جو مجھے اس سے دور نہ کر دے اور وہ لڑکی میری خدمت بھی کرے مگر ہوتا وہی ہے جو قسمت میں ہوتا ہے۔ فیصل بیرون ملک گیا تو وہاں اس کو کوئی چاند چہرہ پسند آ گیا اور اس نے مجھے فون پر بتایا کہ میں نے آپ کے لئے بہو پسند کرلی ہے اگر آپ اجازت دیں تو اس سے نکاح کر کے آپ کی بہو بنا لاؤں؟ مجھے اجازت دیتے ہی بنی۔ لڑکی پاکستانی تھی اور نام سلمی تھا۔ پس میں نے بادل نخواستہ کہہ دیا کہ بیٹے تمہاری پسند، میری آنکھوں کا تارا ہوگی۔ اچھے خاندان سے ہے تو اجازت ہے، نکاح کرلو اور گھر لے آؤ۔ یوں اس نے جدہ میں نکاح کر لیا اور سال بعد سلمی کو ستارہ بنا کر لے آیا۔ وہ واقعی حسین تھی کہ میرے گھر آنگن میں چاند بن کر جگمگانے لگی۔ شروع میں تو ہم سب خوش رہے، بیٹا اور بہو بھی مسرور تھے۔ چھٹی ختم ہو گئی تو دونوں دوبارہ جدہ چلے گئے، جہاں بہو عیش کرنے لگی اور ہم سب سلمی کی زندگی پر رشک کرنے لگے، وہاں نہ ساس، نند تھیں اور نہ کوئی اور بکھیڑا زندگی ملے کسی لڑکی کو تو ایسی دولہا دن رات اس کا مکھڑا دیکھ کر جیتا تھا، جو کماتا اس کو خوش رکھنے پر لگا دیتا تھا۔ اب سال دو سال بعد ایک ماہ کے لئے آتے۔ یہاں بھی بہو کو اہمیت ملتی۔ ہم عیش آرام دیتے اور وہ چلے جاتے۔ اس دوران دو بیٹے بھی ہو گئے۔ بے شک میرا بیٹا سلمی کے ساتھ بہت خوش تھا مگر میرے دل میں یہ کھٹک تھی کہ یہ لڑکی اگر اپنے خاندان سے ہوتی تو فیصل کو مجھ سے قریب کرتی- سلمی بے شک اچھی تھی ، میرا ادب کرتی تھی میرے لئے خوب تحفے تحائف اور نندوں، دیوروں کے لئے بھی لاتی تھی مگر فیصل پہلے جیسا نہ رہا تھا۔ میں ہمہ وقت سوچتی تھی کہ یہ باہر سے آئی ہوئی نہ ہوتی تو یقینا میرا بیٹا جو کماتا، سب میرے ہاتھ پر رکھتا اب تو بہو مجھے دینے والی بنی ہوتی ہے۔ سلمی بطور مہمان آتی، ہنستی بولتی، خوش رہتی، میری قدر کرتی اور چلی جاتی ۔ تاہم میں روایتی ساس کا کردار ادا کرنا چاہ رہی تھی اور وہ اس کا موقع نہ دے رہی تھی۔ بہت سی خوبیاں ہوتے ہوئے بھی میں اپنی بہو میں عیب تلاش کر رہی تھی ۔ اس بار جب یہ چھٹی پر آئے تو میں نے چھوٹی چھوٹی باتوں کا تلنگر بنا کر الجھنا چاہا۔ اپنی بیٹیوں کو بھی اس فضیتے میں شامل کر لیا۔ سلمی نے شاید میرے ارادوں کو بھانپ لیا تھا، تبھی ہم چاہے کتنا ہی اسے برا کہتے ، وہ کبھی نہ لڑتی جھگڑتی ، الٹا ہم کو ایک ساتھ گھلنے ملنے کا موقع دیتی ۔ شادی ہو، بیاہ ہو، ہم فیصل کے ساتھ کہیں جائیں، کھلے دل کے ساتھ ہم کو دن رات اکٹھا رہنے دیتی اور خود بیچ میں نہ بیٹھتی۔ ہم نے سلمی کی فراخدلی کو اس کی کمزوری سمجھا حالانکہ وہ ہم پر اور اپنے شوہر پر اندھا اعتماد کرتی تھی اور ہماری ہر خواہش کے آگے سر تسلیم خم کر دیتی-

وہ ایک اچھے خاندان کی پڑھی لکھی اور باشعور لڑکی تھی جبکہ ہم حسد اور احساس کمتری کے مارے ہوئے لوگ تھے۔ انہی دنوں میں نے یہ شوشا چھوڑا کہ اب بیرون ملک بہت رہ لئے، اب اپنے وطن آجاؤ۔ فیصل نے مجھے کافی سمجھایا کہ امی یہاں کم تنخواہ میں یہ ٹھاٹ نہیں رہیں گے جبکہ وہاں زیادہ آمدنی ہے، بچوں کا ساتھ ہے مگر میں اڑ گئی کہ مجھے تو تمہارے بچوں کی یاد ستاتی ہے، ان سے جدا کیوں کرتے ہو، مجھے اب تم لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔ میں بیٹے کے ہمراہ بھی نہ جاتی تھی لہذا اسلمی نے میری بات مان لی اور فیصل کو مجبور کیا کہ وہ بیرون ملک کی ملازمت چھوڑ دے اور اپنے وطن میں ہمارے ساتھ رہے، یہاں کوئی کاروبار کر لے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی فیصل نے مانا اور اچھی بھلی ملازمت چھوڑ کر بیوی ، بچوں سمیت پاکستان آ گیا۔ ہمارا مکان زیادہ کشادہ نہ تھا، پھر بھی میں نے سلمی کو کوئی دوسرا بڑا گھر نہ لینے دیا اور اپنے ساتھ ایک کمرے میں رہنے پر مجبور کر دیا۔ وہ بیچاری مروت کی ماری میری ساری باتوں کو تسلیم کرتی گئی کہ کسی طرح میری ساس راضی ہو۔ کچھ عرصے بعد ہم علیحدہ گھر بھی لے لیں گے۔ غرض فیصل کو سمجھا بجھا کر ساتھ رہنے پر راضی کر لیا۔ وہ میرے بیٹے سے رقم لے کر مجھے معقول خرچہ بھی دینے لگی تا کہ بہو اور بچے ہم پر بوجھ نہ ہوں۔ اتنا کچھ کرنے کے باوجود میرا دل اس پر مہربان نہ ہوا، وہی کھٹک مجھے ہوتی کہ کاش اس کی جگہ کوئی اپنی میری بہو ہوتی، تبھی تین بچوں کے ہوتے میں نے فیصل کو خاندان کی طرف راغب کیا اور کامیاب ہوگئی چونکہ سلمی تیز طرار نہ تھی ، وہ غافل ہی رہی اور میں نے بجائے بیٹے کو اپنی بیوی کا ہو کر رہنے کا مشورہ دینے اور بچوں کی طرف دھیان دینے کے، اپنی بہن کی بیٹی کے گن گانے شروع کر دیئے۔ رافعیہ میری بھانجی تھی، مجھے بہت پیاری لگتی تھی۔ وہ چھوٹی تھی تب سے میرے ذہن میں تھا کہ اس کے ساتھ فیصل کی شادی کروں گی اور اس کو بہو بنا کر لاؤں گی ۔ یہ خواب ادھورا رہ گیا لیکن میرے دل پر نقش رہا اور اب رافعیہ کی تعریفیں کر کے اور راتوں کو جب بہو اپنے بچوں کے ساتھ پر سکون نیند سو جاتی اور مطمئن ہوتی کہ بیٹا اپنی ماں کے پاس ہوگا۔ فیصل کو میں اپنی بہن کے گھر لے جاتی اور رافعیہ کے ساتھ اُسے بیٹھنے ، باتیں کرنے کا موقع دیتی تا کہ ان میں انڈراسٹینڈنگ پیدا ہو۔ رافعیہ غیر شادی شدہ تھی۔ ظاہر ہے ایک کنواری لڑکی اور تین بچوں کی ماں میں فرق ہوتا ہے۔ سلمی لاکھ خوبصورت سہی لیکن اس میں وہ پہلے والی ظاہری چھب نہ رہی تھی ، وہ اپنے سراپا اور بناؤ سنگھار سے لاپروا ہو چکی تھی۔ مرد کی فطرت میں جانتی تھی کہ اس کو اپنی چاند چہرہ مگر تین بچوں والی بیوی سے زیادہ رافعیہ میں کشش محسوس ہوتی تھی۔ مرد کو ہر دم نئی نویلی دلہن چاہئے کہ اس کو اپنی بیوی کے سوا دنیا کی تمام عورتیں خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ایسا ہی ہوا، بیٹا کس کا تھا، آخر میرا ہی تھا، چند دن حیلے بہانے کر کے بہو سے لڑتا جھگڑتا رہا، پھر رائی کا پہاڑ بنا کر اُسے گھر چھوڑ آیا۔ وہ بہو جس کی دنیا تعریف کرتی تھی ، بری ہوگئی ، جو ہم نے سلمی کے بارے میں کہا ، وہی سب نے سچ جانا کہ اس دنیا میں کب کسی کو کسی کی پروا ہے ۔ سلمی ایک اچھے خاندان کی لڑکی تھی۔ وہ لوگ اتنے شریف نکلے کہ کبھی ہمارے پاس پلٹ کر نہ آئے اور نہ کوئی سوال جواب کئے، کچھ مانگا بھی نہیں، الٹا اپنا جہیز چھوڑ کر پلٹ کر نہ پوچھا اور ہم تھے کہ ادھر تیر و تلوار لے کر تیار بیٹھے تھے کہ کوئی چوں بھی کرے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں مگر شرافت شاید خاموش ہی ہوتی ہے۔ میں اپنی بددیانتی میں کامیاب ہو چکی تھی۔ میرا بیٹا میرے خاندان میں واپس آچکا تھا۔ دلی مراد میری بر آئی اور آنا فانا میں نے اس کا نکاح کر دیا۔ میں نے گھر کی دولت گھر میں رکھی اور خاندان میں سرخرو ہوئی مگر یہ سوال بعد میں ضمیر نے پوچھا کہ اے خدا کی بندی، کیا دنیا ہی سب کچھ ہے؟ کیا خدا کو جواب نہیں دینا، کیا اس دنیا کے بعد کوئی دوسری دنیا نہیں ؟ کیا آخرت کا عذاب تجھے نہیں چکھنا؟ میں نے یہاں گھر بنا لیا مگر میری بہو سلمی شاید جنت میں گھر بنائے گی کیونکہ سب الزام اپنے ذمے لے کر اس نے میرا بیٹا مجھے واپس کیا ہے۔ اللہ اس کو صبر دے اور ساتھ اجر بھی کیونکہ تیر کمان سے نکل جائے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔ رافعیہ اب واپس نہیں جاسکتی اور سلمی اب واپس نہیں آسکتی مگر میں پوتے کھلانے اور ضمیر کی لعنت ملامت اٹھائے بے کسی کی زندگی جی رہی ہوں۔ رافعیہ، فیصل کو لے کر سعودی عربیہ چلی گئی ہے اور وہ اتنی اچھی نہیں ہے جتنی سلمی تھی۔ رافعیہ نے مکمل طور پر میرا بیٹا مجھ سے چھین لیا ہے۔ تحفے تحائف لانا تو دور کی بات، فیصل تو اب فون پر بھی مجھ سے کلام نہیں کرتا۔ وہ پاکستان بیوی کے ہمراہ آتا ہے اور اس کے ماں، باپ کے گھر رہ کر لوٹ جاتا ہے اور ہم اس کی راہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ اسی کو شاید کہتے ہیں مکافات عمل !

Latest Posts

Related POSTS