جونہی ہم نے نئے محلے میں گھر خریدا، ہمارا سابقہ ایک عجیب وغریب فیملی سے پڑگیا۔ یہ قریب ترین پڑوسی تھے۔ یہ کنبہ دوہی افراد پر مشتمل تھا۔ میاں کا نام شاکر اور بیوی کا مہتاب تھا۔ جلد ہی پتا چل گیا کہ یہ اچھی شہرت نہیں رکھتے، تبھی میرے شوہر نے کہا کہ ان لوگوں سے زیادہ میل جول مت رکھنا اور ان کی طرف آنا جانا بھی نہیں۔ شاکر کے بارے میں میرے خاوند کو محلے کے کچھ لوگوں نے بتایا کہ وہ اکثر گھر میں پارٹیاں کرتا ہے جن میں اپنے حلقۂ احباب کو مدعو کرتا ہے، تاہم محلے دار ان پارٹیوں میں شمولیت نہیں کرتے۔ شاکر جس گھر میں قیام پذیر تھا، وہ اس کے دادا نے بنوایا تھا۔ گویا یہ مکان اس کا آبائی تھا، تبھی کوئی ان کو یہاں سے جانے کو نہیں کہتا تھا۔ اگر ان کی کوئی قابل اعتراض سرگرمیاں تھیں تو وہ گھر سے باہر تھیں، یہاں تو محض کبھی کبھار پارٹی ہوتی تھی۔ ہمارا یہ پڑوسی مسکین شکل کا تھا، گندمی رنگت، دبلا پتلا اور خوبرو…! وہ ہرگز ایسا نہ تھا کہ کوئی تعلیم یافتہ، سمجھدار لڑکی اس کو نظرانداز کرتی۔ اس کی بہت سی دوست لڑکیاں اس کی بیوی کی بھی سہیلیاں تھیں۔ یہ عموماً اچھی شکل و صورت کی اور خوش لباس ہوتی تھیں۔ شاکر بھی مرجان مرنج قسم کی شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے دوست بھی اعلیٰ سوسائٹی سے لگتے تھے۔ وہ اپنی چند خامیوں کے باوجود شہر کے کافی معززین کا چہیتا تھا جن میں کچھ شرفا بھی تھے۔ شاکر کی بیوی مہتاب… ایک اسپتال میں نرس تھی۔ وہ بھی ہنس مکھ اور خوش گفتار تھی، تاہم محلے والے اس سے لئے دیئے رہتے تھے۔ پہلی ملاقات میں یہ عورت دل موہ لینے کی کوشش کرتی تھی۔ کچھ اس کے گھیرے میں آجاتے اور کچھ جن کو گھر والے منع کرتے، وہ ان سے گھلنے ملنے سے گریز کرتے۔ پہلے تو ہم شاکر کو مشکوک سمجھتے رہے بعد میں اس کی بیوی کو بھی اسی قبیل کا پایا۔ دراصل وہی نادان لڑکیوں کو گھیرتی اور اپنے شوہر سے ملاتی۔ وہ ان کو پھانس لیتا اور پھر بری راہ پر لگا دیتا۔
جب مہتاب کے بارے ایسی باتیں مجھے محلے کی چند عورتوں نے گوش گزار کیں تو یقین نہ آیا۔ بھلا کوئی بیوی اپنے شوہر کی دوستیاں خود دوسری عورتوں سے کرانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے؟ بہت جلد اس بات کا ثبوت مل گیا۔ حامدہ میری کولیگ رہی تھی۔ وہ پہلے ہمارے ہی اسکول میں پڑھاتی تھی بعد میں اس کا تبادلہ ایک اور اسکول میں ہوگیا۔ میں جن دنوں کا تذکرہ کررہی ہوں، حامدہ بیمار تھی۔ اس نے اسکول سے چھٹیاں لے لیں۔ کئی ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن اس کی بیماری کسی کی سمجھ میں نہ آرہی تھی، بالآخر اسے اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اسی اسپتال میں مہتاب نامی نرس سے اس کی ملاقات ہوگئی جو شاکر کی بیوی تھی اور بعد میں میری پڑوسن بنی۔ مہتاب کی ڈیوٹی اسی وارڈ میں لگی جس میں حامدہ داخل تھی۔ اس نے حامدہ کی بہت توجہ سے دیکھ بھال کی اور یوں خدمت اور خوش اخلاقی کے باعث اس کا دل جیت لیا۔ دونوں میں دوستی ہوگئی۔ حامدہ تندرست ہوکر گھر آگئی لیکن ان کی دوستی برقرار رہی بلکہ زیادہ گہری ہوتی گئی۔ اب اکثر یہ نرس حامدہ کے گھر آتی۔ دونوں کھاتی پیتیں، اکٹھے فارغ وقت گزارتیں اور چھٹی کے دن سیر و تفریح کو جاتی تھیں۔ حامدہ کو مہتاب نے بارہا اپنے گھر مدعو کیا اور اپنے شوہر سے بھی ایک روز ملوایا۔ اکثر شاکر اور حامدہ کو اکیلے بٹھا کر وہ کچن میں ان کے لئے کھانا تیار کرتی۔ شاکر کو کوئی ایسا جادو آتا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے مطلوبہ شکار کو گھیر لیتا، اپنی گفتگو سے ان کا دل جیت لیتا۔ ان کے ساتھ ایسے مراسم استوار کرلیتا کہ بعد میں اس بناء پر بلیک میل کرسکے۔ بھولی بھالی حامدہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ گھریلو حالات سے تنگ اور شوہر کی ستائی ہوئی تھی۔ اس کے شوہر نے اپنے دفتر کی ایک کولیگ سے دوستی کرلی تھی جو بعد میں گہرے تعلقات میں بدل گئی اور وہ زیادہ وقت اسی کے ہمراہ گزارنے لگا۔ اب حبیب گھر کم آتا، زیادہ وقت فائزہ کے ساتھ ہوتا۔ ایک فلیٹ علیحدہ لے کر دے دیا تھا جہاں خود فائزہ کے ساتھ رات، دن گزارتا تھا۔
حامدہ ان دنوں بہت دکھی رہتی تھی، اس وجہ سے بیمار پڑگئی۔ اسپتال میں علاج کے دوران جب اس کی دوستی نرس مہتاب سے ہوگئی تو اس کو اپنے دل کا حال دیا اور حالات بتائے۔ مہتاب ایسے ہی شکار گھیرتی تھی، جن کو کسی قسم کی افسردگی اور محرومی ہو۔ محبت میں دھوکا کھائی ہوئی ناکام لڑکیاں، شوہر کی محبت سے محروم یا ان کی بے وفائی سے ستائی ہوئی ڈیپریس بیویاں کہ جو کسی کی غمگساری کو ترستی ہوں یا پھر وہ لڑکیاں جن کا ذہن آوارگی پر مائل ہو۔ کچی عمر کی نادان لڑکیاں جو مفلسی کی وجہ سے یا مشغلے کے طور پر جھوٹے سہاروں کے لئے ترستی ہوں۔ ایسی لڑکیوں یا عورتوں سے جب مہتاب کی ملاقات ہوتی وہ انہیں دوستی کے پھندے میں جکڑتی اور پھر شوہر کے حوالے کردیتی جو اپنی ذہانت اور تجربے کو کام میں لاتے ہوئے انہیں عیاش مردوں کے حوالے کرکے اپنا کمیشن کھرا کرلیتا تھا۔ خدا جانے کس طرح شاکر ان کو شیشے میں اتارتا تھا۔ جب حامدہ اس کے جال میں پھنسی اس نے اپنی دو قابل اعتبار کولیگ کو اس کے بارے میں بتایا۔ ہم سب اس کی ساتھیوں میں چہ میگوئیاں ہوتیں لیکن کسی کو علم نہ تھا کہ اس کا معاملہ کس سے ہے۔ بہرحال جس لڑکی کی تربیت میں ذرا سی بھی کجی باقی رہ گئی ہو، وہ آسانی سے اس جال میں پھنس جاتی تھی۔ ایک دن حامدہ نے مجھے بتایا تھا کہ اس کو اپنی ایک نئی سہیلی مہتاب کے شوہر سے محبت ہوگئی ہے اور اب وہ اس کو بیوی سے چھپ چھپ کر ملنے پر مجبور کرتا ہے۔ میں نے سمجھایا۔ حامدہ! خدارا… ایسے خیالات سے باز رہو، تم شادی شدہ ہو اور مہتاب بھی شادی شدہ ہے پھر وہ تمہاری سہیلی کا شوہر ہے۔ اپنے شوہر اور سہیلی کو دھوکا دو گی لیکن ساتھ یہ گناہ بھی ہے۔ ہرگز ایسا مت کرنا بلکہ کبیر سے قطع تعلق کرلو۔ (شاکر نے حامدہ کو اپنا نام کبیر بتایا تھا)۔
حامدہ نے میری بات سنی مگر اس پر عمل نہ کیا کیونکہ ایک روز جبکہ میں اپنی گاڑی میں شوہر کے ساتھ صدر بازار شاپنگ کے لئے گئی، وہاں میں نے اسے ایک پلازہ کے سامنے کسی کا انتظار کرتے دیکھا۔ ذرا دیر بعد وہاں ایک شخص آگیا جس کے ہمراہ دو مرد اور بھی تھے۔ اس نے حامدہ کو گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور پھر وہ گاڑی میں بیٹھ کر ان کے ساتھ چلی گئی۔ بہت دنوں بعد حامدہ ملی۔ بہت اداس اور خستہ حال تھی۔ اس نے کہا۔ مومنہ…! تم نے صحیح کہا تھا۔ کبیر کی محبت جھوٹی تھی، اس نے مجھے دھوکا دیا اور ایک دن اعتبار دے کر غیر مردوں کے حوالے کردیا۔ وہ ایسے ہی شریف گھرانوں کی عزتوں کو پامال کرتا ہے۔ نجانے کتنے شریف اور مجبور باپوں کی پگڑیاں اس ظالم شخص کے پائوں تلے روندی گئی ہیں۔ چند اچھی لڑکیوں کا بھی اس نے تعاقب کیا مگر وہ اس کے ہاتھ نہیں آئیں، تب اس نے ان کو بھی بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
حامدہ نے مزید بتایا تھا کہ میری بدبختی جو میں نے اس پر مکمل اعتبار کیا، تب اس نے میری غفلت سے کچھ قابل اعتراض تصاویر بنا لیں جن کی بنا پر اب وہ مجھے بلیک میل کرتا ہے، برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کا حکم ماننے پر مجبور ہوں۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ حامدہ سخت پریشان تھی۔ اس کی چھٹی کی درخواست روز پہنچ جاتی تھی بالآخر اس نے ہمارے اسکول سے تبادلہ کرا لیا۔ اس سے آگے کیا ہوا، وہ شاکر عرف کبیر کے چنگل سے نکل پائی یا نہیں، وہ کہاں کہاں جاتی تھی اور کیا کرتی تھی، اس بارے میں نہیں جان پائی۔ ایک روز میں نے اس کی ایک قریبی سہیلی کے گھر فون کیا تاکہ اس کے بارے میں جان سکوں، تب پتا چلا کہ صائمہ بھی بھٹک چکی ہے۔ صائمہ نے بتایا کہ مجھے حامدہ نے مہتاب سے ملوایا تھا اور پھر اس کے شوہر نے مجھے گھیرا۔ اس وقت سمجھ نہ سکی اور اپنی ملاقاتوں کو حامدہ سے بھی چھپاتی رہی۔ والدین کو دھوکا دیتی رہی، ملازمت کے بہانے کبیر کے ساتھ ہوتی۔ اس نے دو ایک ماہ میرے ساتھ محبت کا چکر چلایا اور پھر مجھے ایک افسر کے پاس لے گیا کہ تمہارا تبادلہ جہاں چاہو گی، یہ کردیں گے۔ تبادلہ تو میری من پسند جگہ ہوگیا لیکن اس افسر نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔
حامدہ کے بارے بتایا گیا کہ صبح گھر سے ڈیوٹی کرنے گئی اور شام تک واپس نہ آئی، تب گھر والوں کو فکر ہوئی۔ انہوں نے صائمہ سے رابطہ کیا، جس نے ان کو بتایا کہ مہتاب نرس سے پتا کریں۔ اس کا پتا بھی دیا، تب وہ اس کے گھر گئے، وہاں مہتاب تو موجود نہ تھی۔ وہ اسپتال اپنی ڈیوٹی پر تھی۔ اس کا شوہر موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ حامدہ فلاں جگہ ہے اور قریب المرگ ہے۔ جلدی پہنچ جائو اور اس کی جان بچانے کی کوشش کرو۔ میں نے انتہائی ہمدردی میں تم کو اطلاع کردی ہے لیکن دیکھو مجھے مت پھنسوا دینا۔ مجھے بھی کسی ذریعے سے اطلاع ملی ہے۔ بس اتنا جانتا ہوں، اس سے زیادہ تفصیل نہیں بتا سکتا۔ والدین جب مذکورہ مکان پر پہنچے تو حامدہ بدقسمت زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی اور کچھ بدمعاشوں کی بیہمانہ درندگی کے باعث وہ نیم جان تھی۔ اس کو موت کے منہ میں دھکیلنے والے غائب ہوچکے تھے۔ اپنی بدنامی کو چھپانے کے خوف سے حامدہ کا بھائی اور والد اس کو چادر میں لپیٹ کرگاڑی میں ڈال کر گھر لے آئے۔ وہ نیم جان گھر پہنچتے ہی جان کی بازی ہار گئی۔ خاموشی سے غسل دے کراور کفن پہنا کر گھر کی عورتوں نے میت کو تیار کیا، پھر چند قریبی رشتے داروں کو اطلاع کی۔ حامدہ کے شوہر کو تلاش کیا لیکن وہ نہ ملا کہ اپنی محبوبہ کے ہمراہ مری کی سیر کو نکلا ہوا تھا۔ یوں شوہر پر بھی اس کی موت کا راز فاش نہ ہوسکا۔ مجھے حامدہ کے انجام کا سن کر اشد دکھ ہوا۔ ایک دن صائمہ میرے گھر آئی۔ اتفاق کہ اسی وقت شاکر اپنے گھر سے نکلا تھا۔ صائمہ نے اسے دیکھا تو گھبرا گئی۔ بتایا کہ تمہارے پڑوس میں جو شخص رہتا ہے، کبیر نام ہے اس کا؟
نہیں! اس کا نام شاکر ہے اور اس کی بیوی کا نام مہتاب ہے جو کہ ایک اسپتال میں کام کرتی ہے لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ وہ خوف زدہ ہوکر بولی۔ یہی تو کبیر ہے۔ یہ شاکر نہیں ہے۔ یہاں تو اس کو شاکر ہی بلاتے ہیں۔ تو اس نے مجھ کو اپنا غلط نام بتایا ہوگا۔ کیا تم پہلی بار یہاں آئی ہو؟ اس کا گھر ہمارے ساتھ والا ہے۔ اف میرے خدا…! ہاں پہلی بار آئی ہوں جس گھر وہ حامدہ کو بلاتے تھے اور مجھے بھی بلایا تھا، وہ تو کوئی دوسرا گھر تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کے دو گھر ہوں۔ ایک گھر شرفا کی مانند رہنے کے لئے اور دوسرا گھر ان کے مذموم مقاصد کے لئے! میں نے رائے دی۔ صائمہ اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ اس نے میرے گھر پر کھانا بھی نہ کھایا اور جلدی سے چلی گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ شاکر یا اس کی بیوی کو معلوم ہو کہ وہ یہاں موجود ہے۔ وہ ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کی کیا وجہ تھی، یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن مجھے شاکر اور مہتاب کی اصلیت آج درحقیقت معلوم ہوگئی تھی۔ میں نے اپنے شوہر کو راضی کیا کہ ہم اس گھر کو فروخت کرکے کسی اور جگہ گھر خرید لیتے ہیں کیونکہ یہاں ہمارا پڑوس اچھا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ آدمی اپنے دوستوں سے ہی نہیں اپنے پڑوسیوں سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج ہمارے بچے کمسن ہیں، کل بڑے ہوں گے تو ان پر بھی برُے پڑوس کے اثرات پڑیں گے۔ یہی سوچ کر ہم نے نیا گھر بھی بدل لیا اور ایک نئے محلے میں مکان خرید کر شفٹ ہوگئے۔ نیا گھر خریدنے سے پہلے چاہئے کہ وہاں کے مکینوں کے بارے میں پوری معلومات لے لیں۔ کیونکہ شاکر اور مہتاب جیسے لوگ بھی تو شرفا کے محلوں میں رہتے ہیں۔