Friday, October 11, 2024

Malka Banaya Tha

ہمارے مالی حالات بہتر تھے، پھر بھی ہم اپنا گھر نہیں خرید سکتے تھے۔ مکانوں کے کرائے مہنگے ہونے کی وجہ سے بجٹ اپ سیٹ رہتا۔ تب ہی والد صاحب نے سوچا کسی ایسے علاقے میں پلاٹ خریدنا چاہئے جو نسبتا سستا ہو۔ پھر اس پر رفتہ رفتہ مکان کی تعمیر شروع کر دیں گے۔ ہمارا اپنا ذاتی گھر تو ہو پوش علاقے میں نہ بھی اپنی آبادی میں ہی سہی۔ ہمارے ہاں عموماً ایسا ہی ہوتا ہے جب لوگ اپنی پسندیدہ جگہ مکان نہیں خرید سکتے تو دور دراز سستے علاقے میں زمین خرید کر گھر آباد کر لیا کرتے ہیں یوں والد صاحب نے بھی شہر کی ہی آبادی میں مکان بنا لیا۔ ان دنوں میری عمر سترہ برس تھی ۔ خالہ جان کے توسط سے ایک اچھا رشتہ آ گیا چونکہ ہماری خالہ ایک پوش ایریا میں رہتی – لہذا لوگ خالہ کی وجہ سے رشتہ طلب کرنے بھی آبادی میں آگئے۔ میں کافی خوبصورت تھی۔ پہلی نظر میں ہی خاور کے والدین نے مجھے پسند کر لیا۔ ان لوگوں کا اپنا بزنس تھا۔ ذاتی گھر تھا۔ لڑکا بھی خوبرو تھا۔ یہ رشتہ مناسب تھا۔ سب کا خیال تھا میں خوش قسمت ہوں – ورنہ کچی آبادیوں میں رہنے والی لڑکیوں کو ایسے رشتہ کہاں ملتے ہیں۔ خالہ جان کی کوششوں سے بالآخر میری شادی خاور سے ہوگئی۔ دونوں کے والدین خوش تھے کہ اللہ نے خوب جوڑی ملائی تھی۔ ہمارا بھی آپس میں پیار ہو گیا۔ گھر میں ہی نہیں دلوں پر بھی بہار آ گئی۔ میرا فرض ادا ہوگیا تو والدہ کواب فکر لگی ثمر اور صاحبہ کی ۔ میری دونوں چھوٹی بہنیں میٹرک پاس کر چکی تھیں۔ ثمر کیلئے خالہ جان نے رشتہ ڈھونڈ نکالا اور میری شادی کے آٹھ ماہ بعد اس کا نکاح ایک خوشحال خاندان میں ہو گیا۔ اب صرف صاحبہ کا رشتہ ڈھونڈنا باقی تھا۔ ہم کسی کو یہ نہیں بتاتے تھے کہ صاحبہ ہماری سگی بہن نہیں ہے۔ قصہ یہ تھا کہ اس کے والدین ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ وہ ابھی صرف تین برس کی تھی۔ تب ہی میری والدہ نے   یتیم کو گود لے لیا اور اولاد کی طرح پرورش کی تھی۔ جب شمر کی بھی رخصتی ہوگئی تو والدہ نے سکھ کا سانس لیا۔ صاحبہ ابھی صرف سولہ سال کی تھی۔ امی کا خیال تھا وہ اکیلی رہ گئی ہیں، کچھ دنوں بعد اس کی شادی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں گی تو جب ہم دونوں لڑکیاں اپنے گھروں کی ہوگئیں تو لامحالہ کام کا بوجھ صاحبہ پر آپڑا۔ امی زیادہ کام نہیں کر سکتی تھیں ۔ قدرتی بات ہے کہ صاحبہ نے محسوس کیا پھوپھی مجھ سے زیادہ اپنی بچیوں پر توجہ دیتی ہیں اور مجھ سے گھر کا کام لیتی ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں تھی۔ میری والدہ صاحبہ اسے اتنا ہی پیار کرتی تھیں جس قدر ہم سے ان کو محبت تھی ۔ وہ لڑکیاں جن کے والدین اس دنیا میں موجود نہ ہوں حساس ہو جاتی ہیں وہ ذرا سی بات کو بھی زیادہ محسوس کرتی ہیں۔ یہی حال صاحبہ کا تھا- کہتی تھی کہ پھوپھی جان ماں والا  انصاف نہیں کر پاتیں اور میں ان کی نا انصافی کو سہنے پر مجبور ہوں۔ یہ احساس تب زیادہ ہوا جب ہماری شادیاں ہو گئیں ورنہ ہم دونوں بہنیں اس کا خیال رکھتی تھیں اور اس کو کسی کی کمی محسوس نہ ہونے دیتی تھیں۔ کی بات تو یہ ہے کہ صاحبہ بہت حسین تھی وہ ہم دونوں بہنوں سے بڑھ کر خوبصورت تھی۔ سولہ برس کی عمر میں ایک کھلتا ہوا گلاب تھی۔ میری شادی میں وہ ہر کام میں آگے آگے تھی۔ اس نے بہت دیدہ زیب لباس پہنا ہوا تھا ۔ شادی کے بعد میں اپنے گھر میں خوش و خرم رہنے لگی ۔ خاور کے روپ میں زندگی کا بہترین ساتھی  – دعا کرتی تھی کہ خدا میرے جیسی قسمت ہر کسی کو دے۔ خاور میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ میری ہر فرمائش پوری کرتے تھے جب جہاں کہتی سیر کرانے لے جاتے ، میرا ہی نہیں میرے گھر والوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ اب میری سوچ صرف اور صرف ایک ہستی پر ختم ہو جاتی تھی اور وہ میرا شوہر تھا۔ ہر وقت اپنے گھر کو جنت بنانے کے خواب دیکھتی رہتی تھی۔ ہمہ وقت گھر کی سجاوٹ میں لگی رہتی۔ اپنا گھر مجھے بہت عزیز تھا۔ شام کو جب ان کے آنے کا وقت ہوتا ، بن سنور کر تیار ہو جاتی وہی تو میری کل کائنات تھے۔ ہم میاں بیوی مثالی کہلانے لگے۔ ایک منٹ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے جب میکے جاتی خاور ساتھ جاتے ۔ تب صاحبہ ان کی بہت خاطر تواضع کرتی تھی۔ وہ بڑی پرکشش لڑکی تھی۔ ہر کسی کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی تھی جبکہ میں اپنے شوہر اور صاحبہ پر اعتماد کرتی تھی بھی کوئی بدگمانی نہیں ہوئی۔ خاور اگر صاحبہ کی طرف متوجہ رہتے اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے تو میں بہت خوش ہوتی کہ میرا خاوند مجھے سے محبت کرتا ہے تب ہی میرے رشتہ داروں سے پیار محبت سے پیش آتا ہے۔ انہی دنوں میں امید سے ہو گئی۔ طبیعت خراب رہنے لگی اور میں ہر کسی سے غافل ہو کر بیڈ پر پڑ گئی۔ ایسے میں صاحبہ نے میری بہت مدد کی ۔ بچے کو جنم دینے کا وقت آگیا اور میں اسپتال چلی گئی ،    بچہ آپریشن سے ہوا اور میں جلد چلنے پھرنے کے لائق نہ رہی تب بھی صاحبہ ہی تھی جس نے میرے گھر کو سنبھالا اور خاور کی خدمت کی۔ وہ ہر کام ان کا خوشی سے کرتی جس کی وجہ سے میرے سرتاج نے میری کمی محسوس نہیں کی اور مجھے بھی صاحبہ کی وجہ سے سکون رہا۔ منے کی پیدائش کے بعد میری صحت کافی متاثر ہوئی اور بستر پر پڑی رہی۔ امی میرے گھر آکر نہیں رہ سکتی تھیں ۔ ساس بیٹی کے پاس امریکا جا چکی تھی ایسے میں صاحبہ ہی ہماری امید کی کرن تھی۔ امی نے اسے دیکھ بھال کیلئے میرے پاس رہنے دیا۔ میں بستر پر پڑی تھی اور صاحبہ میری ہی نہیں بچے کی بھی دیکھ بھال کرتی تھی، کھانا پکانا گھر کی صفائی ستھرائی خاور کے کام پھر بچے کو نہلانا، فیڈر بنانا غرض ہر کام اسی کے ذمے ہو گیا۔ جب بیوی بیمار ہو۔ پھر بھی سارے کام  دو نازک ہاتھ انجام دے رہے ہوں تو صاحب کی نگاہ خود بخود اس پری وش پر ٹھہر نے لگتی ہے۔ مجھے پتہ بھی نہ چلا اور خاور صاحب کی نظریں بدلنے لگیں۔ وہ اب صرف صاحبہ سے ہی خوشدلی سے کلام کرتے تھے۔  جانے کب سے میرا وجود ان کو کانٹے کی کھٹکنے لگا تھا، مجھ کو علم نہ ہوا۔ جب ان کی خاموشی گہری ہوتی چلی گئی تب ایک روز میں چونکی اس وقت تک پانی پلوں سے گزر چکا تھا۔ اب یہ ماموں زاد ہی گھر کی رونق رہ گئی تھی ، باقی ساری رونقیں میرے شوہر کے دل سے محو ہوگئی حتی کہ اپنے پیارے بچے کی طرف سے بھی غافل ہو گئے ۔ ایک بار بھی اس کی طرف نہ دیکھتے جب میں توجہ مبذول کرائی تو چونک پڑتے جیسے ان کو کوئی بھولی ہوئی بات یاد کرا دی گئی ہو۔ معاملہ ایک نازک موڑ پر تھا اور میری سمجھ میں آگیا تھا مگر میں اس ڈر سے چپ رہنے پر مجبور تھی کہ نہیں منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات میرا گھر نہ اجاڑ دے۔ ادھر میں صاحبہ کی مرہون منت تھی۔ ادھر امی جان شدید بیمار ہوئیں۔ انہوں نے میرے گھر آنا جانا بند کر دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی ان کو اسپتال داخل ہونا پڑا۔ثمر ان کے پاس اسپتال میں تھی اور صاحبہ میرے پاس تھی  میں امی کو پوچھنے روز جاتی تو ننھے منصور کو صاحبہ کے سپرد کر جاتی۔ خاور خود مصروفیت کا بہانہ بنا کر مجھے ڈرائیور کے ہمراہ بھیج دیتے تھے۔ ایک بات میرے ڈرائیور نے نوٹ کی کہ جس روز میں امی کو دیکھنے جاتی اسی روز خاور دفتر سے جلد گھر لوٹ آتے۔ یہ بات ڈرائیور نے بتائی پھر بھی میں حرف شکایت زبان پر نہ لائی کہ محض شک کی بناء پر ایسی باتوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔  اب میرے دل کی عجیب کیفیت تھی۔ کچھ نہ کہتی تو کڑھتی رہتی تھی کچھ کہتی تو مرتی تھی۔ صاحبہ کو گھر واپس نہیں بھیج سکتی تھی کہ ابھی گھر یلو ذمہ داریوں کا بوجھ مجھ ناتواں کو اٹھانے کا ہمت و حوصلہ نہ تھا۔ امی کو کہتی تو وہ جواب دیتیں۔   اسے واپس بھیجوانے کی اتنی کیا جلدی ہے اور صاحبہ تو یہاں اس قدر خوش تھی۔ ایک دن بھی گھر لوٹ جانے کو نہیں کہا۔ الٹا یہی کہتی تھی ہائے منے سے اتنا پیار ہے اب اس کے بغیر کیسے رہوں گی۔ ایک دن میں لیڈی ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کرانے گئی اور منے کو صاحبہ کے سپرد کرگئی۔ خاور سے کہا تم ساتھ چلو، تو جواب ملا۔ آج دفتر میں اہم میٹنگ ہے، ابھی نہیں جاسکتا ، ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ، مجھے کو جانے میں دیر ہو گئی ، لیڈی ڈاکٹر جا چکی تھی ، لہذا جلدی واپس آ گئی تو شو ہر کو گھر میں پایا۔ سوچنے لگی کہ ان کی تو اہم کاروباری میٹنگ بھی میرے ساتھ جانے سے انکار کیا تو اب جلدی گھر کیوں آگئے ہیں۔ خاموشی سے دم گھٹ رہا تھا۔ شک وشبہ ذہن کو چلا رہا تھا۔ شک یقین میں بدلنے لگا کہ یونہی غیر موجودگی میں یہ دونوں میری محبتوں کے باغ کو اجاڑتے ہوں گے پھر توبہ توبہ کرنے نگلی کہ یا اللہ یہ کیا میں بری باتیں سوچنے لگی ہوں ۔۔ یہ ایسی بات تھی کہ کسی کو نہیں کہ سکتی تھی۔ ماں بیمار تھیں ان کو کچھ کہتی تو دل پر لے لیتیں۔ دل مرجھانے لگا۔ سوچتی تھی یہ مرد ذات بھی کیا شے ہے۔ میں نے تو اپنی محبت اور وفا صرف خاوند کے نام کر دی ہے اور انہوں نے جانے کیوں میری ذات سے تفاقل اختیار کر رکھا ہے۔ ذہن کی وہ کیفیت ہوئی کیہ پھر میکے جانے سے گھبرانے لگی۔ جب کہیں جاتی اصرار کرتی صاحب تم بھی ہمراہ چلو۔ اس کو اپنے گھر میں اکیلے چھوڑنے سے جی گھبراتا تھا پھر وہ ہوا جس کا گمان بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ ایک روز میں نے شوہر سے کہا کہ اب میں ٹھیک ہوں۔ گھر سنبھال سکتی ہوں ہمیں صاحبہ کو واپس چھوڑ آنا چاہئے۔ یہ کہنا تھا کہ خاور بگڑ گئے کہنے لگے تمہارا دماغ خراب ہے۔ بچہ ابھی چھوٹا ہے۔ تم گھر کی طرف توجہ دو گی پابچے کو دیکھو گی ۔ تم کو مستقل صاحبہ کی ضرورت ہے، فی الحال اس کو یہاں ہی رہنے دو، غرض کسی طرح نہ مانے اور میری کزن کے واپس بھجوانے کی راہ میں آڑے
آنے لگے۔ کچھ دنوں خاموش رہی۔ پھر یہی بات کہی کہ امی بیمار ہیں۔ ان کو صاحبہ کی ضرورت ہے۔ کب تک یہ ہمارے پاس رہے گی، اسے جانے دو، بولے تم چاہتی ہو کہ ہمارا بچہ بیمار ہو جائے۔ تم اپنے بچے کی دشمن کیوں ہو۔ “آخر صاحبہ کو جانا ہوگا ۔” میں نے سختی سے جوابدیا تو انہوں نے زندگی میں پہلی بار مجھ پر ہاتھ اٹھا لیا۔ یہ سنجیدہ معاملہ تھا ۔ آخر مجھ میں کیا کمی تھی۔ خوبصورت تھی اور میں خوب سیرت بھی تھی۔ کیوں شوہر نے نظروں سے گرا دیا تھا۔ ساری خوبیوں کے ہوتے اپنی حیثیت منوانے میں ناکام ہو رہی تھی یہ بڑی ہولناک بات تھی۔ میں احساس کمتری کا شکار ہونے لگی۔ اپنا وجود مجھے دو کوڑی کا لگنے لگا۔ میں نے صاحبہ کو مجبور کرنا شروع کر دیا کہ تم امی کے پاس جاؤ اور میرے بچے کو خود سے اس قدر مت ہلاؤ کہ پھر تمہارے بغیر نہ رہ سکے۔ میں اسے بچہ نہ اٹھانے دیتی تو رونے لگتی تھی۔ ایک روز زبردستی صاحبہ کو تیار کیا اور اسے امی کے پاس چھوڑ کر آ گئی۔ خاور گھر آئے تو آتے ہی صاحبہ کو آواز دی کہ کھانا لاؤ۔ وہ ہوتی تو جواب دیتی۔ جب دوسری بار صدا دینے پر بھی خاموشی چھا گئی تو وہ باورچی خانے کی طرف جانے لگے تب ہی میں نے کہا کہ صاحبہ وہاں نہیں ہے وہ امی کے پاس چلی گئی ہے۔ پریشان ہو کر سوال کیا کیوں چلی گئی ہے۔ کس کے ساتھ گئی ہے۔ میں خود اس کو چھوڑ کر آئی ہوں ۔ اس پر گھور کر دیکھا جیسے دل پر گھونسا لگا ہو۔ خاموشی سے کمرے میں چلے گئے ۔ کھانا بھی نہ کھایا۔ اب سخت مضطرب رہتے۔ بہانے بہانے سے جھگڑتے تھے۔ اس قدر زچ کیا کہ مجھے میکے جاتے بنی۔ یہاں ماں دوبارہ علیل ہو گئیں تو ان کو بھی حال دل نہ بتایا  ۔ اللہ تعالی کی مرضی کہ وہ چند دنوں بعد انتقال کر گئیں۔ میری دل کی دل میں بات رہ گئی۔ انہیں دنوں بھائی اور بھائی لاہور سے آئے تھے، جاتے ہوئے کہنے لگے، بہنا امی تو چلی گئیں، اب یہ مکان فروخت کرنا ہے۔ ابو بوڑھے ہیں، انہیں لے جاؤں گا مگر صاحبہ کو تمہاری بھابی نہیں رکھیں گی، بڑے مسائل ہوں گے، اسے تم ہی کو رکھنا پڑے گا۔ جب تک اس کی شادی نہ ہو، تمہارے پاس رہے گی۔ بھائی نے ایسی مجبوری ظاہر کی کہ صبر کا گھونٹ بھر کر خاموش ہونا پڑا۔ مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق صاحبہ کو دوبارہ گھر لائی اور بھائی نے ابو کے مکان کو تالا ٹھونک کر چالی جیب میں ڈال لی ۔ کس دل سے اس یتیم کزن کو گھر واپس لائی میرا دل جانتا ہے والدہ کی وفات کے دوسرے روز خاور خود آئے ان کا موڈ خود بخور ٹھیک ہو گیا۔ مجھے کہتے کہ صبر کرو تمہاری کزن کیلئے بہت اچھا رشتہ ڈھونڈ رہا ہوں ہم اس کی شادی کسی اچھے گھر میں کر دیں گے تو ہمارا نام ہوگا۔ دیکھو نا اس بیچاری کا تمہارے سوا ہے کون ۔ میں نے خالہ کو فون کیا کہ صاحبہ کو آپ رکھ لیں۔ ثمر کے تو سسرال والے بہت سخت لوگ تھے وہ اس کو نہیں رکھ سکتے تھے۔ خالہ نے کہا کچھ دن تم اسے رکھو، میں تمہارے خالو کو تومنا لوں گی ۔ مگر میری تینوں بہوئیں اس مزاج کی ہیں کہ یہاں صاحبہ کی گنجائش نہیں نکلتی ۔ وقت کیسے کٹ رہا تھا لکھ نہیں پاؤں گی۔ ہر وقت الٹی چھری بن کر میرے وجود کو لمحہ لمحہ ذبح کرتا رہتا تھا۔ اندر اندر کچھ ہو رہا تھا جو میری نظروں سے اوجھل تھا اور میں وہ سب کچھ دیکھ نہیں پا رہی تھی جو تصور میں مجھے ریزہ ریزہ کر رہا تھا۔ اس اثناء میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ دوسرے بچے کی پیدائش پر بھی آپریشن کی وجہ سے کافی عرصہ بستر پر پڑی رہی۔ تب صاحبہ مکمل طور پر میرے گھر کی مالکہ بن گئی اور پھر ایک دن قیامت کی وہ گھڑی آگئی جب خاور نے میری موت کا بگل بجا دیا۔ برملا کہا کہ تم میری بیوی رہنا چاہتی ہو، رہو نہیں رہنا چاہتیں تو طلاق لے لو۔ مگر بچے میرے پاس رہیں گے کیونکہ صاحبہ تم سے بہتر ان کو پال سکتی ہے۔ وہ کون ہوتی ہے ان کو پالنے والی۔ میں نے چلا کر کہا تب خاور نے اطمینان سے جوابدیا وہ ان کی دوسری ماں ہے جو تم سے زیادہ سگھڑ اور سلیقہ مند ہے۔ میرے بچے تم سے زیادہ اس کے ساتھ خوش رہیں گے وہ تم سے زیادہ ان سے پیار کرے گی۔ عجب منطق تھی۔ نرالی باتیں تھیں۔ سگی ماں سے زیادہ ماں کی رشتے دار بچوں سے پیار کرنے والی ثابت ہو رہی تھی ۔ یہ سب کیا تھا، ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ جانتی تھی کہ میں بھائی اور بھائی پر بوجھ نہیں بن سکتی۔ بچوں کے بغیر بھی نہیں رہ سکتی۔ ہر حال میں مجھے صاحبہ کو بطور سوکن قبول کرنا تھا۔ اس کے سوا کیا چارہ تھا۔ طلاق لیتی تو کہاں جاتی ۔ صاحبہ اور خاور جیت گئے ۔ میں ہار گئی۔ خاور نے میری کزن سے شادی کر لی۔ اس لڑکی سے جس کو میرے والدین نے بیٹی بنا کر پالا تھا۔ والد اور بھائی بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ میرے بچوں کا ان کو خیال تھا۔ تھوڑ اسا احتجاج اور بس وہ کچھ نہ کر سکے اور صاحبہ خاور کی دوسری بیوی بن کر میرے سینے پر مونگ دلنے لگی۔  کاش امی نہ مرتیں ۔ اے کاش صاحبہ کے والدین نہ مرتے یا پھر میں بھی صاحبہ کو اپنے گھر نہ لاتی۔ اس سے تو اچھا تھا اپنی خدمت اور گھر کی دیکھ بھال کو میں زیادہ رقم دے کر کوئی خدمتگار عورت رکھ لیتی ۔ آج کسی کا بھروسہ نہیں ، اپنوں کا اور نہ پرائے گا۔  میرے شوہر نے ایک پلاٹ پر دو الگ الگ گھر بنوائے اور پھر ہم دونوں کو علیحدہ رکھا۔ میرے پاس ملازمہ رہتی ہے اور صاحبہ کے پاس خاور رہتے ہیں۔ وہ بچوں کی خاطر دن میں ایک بار صرف ایک یا دو گھنٹہ آتے ہیں۔ بچوں سے  باتیں کر کے چلے جاتے ہیں یہ وہی خاور ہیں جن کی محبت پا کر   مجھے ان پر نخر تھا کہ ان جیسا محبت کرنے والا شوہر کسی کا نہیں ہو سکتا۔ آج جو میرا تھا وہ کسی کا ہو گیا اور میں ہاتھ ملتی رہ گئی ہوں۔ سچ ہے عورت کی کوئی حیثیت نہیں، مرد جب چاہے اس کو ملکہ بنا دے جب چاہے تخت سے گرا دے ۔ اس کے بچوں کی ماں ایک کمزور میکے والی بیوی بھلا اپنے خاوند کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔ میں نے بھی سمجھوتہ کرنے میں عافیت جانی۔ سمجھوتہ کر لیا کہ کبھی تو میرے بچے بڑے ہوں گے پھر مجھے معاشرے میں مقام مل جائے  -خدا کرے میری آرزو بچے پوری کر دیں۔

Latest Posts

Related POSTS