انسان اور حیوان دونوں ہی اللہ تعالی کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں، لیکن دونوں کی فطرت میں بڑا فرق ہے۔ حیوان قانون فطرت کے مطابق اپنی جبلت کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے مزاج میں ، معاشرے کا کوئی قانون وضع نہیں ہے۔ ان کے ہاں برادری کا کوئی زور آور ، اگر کمزور کو مار ڈالے تو وہی حاکم ہوتا ہے کیونکہ ان میں صرف طاقتور کی حکمرانی چلتی ہے۔ یہ ان جانوروں میں ہوتا ہے جو اجتماعی طور پر ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں۔ ایم بو “ جب جانوروں پر ریسرچ کر رہی تھی، یہ بھی اس نے پڑھا تھا کہ حیوانوں میں بھی اگر انسانیت کو تلاش کرنا ہو تو وہ صرف ان میں چھپے ہوئے ایک جذبہ میں تلاش کی جاسکتی ہے اور وہ ہے ممتا کا جذبہ ۔ اس وقت مجھ کو یہ نکتہ سمجھ میں نہ آسکا تھا۔ وہ جب اپنا تھیسسں لکھ رہی تھی ، اس نے جانوروں کا مطالعہ کیا تھا اور ان کے بارے میں تفصیل سے پڑھا تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ جانور جو اجتماعی طور پر ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں ان میں ہاتھی، جنگلی بھینسا، ہرن اور چند دوسرے جانور شامل ہیں، شیر کو دیکھ کر یہ سب بھاگ جاتے ہیں اور جو پیچھے رہ جاتا ہے وہ شکار ہو جاتا ہے۔ البتہ جنگلی بھینسے اور رائنو، یہ دو جانور ایسے ہیں کہ اپنی تح صیلی فطرت کی وجہ سے شیر پر حملہ کر کے اس کے لہولہان کر دیتے ہیں اور شیر کو بھاگتے ہی بنتی ہے ، اس لئے یہ دونوں جانور بہت کم شیر کا شکار ہوتے ہیں۔ چونکہ ریچھ کے جسم پر بہت بال ہوتے ہیں، شیر اس کا شکار نہیں کرتا، مگر یہ بدذات جانور گھروں میں بھس کر کھانے پینے کا سامان چوری کر کے کھا جاتا ہے۔ اس نے بندروں کے بارے میں بھی تھوڑا سا پڑھا تھا کہ سڑک کے کنارے لگے درخت پر بیٹھ جاتے ہیں اور اگر گاڑی ٹریفک لائٹ کی وجہ سے وہاں سے آہستہ سے گزرتی ہے یا رک جاتی ہے تو کود کر اس کی چھت پر بیٹھ جاتے ہیں اور دوسری ٹریفک لائٹ کے قریب آنے والے درخت کی شاخ پکڑ کر درخت پر کود جاتے ہیں۔ ایم بو، کا اصل موضوع شیر کی فطرت کا مطالعہ اور اس کے بارے ریسرچ ورک کرنا تھا۔ باقی جانوروں کا تذکرہ تو ضمنی سا تھا۔ وہ چونکہ افریقہ کے ایسے ہی ملک کی رہنے والی تھی، جہاں جانور آزادی سے سڑکوں پر ٹہلتے نظر آتے ہیں، اس لئے اپنے شہر کے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی جانوروں کی نفسیات سے کافی واقفیت رکھتی تھی۔ ایم بو نے اس وجہ سے شیر پر ریسرچ ورک منتخب کیا تھا کہ وہ جانتی تھی کہ شیر فطری طور پر بہت شریف النفس جانور ہوتا ہے۔ وہ صرف اس وقت کچھار سے نکلتا ہے ، جب بھوکا ہو اور شکار کر کے کسی بھی اونچی چٹان پر بیٹھ کر جنگل کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔ وہ اگر بھوکا ہو تو پھر جھاڑیوں میں چھپ کر اپنے شکار کا پیچھا کرتا ہے اور بغیر آواز نکالے اُس کا تعاقب کرتا ہے۔ تبھی اچانک حملہ کر کے شکار کو دبوچ لیتا ہے۔ سب سے پہلے اس کا نر چبا کر خُون پی جاتا ہے۔ اس کے بعد چیر پھاڑ کر کے گوشت کھاتا ہے۔ ایم بو ، شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ امریکا آ گئی تھی اور جب دو سال بعد وہ حاملہ ہوئی تو اس کی ساس نے جو رات دن پوتے ، پوتی ہونے کی دعائیں مانگا کرتی تھی، اپنے بیٹے کو مجبور کیا کہ وہ ایم بو کو اس کے پاس بھیج دے کیونکہ اس کا بیٹا عبدالرحمن اکلوتا تھا اور ماں کی آرزو تھی کہ وہ افریقی رسم ورواج کے مطابق کچھ رسمیں ادا کرے۔ عبدالرحمن ماں کے آگے بے بس ہو گیا اور ایم بو کو اُسے والدہ کی طرف بھیجنا پڑا۔ وہ خود بھی خوش تھی کیونکہ اس کے بہن بھائی اور ماں باپ بھی وہاں ہی تھے۔ اُس کے افریقہ آنے کی آرزو اس کے ماں اور بہن بھائیوں کو بھی تھی۔ قبائلی رسم ورواج کے مطابق اس کی ساس روزانہ کیلے کے پتے اس پر سے صدقہ کرتی، مختلف آیات دم کر کے نہار منہ پانی پلاتی۔ اس کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے گھر اُس کی دعوت بھی ہوتی تھی ، نہ صرف یہ بلکہ روز شام کو اپنے اپنے کاموں سے فارغ ہو کر محلے کی عور تیں ان کے گھر میں جمع ہو کر چھوٹے چھوٹے گھنگروں بندھی لکڑیاں، رنگ برنگے مٹکوں پر بجا کر گیت گایا کرتی تھیں اور اس کو بیٹے اور بیٹی کے مختلف نام بتایا کرتی تھیں۔ ایم بو مسکرا کر سب کا شکریہ ادا کرتی۔ وہ جانتی تھی کہ ان کے قبیلے کے رواج کے مطابق بچے کا نام دادی اور دادار کھیں گے۔ وہ کسی سے کچھ نہ کہتی مگر دل ہی دل میں دعا مانگتی کہ نام ایسا ہو جو امریکی بھی لے سکیں۔ امریکی ویسے بھی بڑی مشکل سے افریقی نام ادا کرتے ہیں، اسی لئے وہ عام طور پر نام کو توڑ مروڑ کر اپنی آسانی سے کچھ کا کچھ کر لیتے ہیں، جو رائج ہو جاتا ہے۔ اسی لئے امریکن فارمز میں ایک لائن یہ بھی ہوتی ہے کہ اصل نام کے ساتھ پکارنے والا بھی لکھا جائے۔ ایم بو ان دنوں اپنا زیادہ وقت سونے یا ٹہلنے میں گزارتی تھی۔ اتنا آرام اس کو امریکہ میں تو ہر گز نہ ملتا تھا۔ ایک دن اچانک سارے گائوں میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ہوا یوں کہ اسکول سے آتے ہوئے ایک بچہ غائب ہو گیا۔ بچے کا دودن تک کوئی اتا پتا نہ ملا۔ اُس کے ماں باپ اور گائوں والے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے۔ مسجدوں میں ہر نماز کے بعد عبد السلام کے مل جانے کی دُعائیں کرائی گئیں، عورتوں نے گھر بیٹھ کر قرآن پاک ختم کئے، تہجد کے سجدوں میں گر کر دعائیں مانگی گئیں، مگر بچے کا کوئی پتانہ ملا، پھر آٹھ دن بعد ایک آدمی بھی غائب ہو گیا۔ گائوں میں سنسنی پھیل گئی، ہر کوئی پریشان تھا۔ مائیں اپنے بچوں کو دن کے وقت بھی گھروں سے نکلنے نہیں دیتی تھیں۔ اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد کم ہوتی جارہی تھی کہ اس آدمی کے گم ہو جانے سے تو اور زیادہ گائوں میں سنسنی پھیل گئی۔
اب ہر جگہ ، ہر علاقے میں لوگ تو طرح طرح کے ہوتے ہی ہیں۔ کسی نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ ضرور کسی جادوگر نے ان دونوں کو اغوا کیا ہے ، تاکہ ان کی بلی چڑھا دی جائے اور لاشیں غائب کر دیں تا کہ ثبوت باقی نہ رہے۔ یوں گائوں میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک قسم کا کھنچائو پیدا ہو گیا۔ ہندوئوں کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مسجد کے مولوی صاحب کے پاس جا کر اپنی صفائی پیش کی ، مگر کھنچائو برقرار رہا۔ ابھی لوگ اس بچے اور آدمی کی تلاش میں تھے کہ ہندوئوں کے محلے کی ایک عورت غائب ہو گئی۔ ان تینوں غائب ہو جانے والوں میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ اکیلے سفر کر رہے تھے۔ اب ہندوئوں اور مسلمانوں نے مل کر ان تینوں کو ڈھونڈ ناشروع کر دیا۔ ایک آدمی ڈھونڈتے ڈھونڈتے گانوں کے قریب جنگل میں نکل گیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس کو ایک ڈھانچہ نظر آیا۔ وہ بھاگا بھاگا گائوں گیا اور سب کو بتایا۔ لوگ نیزے، بانس اور کلہاڑیاں لے کر اس کے ساتھ ہو لئے۔ ڈھانچے پر اوپر کہیں کہیں پھٹے ہوئے کپڑے کی دھجیاں لگی تھیں۔ ایک آدمی نے ڈھانچے پر جس میں کہیں بھی گوشت باقی نہ رہا تھا، صرف اس پر اس پر چپکی ان دھجیوں سے شناخت کر لیا کہ یہ محمد کا ڈھانچہ ہے ، جو دو ہفتہ پہلے غائب ہو گیا تھا۔ بڑی مشکل سے اس کی بیوی کو جو بار بار غش کھا رہی تھی ، سنبھالا گیا۔ ڈھانچے کو سمیٹ کر اس کا کفن دفن کیا گیا۔ گائوں کے سیانوں نے ڈھانچہ دیکھتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ کسی درندے کا کام ہے ، اس لئے کوئی بھی اکیلا کہیں بھی سفر نہ کرے۔ باوجود کوشش کہ اُس ہندو عورت اور عبد السلام کی لاش نہ ملی۔ بہت آگے یا گہرے جنگل میں جانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ کوئی آدم خور شیر اس طرف آ نکلا ہے جو بہت خونخوار اور نڈر ہے کیونکہ کئی لوگوں نے اس کو قریبی شہر کے قریب پانی پیتے دیکھا تھا۔ آدم خور کو اگر انسان کا گوشت کھانے کی لت لگ جائے، پھر وہ جانور کا گوشت نہیں کھاتا، اس لئے کہ جانور جو گھاس پھوس کھاتے ہیں، جب ان کا گوشت لذیذ ہوتا ہے تو انسان تو پھر انواع و اقسام کی غذائیں کھاتے ہیں۔ ایم بو کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے شیر آدم خور بن جاتے ہیں کہ ان کے منہ کو انسانی خون لگ جاتا ہے۔ محمد کی بیوی بار بار جنگل کی طرف دوڑتی تھی۔ عبدالسلام کی ماں نے گائوں میں طوفان مچا رکھا تھا۔ وہ کہتی تھی، کوئی کم از کم اس کے بچے کا ڈھانچہ ہی ڈھونڈ کر لادے، جس کو دیکھ کر اسے صبر آجائے کہ اب اس کا لخت جگر اس دنیا میں نہیں ہے، مگر گھنے سبز جنگل میں جہاں سانپوں کی بھی بہتات تھی کوئی بھی اپنی جان گنوانے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھا۔
ابھی لوگ ان تینوں کا غم کر رہے تھے کہ ایک بزرگ رات کو تہجد پڑھنے مسجد گئے ، مگر واپس نہ آئے۔ اب گائوں کے لوگوں کی برداشت جواب دے گئی۔ فیصلہ ہوا کہ جب شیر پانی پینے نہر پر آئے تو اس کو وہیں نیزوں اور کلہاڑیوں سے ختم کر دیا جائے۔ وہ عام طور پر دن ڈھلے پانی پینے آتا تھا۔ دو دن لوگ چھپ کر بیٹھے رہے، وہ نہ آیا۔ تیسرے دن وہ پانی پینے آیا۔ لوگوں نے اس پر نیزے برسائے مگر اسے نہ لگے اور وہ پھر تیلا آدم خور تیزی سے بھاگ کر غائب ہو گیا، البتہ اس کا ایک کان نیزے کی آنی سے کٹ کر نہر میں گر گیا اور پانی کے ریلے میں بہت دور نکل گیا۔ اس کے بعد کافی دنوں تک امن رہا۔ سب کا خیال تھا کہ شیر کسی دوسری طرف نکل گیا ہے ، گانوں کی زندگی نارمل طریقے سے جاری ہو گئی تھی۔ ایک دن ایم بو گھر سے نکلی اور آہستہ آہستہ ،نہر تک چلی گئی۔ یہ سارا علاقہ اس کا دیکھا بھالا تھا۔ یہاں اُس نے بچپن اور جوانی گزاری تھی، اس کو ایک طرح کا انس تھا یہاں سے ، نہر دیکھ کر اس کا تیر نے کو دل چاہا۔ وہ لباس اتار کر نہر میں کود گئی اور تیرتی رہی۔ صبح کا سہانا وقت تھا، ماضی کی خوبصورت یادوں نے اسے گھیر لیا، جب وہ یہاں گھنٹوں نہایا کرتی تھی۔ وہ تیرا کی کی بھی ماہر تھی۔ جب نہا چکی تو تیر کر باہر نکلی، تب اس کو اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی۔ مرر کر دیکھا تو پتا چلا کہ وہ شیر کے سامنے موجود ہے۔ شیر بغیر پلک جھپکائے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُسے پتا چل گیا کہ یہ شیر نہیں، بلکہ شیرنی ہے ، موت آب اُس کو اپنے سامنے صاف نظر آرہی تھی۔ وہ نہر میں کود کر اپنی جان نہیں بچا سکتی تھی کیونکہ اس کو علم تھا کہ شیر بہترین تیراک ہوتے ہیں۔ وہ پانی کے بہائو کے مخالف سمت بھی آسانی سے تیر سکتے ہیں۔ ایم بو ، سات ماہ کی حاملہ تھی اور بھاگ نہیں سکتی تھی۔ شیر اس کو ساکت کھڑا دیکھ رہا تھا۔ وہ آگے بڑھا، اچانک اس کی نظر ایم بو کے ابھرے ہوئے شکم پر پڑی۔ اسے جیسے ایقان ہو گیا ہو کہ وہ اپنے شکم میں ہونے والے بچے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، تبھی وہ تیزی سے مڑ کر گھنے جنگل میں گم ہو گیا۔ اللہ کی رحمت اس پر ہو گئی تھی کہ وہ بغیر حملہ کئے ، اسے دیکھ کر چلا گیا تھا، حالانکہ اس کی کبھی شیروں سے کوئی دوستی تو نہ رہی تھی۔ ذرا دیر تک وہ بہت بنی جہاں کھڑی تھی، وہاں کھڑی رہ گئی، جیسے اُسے سکتہ ہو گیا ہو۔ اس کے اندر جنبش کی طاقت ہی نہ رہی تھی۔ جو نہی اوسان بحال ہوئے ، وہ گھر کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔ آج کام آئی تو اس کے رب کی رحمت ورنہ سات ماہ کی حاملہ خود کو کیونکر اس خونخوار بلا سے بچا سکتی تھی۔
بھاگتے بھاگتے وہ اپنے گھر کی دہلیز پر پہنچ کر بے ہوش ہو گئی۔ اس کے گرنے کی آواز پر ساس باہر آئیں ، اسے دیکھا تو اندر سے چادر لاکر اس کے بے لباس جسم کو ڈھانپا۔ گھر والے اُسے اُٹھا کر اندر لے گئے ، بڑی مشکل سے ایم یو کو ہوش دلایا گیا۔ سب سے زیادہ اس کی ساس پریشان تھی کیونکہ اس نے ہی ضد کر کے اُس کو امریکہ سے یہاں بلوایا تھا۔ اُس نے دہشت زدہ آواز میں روتے ہوئے سب کو واقعہ بتایا۔ گائوں کے ایک بزرگ نے پوچھا۔ کیا اُس شیر کا ایک کان کٹا ہوا تھا؟ ایم بونے اثبات میں سر ہلا دیا، تبھی وہ بولا۔ ایم بو! تو بڑی خوش نصیب ہے کہ آدم خور کے پنجوں سے نکل کر آگئی ہے۔ گائوں والوں نے چار لوگوں کے آدم خور کا لقمہ بننے کے بعد حکومت سے درخواست کی کہ اس کو مار دیا جائے تاکہ گائوں والوں کی زندگیاں بیچ سکیں اور وہ سکون کا سانس لے سکیں۔ حکومت نے پہلے تو روایتی طریقے سے ایک درخت پر مچان بنوا کر شکاری وہاں بٹھا دیئے اور نیچے بکرا باندھ دیا مگر شیر نہیں آیا، پھر ایک ماہر شکاری ڈھونڈ کر لایا گیا جس نے پہلے درختوں پر بیٹھ کر شیر کے ندی پر آنے جانے کا وقت نوٹ کیا اور اندازہ لگایا کہ وہ ایک مقررہ وقت پر نہیں آتا بلکہ مختلف اوقات میں آتا ہے۔ شکاری نے بتایا کہ آدم خور ہونے کے بعد ، شیر کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ وہ خود بھی اپنے بچائو کے مختلف طریقے اختیار کر لیتا ہے ، وہ اپنے پانی پینے کے اوقات تک تبدیل کر لیا کرتا ہے۔ زیادہ تر درختوں کے قریب نہر سے پانی نہیں پیتا بلکہ کھلے کھلے میدانوں سے پانی پیتا ہے کیونکہ اس کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کوئی اس کو نشانہ بنانے کے لیے گھات لگائے بیٹھا ہو گا۔ شیر ایسے حالات میں بڑے سیانے ہو جاتے ہیں۔ تین دن کی نگرانی کے بعد اس ماہر شکاری نے میدان میں نہر سے سو گز کے فاصلے پر کھڑے ہو کر جب شیر پانی پینے کو جھکا ہوا تھا، بائیں کان کا نشانہ لے کرتا بڑ توڑ گولیاں برسادیں۔ بایاں کان نیزوں کے وار سے کٹ کر نہر میں گر چکا تھا، اس لئے گولیاں سیدھی کان کے سوراخ سے اُس کے دماغ میں پہنچ کھیں اور وہ زمین پر گر گیا۔ قریب چھپے ہوئے قبائلی جو شکاری کی مدد کے لئے وہاں پہنچ گئے تھے ، بھاگ کر آگئے۔ شیر کی لاش گائوں پہنچادی گئی۔ سب لوگ اس کے جسدِ بے جان کو دیکھنے کو جمع ہو گئے۔ ایم بونے کئے ہوئے کان سے اسے پہچان لیا۔ جب شیر کا پیٹ چاک کیا گیا تو دو نا پختہ بچے اس کے شکم میں موجود تھے، لہٰذا ایم بو کا اندازہ صحیح نکلا کہ یہ آدم خور شیر نہ تھا بلکہ شیرنی تھی، جس نے بھوک کے باوجود اس کو حاملہ دیکھ کر چھوڑ دیا تھا۔ ایم بو جب امریکہ لوئی اور مجھ سے ملی تو کہنے لگی کہ مجھے یقین نہیں آتا کہ واقعی اس شیرنی نے اس باعث مجھے نہیں کھایا کہ میں ماں بنے والی تھی، جبکہ وہ خود بھی تو ماں بنے والی تھی۔ تو کیا یہ بات درست ہے کہ حیوان میں انسانیت صرف ممتا کے جذبے کی وجہ سے آتی ہے اور خدا نے درندوں میں بھی ماں جیسی صفت رکھی ہے ؟ ایم بو کہتی ہے کہ یہ اس کی زندگی کا خوفناک اور حیرت ناک تجربہ ہے، جس کو وہ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ اس تجربے کے سامنے اس کی ریسرچ سبھی کچھ بیچ میں کیونکہ اس کو اپنے سوال کا جواب آج تک نہیں ملا ہے۔