ڈھلتے سورج کی مدھم کرنیں درودیوار کو الوداعی بوسہ دیتی رخصت ہو رہی تھیں۔ آنگن کے بیچوں بیچ کھڑے مولسری کے پیر پر بسیرا کرنے والی چڑیوں نے غل مچا رکھا تھا۔ پورا آنگن ان کی چہچہاہٹ سے گونج رہا تھا۔ دیوار کے ساتھ ساتھ بنی کیاری میں کھلے پھولوں کی مہک ہوا کے نرم جھونکوں کو معطر کر رہی تھی۔ برآمدے کی دہلیز پر بیٹھی فاریہ خالی خالی نظروں سے چاروں اور تک رہی تھی۔ چڑیوں کی نقرئی چہچہاہٹ اور پھولوں کے دل آویز رنگوں نے اس کے دل کی بے رنگی اور ویرانی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ کل تک اس کے دامن میں خوشیاں تھیں ، دل میں امیدیں اور آنکھوں میں خواب تھے ۔ آج اس کا دامن آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا۔ دل ناامیدی اور مایوسی کے گرداب میں گھرا ہوا تھا اور آنکھیں شکستہ خوابوں کی کرچیوں سے زخمی تھیں۔ کل تک وہ حفیظہ خالہ کی چہیتی تھی، ان کی ہونے والی لاڈلی بہو، چیف انجینئر اظفر احمد کے اکلوتے بیٹے ظفر یاب کی بچپن کی منگیتر تھی۔ اس کے پیدا ہوتے ہی خالہ نے اسے اپنے اکلوتے اور چہیتے بیٹے ظفر یاب کے لیے مانگ لیا تھا اور اس کی ننھی سی انگلی میں نازک سی طلائی انگوٹھی پہنا کر اسے ایک نئے رشتے کے بندھن میں باندھ دیا تھا- انگوٹھی پر کنداں ظفر یاب کا نام اس بات کا مدعی تھا کہ وہ اس کی امانت بنا دی گئی ہے۔ یہ رشتہ حفیظہ خالہ کے لیے اس حوالے سے بھی بہت مبارک ثابت ہوا کہ ان کے میاں اظفر احمد کو برسوں کی بے روزگاری کے بعد اچانک سعودی عرب کے ایک بڑے تعمیراتی ادارے میں ملازمت مل گئی تھی اور وہ بیوی اور بیٹے سمیت دمام روانہ ہو گئے تھے۔ پھر وہ پورے چار سال بعد وطن واپس لوٹے تھے، تب انہوں نے شہر کے ایک پوش علاقے میں ہزار گز کا پلاٹ اس ارادے سے خریدا تھا کہ اس پر فاریہ ہائوس، تعمیر کروایا جائے گا۔ مہینہ ؟ بھر رہ کر وہ واپس لوٹ گئے تھے۔ کئی برس بعد حفیظہ بیگم جب وطن واپس لوٹیں تو اب فاریہ آٹھ برس کی ہو چکی تھی۔ شعور کے دریچے کسی قدر کھلنے لگے تھے۔ عمر کے اس موڑ پر اسے پہلی بار پتا چلا تھا کہ بہت پیار کرنے والی سویٹ سی حفیظہ خالہ کے شریر آنکھوں والے نٹ کھٹ اور خود سر سے بیٹے ظفر یاب سے اس کا خالہ زادہ کے علاوہ ایک اور بھی رشتہ ہے اور اس رشتے کے ادراک نے اس کے احساس کو سوچ کی ایک نئی نہج عطا کی تھی۔ تخیل کو ایک انجانی انوکھی اڑان بخشی تھی۔ اس بار حفیظہ خالہ پورے تین ماہ ٹھہری تھیں اور انہوں نے اپنے پلاٹ پر ایک شاندار کھوٹھی تعمیر کروائی تھی۔ کھوٹھی کی پیشانی پر فاریہ ہائوس کنداں کیا گیا تھا۔ اپنے نام کی تختی دیکھ کے کر اسے یقین ہو چلا تھا کہ یہ گھر اس کے لیے بنا ہے اور جلد یا بدیر اسے اس خوبصورت اور خواب آسا گھر میں رہنا ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ظفریاب کا بن کر۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی جڑ پکڑتا گیا تھا کہ بچپن کی یہ ادھوری بکھری بکھری سوچیں، جوانی کی وادی میں قدم رکھنے تک ایک مجسم پیکر بن کر اس کے دل کے ہر گوشے پر تسلط جما چکی تھیں۔ ظفریاب اپنی بے نیاز اور لا تعلق سی دلکش شخصیت سمیت اس کی روح میں سما چکا تھا۔ اس بار حفیظہ خالہ وطن لوٹیں تو ظفریاب ان کے ساتھ نہیں تھا، وہ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ جا چکا تھا۔
اور اسی ٹھٹھرا دینے والے ملک میں دھند میں لپٹی ایک اداس سی شام میں ظفریاب کی ملاقات نرما سے ہوئی تھی۔ نرما کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں عجب سا جادو تھا اور اس کی سیاہ گھنی دراز زلفوں نے شام کی سرمئی رنگت کو کچھ اور گہرا کر دیا تھا۔ اس کے تراشیدہ لبوں کی دلربا مسکراہٹ نے ماحول کی اداسی جذب کرلی تھی اور اس کے سانولے سلونے چہرے کی کشش نے ظفریاب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ پارک کی لکڑی کی بینچ پر بیزار سے بیٹھے ظفریاب کو سب کچھ یکدم اچھا لگنے لگا تھا۔ ایک اس کے آجانے سے بے جان سا ماحول اچانک زندہ ہو گیا تھا۔ نرما نے پارک کے وسط میں بنی مصنوعی جھیل میں تیرتی اطالوی نسل کی بطخوں کو دیکھا، پھر پورے پارک پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑا کر کوئی شناسا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش کی، پھر اس کی نظریں بینچ پر تنہا بیٹھے ظفریاب پر آٹھہری تھیں۔ وہ اپنی ساحرانہ آنکھوں میں دوستانہ چمک اور لبوں پر اپنائیت بھری مسکراہٹ لئے ظفریاب کی طرف بڑھی۔ آریو انڈین ؟ اس نے قریب پہنچ کر نرم اور شیریں لہجے میں سوال کیا۔ اس کی مدھر آواز کا ترنم فضا میں جلترنگ بن کر گھل گیا تھا۔ نو، آئی ایم پاکستانی ، ظفر یاب نے اس کی جادو بھری آنکھوں کے سحر میں گرفتار ہوتے ہوئے خواب کے سے لہجے میں جواب دیا۔ لیکن میں ہندوستانی ہوں۔ اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ نرما، نرما مکرجی۔ میرے پتا جیت مکرجی مغربی بنگال میں چائے کے باغات کے ٹھیکیدار ہیں۔ مجھے ظفریاب کہتے ہیں ۔ ظفریاب نے اس کا گداز نازک ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں تھامتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ میں پاکستانی ہوں مگر میرے بچپن سے لے کر اب تک کا عرصہ دمام میں گزرا ہے۔ وہاں ایک تعمیراتی فرم میں میرے والد بحیثیت چیف انجینئر کام کرتے ہیں۔ سانولی سلونی، سیاہ آنکھوں اور کالی زلفوں والی نازک اندام نرما مکرجی سے ظفریاب کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ نرما آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ آئی تھی۔ وہ خود بھی ایک آرٹسٹک سی لڑکی تھی۔ نرم گو اور نرم خوسی … اسے دیکھ کر ظفریاب کو ب کو اوائل جاڑوں کی نرم اور گلابی دھوپ کا خیال آتا تھا۔ اس کی سیاہ آنکھوں کے ہزارہا رنگ تھے ، ہزارہا انداز تھے۔ ہر رنگ ، ہر انداز اسے اپنی جانب کھینچتا تھا۔ خود نرما بھی اپنے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر خوشی اور تسکین محسوس کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے لیے ان کے دلوں میں ایک غیر محسوس سی، انجانی سی کشش اور پسندیدگی تھی۔ اس کے باوجود وہ بے حد محتاط تھے کیونکہ لاکھ پسندیدگی اور ہم آہنگی کے باوجود اپنے درمیان موجود خلیج سے وہ دونوں بخوبی واقف تھے۔ نرما جانتی تھی ظفریاب ایک سچا اور کھرا مسلمان ہے جبکہ ظفریاب اپنے پیروں میں پڑی ٹھیکرے کی مانگ کی بیڑیوں سے بھی باخبر تھا۔ نرما اپنے دھرم سے ناتا نہیں توڑ سکتی تھی اور ظفریاب بچپن کے اس رشتے سے منحرف ہونے کا خود میں حوصلہ نہیں پاتا تھا، اس لئے دونوں نے خود کو اس حد فاضل سے دور ہی رکھنے کی کوشش کی تھی جس کا نام محبت ہے۔
مگر وہ محبت ہی کیا جو اپنے لیے خود راستے نہ بنالے۔ سو غیر محسوس طور پر محبت نے ان دونوں کو اپنا اسیر بنانا شروع کر دیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی ظفریاب، نرما کے سحر میں گرفتار ہوتا گیا اور نرما نے اسے اپنی فسوں خیز آنکھوں کی راہ سے اپنے دل میں اتار لیا۔ ظفریاب ! میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ ایک شام اس نے نہایت سادگی اور پوری سچائی سے کہا۔ میں بھی، وہ بھی دل کی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ سچے لہجے میں بولا۔ مگر تم جانتی ہو۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔ ظفریاب کے لہجے کی مایوسی نے نرما کو حیران کر دیا۔ وہ بولی ۔ مگر کیوں؟ کیونکہ ہم دونوں کے بیچ بہت سی باتیں الگ اور مختلف ہیں۔ مثلاً؟، ظفریاب کے سنجیدگی سے دیئے گئے جواب پر اس نے حیرانی سے پوچھا۔ مثلاً ۔ ظفریاب ۔ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ مذہب۔ مذہب ؟ وہ حیران ہوئی۔ شادی کا بھلا مذہب سے کیا لینا دینا۔ ہمارے مذہب کی رو سے شادی ایک مذہبی فریضہ ہے۔ ظفریاب نے اسے مدبرانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا۔ اگر مذہب کو اٹھا کر الگ رکھ دیا جائے تو پھر یہ ناتا ایک گناہ آلود تعلق تو بن سکتا ہے مگر شادی کا پاک اور پوتر رشتہ نہیں۔ نرما سوچ میں ڈوب گئی۔ وہ عشق کے اس مقام پر پہنچ چکی تھی کہ ظفریاب کی خاطر کچھ بھی کر سکتی تھی۔ سو اس نے دین اسلام سے متعلق کتب کا مطالعہ شروع کر دیا اور جلد ہی اس کے دل نے اسلام کی سچائی کو تسلیم کر لیا۔ نرما اس کی خاطر اپنا وطن ، اپنے ماں باپ اور اپنا دھرم چھوڑنے پر تیار تھی تو ظفریاب کا کم از کم اپنی منگیتر سے دستبردار ہونا تو بنتا تھا۔ ویسے بھی اسے فاریہ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے آخری بار اسے بارہ تیرہ برس کی عمر میں دیکھا تھا۔ کوئی جذباتی تعلق یا قلبی لگائو نہ ہونے کے باوجود وہ اس کا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ جانتا تھا مشرقی لڑکیاں ایسے رشتوں کے لیے کس قدر حساس اور جذباتی ہوتی ہیں مگر نرما کی جادو بھری شخصیت کے سامنے وہ بے بس ہو گیا تھا۔ اور اگلی ہی شام بہت خاموشی اور سادگی کے ساتھ قبول اسلام کے بعد نرما اس کے عقد میں آگئی تھی۔ اپنا ایف آرسی ایس مکمل کر کے کل شام جب وہ پاکستان اپنے گھر فاریہ ہاؤس پہنچا تو اس کے ساتھ اس کی شریک حیات نرما بھی تھی اور نرما امید سے تھی۔ یہ خبر فاریہ پر بجلی بن کر گری تھی اور اس کے دل کے گلستان کو خاکستر کر گئی تھی۔ لمحہ بھر میں اس کا سب کچھ لٹ گیا تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک وہ جسے اپنا سمجھتی رہی تھی، وہ کسی اور کا ہو گیا تھا اور وہ گھر جس کے ماتھے پر اس کے نام کی تختی لگی تھی، نرما کا ہو گیا تھا۔ وہ اس گھر میں بسنے کے خواب دیکھتی رہ گئی تھی جبکہ نرما اس گھر میں آبسی تھی۔ سب کچھ یوں آنا فانا ہوا تھا کہ اس کا دل یہ سب ماننے کو تیار نہیں تھا مگر یہ سفاک حقیقت تھی کہ اس کا ظفریاب اب اس کا نہیں رہا تھا۔ محض دو دن میں دنیا کس قدر بدل گئی تھی۔ کل تک اس کے دامن میں خوشیاں تھیں، دل میں امیدیں اور آنکھوں میں خواب تھے ۔ آج اس کا دامن آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا۔ دل ناامیدی اور مایوسی کے گرداب میں گھرا ہوا تھا اور آنکھیں شکستہ خوابوں کی کرچیوں سے زخمی تھیں۔ حفیظہ خالہ کو بے حد ملال تھا۔ وہ بہن سے شرمندہ تھیں۔ وہ فاریہ سے بھی نظر نہیں ملا پارہی تھیں۔ فاریہ کو انہوں نے ہمیشہ یہ احساس دلایا تھا کہ وہ ان کی ہونے والی بہو اور ” فاریہ ہائوس“ کی مالکہ ہے اور ان کے اس استحقاق بھرے رویئے نے اس کے اندر ایک نہ ٹوٹنے والا یقین بھر دیا تھا۔ آج وہ یقین ٹوٹا تھا تو اس کا زندگی سے بھی یقین اٹھ گیا تھا۔ شام کے سرمئی سائے رات کی سیاہیوں میں گھل گئے تھے۔ چہچہاتی، غل مچاتی چڑیاں جانے کب اپنے آشیانوں کو لوٹ گئی تھیں اور ہوا میں تیرتی نوخیز پھولوں کی دل آویز خوشبو فضا میں تحلیل ہو گئی تھی۔ آنگن میں اب سناٹا تھا اور اس کے مقدر کا اندھیرا ۔ مگر وہ ہر چیز سے بے نیاز ، گم صم سی برآمدے کی دہلیز پر بیٹھی اپنی بربادی پر بے آواز ماتم میں مصروف تھی۔
اندھیرے میں کیوں بیٹھی ہو ؟ برآمدے کا بلب ہی جلا لیا ہوتا۔ کمرے سے اس کی والدہ عاتکہ بیگم باہر نکلیں تو اسے تاریکی میں یوں گم صم سی بیٹھی دیکھ کر ان کے دل کو دھچکا سا لگا تھا۔ فاریہ کا دکھ ان کا بھی دکھ تھا۔ جانتی تھیں زخم نیا ہے اور بھرپور ہے، بھرتے بھرتے وقت لگے گا۔ وہ آہستگی سے سوئچ بورڈ کی طرف بڑھ گئیں۔ ان کے بٹن پر انگلی رکھتے ہی ماحول تیز روشنی میں نہا گیا مگر فاریہ کے اندر پھیلا اندھیرا جوں کا توں برقرار رہا۔ حفیظہ خالہ نے ظفریاب کے کئے گئے اس ظلم کا اس طرح کفارہ ادا کرنا چاہا کہ ہفتے بھر بعد ہی وہ فاریہ کے لیے ایک بہت اچھار شتہ لے آئی تھیں۔ طلحہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ایریا منیجر کی پوسٹ پر فائز تھا۔ اچھا خاصا دولت مند گھرانہ تھا۔ دیکھنے میں بھی خوش شکل اور خوش اطوار نوجوان تھا مگر خلاف توقع فاریہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اتنی جلدی خود کو کسی نئے رشتے کے بندھن میں باندھنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ مگر دو سال گزرنے کے باوجود اس کی ناں، ہاں میں نہیں بدلی تھی۔ اس کے سینے میں سلگتی آگ دن بہ دن بھڑکتی جارہی تھی۔ اس کا دل چاہتا، وہ اس دوغلی اور دغا باز دنیا کو اس آگ میں جلا کر خاک کر دے۔ اس کے پیدا ہوتے ہی اس کی انگلی میں انگوٹھی پہنا کر اسے اپنی بہو بنانے کی دعویدار حفیظہ خالہ اپنی نئی نویلی بہو نرما کے ساتھ کس قدر محبت اور سلوک سے رہ رہی تھیں۔ نرما کے بیٹے سحاب کو ہر وقت اپنے کلیجے سے لگائے پھرتی تھیں۔ جس گھر کے ماتھے پر اس کا نام لکھا تھا، اس گھر میں نرما کس استحقاق اور انبساط کے ساتھ رہ رہی تھی۔ وہ ایک بار پھر سے ماں بننے والی تھی۔ حفیظہ خالہ ہی نہیں، ظفریاب بھی لمحہ لمحہ اس کی ناز برداریوں میں لگے رہتے … اور فاریہ اپنے نیم تاریک کمرے میں بیٹھی، وہاں کی پل پل کی خبروں کی کھوج میں لگی، گیلی لکڑی کی طرح سلگتی رہتی۔ اسے حفیظہ خالہ سے شکایت تھی نہ ظفریاب سے ، اسے اصل گلہ نرما سے تھا۔ اصل قاتل اور لوٹنے والی تو نرما ہی تھی جس نے اس کی زندگی کی ہر خوشی بے موت مار دی تھی اور اس کے جیون کا سب سے بڑا خواب، سب سے بڑا سرمایہ ظفریاب کو چھین کر اسے تہی داماں کر دیا تھا۔ ظفر یاب کا بیٹا سحاب دو سال کا ہو چکا تھا۔ نرما پھر سے امید سے تھی۔ اس بار وہ دونوں بیٹی کے خواہشمند تھے مگر بیٹی کے دنیا میں آنے سے پہلے بالکل اچانک نرما کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اسے اسپتال پہنچایا گیا مگر ڈاکٹروں کی پوری کوشش کے باوجود نرما بچ سکی، نہ اس کی نوزائیدہ بچی. یہ سب کچھ چشم زدن میں ہو گیا تھا۔ سحاب ماں کے لیے تڑپ رہا تھا تو ظفریاب چہیتی بیوی کے یوں اچانک جدا ہونے پر خود سے لا تعلق، نیم پاگل سا ہو گیا تھا۔ ایسے میں فاریہ بھی اپنا سارا غم اور غصہ بھلا کر گھر والوں کے ساتھ ” فاریہ ہائوس“ جا پہنچی تھی۔ حفیظہ خالہ اسے سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رودی تھیں۔ سامنے سحاب ماں کے لیے رورہا تھا۔ فاریہ چند لمحوں تک اجنبی اور بے رحم نظروں سے اسے دیکھتی رہی، پھر اس نے آگے بڑھ کر سحاب کو اپنی ممتا بھری آغوش میں چھپا لیا، اور روتا بلکتا سحاب یوں اچانک پر سکون ہو گیا تھا جیسے اپنی ماں کی گود میں آگیا ہو۔
نرما کی یوں اچانک موت ظفریاب کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھی مگر گزرتے وقت کا ہر لمحہ اس زخم کاری پر مرہم رکھتا جارہا تھا۔ مہینے بھر میں وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ گو کہ اس کی آنکھوں کی اداسی اور دل کی ویرانی بدستور برقرار تھی مگر بظاہر اس نے خود کو پھر سے دنیا کے جھمیلوں میں الجھا لیا تھا۔ سحاب اب تک فاریہ کے پاس ہی تھا۔ وہ کسی حقیقی ماں کی طرح رات دن اس کا خیال رکھ رہی تھی ۔ گود میں کھلاتی تھی، بانہوں میں سلاتی تھی۔ حفیظہ خالہ اس کے اس محبت بھرے رویئے سے بے حد متاثر ہوئی تھیں اور انہوں نے نئے سرے سے اس خواب کو بننا شروع کر دیا تھا جو پہلے نرما کی وجہ سے شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا تھا۔ ظفریاب بھی سحاب سے فاریہ کی محبت دیکھ رہا تھا۔ وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتی ہے تب ہی برسوں بیتنے کے باوجود آج تک اس کے نام پر بیٹھی ہوئی تھی اور اچھے سے اچھے رشتے کے لیے بھی راضی نہ ہوئی تھی۔ سوماں کے پوچھنے پر اس نے سر جھکا کر شکستہ لہجے میں کہا تھا۔ اگر فاریہ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو … میری طرف سے بھی رضامندی ہے۔ فاریہ تو ہوش سنبھالنے کے بعد سے آج تک اس لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ پل پل دعائیں مانگتی رہی تھی اور دعائیں باریاب نہ ہونے پر کیسا کیسا تڑپتی تھی۔ آج وہ مایوسی میں گم ہو جانے والی امید یقین کے قالب میں ڈھل کر سامنے آئی تو اس نے آگے بڑھ کر ان خوشیوں کا استقبال کیا تھا اور اپنی سوتن نرما کے بیٹے سحاب کے ساتھ اپنے بچپن کے محبوب ظفریاب کو بھی گلے لگا لیا تھا۔ حفیظہ خالہ کو ڈر تھا کہ شادی کے بعد کہیں فاریہ کا رویہ سحاب کے ساتھ خراب نہ ہو جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ شادی کے بعد وہ سحاب کو اور زیادہ چاہنے لگی تھی۔ وہ امید سے ہوئی تو حفیظہ خالہ کو خیال ہوا کہ اپنے بچے کی پیدائش کے بعد شاید سحاب کے لیے فاریہ کی محبت میں کمی آجائے مگر ان کا یہ خیال بھی خام ہی نکلا۔ ایک نہیں، یکے بعد دیگرے دو بیٹوں کی پیدائش کے بعد بھی فاریہ کی محبت سحاب کے لیے جوں کی توں تھی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس محبت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اس کی ممتا بھری دیوانی محبت کو لوگ حیرت سے دیکھا کرتے تھے۔ اسے دکھ دینے والی ، اس سے اس کا سب کچھ چھین لینے والی سوتن کے بیٹے سے وہ اپنے بیٹوں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھی۔ لوگ اس کے ظرف کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔ حفیظہ بیگم ، سحاب کی طرف سے بالکل مطمئن اور بے فکر ہو گئی تھیں۔ اس کی سگی ماں ہوتی تو شاید وہ بھی اسے اتنی محبت نہ دیتی جو سوتیلی ماں فاریہ اسے دے رہی تھی۔ شاید یہ اطمینان ہی تھا جس نے انہیں یہ احساس دلایا تھا کہ دنیا میں اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ سو میاں کے انتقال کے چھ ماہ بعد وہ بھی ملک عدم کو سدھار گئیں ۔ اس دکھ کی گھڑی میں فاریہ نے نہایت اخلاص سے ظفریاب کا ساتھ دیا تھا۔ اپنے آنچل سے اس کے آنسو پونچھے تھے اور اپنی وفائوں اور محبتوں کے مرہم سے اس کے زخموں کو بھرنے کی کوشش کی تھی۔ فاریہ نے پوری توجہ اور تندہی سے گھر اور بچوں کی تمام تر ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر اٹھالی تھیں۔ گھر اور بچوں کی طرف سے پوری طرح مطمئن اور بے فکر ہو کر ظفر یاب نے اپنے کام پر بھر پور توجہ دی تھی اور سرکاری نوکری چھوڑ کر اپنا ذاتی کلینک کھول لیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں اس نے ایک پوش علاقے میں بڑا پلاٹ لے کے ایک شاندار اسپتال کی تعمیر شروع کروادی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا اسپتال شہر کے بہترین اور مہنگے ترین اسپتالوں میں شمار ہونے لگا تھا۔
سحاب اب چھ برس کا ہو گیا تھا۔ فاریہ اسے اپنے بیٹوں سے کہیں بڑھ کر چاہتی تھی۔ تھی۔ اس اس کے کے منہ سے نکلی ہوئی ہر فرمائش پوری کرتی، اس کی ہر جائز و نا جائز بات مانتی۔ اس کا اس قدر پیار دیکھ کر کبھی کبھی ظفریاب کہتا۔ فاریہ ! اس قدر لاڈ پیار کرو گی تو یہ بگڑ جائے گا۔ بچوں کو پیار کے ساتھ ڈانٹ اور سختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ فاریہ ، سحاب کو پیار سے لپٹاتے ہوئے ناز سے کہتی ۔ میرا سحاب صرف لاڈ پیار کے لیے دنیا میں آیا ہے ، ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کے لیے دانیال اور آذر ہیں نا۔ یہ حقیقت تھی وہ اپنے دونوں بیٹوں دانیال اور آذر سے نہایت سختی سے پیش آتی تھی۔ گو کہ وہ انہیں بھی کھلاتی تو سونے کا ہی نوالہ تھی مگر انہیں دیکھتی شیر کی نگاہ سے تھی۔ ان کے اسکول جانے پر سختی تھی اور ہوم ورک مکمل کرنے پر بھی۔ مگر جہاں تک سحاب کا تعلق تھا، اس کے لیے اس کا پتھر دل موم ہو جاتا تھا۔ وہ کئی کئی دن اسکول نہ جاتا تو وہ ظفریاب کو نہ بتاتی ۔ وہ ہوم ورک کرتا، نہ ٹیوشن پڑھتا۔ وہ پیار سے کہتی ضرور مگر اپنے بچوں کی طرح اس پر سختی نہ کرتی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی ہی کلاس میں وہ فیل ہو گیا۔ ظفریاب کو شاک لگا تھا۔ اس نے کہا تھا۔ اتنا اچھا اسکول ہے ، اتنی زیادہ فیس دے رہے ہیں، ٹیوٹر بھی آتا ہے ، پھر سحاب فیل کیسے ہو گیا؟ بچہ ہے، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے ۔ فاریہ نے سحاب کو اپنی ممتا بھری آغوش میں چھپاتے ہوئے کہا۔ ایک بار فیل ہو گیا تو کیا ہوا، آئندہ ضرور پاس ہو گا۔ ٹیوٹر ہٹا کر اب میں خود اسے پڑھائوں گی، پھر میرا چاند ضرور پاس ہو گا۔ ہے نا چندا ؟ اس نے سحاب کے چہرے کو پیار سے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اس سے تصدیق چاہی اور اس نے میلے انداز میں نفی میں سر ہلادیا۔ اس سے پہلے کہ ظفر یاب اس کی اس حرکت پر خفا ہوتا، وہ بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی اور مجبوراً ظفر یاب کو ڈانٹنے کا ارادہ ملتوی کر کے مسکرانا پڑا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹوں نے بھی اس فرق کو محسوس کر لیا تھا۔ آپ بھائی جان کو زیادہ چاہتی ہیں۔ وہ کبھی کبھی اس سے شکایت بھی کرنے لگے تھے مگر وہ یہ کہہ کر ہر بار ٹال دیتی تھی۔ بڑا بیٹا ہر ماں کو زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ ماں کی محبت کی کشتی میں سوار سحاب اپنی ہی موجوں میں گم رہتا۔ کچھ فطری طور پر ہی اسے پڑھائی سے رغبت نہ تھی، کچھ ماں کی طرف سے ڈھیل نے اسے اور زیادہ پڑھائی سے دور کر دیا تھا۔ آئے دن چھٹیاں کرتا، ہوم ورک سے اس کی جان جاتی۔ ٹیوٹر کی شکل دیکھ کر رونا شروع کر دیتا البتہ کھیل کود میں اس کا خوب دل لگتا تھا۔ فاریہ اسے کھیلتے کودتے دیکھ کر خوش ہوتی تو اس کا دل اور بڑا ہو جاتا۔ وقت گزرتا رہا۔ دانیال اور آذر دل لگا کر پڑھتے رہے اور سحاب پڑھائی سے دل چراتا رہا۔ فیل ہوتا، ظفریاب سرزنش کرتا تو فاریہ ڈھال بن کے درمیان میں آکھڑی ہوتی۔ ایک ایک کلاس میں کئی کئی سال رہنے کے بعد سحاب نے جب میٹرک پاس کیا، اس وقت تک دانیال اور آذر میڈیکل کالج میں دوسرے سال کے اسٹوڈنٹ بن چکے تھے۔ اس کے پاس ہونے پر فاریہ بے حد خوش تھی۔ میں نہ کہتی تھی . وہ ظفریاب سے مخاطب ہوئی۔ ایک دن دیکھئے گا میر اسحاب ضرور پاس ہو گا۔ فاریہ نے سحاب کی کامیابی پر زبردست جشن منایا تھا۔ دور قریب کے عزیز واقارب کو دعوت دی تھی۔ خوب دھوم دھام سے یہ تقریب منائی گئی تھی۔ فاریہ مسرت سے کھلتا چہرہ لے کر سب سے مبارکباد وصول کرتی پھر رہی تھی۔ لوگ سوتیلی ماں کی مثالی محبت پر عش عش کر رہے تھے۔
جشن کی کامیابی کے بعد فاریہ نے سحاب کا داخلہ شہر کے سب سے مہنگے پرائیویٹ کالج میں کروا دیا تھا۔ اس کالج میں شہر بھر کے رئیسوں کے بگڑے ہوئے لاڈلے بیٹے پڑھا کرتے تھے۔ حرام کی کمائی پر پلے ہوئے خود سر ، خود پسند اور عاقبت نا اندیش لڑکے … جو یہاں پڑھنے کی بجائے اپنی دولت کی نمائش کرنے اور محض کچھ وقت گزارنے کے لیے آتے تھے۔ اس ماحول میں آکر سحاب کو ایک نیا راستہ ملا تھا۔ فاریہ اسے دل کھول کر جیب خرچ دیتی تھی جسے وہ بڑی فراخدلی اور لاپروائی سے لٹاتا۔ ان بگڑے ہوئے رئیس زادوں کی صحبت میں سحاب نے بھی نئی نئی باتیں سیکھ لی تھیں۔ اب وہ سگریٹ پینے لگا تھا۔ کبھی دوستوں کے ساتھ کسی بار میں بھی بیٹھ جاتا تھا۔ یہیں اسے لڑکیوں سے دوستی کا تجربہ بھی ہوا۔ اور وہ جواب تک ان باتوں سے بے خبر تھا، ان باتوں کا رسیا ہوتا چلا گیا۔ اس کے خیالات پراگندہ ہوتے جارہے تھے اور سوچ ایک نئی اور انجانی راہ پر گامزن ہو گئی تھی۔ ظفریاب کی صحت اب ٹھیک نہیں رہتی تھی، اس لئے اس کی خواہش تھی کہ اس کے تینوں بیٹے جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں۔ دانیال اور آذر کے لیے تو وہ اتنا فکر مند نہیں تھا کیونکہ وہ دونوں چھ ماہ بعد اپنا ہائوس جاب مکمل کر کے باپ کا شاندار اسپتال جوائن کرنے والے تھے- ظفر یاب کو اصل فکر سحاب کی تھی۔ دانیال اور آذر سے کئی سال بڑا ہونے کے باوجود اس کے اندر ایک بچپنا اور لاپروائی تھی۔ وہ آج بھی ماں کے سینے میں چہرہ چھپا کر دبک کر بیٹھنا پسند کرتا تھا- ۔ گو کہ کالج میں اسے تین سال سے بھی اوپر ہو چکے تھے مگر وہ اب تک فرسٹ ایئر میں ہی تھا۔ ظفریاب اس کے فیل ہونے پر ہنگامہ کرتا تو فاریہ اسے پیار سے سمجھا اور منا لیتی- دیکھئے جوان بیٹے پر اس طرح خط خفا ہونا مناسب نہیں ہے۔ فاریہ ! مگر میں سوچتا ہوں یہ لڑکا آخر کرے گا کیا؟ ظفر یاب زچ ہو کر کہتا۔ اسے کوئی کاروبار کروا دیجئے ۔ فاریہ ممتا بھرے لہجے میں میاں سے فرمائش کرتی۔ مجھے بتائو ، آخر وہ کون سا کاروبار کر سکتا ہے ؟ آخر ایک دن ظفریاب نے زچ ہو کر پوچھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ خرید و فروخت کا کاروبار اچھے طریقے سے کر سکتا ہے۔ فاریہ نے جلدی سے کہا۔ خرید و فروخت ؟ ظفر یاب حیران ہوا۔ میرا مطلب ہے۔ فاریہ نے قدرے ہچکچاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔ آپ نے جو سپر اسٹور خریدا ہے ، سحاب اسے بہتر طور پر چلا سکتا ہے- سحاب سپر اسٹور چلا سکتا ہے ؟ ظفریاب کے لہجے میں حیرت سے زیادہ بے یقینی تھی۔ جی فاریہ پریقین انداز میں مسکرائی لیکن ظفریاب سے مسکرایا نہیں گیا۔ آپ وہ سپر اسٹور سحاب کے نام کر دیجئے ۔ فاریہ نے تجویز پیش کی۔ سٹور اس کے نام ہو گا تو زیادہ لگن اور خوشی سے کام سنبھالے گا۔ ہوں ! تمہاری بات مناسب اور قابل غور ہے ۔ فاریہ کی تجویز پر چند لمحوں تک غور کرنے کے بعد ظفریاب نے تحسین بھری نظروں سے فاریہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ سپر اسٹور انتظامی طور پر اس کے حوالے کر دیا جائے لیکن اس بات کی چنداں ضرورت نہیں کہ وہ اسٹور اس کی ملکیت میں دے دیا جائے۔ لیکن ظفر … فاریہ نے کچھ کہنا چاہا- ظفر یاب نے درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ دی۔ تم جانتی ہو ، وہ اسٹور میں نے تمہارے نام سے خریدا ہے اور میری خواہش ہے کہ وہ تمہارے نام پر ہی رہے ۔ ہاں، البتہ کاروبار کے لیے یہ اسٹور سحاب کی صوابدید پر اس کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ ظفر ۔ فاریہ نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ وہ سپر اسٹور ہو یا اسپتال یا یہ خوبصورت بنگلہ کہ جس کی پیشانی پر فاریہ ہائوس تحریر ہے۔ یہ سب کچھ آخر کار ان بچوں کے لیے ہی ہے۔ ہمار ا سب کچھ ہمارے بچوں کا ہی ہے۔ آپ نے بے شک وہ اسٹور میرے نام پر خریدا ہے لیکن اگر وہ اسٹور سحاب کے نام ہو گا تو شاید وہ زیادہ خوشی، زیادہ اعتماد اور زیادہ اپنائیت کے ساتھ کام کو سر انجام دے سکے ۔
فاریہ کے مشورے سے زیادہ اس کا جذبہ قابل تعریف تھا۔ اس کی وسیع القلبی اور وسعت نظری سے ظفریاب بے حد متاثر ہوا تھا۔ اس وقت وہ اس کا ممنون بھی ہو رہا تھا۔ اسے پیار بھری اور تشکر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ اس سے متفق ہو گیا تھا اور اسی شام اس نے اپنے وکیل رحمن صاحب کو بلا کر اپنا سپر اسٹور سحاب کے نام منتقل کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ ظفریاب صاحب ! آپ کا یہ فیصلہ قابل تحسین ہے۔ بوڑھا وکیل دھیمے لہجے میں گویا ہوا۔ لیکن وکیل ہونے کے ناتے میرا فرض ہے کہ میں آپ کو آپ کے فیصلے کی تمام اونچ نیچ اور باریکیوں سے آگاہ کردوں۔ میں سمجھا نہیں؟ ظفریاب نے حیران نظروں سے اپنے خاندانی وکیل کی طرف دیکھا۔ اول تو میر اخیال ہے کہ سحاب میاں ابھی ذہنی طور پر اتنے پختہ کار نہیں ہیں کہ اتنی بڑی جائداد نہ صرف ان کے حوالے بلکہ ان کے نام کر دی جائے اور اگر آپ نے ایسا کوئی فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر آپ کو اپنے دونوں چھوٹے بیٹوں کے لیے بھی ایسا ہی کچھ کرنا ہو گا ورنہ ان کے ذہنوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ وکیل کی بات سن کر ظفریاب سوچ میں پڑ گیا۔ پہلے ہی اسے احساس تھا کہ دانیال اور آذر کو ماں سے اس بات کا شکوہ رہا ہے کہ ان دونوں کے مقابلے میں فاریہ نے ہمیشہ سحاب سے زیادہ محبت کی ہے۔ آپ کس سوچ میں پڑ گئے ؟ فاریہ نے پوچھا۔ میں سوچ رہا ہوں۔ ظفریاب نے پر سوچ نظروں سے فاریہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کہ دانیال اور آذر کو تم سے تو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ تم سحاب کو ان دونوں سے زیادہ چاہتی ہو ۔ لحظہ بھر کو تھم کر اس نے اپنی بات آگے بڑھائی۔ اب اگر میں نے یہ سپراسٹور سحاب کے نام کر دیا تو انہیں مجھ سے بھی یہ شکوہ ہو گا کہ تمہاری طرح میں نے بھی ان کے ساتھ ناانصافی شروع کر دی ہے۔ ناانصافی کیسی ؟ فاریہ جارحانہ لہجے میں بولی۔ سحاب ہمارا بیٹا ہے۔ دانیال اور آذر بھی ہمارے بیٹے ہیں۔ ظفریاب مسکرایا۔ تم شاید یہ بات بھول رہی ہو۔ نہیں ظفریاب ، ایسا نہیں ہے ۔ فاریہ نے وضاحت کرنی چاہی۔ دانیال اور آذر بھی ہمارے بیٹے ہیں اور ان دونوں سے بھی ہم محبت کرتے ہیں۔ ہاں۔ ظفریاب نے مضبوط لہجے میں کہا۔اسی لیے میں نے سوچا ہے کہ … اور لمحہ بھر میں اس نے اسپتال اپنے دونوں چھوٹے بیٹوں دانیال اور آذر کے نام لکھ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اور یوں کچھ ہی عرصے میں جائداد کی منتقلی کا عمل مکمل ہو گیا۔ سحاب بے حد خوش تھا۔ اگرچہ اسے زر، زمین، جائداد سے ایسی کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اسے پہننے کے لیے بیش قیمت کپڑے، کھانے کے لیے انواع و اقسام کے کھانے اور پاکٹ منی کے نام پر ایک خطیر رقم اس کی جیب کی زینت بن جاتی تھی، پھر بھلا اسے جائداد کی کیا لگن ہوتی۔ اس کی سب سے بڑی دولت ، سب سے قیمتی جائداد اس کی چاہنے والی ماں تھی جو اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے اس کی فرمائش پوری کر دیا کرتی تھی۔
سحاب کا کالج چھوٹ گیا۔ اب وہ شہر کے ایک مشہور بازار میں واقع ایک اسٹور کا مالک اور منتظم تھا۔ اگرچہ اس کا کالج سے تعلق ختم ہو گیا تھا لیکن کالج کے دوستوں سے رابطہ اب بھی برقرار تھا۔ ظفریاب برسوں سے دل کا مریض چلا آرہا تھا۔ نرما کی موت کا صدمہ پہلے ہارٹ اٹیک کی صورت میں اس پر وارد ہوا تھا۔ فاریہ نے اس کی زندگی میں آکر اس کی ہر فکر اور پریشانی اپنے سر لے لی تھی۔ اسی لئے پھر کبھی، دل کوئی سرکشی نہ و کھا سکا تھا مگر سحاب کی تعلیم سے بے رغبتی اور مستقبل سے بے فکری دیکھ کر اکثر اسے اپنے دل پر بوجھ محسوس ہونے لگا تھا مگر اب دانیال اور آذر کے اسپتال اور سحاب کے اسٹور سنبھال لینے کے بعد اس کے دل کا بوجھ قدرے کم ہو گیا تھا۔ تمام عمر شدید محنت کر کے اس نے جو کچھ بنایا تھا، اس ساری تگ و دو اور کامیابیوں کے پیچھے فاریہ کی محبت ، توجہ اور حوصلہ افزائی کا عمل دخل تھا۔ اس نے اسے ہمیشہ گھر کی پریشانیوں اور بچوں کی الجھنوں سے دور رکھا تھا۔ اب وہ کبھی کبھی فاریہ کا ممنون اور مشکور ہوا کرتا تھا۔ تم سے رشتہ توڑ کر جب میں نے نرما کا ہاتھ تھاما تھا۔ ایک رات بالکل اچانک ظفر یاب نے فاریہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ اس وقت یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب میں تمہارے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہ کر سکوں گا۔ بہت عرصے بعد اس کی زبان پر نرما کا نام آتے دیکھ کر فاریہ کی شفاف پیشانی پر بے نشان سی سلوٹیں پڑ گئی تھیں۔ برسوں کی گرد سے زخم پر کھرنڈ آ گیا تھا مگر ابھی زخم پوری طرح بھرا نہیں تھا۔ نرما نے اس کے ساتھ جو زیادتی کی تھی، وہ اس زیادتی کو اب تک بھولی نہیں تھی۔ وہ تو اللہ کی طرف سے ایسا ہو گیا تھا ورنہ شاید وہ آج تک تنہا و نامراد ظفریاب سے جدا ہونے کے زخم کو چاٹ رہی ہوتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایک بار پھر ظفریاب کی دل کی تکلیف نے سر اٹھا نا شروع کر دیا تھا۔ فاریہ نے اس پر اور زیادہ توجہ دینی شروع کر دی تھی، اور زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا تھا۔ دانیال اور آذر ڈاکٹر تھے۔ وہ بھی باپ کے علاج معالجے پر پورا دھیان دیتے مگر افاقہ ہونے کی بجائے مرض بڑھتا ہی رہا۔ بالآخر یہ تکلیف جان لیوا ثابت ہوئی۔ اس رات ظفریاب پر دل کا دوسرا دورہ پڑا تھا اور یہ دورہ آخری ثابت ہوا تھا۔ ظفریاب سے دائمی جدائی فاریہ کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھی۔ ایک بار پہلے بھی وہ اس سے جدا ہونے کا صدمہ جھیل چکی تھی مگر یہ سانحہ اس صدمے سے بالکل جدا تھا۔ اس بار وہ خود جیتے جی مر گئی تھی۔ اس بار ظفریاب موت کی آغوش میں جا سویا تھا۔ اس کے دل کی جو حالت تھی مگر بظاہر اس نے ظفریاب کی اچانک موت کا صدمہ بڑے صبر اور ضبط سے برداشت کیا تھا اور بچوں کو بھی سنبھالے رکھا تھا۔
ظفر یاب کے چالیسویں کے بعد اس نے خاندانی وکیل کے علاوہ خاندان کے تمام بزرگوں کو بلا کر ان کے سامنے دولت اور جائداد کی تقسیم کا مسئلہ رکھا۔ ظفریاب اپنی زندگی میں ہی اسپتال دانیال اور آذر کے نام جبکہ سپر اسٹور سحاب کے نام لکھ گیا تھا۔ اس کوٹھی کے علاوہ ایک اور کوٹھی تھی اور کچھ منقولہ اور غیرمنقولہ جائداد تھی۔ فاریہ نے تمام جائداد بزرگوں اور وکیل کے سامنے دیانتداری کے ساتھ اپنے تینوں بیٹوں کے نام برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیشتر جائداد خود فاریہ کے نام تھی۔ اس نے اپنے لیے اس فاریہ ہائوس کے علاوہ کچھ لینا گوارہ نہ کیا۔ باقی سب کچھ نہایت دیانتداری اور انصاف کے ساتھ تینوں بیٹوں میں برابر سے تقسیم کر دیا تھا۔ خاندانی وکیل سمیت تمام لوگ فاریہ کی اس انصاف پسندی پر عش عش کر اٹھے تھے۔ وہ پہلے ہی فاریہ کے اپنے سوتیلے بیٹے سحاب سے بے حد و حساب محبت کے معترف تھے۔ اب وہ سب اس کے اور گرویدہ ہو گئے تھے۔ سپر اسٹور تو پہلے ہی سحاب کے نام تھا، اب دوسری کوٹھی بھی سحاب کے نام ہو گئی تھی۔ فاریہ نے سب کے سامنے سحاب سے التجا کی کہ وہ اپنی نئی کوٹھی میں منتقل ہو جائے اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے۔ آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں امی جان؟ سحاب حیرت بھرے صدمے سے بولا۔ میں آپ کو چھوڑ کر کہیں اور کس طرح جا سکتا ہوں اور اگر کہیں چلا بھی جائوں تو آپ کے بغیر میں کس طرح جی سکتا ہوں۔ سوتیلے بیٹے کی سوتیلی ماں سے سچی محبت دیکھ کر لوگ آبدیدہ ہو گئے تھے۔ سحاب بھی رو پڑا تھا۔ وہ کسی طرح بھی ماں کو چھوڑ کر جانے کے لیے آمادہ نہ تھا مگر وکیل اور دیگر لوگوں کے سمجھانے پر وہ دوسری کوٹھی میں منتقل ہونے پر بصد مشکل رضامند ہوا تھا۔ اب یہاں سے سحاب کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔ وہ شروع سے ہی فضول خرچ، غیر ذمہ دار ، بے پروا اور عاقبت نا اندیش واقع ہوا تھا۔ اس کی تربیت بھی کچھ اس انداز سے ہوئی تھی کہ اس نے لٹانے کے علاوہ کچھ سیکھا ہی نہیں تھا اور اب جبکہ سب کچھ اس کے ہاتھ میں تھا تو وہ پھر دونوں ہاتھوں سے کیوں نہ لٹاتا ؟ اس کے ابن الوقت قسم کے دوست اس کے گرد جمع ہو گئے تھے اور خوب شان و اہتمام سے زندگی گزرنے لگی تھی۔ کاروبار تو کیا چلتا ، دھیرے دھیرے بالکل ٹھپ ہو گیا۔ سحاب کے پاس تعلیم تھی، نہ تجربہ ، نہ ہی کاروباری سوجھ بوجھ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جلد ہی چلتا ہو اسپر اسٹور بند ہو گیا۔ ہاتھ تنگ ہونے لگا تو دھیرے دھیرے جائداد کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوا۔ سحاب کے حصے میں ظفریاب کی آدھی جائداد آئی تھی۔ دیگر آدھی جائداد میں دانیال اور آذر کا حصہ تھا۔ اس حوالے سے ابھی اس کے پاس بہت کچھ تھا۔ بکتے بکتے بھی برسوں میں بکتا دیکھتے ہی دیکھتے برسوں میں بنائی گئی جائداد برابر ہو گئی تھی۔ لاکھ کا گھر خاک ہو گیا تھا۔ سحاب سب کچھ لٹا کر تہی دست و تہی داماں ہو گیا تھا لیکن ابھی اس کے پاس ماں کی محبت کا یقین باقی تھا اور اس یقین نے اسے ابھی کنگال نہیں ہونے دیا تھا۔ سو سب کچھ لٹا کر وہ ایک بار پھرماں کی ممتا بھری محبت سے دامن بھر نے فاریہ ہائوس کی طرف چل دیا۔ نوکرنے فاریہ کو سحاب کی آمد کی اطلاع دی۔ فاریہ نے سحاب کو اندر بلانے کی بجائے خود ہی گیٹ پر آنا مناسب سمجھا۔ گیٹ پر پریشان حال سحاب کھڑا تھا۔ اس کے بال گرد آلود اور چہرے پر مضمحل سی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔ اس کی مالی حالت اس قدر د گرگوں تھی کہ اس کے پاس اب کھانے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔ اس نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ فاریہ نے اسے سرتاپا دیکھا۔ اس کے گرد آلود جوتے اس بات کے غماز تھے کہ وہ کافی دور سے پیدل چل کر آیا ہے۔ اس کا اترا چہرہ اور شکستہ سراپا اس کی خستہ حالی کا گواہ تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ اپنا سب کچھ لٹا کر اور گنوا کر بالکل تہی دست ہو گیا ہے۔ بڑی بڑی پر تعیش کاروں میں سفر کرنے والے سحاب کی جیب میں اس وقت بس کے کرائے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ سحاب کا خیال تھا کہ اس کی یہ حالت دیکھ کر چاہنے والی ماں تڑپ اٹھے گی اور ہمیشہ کی طرح اسے سینے سے لگا کر اس کا ہر مسئلہ بیک جنبش حل کر دے گی مگر اسے اس وقت حیرت ہوئی جب نو کرنے اس سے کہا تھا۔ آپ آپ یہیں رکیے ، میں بیگم صاحبہ کو اطلاع دیتا ہوں۔ یہاں کیوں؟ سحاب نے قدرے حیرانی اور کسی قدر غصے سے سوال کیا۔ یہ میراگھر ہے۔ یہاں میرے بھائی اور ماں رہتی ہیں۔ تم مجھے اس طرح دروازے پر کیسے روک سکتے ہو ؟ جناب ! ہمیں یہی حکم ہے ۔ دربان نے خشک اور کھردرے لہجے میں جواب دیا۔ کہ آپ کی آمد کی بیگم صاحبہ کو خبر دیئے بغیر گھر کے اندر داخل نہ ہونے دیا جائے۔ خدا جانے تم کیا کہہ رہے ہو۔ سحاب نے عاجز کن لہجے میں کہا۔ ٹھیک ہے ، جاؤ ان انہیں بتا دو کہ ان کا لاڈلا بیٹا سحاب آیا ہے۔
سحاب کا خیال تھا اس کا نام سنتے ہی فاریہ تڑپ اٹھے گی ، دوڑی دوڑی گیٹ پر آئے گی اور اسے گیٹ پر روک لینے پر دربان پر برہم ہو گی اور اسے ممتا بھرے احساس کے ساتھ سینے سے لگالے گی۔ فاریہ گیٹ پر آئی تو مگر اس کا غیریت اور اجنبیت بھرا انداز دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ تم یہاں کس لئے آئے ہو ؟ اس کے لہجے کا انجانا پن سحاب کے دل میں نشتر کی طرح چبھ گیا۔ امی میں … میں ۔ سحاب اس قدراجنبیت اور غیریت سے اپنے سواگت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ پھر تڑپتے لہجے میں اپنا حال بیان کرنے لگا۔ امی ! سب کچھ ختم ہو گیا ہے ۔ میں برباد ہو گیا ہوں۔ اب میرے پاس کچھ نہیں ہے ، حتی کہ کل رات سے میرے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ جانتی ہوں۔ فاریہ نے سرد لہجے میں کہا۔ مجھے معلوم تھا کہ بہت جلد تم سب کچھ لٹا کر خالی ہاتھ ہو جائو گے ۔ تم جیسے جاہل، بے وقوف اور عاقبت نا اندیش شخص سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ مگر امی ! اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ سحاب نے التجا بھرے لہجے میں کہا۔ میں خود کو سنبھالنے کے لیے ایک اور موقع چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ دو، تمہیں اس دروازے سے جو کچھ ملنا تھا، پورے انصاف کے ساتھ تمام عزیز واقرباء کی موجودگی میں مل چکا ہے۔ فاریہ نے بدستور سرد لہجے میں کہا۔ اب تم کیا توقع لے کے اس دروازے پر آئے ہو ؟ سحاب، فاریہ کے سرد اور کٹھور لہجے پر حیران تھا۔ اس نے تو فاریہ کے لہجے میں ہمیشہ محبت اور ممتا ہی دیکھی تھی۔ اس کی بڑی سے بڑی غلطی پر بھی اس کی پیشانی پر کبھی ہلکا سا بل بھی نہ آیا تھا۔ اس کے لہجے سے ہمیشہ شہد ہی ٹپکتا تھا۔ یہ کڑواہٹ اور تلخی اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ امی ! سحاب نے اپنی حیرانی و پریشانی جھٹک کر لرزتے لہجے میں ماں کو پکارا۔ میں بہت مشکل اور مصیبت میں ہوں۔ مجھ پر لاکھوں کا قرض ہے۔ قرض دار مجھے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور مجھے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تیز تیز بولنے سے اس کا دم پھولنے لگا تھا۔ وہ ایک دم خاموش ہو گیا۔ اس دوران فاریہ اسے سرد اور تحقیر بھری نظروں سے تکتی رہی تھی۔ پھر کئی لمحوں تک گہرے گہرے سانس لے کر خود کو قدرے اعتدال پر لاکر اس نے دوبارہ بولنا شروع کیا۔ مجھے آپ کی محبت اور مدد کی ضرورت ہے۔ میں بہت اکیلا ہوں امی … میں آپ سے .. اپنے بھائیوں سے … تم غلط دروازے پر آئے ہو ۔ فاریہ نے تلخ اور اجنبی لہجے میں اس کی بات کاٹ کر کہا۔ اس گھر اور گھر کے مکینوں سے اب تمہارا کوئی تعلق اور کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ آپ کہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ سحاب کو جھٹکا لگا تھا۔ آپ میری ماں ہیں ۔ ماں نہیں۔ فاریہ کے لبوں پر زہریلی مسکراہٹ بکھر گئی۔ سوتیلی ماں کہو۔ میں تمہاری سوتیلی ماں ہوں۔ ایسا نہ کہیے امی ۔ سحاب نے بلکتے ہوئے ملتجی لہجے میں کہا۔ آپ میری ماں ہیں۔ مجھ سے بے حد و حساب محبت کرنے والی ماں … آپ کی ممتا بھری محبت ہی میری سب سے بڑی دولت ہے۔ مجھ سے میری یہ دولت نہ چھینے میں آپ کا بیٹا ہوں۔
نہیں۔ فارب فاریہ نے چٹانوں کے سے سخت۔ لہجے میں جواب دیا۔ تم میرے نہیں بلکہ اس عورت بیٹے ہو جس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین کر مجھے جیتے جی مار دیا تھا جس نے میری آنکھوں سے میرے خواب، میری دھڑکنوں سے میری امنگیں لوٹ لی تھیں.. تم اس نرما کے بیٹے ہو جس نے مجھ سے میرا منگیتر ، میرا محبوب، میرا ظفریاب ہتھیا لیا تھا … اپنی دنیا بساتے وقت اس بے رحم عورت نے ایک پل کے لیے بھی میری برباد زندگی کے بارے میں نہیں سوچا تھا … جس گھر پر میرے نام کی تختی لگی تھی ، وہ کس استحقاق سے اس کی مالکن بن بیٹھی تھی۔ میں نے یہ سب کچھ دیکھا، برداشت کے سوا میرے پاس دوسرا راستہ نہ تھا۔ کتنے ہی برس میں تڑپتی رہی ۔ پل پل جان سے گزری تھی تب کہیں جاکر قدرت مجھ پر مہربان ہوئی تھی اور مجھے میرا حق مل گیا تھا۔ تمہاری اصل ماں، وہ غاصب عورت مرچکی تھی مگر اس کی نشانی تم موجود تھے۔ تمہیں دیکھ کر مجھے وہ ظالم عورت یاد آتی تھی۔ بیتے ہوئے سلگتے بلکتے وہ ماہ و سال یاد آتے تھے۔ میرا دل چاہتا تھا تمہارا اگلا گھونٹ دوں ۔ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں … تم سے سب کچھ چھین کر خالی ہاتھ ، خالی دامن بھیک مانگنے کے لیے گھر سے نکال باہر کروں مگر میں یہ سب نہیں کر سکتی تھی۔۔ ظفریاب کو پانے کے لیے مجھے تم پر مامتا لٹانی تھی … بن ماں کے بچے کو ماں کی محبت دینی تھی۔ سو میں نے یہ سب کچھ کیا مگر ایک لمحے کے لیے بھی میں نے تمہاری ماں کو معاف نہیں کیا۔ اس کا انتقام مجھے تم سے لینا تھا اور اس انتقام کے لیے میں نے بے حد صبر و تحمل کے ساتھ ایک لائحہ عمل تیار کیا تھا اور اس پر عمل کر کے آج میں نے تمہیں اس حال پر پہنچا دیا ہے۔ نہ تعلیم ، نہ کوئی ہنر ، نہ گھر نہ کاروبار، نہ پیسہ نہ جائداد، نہ کوئی اپنا، نہ پرایا تم بالکل تنہا ہو اور آج میں نے تمہیں اس حال کو پہنچا دیا جس حال کو کبھی تمہاری ماں نے مجھے پہنچایا تھا۔ آج میں خوش ہوں ، بے حد خوش ہوں… اس ظالم عورت سے میں نے اپنا انتقام لے لیا ہے اور مجھ پر کوئی الزام بھی نہیں ہے۔۔۔ لوگ آج بھی میری ممتا، میری محبت اور میرے انصاف کے گن گاتے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اپنے سوتیلے بیٹے کو اپنے سگے بیٹوں سے زیادہ چاہنے والی ماں دراصل اس سے محبت نہیں، شدید نفرت کرتی تھی اور لمحہ لمحہ انتقام کی آگ میں سلگتی رہی تھی اور آج اسی آگ میں تم جل کر خاک ہو گئے ہو۔ اس پل اسے صحیح معنوں میں لٹ جانے کا احساس ہوا تھا۔ اس نے تو ہمیشہ اسے اپنی ماں سمجھا تھا مگر آج اسے غیر بنتے دیکھ کر اسے اپنے دل کی رگیں ٹوٹتی محسوس ہو رہی تھیں… جسم و جاں پر ایک لرزہ سا طاری تھا۔ امی ! کہہ دیجئے یہ جھوٹ ہے ۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی۔ اس سچائی کو میں سہہ نہ سکوں گا۔ میں مر جائوں گاامی- خبردار ! مجھے اب امی نہ کہنا۔ فاریہ نے غصے سے کہا۔ تم مر و یا جیو، مجھے کوئی سروکار نہیں۔ اس نے دربان کی طرف دیکھ کر کہا۔ گیٹ بند کر دو۔ اور خود فاتحانہ انداز میں اندر چلی گئی۔ سحاب پر محبت ، ممتا اور رشتے کا یہ جھوٹا دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا تھا۔ وہ شکستہ قدموں سے واپسی کے لیے مڑ گیا۔