Friday, October 11, 2024

Mamta Per Zulm

میری شادی اس وقت کر دی گئی جب میں پندرہ برس کی نا سمجھ لڑکی تھی۔ نہیں جانتی تھی کہ گھر کو کیسے سنوارا جاتا ہے اور مرد کے دل میں گھر کرنے کے لئے عورت کو کن اداؤں سے کام لینا چاہئے۔ میں یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ میرے شوہر ہیں کیا عیب و خوبیاں ہیں۔ ان میں ایسی کیا کم مائیگی تھی کہ جس نے مجھے روحانی خوشی نہ دی۔ میری ساس معذور تھی۔ وہ گھر کے بھاری کام نہیں کر سکتی تھی، تبھی اس نے بیٹے کی شادی کی ٹھان لی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اس کو فی الحال شادی کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں ؟ نہ ہی میری کم عمری پر دھیان دیا۔ اسے تو بس ایسی ہو چاہیے تھی جو بے زبان گائے کی طرح دوڑ دوڑ کر اس کے کام کرے، جبکہ میرے بڑوں نے یہ سوچ کر میرا ہاتھ ایک اجنبی مرد کے ہاتھ میں تھمادیا کہ چلو بیٹی کو بر تو مل گیا۔ میری پانچ بہنیں اور تھیں اور اباملاح تھے۔ جب دریا چڑھا ہوتا تو ہے روزگار ہو کر گھر بیٹھ جاتے۔ ان کا بوجھ ہلکا ہو گیا مگر میں شادی شدہ زندگی میں قسم نہ ہو سکی۔ لوگ کہتے تھے کہ قدیر کسی عورت کے عشق میں گرفتار تھا، اس لئے مجھے توجہ نہیں دیتا تھا۔ جو بھی وجہ بنی، ہماری قسمت میں جدائی لکھی تھی۔ ایک دن اس نے آٹے میں نمک زیادہ ہونے کا بہانہ بنا کر مجھے طلاق دے دی۔ خیر میں اس کی مشکور ہوں کہ اس نے میری ممتا کو زخمی نہ کیا اور یہیں بیٹے کو گود میں اٹھائے، میکے کی دہلیز پر آبیٹھی۔ اس نے بھی بچے سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔ بیٹی کنواری ہو یا مطلقہ ، بوجھ ہی ہوتی ہے۔ میکے کے درو دیوار اس وقت تک اس کے اپنے رہتے ہیں جب تک اس کا جیون ساتھی اس کی ڈولی اٹھا کر نہیں لے جاتا، تاہم کچھ بد نصیب ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی ڈولی ایک سے زیادہ بار بھی اٹھائی جاتی ہے۔ میں تو اس بات کو بھی قسمت کا کھیل ہی سمجھتی ہوں۔

اب جو شخص میرا طلب گار بن کر آیا، میں نے اسے اپنے دکھوں کا مداوا سمجھ لیا۔ وہ تمام امیدیں اور توقعات جن کے دیپک کبھی میرے دل میں بجھ کر رہ گئے تھے، اس کے آنے سے ایک بار پھر روشن ہو گئے۔ میرے دوسرے شوہر کا نام زمان خان تھا اور وہ گاؤں کا رہنے والا تھا۔ نئے گھر میں آکر چند دن تو آرام سے رہی، مگر پھر جلد ہی یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ تقدیر نے دوسری بار بھی میرے ساتھ مذاق کیا ہے۔ جس انسان کو میں فرشتہ سمجھ رہی تھی ، وہ انسان کے روپ میں شیطان تھا۔ وہ میرے ننھے منے بیٹے کو ایسی خونخوار نظروں سے دیکھتا تھا، جیسے بھو کا بھیڑیا، بکری کے بے زبان بچے کو دیکھتا ہے۔ جلد ہی بچے کا وجود ہمارے درمیان تنازعہ بن گیا۔ وہ جب میرے منے کی جانب نظر کرتا، اس کی آنکھوں میں نفرت کی چ چنگاریاں دیکنے لگتیں۔ اس کی بڑھتی ہوئی خطی مجھ کو ہراساں کر دیتی اور میں کانپ جاتی۔ کبھی سوچتی کہ اس کو چھوڑ کر کسی ویران پہاڑ کے دامن میں جا کر چھپ جاؤں اور اپنے سہمے ہوئے بچے پر ممتا کے تحفظ کا آنچل اس طرح ڈھانپ دوں کہ اسے کوئی ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہ دیکھ سکے ، لیکن پھر مجبوریاں پاؤں کی زنجیر بن جاتیں۔ خیال آتا لوگ کیا کہیں گے ؟ میں کس کس کا منہ بند کروں گی۔ لوگ میرے میکے والوں کو جینے نہ دیں گے، جبکہ قبیلے کی رسم کے مطابق وہ بیٹی کارشتہ دینے کے عیوض زمان خان سے مقررہ رقم بھی لے چکے تھے۔ یہ بھی سوچتی تھی کہ بچے کا تحفظ تو ماں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ زمانے کی ٹھوکروں سے بچانے کے لئے ہی مجھ نادان نے اس نھی جان کو سوتیلے باپ کی ٹھوکروں پر ڈال دیا، مگر ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ میرا بچہ ٹھیک طرح بولنا بھی نہ سیکھا تھا کہ سوتیلے باپ کے ظلم نے اس کی زبان گنگ کر دی۔ وہ اس شخص کو دیکھتے ہی تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔ اس کے قدموں کی آہٹ سن کر چھپنے کے لئے ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔ بھی کواڑ کے پیچھے چھپ جاتا تو بھی چادر اوڑھ کر کسی کونے میں دبک بیٹھتا، مگر وہ کریہہ روح انسان بہانے بہانے سے بچے کو مار نا شروع کر دیتا۔ میں ہائے ہائے کرتی بھاگتی، اس کے وار خود پر روکتی اور اپنے بچے کو بچاتی تو بھی اس کا ہاتھ نہ رکھتا۔ نجانے اس کی خبیث روح، میرے بچے سے کون سی محرومیوں کا انتظام لیتی تھی ؟ یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی تھی۔ بعض اوقات ذراسی خطا پر میرے گلاب کو اتنا مارتا کہ مجھے اس پھول سے بدن کی سکائی کرنا پڑتی۔ کسی عورت کے سامنے ، اس کا گبر وجوان بیٹا تشدد کا نشانہ بن رہا ہو تو اس کی روح چیخ اٹھتی ہے جبکہ میر ابچہ تو ابھی صرف پانچ چھے برس کا تھا۔ وہ ذرا زور سے مجھے اماں اماں کہہ کر بھی پکارتا تو سوتیلا باپ، اس پر گدھ کی طرح جھپٹ پڑتا اور بلا وجہ پیٹنا شروع کر دیتا۔

پھر میرے شوہر کو یہ دورے جلد جلد پر نے لگے ۔ اب وہ کسی بہانے کا بھی انتظار نہ کرتا۔ اگر میں اس کے پاس کمرے میں بیٹھی ہوتی اور میر اگلاب ادھر جھانک بھی لیتا تو وہ اسے بلا کر اس کے کان کھینچنے لگتا، تب گلاب کا چہرہ زرد پڑ جاتا۔ جب وہ سات سال کا ہوا تو گھر سے بھاگنے لگا۔ اب وہ گھر میں چھپنے سے زیادہ باہر بھاگ جانے کو زیادہ محفوظ خیال کرتا تھا۔ جو نہی زمان کے آنے کا وقت ہوتا یا اس کی گاڑی کی آواز دور سے سنتا، گھر کا پچھلا دروازہ کھول کر نکل جاتا۔ کبھی محلے کی گلیو گلیوں میں جا چھپتا کبھی کسی پڑوسن کے گھر ، اور کبھی کسی ڈیوڑھی میں ، اگر اور جگہ نہ سوجھتی تو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پیچھے بھی جا کر بیٹھ جاتا اور دیر تک گھر نہ آتا۔ زمان کپڑے بدلتا، کھانا کھاتا پھر آرام کرنے کے لئے لیٹ جاتا اور اسے میرے لڑکے کا خیال نہ آتا، تو بڑی عافیت ہوتی۔ میں بھی گلاب کے پیچھے نہ جاتی، کہ زمان سو جائے تب اسے دیکھنے نکلوں گی۔ اکثر تو وہ خود آکر اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں بیٹھ جاتا مگر گھر کے اندر نہ آتا۔ زمان کے سونے کے بعد میں اسے جا کر اندر لے آتی اور کھانا کھلاتی۔ جس روز زمان کو خیال آجاتا کہ گلاب نظر نہیں آرہا ہے تو پوچھتا۔ کدھر ہے وہ گدھے کا بچہ ! اگر وہ باہر ہوتا تو زمان اس کی تلاش میں نکل پڑتا اور کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر مارتا ہوا گھر لاتا اور مارتے مارتے بے ہوش کر ڈالتا۔ کہتا، یہ مجھے بد نام کرنے کو محلے میں جا چھپتا ہے۔ کسی دن کسی بد معاشی کے ہتھے چڑھ جائے گا، تب تجھ کو سمجھ آئے گی بے وقوف عورت۔ میں بے وقوف عورت اسے یہ بھی نہ کہہ سکتی تھی کہ تیرے ظلم کے کارن ہی تو گھر سے بھاگتا ہے۔ پڑوسی مجھے ۔ ے کہتے کہ تم کیسے اس راکھشش کا ستم برداشت کرتی ہو۔ پولیس کو کیوں نہیں بتائیں ؟ اگر تم میں ہمت نہیں تو ہم جا کر اس کی رپورٹ لکھواتے ہیں۔ میں جواب دیتی کہ پھر آپ لوگ ہی کہو گے کہ شوہر کو گرفتار کرا دیا۔

اب اس کا علم آسمان کی حدوں کو چھونے لگا تھا۔ آخر کوئی عورت کب تک شیطان صفت شوہر کی تابعداری کر سکتی ہے۔ اب یہ ہونے لگا کہ جو نہی وہ مارنے کو گلاب کی طرف لپکتا، میں بکنا جھکنا شروع کر دیتی۔ اس کا الٹا اثر ہوا۔ وہ اور زیادہ چڑ گیا اور ہم میاں بیوی میں نفرت کی ایک ناقابل عبور دراڑ پڑ گئی۔ اس روز شام کو زمان نے میرے بچے کو حکم دیا کہ جا کر دودھ لے آ۔ اس نے باورچی خانے سے برتن اٹھایا اور دروازے کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ پیسے دو تو دودھ لینے جاؤں، مگر خوف سے اس کے ہونٹ پھڑ پھڑا کر رو گئے۔ تب میں نے کہا۔ زمان خان ! اس کور تم دو تا کہ یہ دودھ لینے جائے۔ تو کیا گونگا ہے یہ ؟ خود نہیں کہہ سکتا۔ زمان نے بڑ بڑاتے ہوئے بٹوے میں سے سو کا نوٹ نکال کر دیا اور کہنے لگا کہ دھیان سے نوٹ لے کر جانا، گرا نہیں دینا اور جلدی آنا پانچ منٹ میں ۔ میر اسر درد سے پھٹا جاتا ہے اور مجھے حکم دیا کہ تم چائے کے لئے چولہے پر کیتلی رکھ دو۔ وہ کسی حکم کے غلام کی طرح دوڑتا ہوا دروازے سے نکل گیا۔ دودھ کی دکان زیادہ دور نہ تھی، مگر گلاب کو گئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ ادھر میرے شوہر کا غصہ بڑھتا جاتا تھا۔ وہ زخمی ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا اور میں دل ہی دل میں قرآنی آیات پڑھ کر اس کی جانب پھونکتی جاتی تھی۔ دعا کر رہی تھی کہ یا اللہ ! اس شخص کا غصہ ٹھنڈا کر دے۔ اس کے دل میں رحم ڈال دے۔ یہ میرے لعل کو کچھ نہ کہے ، مگر کہاں پتھر میں جو نک لگ سکتی ہے۔ آخر غصے سے بل کھاتا وہ باہر چلا گیا۔ مجھے لگا کہ آج اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ آنچل پھیلا کر دعامانگنے لگی۔ یارب ! تو گلاب کو باہر سے ہی اٹھا لے ، اس سے پہلے کہ اس کے کرخت ہاتھ اس کے نازک بدن کو چھوئیں۔ دعامانگ کر جب میں نے دروازے کی جانب نظر کی تو دیکھا کہ وہ میرے سات سالہ بچے کو جو دیکھنے میں چھ برس سے بھی کم کا لگتا تھا، گھسیٹتا ہو الا رہا ہے۔ میرے دل میں درد کی لہریں اٹھنے لگیں۔ اس نے بچے کو میرے سامنے لاکر پنچا اور اس پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر دی۔ وہ ناتواں زمین پر تڑپ کر بلکنے گا، دہائی دینے لگا۔ ماں ، ماں مجھے بچالے۔ تبھی میں تڑپ کر اس پر گری تو زمان نے مجھے بھی مار نا شروع کر دیا۔ گلاب تو تکلیف کی تاب نہ لا کر بے سدھ ہو چکا تھا۔ کبھی باڑے کے مالک نے اپنے نوکر کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ تمہار الڑکا دودھ لے کر تیزی سے بھاگا تھا، ایک پتھر سے اس کا پاؤں ٹکرایا اور وہ گر گیا۔ میں نے میں روپے کا دودھ دے کر باقی اسی روپے اس کے ہاتھ میں تھما دیئے ، وہ بھی وہاں گر کر بکھر گئے۔ کچھ نوٹ ہوا سے اڑ گئے اور کچھ رقم میرے ہاتھ آئی، یہ لو اور یہ دودھ مالک نے بھجوایا ہے کہ رکھ لو۔ دودھ گر گیا اس لئے بھجوایا ہے ، رقم کی کوئی بات نہیں۔

حقیقت سن کر میں جان کنی کہ اسے پیسوں کے کر جانے سے خوف ہوا کہ اب بہت مار پڑے کی تو وہیں کیوں بیٹھ گیا ہو گا۔ بے غیرت کو کیا ضرورت تھی اس طرح بھاگنے کی، جب دودھ کا برتن ہاتھ میں تھا۔ زمان نے کہا تو مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں روتے ہوئے بولی۔ شقی القلب ! تو نے ہی تو کہا تھا اسے کہ دیر نہ کرنا اور جلدی دودھ لے کر آ، تبھی وہ بھاگتا ہوا آرہا ہو گا۔ پھر تو نے حمایت کی اس شیطان کی، تیری انہی طرف داریوں نے ہی اسے شیطان بنایا ہے۔ یہ سن کر اب جو میرے دل میں آیا، بکنے لگی اور جان کی پروانہ کرتے ہوئے شوہر کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی۔ میرے ایسے تیور اس نے بھی نہ دیکھے تھے۔ اس کا غصہ آسمان پر پہنچ گیا۔ میں نے اپنے لخت جگر کو اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے جانے کی کوشش کی مگر زمان نے اٹھانے نہ دیا۔ گلاب نے اب آنکھیں کھول دیں تھیں اور بے بسی سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے جھک کر اس سے کہا۔ میرا سہارا لے کر اٹھنے کی کوشش کرو۔ اس نے میرا بازو پکڑ کر اٹھنا چاہا مگر اٹھ نہ سکا۔ زمان یہ سب کرسی پر بیٹھے دیکھ رہا تھا۔ تبھی بولا۔ دیکھو تو اسے کیسے ڈرامہ کر رہا ہے ، ارے اٹھ جا۔ یہ کہہ کر وہ خود اٹھ کھڑا ہوا اور ہماری طرف لپکا۔ تبھی میں نے غصے سے اسے دھکا دیا اور بولی۔ خبردار ! اب ہاتھ نہ لگانا ہے۔ میرا یہ کہنا تھا کہ زمان بپھر گیا۔ بولا۔ تیری یہ مجال ! دیکھتا ہوں کیسے نہیں اٹھتا ہے یہ ، تب گلاب خوف سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس نے دروازے کو پکڑ لیا۔ تب زمان بولا۔ اب ساری رات تو یہاں کھڑا رہے گا۔ تیری یہی سزا ہے۔ ایک تو دودھ گرادیا، پھر پچاس روپے اڑ گئے۔ یہ نقصان کیا تیرا باپ پورا کرے گا ؟ بچہ دروازہ پکڑے پکڑے کھسکتا ہوا پھر نیچے بیٹھ گیا تو زمان مجھ پر چلایا۔ تو ہٹ جا، یہ تجھے دیکھ کر دیکھنڈ کر رہا ہے مگر میں اس خوف سے کھڑی رہی کہ یہ طیش میں آکر پھر نہ اسے مارنے لگے۔ کہیں میر ابچہ مربی نہ جائے۔

میں نے سوچ لیا تھا کہ ظلم کی یہ کٹھن رات کسی طور تمام ہو جائے تو میں صبح ہی اپنے بچے کو لے کر ادھر سے نکل جاؤں گی۔ نقاہت تھی یا خوف ، گلاب نہیں اٹھ سکا، جبکہ زمان مسلسل اسے اٹھنے کا کہے جاتا تھا، مگر فرش سے اٹھنا میرے لعل کے بس کی بات نہ تھی، تبھی وہ ظالم اس پر جھپٹا تو میں نے دوڑ کر اس کا گریبان پکڑ کر کھینچا اور چلائی۔ اب اس کے قریب نہ آنا، ورنہ تیرا خون پی جاؤں گی۔ کیا تیرے سینے میں دل نہیں ہے ؟ میرا بچہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس کو سانس لینے کی مہلت تو دے۔ وہ بولا۔ تو ہٹ میں دیتا ہوں سہولت آخری سانسوں کی۔ تب آسمان پھٹا اور نہ زمین کا کلیجہ شق ہوا مگر ایک ماں کا دل پھٹ گیا۔ وہ بے درد میرے لعل کے جسم پر چڑھ کر کودنے لگا۔ بچے نے چیخ بلند کی اور میں کسی کو مدد کے لئے بلانے کی خاطر گھر سے باہر دوڑی۔ میرے بچے کا گردہ پھٹ گیا تھا، اس کی پہلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ میری چیخ و پکار سن کر لوگ آگئے لیکن تب تک میرا جگر گوشہ اپنی آخری سانسیں پوری کر چکا تھا۔ اب ایک تن مردہ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ لوگوں نے زمان کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا، پھر پولیس نے اس کو گرفتار کر لیا۔ وہ جیل چلا گیا مگر میں اب بھی بین کرتی ہوں کہ اے کاش زمان ، گلاب کو مارنے کی بجائے مجھے مار ڈالتا۔ اے کاش ایسے سنگدلوں کو عدالت سے سخت سزا ملے جو معصوم بچوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں اور ماؤں کے دلوں میں شگاف ڈال دیتے ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS