شیریں بھابی کے چلے جانے کے بعد، بھائی رفیع عرصۂ دراز تک اُداس رہے۔ وہ بیوی سے زیادہ اپنی نوزائیدہ بیٹی کے لئے آزردۂ خاطر تھے کہ جسے باپ کا قرب نصیب ہوا اور نہ شفقت۔
آج جب میں مارکیٹ میں اپنے لئے کچھ ضرورت کی اشیاء خریدنے گئی تو مدت بعد ایک خاتون کا شناسا چہرہ دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ لمحہ بھر کو یقین نہ آیا کہ یہ میری سابقہ بھابی شیریں ہیں کہ جن کا مکھڑا گلاب کی طرح کھلا اور چاند کی مانند روشن ہوا کرتا تھا۔
آج اُس عورت کو دیکھ کر میں بجھ گئی جو کبھی شعلہ جوالا تھی اور اب راکھ کا ڈھیر نظر آ رہی تھی۔
ایک دس برس کی بچی اُس کے ساتھ تھی جو اپنی دُھلی دُھلی آنکھوں میں حیرت کا سمندر بھرے میری جانب تک رہی تھی۔ مجھے لگا کہ وہ میرے چہرے کے نقوش میں اپنے کھوئے ہوئے باپ کی شبیہ کو تلاش کر رہی ہے۔
جی چاہا آگے بڑھ کر شیریں کو پکار لوں، اُسے روک کر اپنی معصوم بھتیجی کے رُخ پر بوسہ دوں، مگر زبان گنگ تھی، ہمت نہ پڑتی تھی کہ اس عورت کو بھابی کہہ کر پکاروں جو اب میری بھابی نہ رہی تھی۔
مجھے وہ دن یاد آ گیا جب شیریں کی شادی میرے بڑے بھائی کے ساتھ بہت دُھوم دھام سے ہوئی تھی۔ شیریں بھابی کچھ زیادہ امیر خاندان سے نہ تھیں، پڑھی لکھی بھی کم تھیں۔ محض میٹرک پاس لیکن حسن میں یکتا تھیں۔ کیا بتائوں کتنی دلکش صورت کی مالک تھیں کہ جہاں بیٹھتیں اندھیرے میں بھی اُن کے رُخ روشن کی وجہ سے اُجالا ہو جاتا تھا۔
امی نے کسی شادی کی محفل میں انہیں دیکھا۔ بھائی کی بھی نظر اس وینس کی دیوی پر ٹک گئی تو والدہ کے سر ہوگئے کہ اسی لڑکی سے شادی کرا دیں… والدہ کو اگرچہ اس مجسمۂ حسن سے بیٹے کی شادی پر کوئی اعتراض نہ تھا لیکن ایک خدشہ کا اظہار ضرور کیا۔
لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہے تو اعلیٰ خاندان سے ہونا چاہئے وہ ایسی بہو لانا چاہتی تھیں جس کا خاندانی پس منظر بہترین ہو۔ بہرحال بھائی کی خوشی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے رشتہ لینے چلی گئیں۔
وہاں سے ’ہاں‘ میں جواب ملا تو ہمارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یوں بات پکی ہوگئی۔ پہلے بیٹے کی شادی تھی، والدین نے بھاری زیورات اور قیمتی بری بنوائی اور بہت ارمانوں سے بہو کو بیاہ لائیں۔
دُلہن کیا تھی ہمارے آنگن میں جیسے چودھویں کا چاند اُتر آیا تھا۔ شیریں بھابی کے خوب ناز نخرے اُٹھائے گئے، وہ بھی بظاہر خوش نظر آتی تھیں لیکن دل کا حال اللہ جانے، تاہم ہمارے بھائی جان بہت شاداں تھے۔ ان کو من چاہی حسن پری مل گئی تھی۔
وہ بیوی پر دل و جان سے نثار تھے۔ ایک منٹ کی جدائی ان کو شاق گزرتی تھی۔
شادی کو چھ ماہ ہوگئے، بھابی کم ہی میکے جاتی تھیں، نہیں معلوم ازخود یا بھائی کو ان کا جانا بار خاطر تھا۔ ایک ماہ میں ایک دن جاتیں اور شام کو لوٹ آتیں۔
یہ اچھی بات تھی دُلہن اگر سسرال میں دل لگا لے تو گھر بسانے میں دُشواری نہیں رہتی۔ ہم سب خوش تھے، ہمیں شیریں بھابی سے کوئی شکایت نہ تھی۔ اُن کی شادی کے خوشی بھرے یہ ابتدائی دن پلک جھپکتے گزر گئے۔
ایک روز جبکہ میں چھت پر گیلے کپڑے ڈال رہی تھی، کانوں نے دروازے پر دستک سنی۔ امی گھر پر نہ تھیں بھابی نے در کھولا۔ ایک شخص بھابی سے ملنے آیا تھا۔ جسے دیکھ کر ان کے چہرے پر خوشی کی پھوار برس گئی۔ وہ اُس اجنبی کو گھر کے اندر لے آئیں اور اپنے کمرے میں لے جا کر بٹھایا۔
میں نے یہ سارا منظر چھت سے دیکھا تھا۔ کپڑے الگنی پر ڈال کر نیچے اُتری تو بھابی کے کمرے سے دھیمی آواز میں باتیں کرنے کی آواز آ رہی تھی، وہ اس اجنبی سے کہہ رہی تھیں فخر تم آج تو آ گئے ہو آئندہ یہاں مت آنا۔ یہ میری سسرال کا معاملہ ہے جانے وہ کیا سوچیں۔
تم میکے تو آتی نہیں ہو پھر ملاقات کیسے ہو۔ آج سو بار سوچا خود کو نہ روک سکا ہمت کر کے آ گیا۔
ملاقات کس سے کرنی ہوتی ہے مجھے جو آئوں۔ جب وقت تھا تو گریزاں ہو گئے، میری اب شادی ہوگئی ہے تو تمہیں میری یاد آ گئی، آخر چاہتے کیا ہو۔
گریزاں نہ ہوا تھا تم ہی نے انتظار نہ کیا اور جو چاہتا ہوں وہ تم جانتی ہو۔
خاموش رہو ایسی باتیں سننا نہیں چاہتی۔ گھر پر آ گئے تو در کھول دیا دوبارہ ایسا نہ ہو پائے گا۔ میرے قدموں کی جونہی انہوں نے آواز سنی وہ کمرے سے
باہر آ کر کہنے لگیں… نعمانہ پلیز چائے بنا دو مہمان آئے ہیں۔
کون مہمان بھابی؟
میرے کزن فخر ہیں، ہماری شادی کے وقت ملک سے باہر گئے ہوئے تھے۔ مبارک باد دینے آئے ہیں۔ پلیز تکلیف تو ہوگی تمہیں ساتھ کچھ کباب وغیرہ بھی تل دینا۔
بھابی تکلیف کیسی، کمال کرتی ہیں۔ ابھی چائے بنا کر لاتی ہوں۔ یہ کہہ کر کچن میں چلی گئی، کباب اور چائے بنا کر ان کو ملازمہ لڑکی کے ہاتھ کمرے میں بھجوا دی۔
اس کے بعد وہ صاحب جن کو بھابی نے اپنا کزن بتایا تھا اور فخر نام لیا تھا دوبارہ ہمارے گھر نہیں آئے، البتہ اب بھابی جلدجلد میکے جانے لگیں، وہاں جانے کا کبھی کوئی بہانہ کرتیں اور کبھی کوئی۔ گمان نہ گزرا کہ بھابی میکے فخر کی خاطر جاتی ہوں گی۔
وہ اُمید سے تھیں، امی اور بھائی بہت خوش تھے۔ وہ انہیں ہرممکن خوش رکھتے تھے۔ میکے جانے سے منع نہ کرتے، کوئی روک ٹوک نہ تھی۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی پیاری سی بچی نے جنم لیا۔ ہوبہو ہمارے بھائی جان کی شکل تھی، گھر بھر کی پیاری تھی اب بچی کی جدائی ہمیں شاق گزرتی لیکن بھابی اکثر میکے میں قیام پذیر رہنے لگیں، بہانہ یہ تھا کہ میری والدہ بچی کی زیادہ بہتر دیکھ بھال کر سکتی ہیں۔ آپ لوگوں کو تو اپنے کاموں سے فرصت نہیں۔ ان کی خوشی کی خاطر ہم خاموش تھے۔ بھائی بھی صبر سے کام لے رہے تھے۔ اس بار بھابی میکے گئیں تو آنے کا نام نہ لے رہی تھیں۔ بیس دن گزر گئے۔ اُن کی بیٹی کی سالگرہ کا دن آ گیا، وہ بیوی کو لینے ان کے میکے چلے گئے۔ وہاں انہوں نے فخر، کو بیٹھے دیکھا۔
میرے کزن ہیں امریکہ پڑھنے گئے تھے حال میں لوٹے ہیں، تبھی آپ سے تعارف نہ ہوا۔ ہماری شادی میں بھی شامل نہ ہو سکے تھے۔ بھائی نے ہاتھ ملایا، بولے آپ میری بیوی کے بھائی ہیں بخوشی ہمارے گھر آیئے خوشی ہوگی۔ بھابی نے نہ بتایا کہ یہ ہمارے گھر آ چکے ہیں۔ ہم لوگوں نے اس معاملے کو اتنا سیریس نہ لیا… مگر معاملہ بے حد سنجیدہ تھا، یوں کہ بھابی نے گھر آنے سے انکار کر دیا اور جب بھائی جان نے زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔
یہ مطالبہ کیا تھا ایک ایٹم بم تھا جو ہم پر گرا تھا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ شیریں کو آخر ہم سے کیا شکایت ہے جو وہ واپس گھر آنے پر راضی نہ تھیں۔ ہر طرح سے کوشش کرلی، انہوں نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ اگر طلاق نہ دی تو کورٹ سے خلع لے لیں گی۔ گرچہ معاملہ معصوم بیٹی کا بھی تھا لیکن شرفا کا طریقہ ہوتا ہے وہی طور اپناتے ہوئے دل پر پتھر رکھ کر بھائی نے شیریں کی خوشی کی خاطر طلاق دے دی۔ بچی ابھی اتنی کم سن تھی کہ اُسے ماں سے جدا کرنا محال تھا لہٰذا بیٹی کو بھی انہی لوگوں کے سپرد کرنا پڑا۔ اس صدمہ سے وہ نڈھال ہوگئے اور ایک عرصہ تک صاحب فراش رہے، کسی سے ملتے جلتے اور نہ بات کرتے تھے۔ انہوں نے ملازمت کو بھی خیرباد کہہ دیا تھا۔
ہم سب بھائی کے غم کو دل سے محسوس کرتے تھے، دن رات والدہ بیٹے کے لئے دُعائیں کرتی تھیں۔ روتی رہتی تھیں، ہم سب کے دل اپنے پیارے بھائی کو صدمے کی کیفیت میں دیکھ کر بجھے ہوئے تھے۔ کیا کرتے بھابی کو سمجھانا بے کار تھا، کیونکہ ان کے خاندان والوں نے بھی انہی کا ساتھ دیا تھا۔
عرصہ تک ہم لوگ اچنبھے میں رہے بھابی نے اچانک ایسا فیصلہ کرلیا، کیوں؟ بالآخر ایک دن یہ راز کھل گیا ان کی ایک سہیلی سے اتفاقاً کہیں میری ملاقات ہوگئی، تب اس نے بتایا کہ شیریں کا فخر کے ساتھ ماضی کا رشتہ ہے۔ دونوں اسکول میں ساتھ پڑھتے تھے، تبھی سے ان میں محبت کا رشتہ قائم ہے۔
فخر امیر ماں باپ کا بیٹا تھا اور شیریں غریب گھرانے کی لڑکی تھی، لہٰذا فخر کی والدہ نے شیریں کا رشتہ لینے سے انکار کر دیا اور بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھجوا دیا۔ شیریں اسی انتظار میں رہی جب فخر لوٹے گا ضرور وہ اُسے اپنا لے گا۔
سات سال اسی انتظار میں گزر گئے۔ اس دوران شیریں کی خوبصورتی کے باعث اس کے لئے کئی اچھے رشتے آئے، اس نے ہر بار انکار کیا یہاں تک کہ اس کے والد کی وفات ہوگئی۔
بیوہ ماں اُسے سمجھاتی تھی کہ اب تم فخر کا انتظار چھوڑ دو، وہ تمہیں بیاہنے نہیں آئے گا، بہتر ہے کسی اچھے رشتے پر ہاں کر دو تا کہ میں اپنے فرض سے سبک دوش ہو جائوں۔
شیریں ماں کی بات نہ مانتی تھی، اُسے اب بھی اُمید تھی کہ ایک دن ضرور فخر لوٹ کر آئے گا۔ اُس
ہاتھ تھام لے گا یہ اس نے وعدہ کیا تھا، وہ وعدہ ایفا کرے گا۔ ماں نے صحیح کہا تھا کہ فخر کے والدین مغرور لوگ ہیں، کسی امیر گھرانے میں بیٹے کی شادی کریں گے وہ ہم لوگوں کو حقیر جانتے ہیں۔ دراصل فخر کی ماں شیریں کی والدہ کی رشتہ دار تھیں، وہ اُن لوگوں کی ذہنیت سے اچھی طرح واقف تھیں مگر شیریں کو اپنی محبت پر اندھا اعتماد تھا، وہ دُنیا کی چالوں کو نہیں سمجھتی تھی۔
یہ اندھا اعتماد پارہ پارہ ہوگیا کہ جن دنوں ہماری والدہ رشتہ طلب کرنے شیریں کے گھر گئیں، انہی دنوں فخر والدین سے ملنے امریکہ سے آیا ہوا تھا۔ شیریں نے اُسے فون کیا اور بتایا کہ اس کے لئے ایک امیر گھرانے کا بہت اچھا رشتہ آیا ہے اور اس کی والدہ اس رشتے کو قبول کرنے پر مصر ہیں۔ بہتر ہے کہ تم آ کر امی سے بات کر لو۔ رشتہ اچھا ہو تو ہرگز نہ گنوانا چاہئے کیونکہ اچھے رشتے بار بار نہیں ملتے جبکہ تمہاری والدہ بیوہ ہیں، ان کے دکھوں کا احساس کرو اور اس رشتے کو قبول کر لو، میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا کیونکہ میں نے کسی مجبوری کے تحت امریکہ میں ایک امریکن نیشنل خاتون سے شادی کرلی ہے۔ میرا انتظار کرنا بیکار ہے، کیونکہ مجھے چند دنوں بعد لوٹ کر امریکہ جانا ہے۔
شیریں کا شیشہ دل چور ہوا، مگر اسے ایک خواب سے نجات مل گئی، جس کی تعبیر ریت کے گھروندے جیسی تھی، دلبرداشتہ اس نے ماں کی بات مان لی اور میرے بھائی رفیع کے ساتھ شادی کے لئے ہاں کر دی۔ شیریں کی شادی کے ایک برس بعد فخر اور اُس کی فرنگن بیوی میں طلاق ہوگئی، دل شکستہ وطن لوٹا تو شیریں کی یاد آ گئی۔ احساسِ جرم نے چین نہ لینے دیا، لوٹ کر اس کے پاس آیا مگر وہ بیاہی جا چکی تھی، پرانی یادوں نے عشق کے الائو کو دہکا دیا اور وہ بے اختیار اپنی محبوبہ سے ملنے ہمارے گھر چلا آیا۔ پہلے ہماری بھابی نے اُسے خود سے دُور رکھنا چاہا مگر جب فخر نے ہمت نہ ہاری اور شیریں کے گھر والوں کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا تو ہماری بھابی نے بھی ماضی کی محبت کے آگے سپر ڈال دی کیونکہ دل میں ابھی تک یہ دیا ٹمٹا رہا تھا۔
شوہر سے طلاق لے کر فخر سے شادی کرلی۔ اُن کی بدنصیب بچی جو ماں اور باپ کے درمیان جدائی کی علامت بن کر آئی تھی، اُسے باپ کی شکل دیکھنی نصیب ہوسکی اور نہ ان کی گود۔ وہ سوتیلے والد کے زیرسایہ پلنے لگی۔ شیریں سمجھتی تھی کہ فخر سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی بلکہ اُسے اس کی کھوئی ہوئی جنت مل گئی ہے، وہ یہ بھول گئی کہ اس پر ایک ننھی بچی کے بھی کچھ حقوق ہیں، جس کو اس نے بغیر کسی قصور کے حقیقی باپ سے جدا کر کے ایک لمبی سزا دے دی ہے۔
شیریں کو طلاق دینے کے پانچ سال بعد رفیع بھائی نے والدہ کے اصرار پر اپنی ایک رشتہ دار لڑکی سے نکاح ثانی کرلیا اور سلمٰی ہماری بھابی بن کر آ گئی۔ شیریں، فخر سے اس قدر محبت کرتی تھی کہ اس کے اُکسانے پر اپنا بسا بسایا گھر ہی برباد نہیں کیا، اپنی بیٹی سے اس کا باپ بھی چھین لیا، وہ خود تو فخر کی محبت میں گم ہوگئی لیکن بچی باپ کے ساتھ ماں کی توجہ سے بھی محروم ہوگئی۔
لوگ کب کسی کا پردہ رکھتے ہیں رشتے داروں نے صبا کے ہوش سنبھالتے ہی اس کے کانوں میں یہ زہر پھونک دیا کہ تمہارا یہ باپ سوتیلا ہے اور حقیقی والد سے تمہاری ماں نے تمہیں اس وقت جدا کر دیا تھا، جبکہ تم ابھی صرف چند ماہ کی تھیں۔
یہ حقیقت جان کر ننھی بچی ہر دم مضطرب رہنے لگی، کیونکہ اُسے فخر کا بیگانگی بھرا رویہ سمجھ میں آنے لگا تھا۔ وہ خود کو تنہا محسوس نہ کرتی اگر ماں کی بھرپور توجہ حاصل رہتی، لیکن شیریں نے فخر کو پا کر اس بچی کو یکسر نظرانداز کر دیا تھا۔ صبا تنہائی کا شکار تو تھی ہی، احساس محرومی کی آگ نے بھی اُسے جلانا شروع کر دیا۔
شیریں سمجھ رہی تھی کہ فخر کی محبت دوبارہ ملی ہے تو جیسے بہت بڑا خزانہ اُس کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اس نے ساری دُنیا کو بھلا دیا تھا حتیٰ کہ اپنی معصوم بچی کو بھی۔ وہ کبھی ماں کے اور کبھی بہن کے در پر ڈال جاتی، گویا جیسے وہ اس کی خوشی کی راہ کا پتھر تھی۔ بیٹی کے حقوق سے لاپروا یہ بھول گئی کہ وہ ہستی اُسے فخر سے دوبارہ جدا بھی کر سکتی ہے جس نے اُسے اُس کے محبوب سے ملا دیا تھا۔ نصیب لکھنے والا تو رب العزت ہے۔
وقت نے ان کی تقدیر ایک بار پھر جدائی کی سیاہی سے رقم کر دی۔ اگر تقدیر کے قلم سے جدائی کا کتبہ کندہ ہو جائے تو
محبت کے مزار پر دیا جلانے کون آتا ہے؟ یہ مزار ہمیشہ کے لئے ویران اور لاوارث رہ جاتے ہیں۔ پس رفیع بھیّا شیریں کا دیا زخم کھا کر پھر سنبھل گئے، کیونکہ سلمٰی بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی۔ ان کا گھر دوبارہ بس گیا، اللہ نے اولاد بھی دے دی، مگر شیریں کو نجانے کس کی بددعا لگی کہ اس کی محبت ثابت قدم نہ رہ سکی۔ بھری بہار میں غم کی ایسی گھٹا چھائی کہ پیار کے سرسبز کھیتوں پر خزاں کے اولے برس گئے اور ایک بار پھر فخر نے بے وفائی سے کام لیتے ہوئے امریکہ کا رُخ کرلیا۔ وہ اپنے وطن کی فضا میں تھوڑا عرصہ ہی چین سے رہ سکا۔
ان کے اولاد بھی نہ ہوسکی۔ یوں وہ ایک بار پھر اُجڑ گئیں، گویا محبت کو اٹل حقیقت جاننے والی نے تقدیر کے آگے جب ہتھیار نہ ڈالے تو تقدیر نے اپنا وار کر کے اس سے اپنی طاقت کو منوا لیا۔ سوچتی رہی کیسے پوچھوں ان سے کہ ’’منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی…‘‘
آج اُسے دیکھا تو میرے دل سے ٹھنڈی آہ نکل گئی۔ اس وینس کی دیوی کو حسن نے خیرباد کہہ دیا تھا اور اب اس کی حالت مردوں سے بدتر تھی۔ بچی کی صورت پر بھی یتیمی برس رہی تھی کہ میرے بھائی کی التجائوں کے باوجود جسے اُس نے اپنے حقیقی باپ کے حوالے نہ کیا تھا۔ جی چاہا پوچھوں بھابی، اب تم کس حال میں ہو مگر حوصلہ نہ ہوا۔ جب وہ میری بھابی نہ رہی تھی تو کیونکر بھابی پکارتی… ہاں جانتی تھی کہ اگر رفیع بھائی شادی نہ کر چکے ہوتے تو آج بھی انہیں دوبارہ اپنی عزت بنانے میں عار سے کام نہ لیتے، دوڑ کر بیوی اور بیٹی کو گلے سے لگا لیتے۔
میں نے دانستہ شیریں بھابی اور صبا کا احوال بھائی جان کے گوش گزار نہ کیا اتنی مشکل سے تو وہ یہ غم بھلا پائے تھے۔ حقیقت جان لیتے تو دل کا مندمل زخم ایک بار پھر سے ہرا ہو جاتا۔
(ص… کراچی)