والد صاحب میں بہت صفات تھیں۔ وہ محنتی تھے، دیانت دار تھے، اپنا کاروبار کرتے تھے ۔ گھر میں سکون اور خوشحالی تھی لیکن ابو جان کی دو عادتیں ایسی تھیں کہ جس سے ان کو نقصان پہنچ جاتا تھا ، لیکن وہ ان عادتوں کو بدل نہ سکے۔ ایک تو کسی پر جلد بھروسہ کر لینا اور دوسری یہ کہ وہ کانوں کے کچے تھے۔ کوئی کچھ بھی کہہ دیتا، اس کی بات پر بغیر تحقیق کے یقین کر لیتے تھے۔ ان دنوں ابو جان کو اپنا کاروبار بڑھانے کی سوجھی اور انہوں نے ایک شخص کے ساتھ پارٹنر شپ کرلی۔ یہ آدمی بہت تیز، چالاک اور کچھ خوشامدی بھی واقع ہوا تھا۔ اس نے میرے والد کو اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے شیشے میں اُتار لیا اور انہوں نے اس آدمی پر بھروسہ کرتے ہوئے اُسے سفید و سیاہ کا مالک بنا دیا۔ یہی نہیں، بلکہ وہ ہمارے گھر میں بھی آنے جانے لگا اور گھر کے ایک فرد کی طرح ہر ایک سے بے تکلف ہو گیا۔ امی کو بھابھی، بھابھی کہتے اس کی زبان سوکھتی تھی امی جان سیدھی سادی عورت تھیں۔ جب وہ آتا تو بہت خاطر کرتیں۔ والد اس شخص کی پسندیدہ ڈشیں بنواتے ، وہ بھی اُف نہ کہتیں کہ چلو ، شوہر کا کاروباری پارٹنر ہے۔ اگر اس کی خاطر تواضع کی تو دونوں کاروبار میں حسن سلوک سے چلیں گے اور اللہ پاک رزق میں برکت دیں گے۔ ایک سال آرام سے گزر گیا۔ کاروبار بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگا لیکن پھر ابو جان حساب کتاب سے کچھ غفلت برتنے لگے۔ دراصل وہ اپنے اس بزنس پارٹنر اکرم پر پورا پورا بھروسہ کرنے لگے تھے۔ آنکھیں تب کھلیں جب اچانک ترقی کرتا کاروبار بیٹھنے لگا اور بھید اس وقت کھلا جب پتا چلا کہ اکرم نے اپنا علیحدہ کارخانہ قائم کر لیا ہے۔ اس پر بھی والد صاحب نے اکرم سے تنازعہ کرنا مناسب نہ سمجھا – أمى البتہ کہتی رہتی تھیں کہ یہ آدمی بہت شاطر اور چالاک ہے۔ میاں صاحب آپ ہوشیار ہو جائو، کہیں یہ آپ کے کاروبار کو خسارے میں ڈبو کر ہمیں کنگال نہ کر دے۔ امی کے بار بار کہنے پر ابو نے اکرم صاحب کا محاسبہ شروع کر دیا۔ اب وہ گھر آتا تو امی اسے زیادہ اہمیت نہ دیتیں بس چائے پانی کا پوچھ کر کنارے ہو جاتیں کیونکہ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ آدمی کاروباری امور میں دیانت سے کام نہیں لے رہا اور بزنس مسلسل خسارے میں جا رہا ہے تو اب اس کو زیادہ عزت دینا اپنا ہی نقصان کرنا ہے۔ یہ بات اکرم صاحب بھی اچھی طرح سے سمجھ چکے تھے۔ ایک دن انہوں نے سنا کہ یہ خاتون اپنے شوہر کو حساب کتاب کی جانچ پڑتال کا کہتی ہیں۔
پھر جب ابو نے حساب کتاب کی باقاعدہ جانچ پڑتال شروع کر دی تو اکرم صاحب گھبرا گئے۔ انہوں نے پہلے تو کئی دوسرے طریقے اختیار کرنے کی کوشش کی، جب دیکھا کہ شریک کاروبار ساده دل ہونے کے ساتھ ساتھ کھرا آدمی بھی ہے تو وہ ڈر گیا۔ تب اس نے ایک عجیب و غریب چال چلی اور ابو کو ایسی ذہنی اذیت اور پریشانی سے دوچار کرنے کا جال بچھایا کہ ہم سب کی زندگی برباد کر کے رکھ دی۔ امی سیدھی سادی ہونے کے ساتھ ساتھ نرم دل بھی واقع ہوئی تھیں۔ کوئی اگر اپنا دکھ درد اُن سے کہتا تو وہ فوراً اس پر ترس کھا کر مدد کرنے پر تیار ہو جاتیں۔ ان دنوں ہم بہن بھائی چھوٹے چھوٹے تھے۔ امی جوان اور خوبصورت تھیں مگر ان کو اپنے حسین ہونے کا احساس نہیں تھا ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتیں اور کس کر چٹیا بنا لیتی تھیں ۔ وہ فیشن بالکل بھی نہیں کرتی تھیں۔ میرے والد تو کیا کوئی بھی ان کے کردار کو مشکوک نہیں کہہ سکتا تھا۔ یہ کام اس بدخصلت اکرم کا ہی تھا جو اس نے کر دکھایا۔ ایک دن وہ گھبرایا ہوا آیا اور کہنے لگا۔ بہت پریشانی میں ہوں بھابھی اگر آپ میری مدد کر دیں تو بڑی عنایت ہوگی۔ بھائی صاحب کیا بات ہے؟ بتایئے، اگر آپ کی مدد کر سکوں گی تو ضرور کروں گی۔ اکرم نے کہا۔ میری ایک چھوٹی بہن ہے۔ ہمارے والدین بیمار ہیں، وہ لاہور میں ہیں۔ میری بیوی چونکہ علیل ہے وہ میکے میں قیام پذیر ہو گئی ہے۔ بہن کے رشتے کے لئے آج شام لوگ آئیں گے، آپ میرے ساتھ چلی چلئے اور لڑکی کو بڑی بہن کی حیثیت سے ان لوگوں سے بات چیت کر لیں تو خدا آپ کو اس نیک کام کا آجر دے گا۔ رشتے ناتے تو عورتوں کے معاملات ہوتے ہیں۔ میں خود کو اس معاملے میں بالکل بے دست و پا محسوس کرتا ہوں۔ امی جان نے کچھ سوچ کر کہہ دیا۔ ہاں کیوں نہیں، آپ کی بہن میری بھی بہن ہے۔ میں ضرور چلوں گی۔ اچھا بھابھی، میں آپ کا یہ احسان عُمر بھر نہیں بھولوں گا ۔ بُرا نہ مانیں تو ایک بات اور کہوں ہاں بھائی اکرم ، ضرور کہو ۔ آپ بہت سادگی سے رہتی ہیں۔ رشتہ کا معاملہ ہے ، وہ امیر لوگ ہیں اور آپ بڑی بہن کی حیثیت سے بات کرنے جا رہی ہیں تو ذرا اچھا سا لباس اور تھوڑا نک سک سے درست ہونا ضروری ہے۔ ارے بھیا! اس کی فکر مت کرو، مجھے معلوم ہے کہ رشتے ناتوں میں ایسی باتیں نوٹ کی جاتی ہیں۔
امی بچاری من کی سیدھی انہوں نے بڑا اچھا سا جوڑا کڑھائی والا جو وہ خاص مواقع پر پہنی تھیں، پہن لیا، کلائیوں میں سونے کی چوڑیاں ڈال لیں، ساتھ ہی سونے کی چین اور بندے بھی پہنے تاکہ اچھے گھرانے سے اور لڑکے والیاں متاثر ہوں کہ ہاں خوشحال لوگ ہیں۔ میری ساده دل ماں گویا ان کو مرعوب کرنے کے خیال سے نک سک سے درست ہو کر گئیں۔ ابو چونکہ رات کو گھر آتے تھے ، دن میں کارخانے پر ہوتے یا دُکان پر … لہذا اس روز وہ گھر پر نہ تھے ۔ امی نے مجھ سے کہا کہ وہ آئیں تو بتا دینا، میں ایک ضروری کام سے جا رہی ہوں۔ باقی تفصیل میں خود ان کو آ کر بتا دوں گی۔ یہ سہ پہر کا وقت تھا۔ اکرم نے کہا کہ بھابھی جان گاڑی لایا ہوں آپ تیار ہو جایئے۔ میں اتنے میں بھائی صاحب کو دکان پر بتا کر آ جاتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ جا رہی ہیں ۔ بھائی صاحب سے اس کی مراد ، میرے ابو جان تھے۔ امی تیاری میں لگ گئیں ۔ اتنے میں اکرم صاحب آ گئے۔ امی نے میرے چھوٹے بھائی کو ساتھ لیا اور ہم کو دادی اماں کے گھر میں چھوڑ کر چلی گئیں۔ اکرم سے پوچھا کہ میاں جی کو بتا آئے ہیں؟ وہ بولا ۔ ہاں بھابھی بتا آیا ہوں، آپ فکر مت کریں ۔ بس اتنی سی بات تھی مگر اکرم نے تو اور ہی جال پھیلایا تھا۔ جانے کب سے ابو سے اشاروں کنایوں میں کچھ ایسی باتیں آمی بارے کہہ دیا کرتا تھا جس سے ان کا سکون درہم برہم ہو مگر وہ چپ تھے کہ گھر اور بچوں کا سکون ان کو عزیز تھا ۔ امی کو کچھ خبر نہ تھی کہ ان کا شوہر اندر سے الجھا الجھا رہنے لگا ہے۔ ابو کئی بار یہ سوال ضرور پوچھ چکے تھے کہ میرے گھر سے جانے کے بعد کیا تم اڑوس پڑوس میں یا بازار شاپنگ وغیرہ کرنے جاتی ہو ؟ نہیں تو ، پاس پڑوس میں جانا میری عادت نہیں ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں اور میں شاپنگ کرنے کیوں جائوں گی؟ جبکہ آپ ہر چیز خود لے آتے ہیں۔ کیا آپ کو کسی نے کچھ کہا ہے ؟ ہاں، کسی نے ایک دو بار آپ کو باہر دیکھا ہے۔ شاید اُسے غلط فہمی ہوئی ہوگی کوئی اور عورت آپ جیسی اُسے دکھی ہوگی۔ خیر مٹی ڈالو ان باتوں پر امی پر ان کو بھروسہ تھا اور کوئی ایسی ویسی بات انہوں نے خود بھی امی میں دیکھی نہ تھی کہ ان سے کچھ کہتے۔ اس روز اکرم نے جانے کیا جال پھیلایا۔ امی کو اس نے اپنے گھر پہنچایا اور تھوڑی دیر بعد ابو اس کے گھر جا پہنچے۔ دروازے کے پاس ایک شخص کو کھڑا پایا۔ ابو نے پوچھا۔ گھر کے اندر خواتین ہیں؟ وہ بولا ۔ ہاں، ایک خاتون ہیں جو تھوڑی دیر پہلے آئی ہیں ، لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ یہ خاتون تو کئی بار پہلے بھی آ چکی ہیں۔ اگر اندر خواتین ہیں تو میں اجازت لے کرہی گھر کے اندر جائوں گا نا؟ والد صاحب نے بات بنائی پھر اس آدمی سے پوچھا۔ آپ کون ہیں اور یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ میں اکرم کا پڑوسی ہوں۔ آج کل یہ اکیلا رہتا ہے، تبھی ہم کو تشویش رہتی ہے کہ یہ کون خاتون ان سے ملنے آتی ہے۔ یہ سن کر ابو کا پارہ چڑھ گیا اور وہ اکرم کے گھر میں داخل ہوگئے۔ دراصل اکرم کے گھر والے چار ماہ سے لاہور میں تھے اور وہ اکیلا رہتا تھا۔ اس بات سے ابو واقف تھے ۔ آج کسی نے فون کر کے ان کو اکرم کے گھر بلایا تھا کہ آپ آ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ آپ کی بیوی اکرم کے گھر میں موجود ہے۔ ابو تو تھے ہی کانوں کے کچے جب فون سُنا اُن سے رہا نہ گیا۔ وہ گھر آنے کی بجائے اُسی وقت اکرم بدبخت کے گھر چلے گئے۔ وہاں، صحن میں ہی ان کی مڈبھیڑ اکرم سے ہوگئی۔ ابو نے کہا۔ تمہارے کسی پڑوسی نے مجھے فون کرکے ایسی بات کہی ہے تو میں پریشان ہو کر آ گیا ہوں۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ مجھے سچ بتا دو۔ وہ بولا۔ اب آ ہی گئے ہو تو تم سے کیا جھوٹ بولوں ! یہ سچ ہے کہ تمہاری بیوی تنہائی میں مجھ سے ملنے آتی ہے ۔ میرے گھر والے تو لاہور میں ہیں، یہ تم جانتے ہی ہو۔ کیا ثبوت ہے اس کا؟ اگر ثابت کر دو تو میں اسی وقت اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا۔ میری بیوی ایسی ہرگز نہیں ہے کہ مجھے بتائے بغیر کہیں جائے۔ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تبھی اکرم، ابو کو کمرے میں لے گیا جہاں امی جان کو یہ کہہ کر اُس نے بٹھا رکھا تھا کہ رشتہ دیکھنے کے لئے خواتین بس ابھی آنے ہی والی ہیں اور میری بہن اُوپر اپنے کمرے میں تیار ہونے گئی ہے۔ جب خواتین آ جائیں میں اُسے بھی نیچے لے آئوں گا ۔ تب تک میں کھانے پینے کا سامان لے آئوں۔ میری بھولی ماں ان عورتوں کے انتظار میں بیٹھی تھی کہ سر پر ابو پہنچ گئے۔ اُن کو ڈرائنگ روم میں اچھے لباس اور زیور پہنے دیکھ کر ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کوئی بھی سوال کئے بغیر انہوں نے اکرم کے پڑوسی کو بلایا اور اُس کے سامنے امی کو طلاق کے تین لفظ کہہ دیئے۔ وہ آدمی جو باہر کھڑا تھا دراصل وہ اکرم کا پڑوسی نہیں بلکہ اکرم نے اپنے کسی دوست کو اس سازش میں شامل کر کے وہاں کھڑا کر دیا تھا اور فون بھی اُسی سے کروایا تھا۔ ابو غصے میں امی کو طلاق دے کر آ گئے۔ مرد کی نادانی اور دوسروں کی بات پر جلد یقین کر لینے کے باعث ذرا سی دیر میں ایک بے قصور عورت کا گھر اُجڑ گیا۔ ہاں یہ قصور ضرور امی کا تھا کہ وہ اکرم سے کہہ دیتیں کہ میرا خاوند آ جائے، میں اُس سے پوچھ لوں تو ہی آپ کے ساتھ چلوں گی۔ بعد میں ابو نے جب بیٹھ کر گہرائی سے سوچا تب اُن کو بہت پچھتاوا ہوا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ امی روتی دھوتی ماموں کے گھر چلی گئیں اور ہم ماں باپ کے ہوتے یتیموں جیسے ہو گئے۔ جب اصل بات کا علم ہوا تو اس کے بعد تو ابو اتنے پریشان ہوئے کہ كاروبار سنبھالنے کا بھی ہوش نہ رہا۔ اُن کو کچھ خبر نہ تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ بعد میں صلح کی کوشش کی مگر میرے ماموں نہ مانے کہ طلاق ہو گئی ہے تو اب صلح کیسی؟
آج تیس برس سے اوپر ہو گئے ہمیں ماں سے بچھڑے ہوئے، ہماری جدائی میں وہ بھی روتی رہتی تھیں۔ بیمار پڑ گئیں اور پھر ایک روز معمولی بخار کا بہانہ بنا۔ ٹیسٹ وغیرہ ہوئے تو مرض کی تشخیص ہو گئی اور وہ اپنے خالق سے جا ملیں۔ دراصل گھر اُجڑنے اور بچوں کی جدائی نے اُن کو گھلا گھلا کر ختم کر دیا تھا۔ انہوں نے طلاق کا بہت گہرا صدمہ لیا تھا۔ طلاق دینے کے بعد ابو تو اس امر پر بھی راضی تھے کہ حلالہ ہو تو بھی بعد میں اُن سے دوبارہ نکاح کر لیں گے، لیکن امی اس پر بھی راضی نہ ہوئیں۔ امی کی وفات کے بعد ابو نے دوسری شادی نہ کی، کیونکہ اُن کے خیال میں اُن کی بیوی بے قصور تھی، اس لئے وہ خود کو تنہا رہ کر سزا دیتے رہے۔ ہمیں ہماری دادی اور پھوپھی نے پالا۔ آج تینوں بھائی جوان ہو چکے ہیں۔ میں اور میری بہن بھی بڑی ہو گئی ہیں۔ اپنے جوان بچوں کو دیکھ کر مائیں تو اپنے جینے کی بھی دعائیں مانگتی ہیں اور بچوں کو بھی دعائیں دیتی ہیں، مگر ہماری ماں وہاں جا چکی ہیں ، جہاں سے ایک بار بھی ہماری پکار کا جواب نہیں دے سکتیں۔