Wednesday, October 16, 2024

Mati Ki Chat

میرے بعد والدہ نے تین بچوں کو جنم دیا۔ رضائے الہی سے سبھی نو عمری میں فوت ہو گئے۔ ممتا کی ماری کو پے درپے صدموں نے نڈھال کر دیا۔ اللہ سے دعا کرتی تھیں۔ اے میرے رب … اب اولاد دینا تو در از عمر ہو کہ مزید صدمے سہنے کی تاب نہیں ہے۔ جب انسان اپنے خالق کے حضور خشوع و خضوع سے دعا کرتا ہے ، عاجزی سے سجدہ ریز ہوتا ہے تو ضرور مالک دو جہاں مرادوں سے اس کی جھولی بھر دیتا ہے۔ والدہ کی بھی دعا قبول ہو گئی اور عمر کے روپ میں اللہ نے ان کو ایک خوبصورت بیٹا عطا کر دیا۔ میرے والدین کو برسوں بعد ایک بار پھر اولاد کی خوشی نصیب ہوئی تھی۔ انہوں نے بیٹے کا نام عمر دراز رکھا کیونکہ دل ڈرا سہار ہتا تھا۔ قبل ازیں یکے بعد دیگرے تین بچوں کی وفات کا صدمہ وہ جھیل چکے تھے۔ ان دنوں میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی اور بھائی مجھ سے آٹھ برس چھوٹا تھا۔ خوشی سے پھولی نہ سماتی تھی۔

اللہ نے عمر کے روپ میں ایک خوبصورت کھلونا عطا کر دیا تھا۔ سارا دن دھیان اس کی طرف لگارہتا۔ اسکول سے آکر اس کے ساتھ جی بہلاتی تھی۔ جب وہ سمجھ دار ہوا، ابو نے کہا کہ بیٹے کو اسکول داخل کراتے ہیں۔ امی نہ مانیں۔ ان کا کہنا تھا، میرا بچہ بھولا بھالا ہے، اسے ابھی اسکول نہ بھیجوں گی۔ ایسا نہ ہو کہ کسی روز گھر سے نکلے اور کھو جائے۔ یہ امی کا وہم تھا۔ ان کا جی ڈرتا تھا۔ میں سیکنڈری میں تھی اور لڑکے، لڑکیاں پرائمری تک اکٹھے پڑھتے تھے۔ اب میرا اسکول الگ ہو گیا تھا، تبھی والدہ نے سال بھر عمر کو پڑھنے نہ دیا۔ وہ خوف زدہ رہتی تھیں۔ آخر کار سب کے کہنے سننے پر راضی ہو گئیں ۔ ابو نے یقین دلایا کہ وہ خود بیٹے کو اسکول چھوڑنے اور لینے جایا کریں گے۔ ان دنوں ملک کے حالات پر امن تھے۔ بچے اپنے طور پر اسکول چلے جاتے اور خود ہی واپس گھر آجاتے۔ کسی قسم کا ڈر اور خوف نہ تھا۔ جس دن عمر پہلی بار ا سکول گیا، میں ساتھ گئی اور چھٹی تک ٹھہری رہی تا کہ اگر وہ روئے تو واپس گھر لے آئوں، لیکن وہ نہیں رویا بلکہ دوسرے کچھ بچے جو رورہے تھے ، انہیں دیکھ کر کہنے لگا کہ آخر یہ کیوں رو رہے ہیں؟ وہ کافی سمجھدار تھا۔ چھٹی ہونے تک سکون اور خوشی خوشی کلاس میں بیٹھا رہا اور کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا۔ دیکھنے میں وہ بھولا بھالا لگتا تھا لیکن بے حد ذہین تھا۔ پہلی کلاس میں فرسٹ آیا۔ اگلی جماعت میں بھی اول نمبر تھا۔ اسکول کے ہر فنکشن میں نمایاں کامیابی حاصل کرتا، کھیلوں میں انعامات لیتا۔ سبھی کہتے تھے۔ نظر نہ لگے ، کچھ کر کے دکھائے گا کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات …! جن دنوں نویں میں تھا، ایک ایسا سانحہ ہوا کہ وہ، وہ نہ رہا۔ ایک روز اوپر سے جھانک رہا تھا کہ چھت کی منڈیر نیچے آپڑی۔ وہ بھی اینٹوں کے ساتھ زمین پر آگرا اور بے ہوش ہو گیا۔ سر پر شدید چوٹ آئی اور اسے اسپتال لے گئے۔ دو دن بعد ہوش آیا۔ کئی روز اسپتال میں رہا۔ جب ٹھیک ہو کر گھر آیا تو یادداشت کمزور ہو چکی تھی اور کام کرنے کی پہلے جیسی صلاحیت نہ رہی تھی۔ ایک سال تک اسکول نہ جاسکا۔ وہ اب ہو نہار طالب علم نہ رہا تھا، پوزیشن بھی نہ لے سکا، تبھی اسے پہلے جیسی پذیرائی نہ ملتی۔ ایک سال ضائع ہونے کی وجہ سے اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے ہو گیا۔ جب انہوں نے میٹرک پاس کیا تو عمر نویں میں تھا۔ رفتہ رفتہ اسے اپنی کم مائیگی کا احساس سلگانے لگا۔ جب لوگ نظر انداز کرنے لگیں، انسان میں احساس کمتری جنم لے لیتا ہے ، جبکہ اساتذہ اور اسے پہلی جیسی اعلیٰ و عمدہ کار کردگی کی توقعات رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول جاتے تھے کہ اس کے سر میں شدید  چوٹ آئی تھی جس سے اس کی قوت کار کردگی نصف سے کی بھی کم رہ گئی تھی۔

لوگوں کے ایسے رویوں سے عمر پر منفی ردعمل ہوا۔ وہ شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہوتا گیا۔ میٹرک میں دو مضامین میں رہ گیا تب امی ابو سے ناگوار قسم کی باتیں سننی پڑیں۔ وہ کہتے ۔ تم نکمے ہو گئے ہو، پہلے کی طرح پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے ، وغیرہ وغیرہ۔ دن، رات والدین کی ایسی باتوں سے وہ پسپا ہوتا چلا گیا۔ بہت مشکل سے اس نے خود کو منتشر ہونے سے بچایا اور میرے بار بار ہمت دلانے پر اس نے دوبارہ میٹرک کا امتحان دیا۔ بد قسمتی سے اس کے اچھے نمبر نہ آسکے ، بمشکل پاس ہوا، اس کے بعد تو جیسے وہ خود فراموشی کے گہرے کنویں میں گر گیا۔ نتیجے والے دن کچھ رشتے دار ہمارے گھر آئے۔ انہوں نے عمر کے بارے میں سوال کیا۔ والد صاحب غصے میں تھے۔ کہنے لگے کہ اس نے دو سال لگا کر بھی کچھ نہ کیا۔ عمر نکما اور نالائق ہے۔ اب کسی اچھے کالج میں داخلہ نہیں لے سکتا، نمبر ہی اتنے کم آئے ہیں۔ والد صاحب کی باتوں سے عمر کے دل کو ٹھیس پہنچی۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس کی بے بسی کو میرے سوا کسی نے بھی محسوس نہ کیا، بلکہ والدہ نے اور جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کہنے لگیں۔ ہاں پاس تو ہو گیا ہے مگر مر مر کر پاس ہوا ہے۔ لگتا ہے اس کا آگے پڑھنے کا ارادہ نہیں ہے۔ ماں کے منہ سے ایسی بات سن کر عمر کے دل پر ہاتھ پڑا۔ اسے ماں سے ہر گز یہ توقع نہ تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ سر پر چوٹ لگنے سے وہ پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ وہ اپنے کمرے میں مسہری پر جا کر لیٹ گیا۔ جب میں گئی تو دیکھا میرا بھائی چپکے چپکے گھٹ گھٹ کر رو رہا ہے۔ اسے گلے لگایا، تسلی دی اور ڈھارس بندھائی۔ اس روز میں نے تہیہ کر لیا کہ اب اپنے بھائی کا خیال رکھوں گی اور پڑھائی میں مدد دوں گی۔ میں اس پر توجہ دینے لگی۔ روز اس کو پڑھاتی۔ عمر کو ایک اوسط درجے کے کالج میں سفارش پر بڑی مشکل سے داخلہ ملا تھا۔ فارغ وقت میں اس کے پاس بیٹھ کر اچھی اچھی باتیں کیا کرتی تاکہ اس کے ذہن کو سکون ملے اور احساس کمتری کی دلدل میں نہ دھنستا جائے۔ میری اس کاوش سے اسے واقعی سکون ملا۔ فرسٹ ایئر میں بہت اچھے نمبر آئے۔ ایک روز جبکہ میری سہیلی روبینہ بیمار تھی، عمر سے کہا۔ مجھے اس کے گھر لے چلو۔ وہ اپنی موٹر سائیکل پر روبینہ کے گھر لے گیا۔ میں نے کہا۔ بھائی، اندر آ جائو تو کہنے لگا۔ نہیں باجی میں اپنی موٹر سائیکل پر ہی بیٹھار ہوں گا، آپ کا انتظار کر رہا ہوں، جلدی سے عیادت کر کے آ جائیے گا۔

جب وہ گلی میں میری واپسی کا انتظار کر رہا تھا ، اس کا ایک دوست نثار آگیا۔ نثار کا گھر قریب ہی تھا پھر وہ دوست کے اصرار پر اس کے گھر چلا گیا اور موٹر سائیکل کو گلی میں چھوڑ دیا۔ دوست سے یہ نہ کہا کہ اسے گھر کے اندر کھڑی کر لو۔  یہ اجنبی محلہ تھا۔ کچھ دیر نثار کے پاس بیٹھ کر جب واپس اس جگہ آیا جہاں موٹر سائیکل کھڑی کی تھی، تو وہ وہاں نہ تھی۔ کوئی اسے لے اڑا تھا۔ عمر کے بھی ہوش اڑ گئے۔ اس نے روبینہ کے در پر دستک دی۔ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا۔ بھائی ! خیر تو ہے؟ باجی ! خیر نہیں ہے ، کوئی ہماری موٹر سائیکل لے گیا ہے۔ بھائی ! یہ کیسے ہوا تم کہاں تھے؟ میں نثار کے گھر چلا گیا تھا۔ اپنی سواری کو چھوڑ کر ؟ جبکہ میں نے تم کو تاکید کی تھی کہ موٹر سائیکل کو اندر لے آئو ورنہ اس کو باہر چھوڑ کر کہیں مت جانا۔ عمر بہت پریشان تھا، کوئی جواب نہ بن پڑا۔ بس باجی … ! بات دھیان سے اتر گئی اور نثار سے باتوں میں لگ گیا تھا۔ بھول ہی گیا، کیا پتا تھا کہ کوئی موٹر سائیکل غائب کر دے گا۔ ہم اب گھر کیسے جائیں گے؟ اس سوال پر وہ گم صم تھا۔ ہم رکشے میں گھر آگئے۔ ابو ابھی تک نہیں آئے تھے۔ عمر رات سے پہلے اپنے کمرے میں دبک گیا، صبح تک باہر نہ نکلا، جبکہ والد صاحب دیر سے آئے اور کھانا کھا کر سو گئے۔ صبح والد صاحب کی نظر صحن میں اس جگہ پر گئی جہاں موٹر سائیکل کھڑی کرتے تھے۔ اتوار کا دن تھا، عمر کو کالج سے چھٹی تھی۔ امی سے پوچھا کہ اتنے سویرے صاحبزادے کہاں گئے ہیں ؟ وہ بولیں۔ کہیں نہیں، وہ تو اپنے کمرے میں سو رہا ہے۔ عمر کے کمرے میں آئیں۔ وہ جاگ رہا تھا۔ آنکھیں سوجی ہوئی تھیں جیسے تمام شب نہ سو سکا ہو ۔ ماں کو بتایا کہ موٹر سائیکل چوری ہو گئی ہے۔ تم نے کل کیوں نہیں بتایا اور اب اپنے ابا کو کیا کہو گے؟ بات چھپنے والی نہ تھی، ابا کو بتانا پڑا۔ پہلی بار انہوں نے لاڈلے پر ہاتھ اٹھایا۔ اسے مارنے لگے ۔ وہ مار تو بھائی کو ر ہے تھے، چوٹ میرے بدن پر لگ رہی تھی۔ بس نہ چلتا تھا کیسے جا کر ان کا ہاتھ پکڑ لوں۔ بے شک عمر کی غلطی تھی مگر مسئلہ تو اس کی یادداشت کا تھا۔ والد صاحب نے اس نہج پر نہ سوچا۔ موٹر سائیکل کے غائب ہونے پر اس کی خوب خبر لی، برا بھلا کہا۔ اہانت آمیز جملوں نے میرے بھائی کے دل پر بہت گہرے گھائو ڈالے۔ ابو گرج رہے تھے کہ تم ایک ناکارہ اور ناکامیاب انسان ہو ۔ لاپروا ہو ، کیا اس قدر بھی کوئی لاپروا ہو سکتا ؟ اب تم عمر بھر ناکام ہی رہو گے ۔ مار کھا کر وہ اپنے کمرے میں جا کر چھپ گیا۔ دیر تک روتا رہا۔ رات کو میں اس کے پاس گئی اور غمگساری کرنے لگی تو سسکنے لگا کہ باجی ! کیا واقعی میں ناکارہ انسان ہوں؟ کیا میں اتنا برا ہوں؟ میں نے اس کو سمجھایا۔ عمر ! تم ایسے نہ تھے ، سر میں چوٹ لگنے سے تمہاری یادداشت متاثر ہوئی ہے۔ توجہ کرو تو صحیح ہو جائو گے۔ باجی … ! ابو امی مجھ سے اب پیار نہیں کرتے۔ ان کے الفاظ میرے دل میں تیر کی طرح کھب گئے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کاش! یہ پیدا نہ ہوتا۔ کیا میں بہت بیکار ہوں ؟ امی بھی بجائے دلجوئی کرنے کے موٹر سائیکل ۔ کے کھو جانے پر عمر کو ایسی ہی الٹی سیدھی سنانے لگیں۔

جو دل میں نے بڑی مشکل سے جوڑا تھا، وہ پھر ٹوٹ گیا۔ انسان ٹوٹے ہوئے بازو سے شاید کچھ کر لیتا ہے لیکن ٹوٹے ہوئے دل سے کچھ نہیں کر سکتا۔ میرے والدین اس بات کو نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے عمر کے ساتھ عجب سا رویہ اپنالیا، جس پر دلبرداشتہ ہو کر عمر نے کالج جانا بند کر دیا اور گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اسے روکا، سمجھایا۔ میرے بھائی گھر ایک نعمت ہوتا ہے ، اس کو ٹھکرا کر مت جائو۔ تمہارے لئے اس گھر میں ہی سب کچھ ہے ، اگر یہاں سے چلے جائو گے تو باہر کچھ بھی نہیں پائو گے۔ مجھے گھر میں محبت چاہئے باقی کچھ ملے نہ ملے۔ اگر اس گھر میں میرے لئے کسی کے دل میں محبت نہیں ہے تو پھر یہاں رہنے کا کیا فائدہ ہے۔ اس روز بہت روئی۔ اس کے آگے ہاتھ جوڑے ، تب وہ نہ گیا لیکن اب وہ سب سے لاتعلق اور الگ تھلگ سارہنے لگا تھا۔ کالج چھوڑ دینے پر وہ گھر میں اور بھی زیادہ ناپسندیدہ شخصیت ہو گیا۔ اسے گھومنے پھرنے کا شوق نہ تھا، پھر بھی اب وہ صبح گھر سے نکلتا تو رات گئے لوٹتا۔ کھانا مانگے بغیر اپنے بستر میں جاکر لیٹ جاتا تب میں چپکے سے اٹھتی اور کھانا اس کے کمرے میں لے جاتی ۔ اصرار کر کے کھلاتی۔ عمر کہتا۔ میری پیاری سی بہن … ! میں جہاں بھی جائوں گا، تیرا پیار مجھے یاد رہے گا۔ ایک تمہاری ہی ذات ہے جس کی وجہ سے میں یہاں لگا ہوا ہوں۔ مجھے بہت تشویش رہتی تھی کہ عمر سارا دن کہاں رہتا ہے۔ ایک دن یہ راز بھی کھل گیا۔ ہمارے گھر سے کچھ دور ایک ویرانہ تھا۔ وہ وہاں جا کر ایک گھنے برگد کے پیڑ تلے بیٹھ جاتا یا پھر درختوں بھرے جنگل میں مارا مارا پھرتا تھا۔ اس کو بس اسی طرح سکون ملتا تھا۔ ایک دن وہ ویرانے کی طرف جارہا تھا کہ اسے ایک لڑکی دکھائی دی اور وہ بے اختیار اس کے پیچھے ہو لیا۔ نجانے اس لڑکی میں کونسی کشش تھی کہ اس کے پیچھے وہ چلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ گھر آکر عمر نے بتایا کہ آج ایک خوبصورت لڑکی دکھائی دی تھی۔ خدا جانے اس کی دید میں کیسا اثر تھا کہ میں اس کے پیچھے چل دیا۔ وہ جہاں جارہی تھی، میں بھی بے اختیار اس کے تعاقب میں چلا جاتا۔

وہ پھر کدھر چلی گئی؟ میں نے پوچھا۔ وہ حیران سا ہو کر بولا ۔ ہاں باجی ! حیران ہوں کہ وہ پھر کدھر چلی گئی ۔ وہ گم صم تھا کہ وہ لڑکی کون تھی اور کہاں چلی گئی۔ میں نے کہا۔ میرے بھائی ! تمہاری ذہنی حالت درہم برہم ہے تبھی تم کو ایسے خواب دن میں دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ تمہارا وہم ہے۔ جب انسان پریشان ہوتا ہے تو اس قسم کے ہیولے تصور کے پردے پر دکھائی دیتے ہیں اور حقیقت لگنے لگتے ہیں۔ خدارا اب ان ویرانوں کی خاک چھاننا چھوڑ دو اور زندگی کا کوئی مقصد اپنا لو کیونکہ زندگی بار بار نہیں ملتی۔ زندگی ایسی خود فریبیوں میں ضائع کرنے کی چیز نہیں ہے۔ عمر کو میری بات سمجھ میں نہ آئی اور اس لڑکی کی کھوج میں آوارہ گردی کرنے کا معاملہ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ اب میں پریشان تھی کہ اگر یہ اس کا وہم نہیں ہے تو پھر وہ لڑکی کون ہے اور کونسا ایسا سحر ہے جس نے میرے بھائی کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ ایک روز صبح ہماری کال بیل بجی۔ عمر نے دروازہ کھولا۔ ایک لڑکی اپنی ماں کے ساتھ آئی تھی۔ یہ ڈر گیا کہ شکایت کرنے آئی ہے۔ لجا کر کہا۔ معاف کر دو مجھ سے بھول ہوئی، آئندہ تمہارے پیچھے نہیں آئوں گا۔ امی سے کچھ مت کہنا ورنہ میری شامت آجائے گی۔ یہ دونوں حیران کہ کیا کہہ رہا ہے ، تاہم لڑکی سمجھ گئی لیکن وہ چپ رہی۔ اس کی ماں بولی۔ بیٹا کیسی بھول ؟ ہم تو ملنے  آئے ہیں۔ میں نے ان کو دیکھا تو اندر بلایا۔ بھائی کی صورت عجب بنی تھی کہ پسینے سے شرابور تھا۔ حالت بھانپ کر اسے پکڑ کر کمرے میں لے گئی ۔ تم کو کسی وہم نے گھیر لیا ہے اور ہیولے نظر آنے کا دورہ پڑا ہے۔ لڑکی کی امی نے کہا۔ یہ آپ کا بیٹا ہے ، بہت سیدھا سا ہے۔ سیدھا سا نہیں بلکہ بے وقوف ہے۔ والدہ نے جواب دیا۔ میں نے معاملے کو سنبھالا اور پوچھا۔ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ لڑکی کی ماں بولی کہ ہم نے آپ کے محلے میں ایک  مکان خریدا ہے۔ سوچا پڑوس میں ملنا چاہئے ۔ ہم یہاں نئے آئے ہیں ، آپ کا بیٹا ٹھیک تو ہے ؟ ہاں ٹھیک ہے۔ دراصل کچھ عرصہ پہلے یہ چھت سے گر گیا تھا اور سر میں چوٹ لگی تھی، تبھی سے تصوراتی دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ چلی گئیں تو عمر نے مجھ سے کہا۔ باجی ! کیا آپ کو ایسا نہیں لگ رہا جیسے ہمارا گھر ویران ہو گیا ہو ؟ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھ کر سوچنے لگی کہ خدا خیر کرے۔

ایک روز پھر وہ لڑ کی عمر کو گلی کے نکڑ پر دکھائی دی۔ یہ لپک کر اس کی طرف گیا اور روک کر کہا۔ میری بات سنو، میں برا نہیں ہوں اور میں بے وقوف بھی نہیں ہوں۔ وہ بولی۔ ٹھیک ہے آپ بے وقوف نہیں ہیں اور آپ اچھے بھی ہوں گے مگر میں کیا کروں؟ میں آپ کو کیسا لگتا ہوں؟ تھوڑے سے پاگل لگتے ہو۔ وہ ہنسی تو بھائی بھی ہنسا۔ تب اس نے کہا کہ ہمارے گھر آنا۔ میں کسی لڑکے کو گھر نہیں بلاتی لیکن سن چکی ہوں کہ تمہارے دماغ پر چوٹ لگی ہے، تبھی تم کو دکھ نہیں دینا چاہتی۔ وہ سمجھ گئی تھی شاید کہ اس کے دماغ میں خلل ہے۔ نجانے غصے میں آکر کیسارد عمل ہو، تبھی پر سکون رہی تاکہ یہ خیریت سے چلا جائے۔ عمر نے گھر آکر امی سے کہا کہ ان لوگوں کے گھر جائے جو آپ سے ملنے آئی تھیں۔ پلیز امی ! مجھے وہ لڑکی پسند ہے ، آپ نے میری شادی اس سے کرانی ہے۔ مجھے اپنے بھائی کی فکر تھی۔ امی نے کہا کہ آپ ان کے گھر ضرور جائے اور تعلقات بڑھائیے۔ آخر بھائی کی شادی تو کرنی ہے ۔ ہاں ! کرنی تو ہے لیکن یہ اس لڑکی کے لائق ہو تبھی رشتے کی بات ہو سکے گی۔ یہ تو اس کے لائق ہی نہیں ہے۔ ماں کی بات سن کر بھائی کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور وہ ناراض ہو کر گھر سے نکل گیا۔ میں نے ماں سے کہا۔ امی ! اگر ان لوگوں کے گھر نہیں جانا، مت جایئے لیکن اس طرح تو عمر سے نہیں کہنا تھا۔ اس کا دل دکھایا آپ نے۔ بولیں ، بیٹی صحیح بات اس لئے کر دی کہ وہ آگے تنگ نہ کرے ، ورنہ صاف بات یہی ہے کہ وہ لوگ کیوں بھلا ہم کو رشتہ دینے لگے۔ عمر نہ تو ذہنی طور پر ٹھیک ہے اور نہ پڑھا لکھا ہے۔ عمر گھر سے نکلا تو سیدھا اسی پرانے مکان کی طرف گیا جس پر چالیس برس سے تالا پڑا تھا۔ یہ ایک ہندو کا مکان تھا جو کہ تقسیم کے وقت اس گھر سے چلے گئے تھے اور اب اس گھر کا کوئی وارث نہ تھا، کیونکہ محلے دار کہتے تھے کہ وہ لوگ گئے نہیں، ان کو مارا گیا تھا اور اب تک ان کا خون گھر کے اندر پڑا ہوا ہے۔ واللہ اعلم ، کیونکہ ہم میں سے کبھی کسی نے گھر کے اندر نہ دیکھا اور نہ ہی کبھی تالا کھلا دیکھا تھا۔ جب بھائی اس مکان پر پہنچا تو مکان کا تالا کھلا ہوا تھا۔ وہ اندر چلا گیا۔ وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ برسوں کی گرد ہر طرف پڑی ہوئی تھی۔ کسی ذی روح کے رہنے کا امکان نظر نہ آیا لیکن وہ لڑکی وہاں کمرے میں پڑی پرانی گرد آلود مسہری پر بیٹھی تھی۔ یہ مجھے بھائی نے بتایا تھا۔ بھائی کو دیکھتے ہی وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گئی بلکہ دروازے سے باہر چلی گئی۔ عمر اس کے تعاقب میں نکلا۔ وہ گلی میں غائب ہو گئی تھی۔ عمر پریشان گھر آیا اور مجھے بتایا کہ ایسا ہوا ہے۔ میں نے کہا۔ میرے بھائی ! میں نے نفسیات پڑھی ہے ، وہاں کوئی لڑکی نہ تھی اور نہ تم گھر کے اندر داخل ہو سکتے ہو کیونکہ وہاں اب بھی تالا پڑا ہوا ہے۔ ابو نے بتایا ہے کہ اس گھر کو کسی نے نہیں خریدا اور نہ ادھر کوئی لوگ رہتے ہیں۔ تم نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، وہ سب تمہارا وہم ہے۔ پھر وہ دونوں کون تھیں جو ہمارے گھر ملنے آئی تھیں ؟ وہ کسی دوسرے مکان کی بات کر رہی ہوں گی ۔ ہم نے غلط سمجھا۔ محلے میں ایک اور بھی پرانا مکان ہے جو کافی برسوں سے خالی ہے اور اب بکا ہے ۔ وہ ادھر سے آئی ہوں گی۔ میں نے عمر کی تسلی کرنی چاہی۔ باجی ! بے وقوف ضرور ہوں مگر اتنا بھی نہیں۔ وہ یہ کہہ کر غصے میں چلا گیا۔ میں بھائی کے پیچھے نکلی کہ اسے روکوں تاکہ کھانا کھالے، نجانے کدھر نکل جائے گا۔ دروازے سے جھانکا تو وہ گلی پار کر کے اسی ویرانے کی سمت جا رہا تھا۔ تیز تیز جیسے کسی کا تعاقب کر رہا ہو۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ٹھہرو… میری بات سنو۔ اس قدر تیز مت چلو۔ میں آرہا ہوں۔

مجھے لگا کہ اس کو پھر اس کے وہم نے ستایا ہے اور دماغی خلل کی وجہ سے اسے اپنے تصورات کا وہی ہیولہ دکھائی دینے لگا ہے جو اس کو حقیقت سے فرار کی طرف لے جارہا ہے۔ میں چاہتی تھی کہ اس کے پیچھے جائوں اور اپنے بھائی کو دور جانے سے روکوں مگر وہ جیسے میرے اس ارادے کو کسی غیر مرئی طاقت کی بنا پر جان گیا ہو. وہ اور تیز بھاگنے لگا اور پھر جنگل کی سمت دوڑتا ہوا میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اگلے دن وہ نہ لوٹا تو امی ابو کو فکر ہوئی۔ میں نے بتایا کہ وہ اسی ویرانے کی طرف بھاگا تھا جدھر اسے ایک بار وہ لڑکی نظر آئی تھی اور وہ اس کے تعاقب میں چل پڑا تھا۔ والد کچھ لوگوں کو ہمراہ لے کر اس طرف گئے اور سارا ویرانہ اور جنگل چھان مارا، بھائی کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ وہ مایوس واپس لوٹ رہے تھے کہ ایک جگہ کیچڑ میں ان کو عمر کے جوتے مل گئے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ ادھر آیا تھا لیکن وہاں قدموں کے نشان نہیں تھے۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ ادھر آیا تو اس کے نقش پا کدھر گئے ہیں۔ ایک وہ دن اور آج کا دن، ہم اپنے بھائی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہیں۔ عمر کا نہیں پتا نہیں چل سکا ، البتہ اس طرف آگے تند و تیز نالہ بہتا ہے اور گائوں والوں کا یہ خیال ہے کہ وہ اپنے دماغی خلل کی وجہ سے تصوراتی سایوں کا تعاقب کرتے ہوئے شاید نالے میں گر گیا اور پھر پانی کے تند ریلے اسے بہاتے ہوئے کہیں سے کہیں لے گئے ہوں گے۔ پرانے مکان کا البتہ معما حل نہ ہو سکا کیونکہ اس پر تالا ہی پڑا رہا اور ادھر کوئی آباد نہیں ہو سکا۔ جو خواتین ہم سے ملنے ایک بار آئی تھیں، وہ بھی دوبارہ کبھی نہیں آئیں ، نہ ہی ان کا کوئی ٹھکانہ ملا۔ ہم نے بھی ان کو خواب سمجھ کر بھلا دیا ہے کہ نجانے کون مسافر تھیں، کہاں سے آئی تھیں کہ ٹھنڈا پانی پی کر چلی گئیں۔ ہم نے ہر بات بھلادی، مگر اپنے پیارے بھائی عمر کو بھلا نہ سکے ۔ گائوں کے توہم پرست لوگوں نے تو اس بارے میں ایک کہانی بھی گھڑ لی ہے جو ناقابل یقین ہے۔ ان کا کہنا ہے جب بھری دو پہر کوئی آم کے درخت پر چڑھے تو گر جاتا ہے کیونکہ ٹہنی ٹوٹ جاتی ہے۔ عمر چھت پر آم کے درخت سے آم توڑنے گیا تھا۔ ڈالی کو کھینچتے ہوئے پرانی منڈیر جس کی اینٹیں سیمنٹ سے جڑی تھیں، وہ از خود نہیں گریں بلکہ آم کے درخت میں بسیرا کرتی کسی ماورائی مخلوق نے عمر کو گرانے کے لئے منڈیر سے دھکا دیا جس سے عمر نیچے آپڑا اور دماغ پر چوٹ لگی۔ یہ درخت جو ہمارے آنگن میں برسوں سے تھا، اس کی شاخیں چھت پر لگتی تھیں اور منڈیر سے اس کی طرف جھک کر آم توڑے جا سکتے تھے۔ پڑوسی کہتے ہیں کہ بھری دوپہر کو اوپر جا کر آم توڑنے کو عمر کو کس نے کہا تھا پھر یہ سانحہ تو ہونا تھا۔ کیا خبر یہ وقت کسی ماورائی مخلوق کے آرام کرنے کا ہو۔  خدا جانے ان باتوں میں کہاں تک صداقت ہے لیکن ہم نے وہ گھر کچھ عرصے بعد فروخت کر دیا تھا۔ نیا گھر بھی اسی محلے میں لیا کیونکہ ہم لوگ برسوں سے یہاں رہتے تھے ، اب نئی بستی کی طرف کوچ کرنے کو دل نہ چاہتا۔ پڑوسی جیسے بھی ہوں، پرانا ساتھ ہو تو ان سے دور جانے کو جی نہیں چاہتا۔ میں نفسیات کی پروفیسر ہوں، برسوں یہ مضمون پڑھایا ہے لیکن کچھ گتھیاں اور گرہیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ماہر نفسیات بھی نہیں سلجھا سکتے کیونکہ ان کی کوئی سائنسی توجیہ نہیں ہوتی۔

Latest Posts

Related POSTS