Sunday, September 15, 2024

Maya Ka Saya bura | Teen Auratien Teen Kahaniyan

جب میں نے ایک خوشحال زمیندار گھرانے میں جنم لیا تو دادا، دادی، والدین، پھوپھیاں اور چچا سب ہی خوش تھے۔ گویا میری پیدائش ان کے لئے نویدعید تھی۔ یہ وہ دور تھا جب بیٹیوں کی پیدائش پر والدین اداس اور کنبہ کلیجہ مسوس کر رہ جاتا تھا لیکن میرے خاندان والے اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم سمجھتے تھے۔ ان کے لئے بیٹی بھی ایک انعام خداوندی تھی۔ سب مجھے پیار سے مادام کہتے تھے۔
دادا کے گھر کے قریب دو دولت مند ہندو رہتے تھے۔ تقسیم برصغیر کے وقت جب وہ جانے لگے تو دادا سے کہا۔ آپ کو امین سمجھ کر ہم اپنے راز سے واقف کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان کو اپنے گھروں میں لے گئے اور دونوں نے اپنے اپنے مکان کے اندر ایک جگہ کی نشاندہی کرکے بتایا۔ ہم نے اپنا مال و دولت اس جگہ دفن کردیا ہے۔ صرف آپ کو یہ راز بتا کر جارہے ہیں، اگر زندگی رہی اور صحیح سلامت بھارت پہنچ گئے اور دوبارہ حالات سازگار ہوئے پھر واپس لوٹے تو آپ کے مہمان ہوں گے۔ ہمارا راز کسی کو نہ بتانا۔ ہم اپنا مدفون خزانہ آکر لے لیں گے۔ ہمارا بیس برس تک انتظار کرنا۔ اس عرصے میں نہ لوٹے تو آپ نکال لینا۔ ہماری طرف سے آپ کے لئے یہ تحفہ ہوگا۔
ان دونوں ہندو پڑوسیوں سے دادا جان کی اچھی دوستی رہی تھی۔ انہوں نے وعدہ کرلیا۔ بیس برس کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ دادا اب بوڑھے ہوگئے تھے۔ چاہتے تھے کہ وہ لوگ آکر اپنی امانت نکال کر لے جائیں۔ دادا نے ان دونوں مکانات کے درمیان کی دیواریں گرا کر اسے باڑے میں تبدیل کرا لیا تھا۔ وہاں وہ اپنا گھوڑا اور بھینس وغیرہ باندھتے تھے۔ بیس برس بعد ان دونوں ہندو پڑوسیوں کو پاکستان آنے کا موقع ملا۔ وہ چند دن کا ویزا لے کر آئے اور دادا جان سے ملے۔ ان کے دو بیٹے ساتھ تھے۔ جب وہ آئے اس وقت دادا جان بہت ضعیف ہوچکے تھے۔ انہیں یقین نہ آرہا تھا کہ یہ لوگ زندہ سلامت ہیں اور ملنے آئے ہیں۔ بہرحال پرانی دوستی کے سبب خوش ہوئے، ترکاریوں کے کئی سالن بنوائے۔ ان کی خاطر مدارات کی اور بتایا کہ آپ کی امانت محفوظ ہے، اگر آپ لوگ بیس برس اور نہ آتے تب بھی آپ کی امانت زمین کے سینے میں موجود رہتی۔ میں نے اپنے بیٹے کو وصیت کررکھی ہے کہ آپ کی اولاد میں سے کوئی آکر اس جگہ کی صحیح نشاندہی کرے تو امانت ان کے حوالے کردینا۔
وہ بہت مشکور تھے۔ کہا ملک صاحب! ہمیں آپ سے اسی دیانت کی امید تھی، تبھی آپ پر بھروسہ کیا اور آپ کو امین بنایا۔ ہماری خوش قسمتی کہ بھگوان نے آپ کی عمر دراز کی اور آپ سے دوبارہ ملاقات کا موقع ملا۔ وہ چار روز ٹھہرے تھے۔ انہوں نے رات کے وقت کھدائی کرکے اپنی امانت نکالی اور جاتے ہوئے کچھ اشرفیاں اور جواہر بطور تحفہ دادا جان کو دے گئے۔
جب اس بات کی سن گن میرے والد کو ہوئی انہوں نے اپنے باپ سے کہا۔ بابا جان! وہ صراف تھے، مالدار تھے۔ آپ کی ایمانداری کا صلہ دے گئے ہیں تو تھوڑی سی اشرفیاں مجھے دے دیجئے، کاروبار کرنا چاہتا ہوں۔
ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ وہ جو دینا چاہتے تھے، میں نے نہیں لیا۔ اصرار کرکے یہ دو انگوٹھیاں تحفتاً قبول کرلی ہیں۔ دوستی کی نشانی سمجھ کر ایک تم کو دوں گا اور دوسرے تمہارے چھوٹے بھائی کو! ابھی ان کو انگلی میں ڈال کر باہر مت نکلنا، ان میں بہت بیش قیمت ہیرے جڑے ہیں۔ لوگ دیکھیں گے تو باتیں بنائیں گے اور بدگمانی میرے بارے میں پھیلے گی۔
کچھ عرصہ گزرا دادا کی وفات ہوگئی۔ ان کی تجوری کی چابیاں دادی نے میرے والد کے سپرد کردیں، کیونکہ وہ اب گھر کے سربراہ تھے۔ تجوری کھولنے پر اس میں سے اشرفیوں سے بھری تھیلیاں اور کچھ جواہرات نکلے جو حقیقتاً دادا کے ہندو دوست امانتداری کے صلے میں ان کو بطور تحفہ دے گئے تھے۔
والد نوجوان اور ناتجربہ کار تھے۔ دادا نے مناسب نہ سمجھا کہ بیٹے کو بتائیں۔ یہ دولت ملتے ہی ابا کے ذہن میں خیال آیا کہ دنیا کی سیر کرنی چاہئے۔ انہوں نے چھوٹے بھائی کا حق اپنے باپ دادا کی زمین سے جو حصہ بنتا تھا، وہ چچا کو دے دیا لیکن تجوری والا سرمایہ اپنے پاس رکھ لیا۔ دادی سے کہا کہ یہ ابھی کمسن ہے، میٹرک پاس کیا ہے۔ جب اسے عقل آئے گی اور خزانہ سنبھالنے کے قابل ہوگا، اسے دوں گا فی الحال اس کو بتانا نہیں ہے۔
دادی بڑے بیٹے کی ہر بات مانتی تھیں کہ کنبے کا سربراہ اب وہی تھے۔ انہوں نے کہا۔ ٹھیک ہے بیٹا! جیسا تم مناسب سمجھو، میں خاموش رہوں گی مگر بہن، بھائیوں کی حق تلفی نہ کرنا۔ ان کو ان کا حصہ ضرور دینا کیونکہ یہ دولت بھی تمہارے والد کو دیانتداری کے بدلے میں ملی ہے، انہوں نے لوٹی نہیں ہے۔
کچھ عرصہ بعد دادی کا انتقال ہوگیا۔ والد نے پھوپھیوں کی شادیاں کردیں اور بیوی، بچوں اور بھائی کو ہمراہ لے کر کراچی آگئے۔ دادا کی زرعی زمین کافی تھی۔ بابا جان نے ٹھیکے پر دے دی کیونکہ ان کو زمین سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
شہر آکر چھوٹے بھائی کو کالج میں داخل کرا دیا۔ ان دنوں میں آٹھویں میں تھی۔ ہم پانچ بہنیں تھیں، چار مجھ سے چھوٹی تھیں، اسکول میں پڑھتی تھیں۔ والد نے کراچی میں ایک اچھی کوٹھی خرید لی۔ ان کے پاس کافی دولت تھی اور بغیر کچھ کئے وہ مزے سے زندگی گزار سکتے تھے۔ چچا میری دونوں پھوپھیوں سے دس برس چھوٹے تھے۔ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ان کی زندگی تھوڑی تھی۔ وہ فورتھ ایئر میں تھے، سالانہ پرچہ دے کر گھر آرہے تھے۔ ان کی موٹرسائیکل کو حادثہ پیش آگیا اور وہ سڑک پر گر گئے۔ شومئی قسمت اسی لمحے ایک تیز رفتار بس نے ان کو کچل دیا۔ وہ موقع پر ہی جاںبحق ہوگئے۔ والد صاحب کیلئے صدمہ جانکاہ تھا، کیونکہ وہ اپنے چھوٹے بھائی سے بہت پیار کرتے تھے۔ چچا کی وفات کے بعد والد نے اپنی دونوں بہنوں کو بلایا اور کہا کہ چھوٹے بھائی کے حصے میں سے آپ لوگوں کا جو حق بنتا ہے، وہ آپ کو دینا چاہتا ہوں۔
ہم اپنے والد کے ورثے سے کچھ لینا چاہتے ہیں اور نہ چھوٹے بھائی مرحوم کی وراثت سے…! یہ سب ملکیت ہم نے اپنی خوشی سے آپ کو بخشی ہے۔ یوں والد صاحب اپنی بہنوں کی رضا سے تمام وراثت اور دادا کی زمین جائداد کے تنہا وارث بن گئے۔ سبھی کو جہاں ہمارے چچا کی جواںسالی میں وفات کا دکھ تھا، وہاں یہ ارمان بھی والد اور ان کی بہنوں کے دل میں رہ گیا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کا سہرا نہ دیکھ سکیں اور موت ظالم ان کو لے گئی۔ چچا کی وفات کے بعد والد کا دل کراچی میں نہ لگتا تھا۔ انہوں نے اپنی بہنوں اور ان کے شوہروں سے التجا کی آپ لوگ بھی اپنا علاقہ چھوڑ کر کراچی آجائیں۔ سب ساتھ رہیں گے۔ یہاں تعلیم کی سہولت ہے، اچھے اسپتال ہیں، جبکہ ہمارے علاقے میں بجلی تک نہیں ہے۔ وہاں رہ کر ہم کبھی اپنے بچوں کی زندگی نہیں بنا پائیں گے۔
بتاتی چلوں کہ میری دونوں پھوپھیاں میرے دونوں سگے ماموئوں کی بیویاں تھیں، لہٰذا امی جان کو بھی بھابھیوں کو اپنے ساتھ رکھنے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ پھوپھیاں اور ان کے شوہر یعنی میرے دونوں ماموں گاڑی سے کراچی آگئے۔ بڑے ماموں کو والد صاحب نے رقم دے کر کاروبار کروا دیا اور چھوٹے کو لندن اعلیٰ تعلیم کے لئے بھجوا دیا۔
ان دنوں میں نے میٹرک کیا تھا لہٰذا مجھے ایک اچھے کالج میں داخلہ مل گیا، باقی میری بہنیں بھی اچھے اسکولوں میں پڑھ رہی تھیں۔ بڑے بہنوئی نے کاروبار شروع کردیا۔ ان کا کاروبار جم گیا اور منافع آنے لگا۔ والد کو خیال آیا، کیوں نہ میں بھی کاروبار کروں۔ انہوں نے میرے ماموں کے ساتھ کاروبار میں شرکت اختیار کرلی۔ چھوٹے ماموں لندن میں زیرتعلیم تھے، والد ان سے ملنے جاتے رہتے تھے۔ ان کو لندن پسند آگیا اور بڑے ماموں سے صلاح کی کہ اگر میں وہاں سکونت اختیار کرلوں تو تم یہاں کاروبار سنبھالو اور میں وہاں…! ہمارا کاروبار وسیع ہوتا جائے گا۔
سرمایہ تو ابو کا تھا۔ جو وہ کہتے تھے، ماموں مان لیتے تھے۔ والد ہمیں لے کر لندن میں اقامت پذیر ہوگئے اور کاروبار شروع کردیا لیکن ان کو بزنس کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ ادھر ماموں اکیلے رہ گئے۔ انہوں نے کچھ دوسرے کاروباری لوگوں سے مدد لینا شروع کردی۔ یہ دیانتدار لوگ نہ تھے۔ انہوں نے میرے سادہ لوح ماموں کو گھیر لیا اور شراکت دار بن کر کچھ ایسے گھپلے کئے کہ دن دونا رات چوگنا ترقی کرتا بزنس رفتہ رفتہ بیٹھنے لگا۔
ادھر والد صاحب اپنی دولت کا بہت سا حصہ گنوا کر لندن سے پاکستان واپس لوٹ آئے اور یہاں نئے سرے سے بزنس جمانے کی کوشش کی لیکن زمیندار کا بیٹا ایک اچھا زمیندار تو ہوسکتا ہے، اچھا بزنس مین نہیں ہوسکتا کیونکہ بزنس کے لئے جس تجربے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس کے پاس نہیں ہوتا۔ بڑے ماموں ان کی بیوی (میری پھپھو) اور ان کے بچے ابھی تک والد کے خریدے ہوئے بنگلے میں رہتے تھے۔ بابا جان نے امی اور ہم پانچ بہنوں کو ان کے سپرد کیا اور خود دوبارہ لندن چلے گئے۔ اس اثنا میں چھوٹے ماموں نے اعلیٰ تعلیم مکمل کرلی تھی۔ وہ وطن لوٹ آئے لیکن والد نہ لوٹے اور وہاں انہوں نے ایک انگریز حسینہ سے شادی کرلی جو ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ اپنی انگریز بیوی کی زلف گرہ گیر کے ایسے اسیر ہوئے کہ ہمیں اور ہماری والدہ کو بھول گئے۔ اب ہم پانچوں بہنیں اور امی بڑے ماموں کی نگرانی میں تھے، مستقل انہی کی ذمہ داری ٹھہرے۔ ممانی سگی پھوپی ہونے کی وجہ سے ہمیں گھر سے نہیں نکال سکتی تھیں، کیونکہ گھر ابو کا تھا لیکن بابا جان نے ہم سے وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ایسا ناتا توڑا کہ خرچہ بھیجنا تو کجا خط تک نہ لکھتے تھے۔ کوئی رابطہ باقی نہ رکھا۔ ماموں ہی ہماری کفالت کرتے تھے۔ ان کے اپنے بھی پانچ بچے تھے۔ ہم دس بچے ایک گھر میں رہتے تھے۔ پھوپی کو ابو سے پیار تھا، وہ ہمیں بھی پیار کرتی تھیں لیکن بڑے ماموں کا بزنس ختم ہوچکا تھا۔ انہوں نے ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرلی تھی۔ تنخواہ تھوڑی تھی جس سے اتنے بڑے کنبے کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ وہ تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے۔ بچوں کی تعلیم کو بھی جاری رکھا ہوا تھا۔
امی جان مشین پر پھول بنانے کی ماہر تھیں۔ ان کو سلائی کڑھائی کے سب ہنر آتے تھے۔ کروشیہ کے کام میں وہ طاق تھیں۔ کپڑوں کی کٹائی، سلائی میں درزیوں کو مات دیتی تھیں۔
جب اخراجات کا جن قابو سے باہر ہونے لگا، انہوں نے اپنے ہنر سے مالی حالات میں ماموں کی معاونت شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ چھوٹے
ماموں لندن سے پڑھ کر آئے تھے تو ان کو بیرون ملک ایک اچھی نوکری مل گئی۔ وہ انجینئر بن چکے تھے، وہ بیوی کو بھی بیرون ملک لے گئے۔ یوں ان لوگوں کو بھی ہم سے دور کردیا۔ بڑے ماموں ہمارا واحد سہارا تھے۔ میں نے بی۔اے کرنے کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور ایم۔اے کرتے ہی ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہوگئی۔ اس دوران والد ایک بار وطن آئے تھے۔ ایک روز ہمارے ساتھ رہے پھر گائوں چلے گئے۔ تمام اراضی فروخت کردی۔ تھوڑی سی رقم والدہ کے نام بینک میں ڈلوا دی کہ تم یہ بچیوں کی شادی پر خرچہ کرنا۔ دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے گئے پھر نہ لوٹے، وہیں کے ہوگئے۔
ماموں نے رشتے تلاش کرکے میری تینوں چھوٹی بہنوں کی شادیاں کردیں لیکن میں نے شادی پر ملازمت کو ترجیح دی، کیونکہ ماموں پر اپنے بچوں کی بھی ذمہ داریاں تھیں۔ میں ان کے بوجھ کو کم کرنا چاہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مدد کی۔ مجھے ایک مناسب ملازمت مل گئی، ماموں نے اپنا علیحدہ گھر خرید لیا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی شادیاں کرنی تھیں۔ دونوں لڑکیوں کی شادیاں کردیں اور تین بیٹوں کو بھی بیاہ دیا۔ ان کی بہویں آگئیں۔ وہ غیر خاندان سے تھیں لیکن آفت کی پرکالا تھیں۔ ان کو ہمارا وجود کھٹکتا تھا اور امی کی کسی نہ کسی بات پر اہانت کرتیں، ان کو ملازمہ کا درجہ دیتیں۔ بہانے بہانے سے مجھے اور چھوٹی بہن کو ٹینشن دینے لگیں تو ماموں اپنے کنبے کو لے کر الگ ہوگئے۔ وہ اپنے گھر میں چلے گئے۔ امی نے چھوٹی بہن کی شادی کرنی تھی اور پلے رقم نہ تھی۔ انہوں نے گھر بیچ دیا اور فاریہ کو جہیز دے کر عزت سے رخصت کیا۔ ہم لوگ ایک چھوٹے سے دو کمروں کے فلیٹ میں منتقل ہوگئے۔ امی اب ضعیف ہوگئی تھیں، شوگر کے مرض نے ان کی صحت تباہ کردی تھی۔ وہ سارا دن ایک جگہ بیٹھی رہتیں، چلنے پھرنے سے معذور ہوگئی تھیں۔ میری فکر دن، رات ان کو کھائے جاتی تھی۔ کہتی تھیں ساری میری بیٹیاں اپنے گھروں کی ہوگئی ہیں، تم نے ان کے لئے قربانی دی اور اب میں تمہاری خوشی دیکھنا چاہتی ہوں۔ جب تم اپنے گھر کی ہوجائو گی تب سکون سے مرسکوں گی۔
میری شادی کی عمر نکل چکی تھی، اب بڈھے ٹھڈے ہی ملتے تھے۔ ایسوں سے رشتہ کرکے آخری عمر میں ان کی سیوا کرنے سے بہتر تھا کہ اپنی بوڑھی ماں کی خدمت میں عمر بسر کردوں۔ بھلا ماں کو میں کیسے اور کس کے آسرے پر تنہا چھوڑ سکتی تھی۔ ایک دو میری عمر کے رشتے آئے بھی تو وہ دوسری شادی کے آرزومند تھے۔ پہلی بیوی اور بچوں کے ہوتے دوسری شادی کرنا چاہتے تھے۔ ایسی زندگی مجھے قبول نہ تھی۔ سوتن کے جھنجھٹ سے بن بیاہی رہنا بھلا تھا۔ امی کہتی تھیں میرے بعد تیرا کیا ہوگا۔ اب تمہیں کوئی کنوارہ مرد تو ملنے سے رہا۔ رنڈوے، بچوں والے یا پھر سن رسیدہ مرد کا رشتہ ملے گا۔ عورت کی زندگی میں مرد کا سہارا لازم ہے۔ اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی شریف انسان کو جیون ساتھی بنا لو۔
میں نے کبھی امی جان کی نافرمانی نہیں کی تھی لیکن اس معاملے میں فرمانبرداری نہ کرسکی۔ دل میں شادی کی خواہش مر چکی تھی۔ والدہ کی ناراضی کی پروا نہ کی اور شادی کے لئے ہامی نہ بھری۔ وہ دن بھی آگیا جو ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے۔ والدہ رضائے الٰہی سے وفات پا گئیں اور میں تنہا رہ گئی۔ رشتہ دار اپنی زندگیوں میں مگن اور بہنیں اپنے گھروں میں خوش تھیں۔ جہاں جاتی دو دن بعد گھر لوٹ آتی۔ محسوس کرتی کہ میری کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ کوئی کیوں میری پروا کرے۔ آج پنشن پر گزارہ ہے اور اکیلے زندگی کے دکھ سکھ سہ رہی ہوں۔ سر پر بڑھاپا ہے۔ لگتا ہے کسی روز اکیلے ہی فلیٹ میں مر جائوں گی۔ دو چار دن بعد جب پڑوسیوں کو بدبو آئے گی، تب دنیا کو پتا چلے گا کہ کوئی بے چاری مر گئی ہے۔ تب کوئی فلیٹ لے لے یا میرا سامان لے جائے، مجھے کیا۔ زندگی کے جو دن باقی ہیں، وہ تو جینا ہی پڑیں گے۔
سوچتی ہوں اگر والد صاحب کو دولت نہ ملتی، وہ کبھی لندن جانے کی نہ سوچتے۔ لندن نہ جاتے تو میم سے بھی شادی نہ کرتے۔ ہمارا ایک گھر ہوتا، اپنے ہاتھوں سے ہماری شادیاں کرتے۔ مجھے ماں اور بہنوں کی کفالت کی خاطر نوکری کا طوق عمر بھر کے لئے گلے میں نہ ڈالنا پڑتا۔ میں بھی ایک عام لڑکی کی طرح زندگی کی خوشیاں دیکھتی۔ میرا بھی گھر ہوتا، والد کا سایہ سر پر ہوتا، ہماری شادیاں دادا جان کی حیثیت کے مطابق ہم پلہ معزز گھرانوں میں ہوتیں۔ میری بہنیں اوسط درجے کے غیر لوگوں میں مختلف شہروں میں زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتیں۔ والدہ کا آخری دیدار کرنے سے بھی محروم رہ گئیں اور ہم والد کا آخری دیدار نہ کرسکے۔ خدا جانے ان کی قبر کہاں ہے اور وہ دیارغیر میں کس جگہ مدفون ہیں؟
(مادام سیدہ … لاہور)

Latest Posts

Related POSTS