رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ دو دنوں بعد شروع ہونے والا تھا۔ نساء نے تقریباً سارے کام نپٹا لیے تھے تا کہ سکون سے عبادات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکے۔ آج مہینے بھر کا سارا سامان امی کے ساتھ جا کر خرید لائی تھی۔ وہ کچن میں سارا سامان سمیٹ رہی تھی ، جب اس کے کانوں میں رفیقہ خالہ کی پاٹ دار آواز پڑی۔ وہ تیزی سے ہاتھ چلانے لگی۔ جانتی تھی کہ رفیقہ خالہ اب چائے پی کر ہی جائیں گی۔ باہر رفیقہ خالہ زورو شور سے امی کے ساتھ باتوں میں مشغول تھیں۔ اس نے چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھی اور انہیں سلام کیا۔ جیتی رہو بیٹی ! ارے حلیمہ بچی اکیلی ہی کھپتی رہتی ہے کاموں میں تم بھی ذرا ہاتھ بٹایا کرو اور وہ تمہاری لاڈلی بہو تو ہر وقت میکے میں ہی پائی جاتی ہے۔ نساء کو تو نوکرانی بنا چھوڑا ہے تم نے۔ حلیمہ نے پہلو بدلا۔ ارے نہیں خالہ۔ یہ میرا گھر ہے۔ اور گھر کے کام کرنے سے کوئی نوکر نہیں بن جاتا ۔ نساء کو برا تو لگا مگر اس نے تحمل سے جواب دیا۔ اور خالی ٹرے اٹھائے کچن میں چلی گئی۔ مگر وہ جانتی تھی کہ رفیقہ خالہ اب جہاں بھی جائیں گی۔ ہر گھر میں یہی بات بتائیں گی جیسے اس گھر میں نساء پر ظلم ڈھائے جا رہے ہوں۔ وہ ان کی عادت سے واقف تھیں۔ دراصل نساء حلیمہ کی سگی بیٹی نہ تھی۔ نساء کے ابو رحیم ملک صاحب نے حلیمہ سے دوسری شادی کی تھی۔ نساء کی امی نفیسہ اس کی پیدائش کے موقع پر ہی وفات پاگئیں۔ اس لیے نساء کے لیے رحیم ملک نے دوسری شادی کی۔ جن سے ایک بیٹا صارم تھا۔ نساء نے حلیمہ کو ہی ماں کے روپ میں دیکھا تھا اور حلیمہ بھی اسے اپنی سگی بیٹی سمجھتی تھیں۔ مگر لوگ اس تاک میں رہتے کہ کوئی بات انہیں ملے۔ جسے بنیاد بنا کر وہ یہ ظاہر کر سکیں کہ نساء بے چاری پر بڑے علم ڈھائے جاتے ہیں۔
☆☆☆
آج ساتواں روزہ تھا۔ صارم کی بیوی روزینہ بھی میکے سے لوٹ آئی تھی۔ دونوں مل جل کر جلدی جلدی کام کرتیں اور پھر تلاوت کرتیں۔ نوافل ادا کرتیں۔ دونوں مل کر افطاری کی تیاری کر رہی تھیں کہ ڈور بیل بجی۔ دونوں مصروف رہیں۔ انہیں پتا تھا کہ حلیمہ صحن میں موجود ہیں۔ بھئی لگتا ہے مہمان آئے ہیں ۔ اس نے آوازوں سے اندازہ لگایا۔ جاؤ دیکھ آؤ۔ روزی نے پالک کاٹتے ہوئے اسے کہا۔ اس نے باہر جھانکا تو کافی چہرے نظر آئے ۔ تب ہی رمشہ ممانی کی نظر اس پہ پڑی۔ انہوں نے میری بچی کہہ کر اسے ساتھ لپٹا لیا اور رونے لگیں۔ وہ گھبرا گئی۔ وہ سب بہت غصے میں تھے۔ دونوں ماموں ممانیاں اور نانا ابا ، حلیمہ سے غصے سے بات کر رہے تھے۔ نساء ! اپنے ابو اور بھائی کو فون کر کے جلدی گھر آنے کو کہو۔ حلیمہ نے پریشانی سے کہا۔ تو وہ جی امی کہتی روزی کے پاس چلی آئی۔ کچن کاؤنٹر پر پڑے سیل سے پہلے کال کی ۔ پھر جلدی جلدی افطاری کے انتظامات کرنے لگی۔
☆☆☆
افطاری کا وقت ہونے کو تھا۔ صارم اور رحیم صاحب بھی آچکے تھے۔ میرا خیال ہے پہلے افطاری کر لی جائے پھر آرام سے بات کرتے ہیں۔ رحیم صاحب نے بارعب انداز میں کہا۔ سب کے چہرے غصے سے تنے ہوئے تھے۔ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد سب بڑے ڈرائنگ روم چلے گئے۔ روزی سب کے لئے چاۓ بنانے چلی گئی۔ صارم کیا ہوا ؟ باہر جاتے صارم پہ نساء کی نظر پڑی تو اسے روک لیا۔ ابھی بہت جلدی میں ہوں بعد میں بتاؤں گا۔ کیا ہوا بتاتے جاؤ ۔ اس نے پھر اسے روکا۔ افوہ رفیقہ خالہ کو بلانے جا رہا ہوں ۔ ان ہی کا کارنامہ ہے یہ۔ ماموں کے گھر جا کر الٹی سیدھی باتیں بتائی ہیں انہوں نے جیسے کہ ان کی عادت ہے۔ اب وہی آکر بتا ئیں گی۔ بس ہوگئی تسلی اب جاؤں؟ ہاں جاؤ۔ وہ پلٹ آئی۔ کیا فائدہ رفیقہ خالہ کو بلانے کا۔ انہوں نے کون سا مان جانا ہے۔ یا پھر ہنس کر کہہ دیں گی میں تو مذاق کر رہی تھی۔ اس کے سر جھٹکا۔ ارے بھائی صاحب ، میرے تو کلیجے پر ہاتھ پڑا۔ رفیقہ خالہ کی باتیں سن کر ہمیں تو یہی لگا کہ بچی بچاری برے حالوں میں ہے۔ دلہن ہر وقت میکے میں رہتی ہے اور حلیمہ سارے کام نساء سے کرواتی ہے۔ ساجدہ ممانی نے آہ بھری۔ رفیقہ خالہ آچکی تھیں۔ اے بنو ! میں تو ایسے ہی مذاق کر رہی تھی ۔ رفیقہ خالہ نے بھونڈی سی ہنسی نہیں کر سب کو ہنسانے کی کوشش کی۔ خالہ ! آپ بڑی ہیں۔ ہمارے لیے محترم ہیں برائے مہربانی ایسی باتیں کر کے لوگوں کے گھروں میں لڑائی نہ کروایا کریں۔ اے لو میاں میں نے ایسا کیا کہہ دیا۔ میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔ رفیقہ خالہ غصے سے اٹھ کر روانہ ہوگئیں۔ اب آپ لوگ بھی یوں کسی کی بھی باتوں میں آ کر حلیمہ کو باتیں نہ سنایا کریں۔ حلیمہ نے آج تک ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس کی وجہ سے اسے سوتیلی ماں کہا جائے۔ یہ بات آپ سب بھی جانتے ہیں۔ اور رفیقہ خالہ کے مزاج کو بھی آپ سب جانتے ہیں۔ بہرحال کھانا کھا کر جائیے گا۔ رحیم صاحب اپنے کمرے میں چلے گئے۔ سب لوگ شرمندہ سے کھانا کھا کر رخصت ہو گئے۔ لوگوں کے لئے کتنا آسان ہوتا ہے لا یعنی باتیں کر کے جھوٹ بول کر لڑائیاں کروانا۔ بعد میں کہہ دیا۔ میں نے تو مذاق میں بول دیا تھا۔ رمضان میں شیطان تو بند ہوتے ہیں نا روزی بھابھی۔ پھر رفیقہ خالہ جیسے لوگ ایسی حرکتیں شیطان کی مدد کے بغیر ہی سر انجام دے لیتے ہیں؟ شیطان تو ویسے ہی بدنام ہے۔ جبکہ ایسے کاموں میں تو ہم انسان ماشااللہ خود کفیل ہیں۔ نہیں نساء ! سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اور بعض لوگوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے۔ تم چھوڑو ان باتوں کو آؤ۔ عشاء کی نماز پڑھیں اور دعا کریں کہ ہم اس قسم کے مذاق سے محفوظ رہیں اور رفیقہ خالہ جیسے لوگوں کو اللہ ہدایت دے۔
☆☆