کسی کی ذات میں صفات کو تلاش مت کرو۔ ہم کسی کی ذات میں ظاہری صفات دیکھ کر اس کے رتبے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ذات میں ذات کو ڈھونڈو۔ اپنی شہرت مت دیکھو، اپنی حیثیت کو جانو۔ اس کی حقیقت کے سامنے تمہاری حیثیت ہی کیا ہے بھلا… ! سوال دوسرے کی عملی قابلیت پر کھنے کے لیے مت پوچھو باباجی ! دود دودھ پتی چائے کے ایک شوقین نے لکڑی کے بینچ پر بیٹھتے ہوئے بابا تیمور کی طرف دیکھ کر دائیں ہاتھ کو فضا میں بلند کیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے چائے کو پھینٹتے ہوئے بابا تیمور کے ہاتھ رکے۔ انہوں نے سر کو ہاں میں جنبش دیتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ گاہک کا استقبال کیا۔ میں چلتا ہوں .. بسیط تابش نے تجمل احمد اور قدسیہ احد کے سامنے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ چائے تو پتے جائو جبل نے زور دے کر کہا۔۔ نہیں، تھوڑا بزی ہوں۔ ٹیک کیئر ۔ “بسیط نے تحمل کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اُٹھ کر چل دیا۔ ” جو جتنا مصروف ہے، اصل میں وہ اتنا ہی فارغ ہے۔ بابا تیمور نے سامنے سے گزرتے ہوئے بسیط سے کہا مگر اپنی نظریں چائے کے بر تن پر ہی مرکوز رکھیں۔ بسیط کے جانے کے بعد انہوں نے برتن سے چائے کیوں میں ڈال کر آرڈر پورا کیا اور جو چائے بچی وہ پھر سے چولہے پر رکھ دی۔ گاہکوں کو ان کی میزوں پر چائے پہنچانے کے بعد بابا تیمور نے باقی چائے، چینی کی تین پیالیوں میں اُنڈیلی اور ٹرے میں رکھ کر تحمل اور قدسیہ نے رسیہ کے سامنے بسیط والی جگہ پر جابیٹھے۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ دو بندے دکان کے اندر داخل ہوئے۔ باہیو! سانوں وی دو کپ چاہ پلا دو ۔ ان میں سے ایک بولا۔ دودھ ختم ہو گیا۔ بابا تیمور نے دونوں ہاتھوں سے چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگاتے ہوئے ان کی طرف دیکھے بغیر ہی کہہ دیا۔ قدسیہ نے لمحہ بھر ان آدمیوں کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں مایوسی سے وہاں سے چلے گئے۔ قدسیہ چائے کی پیالی کے کناروں پر اپنی شہادت کی انگلی گھما رہی تھی۔ بابا تیمور نے اس کی انگلی کی طرف دیکھا تو کہنے لگے۔ چیزیں دائروں میں سفر کر رہی ہیں۔ دائرے پر جہاں بھی اُنگلی رکھیں، دائرہ وہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ دائرے کا آغاز اور اختتام ہے ہی نہیں وہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے ، اپنی چائے ختم کی اور دکان سمیٹنے لگے۔ تم تو بیٹھ گی ابھی ان کے اٹھنے کے بعد مجمل نے قدسیہ سے سوال کیا۔ قدسیہ نے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔ ”بابا جی ! کہیں پہنچنا ہے ، مجھے بھی اجازت دیں۔ وہ انہیں آگاہ کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ تجمل ، بسیط اور قدسیہ تینوں کسی زمانے میں کالج فیلو تھے۔ تجبل اور بسیط شروع سے کنفیوژ تھے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ وہ لگے بندھے روزگار سے ہٹ کر بھی کچھ کرنا چاہتے تھے۔ انہیں مستقبل کی کوئی راہ ہی سجھائی نہ دیتی تھی۔ قدسیہ کو بچپن سے لکھنے کا شوق تھا۔ وہ اب ملک کی ایک معروف مصنفہ تھی۔ بسیط نے مقابلے کا امتحان دیا، جس میں وہ پاس بھی ہو گیا، اس لیے اس نے پولیس فورس جوائن کر لی۔ بسیط اور کچھ نہ کر سکا تو وکالت کی ڈگری ہی لے لی۔ قدسیہ حسب معمول اپنی عادت کے مطابق سب گاہکوں کے جانے کے بعد بھی بیٹھی رہی۔ بابا تیمور نے سارے برتن دھو کر اپنی اپنی جگہ پر لگائے اور دکان کے لکڑی کے کواڑوں میں سے ایک بند کر دیا جبکہ قدسیہ سامنے دیوار پر لگی خانہ کعبہ کی چوکور ، کالے لباس میں ملبوس کا سہ نور عمارت کے گرد دائرے میں گھوم رہی تھی۔ ”چائے ٹھنڈی ہو گئی ہے … اب پی لو بیٹی ! با با تیمور کی آواز پر اس کی نظریں دیوار پر لگی ہوئی خانہ کعبہ کی تصویر سے ہٹیں تو اس نے پوچھا۔ ”خانہ کعبہ کی بلڈ نگ تو چو کور ہے۔ حدود اربع پتا نہیں، اونچائی 13 میٹر سے زیادہ ہے ، پھر بھی ہم اس کے گرد دائرے میں گھوم کر منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔“ اس کی اونچائی میٹروں میں نہیں سما سکتی جہاں اونچائی ختم ہوتی ہے ، وہاں سے خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھتی ہیں۔ اب رہا منزل کا سوال … منزل … منزل تو کوئی نہیں ہے ، بس چلنا ہے. چائے پیو۔“ بابا تیمور نے پہلے سوالیہ انداز میں خود سے کئی سوال پوچھے پھر جواب دیا اور ساتھ ہی حکم بھی دے دیا۔ ہی قدسیہ ایک ہی سانس میں ساری چائے پی گئی پھر خالی پیالی اپنے سامنے ٹیبل پر رکھ دی۔ چائے تو گرم پینی چاہیے۔ تم کیوں ٹھنڈی چائے پیتی ہو بیٹی ! بابا تیمور نے جانچتی نظروں سے قدسیہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ خود ہی عادت ڈالی ہے باباجی ! قدسیہ نے ان کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بڑے غور سے دیکھا۔ ”منزل نہیں تو پھر ہم ایک جگہ سے دوسرے مقام پر کیسے پہنچ جاتے ہیں ؟ اس نے الجھن سے چائے کی پیالی کے کناروں پر ایک بار پھر انکی گھماتے ہوئے اگلا سوال پوچھ لیا۔ شیطان سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتا ہے۔“ آپ کا جواب میرے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا۔ قدسیہ نے بابا تیمور کا جواب سننے کے بعد فورا کہا۔ وہ کسی مکان میں نہیں رہتا مگر کوئی مکان اس سے خالی بھی نہیں۔“ تو پھر ہم خانہ کعبہ کو سجدہ کیوں کرتے ہیں؟ قدسیہ نے بابا تیمور کے چہرے پر ٹٹولتی نظریں ڈالتے ہوئے اگلا سوال کیا۔ تمہارے اس سوال کا جواب تو میں دے چکا ہوں .. وہ کسی مکان میں نہیں رہتا مگر کوئی مکان اس سے خالی بھی نہیں ہے۔ سجدہ مکان کو نہیں، سجدہ تو ذات کو ہے۔ اس کے نور کی تجلیاں کھبے پر پڑتی ہیں ،اس لیے کعبے کو سجدہ کیا جاتا ہے- سجدوں سے وہ مل جاتا ہے کیا ؟ قدسیہ نے بے تابی سے پوچھا۔ ہر شخص کو وہی ملتا ہے ، جس کی طرف وہ ہجرت کرتا ہے۔ بابا تیمور نے بتایا۔ وصل کی طرف ہجرت کی جائے تو کیا وصل مل جائے گا…؟ قدسیہ کے لہجے میں بے چینی اور درد تھا۔ بابا تیمور کے ہونٹوں پر میٹھی سی مسکراہٹ ابھری۔ انہوں نے اپنی چھوٹی سی سفید داڑھی پر دایاں ہاتھ پھیر پھر اپنے نچلے ہونٹ پر شہادت کی انگلی رکھی جیسے اُس کے اوپر تالا لگا دیا ہو ، کچھ دیر توقف کیا پھر کہنے لگے۔ ” قدسیہ احد ! یہ جو فراق ہے نا! یہی تو اصل میں وصل ہے۔ فراق اور وصل کے چکر میں مت پڑو.. بس اتناجان لو کہ وہ تو موجود ہے ، ہم ہی غیب ہیں۔ “ میں نے جرمن ، رشین، انگلش، اردو کا سارا لٹریچر پڑھا ہے پھر بھی معرفت سمجھ میں نہیں آئی۔ قدسیہ نے اپنی لاعلمی ظاہر کر دی۔ پڑھا لٹریچر ہے اور طالبہ معرفت کی ہو… معرفت کی پہلی سیڑھی محبت ہے اور دوسری خدمت ..“ یہ کہہ کر بابا تیمور نے توقف کیا۔ اور تیسری سیڑھی کیا ہے قدسیہ نے یک لخت پوچھ لیا۔ نفرتوں کے جہاں میں لوگ پہلی سیڑھی تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ بابا تیمور نے زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ میں نے محبت پر کئی رومینٹک افسانے ، ناولٹ اور ناول لکھے ہیں۔ قدسیہ کے لہجے سے فخر جھلک رہا تھا۔ با با تیمور کچھ دیر قدسیہ کے چہرے کی طرف دیکھتے رہے۔ چہرے پر کا سہ طلب تو تھا مگر آواز میں اب بھی فخر کی گھن گرج باقی تھی۔ قدسیہ احد ! تم نے اپنے تخیل اور علم سے اپنے اندر سے کئی کتا بیں نکالی ضرور ہیں مگر اپنے من کے گھڑے کے پیندے میں پڑے ہوئے آبِ حیات کی لذت سے محروم ہو۔“ من کا گھڑا۔ آب حیات قدسیہ حیرت سے با با تیمور کو تک رہی تھی۔ جسے تم دل کہتی ہو ، وہ من نہیں ہے .. اور جسے تم آب حیات سمجھتی ہو ، وہ تو آپ جذبات ہے ۔ معرفت جذبات سے نہیں ملتی ، یہ تو احساسات سے ملتی ہے . ” مجھے آپ کی کسی بات کی سمجھ نہیں آئی ؟ قدسیہ نے دھیمے لہجے میں بتایا۔ بچپن میں پیاسے کوے کی کہانی تو پڑھی ہو گی۔ کوے نے اپنی پیاس بجھانے کے لیے جذباتی ہو کر نہ تو گھڑے میں گھنے کی کوشش کی اور نہ ہی اُسے توڑنے بیٹھا۔ وہ اس میں بس چھوٹے چھوٹے کنکر ڈالتا رہا۔ کتابیں بھی کنکر ہی کی طرح ہوتی ہیں، سمجھ آجائیں تو آپ حیات پینے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اگر نہ سمجھ آئیں تو گھائل ضرور کر دیتی ہیں من کے گھڑے میں کتابیں پڑھ پڑھ کر ڈالتے جائو، جو پیاسے کوے کے کنکروں کی طرح آپ حیات کو اوپر لیتی آئیں گی۔ اگر آب حیات تمہارے ہونٹوں کو نصیب ہو گیا تو پھر تمہارا قلب روشن ہو جائے گا۔ ”اب یہ قلب کیا چیز ہے قدسیہ نے صرف قلب پر زور دے کر پوچھا جیسے باقی ساری باتیں سمجھ آگئی ہوں۔ دل، من اور قلب ؟ دل سے تو تم واقف ہی ہو۔ میں نے تمہاری ساری کتابیں پڑھی ہیں۔ تم دل کو من اور کسک کو محبت سمجھ بیٹھی ہو۔ ایسا ہر گز نہیں. کسک محبت کی معمولی سی چنگاری کا نام ہے۔ دل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یادرکھو من کو مارنے سے قلب زندہ ہوتا ہے۔ لہریں سمندر سے ہیں ، سمند ر لہروں سے نہیں ہے۔ سمندر حقیقت ہے اور لہریں کچھ نہیں۔ جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو جان لیا، لیکن پہچاننے کے بعد بھی تم رہوگی لہر ہی۔۔۔ سمندر نہیں بن سکتیں۔ محرومی، افلاس اور غربت کفر سے جاملتے ہیں۔ غریب کی مدد ہر گزمت کرنا، بلکہ اُس کی غربت دور کرنے میں مددگار بنا۔ جہاں ہدیہ دیا جاتا ہے وہاں صدقے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خیانت محبت میں بھی جرم ہے اور عزت میں بھی … دوسروں کی عزت کرنے سے دلوں میں محبت کی کونپلیں کھلتی ہیں … یار کی مرضی کو رقص کہتے ہیں اور رقص اصل میں اطاعت کا نام ہے … اسلام جاہلوں کا نہیں، علم والوں کا دین ہے ایک اور ایک بات یاد رکھنا ! علم سے غرور جنم لیتا ہے اور علم سے انسان پھول بھی جاتا ہے اگر نہ پھولے تو پھر پھل لگتا ہے۔ بابا تیمور نے بہت ساری نصیحتوں کے بعد خاموشی اختیار کرلی۔ شام کی سیاہی دن کے اجالے کو کھا چکی تھی۔ پرندے اپنے گھروں کو پلٹ چکے تھے۔ مغرب کی اذان سے پہلے پرندے درختوں کی شاخوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو سارے دن کا حال احوال سنارہے تھے۔ آپ نے مجھے اتنے مہینوں میں اتنی باتیں نہیں بتائیں جتنی آج بتائی ہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ … ؟ قدسیہ نے دبے لہجے میں اختصار کے ساتھ پوچھا۔ بابا تیمور کا چہرہ کھل اٹھا، وہ کہنے لگے۔ ” قدسیہ احد ! بہت ساری وجوہات ہیں۔ زندگی اور موت کا کیا بھروسہ … دوسری بات یہ کہ اہل سے چھپانا اور جاہل کو بتانادونوں ہی جرم ہیں۔ تم طالب بھی ہو اور اہل بھی … آخر میں سب سے اہم اور سب سے خاص بات .. کسی کی ذات میں صفات کو تلاش مت کرو، بلکہ اپنی ذات میں صفات پیدا کرو کیونکہ رسالت سے پہلے ہی محمد ہی لیا کہ تم اپنی ذات میں مکمل تھے۔ ہزار کوششوں کے باوجود دوسرے مذاہب کے لوگ ان کی ذات پر انگلی نہیں اٹھا سکے ، اس لیے رسالت پر حملہ کرتے ہیں۔ تم سب سے پہلے اپنا کا سہ ذات پکا کر و کیونکہ کچے بر تن گرمی اور ٹھنڈک کی شدت برداشت نہیں کر سکتے ۔ کا سہ ذات پکا کر و.. مغرب کی اذان شروع ہو گئی تھی۔ قدسیہ دُکان سے نکل آئی۔ بابا تیمور نے قدسیہ کے باہر آنے کے بعد دُکان کے دونوں کو اڑ اندر سے بند کیے اور خود او پر جاتی ہوئی سیڑھیوں سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ قدسیہ فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ملنگ کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ ملنگ کے مکھڑے پر اس کی وجاہت واضح نظر آرہی تھی۔ قدسیہ نے تھوڑی دُور کھڑی فروٹ کی ریڑھی سے کچھ پھل خرید کر ملنگ کے پاس رکھ دیے۔ ملنگ نے جلدی سے ایک سیب اُٹھایا اور پاگلوں کی طرح کھانے لگا۔ بابا تیمور اپنے کمرے کی کھڑی کا ایک کواڑ کھول کر یہ سب دیکھ رہے تھے۔ قدسیہ اس سب سے انجان تھی۔ محبت کی طرف پہلا قدم اٹھایا ہے۔ بابا تیمور نے مسکراتے ہوئے خود کلامی کی اور کھڑر کی کا کواڑ بند کر دیا۔ قدسیہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ونڈ اسکرین سے ایک بار اس پرانی بلڈ نگ کو غور سے دیکھا، جس میں بابا تیمور کا چائے خانہ تھا۔ اس کی نظروں کا مرکز بابا تیمور کی کھڑکی تھی۔ اُس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور وہاں سے چلی گئی۔ چند کلو میٹر آگے جا کر قدسیہ نے ایک شاپنگ مال کے پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کی ، پھر ارد گرد دیکھا۔ لوگ بے نیاز آجار ہے تھے۔ وہ گاڑی سے باہر نکلی، گرد و نواح کا جائزہ لیا پھر ریمورٹ کی مدد سے ڈکی کھولی اور اُس میں سے ایک لیدر کا چھوٹا ساشولڈر بیگ نکال کر شاپنگ مال کے فوڈ کورٹ کی طرف چل دی۔ ان لوگوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔“ ”سوچ کیا رہے ہو… آگے بڑھو… جلاد وسب کے گھروں کو … ”ہاں ہاں … ساری بستی کو … «نعرہ تکبیر ..“ اللہ اکبر” فضا اللہ اکبر کی صدائوں سے گونج اُٹھی۔ سرد اور اندھیری رات میں ہر طرف شعلے تھے ، آگ کے شعلے کسی کا گھر جل رہا تھا اور کسی کا ایمان پختہ ہو رہا تھا۔ کسی کا کلیجہ جل رہا تھا اور کسی کے دل کو ٹھنڈک نصیب ہو رہی تھی۔ کہیں چھینیں تھیں اور کہیں ہونٹوں پر تبسم تھا۔ ایک اللہ اور دو نبیوں کے ماننے والے ایک دوسرے کو مار رہے تھے ۔ چند میڈیا اور الیکٹرانک میڈ یا چیچ آٹھا ہر چینل بڑھ چڑھ کر خبریں دے رہا تھا۔ سب سے پہلے یہ خبر ہم نے بریک کی ہے. ایک ٹی وی رپورٹر بڑے فخر سے کیمرے کی آنکھ میں کر بولے جا رہا تھا۔ ے پیچھے دیکھ سکتے ہیں ہر طرف آگ ہی آگ ۔ برگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے کی کوشش کر رہی ۔ دوسری رپورٹر بے چاری کوئی دبلی پتلی سی خاتون تھی۔ صحت کے معاملے میں تو اس کا ہاتھ تنگ تھا، خبروں کے معاملے میں منہ بہت کھلا تھا۔ پولیس نے سارے علاقے کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ تیسرا ر پورٹر سڑک پار کرنے والے پل پر چڑھا اپنی بانہیں کھول کھول کر ایسے خبریں دے رہا تھا، جیسے کوئی ہیر وسوئٹزرلینڈ کی سبز پہاڑیوں پر چڑھ کر گاناگارہا ہو۔ اب تک کوئی حکومتی عہدے دار یہاں نہیں پہنچا، چوتھے بڑے چینل کار پورٹر بتارہا تھا۔ ”ابے کبھی تیر امائیک خراب اور کبھی کیمرہ ٹھیک نہم ہم نے خبر گھنٹہ دینی ہے۔“ایک رپورٹر اپنے کیمرہ مین سے اُلجھا ہوا تھا۔ اگلے دن کے اخباروں کی سرخیاں یہ تھیں… عیسی نگری میں نامعلوم افراد نے آگ لگادی۔“ عیسائیوں کی ساری بستی جل گئی۔“ 13 افراد جل کر مر گئے اور 81 زخمی ہیں۔“ ”دہشت گردوں کا ایک اور بڑا حملہ “ ہم نے کمیشن بنادیا ہے۔ صوبائی وزیر قانون۔ جلد ہی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔“ وزیر اعلی۔ اگلے دن کا نیوز پیپر پڑھنے کے بعد تجمل احمد جلدی سے بابا تیمور کی دکان کی طرف گاڑی لے کر بھاگا۔ عیسی نگری کے سامنے سڑک کے دوسری طرف کی دکانیں بھی جل کر راکھ ہو چکی تھیں، جہاں بابا تیمور کی چائے کی دکان بھی تھی۔ بسيط .. بسيط … تجمل نے اپنی ایڑھیاں اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔ کد ھر جوان … دیکھ نہیں رہا… صاحب میڈیا والوں سے بات کر رہے ہیں۔“ وہ میرا دوست ہے۔ جبل نے موٹے پولیس والے سے الجھتے ہوئے کہا۔ کون ؟ ٹی وی والا …! نہیں تمہارا صاحب ہٹ آگے سے، مجھے جانے دو۔“ جبل نے دو پولیس والوں کے درمیان سے گزرنے کی کوشش کی- کدھر جانے دو.“ دوسرا پولیس والا چٹکی بجاتے ہوئے بولا، اس کے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ تتر بتر ہو جا… نہیں تو شبہے میں اندر ڈال دوں گا۔ “ موٹاپولیس والا پھر بولا۔ میں نے بتایانا ! بسیط میر ا دوست ہے۔ تمل نے پھر سنجیدگی سے بتایا۔ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔ کوئی پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان جلی ہوئی دکانوں کی طرف دیکھ رہا تھاتو کوئی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے … ” میری دکان نہیں جلی … میرا تو نصیب ہی جل گیا ہے۔“ میں نے کون سی گستاخی کی تھی میری دُکان میں تو قرآن مجید بھی تھے، کیا وہ بھی جل گئے ہوں گے ؟ تجمل کے کانوں میں یہ جانی پہچانی آواز یں پڑیں تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اسٹیشنری کی دکان والا اپنی بر بادی پر ماتم کر رہا تھا جبکہ دوسرا پنچر لگانے والا تھا۔ میں ہائی کورٹ کا وکیل ہوں۔ اے ایس پی بسیط تابش میرا دوست ہے ، ہٹو آگے سے تجبل شدید غصے سے دونوں پولیس والوں کو ہٹاتے ہوئے آگے چلا گیا۔ دونوں پولیس والوں نے حیرت سے تجمل کو بسیط کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ جبل ٹریک سوٹ پہنے ہوئے تھا اور پیروں میں جو گرز تھے۔ یہ بڑے لوگ سویرے سویرے اس طرح کے ہی کپڑے پہنتے ہیں۔ موٹے پولیس والے نے مونچھوں والے کو بتایا۔ بسیط نے تجمل کو دیکھ کے ہاتھ ہلایا جسے پولیس والوں نے دیکھ لئے تھا- بسیط میڈیا والوں سے فارغ ہو کر تجمل کی طرف آ رہا تھا- مونچھوں والے نے موٹے پولیس والے کے پیٹ کی طرف دیکھ کر جگت لگائی۔ تیرا یہ جو پیٹ دردی سے باہر نکل رہا ہے شکر کر نہیں نکلا… بسیط نے محمل کو تسلی دیتے ہوئے گلے سے لگا یا تھا۔ کیا مطلب ہے تیرا ؟ موٹا پولیس والا بولا۔ جس طرح صاحب نے اُس لڑکے کو گلے لگایا ہے جگری یار لگتے ہیں اور جتنی بد تمیزی تو نے اس کے ساتھ کی تھی اگر اُس نے صاحب کو بتاد یا تو نہ یہ پیٹ رہے گا اور نہ ہی یہ وردی … موٹے پولیس والے نے جلدی سے اپنے پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھ لئے۔ یہ دو ڈیڈ باڈیزان دکانوں سے ملی ہیں . تم دیکھ لو ان میں سے بابا تیمور کی کون سی ہے “بسیط نے قریبی اسپتال کے مردہ خانے میں رکھی لاشوں پر سے کپڑا ہٹاتے ہوئے کہا۔ لاشیں کیا تھیں جلے ہوئے کو نکلے تھے۔ محمل نے ان لاشوں کی طرف صرف ایک نظر ڈالی، دوسری کی اس میں ہمت نہ تھی۔ وہ لاشیں نہیں، راکھ کا ڈھیر تھے، جنہیں سفید چادروں سے چھپایا گیا تھا۔ تجبل کی آنکھوں میں نمی تھی وہ جلدی سے مردہ خانے سے نکل آیا۔ شاخت تو کر لو بابا تیمور کی باڈی کون سی ہے ؟ بسیط نے جبل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ جو زیادہ جلی ہوئی ہے دائیں طرف والی .. تجمل کی آواز میں شدید درد تھا۔ تم کیسے اتنے یقین سے کہہ سکتے ہو ؟ بسیط نے تفتیشی لہجے میں پوچھا۔ با با تیمور کے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی میں ایک چاندی کی انگوٹھی ہوا کرتی تھی، جس کے اندر نیلم جڑا ہوا تھا۔ اس لاش کی انگلی میں بھی جلی ہوئی انگوٹھی ہے۔“ تجمل نے جواب دیا اور نم آنکھوں کے ساتھ جلدی سے مردہ خانے سے باہر نکل گیا۔ تم صبح پریشان تھے ، اس لیے ملنے چلا آیا بسیط نے تجبل کو اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ قبل نے اس کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بیٹھتے ہوئے کہنے لگا۔ ” مجھے بھی بابا تیمور کی موت کا بہت دکھ ہے۔“ یہ ڈیڈی کے انتقال کے بعد سب سے بڑا صدمہ ہے میرے لیے کتنا کچھ سیکھا ہے ہم نے بابا تیمور سے تجمل نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ گوگل سے زیادہ معلومات تھیں ان کے پاس۔ “بسیط نے اظہار خیال کیا۔ قدسیہ پھر غائب ہوگئی نا تجمل نے پوچھا۔ و کسی کردار کی تلاش میں نکلی ہو گی۔ “ بسیط نے کہا۔ اسے خبر دی اس سانحے کی …! تقبل نے سوال کیا۔ کال کی تھی، نمبر بند جارہا ہے اس کا بسیط نے بتایا۔ ہم دونوں سے زیادہ قربت تھی اس کی بابا تیمور کے ساتھ تجمل نے کہا۔ اصل ہیں وہ چار سال کی تھی جب اس کے ڈیڈی شہید ہوئے تھے۔ وہ کہیں نہ کہیں بابا تیمور میں اپنے ڈیڈی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔“ اتنا جانتے ہوا سے ، تو شادی کیوں نہیں کر لیتے اس سے .. ؟ جبل نے مشورہ دیا۔ تم کر لونا .. بسیط نے بھی سنجیدگی سے مشورہ دے ڈالا۔ وہ ہم دونوں میں سے کسی کے ساتھ شادی نہیں کرے گی۔ تقبل نے زبر دستی مسکراتے ہوئے بتایا۔ ”سچ کہتے ہو۔ “بسیط فورا مان گیا۔ ایک اُلجھے ہوئے کیس جیسی ہے وہ تمل نے تصور میں قدسیہ کو لاتے ہوئے کہا۔ ٹھیک کہا تم نے۔ وہ چھوٹی موٹی سی چپ چاپ سنتی رہتی ہے، بولتی کچھ نہیں۔ “بسیط نے لمبی سانس لیتے ہوئے اپنی رائے دی۔ با با تیمور سے بڑے سوال کرتی تھی۔ تقبل نے فٹ سے بتایا۔ جانتا ہوں۔ میں اور تم کہاں اُس کے عجیب و غریب سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔ “بسیط نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔ کچھ پتا چلا کس کی لگائی ہوئی آگ تھی، جس نے بابا تیمور کے ساتھ درجنوں لوگوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ تقبل کو پھر سے بابا تیمور کی یاد ستانے لگی۔ انتہا پسندی کی “بسیط نے بتایا۔ ” مطلب ..؟ جبل نے تشویش سے پوچھا۔ سوچ رہا ہوں یہ نوکری چھوڑ دوں۔ تنگ آگیا ہوں میں یہ خون خرابہ دیکھ دیکھ کر بسیط نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ بتایا۔ اور میں تبھی آج تک کوئی کیس ہی نہیں جیت سکا۔ “ جبل نے اپنا دکھٹرا سنایا۔ آخر تم نے وہ کر دکھایا جو برسوں سے حل طلب تھا۔ ویل ڈن قدسیہ ! کرنل صاحب نے سائونڈ پروف کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ” سر ! سچ کہوں تو میں زیادہ ایکسائٹڈ نہیں ہوں۔“ قدسیہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔ کرنل صاحب نے ایک لمبی سانس بھری پھر کہنے لگے۔ ” میں جانتا ہوں۔ جانی نقصان بہت ہوا ہے۔ “ کچھ بتایا انہوں نے قدسیہ نے شیشے کے دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ کنویں کی طرح گہرا ہے۔ کرنل صاحب نے بھی اسی سمت دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر شیشے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور بتانے لگے ۔ کہتا ہے سر ! میں سب کچھ سچ سچ بتادوں گا مگر اُس آدمی سے ملنے کے بعد، جس کی وجہ سے آپ مجھ تک پہنچے۔“ کرنل صاحب کی بات سنتے ہی قدسیہ باہر نکل گئی۔ کرنل صاحب بھی بڑی پھرتی سے شیشے کے سامنے پڑی، بڑی میز کی طرف پلٹے اور کرسی پر بیٹھتے ہی انہوں نے میز پر پڑا ہوا ہیڈ فون کانوں پر لگالیا۔ قدسیہ شیشے کے اس پار کمرے میں داخل ہوئی۔ بابا تیمور اسے دیکھتے ہی کھلکھلا کر بننے لگے پھر یک دم سنجیدگی کے ساتھ بولے۔ بیٹی مجھے کبھی کبھی تم پر شک ہو تا تھا۔“ قدسیہ کرسی لے کر ان کے سامنے میز کے دوسری طرف بیٹھ گئی۔ وہ لوہے کی مضبوط کرسی کے ساتھ ہتھکڑیوں اور اسٹیل کی بیڑیوں سے جکڑے ہوئے تھے۔ تمہیں مجھ پر شک کیسے ہوا ؟ بابا تیمور نے فٹ سے اپنے مطلب کی بات پوچھ لی۔ قدسیہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی مگر وہ ضبط کرتے ہوئے بولی۔ ” بابا جی ! باہر سے اتنے حلیم اور اندر سے کتنے سفاک ہیں آپ … ! اس کی بات پر بابا تیمور مسکرائے پھر کہنے لگے ۔ ” جنگ ہیں عنون ہی تو بہتا ہے۔ “ ہم نے تو آپ کے خلاف کوئی جنگ نہیں چھیڑی قدسیہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔ پونی صدی گزر جانے کے باوجود کسی کے وجود کو تسلیم نہ کرنا جنگ ہی تو ہے۔“ قدسیہ نے اس پر لمحہ بھر غور کیا پھر کہنے لگی۔ ”آپ اسرائیل سے ہیں … ؟ بابا تیمور سر نفی میں ہلاتے ہوئے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔ ” نہیں . اسرائیل مجھ جیسے جانثاروں سے ہے۔“ آپ اتنے آرام سے کیسے مان گئے …؟ قدسیہ کے پوچھنے پر وہ مسکرائے پھر پوچھا۔ ”اب تو شہادت ہی میرا مقدر ہے۔ کیوں خواہ مخواہ اللہ کے بنائے ہوئے جسم پر تشدد کر وائوں …؟ الله ؟ قدسیہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ ہم مسلمانوں سے زیادہ تو حید پرست ہیں۔ “ بابا تیمور نے بڑے فخر سے بتایا۔ قدسیہ نے اتنی ہی نفرت سے تیمور کی طرف دیکھا پھر لفظ چباتے ہوئے بولی۔ ” حضرت محمد لی لی ایم کو نہ مانا ان کی شان میں گستاخی ہے۔“ میں گستاخ نہیں ہوں۔ محمد می کنیم کی گستاخی تو حرامی کرتے ہیں۔ “ تیمور نے سنجیدگی سے بتایا۔ حرامی؟ قدسیہ بیٹی تیمور کے بولتے ہی قدسیہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ تم مجھے بیٹی مت کہو ۔ “ تیمور مسکرایا پھر د کھی لہجے میں کہنے لگا۔ “تم خیر ، اگر میری بیٹی میرے پاس ہوتی تو وہ بھی یقینا اتنا ادب نہ کرتی جتنا تم نے کیا ہے۔“ تھا۔ “ قدسیہ نے یک لخت بتایا۔ افسوس … اب بھی اس ملک میں کروڑوں مومن ہیں جو اپنے ہر رشتے سے زیادہ محمد علیم کو محبوب رکھتے ہیں۔ “ حمد صلی یا یکم کا استناب کرتے ہو تو ان پر ایمان کیوں نہیں لے آتے قدسیہ نے شائستگی سے پوچھا۔ تیمور نے ہلکا سا قہقہہ لگا یا پھر بولا۔ ” میں نے کہانا! محمدعلی علی کریم کی بے ادبی صرف حرامی کرتے ہیں، میں تو خداوند کے کرم سے حلالی ہوں۔“ حرامی سے کیا مراد ہے تمہاری قدسیہ نے جانچتی نظروں سے پوچھا۔ تیمور نے بھی غور سے قدسیہ کے چہرے کا جائزہ لیا پھر کہنے لگا۔ ”بے حیائی سے زنا عام ہوتا ہے۔ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے بڑے ہو کر محمد لی لی ایم کے گستاخ بنتے ہیں۔ “ ”بے حیائی … تو نہیں ہے ، ہمارے ملک میں ! قدسیہ نے معصومیت سے کہا۔ بھولی بھالی ، گڑیا جیسی ، نازک سی بچی ! اندر سے اتنی ذہین ہو گی مجھے کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا۔ تمہارا کمال یہ ہے کہ تم انجان بن کر سب کچھ جان لیتی ہو۔“ ” بے حیائی پر بات ہورہی تھی ۔ “ قدسیہ نے یاد کرایا۔ باتیں ہی تو تمہاری قوم بھول جاتی ہے۔ قرآن میں کھلے لفظوں میں سب کچھ ہمارے بارے میں لکھا ہوا ہے۔ چلو بے حیائی کا بھی بتا دیتا ہوں۔ ہم عورتوں کے ذہن میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ اسلام نے تمہیں مرد کے برابر حقوق نہیں دیے ، پھر وہ پلے کا رڈلے کر سڑکوں پر اپنے حقوق لینے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔“ کیسے ڈالتے ہیں عورتوں کے ذہنوں میں یہ باتیں ؟ قدسیہ نے سوال کیا۔ پاکستان کے ہر شعبے سے ہمیں لوگ کرایے پر میسر آہی جاتے ہیں۔ “ شعبے مطلب…؟ قدسیہ کا اگلا سوال تھا۔ میڈیا والے، سیاست دان، فوجی، حج، پولیس والے، خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنے والیاں اور مولوی ! مولوی بھی ! قدسیہ نے حیرت سے کہا۔ اصل مولوی انتہائی غربت کے باوجود پیسوں پر نہیں بکتا۔ ہم کچھ جعلی مولوی دین کی سر بلندی کے نام پر خرید لیتے ہیں۔ تیمور نے بتایا۔ دین کی سر بلندی … ؟ قدسیہ کے منہ سے نکلا۔ ہم پاکستان میں محمد علی دی کہ ہم کے لائے ہوئے دین کو فرقے کی شکل دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ مولوی، علامہ، پیر اپنے فرقے کو ہی اصل دین سمجھ بیٹھا ہے۔“ تم کتنے آرام سے سب کچھ اگلتے جارہے ہو ! قدسیہ بڑے تحمل سے تیمور کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
جواب میں تیمور نے آنکھیں بند کرتے ہوئے بڑے ادب کے ساتھ قرآن پاک کی ایک آیت پڑھی۔ قدسیہ نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ آنکھیں کھولتے ہوئے بولا۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ جو قوم قرآن پڑھ کر بھی نہ جاگ سکی۔ وہ میرے اعتراف سے کیا جاگے گی … ! تیمور کے لہجے میں طنز تھا۔ قدسیہ سوچ میں پڑ گئی۔ تیمور غور سے اُسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ ”تم اپنے سینئر ز سے سوالات کی لسٹ لے آتیں تو ہم دونوں کا وقت بچ جاتا۔“ وقت تو تمہارا ختم ہو گیا ہے۔ قدسیہ نے سنجیدگی سے بتایا۔ ارے نہیں میں تو اپنے وقت سے دس سال زیادہ جی چکاہوں۔“ تیمور نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔ مطلب….؟ مطلب یہ 1985 میں پاکستان میں پچیس سالہ منصوبے کے تحت داخل ہوا تھا۔“ کہاں سے آئے تھے تم اور کیسا منصوبہ ؟ قدسیہ نے فٹ سے دو سوال ایک ساتھ پوچھ لیے۔ میں ایک یہودی ہوں۔ میری عمر اٹھارہ سال تھی جب میں مصر گیا۔ وہاں ، جامعہ الازہر میں پڑھتار ہا پھر وہاں سے غیر قانونی طور پر اسرائیل چلا گیا، پانچ سال ٹرینگ لی۔ وہاں سے مصر واپس آیا اور مصر سے ایران … وہاں میں نے ایک مدرسے میں داخلہ لے لیا۔ وہاں سے فارغ ہوا تو پھر کئی اور اسلامی ممالک کی خاک چھانی اور پھر پاکستان پہنچ گیا۔ یہاں میرے جیسوں کے لیے حالات بڑے ساز گار تھے۔ میں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دس سال فرقہ بندی کی آگ کو خوب بھڑ کا یا، پھر کراچی سے جہلم چلا گیا۔ وہاں بھی میں نے یہی کام کیا اور کامیابیاں میرے قدم چومتی رہیں، یہاں تک کہ میں ایک مخصوص حلقے میں اسرائیل کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں سالہ مشقت کے بعد میں نے سوچا اب تھوڑی اپنی خدمت بھی کروانی چاہیے ، سو ملتان جاکر پیر بن گیا اور دس سال بیری کے خوب مزے لوٹے۔ اور پچھلے پانچ سال تمہارے سامنے ہی ہیں۔“ تیمور کے چپ ہوتے ہی قدسیہ نے فٹ سے کہا۔ ” اور پھر لاہور میں تم مذہبی اسکالر بن گئے… ”مذہبی اسکالر بننے کا میر ا فیصلہ غلط تھا۔ “ تیمور نے مزے سے بتایا۔ اپنی زندگی کے پینتیس سال پاکستان میں برباد کر دیے تم نے …! قدسیہ نے حقارت سے کہا۔ کافر کے لیے اُس کا کفر ، مسلمان کے لیے اس کا دین اور میرے لیے میری قوم … میں نے اپنی قوم کو دنیا میں مقام دلانے کی کوشش کی ہے۔ تیمور نے بڑے فخر سے بتایا۔ تمہاری دکان سے جین دو لوگوں کی لاشیں ملی ہیں وہ تمہارے ساتھی تھے کیا ..؟ وہ مہرے تھے ، ساتھی نہیں ؟“ تیمور نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ”مہرے اور ساتھی میں کیا فرق ہوتا ہے .. قدسیہ نے بھولی صورت کے ساتھ پوچھا۔ تیمور مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ ” پھر وہی طریقہ واردات خیر ، بتادیتا ہوں۔ ساتھی اپنی قوم کے ہوتے ہیں اور مہرے دوسری قوم سے۔ میری قوم کے لوگ کسی کے مہرے نہیں بنتے۔ ہمارے ہاتھوں میں تو ساری قوموں کی ڈوریاں ہیں۔ ہم تو سب کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچار ہے ہیں۔ “ عیسی نگری اور رحمن پورہ میں فسادات کیسے کروائے قدسیہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔ پیسے کے زور پر تمہیں یاد ہوں گے وہ دو آدمی جو اس دن دودھ ختم ہونے کے بعد چائے پینے آئے تھے۔ “ قدسیہ نے اپنے ذہن پر زور دیا پھر بولی۔ ” جنہیں تم نے کہا تھا کہ دودھ ختم ہو گیا ہے… ”ہاں وہی تیمور نے کہا۔ رومائی گاڈ “ قدسیہ نے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔ بیٹی ! اب جلی ہوئی لاشیں تو زندہ ہونے سے رہیں۔“ مت کہو مجھے بیٹی ! قدسیہ میز پر ہاتھ مارتے ہوئے چلائی۔ تیمور سفاکی سے قہقہے لگانے لگا۔ قدسیہ نے اُسے کھا جانے والی نظروں کے ساتھ دیکھا پھر غصے سے بولی۔ ”پھر کیا ہوا تھا؟ ایسے نہیں… ایسے میں کچھ نہیں بتائوں گا۔ تیمور نے کمینی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔ قدسیہ نے ایک بھر پور ایک ٹھنڈی سانس لی پھر اپنے اوسان کو قابو میں کرتے ہوئے اگلا سوال کیا۔ ” وہ دو آدمی کون تھے ؟ پاکستانی ہی تھے۔ ایک مسلمان اور دوسرا کسی دوسرے مذہب کا، دونوں بے روزگار تھے۔ ایک کو میں نے لاکھوں روپے عیسی نگری میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے لیے دیئے تھے اور دوسرے کو اُس بے حرمتی کے بعد عیسی نگری میں آگ لگوانے کے لیے۔ جب انہوں نے یہ کام کر دیا تو وہ دونوں میری دکان پر آئے۔ میں نے انہیں اپنی انگو ٹھی اور پشاور کا پتا دیتے ہوئے کہا کہ تم دونوں یہاں آرام سے سو جائو۔ کل صبح دکان کو تالا لگادینا۔ کوئی میرا کوئی پوچھے تو بتا دینا کہ پشاور گئے ہیں۔ پندرہ بیس دن بعد مجھے اس پتے پر آکر ملنا۔ انگوٹھی دکھانے پر ہی میرے ساتھ ملاقات ہو سکتی ہے ، اس لیے اسے سنبھال لو۔ ایک نے اسی وقت میری دی ہوئی انگوٹھی پہن لی۔ میں دکان سے باہر نکلا، سڑک کے اُس پار عیسی نگری میں آگ لگی ہوئی تھی۔ میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ سب اسی طرف بھاگ رہے تھے۔ میں نے موقع پا کر دکان والی مارکیٹ کو بھی آگ لگادی۔ میں آگ لگا کر وہاں سے کھسکنے ہی لگا تھا کہ ملنگ نے مجھے دبوچ لیا۔ دبوچتے ہی اس نے مجھے بے ہوش کر دیا، ہوش آیا تو میں یہاں تھا۔ “ میں نے ملنگ کو تم پر نظر رکھنے کے لیے ہی وہاں بٹھایا تھا۔ قدسیہ نے آگاہ کیا۔ ”ملنگ پر تو مجھے پہلے ہی دن سے شک تھا لیکن تم پر نہیں . جب تم نے ملنگ کو پھل خرید کر دیے تب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب مجھے یہاں سے نکل سے نکل جانا چاہیے ۔ مہینور بے پر کام کر رہا تھا، اُسے پورا کرنے کے لیے میں نے اپنے مہروں کو فون کر دیا۔“ پشاور جا کر تم کیا کرنا چاہتے تھے قدسیہ نے ٹٹولتی نظروں کے ساتھ پوچھا۔ تیمور مسکرادیا، پھر لمحہ بھر سوچنے کے بعد بولا۔ ”جو کام ادھورے رہ جائیں اُن کا ذکر نہیں کرتے ۔ “ پشاور میں تمہارے ساتھی کون ہیں ؟“ قدسیہ نے اگلا سوال پوچھا۔ تیمور پورے چہرے کے ساتھ مسکرایا پھر گویا ہوا۔ ”میں نے پہلے بھی بتایا ہے ، ساتھی تو اپنے ہوتے ہیں۔ میری قوم انمول ہے۔ مول تو ہم دوسری قوموں کا لگاتے ہیں۔ ان چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ہم اپنے ساتھی ساتھ نہیں لاتے ، یہ تو مہروں کا کام ہے۔ تم بھی تو مہرہ ہی ہو… ! قدسیہ نے سیکھے لہجے میں بتایا۔ تیمور کھل کھلا کر ہنسنے لگا، پھر بڑے تفاخر سے بولا۔ ”ساری زندگی حکم دیے ہیں میں نے … جس دن اسرائیل سے ٹریننگ لے کر نکلا تھا، اس کے بعد کبھی اُن سے رابطہ نہیں رکھا۔ قدسیہ یہ سننے کے بعد سوچنے لگی۔ ”سوال ختم ہو گئے کیا..؟ تیمور نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ بھی شروع ہی کہاں ہوئے ہیں۔ “ قدسیہ نے سنجیدگی سے بتایا۔ جو میں نے جواب دیے وہ ؟ تیمور نے قدر تیمور نے قدرے خفگی سے کہا۔ اس بار قدسیہ نے ہلکا سا قہقہہ لگا یا پھر بولی۔ وہ سوال تو میں نے ناول لکھنے کے لیے پوچھے تھے۔ “ قوموں کو عروج مجھ جیسے جانثاروں کی وجہ سے ملتا ہے، تمہارے جیسے مصنفین کی وجہ سے نہیں۔“ تیمور نے بڑے متکبرانہ انداز میں کہا۔ جانثاروں کی تاریخ کون لکھتا ہے ..؟ قدسیہ کے پوچھنے پر تیمور نے چونک کر اس کی طرف دیکھا قدسیہ بڑے انداز سے اپنی گردن کو ملکی سے جنبش دیتے ہوئے کہنے لگی۔ ”ہم ہاتھی کو چیونٹی اور چیونٹی کو ہا تھی لکھ دیں تو وہ تاریخ بن ہا جاتی ہے۔“ کیا اب مجھے پر کہانی لکھو گی ؟ تیمور نے جلدی سے پوچھا۔ بھی تمہاری کہانی مکمل ہی کب ہوئی ہے۔ “ قدسیہ نے بڑی سنجیدگی سے بتایا۔ کیا مطلب ….؟ تیمور کو تھوڑی فکر لاحق ہوئی۔ اب تک تمہاری زندگی میں چین ہی چین تھا، بے چینی تو اب شروع ہو گی۔ کہانی شروع کرنا آسان ہے اور ختم کرنا مشکل اگر کہانی کار کی اپنی کہانی ہی ختم نہ ہو جائے تو وہ کبھی نہ کبھی کہانی ختم کرہی لیتا ہے۔ تم تو وہ بھی نہیں کر سکتے- کیا کہانی کہانی لگارکھی ہے ..؟ تیمور نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔ قدسیہ کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ کر تیمور چڑتے ہوئے بولا۔ ”اب میں تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔“ ٹھیک ہے ، پھر میں چلتی ہوں۔“ جیسے ہی قدسیہ نے یہ کہا تیمور نے خوف زدہ ہوتے ہوئے فٹ سے کہا۔ ” کو “ بولو! تمہیں مجھ پر شک کیسے ہوا؟“ پاکستان میں شادیاں کتنی کیں تم نے ؟ قدسیہ نے جواب دینے کی بجائے سوال پوچھ لیا۔ سات تیمور نے فوراً بتایا۔ اور بچے کتنے ہیں ..؟
و نہیں دس، پتا نہیں کتنے ہیں.“ کیا مطلب …؟ قدسیہ کے سوال پر تیمور نے دھیان ہی نہیں دیا۔ وہ ماضی میں کھویا ہوا تھا۔ قدسیہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ” بھی اپنے بچوں کے بارے میں سوچا ہے تم نے ؟ جیسے ہی قدسیہ نے یہ سوال کیا، تیمور کا سارا خوف دور ہو گیا۔ وہ گھنٹہ بھر پہلے والا تیمور بن گیا، اعتماد سے بھر پور ۔ اُسی اعتماد سے کہنے لگا۔ ”میرے بچوں کے بارے میں تم سوچو… وہ ہیں تو پاکستانی، مگر اُن کی رگوں میں ایک یہودی کا خون ہے- قدسیہ یہ سنتے ہی کرسی سے کھڑی ہو گئی۔ تیمور نے فاتحانہ انداز میں کہا۔ ”میرے سوال کا جواب تو دیتی جاؤ- جواب ! قدسیہ نے تیمور سے نظریں ملاتے ہوئے کہا پھر میز پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے تیمور کے قریب ہو کر بولی۔ ” تمہارے پاس پاکستان سے متعلق میرے ہر سوال کا جواب ہوتا تھا۔ “ تیمور نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سوچا پھر فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ اس کی آواز سے کمرہ گونج اٹھا۔ وہ پوری گھن گرج کے ساتھ کہنے لگا۔ تم پاکستانی ڈرو اس وقت سے ، جب میرے بچے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔“ قدسیہ بھی ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بولی۔ ” تیمور صاحب ! میں آہٹ ہوں ، دھماکہ تو ابھی باقی ہے۔“ قدسیہ نے شیشے کی طرف خود کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”سر ! اس کو دھما کے والوں کا ذراٹریلر تو دکھائیں۔“ سامنے دیوار پرلگی ہوئی ایک ایل سی ڈی پر ڈھائی منٹ کا خاموش ٹریلر دیکھنے کے بعد تیمور کی کرسی کے نیچے فرش گیلا ہو گیا۔ قدسیہ نے فرش پر نظر ڈالی اور وہاں سے چل دی۔ خود کار دروازہ کھل گیا تو وہ بیٹی اور بڑے معنی خیز انداز میں بولی۔ ”پتا ہے تم نے پاکستان میں پینتیس سال کیوں نکال لیے ؟ کیونکہ تم نے مذہبی چولا پہن رکھا تھا۔ ایک بار تم نے ہی کہا تھا نہ ہی چولا پہننے والوں سے ، برہنہ طوائف زیادہ بہتر ہے۔“ تیمور کا رنگ فق ہو چکا تھا اور لمحہ بہ لمحہ اس کے پیروں سے جان نکلتی جارہی تھی۔