میری عمر پندرہ سال تھی کہ امی کی چچازاد بہن خالہ سکینہ شادی کی تاریخ مانگنے آگئیں ۔ امی نے کہا۔ بہنا! ابھی تو میری گلزار کم سن ہے۔ ایک دو سال ٹھہر جاؤ ، تب تک ہم جہیز بھی بنالیں گے۔ خالہ کہنے لگیں۔ میرا گھر بھی تیرا گھر ہے۔ یہ یہاں رہے کہ وہاں رہے ۔ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے۔ تجھے کس بات کی فکر ہے سوہنی ! رہی جہیز کی بات ، تو اس کی تو فکر نہ کر۔ تیری بیٹی کا جہیز ہم بنا کر دیں گے آخر تو جہیز ہمارے گھر ہی آنا ہے۔ امی نے لاکھ منع کیا، مگر وہ نہ مانیں۔ یوں ہاں کرنا پڑی۔ دو ماہ میں انہوں نے میرا جہیز بنایا اور پھر میری شادی ان کے بیٹے عقیل ہو گئی ۔ میں خالہ سکینہ کے گھر بہت خوش تھی۔ میرا شوہر بھی ہر طرح سے میرا خیال رکھتا تھا۔ ہم ہنسی خوشی زندگی گزار نے لگے۔
ہم گاؤں میں رہتے تھے۔ میں بھینسوں کو چارہ ڈالتی، اپلے بناتی، گھر میں جھاڑو دیتی، برتن مانجھتی حتی کہ گھر کا سب کام خود کرتی تھی ۔ شادی کے سال بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاند سا بیٹا دیا۔ بیٹے کی پیدائش پر عقیل بہت خوش تھے مگر یہ خوشی عارضی تھی ۔ وہ چند ماہ کا ہو کر چل بسا۔ اس کے بعد دو بیٹیاں ہوئیں ، وہ بھی چند ماہ بعد فوت ہوگئیں ۔ اس کے بعد سات برس تک میں دوبارہ اولاد کی خوشی نہ دیکھ سکی۔ اس پر میرے شوہر کے رشتہ داروں نے کہا کہ تمہاری بیوی کو اٹھرا کی بیماری ہے، اسے اولاد نہیں ہوگی ، اور ہوئی تو جیے گی نہیں ۔ کب تک اولاد کی خوشی کی آس میں وقت گنواؤ گے۔ بہتر ہے کہ دوسری شادی کرلو۔ لوگوں کے کہنے سننے سے عقیل دوسری شادی پر آمادہ ہو گئے ۔ مجھ سے کہا۔ میں تم کو بھی اپنے ساتھ رکھوں گا اور پہلے سے زیادہ پیار اور عزت دوں گا۔ تم مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دو۔ میرا جینا مرنا شوہر کے ساتھ تھا ، سو مرتا کیا نہ کرتا ، ان کو دوسری شادی کی اجازت دے دی کہ میری عزت اسی میں تھی۔ اگر میرے واویلا کرنے کے باوجود وہ دوسری کو بیاہ کر گھر لے آتے تو بھی میں کیا کر سکتی تھی۔ عقیل نے اپنے وعدے کا پاس کیا اور دوسری بیوی کو مجھ پر فوقیت نہ دی۔ مجھے پہلے کی طرح عزت اور پیار دیا کبھی کسی شے کی کمی نہ آنے دی۔ زیور ، کپڑے جو شے بھی اسے لا کر دیتے، بالکل ویسے ہی میرے لئے لاتے ۔ میری سوتن سمیرا میری ماموں زاد بہن بھی تھی ، اس لئے ہم میں کوئی جھگڑا نہ ہوتا تھا ۔ ہم بالکل بہنوں کی طرح رہنے لگیں۔ ایک سال بیت گیا، اب سمیرا کو بخار رہنے لگا، جو اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوا اور وہ چند دنوں کے اندر اندر چل بھی۔ میرے شوہر کو اس کی موت کا بہت صدمہ ہوا۔ نجانے وہ کیسے بہک گئے ۔ انہوں نے مجھ پر جھوٹا الزام لگا دیا کہ تم نے سمیرا کو زہر دیا ہے۔ تم اس سے جلتی تھیں ، اس کو تم ہی نے بے موت مار دیا ہے۔ میں نے قسم کھا کر کہا کہ میں نے زہر نہیں دیا ، مگر وہ سنگدل انسان مانتا ہی نہ تھا۔ اس نے لوگوں سے بھی کہنا شروع کر دیا کہ گلزار نے سمیرا کو زہر دے کر مار دیا ہے۔ وہ شخص جو میرے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے رہا تھا ، اب چھوٹی سی بات پر مارنے کو دوڑتا۔ کون ساظلم تھا جو اس نے مجھ پر نہ کیا ہو۔ گویا ، اجل نے جو ظلم اس پر ڈھایا تھا، اس کا بدلہ وہ مجھ سے لے رہا تھا، جیسے سمیرا کے بغیر گھر میں میرا وجود اچھا نہ لگتا تھا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ سمیرا سے اس کی دنیا خوشنما تھی۔ مجھ سے تو وہ اس لئے پیار محبت کرتا تھا کہ گھر کا سکون برقرار رہے۔
میں شوہر کو غمزدہ جان کر اس کی یہ بدسلوکی سہتی رہی کہ سمیرا کی موت کا صدمہ رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا تو عقیل پھر سے نارمل ہو جائیں گے۔ یوں پانچ سال گزر گئے ۔ ایک دن . میرے بھائی کا خط آیا۔ امی بیمار ہیں ، ان کو دیکھنے آجاؤ۔ میں جانے کے لئے تیار ہوئی تو میرے شوہر نے مجھے کوئی چیز بھی ساتھ نہ لے جانے نہ دی۔ میں نے جو تین کپڑے پہنے ہوئے تھے، انہی میں خاموشی سے میکے چلی آئی۔ بس کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں ۔ امی سخت علیل تھیں۔ میرے میکے آنے سے چار روز بعد وہ چل بسیں ۔ ابا تو سال پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ اب اس بھری دنیا میں صرف ایک بھائی رہ گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد میری دوسری خالہ فوت ہو گئیں ۔ وہ اسی گاؤں میں رہتی تھیں، جہاں میرے شوہر کا گھر تھا۔ خالہ کی وفات پر ہم گاؤں گئے۔ عقیل بھی وفات والے گھر آئے ہوئے تھے کیونکہ ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ میری اس خالہ کی شادی ہوئی تھی جو فوت ہو گئی تھیں ۔ مرحومہ خالہ کا گھر میرے دیور ہی کا گھر تھا۔ میرے بھائی نے عقیل سے کہا کہ تم میری بہن کو اپنے گھر لے جاؤ ۔ تب انہوں نے جواب دیا کہ میں اسے اپنے پاس نہیں رکھوں گا ۔ مجھے اس پر اعتبار نہیں ہے۔ جو میری دوسری بیوی کو زہر دے کر مار سکتی ہے، وہ مجھے بھی زہر دے دے گی ۔ میرا بھائی خاموش ہو گیا۔ تب میری دوسری خالہ مجھے اپنے گھر لے گئیں۔ جب عقیل ، میرے بھائی سے یہ باتیں کہہ رہا تھا، تب میرا دیور اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اسے افسوس ہوا اور اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ ٹھیک ہے تم اگر اسے طلاق دو گے تو میں اسے سہارا دوں گا۔ دیور نے میرے بھائی سے بھی یہی بات کہی کہ صفدر بھائی آپ فکر مت کریں۔ اگر بڑا بھائی گلزار کو نہیں رکھے گا اور طلاق دے گا تو میں اس سے نکاح کرلوں گا ۔ جلیل میرا خالو تھا اور دیور بھی تو میں نے کہا کہ عقیل مجھے طلاق دے بھی دے دو تو میں آپ کے ساتھ نکاح نہیں کروں گی ۔ میرے آپ کے ساتھ جو رشتے ہیں، وہی برقرار رہیں گے ۔ آپ مجھ پر ترس نہ کھاؤ۔ میرے مستقبل کا اللہ مالک ہے۔
بھائی کے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ واپس میکے لے آیا۔ میرے میکے جانے کے بعد عقیل نے تیسری شادی کر لی ، جو اس شرط پر ہوئی کہ لڑکی والوں نے کہہ دیا تھا کہ عقیل صاحب اپنی موجودہ بیوی کو طلاق دو پھر ہم لڑکی دیں گے ۔ ادھر مجھے طلاق ہوئی ادھر عقیل نے تیسری بیوی کو گھر لا کر اپنا نگر پھر سے آباد کر لیا۔ اس کے بعد وہ نئی دلہن کے ہمراہ حج پر چلا گیا ۔ میرا کوئی گھر نہ رہا تھا۔ بھائی نے تو پناہ دی مگر بھا بھی نہ چاہتی تھی کہ میں ان کے گھر پر رہوں ۔ بیوی کے تیور دیکھ کر بھائی نے ایک روز سمجھایا کہ بہن اب تم اپنا گھر بسانے کی کرو تو اچھا ہے۔ دوسری شادی کر کے عزت سے اپنے گھر کی ہو جاؤ، ورنہ میری بیوی ہر وقت تم کو نوکرانی بنا کر بھی ذلت سے ہمکنار کرتی رہے گی۔ بھائی کو بے بس پا کر میں نے ان سے کہہ دیا کہ اب آپ ہی میرے وارث ہو جو میرے بارے میں بہتر سمجھو کرو۔ مجھ کو آپ کا ہر حکم منظور ہے۔ تبھی انہوں نے میر ا نکاح اپنے ایک دوست سے کروادیا جس کی بیوی وفات پاچکی تھی ۔سبھی مرد برے نہیں ہوتے ۔ ایک بار قسمت کھوٹی ہوئی مگر اس بار الله نے رحم کر دیا اور بقیہ زندگی کا اچھا ساتھی مل گیا۔ صابر نے میرا بہت خیال رکھا اور میں نے ان کے ساتھ پچھلے سارے دکھ بھلا دیئے ۔ صابر بہت اعلیٰ ظرف ہیں۔ مجھے ان کے گھر میں رتی بھر تکلیف نہیں ہے۔ میں ان کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ میری ساس بالکل ماں جیسی شفیق ہیں ۔ وہ بے حد پیار کرنے والی خاتون ہیں۔ لگتا ہے کہ سگی ماں کھوئی تو ایک بار پھر مجھے ماں مل گئیں۔ بے شک زندگی میں اب سکون ہی سکون ہے مگر کبھی بھی ماضی کا زخم جاگ جاتا ہے تو دل میں پھانس سی چھنے لگتی ہے۔ جبھی ایسی سوچیں آتی ہیں کہ ہمارے دین نے ہم کو حقوق دیئے ہیں۔ مگر معاشرے میں عورت کو کیا مقام ملا ؟ ساری عمر اور خدمت کے بدلے بس یہی کچھ جانے وہ کون سی گھڑی تھی کہ عقیل کے دل میں یہ بدگمانی جاگزیں ہوئی تھی۔ یہ کتنا بڑا اور خوفناک الزام ہے کہ میں سوتن کی قاتلہ ہوں۔ مجھے تو ایسا سوچ کر ہی وحشت ہوتی ہے۔ ان سوچوں کو جو مجھے جلاتی ہیں ، آنسو بہا کر مٹانے کی کوشش کر دیتی ہوں، لیکن ماضی تو ایک ایسا عذاب ہے جو بھی نہ کبھی آپ کے گزرے دنوں کی یادوں کو چھیڑ کر سوئے درد جگا دیتا ہے۔