Thursday, October 10, 2024

Meekay Aur Susraal Ki Mahro

اس نے ایک نظر گلی کا موڑ مڑتی ثوبان کی بائیک کو دیکھا اور دوسری نظر سامنے گھر کے دروازے پر ڈالی۔ یہ دروازہ اور اس کے اس پار جو گھر تھا۔ اس کے ماں باپ کا گھر  یعنی میکہ- یہ سوچ کر ہی اس کی رگوں پے سکون ہی سکون اتر گیا۔ بچپن اور جوانی کی یادوں کا مسکن ۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ آئی ۔ وہ گھر جس میں بے ساختگیوں کا تمام عرصہ گزرا ۔ وہ دروازے کو انگلیوں سے چھو رہی تھی انگلیوں کی پوریں تک گنگنانے لگیں۔ اندر جانے کے بجائے یہیں کھڑے رہ کر ان خوب صورت و خوشگوار احساسات میں گھر کر کچھ لمحے سو جانے کو دل کر رہا تھا۔ نم ہوا کے جھونکے سے کہیں سے آنے کے تھے۔ ملگجی روشنی خیالوں کے نرم بستر کا تصور ارد گرد باندھنے لگی۔ اس کا دل یہ چاہ رہا تھا کہ وہ اس چوکھٹ پر بیٹھ جائے اور اپنے بچپن اور گزرے دنوں میں کھو جائے۔ کوئی کندھا نہ ہلائے نہ کوئی سسرال کی محنت مشقتیں بے آرامی پریشانیاں جیسے ثوبان کی بائیک سے لپٹا غبار اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اب تو جسم ہلکا پھلکا تھا۔ سانسیں دھیمی اور رواں تھیں ۔ ہر لڑکی شادی کے موقع پر کیوں روتی ہے یہ اس کے رشتے دار کیوں روتے ہیں ؟ بڑی بوڑھیاں۔ خالائیں ، مامیاں ، اور پھوپھیاں سب کو اپنا اپنا وہ وقت یاد آنے لگتا ہے جب میکے کی دہلیز سے نکل کر لڑکی ہر اس چیز کو وداع کر جاتی ہے ۔ جو دوبارہ ویسی نہیں ملتی  – یادیں رشتے بدلنے سے گھر بدلنے سے زندگی کے انداز بدلنے سے نہیں بدلتیں۔ وہ تبدیلی سے مشروط نہیں ہوتیں۔ اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔ پرس کندھے پر ڈال کر اس نے بیل پر انگلی رکھی۔ عمر دروازے پر دیکھو۔ اندر سے فورا دادی کی آواز آئی۔ عادی ! تم ہی جاؤ بیٹا !” غالبا” کچن سے امی پکاری تھیں – سونو کہاں ہو تم ۔ بیل ہو رہی ہے۔  عمارہ چلائی تھی۔ اسے ہنسی آگئی وہ بیل پر انگلی جمائے کھڑی رہی۔ توبہ توبہ کون ہے ؟ جانے کون ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے امی پکاریں – یہ جنید ہی ہو گا۔ لفنگا جلد باز۔   پھر مسلسل ہوتی بیل پر بوکھلا کر سب ہی دروازے کی جانب لپکے تھے ۔ دروازے کی دوسری جانب سے کئی آوازوں کے ساتھ دروازہ کھولا گیا۔ اس کا پورا میکہ استقبال کے لیے دروازہ پر موجود تھا۔ وہ ہنستے ہوئے اندر داخل ہو گئی ۔ دروازے پر کھڑے سب لوگوں کی چیخیں بے ساختہ تھیں۔ مہر آئ ہے – مہر تم ؟ اس کے آس پاس سب ہی اکٹھے ہو گئے اور اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے۔ ہر کسی کا خوشی کے اظہار کا اپنا انداز تھا۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے وہ آئی بھی تو پورے چھ ماہ بعد تھی – پورے چھ ماہ بعد! دوسری بار چیخوں سے صحن تب گونجا۔ جب اس نے بتایا کہ وہ دو دن رکنے آئی ہے۔سب خوش تھے ۔” میں نے فروٹ کسٹرڈ بنانا سیکھا ہے۔ تمہارے لیے بناؤں گی۔ تمہیں میٹھا بہت پسند ہے نا۔ ” عمارہ نے اس کے بالوں میں کنگھا کرتے ہوئے کہا۔ مل کر کوئی اچھی سی مووی دیکھیں گے۔ چھت پر پارٹی بھی کریں گے اور دیر تک جاگیں گے – کراچی والے کزنز سے اسکائپ پر محفلیں لگائیں گے۔ “اپنے اپنے طور پر سب اس کی آمد پر پروگرام سیٹ کیے جا رہے تھے- اس کے اندر زندگی مسکرا رہی تھی – میکے کا ہر موسم ہی نرالا ہوتا ہے۔ سب سے پہلی نشست دادی چچی اور امی کے ساتھ لگئی۔ چچی کچن میں مصروف ہونے کے باوجود باتوں میں شامل ہو رہی تھیں۔ دادی اور امی البتہ تخت پرباتوں کے ساتھ ساتھ لحافوں کی مرمت میں بھی لگئی ہوئی تھیں۔ بالوں میں تیل لگائے بغیر دوپٹے کے وہ ا ن کے قریب لیٹی ہوئی تھی۔ اک عجب بے فکری تھی جس میں مزا ہی مزا تھا۔ تمہاری ساس کی بہن عمرے سے واپس آگئیں- ثوبان کی پروموشن کا کیا ہوا ؟ نادرہ آپا بیٹے کی منگنی کر رہی ہیں۔ تمہیں بھی بلاوہ دیں گی ۔ تم اجازت لے کر رکھنا۔ ورنہ تمہاری ساس عین وقت پر  بیمار پڑ جاتی ہیں۔” تمہاری نندوں کے رشتے ہوئے کہیں۔” تمہارا دیوار اور کتنے سال فیل ہوتا رہے گا۔ بلاوجہ خرچہ کروا رہا ہے بھائی کا اور تم یہ سوٹ پہن کر آگئیں۔ ڈھونڈ کر پہنا ہوگا۔ میکے آرہی تھیں۔ یہ حلیہ بنا کر آتے ہیں ماں باپ کے گھر۔ آنکھیں دیکھو جیسے کسی بڑی بیماری سے اٹھی ہو- پریشانی نا کرو ، ان شاء الله سب بہتر ہوگا- اللہ خوش رکھے۔ سکھی رہو۔ بچوں کا ادب اور گھر والوں سے محبت سے رہا کرو۔ سسرال میں تو شروعات میں یونہی ہوتا ہے۔ کئی سال لگ جاتے ہیں معاملات سمجھے اور سنبھالنے میں سکھ کے موسم بھی بالاآخر آہی جاتے ہیں۔ ارے تمہیں تو نیند آرہی ہے۔ چلو اندر چل کرلیٹو میرا بچہ وہ کمرے میں آکر لیٹی اور چند ہی لمحوں میں بے خبر ہو گئی۔ لمبی نیند لے کر اٹھی تو اپنے ساتھ لایا واحد جوڑا پہننے کے لیے نکالا اور فریش ہونے چل دی۔ پورا گھر سنسان پڑا تھا۔ گیلے بالوں کے ساتھ کھڑے ہو کر گھر کا جائزہ لینے لگی۔ نظروں کے سامنے ٹھنڈا میٹھا پرکیف منظر تھا -اس کے میکے کے گھر کا – شام کی خاموش لمحوں میں خوابناک رات قدم رکھنا چاہتی تھی -ارد گرد کے گھروں کے کچن میں کھٹرپٹڑ کی آوازیں کبھی تیز تو کبھی مدھم سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے صحن کی لائٹس آن کیں۔ سب لوگ کہاں ہیں؟   تھوڑی ہی دیر میں سب اکٹھے ہونے لگے ہنستے اور خوش باش۔ پڑوس والی ثانیہ کے پورے دس سال بعد بیٹا ہوا ہے  سن کر اتنی خوشی ہوئی کہ سب ہی دیکھنے چلے گئے – تم کھانا کھاو پھر مل کر چائے پیتے ہیں۔ چائے پینے کے بعد امی تین خوب صورت رنگوں والے سلے ہوئے سوٹ لے آئیں۔ تمہارے لیے بنوائے تھے۔ پسند آئے؟یہ رکھ لو کام آئیں گے- تھوڑی ہی دیر بعد دادی نے دو ہزار اپنی مٹھی سےاس کے ہاتھ میں منتقل کر کے اس کی مٹھی بھی بند کرلی – یہ بیڈ شیٹ ۔ میرے بھائی نے گوادر سے بھیجی تم اپنے بیڈ پر بچھانا بہت خوب صورت لگےگی چچی بولیں – اس بار ہاکر شعاع کے دو پرچے دے گئے ہیں – ایک تم لے جاو رات کو ڈایجیسٹ پڑھنے کا مزہ ہی اور ہے – عامرہ نے سب سامان کے اوپر اس ماہ کا شعاع رکھا – سسرال میں بھی سب ہی پیار کرتے ہیں۔ سب ساتھی ہوتے ہیں۔ رشتے بنتے ہیں۔ پر یہ پیار اتنا سچا کیوں لگتا ہے؟ شعاع پڑھنے میں وہ اتنی گم تھی کہ پاس پڑے موبائل پر میسج ٹون بجی تو اس کا دھیان ہی نہ گیا  – جنید عادی اور عمر اس کے لیے آئس کریم اور چاکلیٹس لائے تھے۔ دونوں چیزوں فریج میں رکھ کر سب نے رات کا کھانا مل کر بنانے کا فیصلہ کیا- سب ہی نے کچن میں دھاوا بول دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں ایک ہڑبونگ مچ گئی – فروٹ کسٹرڈ بنانے کے لیے کسی نے فروٹ دھو کر کٹنگ کی کسی نے بریانی بنانے کے لیے عمارہ کی مدد کی۔ کسی نے رائتہ بنایا۔  بریانی کو دم پر رکھنے کے بعد آخر میں  مہر نے سب کے لیے چائے بنائی ۔ کھانے سے پہلے چائے پینے کی کیا تک تھی بھلا ؟ کیوںکہ کھانے کے بعد ہم کولڈ ڈرنک پئین گے آج بہت کام کر لیا ہے – سب ہی نے بچپن کی یاد تازہ کرتے ہوئے لہک لہک کر کمرشل کو گنگنایا – باتیں تھیں۔ ہنسی تھی ۔ سکون تھا۔ اس دوران مہر کے موبائل اسکرین پر بہت میسج جمع ہو گئے تھے۔ابھی رات کے نو بج رہے تھے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد سب ہی مل کر بیٹھے تو باتوں باتوں میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہو سکا – برآمدے کے فرش پر  عادی کے ساتھ لوڈو کھیلنے لگی۔عمارہ دادی کی ہدایت پر اس کو دیے جانے والے تحائف اور سامان وغیرہ ایک جگہ اکٹھے کرنے لگی۔ کیو نکہ کل اسے یہاں سے چلے جانا تھا۔  فریج سے لیموں کا شربت اسٹور سے اچار کے دو مرتبان اس کا پرس ۔ سونو جنید اور عمران اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔اور کیا رہتا ہے ؟ عمارہ سامان سمیٹتے ہوے بڑبڑائی ۔ آزادی اور بے فکری کی مدت پوری ہونے والی تھی۔ مشینی زندگی اس کی منتظر ہے ۔ منظر بدلنے لگا – دل اور دماغ ہر چیز سے بد زن ہونے لگے – تھوڑی ہی دیر میں عمارہ اس کا موبائل لیے اس کے پاس آئی – نیو میسیجز کی تعداد پچیس ہو گئی ہے ۔ سارے ہی ثوبان بھائی کے ہیں  تم اوپن کر کے پڑھتی جاؤ میں سن رہی ہوں ” اس نے ہر احساس سے نظر چرا کر فی الحال لوڈو پر توجہ مرکوز کردی ۔ آفس کے بعد کھانا کھا کر سونے لگا ہوں۔” میسج نمبر ٹو فریش ہو کر دوستوں میں جا رہا رات کے دو بج رہے ہیں۔ میں کمپیوٹر پر کام کر رہا تم اپنے امی ابو کے پاس جا کر میرے امی ابو کو بھول گئی ہو۔ امی کی طبیعت کل سے خراب ہے۔”  بہن کی شادی کے موقع پر چھوٹا بھائی باپ سے  آپی اتنا کیوں رو رہی ہیں۔ دولہا بھائی کیوں نہیں رو رہے ؟ باپ بیٹا!آپی گیٹ تک روئیں گی ۔دولہا بھی قبر تک روئیں گے  “ثوبان کی امی کی طبیعت کا سن کر سب خاموش و گئے تھے – فنی میسج پر سب ہنس دے تھے – تمہارے بغیر نیند نہیں آتی مہرو – بس باقی میں خود پڑھ لوں گی – اس نے موبائل گود میں رکھ لیا – اب سارا دھیان ثوبان اور اس کے گھر والوں کی طرف منتقل ہو گیا تھا – ثوبان  نےالماری بے ترتیب کر دی ہو گی ۔”  چولھا  گندہ ہو گیا ہو گا۔ امی وقت پر  دوائیں نہیں لیتی ہوں گی تبھی بیمار ہو گئی ہیں اگلا میسج تھا مہرو  میں پانچ دن کے لیے کراچی جا رہا ہوں۔ امی کی طبیعت بھی بہتر ہو گئی ہے۔ تم چاہو تو کل آجاتا ۔ چا ہو تو میرے آنے تک مزید  رہ لو ۔” ابھی بہت سارے میسج نیو بھی تھے۔ مگر اسی میسج کو اس نے دوبارہ پڑھا پھر پڑھا۔ یا ،، ہو – لوڈو پر ہاتھ مار کر ساری گوٹیں بکھیر دیں – تھوڑی ہی دیر بعد صحن قمقموں   سے گونج رہا تھا۔نمبر لاتے ملاتے وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔ ادھر سے کال رسید کی تھی۔۔ آ گئی یاد میری ثوبان کالجہ شکوہ لیے ہوئے تھا۔ آپ نے بھی تو کال نہیں کی – لو بھلا تمھارے پاس وقت کہاں تھا میں نی کتنے میسج کیے ایک کا بھی تم نے جواب نہیں دیا – مہرو کو غصّہ آنے کو تھا پر جیسے ہی ثوبان نے کہا میں عی کی دوائیں میڈیکل اسٹور سے لے رہا ہوں جو تمہارے گھر کے پاس ہے تو مہرو بے چین ہو گئی- اپنے گھر کا احساس اسے ستانے لگا اک ادا سے کہا آ جائیں میں اپپ کی ساتھ گھر چلتی ہوں – ثوبان کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا کیسے چھ مہینوں کے بعد گھر آنے والی مہرو اب چھ دن بھی میکے رہنے کو تیار نہیں –   گھر میں سب کو خدا حافظ کہتے ہوئے مہرو نے ایک بارسوچا میں انوکھی نہیں ہوں ہر شادی شدہ لڑکی مہرو ہوتی ہے – میکے میں ہو تو سسرال کی فکر اور سسرال میں ہو تو میکے کی یاد ستاتی ہے – آدھی سانس ہر شادی شدہ لڑکی کی میکے میں اور آدھی سانس سسرال میں اٹکی ہوتی ہے اور یہی کامیاب شادی شدہ زندگی کی ضمانت ہے – ۔

Latest Posts

Related POSTS