میں بڑی بیٹی تھی، حساس تھی۔ آنے والے حالات کی سنگینی کا اپنی پوشیدہ آنکھ سے نظارہ کر سکتی تھی۔ یوں کہنا چاہئے کہ کچھ لوگوں میں ایسی خداداد صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ قبل ازیں نوشتہ دیوار پڑھ لیتے ہیں۔ ابو بیمار رہنے لگے تھے اور میں جلد تعلیم مکمل کر کے ان کا سہار ابننا چاہتی تھی تاکہ برا وقت آنے سے قبل گھر کے حالات سنبھل جائیں۔ انہوں نے مجھے بہت اعتماد دیا تھا، انہی کے کہنے پر میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، ورنہ ہمارے مالی حالات ایسے نہ تھے کہ میں یونیورسٹی میں داخلہ لیتی۔ یونیورسٹی ہمارے گھر سے کافی دور تھی۔ میری زندگی کے یہ سال بہت قیمتی تھے ہر حال تعلیم مکمل کرنا چاہتی تھی۔ پندرہ دن کی چھٹیاں ہو گئیں تو میں نے سوچالا ئبریری سے کوئی کتاب ایشو کر والوں تا کہ چھٹیوں میں پڑھ سکوں۔ لائبریری سے لوٹی تو اکثر بہیں جا چکی تھیں۔ بادل بنے ہوئے تھے ، تھوڑی دیر میں برسات ہونے لگی۔ میں کافی دیر سے بس اسٹاپ پر کھڑی تھی۔ بارش تیز ہوتی جاتی تھی۔ میرا گائوں بھیگ گیا تھا۔ دیر تک جب کوئی بس نہ آئی تو میں ادھر اُدھر دیکھنے لگی جیسے کوئی مصیبت زدہ مدد کے لئے پکارتا ہے۔ اچانک ایک نوجوان کی نظر مجھ بھیگتی ہوئی بے بس لڑکی پر پڑی جو اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔ وہ میری طرف آیا اور کہنے لگا۔ محترمہ ، بارش تیز ہونے والی ہے ، موسلا دھار بر سے گی اور پھر کوئی سواری نہیں ملے گی۔ آجائے میں آپ کو چھوڑ دوں۔ میں نے غور سے دیکھا شکل جانی پہچانی لگی۔ وہ بھی گائون پہنے ہوا تھا۔ یونیورسٹی کا طالبعلم تھا مگر کسی دوسرے ڈپارٹمنٹ کا تھا۔ مجھے سوچتے دیکھ کر بولا۔ اعجاز میرا نام ہے آپ کے ساتھ والے ڈپارٹمنٹ میں ہوں۔ ڈریئے مت ، آجائے۔ ہمار ادور ایسا نہ تھا کہ لڑکیاں بلا خوف لفٹ لے لیتیں مگر اب مجبوری تھی۔ اُس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور میں اُس کے برابر والی نشست پر بیٹھ گئی۔ اپنے حلیئے پر نظر ڈالی۔ بال بھیگے ہوئے اور گائون سے پانی بہہ رہا تھا۔ جوتے کیچڑ آلود تھے اور میں شرابور تھی۔ راستے میں اعجاز نے مجھ سے گفتگو کی۔ اس کی باتوں کا جواب ہیں ہوں ہاں سے دیتی رہی۔ کیونکہ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر احسان مندی کے بوجھ تلے خود کو باہوا محسوس کر رہی تھی۔ وہ تعلیم اور یونیورسٹی سے متعلق باتیں کرتا رہا مگر میں تمام وقت ایسی چپ رہی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ گھر آگیا تو جان میں جان آگئی۔ گاڑی سے باہر پائوں رکھا تو واقعی چھاجوں مینہ برس رہا تھا۔ میں اگر آج اس کی پیشکش قبول نہ کرتی تو اس سیلاب بلا میں بہہ جاتی۔ گھر کے سامنے اُس نے مجھے اُتارا۔ صدق دل سے اُس کی مہر بانی کا شکریہ ادا کیا مگر جھوٹے منہ بھی اپنے گھر کے اندر آنے کو نہیں کہا۔ خوف زدہ تھی کہ مجھ کو اُس کے ساتھ دیکھ کر گھر والے نہیں تو پڑوسی افسانہ تراش لیتے-
اس دن کے بعد وہ اکثر اپنے شعبے کے ساتھ والے ڈپارٹمنٹ میں نظر آجاتا۔ مجھے دیکھ کر دور سے سلام کرتا۔ میں سلام کا جواب دینے کی بجائے سر جھکا لیتی۔ وہ نہایت جوشیلا اور زندہ دل نوجوان تھا۔ یونیورسٹی کے تمام فنکشنز میں حصہ لیتا تھا۔ بحث و مباحثہ کی تقریب ہوتی یا مشاعرہ یاڈراموں کا سلسلہ ، کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ بہت جلد اُس کا شمار نمایاں اور مشہور طالبعلموں میں ہونے لگا۔ اب وہ ایک طرح سے اس عملی درسگاہ کا سرمایہ تھا، جہاں ہم تعلیم پار ہے۔ ہے تھے۔ سبھی اس سے بات کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ ایک دن مجھ کو بس اسٹاپ پر کھڑے دیکھا تو میری طرف آگیا۔ کہنے لگا۔ اُس دن تو بارش کی مجبوری کے باعث میری پیشکش قبول کر لی تھی۔ آج دُھوپ تیز ہے، اتنی دھوپ میں چلو گی تو رنگ سیاہ ہو جائے گا۔ آج دُھوپ کی وجہ سے میری پیشکش قبول کر لو۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی گاڑی کا دروازہ میرے لئے کھول دیا۔ اتفاق یہ کہ اُس روز باہر کسی ہنگامی صورتحال کے باعث بسیں بند ہو گئی تھیں اور میں اس امر سے لا علم تھی، سو آج بھی مجبوری تھی، میں پھر بھی اپنی جگہ جمی ہوئی تھی۔ اگر اس دن تم کو صحیح سلامت گھر پہنچادیا تھا تو آج بھی پہنچادوں گا۔ اب مزید وقت ضائع نہ کرو۔ باہر اچانک گڑ بڑ ہو گئی ہے ، ہنگامی صور تحال کے تحت بسیں نہیں چل رہیں۔ یہ سن کر میرے ہوش اُڑ گئے۔ اُن دنوں موبائل فون تھے نہیں کہ پل پل کی خبر ہاتھوں میں آجاتی۔ کچھ پریشان ہو کر اس کی جانب دیکھا کہ جیسے میری آنکھیں پوچھ رہی ہوں سچ کہہ رہے ہو ؟ بہت گرمی تھی۔ مئی کا آخری ہفتہ تھا، واقعی دُھوپ میں اتنی تیزی تھی کہ تمازت سے میرا چہرہ جلا جار ہا تھا۔ دو چار لمحے سوچنے کے بعد ، میرے قدم مجھے اُس کی گاڑی کی طرف لے جانے لگے۔ پہلی ملاقات کی طرح یہ ملاقات اجنبیت بھری نہیں تھی۔ مجھے لگا ہم میں دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا ہے۔ ایسی دوستی جو خالصتاً خلوص نیت پر مبنی تھی۔ آخری پرچے کے روز وہ مجھے ہال سے باہر ملا۔ شبھ تارا ! کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟ مجھے لگا، جیسے اُس نے میرے دل کا نشانہ لے کر فائر کر دیا ہو ، تبھی بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ ہر گز نہیں کیونکہ شادی میری زندگی کا مشن نہیں ہے۔ تمہاری زندگی کا مشن کیا ہے ؟ وہ میں بعد میں بتائوں گی۔ میں نے جواب دیا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے ملازمت کرنی تھی۔ ابو خاصے بیمار تھے ، ان کا کار و بار ٹھپ ہو چکا تھا۔ تھوڑی سی جمع پونجی جو بینک میں تھی اس پر ہم لوگوں کا گزارہ تھا۔ مستقبل میں مجھ کو اپنے والد کا ہاتھ بٹانا تھا۔ شبھی میں نے ایسے کوئی خواب نہیں دیکھے تھے ، جو اس عمر میں لڑکیاں دیکھتی ہیں۔ میرے جواب نے اعجاز کو اُداس کر دیا، مگر نا امید نہیں ہوا۔ اُس نے سوچا بھی ایک سال باقی ہے ، دونوں تعلیم مکمل کر لیں گے تب وہ دوبارہ مجھ سے یہ سوال کرے گا۔
دوسرا سال بھی پلک جھپکتے گزر گیا اور ہماری جان پہچان اخلاقی حدود میں چلتی رہی۔ ہمارا جہاں آمنا سامنا ہو جاتا ،رک کر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کر لیتے ، چند باتیں کر لیتے۔ ہماری جان پہچان اسی حد تک قائم تھی۔ انہی دنوں بہن نے گریجویشن کر لیا تو والد صاحب نے ایک اچھارشتہ دیکھ کر اس کی منگنی کر دی۔ وہ اپنی زندگی میں ایک بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے تھے۔ میرا بھائی ابھی دسویں میں تھا، اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں اُسے کافی وقت درکار تھا اور ہم کل تین بہنیں تھیں ، لیکن قدرت نے کچھ اور کر دیا۔ والد صاحب جان کی بازی ہار گئے اور فرائض جو انہوں نے ادا کرنے تھے وہ دھرے رہ گئے۔ سالانہ امتحان سر پر تھا اور ابو کی وفات نے کمر توڑ دی تھی۔ اُن دنوں میری حالت بری تھی، غم اور فکر نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔ اعتماد اتنا کمزور ہو گیا کہ کسی سے بات کرتے ہوئے بھی گھبرانے لگی تھی۔ اعجاز نے میری کیفیت کو بھانپ لیا۔ وہ روز مجھے دلا سا دینے لگا۔ اُس کی باتوں میں جادو تھا کہ میں مایوسی اور ناامیدی کے اندھیرے سے نکل آئی۔ اپنے بکھرے ہوئے خیالات کو سمیٹا اور پڑھائی پر توجہ دی۔ یوں ماسٹر کر لیا۔ جس روز آخری پرچہ تھا، اعجاز مجھے دوبارہ ملا۔ اُس نے وہی سوال دہرایا۔ اب تو تم نے امتحان دے دیا ہے۔ مجھ سے شادی کے بارے میں کیا ارادہ ہے ؟ مجھے آگاہ کر دو تا کہ امی کو تمہارے گھر بھیجوں۔ ابھی نہیں بھیجنا۔ ابو کی وفات کو تھوڑے دن ہوئے ہیں۔ امی اس صدمے سے نہیں نکلیں۔ ذرا وقت گزرنے دو، میں خود بتادوں گی۔ میں نے بہانہ تراش لیا، ود بتادوں کی۔ میں نے بہانہ تراش لیا ، کیونکہ اس سوال کا جواب میں ابھی نہیں دینا چاہتی تھی۔ وجہ موجود تھی۔ میں نے بہن کی شادی کرنا تھی اور چھوٹے بھائی کو پڑھانا تھا۔ فی الحال میں اُن کی خوشیوں کے لئے تگ و دو کر رہی تھی۔ اپنی خوشیوں کی طرف سفر نہیں کر سکتی تھی اور وقت کا کچھ اندازہ نہ تھا۔ یہ ایک لا متناہی انتظار تھا۔ اب میں کبھی کبھی اعجاز سے فون پر بات کر لیتی ، بس یہاں تک ہمارا رابطہ تھا۔ میں نوکری کی تلاش میں سر گرداں ہو گئی۔ بالآخر ایک پڑوسی کی سفارش سے ایک فرم میں نوکری مل گئی۔ اعجاز نے کافی انتظار کیا۔ جب اُس کو اپنے سوال کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا، تو وہ تعلیم کے لئے بیرون ملک چلا گیا۔ وہاں سے بھی اس نے مجھ سے رابطہ رکھا۔ ہر بار کہتا کہ میر اسوال بھلانا نہیں۔ تمہیں مجھ کو کبھی نہ کبھی ہاں میں جواب دینا ہی ہو گا۔ تب تک میں اپنی تعلیم مکمل کر چلا سے نے مجھ سے رابطہ ہر بار لوں گا۔ میں ادھر دن رات رزق کی خاطر محنت اور مشقت میں لگی تھی۔ اب میں ہی گھر کی سر براہ تھی۔ میری آمدنی پر کنبے کا انحصار تھا۔ چھوٹی بہن ، ماں، بھائی، سبھی اپنی ہر ضرورت کے لئے میری طرف دیکھنے پر مجبور تھے۔
ایک روز ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اسپتال میں اعجاز نامی ایک مریض آیا ہے اسے کینسر ہے جو آخری اسٹیچ پر ہے۔ وہ تھوڑے دنوں کا مہمان ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہ نام سن کر مجھے اعجاز کی یاد آگئی مگر اُس کی یادا حسن نہ تھی کیونکہ ہمارے راستے اب الگ الگ تھے۔ اگلے روز میں کسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے پاس اسپتال گئی تو وہ اسی مریض سے متعلق نرس کو کچھ ہدایات دے رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسا ہے ؟ چند روز کا مہمان ہے۔ جلدی مجھ سے بات کر لو۔ میں اُسے دیکھنے جارہا ہوں۔ انجکشن لگانا ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلتے چلتے باتیں کرتے جاتے تھے اور میں اُن کے ساتھ ساتھ چلتی جارہی تھی۔ مریض کے روم کے سامنے وہ ٹھہر گئے۔ بولے۔ رُکنا چاہو تو میرے آفس میں بیٹھو جائو ۔ میں نے کہا۔ نہیں، مجھے جلدی ہے۔ ریحان کو اسکول سے لانا ہے۔ اچانک میری نظر کمرے کے اندر بیڈ پر لیٹے مریض پر پڑی۔ نرس اُسی وقت وہاں سے نکل کر باہر آرہی تھی۔ حیرت زدہ رہ گئی کیونکہ یہ تو وہی اعجاز تھا، جو کبھی جوشیلا ، ہنس مکھ ، زندگی سے بھر پور ہوا کرتا تھا۔ جس نے مجھے مایوسی کے اتھاہ اندھیروں سے نکالا تھا۔ میں نے اس سے باتیں کیں۔ وہ بہت غم زدہ تھا۔ پوچھا کہ تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا ؟ کیا کسی خوش نصیب کو ہاں میں جواب دے دیا ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر میں اُسے زندگی کا آخری دُکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔ تبھی کہا کہ میں نے کبھی کسی کو آج تک ہاں میں جواب نہیں دیا۔ میں شادی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ میرے مالی حالات بہت دگر گوں تھے۔ مجھ کو بیوہ ماں، چھوٹی بہن اور بھائی کی کفالت کرنا تھی۔ یہ جواب سن کر تھوڑی دیر کے لئے اعجاز کے لبوں پر مسکراہٹ آئی، کہنے لگا۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں مگر اب زندہ رہنے کے لئے کوئی امید باقی نہیں رہی ہے۔ میں نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دلا سا دیا کہ اُمید مت چھوڑو۔ اللہ نے چاہا تو تم ٹھیک ہو جائو گے ، پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ کبھی جس نے مجھے جینے کی اُمید دلائی تھی، آج میں اُسے جینے کی امید دلا رہی تھی۔ یہ ساری باتیں میں نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے کیں۔ اور میرے جیون ساتھی بہت صبر و تحمل اور خاموشی سے یہ سب سنتے رہے۔ گھر آکر میں نے ہر بات سے اُن کو آگاہ کر دیا، لہٰذا انہوں نے بھی اپنے مریض پر یہ ظاہر نہ کیا کہ میں ہی ان کی بیوی ہوں۔ اُن کو اپنا یہ مریض عزیز تھا۔ اُس کی دل آزاری اُنہیں منظور نہ تھی۔ اُس کا مرض آخری حدوں کو چھو رہا تھا اور وہ زندگی کی با بازی ہار چکا تھا۔ جس روز اس کی وفات ہوئی میں پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ بے شک وہ میرا محبوب نہ تھا مگر ایک اچھا دوست تو تھا۔