Friday, October 11, 2024

Mehran Ki Kamai

میں نے کل بھی کہا تھا اور آج پھر کہہ رہا ہوں کہ بند کر یہ کام دھندا۔ لوگ سوسو باتیں بنارہے ہیں کہ کمالا ایسا بے شرم ہو گیا کہ خود گھر پر پڑا ہے اور مہراں سے کمائی کروارہا ہے۔ وہ ابھی دروازے سے داخل ہوئی تھی کہ کمالا شروع ہو گیا تھا۔ اس نے ہاتھ میں تھامے آلو پیاز کے تھیلے وہیں دھر دیے اور اس کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔ اسے ابھی ہنڈیا چڑھانا تھی ، آٹا گوندھنا تھا۔ کمالے کے لیے دلیہ بنانا تھا۔ یہ سارے کام نبٹا کر کپڑے سلائی کرنا تھے۔ آج اسے راشید باجی کے کپڑے سی کر ہر حال میں دینے تھے اور بجلی تھی کہ آنکھ مچولی کھیل رہی تھی ، کام تھا کہ تعطل کا شکار ہوا جارہا تھا۔ تجھے شرم نہیں آتی شوہر کی حکم عدولی کرتے ہوۓ؟ وہ اس ڈھیٹ بنی کام میں جتی عورت کو دیکھ کر چار پائی پر پڑے پڑے چلایا تھا۔ جب پیٹ خالی اور انسان سوالی ہو تو شرم مرجاتی ہے۔ جتنا عرصہ میں نے لوگوں کے در پہ جا جا کر ہاتھ پھیلایا ہے مجھے اپنی اوقات معلوم ہوگئی ہے ۔ اس نے سوچا تھا کہ آج اسے بولنے دے گی اور خود خاموش رہے گی لیکن اگر وہ خاموش ہی رہتی تو کمالا کبھی خاموش نہ ہوتا ۔اسی لیے اسے بولنا پڑا۔ بڑی باتیں آگئی ہیں۔ بیاہ کر آئی تھی تو زبان نہیں تھی۔ آب تو کیا چاہتا ہے کہ میں بھوکی ،منگتی اور گونی بن کر گھر میں پڑی رہوں؟ میں کام بند کر دوں ۔ تو گھر اور تیرے علاج کا کیا ہوگا ؟ محنت سے کمارہی ہوں کسی سے بھیک نہیں مانگ رہی ۔ پھر اس میں کیا حرج ہے؟ حرج صرف یہی تھا کہ کمالا لوگوں کی باتیں نہیں سہہ سکتا تھا۔ بیوی کی کمائی ہضم نہیں کر پارہا تھا۔ وہ سال پہلے کمالے سے بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی تو کمالا اچھا کماتا تھا۔ اس کی سبزی کی ریڑھی تھی جو ٹھیک منافع دے جاتی ۔ گھر میں خوشحالی اور خوشی دونوں تھیں لیکن پھر تین ماہ بعد ہی کمالے کی ایک حادثے میں ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ ٹھیلا چلانے سے رہ گیا۔ کچھ رقم جمع شدہ تھی جو اس کے علاج پہ ہی لگ گئی۔ آہستہ آہستہ راشن ختم ہونے لگا۔ گھر کی چیزیں بکنے لگیں۔ جب کچھ بھی نہ بچا تو مہراں نے آگے پیچھے جاننے والوں کے آگے ہاتھ پھیلاۓ اور دو چار پیسے پکڑ لیے لیکن ایسا کب تک چلنا تھا؟ ہر کسی کی سوضروریات تھیں اور پھر محلے والے کون سا امیر امراء تھے۔ سب مزدور اور محنتی طبقہ تھا۔ اوپر سے کمالے کے سر پر نہ ماں نہ باپ، مہراں کا اپنا باپ اس کے دس بہن بھائیوں کو پال رہا تھا۔ اب اسے اور اس کے شوہر کو کیسے پالتا ؟ تبھی برابر والی خالہ جو اس کے نکاح میں کمالے کی بزرگ بن کر گئی تھیں اسے بٹھا کر سمجھانے لگیں- مرد اگرکمانے کے قابل نہ رہے تو پھر یہ کام عورت کو کرنا پڑتا ہے۔ ہاتھ چلانا۔ ہاتھ پھیلانے سے کہیں بہتر ہے۔ خالہ گھر کے حالات سے بخوبی واقف تھیں۔ مگر میں آٹھ جماعتیں پاس کیا نوکری کروں؟ کمائی صرف پڑھائی کرنے سے ہوتی تو ان پڑھ بھوکوں مرتے۔ کتنے ہی ہنر انسان کا پیٹ پالتے ہیں۔ بس محنت کی عادت ہونا چاہیے۔ کوئی ہنر تو تیرے ہاتھ بھی ہوگا ۔‘ خالہ ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ بچپن میں وہ پھپھو کے گھر جاتی تو وہ اسے سلائی مشین پر اپنے ساتھ بٹھا لیتں- ان کی دیکھا دیکھی وہ بھی ٹیڑھی میٹھی سیلائیاں لگا لیتی تھی۔ پھپھو کہتی تھیں۔ تو بچپن میں اتنی اچھی سلائی کرنا سیکھ گئی مہراں تو جب جوان ہوگی تو کتنا اچھا کام کرے گی ۔ خالہ میری پھپھو کہتی تھیں کہ میں بڑی ہوکر سلائی خوب کروں گی ۔ کیا خبر یہی میرا ہنر ہو ۔ خالہ نے اپنی بہو سے کہہ کر مہراں کو سلائی سکھا نے بٹھا دیا ۔ پھپھو واقعی جو ہری نکلیں کہ انہوں نے ٹھیک ہیرا پیچانا تھا۔ چند ہفتوں میں ہی وہ بہترین سلائی کرنے گئی تھی ۔ خالہ ہنس دی۔ تو تو بنی بنائی درزن ہے میراں- اس نے خالہ سے ادھار پر مشین حاصل کر لی۔ گھر کے دروازے پر لکھ کر لگا دیا کہ یہاں سستے میں کپڑے سلائی کیے جاتے ہیں ۔ کچھ خالہ نے کام لا کر دیا۔ کچھ خود سے آنے لگا۔ وہ سستے میں بہترین کام کر کے دیتی تو عورتیں اس سے کپڑے سلوانے لگیں۔ وہ نت نئے ڈیزائن بنا کر دینے لگی۔ دن رات سلائی مشین چلانے لگی۔ کمالا پہلے پہل تو خاموشی سے سب دیکھتا رہا لیکن محدود سوچ کے ملنے ملانے والے اس کا ذہن خراب کرنے لگے کہ وہ گھر پر بیٹھا بیوی کی کمائی کھا رہا ہے۔ یہ باتیں کمالے کی برداشت سے باہر تھیں۔ میں لوگوں کی باتیں نہیں سن سکتا۔ عورت کمانے کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کام کیلئے مرد ہوتا ہے ۔ وہ اٹھتے بیٹھے اسے ٹوکنے لگا۔ مہران سن لیتی لیکن کام چھوڑ نہیں سکتی تھی۔ اسے گھر چلانا تھا۔ عورت ہوکر گھر کا مرد بننا تھا۔ تبھی خالہ نے اس کے کہنے پر کمالے کو سمجھایا۔ وہ کمالے کے لیے ماں جیسی تھیں ۔ ان کی باتیں وہ سن کر مان جا تا تھا۔ لوگوں کے منہ دلیلوں سے بند کیے جاسکتے ۔ ہیں کمالے۔عورت بھی کما سکتی ہے جب مجبوری بن جاۓ تو ۔ کیا ہمارے دین نے عورت کو کمائی سے روکا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی خدیجہ تجارت نہیں کرتی تھیں کیا؟ جس کام کی مذہب میں ممانعت نہیں ،لوگ کون ہوتے ہیں اس پر بولنے والے ۔اور ہم ایسے لوگوں کی باتوں پر دھیان ہی کیوں دیں ۔ جو لوگ باتیں بناتے ہیں۔ وہ دوسروں کا ننگا پیٹ ڈھانپنا نہیں جانتے ۔ مہران گھر کی چار دیواری میں عزت سے کمارہی ہے۔ اللہ نے کمائی کو حلال حرام میں بانٹا ہے ۔ مرد اور عورت میں نہیں ۔ جو بھی حلال کماتا ہے۔ سر آنکھوں پر بٹھایا جا تا ہے۔ کمالے کو خالہ کی باتوں پر چپ سی لگ گئی اور اس کی چپ اس دن ٹوٹی جب اس کے دوست آۓ بیٹھے تھے۔ مہران اس کے لیے کچھڑی بنارہی تھی جب اس کے کانوں میں کمالے کی آواز پڑی۔ جب اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو کمانے سے منع نہیں کیا تو ہم کون ہوتے ہیں؟ محنت کے کسی کام میں عار نہیں ہے۔ مجبوری میں عورت گھر سے نکل سکتی ہے پھر مہران تو گھر بیٹھے سلائی کر رہی ہے۔ دوستوں کے جانے کے بعد مہراں کھچڑی لائی تھی۔ آج تو نے میرے کام پر مان کر کے میرامان بڑھا دیا۔ جہالت سے بڑی کوئی گمراہی نہیں اور جب اس کا ادراک ہوجاۓ تو اسے دور کر لینا چاہیے۔ مہران نے مسکرا کر کھچڑی کمالے کی جانب بڑھائی جو مطمئن سا اسے دیکھ رہا تھا۔

Latest Posts

Related POSTS