Sunday, October 6, 2024

Mehrn Phuphoo

میں نے جب سسرال میں قدم رکھا تو سب سے زیادہ خدشات مجھے مہرن پھوپھو کی وجہ سے لاحق تھے۔ رہی سہی کسر دوستوں اور کزنز کی طرف سے بھیجی گئی میمز اور ویڈیوز نے پوری کر دی۔ میرا واٹس ایپ تو ان دنوں سسرال اور خاص طور پر پھر پھوپھو سے متعلق خطرناک پیغامات سے بھر چکا تھا، فنی ویڈیوز میں سسرال کے مظالم اور پھوپھیوں کے خطرناک تیور دکھائے جاتے تو وہ فنی ویڈیوز ، میرے لیے ہورر موویز سے زیادہ دل دھڑکانے والی ثابت ہوئیں ۔ پتا نہیں کس نے یہ ٹرینڈ شروع کیا تھا کہ رشتے داروں اور خاص طور پہ پھوپھیوں کو بناوٹی اور غضب ناک بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ خیر ان دنوں میرے سب سے زیادہ ڈر کا باعث سسرال نامی گورکھ دھندا اور خاص طور پہ مہرن پھوپھو کا وجود تھا بد قسمتی سے مہرن پھوپھو طبیعت کی خرابی کی وجہ سے بارات کے ساتھ نہ آ سکیں ۔ میری دوست عالیہ نے تو پورے یقین سے اپنا بیان جاری کر دیا تھا اور تو اور آواز بھی دھیمی نہیں رکھی۔ یہ لو بھئی یہ تمہاری مہرن پھوپھو تو بھتیجے کی بارات لینے بھی نہیں آئیں۔ ضرور کسی نہ کسی بات پر ناراض ہو کر بیٹھی ہوں گی۔ ہاں جی اور نہیں تو کیا ؟ نوے فیصد پھوپھیوں کے یہی تو حالات ہیں عین موقع پر دغا دے جانا اور وجہ یہ ہوگی کہ مجھے اچھا سوٹ نہیں دلایا گیا۔ دولہا کی خالہ کا زیادہ اچھا ہے یا پھر یہ اعتراض ہوگا کہ دولہا کے ساتھ سجی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر جانے کا حق پھوپھو کا تھا۔ ممانی کیوں بیٹھ گئی ہیں لوجی میں تو نہیں جاتی ۔ یہ میری بچپن کی سہیلی نازیہ کا تبصرہ تھا۔ میں تو دلہن بنی ہوئی تھی۔ بولی تو کچھ نہ سکی لیکن دل میں ان کے ایک ایک لفظ کی تائید ضرور کر رہی تھی۔ عالیہ نے اور افسانوی سچویشن بتا کر تو مجھے ڈرا دیا۔ اس کے بقول مہرن پھوپھو اپنی بیٹی کا رشتہ ناصر (میرے شوہر نام دار ) سے کرنا چاہتی ہوں گی۔ جو کہ ممکن نہ ہو سکا۔ اب مجھے وہ قدم قدم پہ مشکلات میں ڈالیں گی۔ دس پندرہ منٹ پریشان ہونے کے بعد مجھے یاد آیا مہرن پھوپھو کی تو کوئی اولا د ہی نہیں۔ بارات روانہ ہوئی تو عالیہ اور نازیہ پیچھے رہ گئیں۔ البتہ ان کی باتوں کی بازگشت ، سائیں سائیں کرتے کانوں میں ابھی بھی گونج رہی تھی۔ مختلف رسموں کے بعد مجھے کمرے میں پہنچا دیا گیا تو تب مہرن پھوپھو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائی ہوئی میرے پاس آئیں۔ نئی زندگی کے لیے بہت سی دعائیں اور نصیحتیں کیں لیکن اب یاد نہیں آ رہا، انہوں نے کیا کہا تھا۔
☆☆☆

خاندان بھر اور ناصر کے دوستوں کے گھر دعوتوں کا سلسلہ نمٹا تو کچن کی ذمے داری میرے ناتواں کندھوں پر ڈالی گئی۔ میں ان دنوں سب سے زیادہ محتاط مہرن پھوپھو سے رہتی تھی۔ ساس میری نیک فطرت اور نرم دل کی مالک تھیں۔ مجھے ایسا لگتا تھا ضرور مہرن پھوپھو نے ان کو ٹف ٹائم دیا ہوگا۔ اپنی ساس اور اپنا آپ مجھے معصوم عوام کی طرح لگتا اور مہرن پھوپھو حکمرانی کرتی ہوئی تخت پر بیٹھی ملکہ- مہرن پھوپھو کو اپنی شادی کے کچھ مہینوں بعد ہی طلاق ہوگئی تھی تب سے یہ ناصر لوگوں کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ سرکاری اسکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں۔ میرے ساتھ محبت سے پیش آئی تھیں لیکن نئی دلہن کو تو ایسا ہی پروٹو کول ملتا ہے ناں۔ اصل رنگ بھی دکھا ہی دیں گی۔ خیر میں بات کر رہی تھی کچن کی ذمہ داریوں کی۔ جب پہلی دفعہ میں نے کھانا بنایا تو مجھے یقین تھا مہرن پھوپھو غلطیاں نکال کر مجھے بے عزت کریں گی۔ خود وہ بہت اچھی کوکنگ کرتی تھیں لہذا اپنے نمبر تو بڑھائیں گی ناں ۔ دسترخوان لگا کر سب نے کھانا شروع کیا تو بھی میری نظر مہرن پھوپھو پرتھی۔ لیکن یہ کیا سب کے ساتھ ساتھ مہرن پھوپھو نے بھی کھانے کی دل کھول کر تعریف کی کھانے کے بعد انہوں نے مجھے نازک سا چاندی کا بریسلٹ گفٹ کیا۔ اتنا پیارا بریسلٹ تھا کہ میں ان کی پسند کی داد دیے بنا نہ رہ سکی لیکن دل ہی دل میں۔ ان کے سامنے میں نہیں بولی۔ مجھے جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ آج تو اچھی بن رہی ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔ اس وقت میری یہی سوچ تھی۔
☆☆☆

زندگی اب معمول پر آ چکی تھی۔ گھر کی مصروفیات زیادہ تھیں لہذا میں بھی ان میں کھو کر رہ گئی۔ مہرن پھوپھو بھی کام میں ہاتھ بٹا دیتی تھیں۔ موسم گرما کی چھٹیاں تھیں تو ان کا وقت بھی گھر پر گزرتا تھا۔ میں نے زیادہ بات بھی نہیں کی تھی۔ ایک چپ اور سو سکھ کا فارمولا میں نے پلو سے باندھ لیا تھا لیکن اس پر عمل ، صرف مہرن پھوپھو کے لیے کرتی تھی۔ وہ بات کرتیں بھی تو میں ہوں ہاں میں جواب دیتی ۔ ساس، امی، سسر اور ناصرسے میں نہ صرف باتیں کرتی تھی، بلکہ ناصر کا دماغ تو میں چاٹ ہی لیتی تھی ، اس وجہ سے انہوں نے میرا نام بی بی سی کا نمائندہ رکھا ہوا تھا۔ بولنا شروع کرتی تو منہ بند کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن لگتا۔ مہرن پھوپھو بظاہر تو محبت کرنے والی تھیں لیکن میری زیرک نگاہوں نے چانچہ لیا تھا وہ کسی بھی معاملے میں اپنی رائے نہیں دیتی تھیں۔ سب کی سنتی تھیں اور مسکرا دیتیں مجھے تو ان کا ایسا کرنا غرور ہی لگا۔ میسنی ہیں بھئی۔ چپ چاپ مجھ سے تو نہیں ہوتی منافقت جو دل میں ہو بولتی ہوں۔ نازیہ کی کال آئی تو میں نے مہرن پھوپھو کے لیے ان خیالات کا اظہار کرنا ضروری سمجھا۔
☆☆☆

وقت گزرتا گیا۔ کتنی ہی بہاریں آئیں گزر گئیں ۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ میں ان خوش نصیبوں میں سے بھی ، جس کا پالا روایتی سسرال سے نہیں پڑا۔ اچھے شریف اور قدر کرنے والے لوگ تھے۔ میرے ننھے شہزادوں ابوبکر اور عمر میں تو گھر والوں کی جان تھی۔ مجھے تو وہ اپنے پیچھے لگائے رکھتے تھے۔ جڑواں تو تھے مگر دونوں ، گھر کے مختلف کونوں میں کوئی نہ کوئی شرارت کرتے ہوئے پائے جاتے۔ ان کے ساتھ مصروف ہو کر میں مہرن پھوپھو سے متعلقہ خدشات اور احتیاطی تدابیر سے غافل ہو چکی تھی۔ مجھے وقت کے ساتھ ساتھ یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ مہرن پھوپھو بے ضرر تھیں۔ ان کی طرف سے مجھے کبھی بھی ہلکی سی پریشانی کا احساس بھی نہیں ہوا تھا۔ معمولات زندگی میں ہلچل تب ہوئی جب میں نے ناصر سے جاب کرنے کی بات کی ناصر نے تو پوری بات بھی نہیں سنی اور انکار داغ دیا۔ اونہہ ! روایتی مرد ، بیوی کو خود سے آگے جاتے کہاں دیکھ سکتے ہیں۔ بس بچے پالو اور ان کے ماں باپ کی خدمتیں کرو۔ ملا کی دوڑ مجھ تک اور میری نازیہ تک ۔ اس نے بھی میری فریاد کو سیریس نہیں لیا اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کال کاٹ دی۔
☆☆☆

بہت دنوں بعد، میکے جانا ہوا تو وقتا فوقتا سب کی کالز آتی رہیں۔ مجھ سے زیادہ گھر والے بچوں کو مس کر رہے تھے۔ ان دنوں مجھے احساس ہوا تھا کہ میرا کھونٹا تو مضبوط ہو چکا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی میرے ہونٹوں پر مسکان بکھر گئی۔ ناصر کی کال آئی تو میں نے دوبارہ جاب کی بات کی۔ بحث طویل ہوئی تو ان کا لہجہ تلخ ہو گیا۔ میں نے بھی غصے میں کال کاٹ دی۔میری ڈگری ضائع ہو رہی ہے- اتنےعرصے بعد جابز اناؤنس ہوئی ہیں۔ سنہری موقع ہے میں تو کبھی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دوں گی۔ ناصر کی محتاج نہیں ہوں میں اپنا اور بچوں کا پیٹ پال لوں گی۔ گھر میں قید کر کے رکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے یہ صلہ دیا میری اتنے سالوں کی محبت اور خدمت کا ۔ امی اور بہن کے سامنے میں نے دل ہلکا کیا۔ میری بہن کے مطابق بھی میں حق پر تھی۔ مہنگائی عروج پہ ہے۔ دو بچوں کا ساتھ ہے۔ کماؤ گی تو بچوں کی اور اپنی زندگی ہی آسان ہوگی ۔ بہن کی بات میں نے پلے باندھ لی اور ناصر لینے آئے تو جانے سے انکار کر دیا۔ نوکر ہوں میں اور نہ ہی ان کے حکم کی غلام، امی کے سمجھانے پر تو میں زیادہ ہی چڑ جاتی تھی۔ ساری غلطی ہماری ماؤں کی ہے۔ ڈولی جا رہی ہے اب جنازہ ہی اٹھے، جیسی فضول نصیحتیں کر کے ہمیں ساری زندگی دب کر جینا سکھاتی ہیں۔ میں ثابت کروں گی کہ میں ناصر کے بغیر بھی اچھی زندگی گزار سکتی ہوں۔ بچے میں خود پال لوں گی ۔ اب وہ زمانے گزر گئے جب بچے پاؤں کی زنجیر ہوتے تھے۔ میں نوکری کروں گی۔ بچوں کا خرچ اٹھاؤں گی۔ اچھی زندگی دوں گی انہیں۔ بلکہ ہر ماں اپنی بیٹی کو یہی سکھا کر بھیجے شوہر خدا نہیں ہے۔ اسے اس کی حد میں رکھیں۔ ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض نہیں۔ ماں باپ کی وجہ سے ہی تو ناصر مجھے جاب نہیں کرنے دیتے۔ میں گھر سے جاب کے لیے جاؤں گی تو بے دام کی غلام ہاتھ باندھی لونڈی کہاں ملے گی ان کو… اکیسویں صدی کی لڑکی ہوں میں سر اٹھا کر جینے والی، روشن خیال با شعور پانچ سال خدمت کی ۔ محبت کی۔ دو پھول جیسے بیٹے دیے پھر بھی، یہ قدر ہے میری ، صرف ایک خواہش کی تو ناصر نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔ اب آئیں تو گیٹ سے ہی واپس کر دینا۔ میری شرط منظور ہے تو ٹھیک ورنہ طلاق کے کاغذات مجھے بھیج دیں نہیں رہنا میں نے یار نہیں رہنا میں نے ایسے تنگ نظر مرد کے ساتھ۔ اپنا آپ دکھا ہی دیا ناصر نے بھی اونہہ- بھائی کے سامنے میں نے خوب بیانات داغے، امی نے تو میرے روشن فرمودات سن کر دل ہی تھام لیا۔ ان کے بقول میں ناشکری تھی جو اچھے سسرال، نیک شوہر اور پھولوں جیسے بیٹے ہونے کے باوجود بے جا ضد لگا کر بیٹھ گئی تھی۔ لیکن میں پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا ۔ میں تو عجیب ہی گئی تھی۔ طلاق کو تمغہ سمجھ کر سینے پہ سجانے کو تیار میری زندگی میری مرضی کا لوگو اپنا کرمیں تو ان دنوں حقوق نسواں کی علم بردار بنی ہوئی تھی اور پہلی آواز اپنے حق کے لیے اٹھائی۔ ناصر نے کئی کالزکیں لینے آئے۔ ساس ، سر آئے مگر میری ایک ہی ضد ناصر میری جاب کے حق میں نہیں تھے یا شاید اب انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ ساس سر کے سمجھانے پر بھی نہ راضی ہوئے امی کے گھر مجھے تقریبا بیس دن ہو گئے تھے، جب بیل ہوئی۔ تین بجے سہ پہر کا وقت تھا۔ میرے لبوں کو مغرور مسکراہٹ چھو گئی۔ مجھے لگا تھا کہ ناصر آفس سے واپسی پر آ گئے ہوں گے۔ آخر ہار مان ہی لی چارے نے۔ ظاہر ہے میرے جیسی بیوی کہاں ملے کی انہیں۔ بھائی نے گیٹ کھولا اور میں جملے ذہن میں ترتیب دینے لگئی۔ لیکن یہ کیا بھائی کے پیچھے مہرن پھوپھو۔ پھوپھو نے لاؤنچ میں قدم رکھا۔ اتنے عرصے میں وہ پہلی دفعہ آئی تھیں۔ بچوں کو پیار کر کے وہ میرے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ میرے ماتھے پہ بوسہ دیا تو میرا دل بھی تھوڑا سا بھر آیا۔ ناصر کی بے جا ضد ، اپنی جاب سے ملنے والی سہولیات بچوں کا مستقبل، مہنگائی، اخراجات اور اپنے حق میں دلائل میں نے سب مہرن پھوپھو کو بتا دیے۔ اتنی لمبی بات میں نے پہلی دفعہ ان سے کی تھی۔ انہوں نے توجہ سے میری پوری بات سنی تھی۔ میں جب بول بول کر تھک گئی بات پوری ہوگئی اور چپ ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ ، ہاتھوں میں تھام لیا۔ سعدیہ ! میری کوئی بیٹی ہوتی تو وہ بالکل تمہاری عمر کی ہوتی ۔ برسوں پہلے میں نے اپنا آشیانہ اپنے ہاتھوں اجاڑا تھا۔ میرے شوہر نیک فطرت تھے۔ گھر والے بھی اچھے سلجھے ہوئے لوگ تھے۔ آج یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ساری غلطی میری تھی۔ ان کی محبت اور شرافت کو میں اپنی نوکری سے مرعوبیت سمجھتی رہی۔ مجھے یہ لگتا تھا کہ وہ میری تعلیم اور میری نوکری سے دبے ہوئے ہیں میں شوہر کی محتاج نہیں۔ اپنا کماتی ہوں۔ مجھے سسرال والوں کی خدمتوں خوشامدوں کی ضرورت نہیں۔ چھوٹی چھوٹی ضدوں سے بڑھ کر میں نے الگ گھر کی بڑی ضد باندھ لی تھی۔ میرا شوہر یہ نہ کر سکا تو میں نے بڑھ چڑھ کرطلاق کا مطالبہ کیا تھا اور آج تمہارے سامنے ہوں۔ بھائی ، بھابھی، ناصر مجھے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں لیکن اس گھر میں مجھے حق ملکیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ میں کبھی کسی کے معاملے میں بول نہیں سکتی۔ میرا دامن خالی ہے ساتھی ٹیچرز اپنے بیٹوں، شوہر اور پوتے پوتیوں کے ساتھ آتی ہیں تو اسکول کا گیٹ عبور کرنا میرے لیے میلوں کی مسافت بن جاتا ہے۔ ناصر کا میں ساتھ نہیں دے رہی لیکن میری بچی! اتنا سوچو کہ وہ تمہارا بھلا چاہتا ہے۔ چھوٹے بچوں کا ساتھ، گھر کی ذمے داریاں ہیں۔ باہر کے بوجھ سے وہ تمہیں آزاد رکھنا چاہتا ہے۔ تم گھر کی ملکہ ہو۔ نوکر یا غلام نہیں۔ وہ اچھا کماتا ہے تمہاری ہر خواہش پوری کرتا ے۔ ایسے ضد لگاؤ گی اور شیطان کو داؤ چلانے کا موقع مل جائے گا تو ایک اور مہرالنساء برسوں بعد کسی سعدیہ کو سمجھا رہی ہوگی ۔ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی میاں ، بیوی میں جدائی ڈال کر ہوتی ہے ضد لگا کرانا کو جتوا کر تم اور ناصر خوش ہو جاؤ گے لیکن بچے باپ کے سائے سے محروم ہو جائیں گے۔ تمہارا مطالبہ غلط نہیں تو ناصر کی باتیں بھی درست ہیں۔ تم شوق پورا کر لینا۔ بچے اسکول جانے لگیں تو تمہارے لیے بھی آسانی ہو جائے گی۔ تھوڑا سا وقت صبرسے کاٹ لو میرا بچہ اپنا آشیانہ بچالو۔ بے ترتیب سے ٹوٹے پھوٹے جملے بول کر مہرن پھوپھو چپ کر گئیں ۔ ان کی آنکھوں کی ویرانی نے میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگا دی۔ ایسا بھی ہو سکتا تھا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا میں نے بچوں کو اٹھایا اور مہرن پھوپھو کی ساتھ واپس اپنے گھر اپنی جنت میں قدم رکھا بچے تو خوش ہی تھے اپنا دل بھی باغ باغ ہو گیا۔ سب سے مل کر میں ناصر کا انتظار کرنے لگی۔ اتنی محبت کرنے والے خیال رکھنے والے شوہر کا مسکرا کر خیر مقدم کرنا بھی ضروری تھا اور مجھے یقین تھا، وہ مجھے خوشی اور بے یقینی سے اپنی پناہوں میں لے لیں گے۔ غلط میں تھی۔ معافی مانگنا بھی میرا کام تھا۔
☆☆

Latest Posts

Related POSTS