Friday, September 20, 2024

Mein Bechari

پچھلی بار جو وہ ”وہ“ اور ”وہ“ والے ناول ادھورے رہ گئے تھے وہ بلآخر میں نے کئی ضروری کاموں کو پس پشت ڈال کر مکمل کر ہی لیے قسمت اچھی تھی جو میں نے چھ سات افسانے بھی لکھ لیے اور یوں دوماہ میں کافی ساری تحاریر لکھ کر ارسال کردیں۔ اب حال یہ ہے کہ ناول مکمل ہو گئے تو گھر کے کام ادھورے رہ گئے شوق کی خاطر بھی کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں یہ تو ان دنوں کوئی میرے گھر میں جھانکتا تو دنگ رہ جاتا کہ یہ ڈائجسٹ رائٹر شبینہ گل کا گھر ہے۔ اب ڈائجسٹ رائٹرز انتہائی سگھڑ اور سلیقہ مند بہو اور بیوی لکھنے کے لیے مشہور مانی جاتی ہیں تو ایسے میں میرا کباڑ خانے کو مات دیتا گھر مجھے اچھا خاصا شرمندہ کروا سکتا تھا۔ بس اسی لیے تو میں اپنی ہیروئن کو ضرورت سے زیادہ سلیقہ مند اور سگھڑ نہیں لکھتی ۔ میں نے خود کو تاویل دے کر بہلایا کہ کم از کم مجھ پر میرا ہی لکھا کوئی ناول سوالیہ نشان نہیں بن سکتا۔ (باقی رائٹرز اپنے لکھنے کی خود ذمہ دار ہیں) خیر بات ہورہی تھی کام کاج کی عید کے بعد بچوں کے امتحانات سے فراغت پا کر سب کہانیاں مکمل کیں اور جب کہانیاں مکمل ہو چکیں تو بچوں کے امتحانات ایک بار پھر سر پر تھے۔ اب بھلا یہ کیا تماشا ہے، فرسٹ مڈ ٹرم اور پھر سیکنڈ مڈ ٹرم ایگزام ابھی سانس نہیں لی ہوگی کہ فائنل ٹرم آجائیں گے۔ میں بے چاری بس ان تمام مظالم پر بڑبڑا ہی سکتی ہوں، اس سے زیادہ میرے اختیار میں بھلا کچھ ہے ہی کہاں۔ میاں جی کو یہ مژدہ سنایا تو بڑے سکون سے پوچھنے لگے۔ تو اگلے سال معاذ کون سی کلاس میں پروموٹ ہو جائے گا؟ بس پھر دل چاہا کہ سامنے پڑا کسٹرڈ کا پیالہ اٹھا کر ان کے سر پر انڈیل دوں بھلا ہو میری بولتی بلکہ چیختی چنگھاڑتی آنکھوں کا جو میری زبان پر آنے سے پہلے میرا مدعا اپنے اندر سمو کر مقابل کو سب سمجھا دیتی ہیں، انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر پیالہ اٹھایا اور یہ جا وہ جا پھر ہوا یوں کہ بچوں کے امتحانات پوری شان سے شروع ہو گئے اور میں نے ایک نیا خواب بننا شروع کر دیا۔ شیخ چلی شاید میرے پرکھوں میں ہی کہیں رہے ہوں گے جو ان کا اثر مجھ میں بھی آ گیا تھا۔ میں جاگتی آنکھوں سے حسین سپنے بنے کی عادی ہوں۔ چھوٹی تھی تو کہانیاں بن کر سہیلیوں کو سناتی تھی پھر جہاں کسی موڑ پر پھنس جاتی اور کوئی ڈرامائی موڑ سمجھ میں نہ آتا تو باقی کل کا نعرہ لگا کر گھر بھاگ جاتی اور پیچھے سب سہیلیاں مارے سپنس کے پیچ و تاب کھا کر رہ جاتیں پھر وہ پوری رات اسی ڈرامائی موڑ کے بارے میں سوچتے ہوئے گزر جاتی کہ کل کہانی کو آگے کیسے بڑھاؤں گی۔ تو بات ہو رہی تھی شیخ چلی کی میرا مطلب ہے شبینہ گل دا رانٹر کے کھلی آنکھوں کے خوابوں کی تو ان دنوں میں آرٹ اینڈ کرافٹس کے خواب دیکھ رہی تھی یوٹیوب سے درجنوں پانچ منٹ کرافٹس کی وڈیوز ڈاؤن لوڈ کر رکھی تھیں اور ان کے لیے سامان کی خریداری کا بھی منصوبہ دل ہی دل میں بن رہا تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ اس قدر کھڑاگ میں بچوں کے سامنے پھیلاؤں گی تو کرافٹس تو خاک بنیں گی، الٹا مصیبت ہی بن جائے گی۔ اب بھلا اس کا کیا حل ہو۔ ایک روز دل کی مراد بر آئی اور میری بہن نے فرمائش کر دی کہ اس بار دسمبر کی چھٹیوں میں بچوں کو میرے پاس پشاور بھیج دو۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں اور شبینہ کیا چاہے ایک بندی جو بچوں کا ذمہ اٹھائے میں تو جھٹ راضی ہوگئی۔ جب میاں صاحب کو بتایا تو انہوں نے اعتراض جڑ دیا۔ معاذ اور اسید کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر سارہ کو نہیں بھیج سکتے، یہ ابھی بہت چھوٹی ہے، ہمیں یاد کر کے روئے گی، بیمار ہو جائے گی۔ میں تو جل ہی گئی۔ بھلا مرد کہاں عورت کی آزادی اور خود مختاری برداشت کرتا ہے۔ میں نے بے چارگی سے سوچا۔ سارہ کا تو نہیں پتا البتہ آپ ضرور اس کی یاد میں بیمار ہو سکتے ہیں۔ میرے جلے کٹے جواب پر موصوف کھلکھلا کر ہنس دیے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے تو بہ استغفار کرنے لگے توبہ توبہ ایسی ماں میں نے پہلی بار دیکھی ہے جو اپنی ہی اولاد سے حسد کرتی ہے یا اللہ مجھے معاف کر دینا۔ ایسے معافی نہیں ملتی اور میں کیوں نہ جلوں ایسا پیار کبھی میرے لیے تو نہیں امنڈتا جیسا اپنی اولاد کے لیے ظاہر کرتے ہیں جب میں امی کے گھر رہنے جاتی ہوں اس وقت نہیں کہتے کہ نہ جاؤ میں تمہیں یاد کروں گا۔ ایک بار پھر قہقہ اور میں آگ بگولہ۔ تم جاتی ہی کب ہو جاؤ گی تو ایک دورات رکو گی تو ہی مجھے یاد کرنے کا موقع ملے گا ناں۔ ہاں ہاں آپ تو تنگ ہیں ناں مجھ سے، ہر وقت یہی بات بس جاؤ چلی جاؤ، ہاں تو ناشکری خاتون دیکھو ناں کتنا اچھا شوہر ملا ہے تمھیں جو میکے جانے سے روکتا ہی نہیں بیویاں تو ترستی ہیں میکے جانے کو اور ان کے شوہر انہیں جانے نہیں دیتے، اور ایک تم ہوں۔ ان کو تو موقع مل گیا اپنی مدح سرائی کا۔ ہونہ اچھا شوہر، میں کلس کر رہ گئی۔ اچھا ایسا کرو بچوں کی پیکنگ کر دو ایک ہفتے کے لیے انہیں بھیج دو، کچھ تمہارے دماغ کو بھی سکون ملے اور کچھ ہم بھی آرام کر لیں گے مگر سارہ کو نہیں بھیجنا۔ میں نے بھی سوچا کہ چلو صبح صبح باتھ روم کی پریڈ اور ناشتہ ناشتہ کے شور سے تو کچھ دن بچت ہوگی۔ سارہ کو تو قابو کر ہی لیں گے۔ صبر شکرکر کے بیٹوں کی پیکنگ کرنا شروع کردی۔ دیکھو ذرا کیسی ماں ہے، بچوں کو دور بھیجنے پر کتنی خوش ہے، کوئی پروا ہی نہیں۔ اسامہ صاحب نے ایک بار پھر چٹکلہ چھوڑ کر کنکھیوں سے مجھے دیکھا تو میں سارے کپڑے پٹخ کر سیدھی ہوئی۔ میں صرف ماں نہیں ہوتی، ایک انسان بھی ہوتی ہے۔ اسے بھی آرام چاہیے ہوتا ہے اب آپ مرد تو باہر نکل جاتے ہیں دوستوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں یا جاب پر بھی جائیں تو بچوں کو تو ساتھ نہیں لے کر جاتے اور ہم مائیں تو بس ایک باتھ روم ہی بچوں کے بغیر جاتی ہیں باقی تو ہر جگہ لائسنس کی طرح بچوں کو ساتھ لے جانا پڑتا ہے کچھ وقت تو ہمیں بھی آرام ملے ناں اب اگر میری بہن نے مجھے آرام دینے کا سوچ ہی لیا ہے تو آپ کو بھلا کیا مسئلہ ہے؟ میں بھی کوئی اپنی موج مستی کی خاطر تو نہیں بھیج رہی ہیں ہزار کام ادھورے پڑے ہیں جو مکمل کرنے ہیں اور وہ بچوں کی موجودگی میں نہیں ہو سکتے ۔ میں نے مدیر بن کر کہا تو یہ زور شور سے سر ہلاتے ہوئے اپنے دفتر جانے کے لیے کپڑے پسند کرنے لگے- اور کوئی کام کرو یا نہ کرو، وہ جوکچن کیبنٹ میں کباڑ اکٹھا کر رکھا ہے اسے ضرور ٹھکانے لگا دینا یا مجھے بتا دینا کباڑیئے کو دینا ہو تو۔ اچھے خاصے پیسے مل جائیں گے۔ ایک پیزا تو آرام سے آجائے گا۔ مجھے تو جیسے کرنٹ لگا۔ او ہیلو وہ کباڑ نہیں ہے، نہ ہی میرا اسے بیچنے کا کوئی ارادہ ہے۔ تو کیا کباڑیے کی دکان کھولنی ہے؟ ایک اور دل جلانے والا سوال میں ضبط کر گئی۔ اسی سامان کو تو استعمال کرنا ہے، گھر کی آرائش کرنا ہے نت نئی چیزیں بنانی ہیں۔ میں خیالی پلاؤ کھا کر جھومنے لگئی اور ان کا میٹر گھومنے لگا۔ یا اللہ میں کہاں جاؤں بلکہ چلا ہی جاؤں مطلب کباڑ کے سامان سے گھر کی آرائش، او کون لوگ ہوتسی، بلا آخر پسند کردہ کپڑے نکال کر انہوں نے دہائی دی تو میں نے جلی کٹی نگاہ ان پرڈالی۔ ہاں تو اس کو سگھڑاپا کہتے ہیں فالتو اشیاء کو کارآمد بنا کر گھر سجانا، ایسے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جائے۔ میں اپنے خیالی سگھڑاپے میں جھوم رہی تھی۔ دنگ رہ ہی نہ جائیں۔ یہ بڑبڑا کر باہر نکل گئے مگر میں بھی ان کے پیچھے ہی تھی۔ اب چند گھنٹے تو ان کے گھر میں گزرتے ہیں، سو یہ گھر کے جس کونے میں بھی جائیں میں پیچھے پیچھے چلتی باتیں کرتی جاتی ہوں۔ وقت کے بہترین استعمال کا طریقہ لوگوں کو مجھ سے سیکھنا چاہیے۔ آخر اس قدر سگھڑ ہوں ، ایک لمحہ بھی رائیگاں نہیں جانے دیتی۔ خیر میں ان کے پیچھے پیچھے چل دی۔ یہ تیار ہو کر کمرے سے نکلے تو میں پھر بولی۔ بات سنیں۔ یہ تمام مشرقی شوہروں کا مشترکہ نام ہے۔ وہ ذرا مالک مکان کو تو کال کریں ناں۔ وہ جو تیار ہوکر ٹائی کی ناٹ کس رہے تھے، میری بات سن کر بد حواسی میں کچھ زیادہ ہی کسی دی۔ یا اللہ خیر اب یہ مالک مکان کو کس خوشی میں کال کروں وہ بھی مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ سمجھے گا میں نے کرایہ جمع کرا دیا اور تنخواہ کا ابھی دور دور تک کوئی اتا پتا نہیں۔ میں نے برا سامنہ لیا۔ یہ اسی طرح میرے خیالی پلاؤ کے ہر نوالے پر کیڑے نکالتے ہیں کتنی بار تو بتایا ہے اپ کو کہ وہ جو اوپر اس کا سامان پڑا ہے اس سے کچھ چیزیں مجھے چاہیے اوپر تو ٹوٹی ہوئی چارپائی اور خراب ہوئے پنکھے پڑے ہیں اب ان سے کون سی ارائش ہونی ہے بھئی میں نے حقیقت سر پیٹ لیا تو یہ سہم گئے ارے بھائی دھیان سے ابھی میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ دوسری لے کر اؤں یہ دوسری والی حسرت ہر شوہر کی نوک زباں کا امرت بنی رہتی ہے میں نے بھی بری طرح سے انہیں گھورا- اچھا اب بس بھی کریں سنجیدہ ہو جائیں اوپر کچھ پی وی سی پائپس اور لکڑی کے ٹکڑے پڑے ہیں اس سے کہیں میری بیوی کو ضرورت ہے اس کے بلا کس کام کا یہ سب کچھ وہ منع نہیں کرے گا انہوں نے دکھی نظروں سے مجھے دیکھا اور وہ جو کچن کیبنٹ میں سارا کے دودھ کے خالی ڈبے ان کے ڈھکن پلاسٹک کے چمچ اور کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کا ڈھیر لگا ہے ان کا کیا اف ہو وہ سب کچھ استعمال کرنا ہے نا ایک بار بچے جائیں تو صحیح میں کمر کس کر میدان میں آ جاؤں گی انہوں نے بغور میری کمر کا جائزہ لیا اور بولے کمر تو کسی جا سکتی ہے مگر کمرہ نہیں بس ایک مرتبہ پھر یہ اگے اگے اور میں پیچھے پیچھے تھی-

میرے شیخ چلی دماغ نے ایک اور پلاؤ پکایا اور میں نے اپنی بچپن کی سہیلی ہونا کو فون ملا لیا ہم دونوں کی دوستی ساتویں جماعت میں ہوئی اور ایسی ہوئی کہ پھر ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہوئے ہم نے کالج میں بھی اکٹھے ہی داخلہ لیا میری شادی کے بعد اس سے ناطہ نہیں ٹوٹا اس لحاظ سے وہ میری 24 سال پرانی سہیلی تھی وہ جسے بندہ کھل کر گالیوں اور کوسنے دے اور وہ ڈھیٹ بنی رہے ویسی دوستی ہے ہماری بات کا اغاز تانوں سے ہوتا ہے اور اختتام گالیوں پر چونکہ اس کی ابھی شادی ہوئی نہیں تو میں اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہوں- اوئے سن دسمبر کی چھٹیوں میں کیا پلان ہے کیسا پلان میرے بچے چھٹیاں منانے اپنی خالہ کے گھر جا رہے ہیں یار میرے لیے تو سنہری موقع ہے میں چاہتی ہوں ایک دن ہم دونوں مل کر انجوائے کریں میں پورا دن تمہاری طرف گزاروں اور ہاں تم نے اگر اپنے کلب ولب جانا ہے تو چلی جانا مجھے ہیٹر لگا کر کمبل دے دینا میں اپنی نیند پوری کر لوں گی- تب تک حنا بی بی دراصل عنقریب کراٹے بلیک بلٹ ہونے والی ہیں اس سے پہلے محترمہ نے فٹنس جم جوائن کر کے خود کو ایسا فٹ کیا کہ جب دیکھتی ہوں جل کر بھسم ہو جاتی ہوں اب وہ میری سہیلی کم اور بیٹی زیادہ لگتی ہے اب کراٹے کر کے مزید جلا رہی ہے کیونکہ میرا بھی یہ بچپن کا شوق تھا جو پورا نہ ہو سکا خیر بات ہو رہی تھی حنا کے گھر جانے کی محترمہ فراخ دلی سے بولی ہاں ضرور اؤ سارا بھی جا رہی ہے کیا- یار میں تو کہہ رہی ہوں اسے بھی بھیج دیتے ہیں لیکن اس کے ابا نہیں مان رہے کہتے ہیں چھوٹی ہے بتاؤ بھلا یہ چھوٹی ہے پر پوری بلا ہے جو کام میں نے سوچے ہوئے ہیں وہ تو یہ بھی نہیں کرنی دے گی مجھے- چل چھوڑ یار لے انا اسے بھی کھاتی پیتی رہے گی کارٹون دیکھ لے گی بھائی کے بچوں کے ساتھ کھیل لے گی ہم اپنا انجوائے کریں گے ایسا کرتے ہیں کہیں باہر چلے جائیں گے سارہ کو پارک میں گھما پھرا دیں گے لنچ بھی کہیں باہر ہی کر لیں گے مال چل کر ونڈو شاپنگ کر لیں گے کیا خیال ہے اس تجویز پر تو میری رال ٹپک پڑی واہ واہ صدقے جاؤں کیا پلان بنایا ہے پر باقی سب تو ٹھیک ہے یہ مال والا ائیڈیا کچھ بھایا نہیں- بھئی اتنا پیسہ نہیں ہے میرے پاس کہ اتنے بڑے مال سے شاپنگ کروں اور خالی خولی ونڈو شاپنگ بھی کوئی اچھی بات تو نہیں- ارے یار وہاں سارے لوگ کوئی شاپنگ کرنے تھوڑی جاتے ہیں دو چار چیزیں خریدتے ہیں فوڈ کورٹ میں کھانا کھاتے ہیں ادھر ادھر سلفیاں بناتے ہیں ٹرالی میں چند چیزیں ڈالتے ہیں اور باہر جاتے وقت ٹرالی کسی کونے میں یونہی چھوڑ جاتے ہیں اس بات پر میرا قحقہ تو بنتا تھا ہماری پاکستانی قوم کس قدر شاطر ذہن رکھتی ہے اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا توبہ توبہ کتنی بری بات ہے حنا کی بچی خیر چلو ٹھیک ہے وہیں چلے جائیں گے کھانا تو تمہاری طرف سے ہوگا نا؟ ہاں ہاں موٹی فکر نہ کر میں ہی کھلاؤں گی جو کہے گی کھلاؤں گی کچھ تھوڑی شاپنگ بھی کرا دوں گی ایسا کرتی ہیں ایک دن صبح سویرے نکلتے ہیں دامن کو کی طرف چلے جائیں گے- وہاں سن رائز دیکھیں گے بڑا مزہ اتا ہے کیا خیال ہے اور بھلا میرا کیا خیال ہونا تھا میں نے تو پلاؤ پکا رکھی تھی اس نے تو سندھی بریانی پکا ڈالی میں نے تو شد ومد سے اقرار کیا اور خالی بریانی کھاتے کھاتے ایک گھنٹہ ارام سے گزار دیا رات کو میاں صاحب گھر ائے تو میں نے سارا پلان ان کو گوش گزار کر دیا وہ مجھے گھورنے لگے- اچھا تو یہ مزے ہوں گے اور میں کیا کروں گا، لو بھلا اب کیا میں اپ کو بھی ساتھ لے جاؤں بچے تھوڑی ہیں اپ- بھئی اپ جائیں اپنے افس بلکہ جس دن اپ کی صبح کی ڈیوٹی ہوتی ہے نا بس اسی وقت مجھے دامن کو ڈراپ کر دیں حنا بھی وہیں آ جائے گی- دوپہر کو واپس آ کر اپ تو سو جاتے ہیں شام تک جب اپ اٹھیں گے تب تک ہم واپس ا جائیں گے وہ مجھے گھر بھی ڈراپ کر دے گی اور انہوں نے تو مجھے یوں دیکھا جیسے میری دماغی حالت پر شک ہو جو کہ انہیں اکثر ہی رہتا ہے خود مختار خود اعتماد خواتین بھلا مردوں سے کہاں برداشت ہوتی ہیں میری وہی بیچاری سوچ- خیر تو ہے نا لگتا ہے کوئی پیچ ڈھیلا ہو گیا ہے کسنا پڑے گا مطلب اتنی تنگ ہو تم بچوں سے کچھ زیادہ ہی اونچے پلان بنا رہی ہو میں نے منہ بسور کر انہیں دیکھا جب اپ لوگ سارے دوست مل کر منال پر لنچ کا پلان بناتے ہیں تو کبھی میں نے کہا پیچ ڈھیلے ہو گئے یا مجھ سے اور بچوں سے تنگ ہیں بھئی میری بھی اپنی کوئی زندگی ہے میں بھی تنہا وقت انجوائے کرنا چاہتی ہوں- مطلب خود کو کنواری کنواری محسوس کرنا چاہتی ہو انہوں نے میری بات کاٹی تو میں نے پھر انہیں گھورا مجھے تو اب سچ میں یوں لگتا ہے کہ میری انکھیں انہیں گھورنے کی وجہ سے ہی بڑی ہوئی ہیں ورنہ پہلے تو نہیں تھیں- اس افلاطون کی اولاد کے ساتھ کیا خاک کنواری محسوس کرنا ہے میں نے میں نے سخت سردی میں موزے اتار کر ٹھنڈے فرش پر پھرتی سارا کی طرف اشارہ کیا اور اسے پکڑ کر موزے پہنائے تو اس کا بونپو بج اٹھا- اس بچی کو سردی ہی نہیں لگتی اور ہمیں جھرجھری آ جاتی ہے سارا دن اس قسم کے پلان بنا بنا کر خاصہ خون بڑھا لیا تم نے بلکہ وزن بھی بڑھ گیا ہوگا اب اسے سلاؤ اور مجھے بھی سونے دو یہ کہہ کر صاحب تو اٹھ کر چلتے بنے اور میں منہ بسورتی سارا کا پیمپر تبدیل کرنے لگی- معاز اور اسید تو ویسے بھی جلدی سو جاتے ہیں سچی بات ہے بھائی میں بیچاری تو اپنی ذات کے لیے کوئی پلان بھی نہیں بنا سکتی- میں بیچاری سارا کو تپک تھپک کر سلانے کی ناکام کوششیں کرنے لگی کیونکہ یہ بی بی تو ساری دنیا کو سلا کر اپنی مرضی سے ہی سوتی ہیں- پھر ہوا یوں کہ معاذ اور اسید اپنی خالہ کے پاس پشاور چلے گئے اور گھر پر رہ گے میں سارا اور سارا کے ابا- سردی کڑاکے کی پڑی، موسلہ دھار بارشیں ہوئیں اور چولہے سے گیس غائب، اب بھلا بندہ بستر سے نکلے تو کوئی کام بھی کرے بستر سے نکلتے ہاتھ برف، پیر برف، کام کاج کرتے ہی واپس بستر میں گھسو بمشکل کھانا پکتا اور برتن دھلتے باقی کام جائیں بھاڑ میں- کیبنٹ میں پڑے کباڑ کو استعمال کرنا تو دور اس کام کے بارے میں سوچنا بھی محا ل تھا بھائی نہیں تھے تو سارہ بی بی بھی خوب تنگ ہوئی اور خوب مجھے بھی تنگ کیا ایک دن میں پلان کے مطابق حنا کے گھر چلی گئی جہاں سے ہم نے شاطرا نہ ونڈو شاپنگ کے لیے نکلنا تھا حنا بی بی نے میرے اگے ڈرائی فروٹ کی ٹرے رکھی اور خود اہتمام سے کپڑے استری کرنے چل دی کپڑے تبدیل کر کے محترمہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جم کر کھڑی ہو گئی خیر ہے بی بی کس کے ویاہ پہ جا رہی ہو اب تیار ہونے میں بھی گھنٹہ لگاؤ گی- نہیں بس یار پانچ منٹ لگیں گے خیر جناب تیار شیار ہو کر کیپ منگوایا منگوائی اور ہم بڑی شان سے مال کے لیے روانہ ہو گئے مال پہنچ کر جب میں نے جابجا چلتے خود کار زینے دیکھے تو میرے تو ہوش اڑ گئے- سارہ نے تو اسے جھولا سمجھ لینا تھا خود کارزینے پر بچوں کے تمام حادثوں کی ویڈیوز میری نظروں میں گھوم گئیں جو لوگ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہتے ہیں- یارحنا یہاں سیڑھیاں نہیں ہیں یہ سارا تو قابو سے باہر ہو جائے گی- یارحنا بی بی ابھی سارا بی بی کو اچھی طرح سے جانتی نہیں تھی اسی لیے بڑی ادا سے ہنس کر بولی ارے کچھ نہیں ہوتا یار ہم دیکھ لیں گے اسے یہاں سیڑھیاں نہیں ہیں تم فکر نہیں کرو یہ انجوائے کرے گی کچھ نہیں ہوتا- لیکن اگلے ادھے گھنٹے میں اسے بخوبی اندازہ ہو گیا کہ اس کی بات دیوانے کی بڑ تھی- سارہ نے انجوائے کیا جب بھاگی تو ایسا بھاگی کہ ہم دونوں کو لگا کوئی ریس ہو رہی ہے- اب کر لو ونڈو شاپنگ سارا بی بی پل میں یہاں تو پل میں وہاں اور پل میں خود کار زینے کے دہانے پر، میری تو سانس سینے میں اٹکی رہی اور حنا کی سانس پھول گئی سارہ کے پیچھے بھاگ بھاگ کر، اور سارا بی بی بار بار زینے کی طرف جا کر رونا دھونا شروع کر دیں کہ جھولا جھولنا ہے اور ہم سر پکڑ کر رہ جائیں کہ یا اللہ یہ جھولے یہاں لگائے ہی کیوں ہیں جیسے تیسے ان محترمہ کا جھولے سے دھیان ہٹا تو ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی وہاں اینٹرنس پر کچھ ٹرالیاں رکھی تھیں جن کے اگے بچوں کی گاڑیاں فٹ تھیں تاکہ مائیں اپنے بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر سکون سے شاپنگ کریں- ٹرالی بھی چلتی جائے اور اس سے جڑی گاڑی بھی چلتی رہے- افسوس کہ وہ ٹرالی مجھے نظر نہیں آ سکی اور دوسرے لوگوں کے پاس سارا کو نظر آ گئی بس پھر کیا تھا رونا دھونا شروع ہو گیا سارہ کو گاڑی میں بیٹھنا ہے سارا کا انداز تکلم ایسا ہی ہے- سارا کو دودھ چاہیے، سارا کو کھانا چاہیے سارا کو نی نی آتی ہے- اب سارا صاحبہ جا کر فوڈ کوٹ میں کھانا کھاتے لوگوں کی ٹرالیاں اپنی طرف گھسیٹیں اور وہ لوگ اپنی طرف- کھینچاتانی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور تنگ آ کر اس فیملی نے اپنی ٹرالی اپنی کرسیوں کے بیچ میں کھڑی کر لی اب تو جو سارہ نے دھمال ڈالا الامان الحفیظ- اب اینٹرنس تک کون جاتا ان محترمہ کے لیے ٹرالی لینے بڑی مشکلات سے اسے قابو کر کے کرسی پر بٹھایا اور کھانا آرڈر کیا- ساتھ ہی سارا کے لیے فرنچ فرائز آرڈر کر دیے تاکہ یہ اس میں مصروف ہو جائے اور ہم سکون سے کھانا کھا سکیں- حنا صاحبہ ٹھہریں صحت مند خوراک کھانے والی جنک فوڈ سے پرہیز برتنے والی سو ان محترمہ نے اپنے لیے مختلف اقسام کے گھاس پھوس ارڈر کر دیے اور میں تو پاستہ پر جان دیتی ہوں چاہے میری جان جائے اللہ اللہ کر کے کھانا ایا تو سارا کا نیا ہنگامہ انہیں حنا کا سلاد بھی کھانا تھا اور میرا پاستہ بھی کھانا تھا٠ بھلا ہم ہوتے کون ہیں اپنے بارے میں سوچنے والے اب ایک نوالہ پاستہ کا اور دوسرا نوالہ سلاد کا فرنچ فرائز کی ناقدری مجھ سے برداشت نہیں ہوئی تو وہ میں نے کھانے شروع کر دیے کمزور جو بہت ہوں خیر جناب جب سارا ملک کا پیٹ بھر گیا تو یہ کرسی سے اتر کر مٹر گشتی کرنے لگی ہم بیچاریاں کھانا کھائیں یا ان کی نگرانی کریں بالاخر تنگ ا کر مجھے اٹھنا ہی پڑا کیونکہ اتنے بڑے مال میں یہ بی بی گم ہو جاتی تو لینے کے دینے پڑ جاتے- حنا یار یہ پاستہ تو پیک ہی کرا لو ابھی قسمت میں نہیں ہے کھانا پھر سارا اگے اگے اور میں پیچھے پیچھے کیا لوگ، کیا سیکیورٹی گارڈ، کیا شاپ مالکان سب اس پکڑن پکڑائی پر ہنس رہے تھے اور لطف اٹھا رہے تھے- حنا میرا کھانا پیک کروا کر چلی ائی اوئے کیا چیز ہے یار یہ قابو ہی نہیں اتی تیرے بیٹے تو بڑے شریف ہیں یار یہ تو کوئی عجیب ہی پیس ہے اور میرا تو وہ حال تھا کہ ہنس بھی نہیں سکتی تھی- سارہ نے صحیح معنوں میں احساس دلایا کہ محترمہ شبینہ گل صاحبہ اپ غلطی سے بھی کنوارے پن کو محسوس کرنے کی کوشش ائندہ ہرگز مت کیجئے گا ورنہ انجام اس سے بھی زیادہ برا ہوگا- خیر پھر حنا نے ایک حل سمجھ کر اسے لاولی پاپ دلا دی اب کم از کم ایک گھنٹہ تو یہ اس کینڈی میں مصروف رہے گی یہ حنا کا بیان تھا جو کہ سراسر غلط فہمی پر مبنا ثابت ہوا کیونکہ سارا اس کینڈی میں مصروف تو واقعی بہت ہو گئی مگر اتنی مصروف ہوئی کہ نظر اٹھا کر سامنے دیکھنے سے بھی گئی اب سین یہ تھا کہ محترمہ کینڈی پر نظر جمائے اسے چاٹ رہی ہے اور چلتی جا رہی ہے اماں کہاں ہیں سامنے سے کون آ رہا ہے ان کی بلا سے میری بھاگ دوڑ پھر سے شروع ہو گئی کیونکہ حنا بی بی کو تو ہر تیسرے قدم پر سیلفی لینے سے ہی فرصت نہیں تھی ویسے بھی وہ سارا کی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا چکی تھی ظاہر ہے بیٹی میری تھی، میں تو ناک تک بھر چکی تھی لیکن حنا کا جوش و خروش اپنی جگہ برقرار تھا بس کر یار میں تو بری طرح تھک گئی اب گھر چلتے ہیں مگر وہ حنا ہی کیا جس پر اثر ہو جائے ارے اؤ نا یار یہ کیش اینڈ کیری دیکھو بڑا ہی زبردست ہے وہ تو کیش اینڈ کیری میں گھس گئی اور مجھے وہاں جیسے ہی ہفت کلیم کی دولت میسر ہو گئی جی نہیں اپ میری سوچ تک نہیں پہنچ سکتے اس وقت میرے لیے سب سے بڑی دولت شاپنگ ٹرالی تھی جسے کھینچ کر میں نے سارہ کو اس میں بٹھایا اپنا بیگ اس میں رکھا اور فاتحانہ نظروں سے حنا کو دیکھا اف شکر ہے حنا اب میں فرصت سے ونڈو شاپنگ کروں گی بس پھر کیا تھا میں مزے سے ٹرالی چلاتی رہی گھومتی رہی سارا کو جھولے ملتے رہے اور وہ مزے لیتی پہلے کھڑی رہی پھر بیٹھی اور پھر لیٹ گئی اور بالاخر تھک کر سو گئی اتنی دیر سے جو اس پر غصہ آ رہا تھا سو گئی تو بے حد اس معصوم کی صورت پر پیار اگیا- اب مسئلہ یہ تھا کہ ٹرالی تھی کافی بڑی ہر شاپ میں نہیں جا سکتی تھی ورنہ سب مجھے مال سے ہی باہر نکال دیتے- پھر حنا بی بی تنگ شاپس میں گھس کر ایک ایک چیز کا فرصت سے معائنہ کرتی اور میں باہر کڑی سارا بی بی کی رکھوالی کرتی رہتی- حنا کی بچی بس بھی کر دے کتنی شاپنگ کرے گی ونڈو شاپنگ کہتے کہتے بھی اس نے اچھی خاصی شاپنگ کر ڈالی تھی چل یار اب میں تو بری طرح تھک گئی سو اب گرما گرم چائے پیوں گی تیرے لیے منگواؤں- سینٹرلی ہیٹڈ شاپنگ مال میں مجھے تو پسینہ آ گیا تھا- چائے میں ویسے بھی نہیں پیتی اوپر سے اتنی گرمی چائے کا نام سن کر یہ تاپ چڑھی، نہ بابا تم ہی پیو چائے مجھے تو ائس کریم کھلاؤ دسمبر کے اخری ہفتے سردی اور بادلوں بھرے موسم میں اس مال کے اندر ایسا کوئی احساس تک نہ تھا کونے میں ایک ٹیبل ڈھونڈ کر میں ارام سے بیٹھی پاؤں پھلا کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر نقاب کھولا- سارا سو رہی تھی تو کوئی ایک چیز تو میں ڈھنگ سے کھا لیتی لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت- مجھ بیچاری کے ایسے اونچے بخت کہاں اس سے پہلے کے ائس کریم اتی سارا بیوی جاگ گئی رونا شروع کر دیا ان کا جھولا جو رک گیا تھا چلتے رہتا تو وہ دو گھنٹے سوئی رہتی- میں نے سر پیٹ لیا اسی وقت ائس کریم ا گئی تو میں نے اس کو موڈ ٹھیک کرنے کی خاطر سارا م محترمہ کو بھی کھلانا شروع کر دی- حنا بی بی چائے پیتے کیک کھاتے مسلسل سلفیاں لینے میں مصروف تھی میں نے رشک بڑی نظروں سے اسے دیکھا اور اپنے افلاطون کی جانشین کو ائس کریم کھلانے لگی- جو اب ٹرالی کی قید سے ازادی کی ضد کر رہی تھی- اللہ اللہ کر کے حنا کی چائے اور کپ کیک ختم ہوا تو ہم نے واپسی کی راہ لی- گھر واپس ا کر میں نے سب کچھ پٹخا اور کمبل کھینچ کر حنا کے بیڈ پر گر گئی بس بہن اور ہمت نہیں مجھ میں اب میں نہیں اٹھوں گی اور میری جم ایکسپرٹ، کراٹے ایکسپرٹ لگی مجھے تھکن اور تکلیف کی حالت سے چھٹکارا پانے والی ورزشیں بتانے مجھ میں ہلنے کی ہمت نہیں تھی اور وہ نہ جانے کون کون سی ورزشیں کر کے مجھے لیکچر دے رہی تھی- ویسے یار تیری بیٹی نے تو واقعی بہت تھکایا اس نے بلا مبالغہ کوئی دسویں بار کانوں کو ہاتھ لگائے ہوں گئے – ہو گئی ہماری اؤٹنگ اور انجوائمنٹ ، میں نے سر جھٹکا، حیرت بچوں کے سٹیمنا پر سارا نہیں تھکی- میں بیچاری بیڈ پر پڑی ہائے ہائے کر رہی تھی اور وہ حنا کی ڈریسنگ ٹیبل کی تمام درازوں سے میک اپ اور جولری نکال نکال کر جائزہ لینے میں مصروف تھی- قصہ مختصر یہ کہ جو صبح سویرے والا پلان تھا وہ حنا بی بی نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کینسل کر دیا اور میں نے واپسی کی راہ لی-

اگلا پورا دن، پچھلے دن کی تھکن اتارنے میں گزرا اس کے بعد روزدن میں تین چار بار میں کچن کیبنٹ کھول کر کباڑ کا جائزہ لیتی اور پھر سردی سے کپکپاتی واپس بستر میں گھس جاتی۔ بستر میں گھس کر یو ٹیوب پر محفوظ کی گئی ساری کرافٹ وڈیوز دیکھ کر پھر سے خیالی پلاؤ پکاتی اور پکاتے پکاتے سو جاتی۔ گھر میں گیس آ رہی ہوتی تو ہیٹر لگا کر میں مزے سے سب کام کرتی۔ اس تاویل سے خود کو تسلی دے کر میں بستر میں ہی گھسی رہتی۔ یہ دسمبر میرا پانچ کلو وزن تو بڑھا کر ہی ٹلے گا۔ بس یہ بڑبڑاہٹیں ہی میرے بس میں تھیں۔ دن پر دن گزرتے رہے ایک دن ہم سارہ کو پارک لے گئے ایک دن اس کی دادی کے گھر گزار لیا، ایک دن پڑوسن کے گھر کچھ گھنٹے گزار لیے اور یوں دسمبر کی چھٹیاں ہوئیں تمام- معاذ، اسید واپس آگئے ، اسکول کھل گیا اور وہی چال بے ڈھنگی پھر سے شروع۔ چند ماہ پہلے بڑے جوش میں جو تحاریر لکھ کر ارسال کی تھیں وہ شائع ہونا شروع ہوئیں تو مزید لکھنے کی تحریک ملی۔ اب ہوتا کچھ یوں کہ جوش جذبات میں لکھنے بیٹھتی اور آدھے گھنٹے بعد برف سی جمی انگلیاں اٹھنے پر مجبور کر دیتیں۔ موسم کچھ کھلے تو میں سارے ادھورے کام نمٹاؤں اور کچھ ڈیکوریشن والی چیزوں کے بارے میں بھی سوچوں۔ اب میں یوٹیوب کی سیو شدہ وڈیوز والا فولڈر کھولنے سے ہی احتراز برتنے لگی۔ سارے دعوئی میرا منہ چڑا رہے تھے اور کچن کیبنٹ اپنی ناقدری پر رو رہا تھا۔ ایسا کرتے ہیں کمرے کی سیٹنگ بدلتے ہیں سارہ کا بستر یہاں لگا دیتے ہیں۔ میں نے پھر سے نیا پلان بناتا شروع کیا تو اسامہ صاحب جن کی آنکھ نہیں کھل رہی تھی فورا سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ میں تو چلوں یار یہاں پھر نیا کام شروع ہے۔ میں نے ہاتھ کھینچ کر واپس بٹھایا۔ بات تو سنیں ناں، دیکھیں اگر ایسے ہو۔ اور نا چار انہیں بیٹھنا ہی پڑا، سننا بھی پڑا اور اس پلاننگ پر عمل بھی کرنا پڑا کیونکہ سیٹنگ کی تبدیلی واقعی وقت کی ضرورت تھی۔ یوں ڈیکوریشن نہ سہی، کچھ تبدیلی تو کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔ یہ اور بات کہ الگ بستر لگانے کے نتیجے میں ہمیں ساره بی بی کا شدید ترین احتجاج بھگتنا پڑا اور میں تو اب تک بھگت رہی ہوں۔

آج کچھ اسپیشل کھانے کا دل چاہ رہا ہے۔ اسامہ نے کہا تو میری باچھیں کھل اٹھیں ۔ اس روز وہ صبح کی ڈیوٹی کر کے آئے تھے اور ایسے دن میں کچھ خاص بناتی ہوں۔ پیزا آرڈر کر لیتے ہیں۔ میں نے جھٹ سے مشورہ دیا تو انہوں نے آنکھیں نکالیں۔ کھانا کھانا ہے، پیزا انہیں۔ میں نے پھر منہ بسورا – تو لا رج پیزا منگوا لیں ناں۔ میں نے کہا ناں کھانا کھانا ہے کوئی چکن کڑاہی وغیرہ ۔ انہوں نے تیز آواز میں بولا تو میں نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی پھر چٹکی بجائی۔ جہانگیر چلتے ہیں۔ گھر پر پکائیں چکن کڑاہی کوئی جہانگیر وہانگیر نہیں جانا۔ میں چکن لے کر آتا ہوں اور بتاؤ کیا کیا چاہیے، تم تیاری شروع کرو ۔ میرا منہ مزید پھول گیا، لو بھلا اب خود پکاؤ کڑاہی۔ چکن اور دہی لے آئیں، باقی سب موجود ہے۔ وہ جو اپنا مشہور زمانہ بستر سنبھالے پڑے تھے فورا اٹھے۔ اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتے، ان کا موبائل بجا اور کال سنتے ہی ان کا منہ لٹک گیا۔ میں نائٹ ڈیوٹی پر جارہا ہوں۔ مجھے بھی دھچکا لگا۔ کیا مطلب یہ کیا مصیبت ہے بھئی ابھی تو صبح کی شفٹ کر کے آئے ہیں اب کیا مسئلہ ہو گیا، کوئی اور بندہ نہیں ملا ایمر جنسی ڈیوٹی لگانے کو؟ میں تو جیسے جلتے توے پر جا بیٹھی۔ جس نے ڈیوٹی پر آنا تھا اس کی ساس فوت ہوگئی وہ تین دن کی چھٹی پر چلا گیا۔ او ہو یہ تو خوشی کی بات ہوئی، بھلا چھٹی کرنے کی کیا ضرورت اتنی محبت تھی اس کو اپنی ساس سے۔ غصے میں، میں کچھ بھی بول سکتی ہوں، خاص طور پر اگر میرے شوہر کو ایمر جنسی ڈیوٹی پر بلا لیا جائے تب تو میں واقعی کچھ بھی بول سکتی ہوں۔ میرا غصہ تو اپنی جگہ مگر جو ان کا منہ لٹکا تھا اسے دیکھ کر تو مجھے بھی ترس آگیا، بس ان کے چیف کو ہی ترس نہیں آتا اب نائٹ ڈیوٹی پر جانا تھا تو تھوڑی سی نیند لینا بھی ضروری تھا۔ کڑاہی گئی بھاڑ میں، یہ جا کر لیٹ گئے۔ میری قسمت میں وہی آلو کی بھجیا تھی جو میں نے خود کو تسلی اور آلوؤں کو دھوکا دینے کے لیے چکن تکہ مسالہ ڈال کر بنائی تھی۔ غصے میں موبائل اٹھا کر فیس بک پر طیش بھرا اسٹیٹس لگایا اور لگی سب کی ہمدردیاں سمیٹنے۔ خود پر اس قدر ترس آیا کہ سوچا میں بے چاری کا سیکوئل لکھنا تو بنتا ہے۔ میں غصے میں لیپ ٹاپ کھول کر ٹائپنگ کرنے بیٹھ گئی۔ یہ ڈیوٹی پر جانے کے لیے اٹھے تو پوچھا۔ کیا لکھ رہی ہو؟” میں بے چاری پارٹ ٹو میں نے غصے میں جواب دیا تو بولے۔ ”ویسے تمہیں میں بے چاری نہیں میں بے چارا لکھنا چاہے، ڈبل ڈیوٹی تو میری لگی ہے۔ مجھے ان پر مزید ترس آیا۔ میں بیچارا تو آپ خود لکھیں ناں، میں تو میں بیچاری ہی لکھوں گی۔ آخر کو کڑاہی کا پروگرام برباد ہوا ہے، ایک ریلیکس شام برباد ہوئی کتنی ساری باتیں کرنی تھیں میں نے آپ سے۔ پھر ان کی اتری صورت دیکھی تو پیار آ گیا، صبح سویرے ساڑھے پانچ بجے آپ گئے تھے آفس اور بس دو گھنٹے کا ہی آرام ملاء اب نائٹ ڈیوٹی کیسے کریں گئے میری ذراسی ہمدردی پر ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ پھر یہ بیچارے چل دیے نائٹ ڈیوٹی پر اور میں بیچاری دروازہ بند کر کے چکن تکہ آلو کی بھجیا کھانے بیٹھ گئی۔

ایک ناول تھا جو مکمل تو سال پہلے ہو چکا تھا مگر اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے خاصی ہمت درکار تھی کیونکہ ناول کافی طویل تھا۔ ہوتا یوں کہ اہتمام سے میں اسے سنوارنے بیٹھتی اور پھر اس کی طوالت سے خوف کھا کر کچھ اور لکھنے لگ جاتی اور وہ وہیں رہ جاتا۔ اپنی ناقدری پر ماتم کناں۔ جب اسے کھولنے کا ارادہ کرتی تو کئی بھولے بسرے کام یاد آ جاتے۔ جنوری میں چار عدد شادیاں اٹینڈ کرتی ہیں، ان کے لیے بچوں کے کپڑوں کا چناؤ کرنا ۔ جو کمی بیشی ہے اس کے لیے بازار جانا ہے، کچھ سلائی کرنی ہے تو وہ بھی وقت پر مکمل ہو، کپڑے دھونے کا بھی ڈھیر لگا ہے، دھلے کپڑوں کو ابھی سمیٹا نہیں کہ دوبارہ کپڑے دھلنے کا دن آ گیا۔ اب میں بیچاری بازار جاؤں، سلائیاں کروں، شادیاں اٹینڈ کروں، بچوں کو سنبھالوں یا دھلے کپڑے سمیٹوں۔ اللہ جانے کیا بات ہے سارے کام ہو جاتے ہیں بس دھلے کپڑوں سے مجھے عجیب سی پرخاش ہے سمیٹنے کا دل ہی نہیں چاہتا۔ جنوری کا مہینہ بچوں کے اسکول میں دہرائی اور تیاری کا مہینہ مانا جاتا ہے۔ ٹیسٹ پر ٹیسٹ اور پھر گرینڈ ٹیسٹ۔ اپنی تو کوئی زندگی ہی نہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے شادیاں گزریں جنوری گزرا اور خوفناک فروری شروع ہو گیا۔ بھئی خوفناک اس لیے کہ اس میں بچوں کے سالانہ امتحانات ہوتے ہیں۔ اب مختلف جگہ مختلف تحریری مقابلے بھی چل رہے ہیں اور سب کی آخری تاریخیں فروری ہی کی ہیں۔ فورم بھی ایسے کہ جنہیں چھوڑنے کو دل نہ مانے لیکن لکھوں تو بھلا کب لکھوں۔ ادھر لیپ ٹاپ بھی مجھ سے شرارت پر آمادہ ہو گیا۔ اگر میں لکھتے لکھتے کسی کام سے اٹھوں تو یہ سلیپ موڈ پر چلا جاتا ہے اور پھر میں لاکھ جگانا چاہوں یہ ایسا روٹھ جاتا ہے کہ پھر آف ہی کرنا پڑتا ہے، اس کے بغیر ہلتا تک نہیں۔ یہ کہتا ہے سب پر پیسہ لگارہی ہو مجھ پر کبھی دھیلا بھی نہیں لگایا، ایک نظر ادھر بھی۔ اب آپ ہی بتائیے میں بیچاری کیا کیا دیکھوں اور کس کس کو سنبھالوں۔ جو کچھ لکھ کر بھیجا تھا باری باری سب لگتا جا رہا ہے، جو نہیں لگ رہا انہیں کال کر کے پوچھنا ہے۔ اول تو مجھے کال کرنا ہی یاد نہیں رہتا۔ بھئی جس وقت ایڈیٹر لوگ اپنی کرسیاں سنبھالتے ہیں وہ ہمارے کھانے اور پھر سارہ کے سونے کا وقت ہوتا ہے، پھر میں کیسے کال کرنا یاد رکھوں ۔ اگر غلطی سے کسی دن کال کرنی یاد رہ جائے تو اس دن یا تو کوئی فون نہیں اٹھائے گا یا یہ جواب ملے گا کہ فلاں تاریخ کے بعد کال کریں۔ اب میں بیچاری انہیں کیسے بتاؤں کہ میری یادداشت اتنی مہان نہیں ہے، ان کی بتائی تاریخ یونہی گزر جاتی ہے اور میں سر پیٹتی رہ جاتی ہوں۔ مجھ بیچاری کے مسائل کوئی سمجھتا ہی نہیں۔ دس جگہ ہاتھ پیر پھنسا رکھے ہیں۔ چار عدد مکمل ناول ابتدائی چند صفحات کے بعد میری نگاہ کرم کے منتظر پڑے ہیں۔ بچے ہر کھانے کے بعد کچھ میٹھا مانگتے ہیں، روز روز کچھ میٹھا بناؤ۔ گھر بیچارا بھی ہر تھوڑے عرصے بعد تفصیلی صفائی کا تقاضہ کرتا ہے کیونکہ میرے آرٹسٹ بیٹے پہلے تو جی بھر کر فالتو صفحات پر ڈرائنگ کرتے ہیں پھر جب سارے صفحات بھر جائیں تو ان کے جہاز بنا کر اڑائے جاتے ہیں اور کشتیاں بنا کر چلائی جاتی ہیں، جب جہاز اڑا اڑا کر اور کشتیاں چلا چلا کر بور ہو جائیں تو ان کو پھاڑ پھاڑ کر پیسے بناتے ہیں اور سارے کھلونے میز پرڈھیر کر کے دکان کھول لیتے ہیں جہاں خوب خریداری کی جاتی ہے۔ جب اس کھیل سے بھی بور ہو جائیں تو سارے کاغذ جگہ جگہ پھیلا کر میرے سر پر سوار ہو جاتے ہیں۔ ماما بھوک لگی ہے ماما کچھ میٹھا چاہیے اور میں بیچاری جسے لیپ ٹاپ کھولے ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے ہوتے ، اسے بند کر کے ٹھنڈی آہ بھرتی ، اچھے وقت کا انتظار کرتی کچن میں گھس جاتی ہوں۔ بس ایک فائدہ ہوتا ہے کہ کھانے یا میٹھے کی شرط پر بچوں کو شاپر پکڑا کر کچرا سمیٹنے پر لگا دیتی ہوں کیونکہ میں بے چاری دن میں دس بار جھاڑو تو لگانے سے رہی۔ بچوں کو بھی پھیلاوا سمیٹنا آنا چاہیے۔ کبھی موڈ میں ہوں تو کشنز بھی سیٹ کردیتے ہیں۔ کھلونے سمیٹ کر کمرہ پورا ترتیب دے لیتے ہیں مگر یہ موڈ کم ہی اتنا اچھا ہوتا ہے۔ عام طور پر تو سارے کشنز اور گاؤ تکیوں سے گاڑی یا ٹرک ہی بنایا جاتا ہے اور یہ سب دیکھ کر میں بیچاری اپنا بچپن ضرور یاد کرتی ہوں جو اتنا ہی سہانا تھا جتنا میرے بچوں کا ہے۔ پھر زیر لب گنگناتی ہوں۔

میرے بچپن کے دن
کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یادآ گئے
میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS