Wednesday, May 21, 2025

Mekay Ka Dar Band Huwa | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ہمارے پڑوسی کفایت صاحب اسکول ٹیچر تھے۔ تنخواہ معمولی مگر دیانت دار اور سیدھے سادے آدمی تھے۔ تبھی سارا محلہ ان کی عزت کرتا تھا۔ ان کا گھر چھوٹا سا تھا۔ تین مرلے کا مکان جس میں صرف دو کمرے اور آگے صحن اتنا تھا کہ بمشکل چار چارپائیاں آتی تھیں۔ کنبہ بڑا تھا۔ آنگن اپنے ہی بچوں سے بھرا رہتا تھا۔ ان کے آٹھ بچے تھے۔ چھ بیٹیاں اور دو بیٹے جو ابھی چھوٹے تھے اور پرائمری اسکول میں پڑھنے جاتے تھے۔
ماسٹر کفایت کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آچکے تھے۔ انہیں دو بچیوں کی فکر تھیں۔ چار لڑکیوں کی شادیاں ہوچکی تھیں مگر ان کی شادیوں پر اٹھنے والے اخراجات نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ انہوں نے کافی قرض لے رکھا تھا، یہ سوچ کر کہ جب ریٹائرمنٹ پر رقم ملے گی تو قرض ادا ہوجائے گا لیکن ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ان کی اچانک وفات صدمہ جانکاہ تھا۔ گھر میں پانچ افراد کھانے والے اور کمانے والا کوئی نہ تھا۔ زرعی زمین اتنی تھوڑی تھی کہ بغیر رکھوالے کے پیداوار گھر پہنچنی مشکل تھی اور رکھوالا چل بسا تھا۔
ان کی پانچویں بیٹی کا نام نور تھا۔ وہ بہت حساس لڑکی تھی۔ باپ کی وفات کا گہرا صدمہ لیا۔ وہ رو رو کر ہلکان تھی۔ میں اسے سمجھاتی تھی کہ اس طرح ہمت ہار دو گی تو تمہارے چھوٹے بھائی بہن کا کیا بنے گا۔ والدہ بے چاری کس کی طرف دیکھیں گی۔ حوصلے سے کام لو اور کنبے کی باگ ڈور سنبھال لو۔ بھائی تمہارے کم سن اور نادان ہیں۔ گھر تم ہی کو چلانا ہے۔
وہ میری کلاس فیلو، سہیلی اور بچپن سے پڑوس میں رہتی تھی۔ لہٰذا اس کی دلجوئی کے لئے میں روز اس کے گھر جاتی تھی۔ وہ بہت مضطرب اور حواس باختہ تھی، مگر میرے ہمت دلانے پر اس نے حالات کی سنگینی کا احساس کرلیا۔ واقعی ماسٹر کفایت کے کنبے کو اب اس کے کندھوں کی ضرورت تھی۔ بڑی بہنیں شادی شدہ تھیں مگر وہ امیر گھرانوں میں نہیں بیاہی گئی تھیں کہ بیوہ ماں، یتیم بہنوں اور بھائیوں کی مالی مدد کرسکتیں۔ اس کے برعکس وہ روز بچوں سمیت آجاتیں ان کے اخراجات بھی ماں کو اٹھانے پڑتے۔
ان دنوں نور بے حد حساس ہوگئی تھی۔ اسے احساس تھا کہ گھر کا کفیل نہیں رہا ہے اور تھوڑی بہت رقم جو ماں نے اس کی شادی کے لئے پس انداز کر رکھی تھی وہ بھی ختم ہونے والی ہے۔ پھر بھی شادی شدہ بہنوں نے یہ روز کا معمول بنالیا تھا کہ ماں کے پاس آجاتیں۔ کبھی ایک بہن بچوں سمیت میکے میں رہ رہی ہے تو کبھی دوسری دو دن کے لئے ٹک جاتی۔ یوں چاروں باری باری آجاتی تھیں۔ نور اور منورہ کا کوئی دن بھی ان کی مہمان داری کے بغیر نہیں گزرتا تھا۔ خود نہ آپاتیں تو ان کے شوہر بچوں کو لے کر آجاتے کہ یہ ضد کر رہے تھے، تنگ کر رہے تھے کہ نانی کے گھر جانا ہے۔ خالہ نور اور منورہ سے ملنا ہے۔ ان کو رکھیے۔ گویا یہ چاروں بڑی بہنیں لمحے بھر کو ماں اور چھوٹی بہنوں کو فارغ نہ رہنے دیتی تھیں۔ گھر میں ہر وقت میلے کا سا سما رہتا جس کی وجہ سے پڑھائی بھی متاثر ہوتی تھی۔
یہ بہنیں مالی امداد تو کیا کرتیں الٹا بیوہ ماں کو مقروض کرجاتیں۔ بچے نقصان کرتے، پانی کی ٹنکی خالی کردیتے، پانی بہاتے، صابن ضائع کرتے، ٹافیوں اور دہی چاول کھانے کی فرمائش کرتے۔ کوئی بچہ چاول پکواتا تو کوئی سویوں کا طالب ہوتا اور یہ ساری چیزیں مفت تو نہیں آجاتی تھیں۔ نور کی چاروں بڑی بہنوں کے گھر نزدیک تھے لیکن جب ماں سے ملنے آتیں تو واپس جانے کا نام نہ لیتی تھیں۔ سچ ہے میکہ دور ہو یا نزدیک، جب تک ماں باپ زندہ ہوں، بیٹیوں کے لئے میکے کی کشش باقی رہتی ہے۔
جب تک ماسٹر کفایت حیات تھے کوئی بیاہتا بیٹیوں اور ان کے بچوں کی وجہ سے دل چھوٹا نہیں کرتا تھا کیونکہ ان کے اخراجات ماسٹر کفایت خود پورے کرتے تھے مگر اب نور اور منورہ کو بہنوں اور ان کے بچوں پر ہونے والےاخراجات کھلنے لگے تھے۔ تین مرلے کے مکان میں پانچ افراد کا سمانا مشکل تھا کجا کہ بھانجے اور بھانجیوں کا آنا جانا، ان کے سکون کو درہم برہم کردیتا تھا۔ اوپر سے بڑی بہنیں چارپائیوں پر بیٹھ جاتیں اور حکم چلاتیں کہ یہ کردو، وہ کردو۔
وہ کام کو ہاتھ نہ لگاتیں مگر اپنے کام کا بوجھ بھی نور اور منورہ پر ڈال دیتیں۔ وہ بچے خالائوں کے حوالے کردیتیں کہ ذرا ان کا دھیان رکھنا اور خود آرام فرماتیں۔ ماں ان کے لئے کھانا تیار کرنے کے فکر میں پڑ جاتی اور بچیاں بہنوں کے بچوں کو سنبھالتے نڈھال ہوجاتی تھیں۔ وقت ملتا اور نہ کتابوں کو ہاتھ لگاتیں۔ قاسم اور حمزہ تو اس شور و غوغا میں بالکل نہ پڑھ پاتے تھے۔ ان کی مجبوریوں کا چاروں بہنوں کو قطعی احساس نہ تھا۔
یہ ایک دو دن کی بات نہ تھی کہ برداشت ہوجاتی۔ یہ روز کا معمول تھا۔ دو دن چین سے گزرتے کہ پھر ان بہنوں میں سے کسی ایک کو میکہ یاد آجاتا۔ وہ بیوہ ماں کی دلجوئی کو آتی تھیں اور ماں کا سکون تلپٹ کر کے چلی جاتی تھیں۔ ماں بہرحال ماں تھی بیٹیوں اور دامادوں کو منع نہ کرسکتی تھی۔ مگر نور اور منورہ کا ناک میں دم تھا، وہ چڑچڑی اور بدمزاج ہوتی جارہی تھیں۔ بڑی مشکل سے ایف اے مکمل ہوا اور ایجوکیشن ٹریننگ میں داخلہ ملا۔ وہ بھی کتنے عذابوں سے مکمل ہوئی کہ نور کا دل جانتا تھا۔ سند ملی تو ماسٹر کفایت کے ایک دیرینہ دوست کی سفارش پر نور کو نوکری مل گئی مگر تعیناتی دیہات کے ایک اسکول میں ہوئی۔
اب مسئلہ شہر سے دیہات جانے اور واپسی کا تھا۔ راستہ آدھے گھنٹے کا لیکن دشوار تھا۔ شہر سے پکی سڑک کے بعد اس دیہات میں سواری نہیں جاسکتی تھی۔ میل بھر پیدل چلنا پڑتا، فی الحال دو استانیاں آتی تھیں جن کو سڑک سے زمیندار کی گاڑی اسکول تک لاتی اور پہنچاتی تھی۔ اس کے لیے انہوں نے ایک ویگن مختص کی ہوئی تھی۔ کبھی ڈرائیور اور کبھی ان کا بیٹا یہ ڈیوٹی دیتا تھا۔ چھ ماہ یہ سلسلہ بہ خوبی چلا، پھر دوسری استانی جو شادی شدہ تھی چھٹیوں پر دو ماہ کے لیے چلی گئی۔ اب نور اکیلی رہ گئی وہ اسکول بھی سنبھالتی اور بچیوں کو بھی پڑھاتی۔ مختلف کلاسوں میں کل پچیس تیس لڑکیاں تھیں، وہ ساری جماعتوں کی بچیوں کو ایک ہی کلاس روم میں بٹھا دیتی اور ہر ایک کو سبق دیتی جاتی۔
یہ سلسلہ اس وقت تک چلا جب تک استانی شازیہ چھٹیوں سے واپس نہیں آگئی۔ شازیہ تیسری، چوتھی اور پانچویں کی بچیوں کو پڑھاتی تھی جبکہ نور کے ذمے پہلی اور دوسری کی بچیاں تھیں۔ بلاشبہ شہر سے دیہات کا سفر اکیلی استانی کے لئے ایک کٹھن مرحلہ تھا، تاہم گھریلو حالات کی وجہ سے نور نے ہمت نہ ہاری ۔
اسکول کے مالک زمیندار کے گھر کی خواتین بہت عمدہ اخلاق کی حامل تھیں۔ وہ استانیوں کا بہت خیال رکھتیں۔ چھٹی کے بعد دونوں ان کے گھر چلی جاتیں۔ وہ کھانا کھلا کر انہیں ویگن یا جیپ میں سڑک تک بھجواتیں۔ وہاں سواری ان کی منتظر ہوتی۔ یہ ویگن بھی ماہانہ مشاہرے پر انہوں نے لگوائی تھی تاکہ دیہات کے اسکول کو معلمات میسر ہوجائیں۔
جلد ہی نور کی دوستی زمیندار کی بہن فاخرہ بی بی سے ہوگئی جو غیر شادی شدہ تھی۔ وہ نور سے عمر میں دگنی تھی مگر سنجیدہ طبیعت اور فہم و فراست کی مالک تھی۔ خاندان میں اس کے جوڑ کا رشتہ موجود نہ ہونے کے باعث فاخرہ بی بی کی شادی ابھی تک نہ ہوسکی تھی۔ وہ تنہائی کا شکار رہتی تھی۔ ایسے میں چند گھڑیاں نور کے ساتھ گزارنے پر اسے خوشی حاصل ہوجاتی تھی۔
فاخرہ بی بی کی کوشش ہوتی، نور دیر تک بیٹھے تاکہ گپ شپ چلتی رہے۔ ایک دو بار ایسا ہوا کہ اس گپ شپ کی وجہ سے شہر کی ویگن سڑک پر انتظار کر کے واپس چلی گئی، تب فاخرہ نے اپنے بھائی فہیم کے ساتھ خود جیپ میں ہمراہ جاکر نور کو اس کے گھر پہنچایا۔ ذرا دیر ہوجاتی تو نور کی امی بہت پریشان ہوتیں۔
فاخرہ کو نور اتنی پسند آگئی تھی کہ وہ اصرار کر کے اسے روکنے لگی، جبکہ اسے گھر پہنچنے کی جلدی، اپنی والدہ کی وجہ سے ہوتی تھی۔ اب اکثر ایسا ہونے لگا۔ شہر والی ویگن خالی واپس چلی جاتی اور دونوں استانیوں کو فاخرہ بی بی اپنی سواری میں شہر بھجوا دیتی۔ شازیہ استانی بچوں والی تھی، وہ فاخرہ بی بی کے اصرار کے باوجود معذرت سے کام لینے لگی اور چھٹی کے فوراً بعد گھر کی راہ پکڑ لیتی مگر مروت میں نور پھنس جاتی۔ ہر دوپہر کو ٹیبل پر کھانا لگا ہوتا اور عمدہ کھانے کے ساتھ لذیذ چائے اس کی منتظر ہوتی۔ کچھ دیر گپ شپ چلتی، یہاں تک کہ شام کے چار بج جاتے تب فاخرہ اپنے بھتیجے فہیم کے ساتھ اس کو کار پر گھر بھجوا دیتی۔
ماں کو اس روز روز کی تاخیر پر اعتراض ہونے لگا۔ اسے محلے والوں کا خوف بھی ستانے لگا۔ ماں نے اصرار کیا کہ تم یہ ملازمت چھوڑ دو ورنہ محلے میں ہماری بدنامی ہوکر رہے گی۔ نور نے فاخرہ کو ماں کی ناراضگی سے آگاہ کیا تو فہیم کی والدہ اور بہن فاخرہ کے ہمراہ نور کی ماں کے پاس آئیں اور مدعا بیان کیا کہ ہمیں نور پسند ہے، آپ سے رشتے کی طالب ہیں۔ نور کی ماں نے ان خواتین کی خوب آئو بھگت کی اور ساتھ معذرت کی کہ وہ نور کی شادی غیر ذات میں نہیں کرسکتیں۔ بیٹی کا رشتہ ان کے شوہر کے رشتے دار ہی کرنے کے مجاز ہیں۔ برادری کی مرضی کے بغیر میں بیٹی کی شادی غیروں میں کرنے سے قاصر ہوں۔
ہم آپ کی برادری کے بڑوں کو منالیں گے۔
وہ نہیں مانیں گے… آپ کسی سے یہ مدعا بیان نہ کریں، ورنہ وہ نور کی ملازمت ختم کرا دیں گے۔ یہ وجہ انکار کی نہیں بن سکتی۔ وہ لوگ آپ کی کفالت نہیں کرتے اور ہم نے امیری غریبی کا فرق مٹا دیا ہے، کیوں کہ ہمیں آپ کی بچی پسند آگئی ہے۔ خواتین نے جواب دیا۔ اچھا مہلت دیجیے، میں اپنے دامادوں اور بیٹیوں کو اعتماد میں لے لوں۔
ہاں سوچ لیجیے۔ ہم دوبارہ آجائیں گے۔ وہ تو یہ کہہ کر چلی گئیں مگر نور کی ماں کو سوچوں کے سمندر میں دھکا دے گئیں۔ صاف ظاہر تھا جس لڑکے کے لیے رشتہ مانگ رہی تھیں، اسی نے نور کو پسند کیا تھا، ورنہ ان کا اور ماسٹر کفایت کے گھرانے کا کوئی جوڑ نہ تھا۔ لاکھ لڑکی پسند آجائے اگر غریب گھر سے ہو تو امیر اس کو بہو بنانے میں ہزار بار سوچتے ہیں۔ فہیم، زمیندار کا لاڈلا بیٹا تھا۔ وہ اس کی خوشی کو پس پشت نہیں ڈال سکتے تھے۔ یہ بھی سوچ لیا تھا کہ فی الحال بیٹے کے دل کی خوشی پوری کردیتے ہیں چند دن بعد نور دل سے اتر جائے گی تو دوسری شادی کردیں گے۔
نور کی ماں بھی اس تفکر میں مری جاتی تھیں کہ رشتہ کر لوں ان کے معیار کی خاطر مدارات اور شادی کے اخراجات کہاں سے لائوں گی۔ داماد کی آئو بھگت کے لیے اس کی حیثیت کے مطابق لوازمات کیسے مہیا کر پائوں گی۔
نور البتہ بہت خوش تھی۔ دل سے چاہتی تھی اس کا رشتہ اس زمیندار گھرانے میں ہوجائے۔ اپنی بڑی بہنوں کی بے حسی اور گھر کے ماحول سے عاجز اور غربت سے تنگ آئی ہوئی تھی۔ وہ خوشی سے دیہات میں پڑھانے نہیں جاتی تھی۔ شہر سے دیہات جاکر ڈیوٹی دینا آسان نہ تھا۔ وہ چاہتی تھی ماں اس رشتہ سے انکار نہ کرے۔ کئی بار اسے فہیم نے دیہات سے گھر پہنچایا تھا۔ راستے میں باتوں سے اسے مسحور کرلیا تھا۔ وہ جلد از جلد اپنے گھر کے بے سکون ماحول سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔ ایسے امیر کبیر گھر کا رشتہ تو قسمت سے ملتا ہے اور ماں جانے کن سوچوں میں پڑ گئی تھی۔
نور نے مجھ سے کہا۔ امی کو سمجھائو۔ آخر اس رشتے میں کیا خرابی ہے اور وہ کس وجہ سے ڈرتی ہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے غربت ہی دیکھی ہے، اوپر سے چاروں بڑی بہنیں سانس نہیں لینے دیتیں۔ ہم دن رات پریشان رہتے ہیں کیونکہ گھر کا ماحول ہی پریشان کن ہے۔ میں پرسکون زندگی چاہتی ہوں۔ ایسی جگہ جانا چاہتی ہوں جہاں کم سے کم دال روٹی کی فکر سے بندہ آزاد ہو۔ آج کے ساتھ کل کی فکر نہ لگی ہو۔ ایک دن کہنے لگی میں بہت خوش تھی کہ میرے لیے اتنا اچھا رشتہ آنے پر ماں خوش ہوگی، عقل سے کام لے گی اور اس رشتے کو نہیں ٹھکرائے گی مگر اماں نہیں مان رہی ہیں۔ بتائو میں کیا کروں۔
واقعی خالہ جی غلطی کر رہی ہیں، ایسے رشتے ہم جیسی لڑکیوں کو کب ملتے ہیں۔ غرض کہ خالہ جی نے فراست سے کام نہ لیا۔ زمیندار کے گھر کی عورتیں کئی بار آئیں مگر انہوں نے انکار کردیا۔ بالآخر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔
ایک روز جب نور اسکول پڑھانے گئی تو واپس نہیں آئی۔ ماں نے تمام دن انتظار کیا۔ شام سے رات ہوگئی مگر وہ نہ آئی۔ تو ماں کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ ہمارے گھر آئیں اور امی سے کہا۔ بہن، بہت پریشان ہوں، ضرور میری بچی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا ہے۔ ہم نے انکار کیا، انہوں نے بدلہ لے لیا ہے۔ کاش میں عقل سے کام لیتی اور ہاں کہہ دیتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ہاں بہن… تم نے ہاں، کہی ہوتی تو عزت سے بیٹی رخصت ہوتی۔ بڑے لوگ انکار سننے کے عادی نہیں ہوتے۔ اب بیٹی بھی گئی اور بدنامی کا داغ بھی لگ گیا۔ میری والدہ صرف تسلی دے سکتی تھیں، نور کو واپس نہ لاسکتی تھیں۔ خالہ جی آنسو پونچھتی چلی گئیں۔ جب ہفتہ گزر گیا، انہیں غشی کے دورے پڑنے لگے۔ اللہ جانے نور پر کیا بیتی ہے اور اب لوگوں کے سوالوں کا کیا جواب دوں گی کہ لڑکی کدھر گئی۔ وہ رو رو کر امی سے دل کا حال کہتیں اور امی دل مسوس کر رہ جاتیں۔ والدہ سے بھی محلے والیاں پوچھتی تھیں کہ نور کہاں چلی گئی تو امی جواب دیتیں پرائی ہوگئی ہے۔
محلے بھر کے لوگ انگشت بدنداں تھے کہ ڈھول نہ تاشے، نہ بارات آئی۔ پھر نور پرائی کیسے ہوگئی۔ ہر کسی کی منہ پر یہی بات تھی کہ لڑکی بھاگ گئی ہے، تبھی ماں نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ یہ گھرانہ اپنی نیک نامی اور رکھ رکھائو کے باعث محلے بھر میں غربت کے باوجود سب سے معزز تھا اور آج صدیوں کی عزت خاک میں مل گئی تھی۔ سب سے زیادہ شامت منورہ کی آئی کہ وہ کالج نہیں جاسکتی تھی۔ سبھی اس سے نور کے بارے میں پوچھتے کہ تمہاری بہن کہاں گئی؟ کیا وہ واقعی بھاگ گئی ہے۔ محلے کی لڑکیاں جو اس کے ساتھ پڑھتی تھیں انہوں نے اس کا جینا حرام کردیا تھا۔
نور کو گھر سے گئے سات برس بیت گئے۔ گھر والوں نے اس کو مرا ہوا مان لیا۔ ایک دن اتفاق سے وہ مجھے ریلوے اسٹیشن پر مل گئی۔ ہم ایک ہی ڈبے میں سوار ہوئے تھے۔ بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے بتایا۔ میری شادی فہیم سے ہوچکی ہے۔ میں اپنے گھر میں سکھی ہوں۔ چار بچوں کی ماں ہوں مگر جو دکھ میں نے گھر والوں کی جھولی میں ڈالا وہ میرے ضمیر پر کسی بڑے بوجھ کی طرح ہے۔ بے شک میں نے اپنی مرضی سے شادی کی اور سب یہ سمجھتے ہیں کہ بہت سکھی ہوں، مگر میرا دکھ کوئی نہیں جانتا۔
میرا تعلق جب سے میکے سے ٹوٹا ہے مجھے سکون نہیں ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ میکہ کیا ہوتا ہے۔ بابل کا گھر چھوٹا، بے شک ٹوٹا پھوٹا کیوں نہ ہو، بہشت سے کم نہیں ہوتا۔ اب سمجھ میں آیا کہ کیوں میری بیاہتا بہنیں روز روز میکے آجاتی تھیں، اپنے گھر میں سکھی رہ کر بھی انہیں ماں باپ کے گھر کی ٹھنڈی چھائوں نہیں بھولتی تھی۔ برگد کے چھتنار درخت جیسی ماں جو ہمیشہ تپتی دوپہروں میں ان پر اپنی گھنی چھائوں ڈالے رکھتی تھی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ اچھی سسرال اور پیار کرنے والا شوہر ملا۔ رہنے کو حویلی ہے، گاڑی اور نوکر ہیں۔ میں ایک صاحب حیثیت خاندان کی بہو ہوں۔ میرے بچوں کو زندگی کی ہر نعمت میسر ہے لیکن… میکے کی یاد پھر بھی دل میں ٹیس کی طرح اٹھتی ہے۔ جب ماں یاد آتی ہے تو رو پڑتی ہوں۔
یہ سوچ کر مرنے لگتی ہوں کہ میں نے اس شفیق ہستی کو کتنا دکھ دیا ہے۔ اب وہ چاہتے ہوئے بھی میرے پاس نہیں آسکتیں کہ داماد طعنے دیں گے اور بیٹے بھی طوفان کھڑا کردیں گے۔ اس نے التجا کی تم وہاں جاکر میری امی کو تسلی دینا۔ میری طرف سے معافی مانگنا۔ کاش میں ان کے قدموں میں سر رکھ سکتی۔ ان سے ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کرسکتی۔ کون جانے زندگی کتنی ہے، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، کیا پتا میں کبھی اپنی پیاری ماں اور بہن بھائیوں سے مل بھی سکوں گی یا نہیں۔ بس یہی ایک خیال دن رات مجھے پریشان رکھتا ہے۔
چھ ماہ بعد سسرال سے جب میرا میکے جانا ہوا۔ خالہ جی کے گھر گئی۔ انہیں بتایا کہ آپ کی بیٹی مجھے ٹرین میں ملی تھی۔ وہ بہت سکھی ہے۔ اچھی زندگی گزار رہی ہے۔ خوش و خرم ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ بس دعا کریں نور کیلئے۔ اس نے معافی مانگی ہے آپ سے۔ یہ سن کر خالہ جی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ان کے لبوں سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔ اللہ اسے ہمیشہ سکھی رکھے۔ وہ جہاں رہے خوش رہے اور پھر ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ کاش میں رسم و رواج کو توڑ کر ان کا دکھ مٹا سکتی۔ کاش میرے ذریعے یہ بچھڑی ہوئی ماں، بیٹی مل سکتیں مگر میں یہ نہ کرسکتی تھی کہ میں خود علاقے کے رسم و رواج میں جکڑی ہوئی ایک بے بس عورت تھی، جس کو اپنے گھر کے مردوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تربیت دی گئی تھی۔
میں نے اپنے شوہر سے پوچھا تھا۔ کیا میں نور کے پاس جاسکتی ہوں۔ کیا میں اس کی ملاقات کسی طرح ایک بار خالہ جی سے کرانے کی کوشش کروں؟
ہرگز نہیں۔ انہوں نے سختی سے جواب دیا تھا۔ وہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی ہے جس نے اپنے عزت دار مرحوم باپ اور بیوہ ماں کی حرمت و ناموس کو اپنے پیروں تلے روند دیا ہے اور بھاگ کر مرضی کی شادی کرلی۔ ایسی لڑکی سے تم ناتا رکھنے کی بات کرتی ہو، جس کے اپنوں نے اس سے کوئی ناتا اور واسطہ نہیں رکھا۔ آئندہ ایسی بات سوچنا بھی نہیں۔ خاوند کے کڑے تیور دیکھ کر پھر کبھی مجھے دوبارہ ان سے نور کے بارے میں کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔ (ش … جام پور)

Latest Posts

Related POSTS