میرا نام ملوک رکھا گیا۔ میں نے روہی کی ریتیلی سرزمین میں جنم لیا تھا جہاں کانٹوں اور ببولوں کی فصلیں اُگتی ہیں۔ میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ میرے والد شتربان تھے۔ شہر جا کر مزدوری کرتے تو ہمارے گھر کا چولہا جلتا تھا۔ ابّا کے پاس تھوڑی سی زمین تھی لیکن بیلوں کی جوڑی نہ ہونے کے سبب چار بیگھے زمین کا یہ ٹکڑا بنجر پڑا تھا۔ اگر بیل ہوتے تو ہل چل پاتا۔
ایک روز ابّا اونٹ گاڑی پر ریت بھر کر شہر گئے جہاں ایک مسجد تعمیر ہو رہی تھی۔ ان کی ملاقات سراج مستری سے ہوئی جو بیلوں کی ایک جوڑی کا مالک تھا لیکن ان کو فروخت کرنا چاہتا تھا۔ ابّا نے کہا تمہارے بیل تو اچھی نسل اور جوان ہیں پھر انہیں فروخت کرنے کی کیوں ضرورت پڑگئی۔ وہ بولا۔ مجھے شادی کرنی ہے جبکہ میرے پاس بدلے میں دینے کو ’’بازو‘‘ (عورت) نہیں ہے، انہیں فروخت کر کے اس رقم سے بیوی حاصل کر لوں گا تو گھر بس جائے گا۔ زمین تو ہے نہیں، بیل رکھ کر کیا کروں گا۔
اگر میں تمہیں بازو (اپنی بیٹی کا رشتہ) بیلوں کی جوڑی کے بدلے دے دوں تو کیا تم قبول کر لو گے۔ مجھے اللہ نے چار بیگھے زمین دی ہے، کنواں بھی موجود ہے، دو بیل ہوں تو میں خوشحال ہو جائوں گا اور تیرا گھر بھی بس جائے گا۔ مجھے منظور ہے۔ تم آج ہی یہ بیل لے جائو۔ میں کل تمہارے ٹھکانے پر آ کر باقی معاملات طے کر لوں گا۔اگلے دن مستری سراج ہمارے گھر آیا۔ بھائی درمیان میں بیٹھے اور معاملہ طے ہو گیا۔ بیلوں کی ایک جوڑی لے کر انہوں نے میرا ہاتھ مستری کے ہاتھ میں دے دیا کیونکہ دو برسوں سے یہ چار بیگھے زمین بنجر پڑی تھی۔ والد اور بھائیوں نے بیلوں کی جوڑی کے بدلے میرا نکاح سراج مستری سے پڑھوا کر ایک جوڑے میں رخصت کر دیا۔
بیٹی چلی گئی اور بیلوں کی جوڑی گھر آ گئی۔ ان بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی ٹن ٹن جب میری ماں کو میری یاد دلاتی تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے۔ ابّا مگر خوش تھا، کہتا تھا سودا برا نہیں ہے۔ دو برس سے کنوئیں سے ایک ڈول پانی باہر نہیں نکالا ہے، کنواں ویران پڑا ہے۔ کاش پچھلے سالوں میں پالے سے ہمارے بیل نہ مرتے تو ہم زمین میں چارہ ہی اُگا لیتے۔
اچھا ابّا اب تو مسئلہ حل ہو گیا نا۔ بس انہیں سردی سے بچانا ورنہ پھر خالی ہاتھ رہ جائو گے۔ میں روز ان کی نذر اُتاروں گی۔ ماں دل پر ہاتھ رکھ کر شوہر اور بھائیوں کو خوش کرنے کے لیے کہتی، ساتھ ہی سوال اٹھاتی۔ مگر اب لڑکے بھی تو بیاہنے ہیں، ان کے لیے ’’بازو‘‘ کا کیا سوچا ہے؟ اللہ مالک ہے۔ جب اللہ سونا دیتا ہے تو زیور بنوانے کے لیے اُجرت بھی دے دیتا ہے۔
میں خوش قسمت تھی کہ مجھے سراج مستری جیسا کمائو اور نیک طبیعت شوہر ملا تھا۔ وہ میرے دکھ سکھ کا ساتھی تھا۔ میں اسے پا کر بہت خوش تھی۔ وہ بھی مجھے پاکر خوش تھا۔ کہتا تھا تیرے جیسی بیوی بیلوں کے بدلے مل گئی۔ میں بڑے فائدے میں رہا۔ بھلا بیلوں میں کیا رکھا تھا اور تو ہنستی مسکراتی، سوہنی۔ خدمت گزار، دل موہ لینے والی صابر بیوی میرے لیے کسی دولت سے کم نہیں۔ اللہ ہماری جوڑی قائم دائم رکھے اور ہم عمر بھر ساتھ رہیں۔ مستری سراج کو مجھ سے بہت لگائو تھا۔ اپنے گائوں میں اس نے میرے لیے پکا شاندار اور کشادہ گھر بنوایا۔ اس گھر میں میرے علاوہ ساس سسر اور تین دیور رہتے تھے۔ وہ بھی کمائو تھے۔ غرض خوشحال گھرانہ تھا۔ کچھ زمین تھی۔ گائوں شہر سے نزدیک تھا۔ مال مویشی اپنے تھے۔ کسی شے کی کمی نہ تھی۔ ساس بھی اچھی تھی۔ مجھے یہاں آ کر زندگی کا سکھ اور ہر خوشی مل گئی۔ شوہر اچھا ہو، پیار کرنے والا اور قدردان ہو، عورت کو اور کیا چاہیے۔ اللہ نے مجھے تین بچّوں سے نواز دیا۔ میں بہت خوش و خرم زندگی بسر کر رہی تھی کہ اچانک اس خوش و خرم زندگی میں انقلاب آ گیا۔ وقت نے کروٹ لی اور میں عرش سے فرش پر آ گری۔
ایک روز اپنے سات ماہ کے بچّے کو پالنا جھلا رہی تھی کہ چھوٹا دیور بھاگتا ہوا آیا اور بولا۔ بھابی غضب ہو گیا۔ بھائی سراج پر سریا گرا تو وہ وہیں گر گئے۔ اسپتال لے جانے سے پہلے جان چلی گئی۔ اللہ جانے کیسے سریا مزدوروں کے ہاتھوں سے چھوٹا اور ان کی گردن میں گھس گیا۔ شہ رگ کٹ جانے کی وجہ سے سراج کی موت واقع ہو گئی۔
کچھ دن سوگ میں گزرے۔ پھر حقیقت دانت نکوسے گھورتی نظر آنے لگی۔ جس گھر کو اپنا گھر کہتی تھی، جن بچّوں کو اپنے بچّے کہتی تھی، جن ساس، سسر کو اپنے ماں باپ جان کر اپنے سگے والدین کو بھلا بیٹھی تھی، وہ سب پرائے لگنے لگے۔ دل پوچھتا تھا نہ جانے اب تیرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ سارے رشتے تو مرنے والے کے دم سے تھے۔ رہ رہ کر امید بھری نظروں سے کبھی ساس سسر اور کبھی جیٹھ، دیور کو دیکھتی تھی۔
جیٹھ کی بیوی وفات پا چکی تھی۔ جب گھر میں چہ میگوئیاں سنیں تو معراج نے ماں سے کہا۔ ’’ملوک کو کہیں دھکا دینے کی ضرورت نہیں، اس کو اس گھر سے پیار ہے، اس کے تین معصوم بچّے ہیں، اس سے پوچھ لو۔ راضی ہے تو میں اس سے نکاح کر لوں گا تاکہ یہ دربدر ہو اور نہ بچّوں سے جدا ہو۔ اگر ابّا کو اس کے بدلے رقم یا بیلوں کی جوڑی چاہیے تو وہ میں دے دوں گا، چاہے مجھے چوری کیوں نہ کرنا پڑے۔
یہ سن کر میرے دل کو سکون مل گیا۔ بے سروسامانی کا خوف اور بچّوں سے دوری کا ڈر ختم ہو گیا۔ گھر اور بچّوں کی خاطر میں نے جیٹھ سے نکاح منظور کر لیا۔ مگر میرے دیور کو یہ بات پسند نہ آئی۔ وہ مجھے فروخت کر کے اس کے بدلے کسی اور عورت سے شادی کرنے کا ارمان پورا کرنا چاہتا تھا۔ بڑے بھائی کے سامنے بولنے کی ہمّت نہ تھی۔ ساس سسر بھی مجھے دربدر کرنا نہ چاہتے تھے کہ بچّے چھوٹے تھے۔
معراج نے مجھ سے نکاح کر لیا اور ابھی ہم ٹھیک طرح سے ایک دوسرے کے نہ ہو پائے تھے کہ معراج کا زمیندار نے پرچہ کٹوا دیا کہ اس نے اس کے بیل چوری کر لئے ہیں۔ الزام صحیح تھا یا غلط، معراج کو جیل جانا تھا کیونکہ یہ پرچہ علاقے کے ایسے آدمی نے درج کروایا تھا، پولیس جس کی مٹھی میں تھی۔
معراج کے جیل جاتے ہی چھوٹے دیوروں نے سر اٹھایا۔ انہوں نے کہا اب زمیندار کا جرمانہ بھر کر ہی بھائی کو رہائی دلوا سکیں گے مگر پیسے کہاں سے آئیں گے۔ نظر پھر مجھ پر ٹھہری۔ ایک بڑھئی سے بات طے ہو گئی۔ اس نے پچاس ہزار میں خریدنے کی ہامی بھرلی اور پچاس ہزار زمیندار کو دینے تھے، تب ہی سراج جیل سے باہر آ سکتا تھا۔جب سودا طے ہو گیا تو دونوں دیور میرے پاس آئے کہا۔ بھابی تیار ہو جائو، آج تمہیں خالہ کے گائوں لے جانا ہے۔
مگر کیوں؟ آج پوچھ گچھ کے لیے پولیس آئے گی تو تمہارا گھر میں موجود ہونا ٹھیک نہیں ہے، کہیں بہانے سے تمہیں گرفتار کر کے نہ لے جائے۔ مجھے کیوں گرفتار کریں گے بھلا، میرا کیا قصور؟ پولیس غریب کی بے بسی دیکھتی ہے، اس کا قصور نہیں دیکھتی۔ اب ہماری عزت پولیس والوں کے ہاتھ میں ہے۔ میں بیچاری ان کے ڈرانے سے جانے کے لیے راضی ہوگئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بچّوں کو بھی لے چلوں۔ وہ بولے۔ انہیں یہیں رہنے دو، وہاں خالہ تنگ ہو جائے گی۔ جب میں تنہا چلنے لگی، ماتھا ٹھنکا۔ کیا کر سکتی تھی، ان کے قبضے میں جو تھی۔ شام کو ساتھ والے گائوں میں پہنچے تو کچھ مردوں کو دیکھا جو انتظار کر رہے تھے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ ہم نے تیرا سودا کر دیا ہے، اب تمہیں ان کے ساتھ جانا ہے۔ اب تو رمضو بڑھئی کی ملکیت ہے۔ ہم اگر زمیندار کا جرمانہ نہیں بھریں گے تو وہ ہم سب کو اندر کرا دے گا۔
ظالموں میرے بچّوں کا تو سوچا ہوتا۔ بے فکر ہو جا، وہ ہمارے بچّے ہیں، ہم انہیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دیں گے۔ بس اب تم جائو۔ یہ سن کر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ دیوروں کے پائوں پڑنے لگی۔ مجھے نہ بیچو، میں محنت مشقّت کر کے تم لوگوں کو رقم ادا کر دوں گی۔ یہ تیرے بس کی بات ہے اور نہ ہمارے بس۔ انہوں نے میری آہ و زاری کی کچھ پروا نہ کی۔ رقم گن کر جیب میں رکھ لی اور مجھے رمضو کے حوالے کر کے چلتے بنے۔
رمضان ایک رحمدل آدمی تھا۔ اس نے مجھے بلک بلک کر روتے دیکھا تو کہا۔ ملوک مت رو، میں تمہیں کبھی کوئی تکلیف نہ دوں گا۔ تم تکلیف دو کہ نہیں، میری تکلیف دور نہیں ہو سکتی۔ میرے تین بچّے ہیں، چھوٹا ابھی صرف نو ماہ کا ہے۔ ملوک جو قسمت میں لکھا تھا ہو چکا۔ میں بھی مجبور ہوں، تو بھی مجبور ہے، مجھ سے نکاح کر کے آرام سے باقی زندگی گزارو، رونے دھونے سے کیا ہو گا۔ ایک شرط ہے میری، تو جا کر جیل میں معراج سے مل اور اس سے کاغذ پر لکھوا کر لے آ کہ اس نے مجھے طلاق دے دی ہے، تب میں تم سے نکاح کروں گی۔ ٹھیک ہے تیری بات۔ میں کل جیل جاکر اس سے ملتا ہوں۔ دیکھتا ہوں وہ کیا کہتا ہے۔
اگلے روز رمضو جیل میں معراج سے ملا، اس کو احوال دیا۔ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کب تک جیل میں رہوں۔ تم نے پیسے واپس لے کر ملوک کو میرے گھر والوں کے حوالے کیا تو وہ کسی اور کو اسے فروخت کر دیں گے۔ کم از کم مجھے یہ اطمینان تو ہے کہ تو ایک اچھا آدمی ہے اور ملوک سے اچھا سلوک کرے گا۔ اسے میری طرف سے سمجھا دے کہ میں جلدی رہا ہونے والا نہیں۔ وہ تم سے نکاح کر لے۔ میں اس کو آزاد کرتا ہوں۔ اس کا بہت خیال رکھنا اور جب وہ بچّوں کے لیے اداس ہو تو اسے بچّوں سے ضرور ملوا دینا۔ جب میں جیل سے رہا ہو جائوں گا تو اپنے بھائیوں سے نمٹ لوں گا۔
معراج نے رمضو بڑھئی کو اس تاکید کے ساتھ رخصت کر دیا تو اس کے دل سے بھی بوجھ ہلکا ہو گیا اور اس نے مجھے سمجھا بجھا کر قائل کر لیا۔ میں مجبور تھی کہاں جاتی۔ میں رمضو سے نکاح پر مجبور تھی کیونکہ جیل سے معراج نے طلاق کا کاغذ بھجوا دیا تھا جو رمضو نے گائوں والوں کے ساتھ جا کر مولوی صاحب کو دکھا دیا۔ یوں میرا نکاح رمضو سے ہو گیا۔ اللہ نے میرا معراج سے ملاپ نہیں لکھا تھا، اسے زمیندار کے بیل چُرانے کے جرم میں سزا ہو گئی اور وہاں وہ یرقان میں مبتلا ہو کر رہائی سے قبل ہی اللہ کو پیارا ہوگیا۔ رمضو میرا آخری سہارا تھا۔ اس سے دو بیٹے ہو گئے۔ پچھلے دکھ بھلا کر میں رمضو کے گھر زندگی کے دن گزار رہی ہوں۔ آج پہلے خاوند کے بچّے بھی جوان ہیں، کبھی کبھی ملنے آتے ہیں۔ رمضو ان سے ملنے سے منع نہیں کرتا۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ اس شخص کو اس نیکی کا اجر دے۔
(م۔الف…ڈیرہ غازی خان)