میں شادی کرنے سے انکاری تھی، کیونکہ مجھے سسرالی رشتوں سے چڑ تھی ،بلکہ نفرت تھی -ایک بندے کے ساتھ کے حصول کے لیے کیا ڈھیر سارے فضول رشتوں کو قبول کروں؟ ان کی اچھی بری باتیں سہوں، ناروا رویہ برداشت کروں – رنگت خراب ،صحت متاثر، آخر میں دماغ خراب – اس لیے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں یوں ہی زندگی گزار دوں گی – آزاد، من پسند، پرسکون ،لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے – ہونی کو کوئی کیسے ٹال سکتا ہے – یہ سب کہاوتیں میرے آنگن کی دہلیز پر جمع ہو گئیں جب حیدر کا رشتہ میرے لیے آیا، تو انکار کی گنجائش نہ تھی اور میرے گھر والوں نے مجھ سے ہاں کروا کر ہی دم لیا – میں اپنی آزادی یعنی رسالے پڑھنا ،دیر تک سونا ،موبائل اور انٹرنیٹ پر مصروف رہنا ،وغیرہ وغیرہ کے خاتمے پر سخت پریشان تھی – میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں خود کوستی ساوتری ثابت نہیں کرنا چاہتی – سسرالی رشتوں کو سر نہیں چڑھانا وہ میرے گھر ائے تھے میرا ہاتھ مانگنے، میں تھوڑی گئی تھی ان کے گھر ان کے بیٹے کا ہاتھ مانگنے – کوکنگ میری گزارے لائق تھی آملیٹ ، ہاف فرائی اور بوائل ایگ میں بنا لیتی تھی – مزاج بھی بس ٹھیک تھا اور میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں ایسے ہی رہوں گی- شادی کے تمام معاملات بخیر و خوبی انجام پا گئے – رسموں میں بدمزگی ہوئی نا حق مہر پر جھگڑا ہوا- نا بری میں آؤٹ فیشن کپڑے رکھے تھے نہ ہی ولیمے پر فضول میک اپ کرایا گیا – ہر چیز نفیس اور عمدہ تھی، پر میں اپنے ہی غموں میں گرفتار تھی- سسرال کے خلاف منصوبہ بندی میں مصروف تھی- سو کسی اور طرف دھیان نہ گیا- چند دن کے ناز نخروں کے بعد اصل زندگی کا آغاز ہوا تو میں نے گھر والوں کے 14 طبق روشن کر دیے- لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا موقف بیان کر دیا – کچھ عملا اور کچھ لفظا – دراصل میں بلا ضرورت بولتی نہ تھی اور اس کا سبب میری کم گوئی نہ تھی، بلکہ میں صرف اپنی پسند اور اپنے مطلب کے لوگوں کو لفٹ کراتی تھی- ورنہ گم سم بیٹھی رہتی اور میری ساس کو میری اسی خوبی نے متاثر کیا- اب جو دلہن کو کفن پھاڑ کے بولتے دیکھا تو یقینا حیرت بنی بیٹھی تھی- ایک نند اپنے گھر کی تھی، ایک دیور اور ایک نند پڑھتے تھے -سسر اور میرے شوہر جاب کرتے تھے – خوشحالی تھی، پیسے کی ریل پیل میں خود کو بیڈ روم تک محدود رکھتی – کسی سے بات نہ کرتی- مجبورا کلام کرنا پڑتا ،تو میرا انداز ایسا ہوتا کہ سوال کرتے تو جواب دیتی – میں سوال کرتی تو صرف جواب ملتا – میں اسے اپنی کامیابی سمجھتی- میرے پہننےاوڑھنے اور آ نے جانے پر کوئی پابندی نہ تھی – میری امی جو میرے خیالات پر ہولتی اور ٹوکتی تھیں اب مجھے اس طرح عیش کرتے دیکھ کر خوش ہوتی اور دعائیں دیتی تھیں –
آپ کی سوچ غلط تھی امی ۔ میں کبھی آپ کو قالو نہیں کروں گی۔ میں ٹین ایج میں تھی جب امی سے یہ کہتی اور میں نے ایسا ثابت کر دکھایا تھا۔ اس کی وجہ میری دادی اور پھپھو کا امی سے ناروا سلوک تھا۔ بلکہ ظالمانہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ دادی سارا دن پلنگ پر بیٹھ کر حکم چلاتیں۔ پھپھو, مزاج دار دادا ,اور چاچو عضو معطل اور ابو ہے جس ۔ جب تک دادی زندہ رہیں۔ زندگی ایک سزا تھی۔ امی کے ملگجے کپڑے، بے رونق آنکھیں ، بری حالت ، ابو کو نظر نہ آتی ۔ سب لوگ امی پر ترس کھاتے ۔ ابو صرف تابع دار بیٹے تھے۔ ان حالات نے مجھے باغی بنا دیا اور خود سر بھی ۔ سو آج میں جو بھی تھی حالات کے رد عمل کے نتیجے میں بنی تھی ۔ یہ میرا خیال تھا) سرال میں سب نے میری ہٹ دھرمی پر سمجھوتہ کر لیا سوائے میرے شوہر کے – وہ مجھے ٹوکتے پہلے پیار سے اور پھر سنجیدگی سے – میں اپنے ساس کا سکھاوا سمجھتی، نندوں کی پڑھائی ہوئی پٹیاں سمجھتی ، حالانکہ وہ میری ضدی طبیعت پر دو حرف بھیج چکی تھی – وقت اپنی چال چلتا گیا – سسر وفات پا گئے ،دیور باہرپڑھنے چلا گیا – چھوٹی نند بیاہی گئی – میرا مزاج اور روش وہی تھی لیکن ساس اب علیل رہنے لگی تھی – عمران کا سختی سے حکم تھا گھر کی طرف توجہ دوں- اب میں مارے باندھے کام کر لیا کرتی، دو بچوں کے باوجود میری خوبصورتی قائم تھی میں اپنی چھوٹی بہنوں سے کم عمر لگتی- ایک روز میں بچوں کی شاپنگ کرنے گئی تو نہ جانے دل میں کیا آیا ایک جوڑا ساس کے لیے بھی خرید لیا – شال پسند آئی وہ بھی ان کے لیے خرید لی – نہ جانے کیوں گھر آ کر ان کو جوڑا اور شال دکھائی – پہلے وہ بے یقینی سے دیکھتی رہی – پھر سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی ، نہ جانے کیوں پہلی بار میرا دل سخت رقیق ہو گیا- شاید انہوں نے کبھی روایتی ساس بن کر نہیں دکھایا تھا – میں ان کے لیے پرہیزی کھانا بنانے لگی ، ایسا اب میں خود ہی کرتی تھی- بغیر عمران کے کہے- ایک روز اچانک ان کی طبیعت خراب ہو گئی – انہیں ہسپتال لے جانا پڑا – سیریس حالت تھی ،سب پریشان میں بے حس اور لا تعلق – عمران نے کہا امی مجھے یاد کر رہی ہیں- میں ہاسپٹل گئی، ہم دونوں کمرے میں تنہا تھی- انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے پاس بٹھایا – زندگی میں پہلی بار ہم دونوں یوں فرصت سے بیٹھے تھے – امی آپ سوپ پی لیں ، میں انہیں سوپ پلانا چاہتی تھی – انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا، وہ کچھ کہنا چاہتی تھی – ان کے تاثرات بتاتے تھے میں مجبوری میں ہمہ تن گوش ہو گئی – میری شادی ہوئی تو میرا واسطہ روایتی سسرال سے پڑا- اب اپنی مظلومیت کی داستان سنائیں گی میں نے بیزاری سے سوچا – سخت بد مزاج بلکہ کسی حد تک ظالم ساس کو میرا اوڑھنا تک پسند نہ تھا – میک اپ کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا – میں سردی گرمی لیلن کے دو جوڑوں میں گزارا کرتی – ساس سالن خود بناتی اپنی مرضی سے نکال کر دیتی –
کبھی بوٹی ڈالنا بھول جاتی کبھی پانی والا سالن میرا مقدر بنتا ،کبھی میرے حصے کی روٹی ختم ہو جاتی – شوہر اچھے تھے ،مگر اپنے کمرے تک – سب کہتے ہیں میں جلتے توے پر زندگی گزار رہی ہوں- ہر وقت لڑائی جھگڑا ،روک ٹوک ، میرے دل میں ساس نندوں کے لیے بیزاری تھی اور نفرت شوہر کے لیے – میں بوریت سے باتیں سن رہی تھی میری ساس آہستہ آہستہ بول رہی تھی – آنکھوں میں بے رنگ پانی تھا – آخر یہ مشکل بلکہ بہت مشکل وقت گزر گیا ، کیسے گزرا ؟ یہ صرف میں جانتی ہوں- پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں ایسی ساس نہیں بنوں گی- رشتے اچھے برے نہیں ہوتے ہمارے رویے انہیں اچھا یا برا بنا دیتے ہیں- اس لیے فیصلہ کیا کہ میں ایسی ساس نہیں بنوں گی- ساس کے وفات کے بعد بھی میرے دل سے ان کے لیے نفرت اور گلے ختم نہ ہوئے تھے- میں نے سوچا کیوں بیٹے اور بہو کی زندگی کے اچھے دن اپنے حسد اور جلانے کی نظر کروں ؟میں شاید اچھی ساس نہ بھی بن سکوں مگر اچھی انسان تو بن سکتی ہوں نا – میں نے اپنی بیٹیوں کو بھی گھریلو سازشوں سے دور رکھا تھا – میں یہ چاہتی تھی کہ ان کے ذہن پراگندہ نہ ہوں – آج میرے بچے اپنے گھروں میں خوش اور مطمئن ہیں- میرا لحاظ کرتے ہیں، احترام کرتے ہیں – مجھے یقین ہے کہ مرنے کے بعد مجھے اچھے الفاظ میں یاد رکھیں گے – میری ساس کا سانس پھولنے لگا، میں نے پانی پلایا ،اور کمر سہلائی- کافی دیر بیٹھنے کے بعد میں واپس آ گئی – نہ جانے میرا دل کیوں بوجھل تھا – شاید مجھے آج اپنی زیادتیوں کا احساس ہونے لگا – بعض اوقات برے لوگوں کو اچھے مل جاتے ہیں جو ان کو بدل دیتے ہیں- اسی طرح بہت اچھے لوگوں کو برے لوگ مل جاتے ہیں جیسے میری ساس ایک مہربان عورت تھی اور میں نامہربان بہو- ساس کی باتوں نے میرے دل پر اثر ڈالا تھا – میں روز ان کا کمرہ صاف کروات کپڑے دھلوا کر رکھتی – اب میں ان کا بہت خیال رکھوں گی- یہ بات میں روز تہیہ کرتی – ان کے مثبت رویے نے میرا دل بدل دیا تھا – میں بہت سی لڑکیوں کے مقابلے میں خوش اور مطمئن تھی – تو اس کا سبب میری ہوشیاری نہیں بلکہ ان کا غیر روایتی رویہ تھا – چوتھے دن پتہ چلا ان کا انتقال ہو گیا ہے – میں بہت روئی تڑپی – ان کی محبتوں کا احساس ہو گیا تھا یا اپنے پچھتاوے مار رہے تھے – سب کہتے تھے ایسی بہو کبھی نہیں دیکھی بیٹیوں جیسی محبت کرتی تھی – نند رو رہی تھی اور مجھ سے دور دور تھی- ساتھ والی آنٹی نے مجھے دلاسہ دیا- مرحومہ تمہیں بڑی دعائیں دیتی تھیں – سدا سہاگن رہنے کی ، تندرستی کی، خوشیوں کی ،تم نے جو سوٹ انہیں گفٹ کیا تھا وہ پہن کر میرے پوتے کے عقیقے پر ائی تھی- نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی – میں برستی انکھوں سے ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی- جو دھندلا رہا تھا – میرے سسرالی بے قصور تھے شاید یہ خون اور فطرت کا اثر تھا ،جو مجھ میں دادی اور پھوپھو کی طرف سے آ یا تھا – جن پر میری ماں کی خدمت اور اچھائی کا اثر نہ ہوتا تھا – اے کاش ! اگر یہ وقت نہ گزرا ہوتا تو شاید تلافی کی صورت ممکن تھی- میں اچھی بہو نہیں بن سکی یہ حقیقت ہے مگر اچھی ساس ضرور بن سکتی تھی کبھی بھی انے والی لڑکی کے لیے یہ میرا فیصلہ تھا-