یں ایک ستّرسالہ بوڑھی عورت ہوں اور میری زندگی کی کہانی ان لوگوں کیلئے ایک سبق ہے جو اس امید پر اولاد کی تمنّا کرتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں ان کو سنبھالے گی اور سہارا بنے گی۔
میری والدہ نے ہمیشہ کرائے کے گھروں میں جیون بتِایا کیونکہ والد صاحب معمولی تنخواہ دار تھے اور وہ عمر بھر اپنا ذاتی گھر نہ بنا سکے تھے۔ بچّوں کی پرورش کرتے یا گھر بناتے؟
ہم بھی والدین کے ہمراہ نت نئے مکانوں میں دربدر ہوئے۔ والدہ حسرت کرتیں کہ کاش ان کا بھی ذاتی گھر ہوتا، چاہے چھوٹا سا ہی ہوتا، چھت تو اپنی ہوتی اور کرایہ کے عذاب سے نجات مل جاتی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
جب میری شادی کی عمر تھی، ماں دعا کیا کرتی تھیں کہ اے اللہ! میری بچّی کی شادی کسی ایسے آدمی سے ہو جس کا اپنا گھر ہو، خواہ وہ تین مرلے کا چھوٹا سا ٹھکانہ ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ نے ان کی سن لی۔ میرا رشتہ آیا تو ان کا اپنا گھر تھا، بے شک تین مرلے کا تھا لیکن امّی خوش تھیں کہ میری بچّی کو کرائے کے مکانوں میں دربدر نہ بھٹکنا پڑے گا۔
شوہر کی کریانے کی دکان تھی جو گھر کے سامنے والے حصّے میں بنی ہوئی تھی۔ دکان کے پیچھے دو کمرے اور برآمدہ تھا جس میں کچن بھی بنا ہوا تھا۔ صحن میں دو چارپائیاں پڑی تھیں اور ایک کونے میں دروازے کے پاس غسل خانہ تھا۔ یہی ہماری کل کائنات تھی۔
دکان پر روز و شب میرے شوہر بیٹھا کرتے تھے، ان کی محنت میں اللہ نے برکت ڈال دی۔ دکان کی آمدنی سے ہماری اچھی گزر بسر ہو جاتی تھی۔ زندگی پُرسکون انداز سے گزر رہی تھی۔
ہمارے تین بچّے ہو گئے، دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ میں اپنی زندگی میں خوش اور مگن تھی کہ اچانک میرے شوہر کو ایک روز دکان پر بیٹھے بیٹھے ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میرے بچّے چھوٹے تھے۔ بڑا بیٹا دس برس کا، دوسرا آٹھ سال کا اور بیٹی ابھی پانچ سال کی تھی۔ بچّوں کی کفالت کا بوجھ اب مجھ کو اٹھانا تھا۔ میں صرف پانچ جماعت پاس تھی، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں؟ کچھ رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ دکان فروخت کر دوں اور کسی نے کہا کہ ہماری سپردگی میں دکان دو تو ہم ہر ماہ ایک مخصوص رقم آپ کو دے دیا کریں گے، باقی منافع خود رکھیں گے۔
میں نے بہت غور کیا، بالآخر فیصلہ کیا کہ خاوند (مرحوم) کا کاروبار خود سنبھالوں گی، ان کی دکان آپ چلائوں گی اور اپنے بچّوں کا پیٹ پالوں گی کیونکہ دوسروں پر بھروسہ نہ تھا۔
شوہر کی وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد میں نے دکان کھول دی اور بڑے بیٹے فرید کو اس پر بٹھا دیا۔ خود پردے کے پیچھے سے اس کی رہنمائی کرنے لگی۔ وہ سودا اٹھا کر دیتا اور گاہک سے پیسے لے کر مجھے دے دیتا جو میں گلّے میں ڈالتی جاتی۔
اللہ نے ہمت اور حوصلہ دیا، اس کی رحمت سے دکان پہلے سے بھی زیادہ چلنے لگی۔ گھر کا گزارا ہوتا اور کچھ بچت بھی ہو جاتی۔ یہ بچت میں محفوظ کرتی رہتی اور کچھ کمیٹیاں ڈالتی، یوں میں نے کافی رقم اکٹھی کر لی اور گھر سے کچھ دور تین سستے پلاٹ خرید لئے۔
تین پلاٹ خریدنے میں بھی ایک عمر لگ گئی لیکن میں نے ایک پیسہ بھی ضائع نہ کیا، جو بچت ہوئی، ان سے ان پلاٹوں پر چاردیواریاں بنوا کر ان کو محفوظ کر لیا تاکہ جب بچّوں کی شادیاں ہوں تو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور یہ چاہیں گے تو بعد میں اپنے گھر تعمیر کروا لیں گے۔
اب شوہر کی وفات کو بائیس برس گزر چکے تھے، بچّے جوان تھے۔ بڑے بیٹے کی شادی کر دی، اپنے گھر کی چھت پر دو کمرے بنوا کر شادی شدہ بیٹے اور بہو کو بسا دیا۔
دوسرا بیٹا بھی بھائی کے ہمراہ دکان پر بیٹھتا تھا، دونوں باری باری دکان چلاتے۔ جب ایک، دو ہوتے ہیں تو ایک اور ایک گیارہ ہو جاتے ہیں۔ گھر میں روپے پیسے کی کمی نہ رہی لیکن دولت اپنے ساتھ خرابی بھی لاتی ہے۔
شادی شدہ بیٹے کی نیت میں فرق آنے لگا، وہ دو بچّوں کا باپ بن چکا تھا۔ اس کا کہنا تھا کب تک تین مرلے کے مکان میں گزارا کرتے رہیں گے، فیملی بڑھے گی تو مکان اور تنگ پڑتا جائے گا اور کاروبار بھی بھائیوں کا جدا جدا ہونا چاہئے۔ کل کلاں دوسرے کی بیوی آئے گی تو وہ زیادہ اخراجات کا تقاضا بھی کرے گا۔
میں چاہتی تھی کہ میری زندگی میں میری اولاد اکٹھی رہے، بیٹی تو بہرحال پرایا دھن ہوتی ہے، اسے بیاہنا ہی تھا، اس کیلئے رشتے کی تگ و دو میں لگی تھی۔ اللہ نے سنی اور ایک کھاتے پیتے گھرانے سے فاضلہ کا رشتہ آ گیا۔
فاضلہ کا شوہر اچھی پوسٹ پر تھا اور ان کا ایک کنال کا بڑا سا گھر پوش ایریا میں تھا۔ میں خوش تھی کہ میری بچّی کا نصیب اچھا ہوا۔ میں نے تین مرلہ کے گھر میں عمر گزاری اور اب وہ ایک وسیع گھر کی مالک تھی۔
فاضلہ کو میں نے بی اے تک تعلیم دلوائی تھی، دوسرے نمبر والے بیٹے نے بھی بی ایس سی کر لیا لیکن بڑا بیٹا میٹرک سے آگے نہ پڑھ سکا کیونکہ اس نے باپ کی دکان کو زیادہ وقت دیا تھا تاکہ روزی روٹی چلتی رہے۔
جب دوسرے بیٹے کی شادی کی، اس کی بیوی نے آتے ہی علیحدہ گھر کا تقاضا شروع کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں بڑے گھر سے آئی ہوں، اتنے چھوٹے سے گھر میں نہیں رہ سکتی۔ یہاں تو تنگیٔ مکان سے سانس نہیں لیا جاتا، میرا دم گھٹتا ہے۔
میں نے تجویز دی کہ دکان کے پیسوں سے بچت کرو اور میرے خریدے ہوئے تین پلاٹوں میں سے ایک پر کھلا مکان تعمیر کروا کے اس میں ہم سب شفٹ ہو جاتے ہیں اور دکان کے پیچھے جس گھر میں ہم رہ رہے ہیں، اس کو گودام بنا لیتے ہیں۔
بڑے بیٹے کو یہ تجویز پسند آئی لیکن چھوٹے بیٹے کو نہ آئی کیونکہ اس کی بیوی کا مسئلہ تنگ گھر سے زیادہ علیحدہ رہنے کا تھا، وہ ہمارے ساتھ رہنا نہ چاہتی تھی۔ وہ کچھ لالچی سی تھی، چاہتی تھی کہ اس کا شوہر اپنا علیحدہ کاروبار کرے اور علیحدہ گھر میں رہے۔
دکان کے بٹوارے سے روزی میں خسارہ پڑتا تھا لیکن اس کا بٹوارا اب ایک مجبوری تھی ورنہ چھوٹے لڑکے ستّارکا گھر برباد ہونے کا اندیشہ تھا۔
بھائیوں نے کاروبار کا بٹوارا اس طرح کیا کہ دکان کا سرمایہ آدھا آدھا بانٹ لیا جس سے دکان بیٹھ گئی۔ اب دونوں بھائیوں کو گزارے کے لالے پڑ گئے۔
فرید نے کہا۔ ماں مجھے میرے حصّے کا پلاٹ دے دو، میں اس کو بیچ کر دوبارہ دکان کر لوں گا اور اپنا بزنس چلا لوں گا۔ مجھے تجربہ تو ہے کاروبار کا مگر سرمایہ کم ہے، اس سرمائے سے دکان خریدوں یا کاروبار کروں۔
مجبور ہو کر میں نے ایک پلاٹ اس کے حوالے کیا تو اس نے کہا کہ اس وقت تک اس پر دکان تعمیر نہ کروں گا جب تک یہ میرے نام نہ ہو ورنہ تو ستّار اور فاضلہ کل کو اس میں شرعی حصّے کے حقدار نکل آئیں گے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر بڑے بیٹے کے نام ایک پلاٹ کرتی تو چھوٹا مطالبہ کر دیتا کہ دوسرا پلاٹ میرے نام کر دو۔ فاضلہ بیٹی تھی، میرا خیال تھا کہ وہ امیر گھر میں بیاہی گئی ہے، وہ ایسا مطالبہ کرکے مجھے پریشان نہ کرے گی۔
میں اپنی زندگی میں اپنی ملکیت بچّوں کے نام کر دیتی تو خود اپنے ہاتھ پائوں کٹوا لیتی کہ ملکیت اپنی تحویل میں لینے کے بعد اولاد بعد میں مجھ سے کیا سلوک کرے، مجھے سنبھالے یا بڑھاپے میں نہ سنبھالے، اب تو پلاٹ میرے نام پر تھے، یہ میرے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ہوئے تھے اور میرے فرمانبردار تھے۔
بیٹوں کے معاشی حالات خراب رہنے لگے۔ چھوٹی بہو خرچیلی تھی، ذرا سا خرچے میں کمی آئی، روٹھ کر میکے چل دی۔
فرید بار بار کہتا تھا، ماں اپنی زندگی میں ہم کو جو کچھ دینا ہے ابھی دے دو، ایسا نہ ہو کہ ہمارا گھر برباد ہو جائے۔ آپ نے بعد میں بھی تو ہم کو ہی دینا ہے، قبر میں تو کوئی اپنی ملکیت لے کر نہیں جاتا، آخر بچّوں کو ہی ملنی ہوتی ہے۔
پڑوسی سمجھاتے زہرہ بی بی! ایسا ہرگز نہ کرنا، ملکیت زندگی میں بچّوں کے نام کر دی تو کل کو یہ تمہاری بابت نہ پوچھیں گے، آگے تمہارا بڑھاپا ہے، جائداد ملتے ہی عام طور پر اولاد آنکھیں پھیر لیتی ہے۔
لوگوں کی باتیں سنتی، پریشان ہو جاتی اور بچّوں کی باتیں سنتی اور زیادہ پریشان ہو جاتی تھی، تب میں مولوی صاحب کے گھر گئی تاکہ ان سے مشورہ لوں کیونکہ ایک بیوگی اوپر سے بڑھاپا سر پر آ چکا تھا، لوگ خوف دلاتے تھے کہ سب کچھ اولاد کے حوالے نہ کرنا، کچھ نہ کچھ اپنے بڑھاپے کی خاطر بھی محفوظ رکھنا ورنہ انجام خراب ہو جائے گا۔
مولوی صاحب سے مسئلہ پوچھا کہ میری اولاد کہتی ہے کہ اپنی زندگی میں ہم کو ہمارا تمام حق دے دو تاکہ ہم کاروبار کر کے زندگی کو بہتر کر سکیں۔ تینوں پلاٹ جو سستے داموں لئے تھے، اب بہت مہنگے ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے سامنے حکومت نے پکّی سڑک بنا دی ہے اور یہ کمرشل ہو گئے ہیں۔
مولوی صاحب نے میرے حالات اور مسئلہ غور سے سنا اور فرمایا کہ یوں تو انسان کی وفات کے بعد اولاد شرعی حصّے کے مطابق اس کی ملکیت کی حقدار ہوتی ہے لیکن اگر کوئی اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی ملکیت میں سے حصّہ دینا چاہے تو اپنی مرضی اور خوشی سے دے سکتا ہے لیکن سب اولادوں کو ان کا جائز حق ملنا احسن ہے تاکہ کسی سے ناانصافی نہ ہو۔ جہاں تک اولاد کے تقاضا کرنے سے ملکیت ان کے حوالے کرنے کا معاملہ ہے تو بیوگی اور بڑھاپے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اپنے تحفظ کی خاطر رکھ لیں اور کچھ بچّوں کے موجودہ مسائل کو حل کرنے کی خاطر ان کو دے دیں۔ اگر سب ہی کچھ بچّوں کے حوالے کر دیا تو عین ممکن ہے کہ وہ بعد میں بیویوں کے دبائو میں آ کر آپ کی اتنی خدمت و خیال نہ رکھ سکیں، یوں آپ کی خوشی اور مرضی کا معاملہ ہے، ہم نے تو اپنی رائے دی ہے۔
مولوی صاحب کی رائے درست تھی، میں بھی یہی چاہتی تھی کہ ایک پلاٹ فروخت کر کے دونوں بیٹوں کو رقم دے دوں اور وہ کاروبار کر لیں، باقی جائداد میرے مرنے کے بعد شرعی لحاظ سے ان کو مل جائے گی۔
لڑکے نہ مانے۔ بڑے لڑکے نے کاروبار کیلئے اور چھوٹے نے علیحدہ گھر بنانے کیلئے مجھ سے سخت تقاضا شروع کر دیا اور میرا سکون برباد کر کے رکھ دیا۔ اس مسئلے پر وہ ہر وقت آپس میں بھی الجھتے اور ان کو لڑتے دیکھ کر میں دکھی ہو جاتی۔ سوچتی کہ یہ صرف دو ہی بھائی ہیں اور آپس میں اتفاق سے نہیں رہ سکتے جبکہ اتفاق میں برکت ہے۔
پریشان ہو کر بیٹی کے پاس گئی کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل نکال لے گی۔ بھائیوں کو سمجھائے گی کہ اتفاق سے رہیں اور مجھے ڈھارس دے گی۔ جب اسے خبر ہوئی کہ بھائی ملکیت کا تقاضا کر رہے ہیں تو اس نے بھی مطالبہ کر دیا۔ اگر ان کو پلاٹ دے رہی ہو تو مجھے بھی میرا حصّہ ابھی اور اپنی زندگی میں دے دو ورنہ بعد میں تمہارے لڑکے مجھے میرا حصّہ دیں نہ دیں، کیا میں اپنے بھائیوں پر کیس کرتی پھروں گی۔
یک نہ شد دو شد… میرے داماد صاحب اور اتائولے ہونے لگے کہ بیٹی کا حق ضرور اسے ملنا چاہئے، بہتر ہے اپنی زندگی میں آپ یہ جھگڑا نمٹا دیں۔
مجھے جائداد اپنی زندگی میں تقسیم کرتے بنی۔ ایک پلاٹ فرید نے، دوسرا ستّار نے لے لیا اور تیسرا بیٹی نے مجھ پر دبائو ڈال کر اپنے نام کروا لیا۔ اب صرف وہ تین مرلے کا مکان میرے پاس رہ گیا جو کہ میرے شوہر کی ملکیت تھا۔ اس کا آٹھواں حصّہ مجھے آتا تھا، باقی تینوں بچّوں کو شرعی حساب سے ملنا تھا۔ چونکہ ہم ابھی تک اسی مکان میں رہ رہے تھے، اس لئے اس کو کسی نے بانٹنے کا نہ کہا لیکن پلاٹ اپنے نام کراتے ہی تینوں بچّوں نے اس تین مرلے کے میرے ٹھکانے کو بھی تاڑا اور اصرار کرنے لگے کہ اب اس کو بھی فروخت کریں تاکہ ہر کسی کو اپنے اپنے حصّے کی رقم مل جائے۔ اس رقم سے ہم پلاٹ پر گھر بنوا لیں گے، رہنے کو دو، دو کمرے تو بن جائیں گے۔
میں نے بہت سمجھایا کہ یہ گھر بھی بیچ ڈالا تو میں کدھر جائوں گی، میرا کون سا ٹھکانا ہو گا، میری زندگی تک اس کو نہ بیچو اور مجھے کم از کم اسی میں زندگی کے باقی دن گزارنے دو، وہ نہیں مانے۔ کہا کہ پلاٹ بھی آپ نے ہمارے ابّا کی دکان چلا کر اس کی رقم سے خریدے تھے اور مکان تو ہے ہی ہمارے مرحوم باپ کا ورثہ، اگر اب ضرورت کے وقت ہم کو نہ ملا تو بعد میں ہمارے کس کام کا؟
تینوں بچّوں نے مل کر میری آواز کو دبا دیا اور مکان فروخت کر کے اپنے حصّے کے روپے لے لئے۔ بڑے بیٹے نے پلاٹ بیچا اور اپنے سالے کے ساتھ مل کر کاروبار کر لیا۔ خود بھی وہ بیوی کے میکے چلا گیا، سالے نے رہنے کو دو کمرے عنایت کر دیئے کہ جب کاروبار جما تب گھر خرید لینا۔
ستّار نے پلاٹ پر گھر بنایا، پڑھا لکھا تھا اسے نوکری مل گئی۔ میں ستّار کے گھر اس کے ساتھ رہنے لگی مگر بہو کو میرا وجود برداشت نہ ہوتا۔ آئے دن لڑتی۔ بالآخر مجبور ہو کر بیٹی کے پاس چلی گئی مگر داماد کے والدین اور بھائیوں کو بیٹی کے پاس رہائش بہت گراں گزری اور وہ باتوں باتوں میں مجھے جتلاتے کہ زندہ دو بیٹوں کے ہوتے آپ داماد کے دَر پر پڑی ہیں، یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے۔ بیٹی بھی جتلاتی کہ اماں اپنے بیٹوں کے پاس چلی جایئے ورنہ یہ لوگ مجھے طعنے مارتے رہیں گے۔
بہوئویں مجھے رکھنے پر تیار نہ تھیں۔ بیٹے کہتے تھے اماں ہم مجبور ہیں، فاضلہ کو حصّہ آپ نے ابھی سے نہیں دینا تھا، وہ پلاٹ اپنے پاس رکھتیں تو آج آپ کے کام آتا۔ وہ تو ایک امیر آدمی کی بیوی ہے، اس کو ہم غریبوں کی ملکیت سے حصّہ بٹور لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اب تم خود بہوئوں سے بنا کر رکھو۔
بہوئوں نے تو ایسا برا سلوک کیا کہ کھانا تک نہ دیتیں، مجھے بھوکا مارنے لگیں۔ اب ضعیفی میں اپنے کپڑے کانپتے ہاتھوں سے خود دھوتی۔ کھانے کے انتظار میں بارہ گھنٹے گزر جاتے۔ وہ خود بازار سے منگوا کر کھا لیتے۔ ہوٹل سے برگر، پیزا منگوا لیتے، مجھے نہ پوچھتے۔ بیٹوں سے شکوہ کرتی تو کہتے… اماں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، تم کچھ ایسا کرتی ہو گی تب ہی تو وہ تمہارے ساتھ ایسا کرتی ہیں، ورنہ ہماری بیویاں تو اچھی ہیں۔
وہ دن بھی آ گیا… خدا کسی بیوہ ماں کو دیکھنا نصیب نہ کرے۔ ایک پڑوسی نے ایک رفاہی ادارے کے ’’اولڈ ہوم‘‘ میں مجھے جمع کرا دیا۔ آج وہیں زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ اولاد کے ہوتے بے اولادوں کی سی زندگی بسر کر رہی ہوں۔ بیوگی میں محنت کر کے بچّوں کو پروان چڑھایا تو کیا پایا، اولاد کو ماں سے زیادہ اس کی جائداد اور ملکیت کی چاہ ہوتی ہے۔ شاید آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر یہ میری زندگی کا تجربہ ہے کہ اگر ملکیت زندگی میں بچّوں کے حوالے کر دی تو پھر اولاد کی نظروں میں ماں، باپ ایک بے کار سی شے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اچھی اور فرمانبردار اولاد بھی ہوتی ہے جس کو ملکیت سے زیادہ والدین کی ضرورت ہو مگر فی زمانہ ایسی اولاد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔
(س…ملتان)