Tuesday, May 13, 2025

Mera Ghur Rashk e Jannat Hai | Teen Auratien Teen Kahaniyan

مجھے اپنے باپ کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ ابھی چھوٹی سی تھی کہ ماں بھی بھری دنیا میں تنہا چھوڑ کر چل بسی۔ شاید کہ وہ میرا بوجھ زیادہ دنوں تک نہ اٹھاسکتی تھی۔ یوں معصومیت کے ابتدائی دنوں میں ہی میں دنیا کی ٹھوکروں میں آگئی تھی۔
ایسے بچوں کے ساتھ زمانہ جو سلوک کرتا ہے وہی میرے ساتھ ہونے لگا۔ کبھی ایک رشتہ دار اور کبھی دوسرے گھر پرورش پانے لگی۔ ان کے بھرے پرے کنبے میں بھی ایک یتیم بچی کی گنجائش نہ نکل سکتی تھی۔ مستقل ذمہ داری قبول کرنے پر کوئی تیار نہ تھا۔ ماں کی ایک رشتہ دار کو ترس آگیا۔ صباحت خالہ مجھے اپنے گھر لے آئیں۔ گرچہ سگے ماموں، خالائیں سبھی موجود تھے لیکن کسی نزدیکی رشتہ دار نے مجھے گود نہ لیا۔
خالہ صباحت کوئی امیر عورت نہ تھیں مگر اپنے بچپن کی محرومیاں ان کو یاد تھیں۔ وہ خود سلائی کرکے میری پرورش اچھے طریقے سے کرنے لگیں۔ یوں وقت گزرتا گیا اور میںسولہ برس کی ہوگئی۔
خالہ خود کسمپرسی کی زندگی جی رہی تھیں لہٰذا ان کا سماج میں کوئی خاص مقام نہ تھا۔ میرے لیے کسی اچھے گھر سے رشتہ کہاں سے آتا۔ وہ شریف سیدھی سادی حلیم الطبع خاتون تھیں، چالاکی ان میں نام کو نہ تھی۔ محلے پڑوس کے لوگ جہاں ان کی عزت کرتے تھے وہاں روپیہ پلّے نہ ہونے کے سبب انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا۔ حتیٰ کہ تقریبات میں صرف اس وجہ سے مدعو کیا جاتا کہ خالہ صباحت آکر کچھ کاموں میں ہاتھ بٹادیں گی۔
مجھ میں دیگر خوبیاں خالہ کی تربیت سے آئی تھیں لیکن ایک خوبی قدرت نے خود اپنی مہربانی سے عطا کی تھی کہ میری شکل و صورت بہت اچھی بنائی تھی۔ ذرا بڑی ہوئی تو میری خوبصورتی کے تذکرے ہونے لگے۔ شکل اچھی ہو اور لڑکی لاوارث ہو تو وہ زمانے کی نظروں میں کھٹکنے لگتی ہے۔ میں بھی محلے کے آوارہ نوجوانوں کی نگاہوں کی زد میں آگئی… وہ چیلوں اور کوئوں کی مانند خالہ کے مکان کے اردگرد منڈلانے لگے۔
صباحت خالہ نے اسی محلے میں عمر گزاری تھی۔ بیوگی کے بعد شرافت سے محنت مزدوری میں جیون بتادیا تھا۔ لہٰذا کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی مجھ پر انگلی اٹھاتا۔ خالہ نے بھی مجھ کو کڑی نگرانی میں پالا تھا۔ ابھی میں آٹھ نو برس کی تھی کہ میرا اکیلے گھر سے نکلنا بند کرادیا۔ جہاں خود جاتیں ساتھ لے جاتیں۔ سودا سلف لینے نکلتیں تو مکان کے بیرونی دروازے کو باہر سے تالا لگادیتیں۔ بچپن میں خود اسکول چھوڑنے اور لینے جاتی تھیں۔
مجھے زمانے کی سمجھ نہ تھی کہ عمر ہی کتنی تھی۔ خالہ نے خود کلفتیں سہیں مگر مجھے استبداد زمانہ سے بچائے رکھا۔ گھر کی کھڑکیوں سے جھانکنے بھی نہ دیتی تھیں۔ میری کوئی سہیلی نہ تھی۔ وہ خود ہی میری ماں تھیں اور خود سہیلی تھیں۔ اَن پڑھ ہونے کے باوجود وہ اتنی باشعور تھیں کہ فارغ وقت میں میرے ساتھ لوڈو اور کیرم کھیلتیں تاکہ میری روح کو خوشی اور سکون کے لمحات میسر رہیں۔
ہر عمر کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ بے شک آٹھویں کے بعد گھر بیٹھ گئی تھی لیکن اب دنیا دیکھنا چاہتی تھی۔ گھر کی کوئی کھڑکی کھلی نہ ہوتی تو چھت سے جھانک کر محلے کا نظارہ کرنے کی خواہش دل میں انگڑائیاں لینے لگتی۔
ایک روز خالہ سورہی تھیں۔ چھت پر چڑھ کر میں گلی کا نظارہ کررہی تھی کہ ایک اوباش لڑکے کی مجھ پر نگاہ اٹھ گئی… بس پھر کیا تھا، اس نے تو گلی میں جیسے ڈیرہ ہی جمالیا۔ جب خالہ کسی کام سے نکلتیں، وہ ہمارے گھر کے نزدیک موجود ہوتا۔ اس لڑکے کا نام کبیرا تھا، وہ چھٹا ہوا بدمعاش تھا۔
خالہ کی چھٹی حس نے خطرے کا الارم دے دیا اور وہ پریشان رہنے لگیں۔ اب ان کو احساس ہوگیا کہ یتیم بچی کو پالنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا اس کو اپنے گھر کا کرنا۔ یہ کام بیوہ خالہ کے لیے دشوار تھا۔ محلے کے ہر اچھے گھر میں جاکر انہوں نے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ کوئی ان کی بیٹی کے لیے رشتہ بتائے تاکہ وہ سکھ چین کی نیند سوسکیں۔
آخر ایک پڑوسن نے مسئلہ حل کیا۔ اس نے خالہ کو تسلی دی کہ ان کی بھانجی لاہورمیں رہتی ہے اور وہ رشتے کرانے والی ایک عورت کو جانتی ہے۔ فون پر کچھ دن بھانجی سے رابطہ کرنے کے بعد پڑوسن نے خوشخبری دی تھی کہ ایک اچھے گھرانے کا رشتہ مل گیا ہے۔ وہ جلد ہی لڑکی کو دیکھنے آرہے ہیں۔
ہفتہ گزرا کہ پڑوسن نے نوید دی کل وہ لوگ لاہورسے میرے یہاں پہنچیں گے۔ خالہ صباحت نے کہا بہن تم ہی ان لوگوں کو ٹھہرانے اور مہمانداری کا انتظام کرنا، رشتے کا معاملہ ہے میرے گھر میں تو بٹھانے کو مناسب صوفہ بھی نہیں ہے اور نہ اچھے برتن ہیں۔
تم فکر نہ کرو صباحت، تمہاری بیٹی میری بیٹی ہے۔ میں ہی ان لوگوں کو ٹھہرائوں گی اور میں ہی خاطر تواضع کروں گی۔ تمہارے گھر بس وہ بچی کوایک نظر دیکھنے آئیں گے۔
نوید ملی کہ لاہور والے مہمان آپہنچے ہیں۔ خالہ نے مجھے پہنانے کو جو سب سے عمدہ جوڑا جو ان کی نظر میں تھا وہ نکال دیا اور گھر کی خوب صفائی ستھرائی کردی۔ بس یہی اہتمام وہ کرسکتی تھیں۔
لڑکا پڑوس میں بیٹھا تھا اوراس کی ماں ہمارے گھر مجھے دیکھنے آئی۔ اس نے پہلی نظر میں پسند کرلیا۔ صورت لاکھوں میں ایک تھی اور یتیمی کے سوا مجھ میں کوئی عیب نہ تھا۔ عورت نے خوش ہو کر رشتہ منظور کرلیا تو خالہ صباحت نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔
انجانے لوگوں میں رشتہ طے ہوگیا۔ خالہ کا دل ڈرتا تھا مگر پڑوسن نے ہمت بندھائی کہ اچھے اور شریف لوگ ہیں گھبرائو نہیں۔ والدین تو صرف بر دیکھتے ہیں قسمت نہیں بناسکتے۔ دعا کرو تمہاری بیٹی کے نصیب اچھے ہوں۔ وہ شادی کی تاریخ رکھ کر چلے گئے۔ خالہ نے رخصتی کے لیے تین ماہ کی مہلت مانگی تھی۔
اس دوران پڑوسن کی مدد سے میرے جہیز کے چند جوڑے اور کچھ برتن وغیرہ خریدلیے گئے۔ حالانکہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ ہم کو جہیز کی قطعی ضرورت نہیں ہے اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔
شادی والے روز محلے میں سے چند خواتین آئیں۔ مگر سب ہی اس شادی پر مشکوک تھے کہ انجانے لوگوں میں دور شہر سے رشتہ آیا تھ۔ کافی اندیشے تھے مگر خالہ سے کسی نہ کچھ نہ کہا کیونکہ صباحت بی بی کی ہمت کے وہ معترف تھے جنہوں نے سو عذاب سہہ کر مجھے پالا پوسا تھا۔ کسی رشتہ دار نے اتنے عرصہ میں خبر نہ لی تھی۔ آج کوئی کیسے اعتراض کرسکتا تھا، جب ضرورت کے دنوں میں وہ لاتعلق رہے تھے۔
پڑوسن کی بیٹیوں نے مجھے سجا سنوار کر دلہن بنادیا۔ گھر میں مہمان عورتیں تھیں مگر وہ خاموش تھیں۔ گویا شادی کے گھر میں ہو کا عالم تھا۔
جب دولہا گھر میں آگیا تو دیکھنے والوں پر بجلی گرگئی۔ یہ شخص کسی طور سے میرے جوڑ کا نہ تھا۔ عمر بھی چالیس برس سے دو چار سال اوپر تھی، پختہ سن تھا جبکہ میں ابھی بچی تھی۔ تاہم تمام لڑکیوں سے زیادہ سگھڑ اور سمجھدار تھی۔ نکاح اور گواہوں کے انتظامات بھی پڑوسیوں نے کیے تھے۔
کچھ محلے دار میری شادی میں آئے لیکن ہر چہرہ سوچ میں ڈوبا تھا۔ انہیں لگتا تھا کہ بے چاری بیوہ اور اس کی یتیم لے پالک بچی کے ساتھ شادی کے نام پر ضرور کوئی فراڈ ہوا ہے۔ لیکن اخلاقی جرات کسی میں نہ تھی، سب کی زبانیں بند تھیں کہ عین شادی کے وقت معاملہ گڑبڑ ہوگیا تو تمام ذمہ داری ان پر پڑجائے گی۔ پھر کون … کب… مجھ یتیم کو ڈولی چڑھائے گا۔ سبھی نے یہی سوچا کہ اللہ مالک ہے، اب جو ہورہا ہے ہونے دو۔
شام کو نکاح ہوا اور رات نو بجے بارات رخصت ہوگئی۔ لڑکے کا گھر لاہور سے نزدیک کسی نواحی گائوں میں تھا۔ انہوں نے ولیمے کی دعوت دی مگر لڑکی والوں کی طرف سے کوئی نہ گیا۔ شادی کے بعد مشتاق نے کئی بار خالہ صباحت سے بات کرائی۔ فون پڑوسن کے گھر تھا وہ خالہ کو بلوالیتیں اور میں بات کرتی۔ وہ پوچھتیں کہ کیا حال ہے، تم خوش تو ہو؟ اور میں جواب دیتی کہ سب ٹھیک ہے… آپ فکر مند نہ ہوں۔
یوں تو سب ٹھیک تھا، لیکن مشتاق کی صورت شکل اور عمر سے یہ رشتہ میرے جوڑ کا نہ تھا۔ پھر بھی یہ سوچ کر سمجھوتہ کیا کہ چلو میں اپنے گھر کی تو ہوگئی اورخالہ کے سر سے فکر ٹلی۔ ان کے بعد میرا کون تھا۔ اب کم از کم اپنا گھرتو ہے، مرد کی عمر شکل کا کیا کرنا… تحفظ اور مضبوط پناہ گاہ میری اوّلین ضرورت تھی جو میسر آگئی تھی۔
میں اطاعت گزار تھی۔ خالہ نے تربیت ہی ایسی دی تھی۔ ہر طرح کے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت مجھ میں تھی، لیکن گھر کا ماحول گھر جیسا نہ تھا بلکہ عجب طرح کاماحول تھا۔ پاس پڑوس سے کوئی آتا جاتا نہ تھا۔ کسی عورت نے دلہن دیکھنے کو اس گھر میں قدم نہ رکھا۔ صرف مشتاق کے دوست ہی آئے تھے جن کو وہ بیٹھک میں بٹھادیتے۔ یقیناً یہ ان کے کاروباری دوست ہی تھے کہ گھر میں خوشحالی تھی۔
کوئی سسرال سے نہ آیا… ساس، نند، دیور، جیٹھ، جیٹھانی ایسا کوئی رشتہ ظاہر نہ ہوا۔ جیسے کہ مشتاق کا کوئی نہ ہو اور یہ اس دنیا میں اکیلے ہوں۔
جو عورت ماں بن کر رشتہ لینے ساتھ آئی تھی وہ اب بھی گھر میں تھی، مگر وہ خاموش طبع اس قدر کہ جیسے گونگی ہو۔ چپ چاپ گھر کا کام کاج کرتی رہتی اور مجھ سے کم ہی گفتگو کرتی۔ سچ کہتی ہوں کہ مختصر عرصہ میں خاموشی سے تنگ آگئی اور میری زبان باتیں کرنے کو ترسنے لگی۔ گرچہ اپنے گھر میں خاموشی رہتی تھی اور خالہ زیادہ تر کام میں مصروف ہوتی تھیں لیکن وہاں قبرستان جیسی خاموشی تو پھر بھی نہ تھی۔
جلد ہی اس فضا میں دم گھٹتا محسوس ہونے لگا۔ میں نے عورت سے گھلنے ملنے کی کوشش کی مگر اس نے فاصلہ رکھا۔ وہ مجھ سے دور رہنے کو بہتر سمجھتی تھی۔ یہ وہی عورت تھی جو پہلے مشتاق کی ماں بن کر آئی پھر میاں نے بتایا کہ اس نے چونکہ مجھے پالا ہے لہٰذا احتراماً ماں کہتا ہوں ورنہ یہ ماں نہیں ہے بلکہ میری ملازمہ ہے۔
اس کا نام صفیہ بی بی تھا۔ وہ ایک دن کھانا پکارہی تھی کہ دوپٹے میں آگ لگ گئی۔ میرے سوا وہاں کوئی نہ تھا میں نے دوڑ کر جلتے دوپٹے کو ہاتھوں سے مسل مسل کر آگ بجھائی، جس سے میرے ہاتھ جھلس گئے مگر اماں صفیہ جل مرنے سے بچ گئیں۔ تاہم قمیض کے ایک حصے کو آگ نے کندھے کے پاس سے راکھ کردیا اور اس جگہ ان کے بدن پر آبلے پڑگئے۔
اماں صفیہ کی میں نے اچھی طرح سے دیکھ بھال کی اور ان کے زخم جلد بھرگئے۔ میرے اس ایثار پر وہ بے حد مشکور ہوئیں اور مجھ سے پیارکرنے لگیں۔ اب میں ان کو ملازمہ نہیں اماں صفیہ کہہ کر بلاتی تھی اور وہ بھی مجھے ماں کی طرح چاہتیں۔
شادی کے دو ماہ بعد مشتاق کے پاس کچھ لوگ کراچی سے آکر مہمان ٹھہرے تو ان کو دیکھ کر اماں صفیہ بے حد پریشان ہوگئیں۔ میں سمجھی کہ اماں کے زخم ابھی تکلیف کرتے ہیں وہ کھانے پکانے سے پریشان ہورہی ہیں۔ تب میں کچن میں خود مہمانوں کا کھانا تیار کرانے میں ان کی بھرپور مدد کرنے لگی۔
یہ صحیح ہے کہ مشتاق میرا بہت خیال کرتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھاکہ میں گھر کے کسی کام کو ہاتھ لگائوں۔ اچھا کھانا اور آرام مجھے میسر تھا۔ تبھی میں پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوگئی تھی، رنگ روپ تھا کہ نکھرتا جاتا تھا۔
ایک روز مشتاق نے کہا تم اپنی خالہ کے لیے اداس ہوگئی ہوگی چلو تم کو ان سے ملا لاتا ہوں۔ میں ملتان جانے کو تیارہوگئی میرا جی بھی اداس تھا۔ کیوں نہ ہوتا کہ خالہ صباحت نے تو مجھ کو ماں بن کر پالا تھا۔
جب میں جانے کو تیار ہونے لگی تو اماں صفیہ بہت زیادہ پریشان ہوگئیں جیسے کہ وہ مجھے کسی مصیبت کے منہ میں جاتے دیکھ رہی ہوں۔ کئی بار میرے قریب آئیں کچھ کہنے کو منہ کھولا لیکن کہہ نہ سکیں۔ مشتاق کا خوف غالب تھا۔ بالآخر موقع مل گیا اور میں نے کچن میں جاکر چپکے سے قسم دے کر پوچھا کہ اماں سچ بتادو کیا بات ہے۔ کچھ ایسا معاملہ ضرور ہے جو تم کہنا بھی چاہ رہی ہو اور کہہ نہیں پارہی ہو۔ یقین رکھو میں کسی سے کچھ نہ کہوں گی، تب وہ ڈرتے ڈرتے بولیں۔
سحر بیٹی یہ شخص جو تمہارا نام نہاد شوہر بنا ہوا ہے، عورتوں کا بیوپاری ہے۔ اسی طرح شادیاں کرکے لاوارث، کم سن لڑکیاں لاتا ہے اور پھر بیچ دیتا ہے۔ یہ اب تم کو کراچی لے جارہے ہیں دام کھرے کرنے… ہوسکے تو ریل میں سے کہیں اترجانا اور ماں کے پاس چلی جانا… بس اور زیادہ میں نہیں بتاسکتی۔
یہ سن کر کہ میرا سودا ہوگیا ہے اور اب میں خریداروں کے حوالے ہونے کو لے جائی جارہی ہوں، پیروں تلے زمین نکل گئی۔
اس سفر کو روک لینا میرے بس میں نہ تھا۔ لہٰذا چپ چاپ مشتاق کے ہمراہ ریلوے اسٹیشن پر آگئی۔ وہ مجھے زنانہ ویٹنگ روم میں بٹھا کر چلا گیا کیونکہ ریل گاڑی کے آنے میں کچھ وقت تھا۔ میں پریشان بیٹھی کہ ایک عمر رسیدہ مسافر خاتون جو کسی اچھے گھرانے کی لگتی تھی، مجھ سے پوچھنے لگی کیوں پریشان ہو، کہاں جارہی ہو؟
اس وقت ویٹنگ روم میں اس کے اور میرے سوا کوئی نہ تھا۔ میں نے ہمت کرکے اپنے احوال سے آگاہ کرکے مدد کی درخواست کی۔ اس کے بیگ میں ایک برقع تھا۔ اس نے کہا کہ میری بیٹی نے فرمائش کی تھی، اس کے لیے خریدا ہے تم پہن لو اور ابھی میرے ساتھ اسٹیشن سے باہر نکل لو ورنہ تمہارے بچائو کا اس کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ اس نے میری خاطر اپنا سفر ملتوی کردیا۔
میں نے عورت کی ہدایت کے مطابق عمل کیا اور ہم دونوں اسٹیشن سے باہر آگئیں۔ عورت نے ٹیکسی لی اور مجھے اپنے ٹھکانے پر لے آئی۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ وہ عورت بھی صحیح نہیں ہے اور اس کی دو بیٹیاں ہیں جو اسٹیج ڈراموں میں کام کرتی ہیں۔ گویا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
لیکن میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ اس کا تعلق شوبز سے ضرور تھا مگر وہ عورت بری نہیں تھی۔ اس نے میری خالہ کا نمبر مانگا، میں نے پڑوسن کا نمبر دیا۔ ستارہ خانم نے فون کیا تو پڑوسن نے بتایا کہ تمہاری خالہ کو اچانک دل کا دورہ پڑا تھا اور کل رات ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ تمہارے شوہر کو فون کرتے رہے مگر ان کا فون بند ملا۔
پڑوسن کی بات سن کر میں رونے لگی۔ خوب جی بھر کر رولی تو ستارہ خانم نے کہا۔ بیٹی اب تمہاری کیا مرضی ہے… کہاںجانا چاہتی ہو، جہاں کہتی ہو تم کو پہنچا آتی ہوں۔ میں نے جواب دیا آنٹی، میں کہاں کا بتائوں۔ اس دنیا میں اب آپ کے سوا میرا کوئی نہیں ہے۔
اچھا تو پھر میرے پاس رہ جائو۔ میری دو بیٹیاں ہیں تیسری تم ہوگی۔ ستارہ خانم کا اخلاق اتنا اچھا تھاکہ میں ان کی بیٹی بن کر ان کے گھر میں رہنے لگی۔ پہلے تو کہیں آتی جاتی نہ تھی۔ یہ بیٹیوں کے ساتھ اسٹیج ڈراموں میں پرفارم کرنے چلی جاتی تھیں جبکہ میں ان کا کھانا پکا رکھتی تھی اور گھر کا کام کردیتی۔ رفتہ رفتہ ان کے مشاغل میں دلچسپی لینے لگی اور ساتھ جانے لگی۔
ایک روز ایک فلم پروڈیوسر کی نظر مجھ پر پڑگئی تو انہوں نے خانم سے اصرار کیا کہ اس لڑکی کو فلم میں کام کرنے دو۔ یہ بہت مشہور فلم اسٹار بنے گی۔
یہ اگر خود چاہے گی تو روکوں گی نہیں… اگر نہیں چاہے گی تو اس کام کے لیے زبردستی نہیں کروں گی۔ یہ ایک شریف گھرانے کی بچی ہے اور میری پناہ میں ہے۔ میں اس کے لیے کسی نیک گھرانے کا رشتہ تلاش کررہی ہوں تاکہ اپنے گھر کی ہوجائے اور عزت کی زندگی گزارے۔
فلم پروڈیوسر گرچہ مایوس ہوا مگر اس کے دل کو خانم کی بات لگی۔ اس نے کوشش کرکے میرا رشتہ تلاش کیا، خاتم کو بتایا اور یوں میری شادی ایک متوسط شریف گھرانے میں ہوگئی۔
یہ بہت اچھے لوگ تھے انہوں نے میری قدر کی۔ شوہر کا ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور تھا اور گزارا ٹھیک طرح ہورہا تھا۔ ساس اور نند کے علاوہ دو چھوٹے دیور تھے جو پڑھ رہے تھے۔ شام کو میرے شوہر کے جنرل اسٹور پر ان کا ہاتھ بٹاتے تھے اور محنتی تھے۔ جلد ہی کاروبار نے ترقی کی، کچھ زرعی زمین دیہات میں تھی۔ گائوں کے لوگوں نے وراثت کے کاغذات نکلوائے تو میرے شوہر اور ان کے بہن بھائیوں کے نام زمین نکلی جو انہیں مل گئی۔ اس کو بیچ کر انہوں نے روپیہ کاروبار میں ڈالا اور دکان بڑی کرلی۔ اب دولت بھی گھر میں آنے لگی۔
میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش و خرم آباد ہوگئی۔ برے دن ختم ہوگئے اور اللہ نے گویا میری سن لی۔ دو سال سکھ اور سکون سے بسر کیے لیکن خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ ایک روز سلیم دکان کا مال لینے کراچی گئے جہاں وہ فسادات کا شکار ہوگئے اور میرے نصیب پر ایک بار پھر سیاہی پھر گئی۔ شاید میں سبز قدم تھی۔ چند دن ساس اور دیوروں نے رکھا پھر ان کا سلوک میرے لیے مشفقانہ نہ رہا۔ ساس سمجھتی تھیں کہ میری نحوست سے ان کے گھر میں تباہی آئی ہے۔
جب ان کا رویہ ناقابل برداشت ہوگیا تو میں نے خانم کو فون کردیا۔ یوں وہ مجھے اپنے پاس لے آئیں۔ وہ فلم پروڈیوسر اب بھی ان کے گھر آتا تھا اور ان کی بیٹیاں اس کے توسط سے فلموں میں بھی چھوٹے موٹے رول کرنے لگی تھیں۔ مجھ کو دوبارہ خانم کے پاس دیکھا تو پھر سے فلم میں کام کرنے کی آفر کی۔ اس بارخانم نے بھی کہا کہ تم قسمت آزمائی کرو، وہ صاحب بار بار اصرار کررہے ہیں، کیا خبرتم پر دولت اور شہرت کے در وا ہوجائیں اور میرے بھی دن پھر جائیں۔
میرا بھی کوئی نہ تھا جس کا پالن کرتی۔ میں نے خانم اور پروڈیوسر صاحب کا کہنا مان لیا۔ شروع میں ایک دو چھوٹے رول دیے جو میں نے خوش اسلوبی سے نباہے تو انہوں نے ایک فلم میں سائیڈ ہیروئن کا رول دلوادیا۔ فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد تو فلمی معاہدوں کا تانتا بندھ گیا۔ خانم کی سرپرستی میں چند فلمیں کیں جو ہٹ ہوگئیں اور میں ایک نامور اداکارہ بن گئی۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔
دولت اب میرے گھر کی باندی تھی اور شہرت میرے قدم چوم رہی تھی۔ میری دولت کی کل مختار میری سرپرست خانم بن گئیں بلکہ میں نے ان کو بنایا۔ فلم میں کام کرنا بھی میں نے ان کی خاطر منظور کیا تھا کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ ان کی لڑکیاں بھی فلم اسٹار بنیں۔ وہ تو نہ بن سکیں لیکن میں ایک یتیم بچی اور شرمیلی سی لڑکی مشہور ایکٹریس اور ٹاپ کی ہیروئن بن گئی۔
جب کسی فلم کا معاوضہ ملتا خانم کو دے دیتی۔ وہ اپنی مرضی سے خرچ کرتیں۔ انہوں نے میرے لیے گاڑی لی اور ایک عالی شان گھرخریدا۔
خانم نے میری قدر کی، دل سے میری مدد کی تو میں نے بھی دل سے ان کے ساتھ پیار کیا۔ ان کو ماں کا درجہ دیا کیونکہ ان کا اپنا من انمول اور خوبصورت تھا۔ جب تک وہ زندہ رہیں میرا خیال ایک ماں کی طرح کرتی رہیں۔ ان کے انتقال کے بعد مجھ کو محسوس ہوا کہ میں پھر سے اس دنیا میں اکیلی ہوگئی ہوں۔
اب میں سمجھدار اور تجربہ کار تھی اور دنیا کو جان پہچان گئی تھی، اچھے برے کی پرکھ ہوچکی تھی۔ میری زندگی میں ایک شخص آیا جو مجھ سے بے غرض پیار کرتا تھا۔ میں نے بطور جیون ساتھی اس کو منتخب کرلیا اور فلم لائن کو خیرباد کہہ کر اپناگھر بسایا۔
کچھ عرصہ بعد ہم بیرون ملک شفٹ ہوگئے۔ جہاں ان کی آمدنی اچھی ہے اور ہم پرسکون و خوش و خرم زندگی اپنے بچوں کے ساتھ بسر کررہے ہیں۔ آج اپنی زندگی پر شکرکرتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ خدا جب چاہے جہاں چاہے پہنچادے… انسان کے بس میں کچھ نہیں سب کچھ اسی تقدیر بنانے والے کے اختیار میں ہے۔
(م۔ ن … امریکہ)

Latest Posts

Related POSTS