Thursday, February 20, 2025

Mera Naam o Nishan Mile | Episode 10

اس نے يہ بھی ديکھنے کی زحمت نہيں کی کہ اس بات کے بعد آنکھوں کے ساتھ ساتھ وليہ کا منہ بھی اب حيرت سے کھل چکا تھا۔
بمشکل خود کو سب کی نظروں سے بچانے کے لئے اس نے چہرہ موڑ ليا۔ ہاتھ خودبخود دل پہ جا ٹہرا تھا۔ وہ سوچ بھی نہيں سکتی تھی کہ وہ جو ابھی خود کو جھٹلا رہی تھی کہ دارم کی نظريں کچھ ان کہے پيغام ديتی ہيں۔
انہيں وہ يوں سب کے درميان۔ سر راہ کہہ ڈالے گا۔
اسے وہاں کھڑے رہنا دوبھر ہوگيا تھا۔ اس نے بمشکل پلر کا سہارا ليا۔
“خواب تھا يا حقيقت” وہ خود سے سوال کر اٹھی۔
“آپا” اسی لمحے دلاور وہاں آچکا تھا۔ اسکی مخدوش حالت ديکھ کر وہ پریشان ہو اٹھا۔
“ک۔۔ کک۔۔ کيا ہوا ہے؟” اسے تو لگ رہا تھا دماغ ہی ٹھکانے پر نہيں رہا۔
“آپ کو کيا ہوا ہے؟” دلاور اسکے نزديک آتے بولا۔
“اللہ پوچھے آپ کو دارم۔۔ ايسے جان نکالنی تھی” دل ہی دل ميں وہ دارم سے بری طرح خفا ہوئ۔
“کچھ نہيں۔۔ بس۔۔ بس ايسے ہی چکر سا آگيا تھا” اس سے بہانہ ہی بننا مشکل ہوگيا۔
“کسی نے کچھ کہا تو نہيں” وہ زيرک نگاہ رکھتا تھا۔ اسکا نظريں چرانا اور چہرے پر موجود خفت کو نوٹ کر چکا تھا۔
“نہيں پاگل۔ مجھے کسی نے کيا کہنا ہے۔ تم بتاؤ” اب کی بار وہ کافی حد تک خود کو سنبھال چکی تھی۔
“وہ کھانے کی تو سب چيزيں ہم نے سرو کر دی ہيں۔ اب اسکے بعد ٹی بھی رکھ ديں” دلاور کے ساتھ باتيں کرتی وہ اندر کی جانب بڑھ گئ۔
____________________________
پھر سارا وقت وہ دارم سے چھپتی ہی رہی۔ وہ ابھی تک بے يقين تھی کہ وہ سچ کہہ رہا تھا يا جھوٹ۔۔ اسے يہی لگ رہا تھا کہ يہ سب مذاق ہی تھا۔
وہ اتنا امير۔۔ جسے لڑکيوں کی کوئ کمی نہيں وہ بے وقوف تھا کہ ايک غريب کو اپناۓ۔
مگر وہ نہيں جانتی تھی کہ وہ يہ بے وقوفی کر چکا تھا۔
فنکشن ختم ہوتے ہی سب کے جانے کے بعد وہ لوگ بھی واپسی کے لئے تيار کھڑے تھے۔ آتے وقت شہزاد دارم کے ساتھ آيا تھا۔ لہذا اب واپسی پر ڈرائيور کے ساتھ جاتے وہ سب پانچ لڑکے تو گاڑی ميں بيٹھ سکتے تھے۔ مگر انکے ساتھ وليہ کی جگہ نہيں بنتی تھی۔
“آپ لوگ ڈرائيور کے ساتھ بيٹھيں۔ وليہ کو ميں اپنی گاڑی ميں چھوڑ آتا ہوں۔ آگے پيچھے ہی نکلتے ہيں” دارم کی بات پر دلاور نے ايک تيکھی نگاہ اس پر ڈالی۔ جبکہ ياور نے چونک کر بيٹے کی جانب ديکھا۔
انہيں آج سارا دن اسکے چہرے پر ايک غير معمولی چمک اور خوشی نظر آئ تھی۔
انہيں ايسا لگا تھا کہ يہ چمک اس لڑکی کی مرہون منت ہے۔ مگر ابھی شک تھا يقين نہيں۔
“ٹھيک ہے سر” شہزاد تو پہلے ويسے ہی اسکی ہاں ميں ہاں ملاتا تھا۔
ياور اور صدف بھی انہيں باہر تک سی آف کرنے آۓ تھے۔
“مجھے دارم نے آپکے بارے ميں بتايا تھا۔ ميں اميد رکھوں گی کہ آپ ہماری اينج ای او کے لئے بھی کام کرو۔ ” صدف نے محبت سے اسے ساتھ لگاتے ہوۓ کہا۔ وہ مسکراہ بھی نہ سکی۔ دارم کی اس بات کے بعد وہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی اور اب اسی کے ساتھ گھر تک کا سفر کرنا تھا۔
بمشکل چہرے پر ہلکی سی زبردستی کی مسکراہٹ لائ۔
“اچھا بيٹے۔ اللہ حافظ” ياور نے بھی محبت سے اسکے سر پر ہاتھ پھيرا۔
وہ سب لڑکے بھی صدف اور ياور سے مل کر ڈرائيور کے ساتھ گاڑی ميں بيٹھ چکے تھے۔ جبکہ دارم نے وليہ کے لئے فرنٹ سيٹ کا دروازہ وا کيا۔ جيسے ہی وہ بيٹھی۔ وہ دوسری جانب سے گھوم کر ڈرائيونگ سيٹ پر بيٹھ چکا تھا۔
اگلی گاڑی کے باہر نکلتے ہی دارم نے بھی اپنی گاڑی اسکے پيچھے باہر نکالی۔
وليہ اس لمحے شديد گھبراہٹ کا شکار تھی۔
دارم نے ايک نظر اس کے پرفکر چہرے پر ڈال کر ہلکی آواز ميں گاڑی کا اسٹريو آن کيا۔
I finally found someone, that knocks me off my feet
I finally found the one, that makes me feel complete
It’s funny how from simple things, the best things begin
This time it’s different,
It’s better than it’s ever been
‘Cause we can talk it through
Oh, my favorite line was “Can I call you sometime?”
It’s all you had to say to take my breath away
This is it, oh, I finally found someone
Someone to share my life
I finally found the one, to be with every night
‘Cause whatever I do, it’s just got to be you
My life has just begun
I finally found someone
دارم کو لگا تھا اس لمحے برائن آيڈيم کی گاڑی ميں گونجنے والی آواز نے اسکے دل کی کيفيت کی مزيد ترجمانی کر دی تھی۔ وليہ ہونٹ بھينچے ہوۓ تھی۔
“مجھے کب تک جواب کا انتظار کرنا پڑے گا؟” دارم نے آخر بات کا آغا‍ز کيا۔
“ميرے خيال ميں يہ انتہائ بھوںڈا مذاق تھا۔ مجھے آپ سے اس سب کی اميد نہيں تھی” وليہ نے سخت لہجے ميں کہا۔ اب جب سر پر پڑ گئ تھی تو اس مشکل سے نمٹنا تھا۔
“اگر آپ چہرہ شناس ہيں تو آپکی يہ بات مير‌ے خالص جذبات کی توہين کے علاوہ اور کچھ نہيں۔” دارم کا لہجہ بھی سخت تھا۔
“يہ بے وقوفی ہے” وہ بے بسی سے بولی۔
“يہ محبت ہے” دارم نے ہر ہر لفظ پر زور ديتے اسکے حسين چہرے کو پل بھر کو ديکھا۔
“آپ غلط کررہے ہيں” وہ مسلسل اسے جھٹلا رہی تھی۔
“آپ مجھ سے زيادہ غلط کررہی ہيں” اسکے پاس جيسے ہر بات کا جواب تھا۔
“آپ سمجھ ہی نہيں رہے” وہ زچ ہو چکی تھی۔
“سمجھ تو آپ بھی نہيں رہيں” دارم اب اسکے الجھنے سے محظوظ ہوا۔ بے ساختہ مسکراہٹ ہونٹوں ميں دبائ۔
“اففف”وليہ نے اکتا کر ماتھے پہ ہاتھ مارا۔
دارم قہقہہ لگا گيا۔
“آپ برا کررہے ہيں ميرے ساتھ” وہ روہانسی لہبے ميں بولی۔
“اور آپ بھی بہت برا کر رہی ہيں۔ ميری محبت کی نفی کرکے” دارم کا گمبھير لہجہ وليہ کی دھڑکنيں منتشر کرگيا۔
“آپ ميں مجھ ميں بہت فرق ہے” وہ کسی طرح اسے اس سب سے ہٹانا چاہتی تھی۔
“کيا فرق ہے۔ کيا آپ اور ميں اللہ کے بندے نہيں۔ کيا آپ ايک اللہ ۔ ايک رسول اور ايک قرآن پر يقين نہيں کرتيں۔ اور ميں بھی انہی سب پہ يقين کرتا ہوں۔ آپ بھی مسلمان ہيں، ميں بھی مسلمان ہوں۔ اور ميرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ باقی کسی حسب نسب، اسٹيٹس ڈفرنس کو ميں نہيں مانتا۔ کيونکہ يہ زندگی گزارنے کے لئے ترجيحات نہيں ہيں۔ يہ صرف ضروراتيں ہيں ۔ جيسے کھانا پينا۔ خود کو کپڑوں سے ڈھانپنا بس۔ ميں رشتوں کو دولت ميں تولنے کے حق ميں نہ کبھی تھا نہ کبھی ہوں” دارم نے اب کی بار اور بھی وضاحت دی۔
“مگر ہم اس معاشرے سے کٹ کر تو نہيں رہ سکتے۔ جہاں قدم قدم پر يہی سب اعتراضات ہميں جھيلنے پڑتے ہيں۔ آپ بہت اچھے ہيں۔ آپ اپنے جيسی ہی اچھی لڑکی ڈيزرو کرتے ہيں” وہ جانتی تھی وہ اسکے خواب ديکھنے کی مرتکب نہيں ہوسکتی۔ پھر کيوں وہ خود کو اور اسے مشکلوں ميں ڈالتی۔
“اچھی نہيں امير کہيں۔” دارم نے اسکی تصحيح کی۔
“ايک ہی بات ہے” وليہ نے پھر سے دامن بچايا۔
“ايک بات نہيں ہيں۔ کيا آپکے اچھے ہونے ميں کوئ کھوٹ ہے۔ پھر وہ اچھی لڑکی آپ کيوں نہيں ہوسکتيں۔ اور جہاں تک معاشرے کی بات ہے تو اس ميں يقينا آپ ميری فيملی کی بات کررہی ہيں۔ انہيں اس سب کے لئے راضی کرنا ميرا کام ہے۔ وہ آپ سے کبھی کچھ نہيں کہيں گے۔ آپ اپنی بات کہيں” اس نے تو جيسے سب سوال ہی ختم کر ڈالے تھے۔
“دارم آپ غلط کررہے ہيں” وليہ نے پہلی بار اس کا نام ليا تھا۔
اسکی گاڑی جھٹکے سے رکی۔ حيرانگی سے اسکے چہرے پر ديکھا جہاں گاڑی رکنے پر وہ پريشان ہوئ۔
“چليں اسی بہانے آپ نے پہلی بار ميرا نام تو ليا” گاڑی سٹارٹ کرتے وہ محظوظ کن مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتا بولا۔
وليہ کو اپنی بے اختياری کا اندازہ نہيں ہوا۔
“سوری”
“فار واٹ” اس نے اچنبھے سے پوچھا۔
“آپ کا نام لينے پر” وليہ نے چہرہ کھڑکی کی جانب موڑ کر کہا۔ چہرے پہ آنے والے رنگوں کو وہ اس سے چھپانا چاہتی تھی۔
“کيوں ميرا نام اتنا برا ہے کہ وہ لينے پر آپ کو افسوس ہوا۔” دارم نے ايک ملامتی نظر اس پر ڈالی جو اپنے ارادوں ميں انہتائ سخت ثابت ہوئ تھی۔
وليہ اب کی بار خاموش رہی۔
گاڑی اسکے گھر کے باہر روکی۔ اس سے پہلے کہ وہ اترتی اسکے پکارنے پر اسکی جانب ديکھے بنا روک گئ۔
پشت دارم کی ہی جانب تھی۔
“ميں آپ کی کسی بھی بودی دليل کو نہيں مانتا۔۔ بہتر ہے کہ کوئ اسٹرانگ وجوہات ڈھونڈيں۔ ميں جب ارادہ کر لوں تو پيچھے نہيں ہٹتا۔ اچھے سے سوچيں۔ مجھے جلدی نہيں۔ آپ کو ضد نہيں دل کی خوشی بنانا چاہتا ہوں۔” وہ اسے باور کروا رہا تھا کہ وہ اسکی باتوں سے پيچھے ہٹنے والا نہيں۔
“وليہ يہ وقتی جذبہ نہيں ہے۔ اور نہ ميں ٹين ايجر ہوں۔ يہ ميچور انسان کی محبت ہے جوکسی بھی وجود کے حصول سے ہٹ کر روح کے حصول کی ہوتی ہے۔ اميد ہے آپ سمجھ گئ ہوں گی۔ جائيے اور اچھے سے سوچيں۔ مجھے يہ سوچ کر ہی تسلی ہو رہی ہے کہ آپکی سوچوں کا محور اب سے ميری ذات ہوگی” اسکے لہجے ميں بسی محبت وليہ کو بے بس کر رہی تھی۔
“خدا حافظ” وہ کچھ بھی نہيں کہہ پا رہی تھی۔ خاموشی سے اتر کر گھر کے دروازے کی جانب بڑھ گئ۔
پيچھے ديکھنے کی غلطی نہيں کی حالانکہ جانتی تھی اس نے گاڑی بڑھائ نہيں۔
دروازہ کھلتے ہی وہ اندر چلی گئ۔ اسکے جاتے ہی دارم نے بھی گاڑی آگے بڑھا لی۔
____________________________
منتشر سوچوں کے ہمراہ وہ گھر ميں داخل ہوئ۔
کپڑے بدل کر وہ خاموشی سے بيڈ پر بيٹھی تھی۔ يمنہ اس سے تفصيل سننے کو بے چين تھی۔ مگر سائرہ نے اسے چاۓ بنانے بھيج ديا۔
اور خود اسکے سامنے بيٹھ بيڈ پر بيٹھ گئيں۔
“ميری بيٹی تھک گئ ہوگی” محبت سے اسکے چہرے پر ايک ہاتھ رکھے کہا۔
“نہيں اماں” اسکے چہرے پر رقم فکر کو وہ تھکاوٹ سمجھيں تھيں۔ موبائل کو بے دھيانی ميں وہ مسلسل ہاتھ ميں گھماتی جارہی تھی۔
“مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے” اب کی بار ان کا رخ مکمل طور پر وليہ کی جانب تھا۔
“جی اماں کہيں” وہ بھی ماں کی جانب متوجہ ہوئ۔
“ديکھو بيٹا تمہارے ابو کے بعد ميں بہت پريشان ہوں۔ تم تينوں کی ذمہ داری بہت بھاری ہے مجھ پر۔۔
وقت کا کوئ بھروسہ نہيں۔ ميں چاہتی ہوں تم اپنے گھر کی ہوجاؤ” ماں کی بات پر وہ اب کی بار چونکی۔ خفگی سے انہيں ديکھا۔
“اماں کيسی باتيں کررہی ہيں۔ پليز۔۔ ابھی تو ہم ايک غم سے نہيں نکلے اور آپ” سائرہ کے ہاتھون کو تھام کر وہ خفا سے لہجے ميں بولی۔
“کچھ دن پہلے رفيق بھائ نے اپنے بھانجے کا رشتہ بتايا تھا۔ ميں نے آج انہيں ہاں کردی ہے۔ لڑکے کی تصوير ديکھ لی ہے۔ اور آج شمع بھابھی لڑکے کی ماں کو لے کر گھر آئيں تھيں۔ مجھے تو بہت اچھے لوگ لگے ہيں۔ سادہ سے ہيں۔ اور ہاں تجھے بھی انہوں نے ديکھ رکھا ہے۔ تو کوئ اعتراض ہی نہيں۔ سمجھ بات پکی ہی تھی ان کی جانب سے۔
اور ہاں لڑکے کو تيرے کام سے بھی کوئ اعتراض نہيں۔ تو اپنا گھر بسا کر بھی ہماری مدد کرسکتی ہے” وليہ ششدر ماں کی باتيں سن رہی تھی۔
“اماں” وہ فقط يہی کہہ سکی۔ آج کا دن ہی کچھ عجيب تھا جو اسکے لئے ہر قدم پر حيرانياں لے کر اترا تھا۔
“وليہ ديکھ يہ ميرے ہاتھ” سائرہ نے يکدم ہاتھ جوڑے
“اماں ايسا نہ کريں” وہ رو دينے کو تھی
“انکار نہ کرنا بيٹا۔ مجھے تيری بہت فکر لگی ہے۔ بس تو اپنے گھر کی ہو جا۔ باقی سب ٹھيک ہو جاۓ گا۔ اللہ ہمارے گھر کی گاڑی چلا ہی دے گا۔ وہی چلانے والا ہے”نظر چرا کر اسے اس جلدی کی وجہ نہيں بتا سکتی تھيں۔
اس نے بے بسی سے آنکھيں بند کرکے گہرا سانس بھرا۔
“بيٹا امير لوگوں کے ساتھ کاروبار تو ہو سکتا ہے مگر رشتے داری نہيں” اسکی آنکھوں ميں غور سے ديکھتيں وہ کيا باور کروا رہی تھيں۔
وليہ نے نظريں چرائيں۔ اس نے تو ابھی ڈر کے مارے وہ خواب بھی نہ ديکھے تھے جنہيں اس کی ماں نے جان ليا تھا۔
“مجھے آپ کے فيصلے پہ کوئ اعتراض نہيں” بدقت سر جھکاۓ وہ راضی ہوگئ۔ اسے راضی ہونا ہی تھا۔ وہ سراب کے پيچھے نہيں بھاگ سکتی تھی۔
“اللہ تجھے ہميشہ خوش رکھے ميری بچی” سائرہ نم آنکھوں سے مسکراتيں اسکا ماتھا چوم کر چلی گئيں۔
وليہ نے آنکھيں بھينچ کر ناديدہ آنسوؤں کو پيا۔
کچھ رشتے پل بھر کے ہی ہوتے ہيں۔ آج اس نے بھی ايسے ہی ايک رشتے کو محسوس کيا تھا۔
موبائل کی بپ پر وہ اپنے ان خوابوں کی کرچياں سميٹ گئ جوابھی سجاۓ ہی نہيں تھے۔
موبائل کا پاس ورڈ کھولا تو دارم کا نام جگمگايا۔
Private eyes, they’re watching you
You play with words, you play with luck
You can twist it around, I’ve had enough cause girl
I’ve gotta know if you’re letting me in or letting me go
Don’t lie when you’re hurting inside
Cause you can’t escape my.
Private eyes, they’re watching you
ايک خاموش آنسو اسکی آنکھ سے بہہ کر ان محبت بھرے لفظوں پر گرا۔
کل سے اس نے دارم کی دلائ ہوئ دکان پر بيٹھنا تھا۔ اس دکان کا کام فی الحال دلاور نے اپنے ذمہ لے ليا تھا۔
اور کل دارم نے بھی وہاں موجود ہونا تھا۔ وہ کيسے کل اس کا سامنا کرے گی۔
“يہ کس مشکل ميں آپ نے ڈال ديا ہے” وہ دارم کے ہيولے سے مخاطب ہوئ۔
“وليہ۔ ميں سوچ رہی ہوں کہ بس اگلے جمعہ والے دن تمہاری منگنی رکھ دوں۔” سائرہ باہر سے بولتی اندر آئيں۔
اس نے تيزی سے چہرہ صاف کيا۔
“اماں آپ کو جيسے بہتر لگے” وہ آہستہ سے ان کی ہاں ميں ہاں ملاگئ۔
“بس ميں کل ہی شمع بھابھی سے کہہ ديتی ہوں۔ وہ لوگ تو کل ہی تمہيں انگوٹھی پہنانے کے لئے آنا چاہ رہے تھے۔ مگر پھر شمع بھابھی نے ميری عدت کی وجہ سے منع کرديا۔ بدھ کو ختم ہورہی ہے۔ تو ميں نے سوچا جمعہ کو رکھ دوں” وليہ نے اب کی بار ماں کی طرف نہيں ديکھا۔ کہيں وہ آنکھوں کے باقی ماندہ راز نہ جان جائيں۔
“يہ تمہاری چاۓ آپا” يمنہ چاۓ لے کر کمرے ميں آئ۔
سائرہ جا چکی تھيں۔
“آپ کو دکھائ اماں نے لڑکے کی تصوير” يمنہ نے رازداری سے پوچھا۔
“نہيں” چاۓ پيتے وہ خود کو کمپوز کرنے لگی۔
“مجھے توذرا اچھا نہيں لگا” اسکی بات پر چھم سے مسکراتا ۔ قہقہے لگاتا کوئ ياد کے پردے پر لہرايا۔
“يمنہ پليز يار ميں بہت تھکی ہوئ ہوں۔ پھر اس بارے ميں بات کريں گے۔ تم لائٹ آف کرکے نائٹ بلب آن کرو۔ اور سوجاؤ۔ ميں بھی چاۓ ختم کرکے ليٹ جاؤں گی” وہ بيزار لہجے ميں بولی۔
“سوری آپا” وہ اسکی تھکاوٹ کا خیال کرتی لائٹ آف کرنے چل دی۔ وليہ اس وقت تنہائ چاہتی تھی۔ وہ اتنی مضبوط نہيں تھی کہ قسمت کی ستم ظريفی کو اتنی جلدی اور اتنے آرام سے سہہ ليتی۔
_______________________________
“کيا خبر ہے” وہ شرٹ پہنتا اپنے خاص بندے کے ساتھ فون پر مصروف تھا۔
“باس وہ اسی لڑکے کے ساتھ مل کر ايک اور دکان کھول رہی ہے۔ شايد اب يہاں نہ بيٹھے۔” دوسری جانب کی آواز سن کر اس نے ہنکارا بھرا۔ فون سنتے وہ کھڑکی ميں جا کھڑا ہوا۔
چہرہ موڑ کر بيڈ پر بکھرے وجود کو ديکھا۔ جسے کچھ دير پہلے ہی وہ ٹشو پيپر کی طرح مسل چکا تھا۔
“اسے اٹھوانے کا بندو بست کرو۔۔ بس چند دن اور ديکھ لو۔ پھر وہ مجھے يہاں اس کمرے ميں ملے۔ اور ہاں ميں کمرے سے جارہا ہوں۔ ميرے کمرے ميں موجود اس (گالی) کو اس کے باپ کے گھر کے سامنے پھينک آؤ۔ تاکہ اسے معلوم ہو۔ مجھے انکار کا انجام کيا ہوتا ہے” وہ کرخت لہجے ميں بولتا فون بند کرتا کمرے سے نکلتا چلا گيا۔

Latest Posts

Related POSTS