اور اگلے دن وہ اسکے روبرو تھی۔ شہزاد اور دلاور کے ساتھ وہ دکان پہنچی تھی جہاں دارم پہلے سے موجود تھا۔ اسے انکے ہمراہ آتا ديکھ کر وہ ہولے سے مسکرايا۔ پہلے دن کے بعد وليہ دوبارہ اس دکان ميں نہيں آئ تھی۔ دارم، شہزاد اور دلاور نے ہی ساری دکان سيٹ کی تھی۔
ايک جانب لکڑی کی ديوار سےی بنا کر وليہ کا آفس بنايا ہوا تھا۔ جبکہ باقی دکان ميں ديوار کے دونوں جانب صوفے اور کرسياں لگائ گئيں تھيں۔
ديواروں پر مختلف کھانوں اور ريٹ لسٹ کے بورڈ تھے۔
يہ سب ان سب نے کب کيا اسے کچھ معلوم نہيں تھا۔ دکان کی بيسمنٹ ميں کيٹرنگ کا سامان آج ہی آيا تھا جسے دلاور اور شہزاد اپنی نگرانی ميں رکھوا رہے تھے۔ دارم اسے لئے آفس کی جانب آگيا تھا۔
جسے شارٹ نوٹس پہ دارم نے اپنی مرضی سے سيٹ کروايا تھا۔ شيشے کی ٹيبل کے ايک جانب ريوالونگ چئير اور دوسری جانب دو کرسياں تھيں۔
ايک کونے ميں ويسے ہی انڈور پلانٹس تھے جيسے دارم کے آفس ميں موجود تھے۔ شايد اس دن دارم نے اسے وہ پلانٹس غور سے ديکھتے ہوۓ ديکھ ليا تھا۔ يکدم اسکی محبت پر وليہ کی آنکھوں ميں آنسو جھلملاۓ۔ اسے ابھی دارم سے بات کرنی ہوگی۔
“کيسا لگا آفس۔ ان شاءاللہ جيسے جيسے آپ ترقی کی مںازل طے کريں گی۔ اس آفس کو ہم اور بڑا کرتے جائيں گے ابھی تو شروعات ہے” اسکے سامنے موجود ايک کرسی پر وہ خود ٹک گيا۔ بازو ٹیبل پر رکھے۔ جينز اور ٹی شرٹ ميں اپنے رف حليے کے ساتھ وہ وليہ کو مشکل ميں ڈال رہا تھا۔
اپنی بات کے جواب ميں اسکی غير معمولی خاموشی اور مسلسل نظريں چرانا دارم سے چھپا نہ رہ سکا۔
“وليہ کيا بات ہے؟” اب کی بار اسکے مسکراتے چہرے پر بھی سنجيدگی ابھری۔
“ميری منگنی ہے اگلے جمعہ کو” ايک گہرا سانس بھر کر اس نے ہمت مجتمع کی۔
اس کی بات پر وہ بے يقين نظروں سے اسے ديکھے گيا۔
“ہم ميں بہت فرق ہے دارم۔۔ ہم کبھی بھی اکٹھے نہيں چل سکتے۔ کل رات اماں نے ميرا رشتہ دلاور کے کزن سے طے کرديا ہے” اب کی بار نظريں اٹھاۓ اس نے دارم کی بے جان ہوتی نظروں کو ديکھا۔
“پليز مجھے معاف کرديں۔ ميں آپکے جذبے کی بہت قدر کرتی ہوں۔ مگر ميں اسے سنبھال نہيں سکتی۔
اپنا نہيں سکتی۔” وليہ نے بے بسی سے اسے ديکھا۔ جو بالکل خاموش تھا۔ اسکی بڑھتی خاموشی وليہ کو پريشان کررہی تھی۔
“آپ نے تو ميرے لئے اپنا مقدمہ لڑنے کا کوئ موقع ہی نہيں چھوڑا۔۔” ہاتھ کی مٹھی بنا کر ٹھوڑی کے نيچے رکھتے وہ چہرہ ديوار کی جانب موڑ گيا۔
اس لمحے وہ کتنا بے بس تھا يہ صرف وہی جانتا تھا۔
“ميں ايک بار آنٹی سے ملنا چاہتا ہوں” اسکی جانب ديکھتے اس نے پھر سے فيصلہ سنايا۔
“آپ کيوں نہيں سمجھ رہے۔۔ کيا ضروری ہے محبت ميں سب مل ہی جائے” وہ ہر ممکن طريقے سے اسے روکنا چاہتی تھی۔
“يعنی ميں يکطرفہ محبت کا ہی مرتکب ہوا” اسکی آنسو دھکيلتی آنکھوں کو اپنی گھور آنکھوں ميں جکڑے وہ اعتراف چاہتا تھا۔ اتنا تو حق رکھتا تھا۔
اسکی بات پر آنکھوں سے گرتے آنسوؤں نے خاموش اعتراف کر ليا تھا۔ وليہ نے نظريں جھکا ليں۔
“چليں اتنی تو تسلی ہوگئ کہ اس راستے ميں ۔۔۔ ميں اکيلا سفر نہيں کررہا تھا۔ يہ ان کہا اعتراف ہی بہت ہے” وہ اسے ستانا نہيں چاہتا تھا۔ اسی لئے اٹھ کر وہاں سے چلا گيا۔ وليہ نے چہرہ ہاتھوں ميں چھپا ليا۔
محبت کی قسمت ميں خسارہ ہی آيا
تمہارا کيا گيا ہم نے تو سب کچھ لٹايا
__________________________
دارم نے اسکے بعد وليہ سے کسی قسم کی بات نہيں کی۔
دن يوں ہی پر لگا کر اڑتے گۓ۔ وليہ کا کام بھی اچھا شروع ہوگيا تھا يا يہ کہنا بہتر تھا کہ کام کے معاملے ميں قسمت اس پہ مہربان تھی۔
انہی دنوں صدف نے بھی اپنے اين جی او کے دو فنکشنز کے لئے وليہ کی کيٹرنگ لی تھی۔
دارم ايک دو بار کے بعد اسکے آفس نہيں آيا۔ اور وہ بھی دلاور اور شہزاد سے مل کر چلا گيا۔
وليہ نے ايک جانب تو سکھ کا سانس ليا کہ اسے بار بار دارم کا سامنا نہيں کرنا پڑ رہا۔
وہيں کسک حد سے سوا تھی۔
منگنی سے ايک دن پہلے سائرہ کے اصرار پر وہ دکان پہ نہيں گئ۔
“يہ ديکھو لڑکے والوں نے تمہارا سوٹ بھيجا ہے” ہلکے کام والا سوٹ وليہ نے بس ايک نظر ديکھا۔
سائرہ کو نجانے اس کا انداز اتنا بجھا بجھا کيوں لگا۔
“وليہ کيا بات ہے بيٹا تو خوش نہيں” سائرہ نے اسے جانچتی نظروں سے ديکھا۔
“نہيں اماں۔ بس ميں نے اتنی جلدی اس سب کا نہيں سوچا تھا” وليہ نے سيدھے سبھاؤ سے کہا
“بيٹا جلدی يا بدير مگر يہ سب تو کرنا ہی تھا” وہ پھر سے اسے سمجھا رہی تھيں۔
“اپنے باس کو دعوت دی ہے؟” سائرہ کی بات پر اس نے چونک کر ديکھا۔
“نہيں” وہ بدقت بولی۔
“ارے تو فون کرونا” سائرہ نجانے جان بوجھ کر کہہ رہی تھيں۔ يا ان کا انداز سرسری تھا۔
“فون کرو ابھی”
“کردوں گی اماں” وہ کبھی بھی اس کو فون کرکے اتنی بے رحمی کا ثبوت نہيں دے سکتی تھی۔
“ارے بعد مين بھول جاۓ گا ابھی کرو” سائرہ مصر تھيں۔
وليہ نے بے بسی سے ماں کے ضدی لہجے کو ديکھا۔ پھر موبائل پکڑ کر دارم کا نمبر ملايا۔
“السلام عليکم” چوتھی بيل کے بعد دوسری جانب سے فون اٹھا ليا گيا تھا۔
“وعليکم سلام۔۔ کيسی ہيں؟” محبت سے گندھا لہجہ وليہ کا بس نہيں چل رہا تھا رو دے۔
“سر وہ کل ميری منگنی ہے”وليہ اٹک اٹک کر بولی۔
“جی جانتا ہوں۔ کاش يہ دن ميں آپکی اور اپنی زندگی سےمٹا سکتا۔” اسکی بات پر وليہ کے چہرے کا رنگ متغير ہوا۔ سائرہ غور سے اسے ديکھ رہی تھيں۔ وہ جان گئ اسکی ماں نے جان بوجھ کر يہ کروايا ہے۔
“ہم چاہ رہے تھے کہ آپ بھی کل آئيں” نظريں جھکاۓ وہ بے تاثر لہجے ميں بولی۔
“اگر ميں آگيا تو آپ کسی اور کی نہيں ہوسکيں گی” اس سے زيادہ وہ نہيں سن سکتی تھی کال کاٹ دی۔
“کيا ہوا” کسی بھی سلام دعا کے بغير اسے فون بند کرتے ديکھ کر سائرہ نے پوچھا۔
“کہہ رہے تھے وقت ملا تو آؤں گا” وليہ نے لہجے کو ہموار کرنا چاہا۔
“آجاۓ تو بہتر ہے” سائرہ ايک گہری سانس خارج کرتيں اسکے پاس سے اٹھ گئيں۔ وليہ نظريں جھکائے رہی
“اللہ کيوں ڈالی ايسے شخص کی محبت” سائرہ کے جاتے ہی وہ لب بھينچ کر آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
_________________
اور بالآخر وہ دن بھی آگيا۔ شام ميں ہلکا پھلکا ميک اپ کئے وہ بوجھے دل کے ساتھ تيار تھی۔
کچھ ہی دير ميں لڑکے والے آنے ہی والے تھے۔ وہ کمرے ميں خاموش بيٹھی ہاتھوں ميں پہنی چوڑیوں اور انگوٹھيوں سے کھيل رہی تھی۔
يمنہ نے رات ميں زبردستی اسکے ہاتھوں پہ مہندی بھی لگا دی۔ وليہ اپنی تياری سے الجھن ہورہی تھی۔
“آپا يہ تمہارے باس کا ڈرائيور دے کر گيا ہے” يمنہ ہاتھوں ميں بکے اور ايک گفٹ تھامے اندر آئ۔
وليہ نے بجھے دل سے ہی وہ دونوں چيزيں تھاميں۔
بکے پر ايک کارڈ لگا تھا۔
اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے دونوں چيزيں تھام کر کارڈ کھولا
My love is pure
I saw an angel
Of that I’m sure
She smiled at me on the subway
She was with another man
But I won’t lose no sleep on that
‘Cause I’ve got a plan
You’re beautiful
I saw your face in a crowded place
And I don’t know what to do
‘Cause I’ll never be with you
Yes, she caught my eye
As we walked on by
She could see from my face that I was
Flying high
And I don’t think that I’ll see her again
But we shared a moment that will last ’til the end
There must be an angel with a smile on her face
When she thought up that I should be with you
But it’s time to face the truth
I will never be with you
ہاتھ سے بکے اور گفٹ بيڈ پر رکھ کر ايک ہاتھ ميں کارڈ تھامے دوسرے ہاتھ سے بمشکل اپنی سسکياں روک رہی تھی۔
اسی لمحے فون پر دارم کا نام جگمگايا۔ وہ آنکھيں ميچ گئ۔ آنسو تواتر سے گالوں پر گر رہے تھے۔
اس ميں ہمت نہيں تھی اس لمحے اس کا فون اٹھانے کی۔
مگر دل تھا کہ ہمک ہمک کر اسی کی جانب کھنچ رہا تھا۔
آخری بيل ختم ہونے سے پہلے اس نے فون اٹھا ديا۔
کان سے لگاۓ اسکی سسکياں دوسری جانب وہ بآسانی سن سکتا تھا۔
“مجھ ميں ہمت نہيں تھی کہ آپ کو کسی اور کے نام ہوتا ديکھتا۔ اسی لئے معذرت آپکی اس خوشی ميں ميں شريک نہيں ہوسکتا تھا۔” اس کا ٹوٹا لہجہ وليہ کو اور بھی توڑ گيا۔
“کيوں محبت کی آپ نے مجھ سے؟” وہ خفا لہجے ميں بولی۔
ايک زخمی مسکراہٹ اسکے لبوں کو چھو گئ۔
“يہ محبت کب پوچھ کر ہوتی ہے۔ بس دل کے دروازے کھول کہ قبضہ کرليتی ہے۔ اور پھر جانے کا نام بھی نہيں ليتی”وہ بے بسی سے بولا۔
“تھينک يو” وليہ نے گفٹ کو ايک نظر ديکھا۔ نجانے اس ميں کيا تھا۔ وہ تہيہ کرچکی تھی کہ نہيں کھولے گی۔
“کس بات کا؟” وہ چونک کر بولا۔
“گفٹ اور پھولوں کا” آنسو صاف کرتے اب وہ لہجے کو ہموار کرنے لگی۔
“کاش يہ کسی اور استحقاق سے بھجوا سکتا۔” دارم کے لہجے کی ياسيت اسے پھر سے بکھيرنے لگی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی۔ دارم نے کال کاٹ دی۔
وليہ نے ہارے ہوۓ جواری کی طرح ہاتھ گود ميں گراۓ۔
پھر وہ کب فہد کے گھر والوں کے سامنے گئ۔ انہوں نے کب اسے انگوٹھی پہنائ۔
اسے کچھ پتہ نہيں تھا۔
اسی دن اسکے سسرال والے اگلے ماہ شادی کی ڈيٹ رکھ گۓ۔
انکے جانے کے بعد وہ سائرہ کے سر ہوگئ۔
“اماں اتنی جلدی کيا ہے۔ کچھ دير رک جائيں” وہ تو ابھی اس منگنی کو قبول نہيں کر پارہی تھی کہاں شادی۔
“وليہ ديکھو ميں پہلے ہی بہت پريشان ہوں۔ اب تم مجھے اور پريشان مت کرو”
“اماں ميرے ابھی قدم تو مضبوط ہونے ديں۔۔ ميں شادی کے بعد کيسے ايک دم سب مينج کروں گی” وہ کرلائ۔
“جب فہد نے کہا ہے کہ وہ ہر طرح تمہارا ساتھ دے گا تو پھر تمہيں کيا مسئلہ ہے” سائرہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
ماں کو سمجھانا اب بے سود تھا۔ وہ جان گئ تھی۔
_________________________________
“ہيلو وليہ” وہ اس وقت دکان پر تھی کہ صدف کی کال آئ۔
“السلام عليکم! کيسی ہيں آنٹی” وليہ نے خوشدلی سے کہا۔
“وعليکم سلام بالکل ٹھيک۔ کل ميں ايک کيٹی پارٹی رکھ رہی ہوں۔ ميری دس بارہ فرينڈز ہوں گی۔ تو تم گھر آکر مينج کرسکتی ہو” صدف کی بات پر چند لمحے وہ خاموش رہی۔
جب سے اسکی منگنی ہوئ تھی تب سے دارم نے کوئ رابطہ نہيں کيا تھا۔ چند بار وہ دکان پر اسے نظر آيا تھا مگر دارم اور باقی لڑکوں سے مل کر وہ چلا گيا تھا۔
وليہ سے اس نے کوئ بات نہيں کی تھی۔ نہ اس ميں ہمت تھی کہ وہ دارم سے بات کرتی۔
پہلے سوچا منع کردے پھر خيال آيا اس وقت تو وہ آفس ميں ہی ہوگا۔
“جی آنٹی ميں مينج کرلوں گی۔ آپ بتا ديجئے گا مينيو کيا رکھنا ہے” اس نے ہامی بھر لی۔
“تھينک يو ميری جان۔ ميں ڈرائيور بھجوا دوں گی بس تم گيارہ بارہ بجے تک آجانا اور مينو ميں رات ميں ميسج کردوں گی” صدف خوش ہوگئيں۔
“جی بہتر” خداحافظ کہہ کر اس نے فون بند کرديا۔
_____________________________
“آپی ايک بات کہوں” رات ميں وہ صدف کے بھيجے ہوۓ مينو کو پڑھ رہی تھی کہ يمنہ اسکے پاس ليٹی اسکے لمبے گھنے بالوں کو ہاتھ ميں تھامے ان سے کھيل رہی تھی۔
“کہو” وہ مصروف سے انداز ميں بولی۔
“آپ کو فہد بھائ سوٹ نہيں کرتے۔” اسکی بات پر پل بھر کو وليہ کا دل دھڑکا
“اچھا کون سوٹ کرتا ہے پھر؟” اس نے لہجے کو سرسری رکھا۔
“دارم بھائ” يمنہ کی بات پر اس نے حيرت سے نظريں اس پر ڈاليں۔
“خبردار ايسی بات آئندہ کی” اسے غصے سے گھرکا
“کيا ہے آپی۔ ميں نے جب پہلی بار دارم بھائ کو ديکھا تھا تب ہی سوچا تھا کہ کاش ايسا ہی بندہ ميری آپا کے لئے ہو۔ بلکہ يہی ہوں” يمنہ کی باتيں اسکے زخم پھر سے ہرے کر رہی تھيں۔ اس نے بڑی مشکل سے ان دنوں خود کو سميٹا تھا۔
“يمنہ چپ کرجاؤ” وہ بيزار لہجے ميں بولی۔
“کاش ميں تمہارے لئے کچھ کرسکتی” وہ بے بسی سے بولی
“تم صرف اتنا کرو کہ آئندہ يہ ذکر مت کرنا۔” وليہ نے بے بس لہجے ميں کہا يمنہ خاموش ہوگئ۔
___________________
اگلے دن وہ اسی گھر ميں موجود تھی جہاں سے زندگی نے نيا اور تکليف دہ رخ ليا تھا۔
گہری سانس بھر کر وہ گاڑی سے اتر کے اندر داخل ہوئ۔
صدف نے دارم کو نہيں بتايا تھا کہ انکی کيٹی پارٹی کو وليہ ہوسٹ کرے گی۔
صدف سے ملنے کے بعد وہ کچن ميں مصروف ہوچکی تھی۔
صدف نے دو تين اور لڑکياں بلوا ليں تھيں۔ جو وليہ کی مدد کروا رہی تھيں۔
اچھا خاصا مينيو تھا جو چار بجے تک اسے بنا لينا تھا۔ اسکے بعد تو بس سرو کرنا تھا۔
مگر سرو کرنے کی ذمہ داری وليہ کی نہيں تھی اس نے بس سپروائز کرنا تھا۔
وہ مطمئن سی کچن ميں چادر اتارے دوپٹہ کندھوں پر ڈالے کام کررہی تھی۔
سب سے زيادہ تسلی اس بات کی تھی کہ اس کے ہونے تک دارم نہيں ہوگا۔ کيونکہ وہ آفس سے رات کو ہی گھر آتا تھا۔
مگر کچھ باتيں پوری ہونے کے لئے نہيں ہوتيں۔
صدف تيار ہونے قريبی پارلر گئيں ہوئيں تھيں۔ انہيں تسلی تھی کہ وليہ سب مينيج کرلے گی۔
چيزيں پکانے کے ساتھ ساتھ وليہ نے انکے ڈرائنگ روم کی سيٹنگ کرنے کی ذمہ داری بخوشی اپنے سر لے لی تھی۔ مينی پيزا اور کوکيز وہ بيک ہونے کے لئے رکھ آئ تھی۔
اب ڈرائينگ روم ميں کام واليوں کی سيٹنگ ميں مدد کروا رہی تھی۔ کہ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر دارم عجلت ميں اندر آيا۔
“ممی۔۔ ڈيڈی کی۔۔۔” ڈرائنگ روم ميں وليہ کو بنا چادر اور کندھوں پر دوپٹہ لئے کھڑے اس نے بے يقين نظروں سے ديکھا۔ وليہ اس اچانک افتاد پر حيران کھڑی تھی۔ سرعت سے رخ موڑ کر دوپٹہ ليا۔
“سوری وہ ميں سمجھا ممی يہاں ہيں” اس نے معذرت کی مگر وليہ کو ديکھ کر جو چمک اسکی آنکھون ميں نظر آئ وہ وليہ سے چھپی نہيں رہی۔
وہ دھڑکتے دل کو سنبھالے اب رخ اسکی جانب موڑچکی تھی۔
“کوئ بات نہيں” وہ دھيرے سے بولی۔
“آپ ويسے يہاں کيا کررہی ہيں؟” اب وہ اسکی اپنے گھر موجودگی کی وجہ دريافت کررہا تھا۔
“آنٹی نے مجھے پارٹی ارينج کرنے کے لئے بلايا تھا” اسکی وضاحت پر وہ ہولے سے سر ہلا کر رہ گيا۔
“آنٹی نزديکی سيلون گئيں ہيں” وليہ نے صدف کے بارے ميں بتايا۔
“ميرے روم ميں چاۓ بھجوا ديں گی پليز” دارم کی بات پر وہ بے تاثر چہرہ لئے ہاں ميں سر ہلا کر اسکے قريب سے گزر کر کـچن کی جانب چلی گئ۔
چاۓ خود بنا کر علی کے ہاتھ دارم کے کمرے ميں بھجوائ۔
اسکے بعد واپسی تک وليہ کا اس سے سامنا نہيں ہوا۔ اس نے شکر کيا۔
_______________________
رات ميں وہ ٹيرس پر اکيلا کھڑا نجانے آسمان ميں کيا ڈھونڈ رہا تھا۔ يا قسمت کی ستم ظريفی پر کڑھ رہا تھا۔
کندھے پہ پڑنے والے ہاتھ کے دباؤ پہ اس نے مڑ کر ديکھا۔ ياور اسکے ساتھ آکر کھڑے ہوۓ۔
“کچھ عرصے سے نوٹ کررہا ہوں تم بہت خاموش ہوگۓ ہو۔ باپ سے بھی شئير نہيں کروگے” ان کی بات پر وہ زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر لايا۔
“ايسی کوئ بات نہيں ڈيڈي” وہ انہيں جھٹلانے لگا۔
“دارم ۔۔۔ مجھے خوش فہمی تھی کہ ميں تمہارا اچھا دوست ہوں۔۔ چلو تم نہ صحيح مگر ميں ضرور ہوں۔ شايد تمہاری اس خاموشی کی وجہ سے بھی واقف ہوں” انکی بات پر اس نے جھٹکے سے رخ ياور کی جانب کيا۔
“کون سی وجہ؟” وہ شايد انہيں آزما رہا تھا۔
“وليہ۔۔ کيا وہ بچی تمہاری اس خاموشی کی وجہ ہے؟” انکی بات پر وہ ہولے سے سر نفی ميں ہلا کر ہلکا سا مسکرايا۔ ياور کو يہ مسکراہٹ بڑی تکليف دہ لگی۔
“آپ واقعی اچھے دوست ہيں” کچھ دير بعد وہ بڑی ياسيت سے بولا۔
“تو کيا مسئلہ ہے تم کہو تو ہم اسکے گھر والوں سے بات کرتے ہيں” دارم نے محبت سے انہيں ديکھا۔
وہ ايے ہی تھے شروع سے دونوں بيٹوں کی خوشی کے لئے کچھ بھی کرنے کو ہر دم تيار۔ ايسے ہی تو اس نے وليہ سے حال دل نہيں کہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ياور اسکا ساتھ ديں گے۔
“اسکی شادی ہونے والی ہے” دارم کی بات پر وہ بھونچکا رہ گئے۔
“يہ کب ہوا؟”
“پچھلے ماہ اسکی منگنی تھی اور اب چند دنوں ميں شادی ہونے والی ہے۔” دارم کی بات پر وہ خاموش رہ گۓ۔
“تم نے اسے کيوں نہيں بتايا”
“سب بتايا تھا۔ وہ نہيں مانتی۔ نہ اسکی امی۔ ميں بس اسکی خوشی ميں خوش رہنے کی کوشش کررہا ہون” اس نے بے بسی سے کہا۔
وہ اسے کيا تسلی ديتے۔
_________________________
“اس لڑکی کا کيا بنا” وہ آج پھر سے اپنے خاص بندے سے پوچھ رہا تھا۔
“باس منگنی ہوگئ ہے۔ چند دنوں بعد شادی ہے” اس کی بات پر وہ دانت پيس کر رہ گيا۔
“منحوس اتنی دير سے کيوں بتايا۔ اٹھوا اسے ۔۔ موقع ملتے ہی وہ ميرے پاس ہونی چاہئے۔
کرواتا ہوں ميں اسکی شادی۔۔ گالی)” اسکی پھنکار پر دوسری جانب اس کا خاص بندہ کانپ کر رہ گيا۔
“کچھ دنوں ميں وہ ميرے پاس نہ ہوئ۔ تو تو جانتا ہے کہ ميں تيرے ساتھ کيا کروں گا” اسکی بات پر وہ ہونٹوں پر زبان پھير کر رہ گيا۔
“جی جی باس ۔۔ جيسے ہی وہ اب اکيلی نظر آئ ۔۔ ميں اپنا کام کرلوں گا” وہ جلدی سے بولا۔
“گڈ” قہقہہ لگاتے اس نے فون بند کرديا
___________________
سائرہ نے آج اسے دکان پر نہيں جانے ديا تھا۔ کيونکہ اسکی ساس نے اسے ساتھ لے جاکر وليمہ کا ڈريس پسند کرنا تھا۔
“تم تيار ہو جاؤ وہ کچھ دير ميں آتی ہوں گی” وليہ نے ماں کی بات پر ہولے سے سر ہلايا۔ اور کپڑے بدلنے اٹھ کھڑی ہوئ۔
کمرے ميں آکر ابھی وہ کپڑے نکال ہی رہی تھی کہ باہر سے دروازہ کھٹکنے اور پھردلاور کی امی کی آواز آئ۔
تھوڑی دير بعد آوازيں اونچی ہونے لگيں جيسے وہ لڑ رہی ہوں۔
وليہ حيران ہوتی باہر آئ۔
“بھابھی اگر وليہ اور اسکے باس کے بيچ کچھ تھا تو آپ کو پہلے بتانا چاہئيۓ تھا۔ آپ جانتی ہيں آپا نے کس قدر بے عزتی کی ہے ہماری” وليہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ وہ کيا کہہ رہی ہيں۔
“بھابھی ايسا کچھ نہيں ہے ميری وليہ ايسی نہيں ہے” سائرہ نے وضاحت دی۔
“ہميں بھی يہی گمان تھا۔ مگر افسوس” انہوں نے کاٹ دار نظروں سے کمرے کے دروازے ميں کھڑی وليہ کو ديکھ کر کہا،
“پاگل تو نہيں ہے نا وہ لڑکا جو انہيں فون کرکے اپنی محبت کے قصے سنا رہا ہے۔ آخر اسی کے ساتھ کام کرتی ہے۔ راتوں رات اس نے دکان بھی بنوا دی اسے۔ اور کام بھی دينے شروع کردئيے آخر کوئ ايسے ہی تو اپنا پيسہ نہيں لٹاتا” وليہ حيران پريشان ان کے الزام سن رہی تھی۔
“فون ۔۔ لڑکا۔۔ محبت” سب گڈ مڈ ہوگيا۔ اسی لمحے دروازہ پھر بجا۔
يمنہ اور مصطفی جو وليہ کے ساتھ دروازے ميں کھڑے سب سن رہے تھے۔ دروازے کی جانب بھاگے۔
مصطفی نے دروازہ کھولا تو دلاور غصے ميں بھرا اندر آيا۔
وليہ اسکی جانب بڑھی۔
“ميں شہزاد کو پہلے ہی کہتا تھا يہ بندہ مجھے ٹھيک نہيں لگتا۔ کر ديا نہ اس نے اپنا کام” اس کا بھی لہجہ ماں کی طرح چبھتا ہوا تھا۔
“ہوا کيا ہے۔۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہيں آرہی” وليہ بے بسی سے بولی۔
“آپکے ان ہمدرد نے فہد بھائ کو فون کرکے يہ کہا ہے کہ آپ اور وہ ايک دوسرے کو پسند کرتے ہيں لہذا وہ اس رشتے سے انکار کريں” وہ ايک ايک لفظ چبا چبا کر بولا۔
وليہ کو لگا اسکے سر پر آسمان گر پڑا ہو۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے دلاور کی جانب ديکھ رہی تھی۔
دارم يہ کيسے کرسکتا تھا۔ اتنا بڑا ظلم۔۔وليہ سر پکڑ کر کھڑی تھی۔
“اب آپا کی طرف سے انکار ہے” شمع غصے سے پھنکارتيں دلاور کو لے کر چلی گئيں۔
“وليہ” سائرہ نے ملامتی نظروں سے وليہ کو ديکھا۔
“اماں يقين کريں ايسا کچھ نہيں تھا۔ آپ۔۔ آپ مجھے جانتی ہيں ميں ايسی نہيں ہوں” اس نے تو محبت کی قربانی دے دی تھی۔ پھر دارم نے اسے کيوں روندھا۔۔۔ کيوں دنيا کے سامنے يوں ذليل و رسوا کيا۔