Wednesday, February 19, 2025

Mera Naam o Nishan Mile | Episode 13

کچھ دير ميں وہ صفی اللہ کے پاس موجود تھا۔
“کچھ پتہ چلا ہے؟” اسکے آفس ميں داخل ہوتے ہی اس نے بے صبری سے پوچھا۔
“يار گاڑی کے نمبر سے گاڑی کا ماڈل اور وہ شاپ پتہ کروالی ہے جہاں سے گاڑی لی گئ ہے۔” صفی اللہ نے تمہيد باندھی۔ صفی نے بتاتے اسے اپنی ميز کے دوسری جانب پڑی کرسیوں ميں سے ايک پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
“تو پھر؟” ايک کرسی پر ٹکتے اس نے کچھ الجھ کر اسے ديکھا۔
“تو پھر يہ ميری جان آجکل کچھ گاڑيوں ميں ٹريکرز لگےہوۓ ہيں۔ بس شاپ کے مالک سے وہ ٹريکر لے کر ہم خود ٹريک کريں گے کہ وہ گاڑی کہاں گئ ہے”صفی اللہ کی بات پر اسے يک گونہ سکون ملا۔
“کتنی دير مين يہ کام ہوجاۓ گا؟” اسکی بے چينی عروج پر تھی۔
“جتنی جلدی وہ ہميں ٹريکر دے گا سمجھو اتنی جلدی ہم اسے ٹريس کرليں گے” صفی کی بات پر وہ لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوا۔
“تمہارے خيال ميں انہوں نے ٹريکر آن کيا ہوگا۔؟” ايک اور خيال کے آتے ہی وہ بولا۔
“مالک کے مطابق وہ ٹريکر آن کرکے ہی اس نے ديا تھا۔ گاڑی کے مالک کو معلوم نہيں تھا۔ دعا کرو کہ وہ آن ہی ہو۔ ويسے بھی جب انسان اپنے ہی بنے ہوۓ جالے ميں پھنسنے لگتا ہے تو اپنی ہی کسی غلطی کے سبب پھنس جاتا ہے”صفی کی بات پر وہ محض سر ہلا کر رہ گيا۔ دل سے دعا نکلی کے ايسا ہی ہو۔
دارم نے کچھ ياد آنے پر موبائل جيب سے نکالا۔
“ہيلو ڈيڈی ايک ايشو ہوگيا ہے” اس نے ياور کو کال ملائ۔ اور دھيرے دھيرے انہيں سب بتاتا چلا گيا۔
“تم پريشان مت ہو۔ اللہ بہتر کرے گا۔ ميں شمس سومرو کے بھائ کو بہت اچھے سے جانتا ہوں۔ اسکی نسبت وہ کافی سادہ سا بندہ ہے۔ ميں اس سے اگلوانے کی کوشش کرتا ہوں” ياور کی بات نے اس کا حوصلہ اور بھی بڑھايا۔
“تھينکس ڈيڈی” وہ تشکر آميز لہجے مين بولا۔ جس قدر وہ ہاتھ پاؤں مار سکتا تھا اس وقت مار رہا تھا۔
وہ جيسے ہی فون بند کرکے فارغ ہوا
صفی اللہ کے فون پر شاپ کے مالک کی کال آگئ۔
“ہيلو۔۔ ہاں بولو” وہ غور سے صفی کے تاثرات ديکھ رہا تھا۔
“ديٹس گريٹ۔۔ فورا مجھے ڈيٹل واٹس ايپ کرو۔۔ آگے کا کام ہمارا ہے” اس کے فون بند کرتے ہی دارم سيدھا ہوا۔
“کيا ہوا؟”
“ٹريکر آن ہے” اسکی بات پر دارم نے سکھ کا سانس ليا۔
“بس وہ مجھے ٹريکر آئ ڈی بھيج دے آگے ہم خود پتہ کرواتے ہيں” کہنے کے ساتھ ساتھ وہ مسلسل فون پر مصروف تھا۔
پھر سے کسی کو فون ملايا۔
“ہاں دانش۔۔ ميں نے تمہيں ايک ٹريکر آئ ڈی بھيجا ہے مجھے چند منٹوں ميں پتہ کرکے بتاؤ يہ گاڑی اس وقت کہاں موجود ہے” اس نے اپنے کسی آفسر کو فون کر کے ہدايات ديں۔
“گاڑی ايشو کس کے نام پر ہوئ تھی؟” دارم کی بات پر صفی نے پل بھر کو موبائل سے نظر ہٹا کر اسکی پريشان شکل ديکھی اور ہولے سے مسکرايا۔
“ميری جان ايسے لوگ اپنا سراغ نہيں لگنے ديتے۔ اسکے کسی بندے کے نام سے گاری نکلوائ گئ ہے” صفی کی بات پر وہ خاموشی سے بس اسے ديکھ کر رہ گيا۔ ہر گزرتا لمحہ اسکے اضطراب کو بڑھا رہا تھا۔
____________________________
“فون کرو اسے۔ آخر کہاں رہ گئ ايک گھنٹے کا کہہ کر گئ تھی اب شام پڑ رہی ہے” سائرہ کب سے وليہ کا انتظار کررہی تھيں۔ دو ايک بار اسکے موبائل پر بھی کال کی مگر وہ بند تھا۔
“اماں دو تين بار فون کر چکی ہوں۔ مگر فون ہی بند جارہا ہے” يمنہ موبائل ہاتھ ميں لئے پريشانی سے بولی۔
“دلاور کو فون ملاؤ يا شہزاد کو۔ انہيں شايد پتہ ہو” سائرہ کے کہنے پر يمنہ نے دلاور کی بجاۓ شہزاد کو فون کيا۔
“ہيلو شہزاد بھائ۔ آپ کو کچھ پتہ ہے کہ آپا کہاں گئ ہيں۔ صبح کی نکلی ہوئ ہيں اب تک واپس نہيں آئيں” يمنہ نے چھوٹتے ہی اسے اپنی پريشانی بتائ۔
“کب سے نکلی ہيں۔ تم نے پہلے کيوں نہيں بتايا” شہزاد پريشان ہو اٹھا۔ جو بھی تھا وہ ان سب کو بہت عزيز تھی۔
“حالات ايسے تھے ميں کيسے فون کرتی۔” يمنہ کی بات پر وہ چپ رہ گيا۔
“دلاور سے پوچھا ہے؟” شہزاد کے سوال پر وہ استہزائيہ ہنسی۔
“انہيں کيسے فون کرتی وہ تو کل سے ہم سے سارے تعلقات توڑے بيٹھے ہيں” يمنہ کی بات کا اس کے پاس کوئ جواب نہيں تھا۔
“اچھا تم فون رکھو ميں ديکھتا ہوں” شہزاد نے يمنہ کی کال کاٹتے دلاور کو فون ملايا۔
“ہيلو دلاور۔ باجی صبح کی گھر سے نکلی ہوئ ہيں اب تک گھر نہيں آئيں۔ ان کا فون بھی بند ہے” دلاور نے جيسے ہی فون اٹھايا اس نے پريشانی بتائ۔
“تو مجھے فون کرکے کيوں بتا رہے ہو۔ دھيان رکھنا کہيں کورٹ ميرج کرنے نہ چلی گئيں ہوں” اس کا تمسخر اڑاتا لہجہ شہزاد کا دماغ گھوما گيا۔
“بکواس مت کرو۔۔۔ تم جانتے ہو وہ ايسی نہيں ہيں” شہزاد غصے سے بولا۔
“ہاں! اب تک يہی گمان تھا کہ وہ ايسی نہيں ہيں” دلاور اس سے شديد بدگمان تھا۔
“دلاور وہ لوگ اس وقت تنہا ہيں۔ پليز يار۔۔ مجھے شک ہے کہ کہيں شمس سومرو نے تو کوئ چل نہيں چل دی” شہزاد کی بات پر وہ جو خود پر بے حسی کا خول طاری کئے ہوۓ تھا۔ اب کی بار پريشان ہوا۔
“تم ايک کام کرو۔ پہلے اپنے باس سے پوچھو۔۔۔”
“دلاور۔۔”
“تحمل سے بات سنو۔۔”دلاور اسکی بات کاٹ کر بولا۔
“آپا اگر واقعی ايسی نہيں ہيں تو يقينا آج وہ تمہارے باس کا دماغ ٹھکانے لگانے گئيں ہوں گی۔ وہيں سے کوئ خبر مل سکتی ہے۔ فورا انہيں فون کرو اور پھر مجھے بتاؤ” شہزاد ہولے سے مسکرايا۔
“باجی کو نہ جاننے کا دعوی بھی کرتے ہو۔۔۔ مگر انکی عادت سے واقف بھی ہو” شہزاد کی بات پر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا۔
“تم کال کرو فورا” دلاور نے مزيد کوئ بات کئے بنا فون بند کرديا۔
_____________________
“سمجھ نہيں آرہی کہ مبارک دوں يا کيا کہوں۔ تمہارا گمان صحيح تھا۔” صفی فون بند کرکے دارم کی جانب متوجہ ہوا۔
“کيا؟” اس نے حيرت سے پوچھا۔
“يہ گاڑی شمس کے ہی زير استعمال ہے اور يہ گاڑی اس وقت اسکے فارم ہاؤس کے باہر کھڑی ہے” صفی نے اس سے بات کرتے کرتے پھر سے فون ملايا۔
“ہاں سب کوتيار کرو۔ ہم شمس کے اڈے پر ريڈ کرنے جارہے ہيں۔ کيس اغوا کا ہے” صفی نے اپنی فورس کو اطلاع دی۔
اسی اثناء ميں دارم کے فون پر شہزاد کی کال آنے لگی۔
“ہيلو۔ ہاں شہزاد” فون اٹھاتے ہی اس نے پوچھا۔
“سر باجی آج آپ کے آفس آئيں تھيں؟” اسکے سوال پر وہ گہرا سانس بھر کر رہ گيا۔
“ہاں اسی فون کی بابت پوچھنے اور ميری انسلٹ کرنے۔ ليکن جو بات ميں تمہيں بتانے لگا ہوں وہ اب تحمل سے سننا” دارم نے توقف ليا۔
“سر وہ گھر نہيں پہنچيں ابھی تک” شہزاد نے شايد اسکی اگلی بات سنی نہيں تھی۔
“ميں تمہيں وہی بتانے لگا ہوں۔ ميرے آفس کے باہر سے شمس سومرو کے بندوں نے اسے اغوا کر ليا ہے” دارم نے ٹھہر ٹھہر کے اسے بتايا وہ جانتا تھا وہ اور دلاور وليہ کے بارے ميں بہت ٹچی ہيں۔
“کيا۔۔۔ کيا کہہ رہے ہيں سر” اسکے منہ سے چيخ نما آواز نکلی۔
“پليز يار اس وقت ميں بہت پريشان ہوں۔ ہم نے پتہ کروا ليا ہے کہ وہ وليہ کو کہاں لے کر گيا ہے۔ ميں پوليس کے ساتھ ہی ہوں اس وقت ميرا ايک کزن جس کا مين نے تمہيں بتايا تھا۔ وہ بس اسکے اڈے پر ريڈ کرنے جارہے ہيں۔ تم دعا کرنا اور اسکی امی اور فيملی کے پاس جاؤ۔ انہيں اس وقت تم لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ اور پليز يہ بات زيادہ نہ پھيلے۔
ان شاءاللہ ہم اسے صحيح سلامت بازياب کروا ليں گے۔ اور ہاں اگر اس دوران اسکی فيملی کو شمس سومرو کی جانب سے کوئ بھی فون آۓ۔ يا کسی بھی انجان نمبر سے يا پھر کوئ اور مشکوک نقل و حرکت ديکھو تو مجھے فورا فون کرنا” دارم نے بڑی مشکل سے اسے سب حقيقت بتائ۔
“جی سر ميں جارہا ہوں۔ پليز ہماری باجی کو بچا لی جئے گا” اسکے لہجے کی نمی محسوس کرکے دارم نے بڑی مشکل سے خود پر بند باندھا۔ وہ اسے کيا بتاتا
کہ اسکی باجی تو کب سے اسکی رگوں ميں خود کے ساتھ بس گئ ہے۔
اس وقت اس کا بس نہيں چل رہا تھا کہ شمس سومرو کے ٹکڑے کردے۔
“اللہ کی ذات بچانے والی ہے۔ اور وہ وليہ کی حفاظت کرے گا۔ مجھے پورا يقين ہے” دارم نے اس سے زيادہ شايد خود کو يقين دلايا
تھا۔
فون بند کرے وہ صفی کی جانب متوجہ ہوا جو اپنا ہوليسٹر چيک کررہا تھا۔
“صفی مجھے بھی ساتھ جانا ہے” دارم کی بات پر صفی کا کيپ صحيح کرتا ہاتھ پل بھر کو رکا۔
“دارم يہ پوليس کيس ہے ميں تمہيں ايسے ساتھ لے کر نہيں جاسکتا” صفی نے اسے سمجھانا چاہا۔
“ميں تمہارے ساتھ نہيں ہوں گا۔ ميں الگ اپنی گاڑی ميں ہوں گا۔ پليز يار ميں ۔۔۔ ميں وليہ کو کسی کی نظر ميں نہيں آنے دينا چاہتا۔ ميں اسے واپس اپنی گاڑی ميں لاؤں گا۔ پليز يار۔۔” دارم کی بےبسی اسکی خواہش پر صفی نے گہری نظروں سے اسے ديکھا۔
“بہت محبت کرنے لگ گۓ ہو اسے سے؟” صفی کے سوال پر اس نے نظروں کا زاويہ بدلا۔
“مجھے نہيں معلوم يہ کيا ہے۔ مگر اس لمحے جب وہ ايسے درندوں ميں گھری ہے ميرا بس نہيں چل رہا ہر قانون کو بالائے طاق رکھ کر ميں خود وہاں جاکر اس پہ پڑنے والی ايک ايک نگاہ کو۔۔ ان ہاتھوں کو جنہوں نے اسے گھسيٹا چير کر رکھ دوں” وہ جبڑے بھينچ کر بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتا بولا۔
“چلو۔۔ مگر تم اندر نہيں جاؤ گے۔ يہ ميں وعدہ کرتا ہوں کہ وليہ تمہارے ساتھ ہی واپس آئے گی۔ بس دعا ہے کہ وہ صحيح سلامت واپس آۓ” صفی کی بات پر اس نے شدت سے آمين کہا۔
__________________________
کپکپاتے ہاتھوں سے وہاں موجود کھانا اس نے زہر مار کيا۔
رہ رہ کر اسے اپنی حالت پر رونا آرہا تھا۔
وہ ابھی تک اسی گمان ميں تھی کہ دارم نے يہ سب کروايا ہے۔
“کون ہے يہ سومرو” کھانے سے ہاتھ کھينچ کر وہ اب سر پکڑے تيزی سے دماغ کو دوڑا رہی تھی۔
يکدم پھر سے کمرے کے باہر قدموں کی چاپ ابھری۔
وليہ نے اب کی بار چاقو جلدی سے دوپٹے سے نکال کر اپنے دائيں ہاتھ ميں قابو کيا۔ ساتھ ساتھ کمرے ميں ايسی چيزوں پر نظر دوڑائ جن کو وہ اپنی حفاظت کے لئے استعمال کرسکتی تھی۔ بيڈ کے دائيں جانب ڈريسنگ پر بہت سی پرفيوم کی شيشياں موجود تھيں وہ ايک ہی جست ميں ڈريسنگ کے پاس پشت ڈريسنگ کی جانب کئے اور چہرہ دروازے کی جانب کئے کھڑی تھی۔
دروازہ آہستہ سے کھلا۔ اندر آنے والے شخص کو ديکھ کر وہ حيرت سے منہ کھولے کھڑی تھی۔
يہ تو ايک مشہور سياسی شخصيت شمس سومرو تھا۔
“ارے واہ ميرے استقبال ميں کھڑی ہو” اسے سامنے ڈريسنگ کے آگے کھڑے ديکھ وہ خوشگوار حيرت سے ہنسا۔ اپنے پيچھے دروازے کا لاک بند کيا۔
اسکی حريص نظريں وليہ کے آر پار ہوئيں۔
“کک۔۔ کيوں لے کر آۓ ہو مجھے۔۔ ميں تو تمہيں جانتی بھی نہيں” وليہ کی بات پر اس نے بڑا سا قہقہہ لگايا۔
“ميری جان جو ميں تم سے چاہتا ہوں اس ميں جان پہچان کی ضرورت نہيں ہوتی۔ ” اسکی غليظ نظريں وليہ کو اندر تک ہلا گئيں۔
“پليز مجھے چھوڑ دو۔۔ تم۔۔ تمہارے لئے تو اور بھی بہت سی لڑکياں ہوں گی۔ جو۔۔يہ سب بخوشی کرليتی ہيں۔ مگر پليز مجھے چھوڑ دو” وليہ اسکے آگے گڑگڑا ہی سکتی تھی۔ شايد کے اسے رحم آجاتا۔
“ارے واہ۔۔ پاگل سمجھا ہے۔۔ اتنے دنوں سے تيری پيچھے اپنے بندوں کو پاگل کر رکھا تھا۔ اب کوئ بھی منافع کماۓ بغير تجھے چھوڑ دوں۔” وہ اسکے قريب آتا جارہا تھا۔
“ديکھو تمہيں بھتہ چاہئيے تھا ہم نے بغير کوئ جھگڑا کئے وہ تمہارے بندوں کو دے ديا تھا۔ ميں نے تو ايسی کوئ دشمنی کی ہی نہيں جس کے لئے تم يہ سب کرو” وليہ کی بات پر وہ ايسے ہنسا جيسے کسی بچے کی بات پر ہنستے ہيں۔
ہرے رنگ کی شلوار قميض پہنے۔۔ بازو اور گلے ميں چينيں ڈالے۔ لمبے بال جو اسکے شانوں پر جھول رہے تھے۔ پان کھا کھا کر دانت اور زبان عجيب لال کالے لگ رہے تھے۔
“بھتہ تو ايک بہانہ۔۔ مجھے تو تو چاہئيے تھی” اسکے قريب کھڑے وہ للچائ نظروں سے اسے ديکھ رہا تھا۔
“ديکھو تمہيں اللہ کا واسطہ يہ مت کرو” وليہ روہانسی لہجے مين بولی۔
“ديکھنے کے لئے ہی تو يہاں لايا ہوں۔ اپنے عاشق کے پاس تو دوڑ دوڑ کے جاتی ہے۔۔ وہاں جاتے ڈر نہيں لگتا تھا” شمس کی بات پر وہ پل بھر کو حيران ہوئ۔
“کک۔۔ کس کی بات کررہے ہو؟” وہ ہکلائ۔ اسکے بڑھتے قدم رک ہی نہيں رہے تھے۔
وليہ نے غير محسوس انداز ميں ايک ہاتھ پيچھے کرکے پرفيوم کی ايک شيشی پہ گرفت مضبوط کی۔
“ارے وہی دارم ياور ملک” وہ آنکھيں گھما کر بولا۔
“اسے تو نجانے کون کون سے جلوے دکھا دئيے ہيں کچھ ہميں بھی دکھا دے۔” وہ ايک آنکھ دبا کر خباثت سے بولا۔
اس سے پہلے کہ وہ اسکی چادر پر ہاتھ ڈالتا وليہ نے تيزی سے شيشی گھما کر وہی ہاتھ زور سے اسکے سر پر مارتے شيشی توڑی اور اسکا سر بھی
شمس وليہ سے ايسی جرآت کی توقع نہيں کرتا تھا۔ اسکے ماتھے سے خون منہ پر بہنے لگا۔ وہ غصے ميں بپھرا۔
“کمينی تيری تو” وليہ يکدم بھاگ کر بيڈ پر چڑھی۔
“ميرے قريب مت آنا ورنہ اس سے بھی برا حال کروں گی۔ ” وہ ہاتھ اٹھاتی اسے وارن کرنے لگی۔ اس وقت اپنی عزت سے بڑھ کر اسکے لئے کچھ نہيں تھا۔
يکدم باہر سے پوليس کا سائرن سنائ دينے لگا۔
“اب تو تجھے نہيں چھوڑوں گا۔” اس سے پہلے کے وليہ بيڈ کے دوسری جانب اترتی وہ پاگل ہو کر اسے ايک ہی جست ميں قابو کرنے لگا۔
مگر وہ بھی اس لمحے بپھری ہوئ شيرنی بنی تھی۔ کچھ پوليس کا سائرن سن کر اسے اور بھی حوصلہ ہوا۔
ايک بازو تو شمس کے قبضے ميں آگيا مگر دوسرے بازو سے وليہ نے چاقو والا ہاتھ سيدھا اسکی آنکھ ميں مارا۔ وہ تکليف سے بلبلا اٹھا۔
“تو کمينی عورت” وہ آنکھ پکڑے پيچھے کو گرا۔
وہ پھر سے اسکی جانب بڑھا مگر وليہ بيڈ سے نيچے اتر کر دروازے کی جانب بڑھ چکی تھی۔
شمس تکليف پيچھے چھوڑ کر پھر سے اسکی جانب بڑھا۔ اسکی چادر اسکے ہاتھ ميں آگئ زور سے جھٹکا ديا۔ وليہ نے چادر ہٹا کر پھر سے رخ اسکی جانب کرے اب کی بار پے در پے چاقو کے وار اسکے منہ پر۔۔۔ کندھوں پر کئے۔
“ذليل انسان۔۔ اللہ غارت کرے تم جيسے فرعونوں کو۔۔” وہ تکليف سے چلا رہا تھا۔ اسی لمحے دروازے پر دھڑ دھڑ کی آواز آئ۔
“شمس باہر نکلو۔۔ تمہارے سارے بندے پوليس کی حراست ميں ہيں” وليہ نے آگے بڑھ کر دروازہ تيزی سے کھولا۔
شمس زمين پر پڑھا چہرہ ہاتھوں ميں تھامے تکليف سے دوہرا ہو رہا تھا۔
دروازہ کھلتے ہی صفی اندر آيا۔ باقی سب کو اس نے ہاتھ کے اشارے سے باہر رکنے کے لئے کہا۔
گن تھامے وہ اندر آيا مگر اندر کا منظر ديکھ کر حيرت سے اس کا منہ کھل چکا تھا۔
شمس کو تکليف سے تڑپتے ديکھ کر اس نے حيران نظريں دائيں جانب موڑيں جہاں وليہ ہاتھ ميں خون سے لتھڑا چاقو لئے اڑے ہوۓ حليے ميں کھڑی تھی۔ آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ چادر ندارد تھی۔
صفی نے فورا آگے بڑھ کر زمين پر گری چادر وليہ کی جانب بڑھائ۔ مگر وہ شديد شاک ميں کھڑی تھی صفی کے بڑھے ہوۓ ہاتھ کی بجاۓ شمس کو بے يقين نظروں سے تڑپتا ديکھ رہی تھی۔
صفی نے آگے بڑھ کر چادر اس کے گرد لپيٹی۔ جيب سے رومال نکال کر اسکا چاقو والا ہاتھ تھام کر چاقو نکالا تو جيسے وليہ کو ہوش آيا۔
“مم۔۔ ميں”
“ششش” صفی نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کروايا۔ جس کی آنکھون سے اب آنسو بہہ رہے تھے۔
“چہرہ ڈھانپيں” اس نے وليہ کو ہدايت دی۔
اسکے چہرہ ڈھانپتے ہی صفی نے باہر کھڑے بندوں کو اندر آنے کو کہا اور وليہ کا بازو تھامے اسے باہر لے کر نکلا۔
______________________
کب سے وہ فارم ہاؤس کے باہر کھڑا محو انتظار تھا۔ ايک ايک لمحہ اس وقت اس پر بھاری تھا۔ آخر گاڑی سے نکل کر وہ بے چينی سے بار بار اندر کی جانب ديکھ رہا تھا۔
اسکی بے چينی يک لخت تھمی جب اس نے صفی کے بازو کے گھيرے ميں وليہ کو چادر ميں چھپے اپنی جانب آتے ديکھا۔
گيٹ سے باہر آتے جيسے ہی وليہ کی نظر سامنے پڑی وہ حيرت سے گنگ رہ گئ۔
“لو اپنی امانت۔ انہيں لے کر فورا يہاں سے نکلو۔۔ ابھی ميڈيا پہنچتا ہی ہوگا۔ اس سے پہلے پہلے تم انہيں لے جاؤ” صفی اسکے قريب رکتے عجلت ميں بولا۔ وليہ کے کندھے سے بازو ہٹاتے وہ اندر کی جانب بڑھا۔
دارم بے ساختہ اسے بازو کے حلقے ميں لے کر خود سے لگا گيا۔
وہ سوچ بھی نہيں سکتی تھی دارم اسے بچانے کے لئے يہ سب کرے گا۔
دارم نے اسے خود ميں بھينچ کر جيسے اسکے صحيح سلامت ہونے کا يقين کيا۔
وليہ کسی اپنے کو ديکھ کر بکھر گئ۔ اسکے ساتھ لگتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر روئ۔
“ريليکس سب ٹھيک ہے۔۔ آپ کو کچھ نہيں ہوا” دارم نے اسکی متحوش ہوتی حالت ديکھ کر بمشکل اسے خود سے الگ کيا۔
“سب مصيبتيں ہم غريبوں پر ہی کيوں ٹوٹنی ہوتی ہيں” وليہ نے آنسو ضبط کرتے بمشکل کہا۔
“مجھے واپس نہيں جانا۔۔ آ۔۔ آپ مجھے يہيں مار ديں۔۔ کسی سے کہيں۔۔ نہيں بلکہ آپ ميرا گلہ دبا ديں” وليہ کی بات پر وہ چکرا گيا۔۔ کيا اسکے ساتھ۔۔۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ سوچ نہيں سکا۔۔
“کيا ہوگيا ہے۔۔ پاگل ہوگئيں ہيں” دارم نے اسے جھڑکا۔ پھر زبردستی گاڑی ميں بٹھايا۔
“مجھے لگتا ہے وہ مر گيا ہے۔ ميں نے بہت چاقو مارے ہيں اسے۔۔ يہاں سے بچ گئ ہون۔ مگر مجھے لگتا ہے اب پوليس مجھے پکڑ لے گی۔ پھر مجھے سزاۓ موت ہو جاۓ گی۔” وليہ وحشت سے بولی۔
اسکی بات سن کر دارم بھونچکا رہ گيا۔
“آپ نے چاقو سے اسے مارا ہے” گاڑی چلاتے وہ حيرت سے پوچھ رہا تھا۔
“تو۔۔ تو کيا کرتی۔ اسے اپنی عزت کے ساتھ۔۔۔۔” وليہ جملہ پورا نہ کرپائ روتےہوۓ لب بھينچ گئ۔
“آپ نے اپنے ڈيفينس ميں اسے مارا ہے۔ وليہ۔۔ اور اگر وہ مر بھی جاتا ہے تو آپ پر کوئ کيس نہيں بنے گا۔۔ يو آر مائ بريو گرل” ايک بازو اسکے کندھے پر رکھے دارم نے روتی تڑپتی وليہ کو خود سے لگايا اور دوسرے سے گاڑی ڈرائيو کر رہا تھا۔
“نہيں۔۔ وہ۔۔ وہ پوليس والا مجھے ايسے ديکھ رہا تھا جيسے ميں مجرم ہوں” وليہ نے صفی کا بتايا۔
“وہ ميرا کزن ہے وہ آپ کو کچھ نہيں کہے گا۔۔پليز يار سنبھالو خود کو” دارم نے اسے يقين دلايا۔
“نہيں وہ سب مجھے پکڑ کر۔۔۔ ل۔لے ” اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات پوری کرتی وہ دارم کی بازو ميں جھول گئ۔
دارم نے گاڑی کو فورا بريک لگاۓ۔
“وليہ۔۔ وليہ۔۔۔” اسکے چہرے کو تھپتھپايا جو بے جان تھا۔
اس نے فورا کلائ چيک کی تو وہ مدھم چل رہی تھی۔ گاڑی کی سيٹ پيچھے کرکے اسے احتياط سے لٹايا۔ سيٹ بيلٹ باندھ کر گاڑی سٹارٹ کی۔
يقينا وہ اسٹريس سے بے ہوش ہوگئ تھی۔
اس نے گاڑی یی اسپيڈ بڑھائ وہ جلد از جلد کسی ہاسپٹل يا کلينک پہنچنا چاہتا تھا۔

Latest Posts

Related POSTS