صبح جس لمجے وليہ کی آنکھ کھلی دارم آفس کے لئے تيار ہورہا تھا۔
“گڈ مارننگ” ڈريسنگ سے بيڈ کا منظر واضح نظر آتا تھا۔ وہ شيشے سے وليہ کو اٹھتے ديکھ چکا تھا۔
“مارننگ۔۔ آپ کہاں جارہے ہيں؟” وہ اٹھ کر بيٹھی۔ پاس پڑا دوپٹہ اٹھا کر شانوں پر ڈالا اور بال سميٹے۔
“آفس جارہا ہوں۔ ايک ضروری ميٹنگ ہے۔۔ جلدی ختم کرکے آجاؤں گا” پرفيوم اسپرے کرتے وہ مصروف سے لہجے ميں بولا۔
وليہ نے آنکھيں بند کرکے اس مسحور کن خوشبو کو اپنے اندر اتارا۔۔ نجانے وہ کون سا پرفيوم استعمال کرتا تھا۔ بہت ہی دلفريب خوشبو ہوتی تھی اس کی۔
“آپ ريسٹ کرنا۔۔ ڈيڈی شايد گھر پر ہوں۔۔ ان سے باتيں کرلينا۔۔ نہيں تو اسٹڈی روم ميں جا کر کتابيں پڑھ لينا۔” اسکی جانب آتے وہ اسے وقت گزارنے کے طريقے بتا رہا تھا۔
وہ سر ہلا کر بيڈ سے اتری جب وہ اسکے مقابل آيا۔ وليہ نے سر اٹھا کر سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔
“کيسی بيوی ہيں۔۔ شوہر کے ناشتے کی کوئ فکر نہيں۔۔ ميں نے کہا جارہا ہوں تو بھی پوچھا ہی نہيں کہ ناشتہ کيا يا نہيں” اسکی نيند کے خمار ميں ڈوبی آنکھوں کو اپنی گہری آنکھوں ميں جکڑے محبت بھرا شکوہ کيا۔
“آئم سوری۔۔۔۔ مجھے خيال نہيں رہا۔ آپ بس دس منٹ ويٹ کريں ميں ابھی ناشتہ بنا ديتی ہوں” وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتے تيزی سے اسکے سائيڈ سے گزر کر واش روم کی جانب بڑھنے ہی والی تھی کے بازو دارم کے ہاتھ کے شکنجے ميں آگيا۔
“مذاق کررہا ہوں۔۔ اب ٹائم نہيں۔۔ آفس جاکر کروں گا۔۔” اسے واپس اپنے مقابل کھڑا کيا۔
“آپ مجھے پہلے اٹھا ديتے نا۔۔ پتہ نہيں اتنی نيند کيوں آنے لگ گئ ہے” وہ شرمندگی سے بولی۔
“جب آپ کے دکھ بانٹنے والے موجود ہوں تو پھر سکون بھری نينديں ہی آتی ہيں” محبت سے اسکے صبيج چہرے پر انگلياں پھيريں۔
وليہ خفيف سا پيچھے ہونا چاہتی تھی۔ پھر ياد آيا اس نے دھمکی دی تھی۔ ” جتنا دور ہوئ اتنا
قريب آؤں گا” اسی لئے دھڑکتا دل لئے وہيں کھڑی رہی۔
“اب جائيں نا۔۔ دير ہو رہی ہے” اسے ٹس سے مس نہ ہوتے ديکھ کر ياد دلايا۔
اسکی بات کا جواب دينے کی بجاۓ دارم نے بڑھ کر اسے خود سے لگايا۔۔ اسکی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا۔
“آ۔۔ آپ ايسے کيوں کررہے ہيں۔۔” وہ گھبرائ۔۔
“کبھی يہ مت سوچنا کے ميں آپکے ساتھ نہيں۔۔ يا کوئ کچھ بھی کہہ کر مجھے آپ سے متنفر کر دے گا۔۔ اب اس گھر پر يہاں کی ہر چيز پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ہم سب کا ہے۔ آپ اس گھر کا حصہ ہيں۔۔ ممی کی باتوں کو پليز دل پر مت لينا۔۔ ايک طرف آپ کا اعتماد بحال کرتا ہوں۔ تو آپ انکی باتوں کو دل سے لگا کر سب تہس نہس کر ديتی ہو۔۔ مجھ پر اتنا ظلم کرکے آپ کو ترس نہيں آتا” اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکاۓ بوجھل آواز ميں وہ اسے بے بس کرنے کے سب حربوں سے واقف تھا۔
شام ميں جب وہ شاپنگ سے واپس آۓ۔ دارم نے اسے ماں کے پاس بھيجا کہ وہ انہيں چيزيں دکھا دے شايد ماں کا موڈ بحال ہو۔۔ مگر صدف کے روڈ رويے پر وہ پھر سے دارم کے ساتھ اجنبی ہوگئ۔ اور يہ اجنبيت رات تک برقرار رہی۔۔ وہ تو سوگئ۔ مگر وہ رات دير تلک جاگتا رہا۔
“ميں جان بوجھ کر نہيں کرتی۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے اگر آپ۔۔ آپ بھی مجھ سے بيزار ہوگۓ۔ ميں آپ کی محبت کو چاہتے ہوۓ بھی قبول نہيں کرپارہی۔۔ اگر کل کو آپ نے منہ موڑ ليا تو ميں کہيں کی نہيں رہوں گی” اسکی آنکھوں ميں بھرنے والا پانی دارم نے بہنے سے پہلے ہاتھون سے چن ليا۔
“جب سب جانتے ہوۓ آپ کو اپنايا ہے۔ تو ايسے کيسے کسی کی باتوں ميں آکر چھوڑ دوں گا” دارم کے محبت بھرے لہجے نے اسے تقويت پہنچائ۔
“يہ سب آپ کو اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ ابھی ميں جارہا ہوں۔ ميرے پيچھے کوئ بھی بات ہو آپ نے کوئ حماقت نہيں کرنی۔۔ پليز۔۔ ڈيڈی مسلسل ممی کو سمجھا رہے ہيں۔۔ مگر کچھ لوگ سمجھتے ہوۓ وقت ليتے ہيں۔۔ اور شايد عورتيں کچھ زيادہ ہی” آخری بات پہ اسے چوٹ کی۔
“آپ نے مجھے ٹونٹ کيا ہے؟” اسکی شرارت پر توقع کے مطابق وہ بھڑک اٹھی۔
“کوشش تو نہيں کی تھی۔۔ ليکن اگر آپ نے محسوس کر ليا ہے تو کچھ کہہ نہيں سکتا” کندھے اچکاتے اس کے پاس سے ہٹتے الماری کی جانب بڑھا ليپ ٹاپ بيگ سميت نکالا۔
“اچھا اب موڈ آف نہيں کرو۔۔ اچھے سے سی آف کرو مجھے” وہ ابھی بھی وہيں کھڑی اسے گھور رہی تھی۔
دارم اسکے انداز پر مسکرايا۔
“اتنا غصہ کہاں سے آگيا ہے آپ ميں؟” شرارت سے پھر اس پر چوٹ کی۔
“آپ غصہ دلاتے ہيں” سارا الزام اس پر۔
“اس مان کے لئے شکريہ۔۔ ہم غصہ اور نخرے اسی کو دکھاتے ہيں نا جس پر سب سے زيادہ مان ہوتا ہے” اسکی غصے سے لال ہوتی ناک پر محبت بھری نشانی ديتے اسے نظريں چرانے پر مجبور کيا۔
“جلدی آجانا” کمرے سے نکلتے اسکی آواز پر دارم کا ہينڈل پر دھرا ہاتھ لمحہ بھر کو تھما۔
“ان شاءاللہ جلد آجاؤں گا” مڑ کر اسے ديکھا جس کے چہرے پر خوف سا تھا۔۔ ايسے جيسے بھيڑ ميں بچہ اکيلا رہے جاۓ۔ مگر اسے مضبوط بنانے کے لئے کچھ جنگيں اسے خود لڑنے کے لئے اسے اکيلا چھوڑنا تھا۔
____________________
دارم نے گھر سے نکلتے وقت کام والی کو کہہ ديا تھا کہ وليہ کا ناشتہ اسکے کمرے ميں ہی دے آئۓ۔
ناشتے سے فارغ ہو کر جس وقت کام والی برتن اٹھانے آئ وليہ نے اسے پکارا۔
“آ۔۔آنٹی ہيں گھر پہ؟” جھجھک کر پوچھا۔
“نہيں وہ تو دارم صاحب کے جانے کے کچھ دير بعد ہی چلی گئيں تھيں۔ بس بڑے صاحب گھر پہ ہيں” وہ سر ہلا گئ۔
کچھ سوچ کر کمرے سے باہر نکلی۔
لاؤنج سے ٹی وی کی آواز آ رہی تھی۔ وليہ نے سيڑھيوں سے جھانکا تو ياور بيٹھے تھے۔
وہ سکون کی سانس ليتی نيچے اتری۔
ياور اسے سيڑھيوں سے اترتا ديکھ کر مسکرائ۔
“کيسا ہے ميرا بچہ؟” اسے اپنے قريب صوفے پر بيٹھنے کا اشارہ کيا۔
وہ بھی آرام سے بيٹھ گئ۔
“مجھے دارم نے بتايا تھا يہاں اسٹڈی روم ہے”کچھ دير ٹی وی کی جانب بے تاثر نظروں سے ديکھنے کے بعد اس نے ياور سے پوچھا۔
“ہاں ہاں۔۔ بالکل ہے۔۔ آؤ تمہيں اپنی کليکشن دکھاؤں” وہ اس کے يوں کتابوں ميں دلچسپی لینے پر بے حد خوش ہوۓ۔ ٹی وی بند کرتے اسے لئے دائيں جانب بنے کمروں کی طرح بڑھے۔ ايک کمرے کے دروازہ کھولا۔
کمرے کی تين ديواروں ميں المارياں بنی ہوئ تھيں۔ اور ان مين کتابيں سجی تھيں۔ ايک جانب ٹيبل رکھی تھی جس کے گرد چار ٹيبلز تھيں۔ جو ديوار خالی تھی وہاں ان چاروں کی فيملی پکچر لگی تھی۔ اسی کے نيچے آرام دہ صوفہ رکھا تھا۔
اس نے ابھی تک صارم کو نہيں ديکھا تھا۔ مگر اس وقت اس تصوير ميں ديکھ ليا تھا۔ اس کی دارم سے کافی شکل ملتی تھی۔ مگر دارم کی گہری آنکھيں اور مسکراہٹ الگ ہی تھی۔
اس نے مسکرا کر محبت سے اس تصوير ميں اسے ديکھا۔
“يہ صارم ہے” اسے تصوير کی جانب ديکھتے ديکھ کر ياور نے بتايا۔
“ان کی وائف اور بچوں کی تصويريں ہيں؟” اس نے بھی دلچسپی ظاہر کی۔
“ہاں ہاں کيوں نہيں۔ تم بيٹھوميں تمہيں البمز دکھاتا ہوں” اسے بيٹھنے کا اشارہ کرتے وہ تيزی سے ايک جانب بڑھے۔ بڑا سا البم نکال کر وہ صوفے پر ہی وليہ کے پاس بيٹھ گۓ۔
اور پھر کتنے گھنٹے وہ ان کے ساتھ وہاں بيٹھی باتيں کرتی رہی اسے اندازہ ہی نہيں ہوا۔ تصويروں کے علاوہ مختلف کتابوں پر سير حاصل تبصرہ کيا۔ چند کتابيں ياور سے اجازت لے کر وہ کمرے ميں لے آئ۔
اس کا موڈ بے حد خوشگوار ہو چکا تھا اس لمحے۔
ايک کتاب لئے ہو بيڈ پر بيٹھی کہ سائيڈ ٹيبل پر پڑا موبائل گنگنايا۔ ہاتھ بڑھا کر اٹھايا تو دارم کالنگ لکھا تھا۔
“کب سے آپ کو اور ڈيڈی کو کال کر رہا تھا۔ دونوں نہيں اٹھا رہے تھے۔” اسکے فون اٹھاتے وہ پريشانی سے بولا۔
“سوری وہ ميں ڈيڈی کے ساتھ اسٹڈی روم ميں تھی۔” وہ شرمندہ ہوئ۔
“واؤ گريٹ” خوشگوار لہجے ميں کہا۔
“آپکی ميٹينگ ہوگئ؟” وہ ياد آنے پر پوچھنے لگی۔
“ہاں ميٹينگ ہوگئ۔ ان فيکٹ دبئ کی ايک کمپنی کے ساتھ کچھ ڈيل چل رہی تھی تو وہ آج فائنل ہونی تھی” اس نے تفصيل سے بتايا۔
“مبارک ہو” اس نے بھی خوشدلی سے مبارک دی۔
“چليں کچن مين ديکھيں کيا بنا ہے۔۔ ميں بس گھر پہنچنے والا ہوں۔۔ پھر اکٹھے لنچ کرتے ہيں” وہ فون بند کرنے سے پہلے اسے کام پہ لگا چکا تھا۔
فون اور کتاب سائيڈ پر رکھتی وہ تيزی سے اٹھی۔
_________________________
کھانا کھانے کے بعد وہ بيڈ پر بيٹھا ليپ ٹاپ سامنے رکھے کام ميں مصروف تھا۔
بيڈ کے دوسری جانب وہ کتاب ہاتھوں ميں لئے پڑھنے سے زيادہ کچھ سوچنے ميں مصروف تھی۔
“سنيں” يکدم کچھ سوچ کر اسے پکارا۔
“ہمم” دارم نے مصروف انداز ميں جواب ديا۔
“آپ کے پاس اور ليپ ٹاپ ہے؟” وليہ کی بات پر اس نے چونک کر ديکھا۔
“ہاں اسٹڈی ميں پڑا ہوا ہے ايک اور۔۔ کيوں” پھر سے کام کی جانب متوجہ ہوتے اس نے اسی انداز ميں پوچھا۔
“بس ويسے ہی سوچ رہی تھی کچھ سرچ کر ليا کروں” وہ بات بنا گئ۔
“مثلا کيا سرچ کرنا ہے۔۔ مياں کو قابو ميں کرنے کے 101 طريقے” وہ غير سنجيدگی سے بولا۔
“يہ طريقے ديکھنے کی ضرورت نہيں مجھے” وہ سر جھٹک کر بولی۔
“اف اف۔۔۔۔۔ کيا کہنے اس اعتماد کے۔۔ ادھر ديکھنا ذرا ميری طرف” شرارت سے اسکے بازو پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی جانب متوجہ کيا۔
“کوئ نہيں دیکھ رہی ميں آپ کو” اسکی شرارت وہ جان گئ تھی۔ نفی ميں سر ہلاتے سر اور جھکايا۔
“شام ميں کچھ اچھا سا بنا ديں ۔۔۔ کيا فائدہ شيف بيوی کا۔۔ جس کے ہاتھ کا کچھ ابھی نہيں کھايا” وہ لہجے ميں بے چارگی سمو کر بولا۔
“کيا کھائيں گے؟” کتاب بند کرکے اب اس نے دارم کی جانب رخ کيا۔
“جو آپ کھلا ديں گے۔۔ بلکہ اکٹھے چل کر بناتے ہيں؟” گھڑی پر وقت ديکھا شام کے ساڑھے چار بج چکے تھے۔
“چليں” يکدم ليپ ٹاپ بند کرتا اٹھا۔
“ميں بنا لاتی ہوں نا۔۔ آپ اپنا کام کريں” اسکی عجلت پر وہ بوکھلائ۔
“نہيں اکٹھے بناتے ہيں۔ پتہ ہے جب آپ فارم ہاؤس ميں باربی کيو بنا رہی تھيں۔ ميرا دل چاہ رہا تھا آپکے ساتھ استحقاق سے کھڑے ہو کر وہ سب بناؤں” اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے وہ اپنی خواہشيں بتا رہا تھا۔
“تو اب يہ خواہش پوری ہونے ديں” معصوميت سے بولتا وہ اس لمحے وليہ کو چھوٹا بچہ لگا۔
“اچھا چليں” شاہانہ انداز ميں اسے اجازت ديتی اس سے پہلے باہر نکلی۔
کچن ميں پہنچ کر اس نے وہاں کام کرتی ملازماؤں کو جانے کا حکم ديا۔
دو ايپرن کچن کے کيبنٹ سے نکالے۔ وہ لئے اسکے قريب آيا۔ بجاۓ اسے پکڑانے کے۔ کندھے سے تھام کر اس کا رخ موڑا۔ اور مزے سے اسے ايپرن پہنانے لگا۔
وليہ نے دائيں بائيں ہاتھ کھول کر حیرت کا اظہار کيا۔
“يہ ميں خود بھی پہن سکتی تھی” جيسے ہی وہ باندھ کر اسکے سامنے آيا وہ خشمگيں نگاہوں سے ديکھ کر بولی۔
“جی بالکل مگر ميرا ماننا يہ ہے کہ جب آپ کو اسسٹ کررہا ہوں تو پوری طرح کروں”
“اچھا بتائيں کہ کيا بنانا ہے؟” اسکے چہرے کے زاويے بگڑتے ديکھ کر وہ موضوع بدل گيا۔
وہ خاموشی سے فريج کی جانب بڑھی۔ کچھ دير اس ميں ديکھتی اور ساتھ ساتھ سوچتی رہی۔
“مسئلہ فيثا غورث تو نہيں پوچھ ليا” اپنے سوال کے جواب ميں اتنی لمبی خاموشی ديکھ کر اس نے ہانک لگائ۔
“سوچنے ديں نا” مڑ کر اسے گھورا۔
پھر فريج سے کريم کا پيکٹ نکالا
“ليمن ٹارٹ تو نہيں مگر اس سے ملتی جلتی ايک چيز بنانے لگی ہوں۔ بسکٹس کہاں ہوں گے؟” دارم دلچسپی سے اسے ديکھنے لگا۔
پھر بڑھ کر ايک کيبنيٹ سے بسکٹس نکال کر اسکے سامنے رکھے۔
وليہ نے جلدی سے چند بسکٹس کے پيکٹ کھول کر ايک جانب رکھے بلينڈر ميں ڈالے۔
“اب ان کو آپ بلينڈ کريں” مزے سے اسے بھی کام پہ لگايا۔
“اوکے ميڈم” سينے پہ ہاتھ رکھے وہ ہلکا سا جھکا۔
اتنی دير ميں کريم کو کھول کر اس ميں سامنے رکھی کافی ميں سے ايک چمچ کافی کا ڈالا۔، پھر چينی کے جارے ميں سے چينی لے کر حسب ذائقہ ڈالی اور اسے بيٹر سے بيٹ کرنے لگی۔
“بٹر پيپر ہے؟” اسکے سوال پر دارم نے ايک کيبنٹ کی جانب اشارہ کيا۔ وليہ نے بڑھ کر اس ميں سے بٹر پيپر ليا وہيں کافی سارے بيکنگ مولڈ پڑے تھے۔ ايک اٹھا۔
بٹر پيپر پھيلا کر اچھی طری اسے مولڈ سے چپکايا۔
“يہ لو” دارم نے بلينڈر کا جگ اسکی جانب بڑھايا۔
وليہ نے بلينڈ ہوۓ بسکٹس کی اچھی طرح تہ بچھائ۔
دارم نے کريم کے مسکچر کو چکھا۔
“واؤ” بے ساختہ اسکے منہ سے نکلا۔
“ٹيسٹی ہے نا” وليہ اسکے توصيفی انداز پر خوش ہوئ۔
“بہت تھوڑا سا ميٹھا اور تھوڑا سا کڑوا بالکل آپ کی طرح” محبت سے اسے ديکھتے۔۔ تھوڑی سی کريم لے کر اسکی ناک کی نوک پر لگائ۔
“دارم” وہ ہولے سے چلائ۔
‘ميری توجہ خراب نہ کريں۔ اچھا نا بنا تو بھی کھانا پڑے گا” وہ اسے دھمکانے لگی۔
وہ کھلکھلايا۔ جب تہہ اچھی طرح بچھ گئ تو وليہ نے مولڈ اسکی جانب بڑھايا۔
“اب اسے آدھے گھنٹے کے لئے فريزر ميں رکھيں۔ تاکہ يہ سيٹ ہوجاۓ” دارم نے اسکے ہاتھ سے مولڈ ليا اور فريزر کی جانب بڑھا۔
“يہ تو فريزر ميں رکھنے سے سيٹ ہوجاۓ گا۔۔ آپ کو کہاں رکھوں کہ آپ بھی ميرے ساتھ سيٹ ہوجاؤ”دارم کے غير متوقع سوال پر اس کے چہرے کے رنگ بدلے۔
“آپ ہر بات ميں ميری اور اپنی بات کيوں نکال ليتے ہيں” وہ خفگی بھری نظريں اس پر ڈال کر بولی۔
“کيونکہ وہ شاعر نے کيا خوب کہا ہے
اتنی من مانياں اچھی نہيں ہوتيں
تم صرف اپنے نہيں، ميرے بھی ہو” اس کا ذومعنی لہجہ وليہ کی نظريں جھکانے کے لئے بہت تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی۔ کسی کی ہيل کی آواز کچن کی جانب آئ۔
وہ تو شکر تھا کہ دارم اس سے فاصلے پر کھڑا تھا۔ صدف کچن کے دروازے ميں نمودار ہوئيں۔
ان دونون کو تيکھی نظروں سے ديکھا۔
دارم تو نارمل تھا وليہ کا رنگ اڑ چکا تھا انہيں ديکھ کر۔
“السلام عليکم ممی کيسی ہيں” محبت سے ماں کی جانب بڑھ کر انہيں ساتھ لگاتے محبت سے ماتھے پہ پيار کيا۔
“وعليکم سلام ٹھيک ہوں۔” ايک کاٹ دار نظر وليہ پر ڈالی۔
“سب کام والياں کہاں گئيں ہيں؟” سوال دارم سے تھا مگر نظريں وليہ کی جانب تھيں۔
“ميں نے وليہ سے کچھ بنانے کی فرمائش کی تھی پھر ان کو لے کر کچن ميں آگيا تو ان کو بھيج ديا۔
آپ کو کيا چاہئيے وليہ دے ديتی ہے” محبت سے اسکی جانب ديکھ کر ماں سے مخاطب ہوا۔
“ميرے پاس کام واليوں کی کمی نہيں” فريج کی جانب بڑھتے اسے کھول کر پانی کی بوتل نکالی اور کٹيلی نظر وليہ پر ڈال کر طنز کيا۔ کچن ميں موجود ٹيبل کے ساتھ رکھی کرسی کوگھسيٹ کر اس پر بيٹھتے گلاس سيدھا کرکے پانی اس ميں ڈالا اور گھونٹ گھونٹ پينے لگيں۔
“جی بالکل۔۔ وہ آپ کی بہو کی طرح آپ کا دھيان نہيں رکھ سکتيں” دارم کے چہرے پر اب کی بارگہری سنجيدگی آئ۔ ايک نظر وليہ کو ديکھا جس نے آنسوؤں سے لبريز آنکھيں جھکائيں۔
“وہ ہميشہ سے ميرا دھيان ہی رکھ رہی ہيں۔۔ دو دن پہلے سے بھی۔۔” دارم کو جتايا۔
“چليں اب دو دن بعد آپ انکی بجاۓ اپنی بہو سے يہ توقع رکھ ليں” وہ ہر ممکن طور پر انہيں نارمل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
“اپنی پسند کو ہم پر مت تھوپو۔۔ تمہيں جی جان سے پسند ہوگی۔۔ مجھے ہر گز نہيں ہے” انہوں نے ہر لحاظ بالاۓ طاق رکھ کر اپنی نا پسنديدگی کا کھل کر اظہار کيا۔
ماں کا احساس سے عاری لہجہ اسے شديد تکليف سے دوچار کرگيا۔
ايک نظر وليہ کو ديکھا جو ہونٹوں پر ہاتھ رکھے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کررہی تھی۔ دارم نے بےبسی سے اسے ديکھا
پھر ايپرن اٹھا کر زور سے ٹيبل پر پھينک کر سامنے رکھی کرسی کو زور دار ٹھوکر ماری صدف تو صدف وليہ بھی ڈر گئ۔
دونوں نے سہم کر غصے سے تن فن کرتے دارم کو کچن سے جاتے ديکھا۔
“سکون مل رہا ہوگا تمہيں ميرے بيٹے کو ميرے مقابلے پر لاتے” ايک کڑی نگاہ اس پر ڈالی۔
“آنٹی ايسا کچھ نہيں ہے۔ يقين کريں ميرے بس ميں ہوتا تو مين کبھی يہ نکاح نہ کرتی۔۔ ميں جانتی ہوں مين آپکے بيٹے اور اس خاندان کے لائق نہيں” جب سے وہ آئ تھی پہلی بار اپنے دفاع ميں بولی۔
“اتنی ہی ميرے بيٹے کی ويل وشر ہو تو اس سے دور رہو۔۔ تمہيں زندگی گزارنے کے لئے کسی کا نام چاہئيے تھا وہ مل گيا۔۔ يہی تمہارے لئے کافی ہونا چاہئيے۔۔۔ اس کی بيوی بن گئيں تو وہ اپنی ماں کھو دے گا۔ اگر اس خاندان کے اس احسان کی قدر کرتی ہو تو اسے دوسری شادی کے لئے راضی کرو۔۔ تم جيسی سے تو مين ہر گز اسکی نسل چلانے کی خواہشمند نہيں ہوں” اسکے کانوں ميں زہر انڈيل کر وہ بھی کچن سے باہر جاچکی تھين۔
وہ چہرہ ہاتھوں ميں چھپاۓ بے بسی سے رو پڑی